Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 2 Issue 1 of Islamabad Islamicus

فلاحی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری: ریاست مدینہ کے تناظر میں |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060033219_1024

Pages

18-41

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Irshad%20Ullah,%20Dr.%20Hafiz%20Abdul%20Majeed.pdf

Subjects

Welfare state Minorities State of Madina Rights Society

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

دنیا کو عوامی فلاح کا تصور اسلام نے دیا ہے یعنی اسلامی ریاست ہی حقیقت میں فلاحی ریاست ہو تی ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بہترین فلاحی ریاست کے قیام کے لئے مکی دور کے تیرہ برسوں میں مدنی فلاحی ریاست کے قیام و انصرام کے لئے ایچ آر ڈی ( ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ) پر اعلیٰ ترین پائے کا کام کرکے دیانتدار افراد کی جماعت تیار کرلی۔ اسی جماعت نے ہجرت کرکے نبوی تربیت کی تعلیمات اپنے انصار بھائیوں میں بھی منتقل کردیں اور یوں فلاحی ریاست کے بنیادی خطوط اور اصول مرتب ہوئے۔

معاشرے کے استحکام میں ریاست کا کردار بحیثیت امین کے ہوتا ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والے شہریوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے رفاہ عامہ کے میدان میں اپنا کردار ادا کرےتاکہ ایک بہتر اور فلاحی ریاست کا تصور قائم رہے ۔ تاریخ انسانی میں اگر اب تک واضح اور مثالی طور پر کوئی ایسی ریاست قائم ہوئی ہے، جسے مکمل فلاحی ریاست کا خطاب دیا جاسکتا ہے، تووہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریاست مدینہ ہی ہے۔جس پر ہر پہلو سے فلاحی ریاست کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس کے فلاحی منصوبے ہمہ گیر ہونے میں اپنی مثال آپ رہے اورجس میں ایک ایسا روادار معاشرہ تشکیل پایا کہ جہاں بسنے والے تمام مسلمان بشمول دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے، سماجی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔اسلام اِنسانیت کی عزت و تکریم کا علمبردار دین ہے۔ ہر شخص سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسے قواعدو ضوابط روا نہیں رکھے گئے جو شرف انسانیت کے منافی ہوں۔ دیگر طبقات معاشرے کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک فلاحی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی ہے۔ارشاد ربانی ہے:

﴿لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾[1]

"دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہے۔"

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:

﴿ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴾[2]

"پس تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔"

اسلامی فلاحی ریاست و معاشرے میں اقلیتوں کےحقوق وفرائض کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سےبخوبی ہوتا ہے :

"اَلَامَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا،أَوِانْتَقَصَهُ،أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ،أَوْأَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَاحَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔"[3]

"خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس سے اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالایا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑا کروں گا "۔

یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ مبارک میں ریاست مدینہ میں جاری ہوا اور جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا ۔ اب اسلامی مملکت کےاسلامی دستور کا ایک حصہ ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے واضح اور ٹھوس لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے:

"أنَّ رَجُلاً مِنَ المسْلِمين قَتَل رَجُلاً مِنْ أهْلِ الذِّمة فَرُفِعَ ذلِكَ إلى رسولَ اللَّهِ صلَّى الَّلهُ عليهِ وسلَّمَ فقَال: أنا أحَقُّ مَن أوفَى بِذِمَّتِهِ ثُمَّ أمَرَ بِه فَقُتِلَ۔[4]

’’مسلمانوں میں سے ایک شخص نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ یعنی اقلیتوں کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص (قاتل) کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا تو اسے قتل کر دیا گیا‘‘۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقلیتوں کے بارے میں مسلمانوں کو ہمیشہ تنبیہ فرمایا کرتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدین کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا :

مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا۔[5]

"جس کسی نے کسی اہل ذمہ (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہوگی۔"

یعنی اسے جنت سے بہت دُور رکھا جائے گا دراصل یہ وعیدیں اس قانون پر عمل کروانے کے لیے ہیں جو اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیےبنایا ۔

غیر مسلموں کے جو بیرونی وفود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی خود میزبانی فرماتے۔ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود کی اور فرمایا :

إِنَّهُمْ كَانُوا لِأَصْحَابِي مُكْرِمِينَ، فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أُكَافِئَهُم۔[6]

"یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کی عزت و تکریم کرنے والے ہیں۔ اس لیے میں نے چاہا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں ۔"

جب نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ طیبہ آیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس وفد کو مسجد میں ٹھہرا کر اس وفد میں شامل مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجد نبوی میں ادا کرلیں چنانچہ ان مسیحی افراد نے مسجدمیں ایک جانب مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔[7]

چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر اسلامی فلاحی ریاست میں غیر مسلموں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ حاصل رہا۔اقلیتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک اور ان کے حقوق کی پاسداری کا نتیجہ تھا کہ ان(اقلیتوں ) کا برتاؤ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احترام پر مبنی تھااور اسلامی فلاحی ریاست میں اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے حسن سلوک کا اعتراف بھی کرتے رہے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہودونصاریٰ کے علاوہ مشرکین سے برتاؤ رہااور ان کے حقوق کی پاسداری کی صورت حال بھی مثالی رہی جس کی تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادہ نے ابوسفیان سے کہا:"اليَوْمَ يَوْمُ المَلْحَمَةِ"[8]آج لڑائی کا دن ہے۔یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اظہار ناراضگی فرمایا اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا :"الْيَوْم يَوْم الْمَرْحَمَة"[9] آج رحمت کا دن ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں آج تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں ؟ تو اُنہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کریم باپ کے کریم بیٹے ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرم کی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا: "اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ"[10] تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے جانی دشمن ابوسفیان کو یہ اعزاز بخشتے ہوئے ارشاد فرمایا: "مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ"[11] جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا وہ امن میں ہے۔

سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حیات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کے ادوار میں کس طرح اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا رہا۔مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو ا اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیااس وقت سے لیکر سلطنت عثمانیہ اور برصغیر میں مغلوں کے دور تک ہر دور میں اقلیتوں کو بھرپور تحفظ حاصل رہا۔ریاست مدینہ میں غیرمسلم اقلیتوں کو وہ تمام بنیادی حقوق حاصل رہے جن کی ایک انسان کو ضرورت پڑ تی ہے۔ علاوہ ازیں اقلیتوں کے ساتھ ہر طرح سے حسن سلوک کا برتاؤ کیا جاتا رہا۔عصر حاضر میں بھی ایک فلاحی ریاست کی بنیادی اور اہم ذمےداری یہ بھی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے لیےا قدامات کرے۔یہ بات قابل تحسین ہے کہ ریاست مدینہ کے بعد جتنی بھی مسلم فلاحی ریاستیں قائم ہوئیں ان میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی جاتی رہی۔حالات و واقعات میں تغیرات اور جدت کی وجہ سے اسلامی فلاحی ریاستوں میں بھی جدت آتی گئی ،نظام زندگی اور نظام حکومت کو سائنسی اور جدید منہج و اسلوب پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی اور جدید مسائل کے حل میں نت نئے نظریات جنم لیتے رہے لیکن یہ بات بلا اختلاف ثابت ہے کہ چاہے ریاست مدینہ ہو یا بعد میں قائم ہونے والی فلاحی ریاستیں ، ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی جاتی رہی۔

پاکستان ایک ابھرتی ہوئی اسلامی فلاحی ریاست ہے اور یہاں پر اقلیتوں کو تمام وہ حقوق حاصل ہیں جو ان کو ملنے چاہیے ہیں۔بعض ملک دشمن عناصر کی طرف سے مسلسل یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ یہا ں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور ان کے حقوق کا تحفظ نہیں ہے یہ سراسر جھوٹ اور ناانصافی ہے۔جس ملک میں ہندو اقلیت کا بندہ بھی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن سکتا ہو وہاں یہ الزام بے بنیاد ثابت ہو جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کئی اہم انتطامی عہدوں پر اقلیتی افراد کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہاں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل پاسداری ہے اور آئین پاکستان بھی اس بات کا متقاضی ہے ۔

ایک فلاحی ریاست میں اقلیتوں کے ان تمام حقوق کی پاسداری لازم ہے جن کی پاسداری ریاست مدینہ میں کی جاتی رہی ۔ذیل میں ریاست مدینہ کے تناظر میں اس بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔

1۔اقلیتوں کی جان و مال کا تحفظ:

امام ابو یوسف ’’کتاب الخراج‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ عہدرسالت اور خلفاء راشدین کے ادوار میں تقریباً تمام قوانین میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔[12]

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدلے کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا :"أَنَا أَحَقُّ مَنْ أَوْفَى بِذِمَّتِهِ".[13]غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل درآمد کرنے کے بکثرت واقعات دور خلافت راشدہ میں بھی ملتے ہیں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک (اقلیتی فرد) کو قتل کر دیا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"أَنْ يُدْفَعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا وَإِنْ شَاءُوا عَفَوْا. فَدُفِعَ الرَّجُلُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، إِلَى رَجُلٍ فَقَتَلَهُ ۔"[14]

"قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالہ کردیا جائے۔ اگر وہ چاہیں قتل کر دیں ورنہ معاف کر دیں۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارث کو دے دیا گیا اور اس نے اسے قتل کر دیا۔"

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ابن شاس نامی ایک شخص نے شام کے علاقے میں ایک شخص کو قتل کر دیا، معاملہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی دخل اندازی پر آپ نے ایک ہزار دینار دیت مقرر کی۔[15]

حضرت علی رضی اللہ عنہ کےعہد میں بھی قتل کا ایک مقدمہ پیش آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قصاص میں اس مسلمان(قاتل) کو قتل کیے جانے کا حکم دیا۔جب قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا :"فَلَعَلَّهُمْ هَدَّدُوكَ أَوْ فَرَّقُوكَ أَوْ فَزَّعُوكَ".[16]شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا کر تجھ سے یہ کہلوایا ہو۔اس نے کہا نہیں بات دراصل یہ ہے کہ اس شخص کے قتل کیے جانے سے میرا بھائی تو واپس نہیں آئے گا اور اب اس کی دیت پسماندگان کے لیے کسی حد تک کفایت کرے گی۔ اس لیے خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے میں معاف کر رہا ہوں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے تمہاری مرضی جیسے تم بہتر سمجھتے ہو۔ لیکن ہماری حکومت کا اُصول یہی ہے کہ:

