Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 1 of Islamabad Islamicus

قاضی عیاض اور ان کی کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفی کا تعارف اور اعتراضات کا جائزہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060033219_1073

Pages

32-61

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/article2.pdf

Subjects

Qazi Ayaz Malki Al-Shafa'ah Book Huqooq Mustafa.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قاضی عیاض کا تعارف:

قاضی عیاض ﷫مغرب کے مشہورترین علماء میں سے ہیں۔اہل مغرب میں یہ روایت مشہور تھی،کہ اگر قاضی عیاض نہ ہوتے،تو ”مغرب“کا بھی تاریخ میں کوئی ذکر نہ ہوتا۔مراکش کے مؤرخ صغیر افرانی لکھتے ہیں:

 

شاع الآن علی الالسنة ان يقولوا:لولا عياض ماذکر المغرب،ولم اقف عليها لاحد من المتقدمين،ولايبعد ذلک من حاله ۔[1]

 

ذیل میں قاضی عیاض ؒکے احوال زندگی پر چند سطور رقم کی جارہی ہیں۔

 

نام و نسب:

قاضی صاحب کا نام و نسب جو ان سے صراحۃ منقول ہے،وہ یہ ہے۔" عیاض بن موسیٰ بن عیاض بن عمرون بن عیاض"[2] اس نسب کے بعد بھی ایک حصہ آپ کو محفوظ تھا،لیکن تسلسل نسب کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہ تھی۔[3]ابن خلکان نے"عمرون" کی بجائے ”عمرو“کا نام تحریر کیا ہے۔[4]غالباً امام ذہبی نے بھی انہی کی پیروی میں ”عمرو“لکھا ہے۔[5]مقری تلمسانی کی عبارت سے تویہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تسمیۃ کا اختلاف ہے۔[6]لیکن صحیح بات یہ ہے،کہ اہل مغرب کے ہاں مبالغہ کے لئے اسم کے آخر میں ون بڑھانا مروج ہے۔عمرو کو وہ عمرون اور حمد کو حمدون کر دیتے ہیں۔اس اختلاف کی بس یہی حقیقت ہے۔[7]

 

کنیت و نسب:

جملہ مؤرخین نے آپ کی کنیت ”ابو الفضل“اور نسبت ”الیحصبی“لکھی ہے۔جو کہ قبیلہ ا جمیر کے نامور رئیس یحصب بن مالک کی طرف کی گئی ہے۔[8]مقری کے بقول یہ یحصب بن مدرک کی طرف نسبت ہے۔[9]

 

ولادت باسعادت:

آپ ۱۵شعبان ۴۷۶ھ کو تولد پذیر ہوئے۔آپ کی جائے پیدائش ”سبتَہ“نامی شہر ہے جو کہ ”مغرب“کا ایک مشہور شہر ہے۔

 

وطن مادری کی تعیین: متعدد مؤرخین نے آپ کو اندلسی الاصل اور بعض نے مغربی الاصل قرار دیا ہے۔ذہبی لکھتے ہیں کہ:

 

حَوَّلَ جَدُّهم مِنَ الاُندَلَسِ اِلٰی فَاسٍ،ثُمَّ سَکَنَ سَبتة۔[10]

 

"آپ کے دادا پہلے پہل اندلس سے مغرب منتقل ہوئے،پھر سبتہ میں ٹھہرے۔"

 

اندلس میں آپ کے آباؤ اجداد کا مستقر”بسطۃ“نامی علاقہ تھا۔[11]وہاں سے ”فاس“اور پھر ”سبتہ“ منتقل ہوئے۔”مغرب“کا اطلاق عموماً افریقہ، قیروان،بجایہ،تلمسان،فاس،اور مراکش پر ہوتا تھا۔اور ”اندلس“قرطبہ،اشبیلہ،غرناطہ،بلنسیہ پر مشتمل تھا۔[12] "مغرب" اور ”اندلس“کے قریب قریب ہونے کی وجہ سے غالباً ان کو ”مغربی الاصل“قرار دیا گیا۔بہرحال!آپ کے آباء اندلس سے مغرب منتقل ہوئے، جہاں آپ کی پیدائش ہوئی۔اس عہد میں ”مغرب“پر ”مرابطین“کی حکومت تھی،جو ۴۶۲ھ تا۵۴۱ھ جاری رہی۔[13]

 

تحصیل علم:ذہبی لکھتے ہیں،کہ آپ نے صغر سنی میں تحصیل علم کی طرف توجہ نہیں کی،بلکہ سن شعور کے بعد آپ تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے۔

 

لم يحمل القاضی العلم فی الحداثة،واول شئی اخذ عن الحافظ ابی علی الغسّانی اجازۃ مجردۃ،وکان يمکنه السماع منه، فانه لحق من حياته اثنين و عشرين عاماً۔[14]

 

ممکن ہے،کہ ذہبی کی مراد علمی اسفار ہوں،وگرنہ قاضی صاحب کے احوال اس بات کے متقاضی ہیں کہ بچپن ہی سے ان میں تحصیل و طلب علم کا جذبہ موجزن رہاہوگا، قاضی صاحب نے ابتدائی عمر میں اپنے خاندان،قریبی اہل علم سے استفادہ کیا ہوگا۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ قاضی صاحب کا گھرانہ علم و فضل میں شہرت رکھتا تھا۔[15]

 

علمی اسفار:

قاضی صاحب کے وقائع نگاروں نے ان کے اسفار علمی مغرب اور اندلس کے مابین ہی بتائے ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مشرق کے اسفار نہیں کیے۔مقری نے ”نفع الطیب“میں ان اہل علم میں آپ کا شمار نہیں کیا جنہوں نے مشرق کا سفر کیا۔

 

البتہ آپ نے مشرقی مشائخ سے اجازۃحاصل کی ۔آپ نے چند شہروں کے اسفار کیے۔

 

قرطبہ: ۵۰۷ھ میں آپ نے پہلا سفر قرطبہ کی طرف کیا۔[16]

 

مُرسیہ: ۵۰۷ھ محرم میں آپ نے مرسیہ میں وہاں کے مشہور عالم،شیخ ابو علی صدفی سے تحصیل علم کیا۔[17]

 

مَرِیّہ: اسی سفر میں آپ مریّہ بھی تشریف لے گئے۔[18]آپ کا یہ سفر کم وبیش سال بھر رہا،چنانچہ آپ ۵۰۸ھ جمادی الآخرۃ میں اپنے وطن تشریف لائےاور یہاں مسند درس پر رونق افروز ہوئے۔ [19]

 

اساتذہ:

قاضی صاحب نے جن اہل علم سے استفادہ کیا،وہ اپنے زمانے کے نامور اہل علم تھے،اپنے شہر سبۃ میں جن اہل علم سے استفادہ کیا،ان کے اسماء گرامی یہ ہیں؛ابوبکر بن عطیہ،ابو بکر بن عربی،ابو عمران بن ابی تلید۔ [20]ان کے علاوہ آپ کے دیگر اساتذہ یہ ہیں؛ابو الولید بن رشد الجد،ابن السید البطلیموسی۔[21]مقری نے حروف تہجی کے اعتبار سے آپ کے متعدد اساتذہ کے نام تحریر کیے ہیں۔[22]آپ کے ایک مشہور استاذالصدفی ہیں۔ذہبی رقمطراز ہیں،کہ قاضی عیاض نے ایک طویل عرصہ ان کی ملازمت و صحبت اختیار کی۔[23]ان سے تحصیل علم میں آپ نے جو ملازمت و طریقہ اختیار کیا،اس سے آپ کو اندلس ہی کے مشہور عالم و محدث بقی بن مخلدؒ (۲۷۶ھ)سے مشابہت حاصل ہوئی۔[24]اساتذہ بالاجازۃ: قاضی صاحب نے جہاں اہل علم سے بالمشافہہ تحصیل علم کی،وہاں آپ نے متعدد اہل علم سے اجازت حدیث و علوم کا بھی شرف حاصل کیا،جن اہل علم نے آپ کو اجازت دی،ان کے اسماء یہ ہیں:ابو علی غسّانی ، ابو عبداللہ الخولانی ، ابو نصر النھاوندی ، ابو بکر الطرطوشی ، ابو عبداللہ المازری، ابو طاہر السلفی۔[25]آپ کے اساتذہ کی تعداد اکثر اہل علم نے(۱۰۰)ضبط کی ہے۔علامہ کتانی کے بقول قاضی صاحب کے ایک ”مشیخہ“ میں (۱۶۰)اساتذہ کے اسامی مذکور ہیں۔[26]

 

تلامذہ:

آپ ؒ ایک نامور اور بابرکت صاحب تصنیف مدرس تھے،آپ کے تلامذہ میں نامور اہل علم کے نام آتے ہیں۔جن میں سے متعدد اہل علم کے نام یہ ہیں: عبداللہ بن محمد الاشیری ، ابو جعفر بن قصیر غرناطی ، حافظ خلف بن بشکوال ، ابو محمد بن عبیداللہ، محمد بن حسن جابری اورآپ کے فرزند محمد بن عیاض۔[27]کتّانی رقمطراز ہیں:کہ آپ کے تلامذہ بالاجازہ میں حافظ ابو طاہر السلفی بھی ہیں۔[28]اسی طرح ابن غازی ، ابن زرقون ، ابو القاسم بن ملجوم ، ابو عبداللہ التادلی ، قاضی ابو عبدالرحمن قصیر ، قاضی ابو عبداللہ بن عطیہ بھی آپ کے تلامذہ میں شمار کیے گئے ہیں۔[29]امام ذہبی آپ کے تلامذہ کی کثرت کے متعلق فرماتے ہیں:

 

وقد حدّث عن القاضی خلق من العلماء۔[30]

 

مناصب:

اپنے پہلے سفر سے واپسی پر آپ کو ”مدوّنہ“کی تدریس سونپی گئی،کچھ ہی عرصہ بعد آپ ریاستی مجلس شوریٰ کے رکن بنا دئیے گئے۔اس کے بعد تقریباً ۳۵سال کی عمر میں آپ کو سبتہ کا قاضی مقرر کردیا گیا۔مقری کے بقول ۳۲سال کی عمر میں ”مدوّنہ“آپ کے سپرد کی گئی۔اور سبتہ کی قضاء کی تولیت کے وقت ۵۱۵ھ کا سال تھا۔کم و بیش ۵۱ سال اس منصب پر فائز رہے۔اور ۵۳۱ھ میں آپ غرناطہ تشریف لے گئے اور وہاں منصب قضاء سنبھالا۔لیکن آپ کی حق گوئی،حکام بالا کو نہ بھائی۔چنانچہ آپ اگلے سال ہی واپس تشریف لے آئے۔مرابطی حاکم نے ۵۳۹ میں آپ کو دوبارہ ”سبتہ“کا قاضی مقرر کردیا۔[31]

 

وفات:

۸ رجب ۵۴۳ھ کو آپ نے فارس سے مراکش کی طرف رخت سفر باندھااور اسی رات آپ نے اپنے شاگرد ابو القاسم مکجوم کو اپنی اجازات سے نوازا۔[32]”سلا“نامی شہر سے ہوتے ہوئے آپ مراکش تشریف لائے۔[33]یہاں آپ امیر عبدالمؤمن کی صحبت میں رہے۔اور اسی کے ساتھ وکالۃ کے معرکہ میں شرکت کیلئے نکلے۔ لیکن بیماری کے سبب آپ واپس لوٹ آئے۔تقریباً ۸ دن بیمار رہ کر ۹ جمادی الآخرۃ ۴۴۵ھ کو بروز جمعہ بوقت تہجد آپ خالق حقیقی سے جاملے۔[34]مراکش ہی میں مدفون ہوئے۔

 

صفات،اخلاق و عادات:

آپ کے تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ آپ دبلے پتلے مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔[35]آپ باوقار،حلیم الطبع،پختہ ارادہ،عمدہ چال چلن کے مالک تھے۔کبھی کبھار مزاح بھی کر لیا کرتے تھے۔[36]دوران درس عمدہ طریقہ سے مسائل پیش کیا کرتے تھے۔تعظیم سنت پر کاربند تھے۔خوف خدا سے لبریز رہتے تھے۔قضاء میں کوئی خیانت نہیں کی۔غرناطہ کی قضا کے دوران آپ کے فیصلوں سے تنگ آکر امراء نے آپ کو معزول کردیا تھا۔آپ کا خط نہایت عمدہ اور باریک تھا۔عمدہ فہم اصابت رائے سے متصف تھے۔[37]آپ کی قضاء کے دوران مشہور ادیب فتح بن خاقان آپ سے ملنے عدالت میں آیا۔حاضرین نے اس کے منہ سے شراب کی بو ہونے کی تصدیق کی۔چنانچہ آپ نے اس پر حد شرعی قائم کی۔اور بعد میں ان کے اکرام کے لئے آٹھ دینار اور پگڑی بطور تحفہ بھیجی۔[38]اساتذہ کے احترام میں حساس تھے۔فرماتے:کہ ایسے لوگوں کے نام بھی میں نے اپنی ”مشیخہ“میں دئیے ہیں،کہ اصحاب روایت و درایت نہیں۔اہل اتقان نہیں۔[39]

 

علوم میں مقام ومرتبہ:

علوم میں آپ کے علوّ مکان پر مؤرخین کا اتفاق ہے۔آپ بیک وقت مفسر،محدث،فقیہ،اصولی،متکلم،نحوی،ادیب،شاعراور خطیب تھے۔تاریخ میں ید طولیٰ حاصل تھا۔فقہ مالکی کی کتاب”المدونۃ“کی مشکل توضیحات میں آپ کی تشریح پر علماء مالکیہ کار بند ہیں۔[40]علماء مالکیہ کے تراجم میں آپ کی قدر و منزلت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ ذہبی ایسے نامور مؤرخ آپ کے اقوال سے استفادہ کرتے ہیں۔انساب عرب،ایام عرب میں آپ کی امامت تسلیم کی گئی ہے۔علم ادب میں آپ کے رتبہ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے،کہ شیخ عبداللہ کنّون نے اپنی مایہ ناز تالیف”النبوغ المغربی فی الادب العربی“ میں بکثرت آپ کے اقتباسات دئیے ہیں۔[41]”سبتہ“میں کوئی عالم آپ سے بڑھ کر صاحب تصنیف نہ تھا۔[42]ذہبی کے بقول:

 

استجرمن العلوم وجمع والّف بتصانيفه الرکبان،واشتهر اسمه فی الافاق۔[43]

 

ابن خلکان لکھتے ہیں کہ:

 

هو امام الحديث فی وقته،و اعرف الناس بعلومه، وبالنحو واللغة وکلام العرب وايامهم وانسابهم۔[44]

 

مشہور صوفی عالم علامہ یافعی،عبداللہ بن اسعد نے ابن خلکان کی اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لکھا::وهو من اهل الیقین فی العلوم والزکاء۔[45]

 

فقہی و کلامی مسلک:

قاضی صاحب کا مالکی ہونا اہل علم کے ہاں معروف و متداول ہے۔رہا کلامی مسلک! تو آپ اہل سنت والجماعت کے مسلک ”اشعریہ“سے منسوب تھے۔اگرچہ آپ اجتہاد کرتے ہوئے ان سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔لیکن فی الجملہ آپ اشعری ہیں۔[46]

 

”بتبیین کذب المفتری“میں آپ کاتذکرہ نہیں ہے۔اس بارے میں علامہ ابن سبکی لکھتے ہیں کہ:

 

قلت:ولقد اهمل علی سعة حفظه من الاعيان کثيرا،وترک ذکر اقوام کان ينبغی حيث ذکر هولا“ان يشمر عن ساعد الاجتهاد فی ذکرهم تشهيرا۔[47]

 

اس کے بعد انہوں نے مشہور اشاعرہ کی فہرست دی۔لکھتے ہیں:

 

ومن الخامسة:ابو الوليد الباجی،وابو عمر بن عبدالبر الحافظ،والحافظ ابو سعد السمعانی،والحافظ ابو طاهر السيلفی،والقاضی عياض بن محمد اليحصبی۔[48]

 

اہل علم کا قاضی صاحب کے بارے میں تبصرہ:قاضی صاحب کے احوال میں گزرا،کہ ان کے یہاں تحصیل علم کے اسفار کی اور مشائخ کی وہ کثرت نہیں جو ان کے معاصرین میں سے اکثریت کو حاصل ہے۔بایں ہمہ آپ کو علمی تفوق،علوّ مکان و مقام کا جو حظّ وافر ملا،اس میں آپ کے معاصرین کی اکثریت آپ کی گرد تک نہیں پہنچ سکی۔قاضی ابوالولید بن رشد الجد آپ کے استاذ تھے،جب آپ ان سے پہلی مرتبہ ملے تو وہ حیران ہوئے کہ اندلس کی سرزمین پر ایسا صاحب عقل و ذکاء شخص کیسے پیدا ہوگیا؟۔[49]ابو الحسین بن سراج کو قاضی صاحب کے بارے میں علم ہوا،کہ فلاں شیخ وقت کے پاس تحصیل علم کے لئے جانا چاہتے ہیں،کہنے لگے:

 

لهو أحوج اليک منک اليه ۔[50]

 

فقیہ ابو محمد بن ابی جعفر کے بقول: مغرب میں عیاض جیسا شخص آیا ہی نہیں۔[51]قاضی ابو بکر بن العربی نے اپنے شاگرد کی ”الشفاء“دیکھ کر فرمایا:

 

بارک اللّٰه فيک يا اباالفضل۔[52]

 

ابو الفضل اللہ تمہیں برکت دے۔یہ تینوں حضرات آپ کے اساتذہ ہیں۔ شیخ ابو عبداللہ محمد امین کے بقول:”قاضی صاحب کامقام و مرتبہ ائمہ اربعۃ اور امام بخاری جیسا ہے۔جو کہ حاملین شرع ہیں،جن کی کتب شریعت کا ماخذ ہیں۔ان لوگوں نے اپنے علوم کی تلواروں سے شرع کو محفوظ رکھا ہے۔ان ائمہ کے علوم امت میں اس طرح جاری و ساری ہیں،جیسے یہ خود زندہ ہوں۔کتنے ہی ائمہ،مشائخ،علماء،شیوخ نے ان کے علوم سے استفادہ کیا ہے؟یہی حال عیاض کا ہے،ان کے علوم سے کتب بھری پڑی ہیں،حالانکہ وہ تومشرق کا سفر بھی نہ کر سکے تھے۔[53]

 

باقیات صالحات:

قاضی صاحب نے اپنی باقیات صالحات میں اولاد اور اپنی تصنیفات چھوڑیں،آپ کے تذکرہ نگار آپ کی زوجات اور بیٹیوں کے بارے میں خاموش ہیں۔

 

اولاد گرامی:

آپ کے ایک فرزند گرامی کا نام ”محمد بن عیاض“ہے۔ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔انہوں نے قاضی ابو بکر بن العربی اور علامہ ابن بشکوال وغیرہم سے تحصیل علم کیا۔اپنے والد گرامی کے مخصوص تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔

 

آپ غرناطہ اور دانیہ کے قاضی رہے۔لسان الدین ابن الخطیب نے آپ کے بارے میں لکھا:

 

کان فقيها جليلًا،اديباًکاملاً۔[54]

 

قاضی صاحب کا گھرانہ علم و فضل کا گہوارہ رہا۔آپ کی اولاد و احفاد میں علم کا سلسلہ جاری رہا۔آپ کی نسل میں آخری شخص(جس کے احوال مل سکے)کے بارے میں لسان الدین ابن الخطیب لکھتے ہیں،کہ وہ نہایت پاکدامن،باعزت،معزز،صاحب حشمت شخص تھے۔قوت حافظہ میں خدا کی نشانی تھے۔دن رات مسلسل تدریس میں مصروف رہتے۔ان کا نام اور قاضی صاحب تک نسبت درج ذیل ہے۔”محمد بن احمد بن محمد بن عیاض بن محمد بن القاضی عیاض بن موسیٰ“۔ان کی وفات ۷۵۰ھ میں ہوئی۔[55]

 

تالیفات:

قاضی صاحب کے استاد امام ابن العربی نے ان کے لئے برکت کی دعا کی تھی۔[56]یقینا وہ مستجاب الدعوات تھے۔قاضی صاحب نے متعدد تصانیف یاد گار چھوڑیں۔ان میں سے ہر تالیف کو اہل علم نے تلقی بالقبولیت سے نوازا۔اہل مغرب ہی نہیں اہل مشرق نے بھی ان کی تالیفات کو حرز جاں بنایا۔امام ذہبی نے لکھا کہ”آپ کی ہر تالیف نفیس ہے“۔[57]یافعی کے بقول:”آپ کی تحریرات جلیل القدر اور مفید ہیں“۔[58]ابن خلکان کے الفاظ ہیں:وبالجملة فکل تواليفه بديعة۔[59]آپ کی مشہور تصنیفات کے اسامی درج ذیل ہیں:

 

۱۔ اکمال المعلم:صحیح مسلم کی شرح،مؤلفہ قاضی مازری کی تکمیل ہے۔۲۔ شرح حدیث ام زرع:بخاری شریف کی روایت کی تشریح ہے۔۳۔ التنبیہات:اس میں عجیب و غریب فوائد نکات لائے ہیں۔[60] ۴۔ العقیدۃ:اس میں انہوں نے اپنے عقائد تحریر کیے ہیں۔۵۔ ترتیب المدارک: یہ فقہاء مالکیہ کے تعارف میں ہے۔۶۔ جامع التاریخ:یہ علماء اندلس و مغرب اور بادشاہان و امراء کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔[61] ۷۔ مشارق الانوار:اس کے بار ے میں ابن فرحون مالکی کی رائے یہ ہے کہ

 

هو کتاب لو کتب بالذهب او وزن بالجوهر لکان قليلاً فی حقه ۔[62]

 

اس کا موضوع صحاح ثلاثہ یعنی مؤطا اور صحیحین کے مشکلات کی تسہیل ہے۔۸۔ الالماع الی معرفۃ الروایۃ و تقیید السماع:یہ اصول حدیث پر مشتمل ہے۔۹۔ الغنیۃ:[63] اسے اپنے شیوخ کے تذکرہ کے لئے خاص کیا،اس میں (۱۰۰)اساتذہ کے احوال لائے۔اور ان کی اسانید بیان کیں۔۱۰۔ الاعلام بحدود قواعد الاسلام۔[64]غالباً اسی کتاب کو امام ذہبی”کتاب فی العقیدۃ“کے نام سے لکھاہے۔۱۱۔ العیون الستۃ فی اخبار سبتہ: سبتہ کے اہل علم کے بارے میں ہے۔۱۲۔ غنیۃ الکاتب و بغیۃ الطالب: مجموعہ رسائل ہے۔۱۳۔ دیوان خطب:اس میں آپ کے خطبے جمع کیے گئے۔[65]۴ ۱۔ مشیخۃ ابی علی الصدفی:160 اساتذہ کی اسانید و مرویات لائے ہیں۔[66] ۱۵۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ:یہ کتاب آپ کی معرکۃ الآراء کتاب ہے۔جسے نبی کریم کے حقوق و تعظیم کی تعیین کے لئے آپ نے تحریر کیا۔

 

الشفاء بحقوق المصطفٰی کا تعارف

" الشفاء" کی تالیف قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ کا ایسا کارنامہ ہے،جو رہتی دنیا تک اپنی خوشبوئیں بکھیرتا رہے گا۔اس کی تالیف نے خود قاضی صاحب مرحوم کو بھی دوام و خلود کا مقام دے دیا ہے۔یقینا اس کارنامہ کیلئے بارگاہ الٰہی اور دربار نبوی ﷺ سے آپ کا انتخاب ہوا۔ ذیل کی سطور میں اس کتا ب کے متعلق اہم معلومات سپرد قرطاس کی جارہی ہیں۔

 

نام:اس کتاب کا مکمل نام " الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ" ہے۔اس کی تصریح ڈاکٹر یوسف عبدالرحمن مرعشلی نے کی ہے۔[67]یہی نام حاجی خلیفہ نے "سلم الوصول"میں اختیار کیا ہے۔دیگر اہل علم کی آراء ملاحظہ ہوں۔ " الشفاء فی تعریف حقوق المصطفیٰ" (امام یافعی)[68]" الشفاء فی شرف المصطفیٰ" (امام ذہبی)[69] " الشفاء بالتعریف بحقوق المصطفیٰ" (کتّانی)[70] فی التعریف " الشفاء" (رستم)[71] " کتاب الشفاء" (ابن بطوطہ)[72] ان مختلف آراء کے پیش نظر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم نے روایت بالمعنی کے طور پرکتاب کے نام میں تصرف کیا ہے۔قاضی صاحب کی کتاب ”ترتیب المدارک“کا بھی یہی حال ہے کہ متعدد مؤرخین نے اس کے نام میں تصرف کیا ہے۔راقم السطور کی رائے میں ان اسامی مختلفہ میں سے بہتر اور مناسب نام اولین نام ہے۔اس رائے کی ترجیح پر درج ذیل قرائن ہیں۔

 

(۱)کتب کے اسماء میں حاجی خلیفہ کی تحقیق دیگر حضرات سے زیادہ دقیق اور عمدہ ہوتی ہے۔آپ ہی مشہور عالم کتاب ”کشف الظنون“کے مؤلف ہیں۔لہٰذاآپ کی رائے کو فوقیت دی گئی۔(۲)عربی زبان میں میں ”شفَی“کا صلہ اصلاً ”ب“ہی ہوتا ہے۔مطلب ہوتا ہے کہ فلاں چیز کے ذریعہ صحت یابی ملی۔اور قاضی صاحب کا مقصد یقینا یہی ہے کہ آپ ﷺ کے ذکر خیر اور تعریف کے ذریعے شفاحاصل کی جائے۔لہٰذا وہ اسماء اولیٰ ہوں گے جن میں الشفاء بتعریف کی ترکیب ہو۔نہ کہ فی تعریف کی ترکیب۔(۳)مشہور مؤرخ علامہ سخاوی نے بھی اس کا نام ”الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ“ضبط کیا ہے۔لکھتے ہیں۔

 

ولو لم يکن له من التصانيف الاکتابه"الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ"لکفی۔[73]

 

چنانچہ اس کتاب کی دو طباعاتیں راقم کے پیش نظر ہیں،دونوں ہی میں اس نام کو اختیار کیا گیا ہے۔[74]خود قاضی صاحب نے بھی مقدمہ میں یہی نام تحریر کیاہے۔[75]

 

غرض تالیف:اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کے مقام و مرتبہ کو منصب و شرافت،عزت و تکریم کو بیان کیا جائے۔نیز آپ ﷺ کے حقوق عالیہ،خصائص غالیہ اور متعلقات کو بیان کیا جائے۔”الشفاء“کے مقدمہ میں یہ بات آپ نے خود تحریر کی ہے۔[76]بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل مبارک پر کوئی انہیں بار بار تیار کرتا رہا اس کے اصرار پر آپ نے قلم اٹھایا۔آپ کے الفاظ ہیں:”فانک کررت السؤال علیّ"۔[77]قاضی صاحب نے ”الشفاء“میں ہی یہ تحریر کیا،کہ انہوں نے یہ کتاب اہل اسلام کے لئے لکھی ہے۔[78]

 

فراغت از تالیف:

قاضی صاحب ”الشفاء کی تالیف سے۵۲۲ھ کو فارغ ہوئے۔[79]

 

ان سطور سے واضح ہوا،کہ ”الشفاء“کی تالیف سے غرض آپﷺ کے مقام و مرتبہ کی تعیین کرنا تھی،جس کی غرض یہ تھی کہ آپ ﷺ کے تذکرہ سے آپ ﷺکے احوال کے مطالعہ سے اہل ایمان کی محبت و ایمان میں زیادتی پیدا کی جائے۔

 