مَنْ كَانَ لَهُ ذِمَّتُنَا فَدَمُهُ كَدَمِنَا، وَدِيَتُهُ كَدِيَتِنَا۔[17]

"جو ہماری غیر مسلم رعایا (یعنی اقلیت) میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے"۔

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

إذَا قَتَلَ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِيَّ قُتِلَ بِهِ۔[18]

"اگر کسی مسلمان نے نصرانی کو قتل کیا تو اس کو (بدلے میں) قتل کیا جائے گا۔‘‘

بعض فقہاء نے یہ اصول تشکیل دیا کہ اگر مسلمان کسی ذمی(اقلیتی فرد) کو بلا ارادہ قتل کرے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو بلا ارادہ قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

دِيَةُ الْيَهُودِيِّ، وَالنَّصْرَانِيِّ، وَالْمَجُوسِيِّ مِثْلُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ۔[19]

یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔

محدث اعظم ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

أَنَّ دِيَةَ الْمُعَاهِدِ فِي عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِثْلُ دِيَةِ الْحُرِّ الْمُسْلِمِ۔[20]

" بے شک ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے دور میں اہل ذمہ کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر تھی " ۔

اسلامی ریاست کی تعزیرات میں اقلیتوں اور مسلمانوں کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی اقلیتوں کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔

فلاحی اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں اہل ذمہ کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی ضائع کر دے تو اس پرتعزیر لازم آئے گا۔ در المختار میں ہے:

وَيَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِيمَةَخَمْرِهِ وَخِنْزِيرِهِ إذَا أَتْلَفَهُ۔[21]

"مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔"

ذمی کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے :

وَوَضَعَ الْجِزْيَةَ عَلَيْهِ كُفَّ الْأَذَى عَنْهُ وَتَحْرُمُ غِيبَتُهُ كَالْمُسْلِمِ۔[22]

"ان پر جزیہ عائد کیجیے انہیں اذیت دینے سے ہاتھ روک دیجیے اور ان کی غیبت کرنا بھی مسلمان کی غیبت کرنے کی طرح حرام ہے ۔"

ریاست مدینہ میں تمام غیر مسلم اقلیتوں کو جان و مال کے تحفظ کے اعتبار سے تقریباً وہ تمام حقوق حاصل تھے جو وہاں پر مسلمانوں کو حاصل تھے بلکہ بعض معاملات میں ان کو مسلمانوں پر فوقیت بھی حاصل تھی۔آج بھی تمام فلاحی ریاستوں میں اقلیتوں کے حقوق کا بھرپور تحفظ کیا جاتا ہے۔

2۔ مذہبی آزادی کے حق کی پاسداری:

اسلام ایک خدا کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دیگر اہل مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد تبدیل کرنے یعنی اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوت راہ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام دعوت حق کے ابلاغ کا قرآن کریم نے یوں بیان کیا :

﴿اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ۔﴾[23]

"(اے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے ۔"

اسلام نے دعوت کے ایسے طریقوں سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، شریعت اسلامی کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے دین و مذہب پر کاربند رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے دین و مذہب سے تعرض نہ کرے گی۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :

"وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِيَتِهِمْ جِوَارُ اللَّهِ وذمة محمد النبي رسول الله على أنفسهم وَمِلَّتِهِمْ وَأَرْضِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَغَائِبِهِمْ وَشَاهِدِهِمْ وَبِيَعِهِمْ وَصَلَوَاتِهِمْ لا يُغَيِّرُوا أُسْقُفًا عَنْ أُسْقُفِيَّتِهِ وَلا رَاهِبًا عَنْ رَهْبَانِيَّتِهِ وَلا وَاقِفًا عَنْ وَقْفَانِيَّتِهِ وَكُلُّ مَا تَحْتِ أَيْدِيهِمْ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِير۔"[24]

"نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال،موجود و غائب لوگ ، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی مذہبی رہنما کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے عہدے سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔"

مختلف ادوار میں گرجا گھر اور کلیسے اسلامی حکومت میں موجود رہے ہیں۔ کبھی بھی انہیں معمولی نقصان تک بھی نہیں پہنچایا گیا بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے اور غیر مسلموں کو ان کی عبادات کا فریضہ سر انجام دینے میں سہولیات فراہم کی گئیں۔

اقلیتوں کے شخصی معاملات بھی انہی کی شریعت و قوانین کے مطابق طے کیے جائیں ، اسلامی قوانین کا ان پر اطلاق نہ کیا جائے ۔ جن اعمال کی حرمت ان کے مذہب میں بھی ثابت ہے ان سے تو وہ ہر حال میں منع کیا جائے، البتہ جو اعمال ان کے ہاں جائز اور اسلام میں منع ہیں انہیں وہ اپنی بستیوں میں آزادی کے ساتھ کرسکتے ہیں اور خاص اسلامی آبادیوں میں حکومت اسلامیہ کو اختیار ہوگا کہ انہیں آزادی دے یا نہ دے ۔علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:

"جو بستیاں اور علاقے مسلمانوں کے شہروں میں سے نہیں ہیں ان میں ذمیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہی کثیر کیوں نہ ہو۔ البتہ یہ افعال مسلمان آبادی کے شہر میں مکروہ ہیں جہاں جمعہ وعیدین اور حدود قائم کی جاتی ہوں۔ رہا وہ فسق جس کی حرمت کے وہ بھی قائل ہیں، مثلا زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں تو اس کے اظہار وارتکاب سے ان کو ہرحال میں روکا جائیگا خواہ مسلمانوں کے شہر میں ہوں یا خود ان کے اپنے شہر میں۔"[25]

یعنی اقلیتیں اپنی عبادت گاہوں کے اندر رہ کر اپنے تمام مذہبی اُمور بجا لا سکتی ہیں،اسلامی ریاست اس میں دخل دینے کی مجاز نہیں ہے۔ تاہم اس ذیل میں اقلیتوں کو مسلمانوں کےمذہبی شعائر کے احترام و اکرام کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

"جو شہر مسلمانوں کے آباد کردہ ہیں ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئی عبادت گاہیں اور کنائس تعمیر کریں، یا ناقوس بجائیں، شرابیں پئیں اور سور پالیں۔ باقی رہے وہ شہر جو ذمیوں کے آباد کیے ہوئے ہیں اور جن کو اللہ نے عربوں ( مسلمانوں) کے ہاتھ پر فتح یاب کروایا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم پر اطاعت قبول کر لی تو ذمیوں کے لیے وہی حقوق ہیں جو ان کے معاہدے میں طے ہو جائیں اور عرب پر ان کا ادا کرنا لازم ہے۔"[26]

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست مدینہ سے دور حاضر تک تمام مسلم ریاستوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہی ہے اور ان کے مذہبی شعائر اور اقدار کا تحفظ کیا جاتا رہا ہے۔

3۔ معیشت و اقتصاد کے حق کی پاسداری:

)۱( اقلیتوں پر اسلامی حکومت میں کاروبار کے سلسلہ میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، ان کے افراد ہر وہ کاروبار کر سکتے ہیں جو مسلمان کرتے ہوں۔سوائے اس بزنس کے جو ریاست کے لیے اجتماعی طور پر نقصان کا سبب ہو۔ وہ جس طرح مسلمانوں کے لیے منع ہوگا، اُسی طرح ان کے لیے بھی ممنوع ہوگا، مثلاً سو دکا کاروبار، جو کہ پورے معاشرے کے لیے تباہی کا باعث بنتا ہے یا دیگر اس نوعیت کے کام ۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران والوں کو لکھا :

"إمَّا أَنْ تَذَرُوا الرِّبَا وَإِمَّا أَنْ تَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِه"[27]

"سود چھوڑ دو یا اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔"

امام جصاص آیت﴿ وَأَخْذِهِمُ الرِّبا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ﴾ [28]اور﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُواأَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾[29] کے تحت فرماتے ہیں:"فَسَوَّى بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَنْعِ مِنْ الرِّبَا۔"[30] "اللہ نے ان (ذمیوں) اور مسلمانوں کے درمیان سود کی ممانعت کو برابر قرار دیا ہے۔"

اس اُصول کے علاوہ جوکاروبار ان کو پسند ہو ں،وہ کریں یہاں تک کہ وہ اپنے علاقوں اور شہروں میں خنزیر اور شراب بھی رکھ سکتے ہیں، ان کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔ درِ مختار میں ہے :"وَيَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِيمَةَ خَمْرِهِ وَخِنْزِيرِهِ إذَا أَتْلَفَهُ ".[31] "یعنی اگر کوئی مسلمان غیر مسلم اقلیتی فرد کی شراب یا اس کے خنزیر کو نقصان پہنچائے گا تو اسے اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔" لیکن یہ چیزیں وہ اپنے تک محدود رکھیں گے اورمسلمانوں کے شہروں میں نہ لائیں گے اور نہ ہی مسلمانوں کے ہاتھوں بیچیں گے۔

(۲) پیشوں کے اعتبار سے وہ کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو اُجرت پر ان سے کام کروانے کی کسی قسم کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام میں کسی پیشہ کی وجہ سے کسی غیر مسلم(اقلیتی فرد) سے کسی بھی نوعیت کی کوئی دوری رکھنے کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا۔

(۳) تجارتی معاملات میں جو ٹیکس مسلمان دیتے ہیں وہ ان کو بھی دینا ہو گا۔

اسلامی ریاستوں میں تمام اقلیتوں کو اقتصاد اور معاش کے حوالے سے نہ صرف مکمل آزادی فراہم کی گئی ہے بلکہ وہ امور جو مسلمانوں کے ہاں ناجائز وحرام ہیں اور اقلیتوں کے ہاں رائج ہیں ۔ ان کے ضائع کرنے سے بھی مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔

4۔ تمدنی اور معاشرتی آزادی کے حق کی پاسداری:

)۱( اسلامی ریاست میں اقلیتیں اپنی قومی اور تہذیبی روایات کے مطابق زندگی بسر کر سکتی ہیں یہاں تک کہ ان کے ذاتی معاملات یعنی نکاح و طلاق، محرمات کے ساتھ نکاح بھی اگر ان کے ہاں رائج ہو تو اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت فرمایا کہ خلفائے راشدین نے اہل ذمہ کو نکاح محرمات کی کیوں اجازت دے دی تھی؟ شاید آپ اس پر پابندی لگانا چاہتے تھے کیونکہ یہ فعل شناعت کے اعتبار اس قدرقبیح ہے کہ فطرت سلیمہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتی۔ان کے جواب میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا :

إنَّمَا بَذَلُوا الْجِزْيَةَ لِيُتْرَكُوا وَمَا يَعْتَقِدُونَ،وَإِنَّمَا أَنْتَ مُتَّبِعٌ وَلَسْت بِمُبْتَدَعٍ وَالسَّلَامُ۔[32]

"انہوں نے جزیہ اس لیے دیا ہے کہ انہیں ان کے اعتقادات پر چھوڑ دیا جائے اور آپ تو خلفائے راشدین کی پیروی کرنے والے ہیں نہ کہ نئی راہ بنانے والے۔"

(۲) اسلامی ریاست میں سوائے حرم کے وہ جہاں چاہیں سکونت اختیار کر سکتے ہیں ۔حرم میں مشرک کے داخلہ پر پابندی نص قطعی سے ثابت ہے اس لیے وہ وہاں نہ رہ سکیں گے۔

(۳) اسلامی ریاست میں مسلمانوں کی یہ بھی ذمہ داری تھی کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک کا برتاؤ کریں۔ارشاد خداوندی ہے:

﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾[33]

" (ایمان والو) جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ، ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا ،بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ "

فلاحی ریاستوں میں اقلیتوں کو ان کی قومی اور تہذیبی روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل اجازت حاصل ہے اور مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کا برتاؤ کریں۔

5۔ عسکری خدمات سے استثناء کا حق

اسلامی ریاست میں اقلیتیں عسکری خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت صرف مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے چونکہ ان سے جزیہ اسی حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا جاتا ہے، اس لیے اسلام نہ تو ان کو عسکری خدمت کی تکلیف دینا جائز سمجھتا ہے اور نہ ان کی حفاظت سے عاجز ہونے کی صورت میں جزیہ وصول کرنا پسند کرتا ہے۔کسی موقع پر اگر مسلمان ان کی حفاظت کی ذمہ داری سر انجام نہ دے سکیں توانہیں ذمیوں کے اموال جزیہ سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں رہتا۔

جنگ یرموک کے موقع پر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے امراء کو لکھا:’’ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کردو اور ان سے کہو کہ اب ہم تمہاری حفاظت سے عاجز ہیں اس لیے تم اپنے معاملے کے لحاظ سے آزاد ہو اور یوں جمع شدہ رقم واپس کر دی گئی۔[34]

اسلامی ریاستوں کا یہ اصول و ضابطہ رہا ہے کہ غیر مسلم اقلیتوں کو عسکری خدمات سے استثناء دیا گیا اور ان کی حفاظت مسلم ریاست پر تھی ۔جب کبھی مسلمانوں سے یہ ذمہ داری پوری نہ سکی تو انہوں نے جزیہ لینا بھی موقوف کر دیا۔

6۔ اقلیتوں سے معاہدے کی پاسداری کا حق :

اگر اقلیتوں نے اسلامی ریاست سے کوئی معاہدہ کیا ہو تو اسلامی ریاست اسے ہر صورت پورا کرنے کی پابند ہوگی ۔علامہ کاسانی فرماتے ہیں:

الْعَقْدفَهُوَ أَنَّهُ لَازِمٌ فِي حَقِّنَا حَتَّى لَا يَمْلِكَ الْمُسْلِمُونَ نَقْضَهُ بِحَالٍ مِنْ الْأَحْوَالِ.وَأَمَّا فِي حَقِّهِمْ فَغَيْرُ لَازِمٍ۔[35]

"اہل ذمہ سے عقد کی پابندی مسلمانوں پر ہمیشہ لازم ہے، یعنی وہ میثاق کرنے کے بعد پھر توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں۔ لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔"

ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتی کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے البتہ صرف تین صورتیں ایسی ہیں جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا، ایک یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے دوسری یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جا ملے، تیسری یہ کہ اسلامی حکومت کے خلاف علانیہ بغاوت کر دے۔[36]

فلاحی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی اس سے بہتر اور روشن مثال کیا ہو سکتی ہے کہ بعض معاملات میں ان کو اپنی اکثریت پر فوقیت دی گئی ہے۔

7۔ چادر و چاردیواری کا تحفظ:

مملکت اسلامیہ میں ہر فرد کو ذاتی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کہ کوئی شخص بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے اس کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ ہر شخص کا مکان نجی اور پرائیویٹ معاملات کا مرکز اور اس کے بال بچوں کا مستقر ہوتا ہے۔ اس حق پر دست درازی خود فرد کی شخصیت پر دست درازی ہے اور یہ کسی طرح جائز نہیں۔ گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے کی صریح ممانعت قرآن کریم میں وارد ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔﴾ [37]

"اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ۔ اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزہ ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔"