”الشفاء“کے مصادر:قاضی صاحب نے”الشفاء“کی ترتیب میں کتاب اللہ،صحاح ستہ،اور مسانید،معاجم،کتب دلائل،تاریخ و تراجم،کتب کلامیہ،ادب ورقاق اور فقہی ذخیرہ سے استفادہ کیا ہے۔ان کتب کے علاوہ قاضی صاحب نے اپنے مشاہدات،تجربات،اختیارات کے ساتھ ساتھ اپنے مشائخ و اساتذہ کے اقوال سے بھی استفادہ کیاہے۔اپنی اسانید سے روایات بھی لائے ہیں۔اور اہل علم کے اقوال کبھی ان کی کتب سے اور کبھی ان کے اسامی کے ساتھ لاتے ہیں۔چند مصادر ملاحظہ ہوں۔(۱)آیات قرآنیہ: پوری کتاب میں جگہ بجگہ موجودہیں(۲)بخاری شریف: ص:۱۱۲،ص:۴۰۲(۳)مسلم شریف: ص:۱۱۲،ص:۳۵۴(۴)مؤطا امام مالک: ص:۱۱۲(۵)مسند بزاز: ص:۴۰۸(۶) مغازی ا بن اسحاق: ص:۳۴۸(۷)مشکل الحدیث للطحاوی:ص:۷۴۳(۸)مشکل الحدیث لابن فورک:ص:۸۰۸(۹)روی الترمذی:ص:۳۶۹،ص:۵۱۷،ص:۳۷۰ ۔پوری کتاب میں قاضی صاحب کے ہاں اسی طر ح حوالہ جات ملتے ہیں۔اس سے زیادہ حوالہ جات کا اسلوب روی۔قالوا۔وغیرہ ہے۔بظاہر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی صاحب نے یہ حوالہ جات اپنی یاداشت اور قوت حافظہ سے دئیے ہیں۔اس لئے حوالہ جات لانے میں یکسانیت نہیں۔مؤرخین نے ان کے مضبوط قوت حافظہ کا ذکر کیا ہے۔

”الشفاء“کی برکات و ثمرات:

قاضی صاحب کی کتاب الشفاء مبارک تالیف ہے۔یہی وہ کتاب ہے کہ جب آپ نے قاضی ابو بکر بن العربی کی خدمت میں پیش کی،توانہوں نے آپ کے لئے بابرکت ہونے کی دعا کی۔[80]ذیل میں اس کتاب کے بابرکت ہونے پر اہل علم کے مشاہدات ذکر کیے جاتے ہیں۔

 

(۱)علامہ قسطلانی:”المواھب اللدنیہ“میں رقمطراز ہیں:

 

ومشقة السيرفی طريق لم يکن لمثلی يسلک، وانما هو نکتة سر قرأتی کتاب”الشفاء“بحضرة التخصيص والاصطفاء فی مکتب التاديب والتعليم۔[81]

 

عبارت کا حاصل یہ ہے کہ قسطلانی کے بقول وہ خود میں ”المواھب اللدنیہ“تحریر کرنے کی ہمت نہ پاتے تھے۔لیکن محراب نبوی ﷺ میں ”الشفاء“کی تعلیم دینے سے ان پر توجہات ہوئیں۔اور وہ اس کو لکھنے کی ہمت کر پائے۔

 

(۲)علامہ کتانی لکھتے ہیں:

 

وقد جربت قرأته لشفاء الامراض المزمنة،وتفريح الکروب و دفع الخطوب۔[82]

 

یعنی امراض و مصائب اور مشکلات و حوادثات کے دفعیہ کے لئے اس کی قرأت مجرب پائی گئی ہے۔حق بات یہ ہے کہ اس کا مطالعہ بالاستقلال کسی شیخ کامل کی صحبت سے بڑھ کر محسوس ہوتا ہے۔اہل علم کے ارشادات اس پر شاہد ہیں کہ یہ کتاب روحانی و جسمانی امراض کے لئے بھی ویسے مفید تر ہے جیسا کہ یہ اپنے مقصد اور غرض میں کامیاب ہے۔

 

اہل علم کا ”الشفاء“کو تلقی بالقبول دینا:

قاضی صاحب کے اس لازوال کارنامہ کو اہل علم نے ہاتھوں ہاتھ لیا،اور قبولیت کے معراج پر اس کتاب کو پہنچا دیا۔ذیل میں اس تلقی کی مختلف جہات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

 

”الشفاء“کی تدریس اور روایت:تلقی بالقبول کا عمدہ ترین اظہار کسی کتاب کی تدریس اور بقا ء روایت کے ذریعہ ہوتا ہے۔ذیل میں ایسی نصوص ملاحظہ ہوں جن سے ”الشفاء“کی تدریس اور روایت کے اجراء پر روشنی پڑتی ہے۔

 

(۱)علامہ قسطلانی اس کتاب کو مسجد نبوی میں ریاض الجنۃ میں درساً پڑھایا کرتے تھے۔[83] (۲)علامہ مقریزی نے۷۸۳ھ میں یہ کتاب مکہ مکرمہ میں شیخ ابراہیم بن علی الشامی سے پڑھی۔[84]مقریزی نے اہل علم کی کتب مقروہ میں ”الشفاء“کا کئی جگہ ذکر کیا ہے۔[85] (۳)امام ذہبی نے قاضی صاحب کی کتب میں عمدہ ترین اسی کتاب کو قرار دیا ہے۔[86] (۴)سخاوی لکھتے ہیں کہ”الشفاء کا ایک نسخہ (جو ان کے پیش نظر تھا)ابو الحجاج مزی،شمس بن ایبک،ابن حجر کے علاوہ متعدد ائمۃ العلم والحدیث نے پڑھا“۔علامہ کتانی نے متعدد اہل علم کے اسامی دیے ہیں،کہ جنہوں نے ”الشفاء“کو باسند روایت کیاہے۔علامہ موصوف کی تحقیق کے مطابق درج ذیل حضرات ”الشفاء“کے راوی ہیں:

 

٭....حافظ ابو طاہر السلفی٭....علامہ منذری،عبدالعظیم بن عبدالقویؒ٭....محدث شام علامہ علی بن احمد البخاریؒ٭....حافظ تقی الدین ابن السبکیؒ٭....حافظ زین الدین العراقی ؒ٭....حافظ ابن الملقن ؒ٭....علامہ ابن خلدونؒ٭....حافظ ابن عرفۃؒ٭....علامہ سیوطیؒ٭....حافظ برہان الحلبیؒ [87]کتانی لکھتے ہیں:

 

وقدتهافت الاعلام علی التقاط اسانيدها،فرووها مسلسلة بالقضاء،وباليمنيين وبالسبتين، وبالمغاربة، وبالمشارقة، وبالمالکئة، وبالآباء، بل تتبعواروايتها حتی من طريق الأخذ الروحانی۔[88]

 

یعنی”الشفاء“ کی مقبولیت کے پیش نظر اس کی اسانید مسلسلۃ بھی اختیار کی گئی....بلکہ صوفیاء نے اس کو کشف والہام سے بھی حاصل کیا۔چنانچہ محدث صالح بن محمد (۱۲۱۸ھ)نے اپنے ثبت”قطف الثمر“میں مسلسل بالمالکین،مسلسل بالمغربین اور مسلسل بالفقہاء،مسلسل بالسبتین،مسلسل بالخطباء اسانید کے ساتھ ”الشفاء“روایت کی ہے۔[89]محدث موصوف کے علمی مقام کے لئے کتانی کی”فہرس الفہارس“ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

الشفاء کی شروح ،حواشی اور تعلیقات:

قاضی صاحب نے ۲۲ سال اس کتاب کی تدریس اور روایت فرمائی ۔الشفاء کی مقبولیت و محبوبیت کے پیش نظر اور پھر محبوب حقیقی ﷺکے تذکرہ لذیذ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اہل علم نے اس کی متعدد شروح و حواشی تحریر کی ہیں۔کتانی نے بہت سے ایسے اہل علم کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے الشفاء کی شروحات ، حواشی اور تعلیقات پر کام کیا ہے ۔ [90]

 

بہت سے اہل علم نے الشفاء کے ختم بھی تحریر کیے ہیں،کتانی نے ان کے تراجم بھی جمع کیے ہیں۔اسی طرح متعدد اہل علم نے مختصرات اور نظم سازی بھی کی ہے جن کاذکر وہاں کردیا گیا ہے۔کتانی نے الشفاء کے طلائی نسخوں اور بادشاہوں کے کتب خانوں اوران کی مہروں سے مزین متعدد نسخوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔نامور اہل علم اور ناسخین ”الشفاء“کو بھی لائے ہیں۔علماء متصوفین اور شاہان اسلام کا اس سے جو خصوصی شغف رہا ہے اس کو محفوظ کیاہے۔علماء مالکیہ میں سے دمشق کے قاضی سالم بن ابراہیم اور فقیہ مبارک بن عبداللہ کے بارے میں لکھا کہ وہ ”الشفاء“کے حافظ تھے۔[91]متعدد اہل علم کے بارے میں نقل کیا کہ وہ ایک مجلس میں مکمل ”الشفاء“پڑھ لیتے تھے۔اسی طرح کئی نامور ”الشفاء“کا مطالعہ ہمیشہ کرتے رہتے تھے۔اہل علم کو”الشفاء“سے جتنی محبت رہی اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ متعدد لوگوں نے”الشفاء“کے کلمات کو گن کر اس کے کلمات کا احصاء کیا۔[92]اور تقریباً پانچ مشائخ نے مکمل ”الشفاء“کو نظم میں پیش کیا۔کتانی کے بقول!”الشفاء“کی احادیث کی تخریج علامہ قطلابغا،علامہ جلال الدین السیوطی اور پھر اس کا ایک ذیل حافظ ابو العلاء ادریس بن محمد الفاسی نے لکھا ہے۔[93]سلاطین مغرب اور سلاطین عثمانیہ نے متعدد اوقات اور متعدد اہل علم اس کی قرأت کے لئے مقرر کیے تھے۔[94] جب ”الشفاء“کا ختم ہوتا تو اعیان مملکت شریک ہوتے۔[95]علامہ کتانی نے متعدد ایسے اقوال نقل کیے ہیں جن سے ”الشفاء“کی بابرکت حیثیت واضح ہوتی ہے۔اہل علم کے تجربات بیان کیے ہیں کہ امراض و مسائل اور حوادثات میں انہوں نے ”الشفاء“کا مطالعہ مجرب پایا ہے۔[96]شیخ احمد یافوخ کو”الشفاء“سے ایسی عقیدت تھی کہ انہوں نے تن تنہا اس کے (59)نسخے اپنے ہاتھ سے تحریر کیے۔اور ہرنسخہ کو کوئی نہ کوئی انفرادیت دیتے تھے۔[97]کتانی لکھتے ہیں کہ”الشفاء“کے ترکی،فرانسیسی اور یورپین زبان میں تراجم ہو چکے ہیں۔[98]