فلاحی ریاست میں اقلیتوں کو بھی نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو،اس لیے کہ اسلامی قانون نے ان کے لیے یہ اُصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں وہ ان پر بھی ہیں۔ ریاست مدینہ میں تمام اقلیتوں کو نجی زندگی اور شخصی رازداری کے متعلق حقوق حاصل تھے اور بعد کی مسلم ریاستیں بھی ان اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں۔

8۔ اقلیتوں کی حفاظت اِسلامی رِیاست کی ذِمّہ داری :

فلاحی ریاست میں اقلیتوں کو دفاعی و عسکری ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کا دفاع ا سلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسلامی حکومت غیر مسلموں کے جان و مال اور آبرو کی بھی محافظ ہے۔اسلامی ریاست چونکہ اقلیتوں کو جان و مال اور آبرو کا تحفظ فراہم کرتی ہے اور ان پر کوئی دفاعی ذمہ داری بھی عائد نہیں کرتی لہٰذا اسی کے عوض اقلیتیں اسلامی ریاست کو جزیہ ادا کرتی ہیں ۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں پر جزیہ عائد کرنے کے معاملے میں بھی عدل و انصاف اور حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امرائے لشکر کو لکھا :

أَلَّا يَضْرِبُوا الْجِزْيَةَ عَلَى النِّسَاءِ وَلَا عَلَى الصِّبْيَانِ, وَأَنْ يَضْرِبُوا الْجِزْيَةَ عَلَى مِنْ جَرَتْ عَلَيْهِ الْمُوسَى مِنَ الرِّجَالِ۔[38]

"عورتوں اور بچوں پر جزیہ عائد نہ کریں اور صرف ان مردوں پر جزیہ عائد کریں، جن کے بال اگ آئے ہوں یعنی بالغ ہوگئے ہوں۔"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقام سے گزر ہوا تو آپ نے ایک بوڑھے نابینا یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس سے پوچھا :

فَمَا أَلْجَأَكَ إِلَى مَا أَرَى؟ قَالَ: أَسْأَلُ الْجِزْيَةَ وَالْحَاجَةَ وَالسِّنَّ. قَالَ: فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ، وَذَهَبَ بِهِ إِلَى مَنْزِلِهِ فَرَضَخَ لَهُ بِشَيْء مِنَ الْمَنْزِلِ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى خَازِنِ بَيْتِ الْمَالِ فَقَالَ: انْظُرْ هَذَا وَضُرَبَاءَهُ؛ فَوَاللَّهِ مَا أَنْصَفْنَاهُ أَن أكلنَا شبيته ثُمَّ نَخُذُلُهُ عِنْدَ الْهَرَمِ۔[39]

"تمہیں اس پر کس بات نے مجبور کیا؟اس نے کہا کہ بوڑھا ضرورت مند ہوں اور جزیہ بھی دینا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور گھر لائے اور اسے اپنے گھر سے کچھ دیا، پھر اسے بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ اس کا اور اس جیسے اور لوگوں کا خیال رکھو اور ان سے جزیہ لینا موقوف کردو۔ کیونکہ یہ کوئی انصاف کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے جزیہ وصول کیا اور اب بڑھاپے میں ان کو اس طرح رسوا کریں۔"

جزیہ کی مقدار مقرر کرنے میں بھی اقلیتوں پر زیادتی کرنا ممنوع ہے۔جزیہ کی وصولی میں بھی نرمی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے اور جزیہ کے عوض ان کی املاک کا نیلام نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک موقع پر اپنے عامل کو بھیجتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

"ان کے سردی اور گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا سامان اور ان کے جانور جن سے وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں خراج وصول کرنے کی خاطر نہ بیچنا نہ کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا، نہ کسی کو کھڑا رکھنے کی سزا دینا اورنہ خراج کے عوض کسی چیز کو نیلام کرنا کیونکہ ہم، جو ان کے حاکم بنائے گئے ہیں، ہمارا کام نرمی سے وصول کرنا ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کے خلاف عمل کیا تو اللہ میرے بجائے تمہیں سزا دے گا اور اگر مجھے تمہاری خلاف ورزی کی خبر پہنچی تو میں تمہیں معزول کر دوں گا "۔[40]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا :

وَامْنَعِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ ظُلْمِهِمْ وَالإِضْرَارِ بِهِمْ وَأَكْلِ أَمْوَالِهِمْ إِلا بِحِلِّهَا۔[41]

" مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے اور انہیں تکلیف پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کر دیجیے۔"

ایک سفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمیوں کو دھوپ میں کھڑا کر کے اور ان کے سروں پر تیل ڈال کر سزائیں دے رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا :

"ان کو چھوڑ دو، تم ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دو، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کو عذاب نہ دو بے شک وہ لوگ جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں اللہ انہیں قیامت کے دن عذاب دے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے حکم پر انہیں چھوڑ دیا گیا ۔"[42]

ہشام بن حکم نے حمص کے ایک سرکاری افسر عیاض بن غنم کو دیکھا کہ اس نے اس ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کیا ہوا ہے۔ اس پر انہوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:

إِنَّ اللهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ فِي الدُّنْيَا۔[43]

"اﷲ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔"

فقہائے اسلام نے نادہندگان جزیہ وخراج کے حق میں صرف اتنی اجازت دی ہے کہ انہیں تادیباً قید بے مشقت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