 

کتاب ”الشفاء“اور اس کے ناقدین:

بلا شبہ ایک حقیقت بیان کی ہے کہ کتاب اللہ کے ماسوا ہر کتاب میں کوئی کمی ضرور ہوتی ہے یہ کمی”حقیقت“کے لحاظ سے ہو یا”اضافت“کے لحاظ سے،ہوتی ضرور ہے۔[99]کتاب”الشفاء“کا بھی یہی معاملہ ہے کہ بعد کے اہل علم نے اس پر متعدد جہات سے نقد کیا ہے۔اگرچہ علامہ کتانی نے”المدخل“اور شیخ عبداللہ علی کوشک نے”مقدمۃ الشفاء“میں نقد کو تین اعتراضات اور دو شخصوں میں منحصر کیا ہے۔لیکن بظاہر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فکری اختلاف پر منتج ہوتے ہیں جس کی تفصیل آیا چاہتی ہے۔مذکورہ دونوں حضرات کی تحقیق کا خلاصہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ اور امام ذہبی سے نقد منقول ہے۔کتانی کے بقول:ابن تیمیہ کے بارے میں یہ درست نہیں کہ انہوں نے الشفاء کے مبحث عصمت انبیاء پر نقد کیا ہو۔ان کی کتب میں کہیں یہ نہیں ملتا۔[100]لیکن یہ کتانی کا واضح تسامح ہے۔

 

الشفاء پر اعتراضات کے جوابات:

ذیل میں معترضین حضرات کے اعتراضات کو ان کی کتب سے نقل کر کے اس پر تنقیحات کی جائیں گی۔

 

(۱)علامہ ابن تیمیہ

علامہ سے سوال ہوا کہ جو شخص انبیاء کی عصمت عن الصغائر والکبائر کا قائل ہو اور وہ اس شخص کی تکفیر کرتا ہو جو عصمت عن الصغائر کا قائل نہ ہو۔تو اس کا یہ فعل کیسا ہے؟وہ درست کررہا ہے؟اور کیا اسلاف میں کوئی انبیاء کی اس طرح کی عصمت کا بھی قائل ہے؟۔ [101]علامہ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا: کہ جو شخص انبیاء علیہم السلام کے غیر معصوم عن الصغائر ہونے کا نظریہ رکھے،اس کی تکفیر اس بنیاد پر درست نہیں۔اور یہ نظریہ سب و شتم کے حکم میں نہیں ہے۔اس بات کی تصریح قاضی عیاض اور ان کے ہم مزاج لوگوں نے کی ہے۔حالانکہ یہ لوگ عصمت انبیاء اور سابّ کے بارے میں مبالغہ پر مبنی مسلک کے حامل ہیں۔[102]اس کے بعد علامہ نے اپنے فتویٰ کے آخر میں لکھاکہ اسلاف میں سے کسی سے یہ قول مروی نہیں،جو قاضی صاحب نے اختیار کیا ہے۔

 

بل هو لم نقل عن السلف والائمة والصحابة والتابعين و تابعيهم الّا مايوافق هذا القول،ولم ينقل عنهم مايوافق القول۔[103]

 

یہ عبارت اس بارے میں صریح ہے کہ علامہ ابن تیمیہ قاضی صاحب کے مسلک کو نادرست سمجھتے ہیں۔ذیل میں ہم قاضی صاحب کے الفاظ میں عصمت انبیاء پر مشتمل ”الشفاء“کی عبارت نقل کرتے ہیں،اور پھر علامہ کے نقد کا جائزہ لیا جائے گا۔

 

عصمت انبیاء اور”الشفاء“:یہ مسئلہ قاضی صاحب نے”الشفاء“کی قسم ثالث کے پہلے باب میں فصل ۹ میں بیان کیا ہے۔پہلے آٹھ ابواب میں مقدمات بیان کیے ہیں اور پھر نویں باب کا عنوان دیا ہے:”فصل فی عصمۃ الانبیاء من الصغائر ولاکبائر“۔[104]قاضی صاحب کا یہ مسلک ”قبل النبوۃ وبعد النبوۃ“ہے۔البتہ ”سہو“کے وقوع وجواز کے قائل ہیں۔قاضی صاحب اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ سلف کی ایک جماعت انبیاء سے صغائر کے صدور کی قائل ہے،اور یہی مسلک طبری وغیرہم فقہاء،محدثین اور متکلمین کا ہے۔قاضی صاحب لکھتے ہیں:

 

وذهبت طائفة اخری من المحققين من الفقهاء والمتکلمين الی عصمتهم من الصغائر کعصمتهم من الکبائر۔[105]

 

اس کے بعد قاضی صاحب نے دلائل دئیے ہیں کہ نبی کا قول و فعل واجب الاتباع ہے۔پس اگر صدور صغیرہ کا جواز اختیار کیا جائے تو اس کی بھی اتباع لازم آئے گی۔اور یہ جائز نہیں ہے۔چنانچہ ائمہ ثلاثہ امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی رحمہم اللہ اور ان کے کبار متبعین کا مسلک یہی ہے کہ آپ کے افعال و اقوال واجب الاتباع ہیں۔اور یہی طرز عمل صحابہ کرام کا ہے۔اس موقع پر قاضی صاحب نے صحابہ کے آثار بھی نقل کیے ہیں،جن میں آپ کے فعل کو دلیل بنایا گیا ہے۔[106]

 

محاکمہ:

(۱)دونوں رائیوں میں اگر عقل کو معیار بنا کر فیصلہ کیا جائے تو قاضی صاحب کی دلیل مضبوط نظر آتی ہے۔اور بات دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔رہا یہ اعتراض کہ پہلے کسی کو یہ مسلک کیوں نظر نہ آیا؟تو جواب یہ ہے:ذٰلک فضل اللّٰه ؤتيه من يشاء۔(۲)تاریخ میں کئی اسلاف ایسے ہوئے ہیں کہ ان سے صغیرہ کا صدور بھی ان کے معاصرین کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔مثلاً حافظ ابن الصلاح ؒ۔[107]اور سید منے شاہ ؒ۔[108]تو نبی کی شان تو بہت بلند و بالا ہے۔ (۳)”عقائد“میں ہر جگہ نقل مسلسل نہیں ہے۔بل کہ تصیح و مراجعت،تنقیح و تقیید اہل علم برابر کرتے آئے ہیں۔پس اگر عصمت انبیاء میں قاضی صاحب نے اجتہاد کی بنیاد پر ایک مسلک اختیار کیا ہے،اور وہ عقل کے معارض نہیں۔تو پھر ”نقل“کا بہانہ لے کر اس کی تردید قرین انصاف نہیں۔

 

خود علامہ نے کئی”نقل“کے مسائل اپنی تصیحات کی”نذر“کیے ہیں۔(۴)متعدد مسائل ایسے ہیں جن میں ”اخلاف“نے”اسلاف“سے اختلاف کر کے نیا قول اختیار کیا۔اور متأخرین نے اسی دوسرے قول کو رواج دیا۔کتابت حدیث۔اجرت علی الطاعۃ۔روایت حمزہ کے مسائل اس بارے میں معروف ہیں۔قاضی صاحب کا اختیار کردہ مسلک بھی اس تناظر میں دیکھ لیا جائے۔(۵)علامہ کا یہ دعویٰ ہی درست نہیں کہ یہ مسلک نقل کرنے میں قاضی صاحب متفرد ہیں۔علماء اشاعرہ کی ایک بڑی جماعت پہلے ہی اس نظریہ کی قائل ہے کہ انبیاء علیہم السلام بعد النبوۃ ہمہ قسم کے گناہ سے معصوم ہیں۔چنانچہ استاد ابو منصور البغدادی لکھتے ہیں:

 

اجمع اصحابنا علی وجوب کون الانبياء معصومين بعدالنبوة عن الذنوب کلها۔[109]

 

جب کہ علامہ ابن تیمیہ کے بقول اشاعرہ کامسلک یہ ہے:

 

ان القول بان الانبياء معصومون عن الکبائر دون الصغائر هو قول اکثر علماء الاسلام و جميع الطوائف حتی انه قول اکثر اهل الکلام...ان هذا قول اکثر الاشعرية،وهو ايضاً قول اکثر اهل التفسير والحديث والفقهاء۔[110]

 

دونوں عبارتوں کے تقابل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”بعد النبوۃ“عصمت مطلقہ کے بارے میں قاضی صاحب کی رائے میں کوئی تفرد نہیں ہے۔البتہ علامہ موصوف سے ضرور تسامح ہوا ہے۔

 

اب زیادہ سے زیادہ ”قبل النبوۃ“کی عصمت کے بارے میں قاضی صاحب کا تفرد نظر آرہا ہے۔تو اس بارے میں ملاحظہ ہو۔(۱)”معصیت“کا معصیت ہونا تو محقق ہی شارع کی تعیین اور شرع کے آنے کے بعد ہوتا ہے۔وہ امور جن کو شارع نے معصیت قرار دیا۔اگر ان کا ارتکاب بالفرض”قبل النبوۃ“ہو بھی گیا،تو بھلا کس حکم سے اس کو معصیت قرار دیا جارہا ہے؟۔[111](۲)”وقوع صغیرہ“کے عدم جواز کا قول قاضی صاحب سے قبل استاد ابو اسحاق الشیرازی کا بھی اختیار کردہ ہے۔[112](۳)علامہ نسفی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ائمہ سمرقند کا مسلک یہ منقول ہے کہ وہ ”زلّت“کا لفظ تک انبیاء کی شان میں نامناسب سمجھتے تھے۔[113](۴)شیخ ابو منصور ماتریدی کے ہاں انبیاء قبل النبوۃ و بعد النبوۃ ہمہ قسم کے گناہوں سے پاک ہیں۔اور شیخ موصوف قاضی صاحب سے(۲۰۰)سال قبل کے ہیں۔[114]بلکہ شیخ صاحب کا مقولہ ہے:

 

الانبياء احق بالعصمة من الملائكة۔[115]

 

لہٰذا اگر فرشتے صغائر تک سے معصوم ہوتے ہیں،تو انبیاء ان سے زیادہ حق دار ہیں۔(۵)علامہ ابن تیمیہ نے جو دعویٰ اجماع واکثر سلف کیا ہے۔اسی طرح علامہ تفتازانی نے بھی شرح العقائد میں کیا ہے۔[116]اس پر شارح فرہاروی لکھتے ہیں:

 

وتجوزالصغائر بالاتفاق فدعوی الاتفاق محل نظر۔[117]

 

(۶)علامہ موصوف عموماً دلائل کی قوت کو فوقیت دیتے ہیں۔چنانچہ بہت سے مسائل مثلاًصفات باری تعالیٰ،طلاق ثلاثہ،زیارت قبر نبوی،توسل وغیرہ مسائل میں انہوں نے”دلائل کی قوت“کے پیش نظر جمہور امت کی مخالفت کی ہے۔لیکن یہاں قاضی صاحب کی مخالفت میں آپ نے دلائل کی بجائے قاضی صاحب کو تقلید اشاعرہ پرلانے کی کوشش کی ہے،ظاہر ہے کہ یہ بات عقل قبول نہیں کرتی۔بلکہ قاضی صاحب علامہ موصوف سے دو صدی قبل ہونے کی وجہ سے زیادہ قریب الی السلف ہیں۔لہٰذا اختلاف کا حق بھی زیادہ رکھتے ہیں۔ (۷)امام قرطبی فرماتے ہیں:

 

وقال جمهور من الفقهاء اصحاب مالک و ابی حنيفة والشافعی:انهم معصومون من الصغائر،کلها کعصمتهم من الکبائر اجمعهاوقال الاستاد ابو اسحاق الاسفرائينی:اختلفوا فی الصغائر،والّذی عليه الاکثر ان ذٰلک غير جائز عليهم وصار بعضهم الی تجويزها،ولا اصل لهٰذه المقالة۔[118]

 

قرطبی اور اسفرائینی تصریح کر رہے ہیں کہ اکثر اہل علم اسلاف عصمۃ عن الصغائر کے بھی قائل ہیں۔ان اقوال کے ہوتے ہوئے علامہ آمدی کی نقل پر تکیہ و اعتماد کرنا بظاہر غیر معقول نظر آتا ہے۔[119] (۸)علماء متأخرین نے قاضی صاحب کے مسلک کو ہی ترجیح دی ہے۔اب متأخرین کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء صغائر و کبائر سے قبل النبوۃ و بعد النبوۃ،عمداً و سھواً معصوم ہیں۔بعض اہل علم نے صرف صغائر کے سھو اً صدور ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔بقیہ ساری صورتوں میں اتفاق ہے۔محقق ابن الھمام لکھتے ہیں:

 

واختلف فيه:فقيل تجب عصمتهم من الکبائر مطلقاً دون الصغائر عمداً،والمختار العصمة عنهما الاالصغائر غير المنفرة خطأ لو سهواً،ومن اهل السنة من منع السهو عليه۔[120]

 

عبارت میں تصریح ہے کہ یہ اہل السنۃ کا مسلک ہے۔اس کے برعکس علامہ ابن تیمیہ کا مسلک یہ ہے کہ ”انبیاء صرف تبلیغ کے معاملات میں معصوم ہیں“اور یہ کہ ”اقرار علی المعصیۃ سے محفوظ ہیں“۔[121]

 

(۹)قاضی صاحب دیگر اہل علم اور علامہ کی تحریرات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر قاضی صاحب کا مسلک،جمہور اہل علم کے موافق نہ ہو،تب بھی علامہ کے مقابلہ میں ان کا پیش کردہ مسلک درست اور جمہور کے قریب ہے۔جب کہ علامہ کا مسلک کسی بھی طرح جمہور کے قریب نہیں۔

 

درج بالا سطور سے معلوم ہوتا ہے کہ عصمت انبیاء علیہم السلام کے مسئلہ میں قاضی صاحب نے جمہور اہل علم سے ایک جزوی اختلاف کیا،جس میں ان سے قبل کے اہل علم بھی اور عقل و نقل بھی ان کے مؤید اور حجت ہیں۔لہٰذا اس مسئلہ میں ان پر اعتراض کرنا درست نہیں۔

 

(۲)امام ذہبی رحمہ اللہ:

دوسرے ناقد ”الشفاء“کے مشہور مؤرخ محدث امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ ہیں۔آپ نے قاضی عیاض کی مؤلفات کے تعارف میں لکھا:

 

قلت:تواليفه نفيسة،واجلّها و اشرفها کتاب الشفاء،لو لا ماقد حشاه بالاحاديث المقتلعة عمل امام لا نقد له فی فن الحديث ولا ذوق،والله يثنيه علی حسن قصده وينفع ”بشفاه “و قد فعل:وکذا فيه من التاويلات البعيدة الوان۔[122]

 

اس عبارت میں ذہبی نے قاضی صاحب پر دو اعتراض کیے ہیں۔

 

(۱)موضوع اور بے بنیاد باتوں کو حدیث بنا کر پیش کیا گیاہے۔گویا کہ علم حدیث کا کوئی ذوق ہی نہیں۔

 

(۲)اس میں تاویلات بعیدہ سے کام لیا گیا ہے۔

 

ذیل کی سطور میں ان اعتراضات کا تحقیقی جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

(۱)یہ بات واضح ہے کہ قاضی صاحب نے”الشفاء“میں جو احادیث رقم کی ہیں،وہ علی وجہ البصیرۃ لائے ہیں۔احادیث کے مراتب،صحت و ضعف اور موضوعات کے مباحث ان کے سامنے تھے،اجلّہ اہل علم نے ان کے مقام اور امامت فی الحدیث کا اعتراف کیا ہے۔لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کو ان روایات کی معرفت نہ تھی۔اور موضوعات پر ان کی نظر نہ تھی،یاموضوع روایات کے بارے میں ان کا نظریہ متساہلانہ تھا۔خود قاضی صاحب نے ”الشفاء“میں متعدد مقامات پر اشارات دیے ہیں کہ موضوعات اور کمزور روایات اہل علم کو کھٹکتی ہیں،جس پر وہ اعتراض کرتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں:

 

فامّا مالا يصح من هذه الاحاديث فواجب ان لا يذکر منها شئی فی حق اللّٰه سبحانه وتعالیٰ ولا فی حق الانبياء،ولايتحدث بها،ولا يتکلّف الکلام علی معانيها۔والصواب:طرحها؛وترک الاشتغال بها؛الّا ان تذکر علی وجه التعريف بانّها ضعيفة المقاد،واهية الاسناد۔[123]

 

عبارت میں تصریح ہے کہ قاضی صاحب انبیاء کی شان میں غیر صحیح احادیث واھی روایات کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ انہیں بیان ہی نہ کیا جائے،انہیں ترک کردینا چاہیے۔اب موضوعات کے احکام کا علم رکھتے ہوئے یہ گمان نہیں ہوسکتا،کہ انہوں نے عمداً موضوعات کو جگہ دی ہوگی۔

 

(۲)ایسی روایات لانے سے اہل علم کے ہاں جو رد عمل ہوتا ہے اس سے بھی قاضی صاحب واقفیت تامّہ رکھتے تھے۔فرماتے ہیں:

 

وقد انکر الاشياخ علی ابی بکر بن فورک تکلفه فی ”مثکله “الکلام علی احاديث ضعيفة موضوعة لا اصل لها،او منقولة عن اهل الکتاب الذين يلبسون الحق بالباطل؛کان يکفيه ان يطرحها و يغنيه عن الکلام عليها التنبيه علی ضعفها۔[124]

 

یقینا انہیں علم تھا،کہ ”الشفاء“میں ایسی روایات لانے سے بھی انہیں ان مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