وَلَكِنْ يُرْفَقُ بِهِمْ،وَيُحْبَسُونَ حَتَّى يُؤَدُّوا مَا عَلَيْهِمْ۔[44]

"اور ان سے نرمی سے پیش آیا جائے گا اور ادائیگی جزیہ تک انہیں قید کیا جائے گا۔"

جو ذمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ ہی معاف نہیں کیا جائیگا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانہ سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں لکھتے ہیں:

"میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کاجزیہ معاف کر دیا جائیگا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔" [45]

اگرکوئی ذمی مرجائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

وَإِنْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ الْجِزْيَةَ فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ تُؤْخَذَ مِنْهُ أَوْ أُخِذَ بَعْضُهَا،وَبَقِيَ الْبَعْضُ لَمْ يُؤْخَذْ بِذَلِكَ وَرَثَتُهُ وَلَمْ تُؤْخَذْ مِنْ تَرِكَتِهِ؛ لأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِدَيْنٍ عَلَيْهِ۔ [46]

"اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔"

اگر کوئی غیر مسلم اقلیتی فرد اسلامی ریاست کی شہریت چھوڑ دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے ذمے واجب الاداء بقایا ٹیکس معاف کردیا جاتا ہے اور اس کے ورثاء کے ذمے کسی قسم کا ٹیکس نہیں ڈالا جاتا۔

فلاحی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم حقوق کے حوالے سے برابر ہیں ۔جس طرح مسلمان کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے اسی طرح غیر مسلم شہری بھی یہ حق رکھتا ہے کہ اس کی جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہو۔اسلامی ریاست تمام اقلیتوں کو ان کے عقیدے کے مطابق عبادات کرنے،شادی بیاہ اور وفات وغیرہ کی تمام رسومات ادا کرنے کی نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔غیر مسلم اقلیتیں اسلامی ریاست کے کسی بھی حصے میں رہنے اور کاروبار کرنے کا قانونی حق رکھتی ہیں ۔اگر کوئی شخص ان کے جان ومال اور عزت و آبرو کو نقصان پہنچائے تو ریاست اس کی تلافی کی ذمے دار ہوتی ہے۔

نتائج بحث:

1)۔ فلاحی ریاستی نظام کو اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے دیگر نظام ہائے ریاست پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ ریاست مدینہ کے بانی نے جو اقلیتوں کو حقوق دئیے تھے تاریخ شاہد ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی ریاستوں نے پوری طرح ان کو برقرار رکھا ۔

2)۔عہد نبویؐ،خلافت راشدہ اور فلاحی مسلم ریاستوں میں تعزیرات اور دیوانی قوانین میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کومساوی درجہ حاصل ہے۔

3)۔ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی دیت کو بھی مسلمانوں کی دیت کے برابر تسلیم کیا گیا ہے۔

4)۔تمام اقلیتوں کو نجی زندگی اور شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی دی گئی ہے اور ان پر کسی قسم کی دست درازی کو ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔

5)۔اقتصادی اور معاشی حوالے سے اقلیتوں کو جس طرح تمام ضروری اور بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں اسی طرح معاشرتی اور تمدنی حوالے سے بھی ان کے حقوق کا پوری طرح خیال رکھا گیا ہے۔

6)۔فقہاء اسلام نے ہمیشہ سے اقلیتوں کے حقوق کے متعلق امت کی بہترین رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔اس بارے میں ان کی فقاہت ،مہارت ،قلبی و ذہنی وسعت اور انصاف پروری لائق تعریف و تحسین ہے۔

سفارشات و تجاویز:

1)۔ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں عوامی عدم واقفیت کئی قسم کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔اقلیتوں کے حقوق کی آگاہی کے متعلق ذرائع ابلاغ کو مثبت اور بھرپور کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

2)۔ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو سیمینارز،کانفرنسز اور سمپوزیم کے ذریعے سے اقلیتوں کے حقوق کے متعلق اگاہی مہم چلانی چاہیے۔

3)۔ فلاحی مسلم ریاستوں اور غیر مسلم ریاستوں میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے تقابلی مطالعہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس بارے میں اسلام کا حقیقی اور روشن چہرہ دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔

4)مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ عالمی فورم پر اہل مغرب کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ تعصب کی عینک اتار کر اسلام کا مطالعہ کریں اور حقیقی اسلامی فلاحی معاشرہ میں اقلیتوں کے حقوق کا جائزہ لیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا ختم کیا جا سکے۔

5)۔ عصر حاضر میں فلاحی ریاستوں میں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے سروے طریقہ تحقیق کی بھی ضرورت ہے تاکہ مختلف علاقوں میں اقلیتوں کے حقوق کی حقیقی صورتحال سامنے آسکے۔

حوالہ جات

  1. سورۃ البقرہ ۲:۲۵۶
  2. سورۃ الکافرون۱۰۹:۶
  3. السجستانی ،سلیمان بن اشعث، کتاب الخراج والامارۃ والفئی،باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات (مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۰ء)،حدیث:۳۰۵۲
  4. الشافعی ، محمدبن ادریس ، المسند ،كتاب الديات(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۹م)،حدیث: ۳۵۰
  5. البخاری، محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح ،کتاب الجزیہ،باب إثم من قتل معاهدا بغيرجرم(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۸ء)، حدیث:۳۱۶۶
  6. البیہقی، احمد بن حسین ، شعب الایمان ،فصل في المكافأة بالصنائع،(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۱۹۹۸م)حدیث:۸۷۰۴
  7. ابن سعد، محمدبن سعد،طبقات کبریٰ(دارالکتب العلمیہ، بیروت،۱۴۱۰ھ)، ۱/۲۶۸
  8. البخاری،الجامع الصحیح ،کتاب المغازی، باب أين ركز النبي صلى الله عليه وسلم الراية يوم الفتح؟،حدیث:۴۲۸۰
  9. العسقلانی، احمد بن علی بن حجر ،فتح الباری( مکتبہ دارالمعرفہ، بیروت ،۱۳۸۹ھ)،۸/۹
  10. البیہقی ،احمد بن حسین بن علی ،السنن الکبریٰ ، کتاب السیر ، باب فتح مكة حرسها الله تعالى(دارالکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۳م)، حدیث:۱۸۲۷۵
  11. القشیری،مسلم،محمد بن مسلم ، الجامع الصحیح ،کتاب الجہادوالسیر،باب فتح مكة(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۲م)، حدیث:۱۷۸۰
  12. ابويوسف،یعقوب بن ابراہیم،کتاب الخراج(المکتبہ الازھریہ لتراث،س ن)،۱/۱۹۰
  13. دارقطنی، علی بن ،السنن ، کتاب الحدود والدیات(دارالفکر،بیروت،س۔ن)،حدیث:۳۲۶۱
  14. البیہقی،السنن الکبریٰ ،کتاب الدیات۔باب الروايات فيه عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه،حدیث:۱۵۹۲۸
  15. الشافعی،محمد بن ادریس، المسند ،کتاب الدیات والقصاص،۱/۳۴۴
  16. الشافعی،محمدبن ادریس،کتاب الام( دارالمعرفہ، بیروت،۱۴۱۰ھ)،۷/۳۳۹
  17. البیہقی ،احمد بن حسین ،السنن الکبریٰ،۸/۶۲
  18. الشیبانی،محمدبن حسن،الحجہ علی اھل المدینہ( عالم الکتب،بیروت ،۱۴۰۴ھ)،۴/۳۴۷
  19. الصنعانیعبدالرزاق بن ہمام ،المصنف ،كتاب أهل الكتاب،باب دية اليهودي والنصراني (دار الفکر ،بیروت،۲۰۰۷م) حدیث: ۱۰۲۲۵
  20. الشافعی،کتاب الام،۷/۳۳۹
  21. ابن عابدين شامی،محمدبن امین،ردالمحتارعلی ردالمختار(دارالفکر، بیروت،۱۴۱۳ھ )،۴/۱۷۰
  22. ابن عابدين شامی،محمدبن امین،ردالمحتارعلی ردالمختار ،۶/۴۱۰
  23. سورۃ النحل۱۶: ۱۲۵
  24. ابن سعد،الطبقات الکبریٰ،۱/۲۲۰
  25. الکاسانی،علاءالدین ابوبکربن مسعود،بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع( دارالکتب العلمیہ، بیروت،۱۴۰۶ھ)،۷/۱۱۳
  26. ابن ابی شیبہ،المصنف، کتاب السیر،باب ما قالوا في هدم البيع والكنائس وبيوت النار(دارالکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۷م)،حدیث: ۳۲۹۸۲
  27. الجصاص،احمدبن علی، احکام القرآن( دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۵ھ)،۱/۵۷۲
  28. سورۃالنساء۴:۶۱
  29. سورۃ النساء۴:۲۹
  30. الجصاص، احکام القرآن ،۲/۵۴۵
  31. ابن عابدین الشامی،ردالمحتارعلی درمختار،۴/۱۷۰
  32. ابن ہمام،کمال الدین محمدبن عبدالواحد،فتح القدير( دارالفکر، بیروت،س ن)،۳/۴۱۷
  33. سورۃ الممتحنۃ ۸:۶۰
  34. ابويوسف،یعقوب بن ابراہیم،کتاب الخراج،۱/۱۵۳
  35. کاسانی ،ابو بکر بن مسعود ،بدائع الصنائع،۷/۱۱۲
  36. کاسانی ،ابو بکر بن مسعود ،بدائع الصنائع ،۷/۱۱۳
  37. سورۃالنور۲۷:۲۴۔۲۸
  38. الصنعانی،عبدالرزق،المصنف، كتاب أهل الكتابين،باب كم يؤخذ منهم في الجزية، حدیث:۱۹۲۶۷
  39. ابو یوسف ،کتاب الخراج ،۱/۱۳۹
  40. ابویوسف ،کتاب الخراج ،۱/۲۵
  41. ن۔م ،۱/۱۵۵
  42. ن۔م،۱/۱۳۸
  43. القشیری، الجامع الصحیح ،كتاب البر والصلة والآداب،باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق،حدیث:۲۶۱۳
  44. ابویوسف، کتاب الخراج ،،۱/۱۳۶
  45. ن۔م،۱/۱۵۸
  46. ابویوسف ،کتاب الخراج ،۱/۱۳۶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...