(۳)اہل علم کے ہاں رواج یہ ہے کہ بعض امور میں دقت و پیچیدگی کی وجہ سے خود اس میں جانے کی بجائے دوسرے اہل علم پر اعتماد کر لیتے ہیں اور صحت و سقم کی ذمہ داری اسی پر ڈال دیتے ہیں۔مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری شریف میں کتاب التفسیر میں لغوی مباحث کی دقت و غموض کی وجہ سے ”ابو عبید ہ معمر بن مثنی“کی کتاب ”مجاز القرآن“پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کی تحقیقات نقل کردی ہیں۔[125]حالانکہ محققین کے ہاں اس میں کئی تسامحات ہیں۔لیکن اس کی ذمہ داری امام بخاری کی بجائے ابو عبید ہ پر دی جاتی ہے۔احادیث کی چھان بین بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔شاید قاضی صاحب نے اس کی حساسیت کی بنیاد پر احادیث کے بارے میں ”ابو الربیع سلیمان بن سبع السبتی“کی کتاب ”شفاء الصدور“پر اعتماد کیا ہے۔[126]لہٰذا احادیث کے بارے میں اعتراضات دراصل انہی پر لوٹتے ہیں۔نہ کہ قاضی صاحب پر۔

 

(۴)قاضی صاحب ”الشفاء“کی تحریر سے ۵۲۲ھ کو فارغ ہوچکے تھے۔بعد ازاں انہیں ۱۱ سال کم و بیش اس کی تدریس و روایت کا موقع ملا۔اپنے وقت کے نامور اہل علم نے ان سے استفادہ کیا،جن میں مشرق کے حافظ امیر المؤمنین فی الحدیث ابو طاہر السلفی ایسے شخص بھی شامل ہیں یہ مستبعد ہے کہ اتنے عرصہ میں قاضی صاحب نے کتاب میں ان خامیوں کے ہوتے ہوئے حکّ واضافہ نہ کیا ہو۔یا ان کے معاصرین خاموش رہے ہوں۔جن میں ابن العربی ایسے کلمہ گو بھی ہوں۔معلوم یہی ہوتا ہے کہ ان کے معاصرین،مغاربہ کا اس طویل عرصہ میں ان روایات پر نقد نہ کرنا صرف اسی بات کی دلیل ہے کہ ان روایات میں انہوں نے قاضی صاحب کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔

 

(۵)کثرت رواۃ بعددیار کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ بعض روات کے پاس ایسی روایات ہوں جو دیگر کے پاس نہ ہوں،اس پر مستزاد وہ جنگی تاریخ ہے جو اہل اسلام اور تاتاریوں کے مابین ہوئی،اور ان لوگوں نے لاکھوں کتب کو جلا ڈالا۔پس یہ عین ممکن ہے کہ ”الشفاء“کی تخریج کردہ روایات کی اسانید انہی حملوں کا شکار ہوئی ہوں۔جیسا کہ فقہی کتب میں موجود روایات حدیثہ پر بعض اجلّہ اہل علم نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے۔[127]

 

(۶)متعدد ایسے نظائر موجود ہیں جن میں کسی خاص شہر کے باسی لوگوں نے متعدد روایات کو اپنے مابین رکھا۔دیگر امصار کے لوگوں کے پاس وہ روایات نہیں ہوتی۔عین ممکن ہے کہ قاضی صاحب کی بیان کردہ روایات ان شہر میں مروج ہوں،اس پر قرینہ بھی یہی ہے کہ ان کے معاصرین نے ان پر کوئی جرح اس بارے میں نہیں کی۔علامہ مقری نے اس عذر کو بیان کیاہے۔لکھتے ہیں:

 

نعم!لاهل الاندلس غرائب،لم يعرف اهل المشرق النقاد مخرجها،مع اعترافهم بجلالة حفاظ الاندلس الذين نقلوها،کبقی بن مخلد وابن حبيب وغيرهما علی ما هوالمعلوم،حتی ان فی شفاء عياض احاديث لم يعرفها کثير من المحدثين۔[128]

 

(۷)علماء مشرق میں سے متعدد اہل علم جو امام ذہبی سے متقدم ہیں،نے بھی قاضی صاحب کی تالیفات پر اطلاع کے باوجود اس مسئلہ میں ان پر نقد نہیں کیا۔مثلاً امام ابن الصلاح،جنہوں نے قاضی صاحب کی کتاب ”مشارق الانوار“کی تعریف میں کہا: مشارق انوار،تجلت بسبتة::وذا عجب،کون المشارق بالغرب۔[129]لیکن ”الشفاء“کی روایات کے بارے میں ان کا نقد نہیں۔ان اہل علم کا سکوت بھی ایک نوع کی دلیل ہے۔

 

(۸)موضوع روایات“مستدل اور قابل بیان ہیں؟یا نہیں؟مشہور تو یہی ہے کہ یہ قابل بیان نہیں ہیں۔لیکن حافظ ابن حجر اور ان سے قبل ابن عبدالبر کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ”موضوع جب حکم شرعی سے خالی ہو،اور اصول شرع سے معارض نہ ہو تو اس کو لایا جاسکتا ہے۔ملاحظہ ہو:

 

٭علامہ ابن عبدالبر اندلسی”الاستیعاب“میں رقمطراز ہیں:

 

اسناد هذا الحديث ضعيف،ولو کان فيه حکم لم اذکره،لان من رواته مجهول،وعمارة بن زيد احد من اتهموه بوضع الحديث،لکنه فی ما علم من اعلام النبوة والاصول فی مثله لا تدفعه بل تشهد له و تصححه ۔[130]

 

٭حافظ ابن حجر نے ”الاصابۃ“میں اس کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

 

يستفاد من هذا انه تجوز رواية الحديث الموضوع اذا کان لهٰذين الشرطين الا يکون فيه حکم،وان تشهد له الاصول وهو خلاف مانقلوه من الاتفاق علی عدم الجوازذلک،ويمکن ان يقال ذکر هذا الشرط من جملة البيان. [131]

 

دونوں عبارتوں کا حاصل ہے کہ موضوع روایت کو بیان کرنا درست ہے جب کہ اس میں حکم شرعی موجود نہ ہو،اور وہ شریعت کے کسی اصول سے متصادم بھی نہ ہو۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قاضی صاحب کی بیان کردہ ”موضوعات“معنوی لحاظ سے درست ہیں۔کتب موضوعات میں محدثین خود کئی روایات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:لفظه موضوع ومعناه صحيح۔[132]حتی کہ خود امام ذہبی نے بھی اسی طرح کی تصریح کی ہے۔ان کے الفاظ ہیں:

 

الويل کل الويل لمن ترک عياله بخير ووقدم علیٰ ربه بشرٍهذا،وان کان معناه حق،فهو موضوع۔[133]

 

(۳)تیسرا اعتراض اور محاکمہ:

امام ذہبی نے ایک اعتراض یہ کیا کہ ”الشفاء“میں تاویلات ہیں۔یہ بات ان کے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ذیل میں اس حوالہ سے چند معروضات پیش خدمت ہیں:(۱)جمہور اہل علم تاویل کے جواز،اس کے وقوع کے قائل ہیں،تاویل فی الآیات ہو یا فی الاحادیث،فی الصفات ہو یا فی غیر الصفات،صحابہ کرام،کبار تابعین،ائمہ کبار،محدثین،فقہاء،اور متکلمین و صوفیا کے ہاں اس کی تصریح موجود ہے۔مثلاً

 

حضرت ابن عباس،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنھما،عکرمہ،قتادہ،امام احمد،ترمذی،بیہقی،ابن حبان،خطابی،قرطبی،علامہ کرمانی،ابن منیّر،راغب اصفہانی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ کے ہاں تاویل بالصراحۃ ملتی ہے۔اس سلسلہ میں مزید اکابرین کے حوالہ جات ”القول التمام“میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔[134]

 

(۲)امام ذہبی،علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں،علامہ کے تلامذہ میں ان کے تفردات کا اثر ہے،یہ بھی اس کا حصہ ہے

 

(۳)اس میں شک نہیں کہ اسلاف سے یہ حضرات تاویل کی مخالفت میں اقوال لائے ہیں،لیکن اسلاف کی اغراض و مقاصد مختلف تھے،وجوہات و اسباب بھی مختلف تھے۔عموماً اہل باطل کی کسی تاویلات کا انکار ان کی مراد تھی۔نہ کہ اہل حق کی تاویلات۔

 

مولانا فرہاروی رقمطراز ہیں:

 

وهم يخصون ذم تاويل المتشابه بمن ياوله علی وفق بدعته کالمشبهة۔[135]

 

"اہلسنت کے ہاں جو تاویل کی مذمت ہے اس کا محمل اہل بدعت کی سی تاویل ہے۔"

 

(۴)متقدمین میں سے جن اہل علم نے تاویل کی مخالفت کی ہے ان ہی کے اقوال میں تاویل ثابت بھی ہے،کسی سے اس طرح منقول نہیں کہ تاویل ہر مقام پر غلط ہو۔

 

(۵)جن اہل علم سے تاویل کی تردید منقول ہے وہ وہ تردید برائے ”تفویض“ہے،علامہ ابن تیمیہ وغیرہم کے ہاں جو تردید ہے وہ برائے”اجراء النص علی الظاهر المحض“ہے۔

 

(۴)چوتھا اعتراض:

قاضی صاحب پر چوتھا اعتراض علماء شافعیہ کی طرف سے ہے کہ انہوں نے امام شافعی کے مسلک دربارہ صلاۃ علی النبیﷺ پر شدید نقد کیا ہے۔ائمہ اربعہ میں سے صرف امام شافعی کی یہ رائے ہے،کہ تشھد میں درود شریف کا پڑھنا فرض ہے۔دیگر حضرات اس کے قائل نہیں۔[136]یہ اعتراض درج ذیل اہل علم سے منقول ہیں:

 

(۱)حافظ قطب الدین خیضری نے”زہر الریاض“کے نام سے رد لکھا۔(۲)علامہ سخاوی نے حافظ عراقی سے نقل کیا:

 

قد سمعت غير واحد من مشائخنا ينکرون علی القاضی عياض انکاره علی الشافعی،ونسبته الی الشذوز بذٰلک۔

 

(۳)علامہ شھاب قسطلانی۔(۴)احمد بن عبدالحئی حلبی۔[137]

 

محاکمہ:

قاضی صاحب نے ”الشفاء“میں ”حکم الصلاۃ علی النبیﷺ“کے متعلق جو لکھا ہے۔اس کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے امام شافعی کی کوئی گستاخی نہیں کی بلکہ انہوں نے مہذب الفاظ میں ان کا مسلک نقل کیا ہے۔ [138]

 

(۱)قاضی صاحب کی عبارت سے کہیں بھی امام شافعی کے حق میں سوء ادب کا شائبہ نہیں ہے۔یقینا انہوں نے متعدد اہل علم کی عبادات میں امام شافعی کے مؤقف کا رد ملاحظہ کیا ہوگا جسے انہوں نے سپرد قرطاس کردیا۔

 

(۲)علماء شافعیہ کے ہاں بالخصوص مسلکی حساسیت زیادہ ہے اس کے کئی مظاہر ان کے ہاں ملتے ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ مجددین صرف علماء شافعیہ ہوسکتے ہیں۔چنانچہ سیوطی نے ایک نظم میں ان مجددین کو جمع کیا ہے صرف شافعیہ ہی کو لائے ہیں۔[139]

 

(۳)خود امام شافعی ؒ کی اپنی تحریرات میں حنفیہ کے بارے میں جو شدت ہے،اس سے قاضی صاحب کی عبارت کا تقابل کر کے دیکھ لیا جائے کہ سختی اور تشنیع کس کا نام ہے۔

 

امام شافعی”الرسالۃ“ ”الام“ میں یہ بتاتے نظر آتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ احادیث و آثار کے بڑے عالم نہ تھے۔ان کے خیال میں اس بات کا اعتراف امام محمد نے بھی کیا۔

 

درج ذیل وجوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی صاحب پر اعتراض مذکور صرف مسلکی نقطہ نظر کے پیشِ نظر ہے۔

 

(۵)پانچواں اعتراض:

اس اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ قاضی صاحب نے کچھ ایسے الفاظ کتاب میں لیے ہیں جو کہ منصب نبوت کے لائق نہیں۔

 

۱۔مثلاً کتاب کے نام میں ”تعریف“کا لفظ درست نہیں،کیوں کہ ”تعریف“ان امور کی ہوتی ہے جو مخفی ہوں محتاج تعریف و بیان ہوں۔جبکہ آنحضرت ﷺ کے مقام و مرتبہ وحقوق میں کوئی خفا نہیں۔لہٰذا یہ لفظ نہ ہونا بہتر تھا۔[140]

 

۲۔اسی طرح قاضی صاحب نے”الشفاء“میں لکھا:

 

واما تواضعه علی علو منصبه،فکان اشد الناس تواضعاو اقلهم کبراً۔[141]

 

مخطوطہ لفظ کو آپ ﷺ کی شان میں کوتاہی قرار دیا گیا ہے۔[142]

 

۳۔کتاب کے آخر میں قاضی صاحب نے لکھا ہے:

 

ويخصّنا بخصيهتی زهرة نبينا صلی اللّٰه عليه وسلم۔ [143]

 

مخطوطہ لفظ پر اعتراض کیا گیا،کہ یہ تثنیہ ہے؟یا پھر آخر میں الف مقصورہ ہے؟۔ایک ہی نوعیت کے یہ تین اعتراض ہوئے۔

 

محاکمہ:

(۱)پہلے اعتراض کی رکاکت واضح ہے۔اس کی حیثیت تدقیق لغوی سے زیادہ نہیں ہے۔احادیث کی کتب میں نبی کریم کے اوصاف،احوال،کا بیان اس لئے کیا جاتا ہے،کہ غیر متعارفین اس کی تحصیل کریں...یہی قاضی صاحب نے کیا ہے۔

 

(۲)دوسرے اعتراض کا رد بالتفصیل حافظ ابن حجر ؒ نے کیا ہے۔اس کو نقل کرکے اس پر اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

 

(۳)تیسرے اعتراض کو حافظ سخاوی نے بالتفصیل رد کیا ہے۔

 

سفارشات:

راقم السطور آخر میں چند سفارشات بھی تحریر کرتا ہے،جس سے قاضی صاحب کے بارے میں مطالعہ کی نئی جہات کی طرف روشنی پڑے گی۔

 

(۱)قاضی صاحب کے معاصرین اور تلامذہ واساتذہ کو مستقل موضوع بنایا جاسکتا ہے۔

 

(۲)”الشفاء“کے مصادر پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

 

(۳)”الشفاء“پر تحقیقی تخریج کی ضرورت ہے۔

 

(۴)”الشفاء“میں موجود قاضی صاحب کی ذاتی آراء کی جمع و تدوین پر کام ہوسکتا ہے۔

 

(۵)قاضی صاحب کے تسامحات پر بھی قلم اٹھایا جا سکتا ہے،مثلاً ”الشفاء“میں انہوں نے لکھا:کہ امام شافعی تشھد ابن مسعود کے قائل ہیں۔[144]

 

حالانکہ شافعہ کے ہاں ابن عباس کا تشھداختیار کردہ ہے۔[145]

 

(۶)”الشفاء“کی تبویب پر کلام ہوسکتا ہے۔کیونکہ کتاب ان موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

 

(۷)”الشفاء“میں موجود مباحث کا،”الشفاء“کی تالیف سے قبل اور مابعد کے مصادر میں مطالعہ اوران پر”الشفاء“کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

 

(۸)”تاریخ اندلس“میں خصوصاً،اور دیگر کتب تاریخ میں عموماً ”الشفاء“کے روات و اسانید کی جمع و تدوین پر کام ممکن ہے۔

 

(۹)”الشفاء“مشرق میں کیسے پہنچی؟کون لایا؟اس پر کام ہوسکتا ہے۔

 

(۱۰)قاضی صاحب کے اسفار کی تفصیلا ت پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

 

(۱۱)قاضی صاحب کے معاصرین نے تحصیل علم کے لئے مشرق کی طرف رخت سفر باندھے۔مقری نے”نفح الطیب“میں مستقل طور پر ایک باب میں ان اہل علم کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے مشرقی اسفار کیے۔ان میں بہت سے لوگ قاضی صاحب کے معاصرین تھے۔لیکن قاضی صاحب نے مشرق کی طرف سفر کیوں نہیں کیا؟اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

 

(۱۲)....قاضی صاحب کو ادب میں خوب دستگاہ تھی۔مقری نے ان سے ایک خطبہ نقل کیا ہے،جس میں قاضی صاحب نے قرآن مجید کی سورتوں کے اسماء جمع کردیئے ہیں۔[146]

 

لیکن اس ادبی دستگاہ کے باوجود ”یاقوت حموی“نے ”معجم الادباء“میں ان کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔کیوں؟

 

حوالہ جات

  1. الکتانی،عبدالحئی بن عبدالکبیر،فہرس الفہارس والاثبات (دار المغرب الاسلامی، بیروت ، ۱۴۲۰ھ )،۲/۸۰۰
  2. مقری تلمسانی،احمد بن محمد،ازھار الریاض، (المطبعۃ الفضالۃ ،بیت المغرب،بیروت،۱۴۲۳ھ)، ۱/۲۴
  3. مقری تلمسانی ،ازھار الریاض، ۱/۲۴
  4. ابن خلکان ، احمد بن محمد،وفیات الاعیان( دارصادر، بیروت ،۱۳۹۸ھ )،۳/۴۸۳
  5. الذہبی،محمد بن احمد شمس الدین،سیر اعلام النبلاء( بیت الافکار، الدولیۃ،لبنان ، ۲۰۰۴م)،ص:۲۹۸۳،رقم الترجمۃ:۴۳۸۴
  6. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۱/۲۵
  7. ہارون،عبدالسلام محمد،کناشۃ النوادر،(مکتبۃ الخانجی، قاہرہ، ۱۴۰۵ھ) ،۱/۲۱
  8. ابن خلکان،وفیات الاعیان،۳/۴۸۵
  9. مقری تلمسانی،ازھار الریاض، ۱/۲۷
  10. الذہبی سیراعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  11. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۱/۲۸
  12. الذہبی،محمد بن احمد،الامصار ذوات الآثار( دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت،۱۴۰۶ھ)،ص: ۱۹۱۔۱۸۴
  13. الشریقی،محمد ابراہیم، (التاریخ الاسلامی، البشریٰ ، کراچی ، ۱۴۳۴ھ )،ص : ۱۲۷
  14. الذہبی ،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  15. رستم،محمد زین العابدین،بیوتات العلم والحدیث فی الاندلس( دار ابن حزم ،بیروت،۱۴۳۰ھ)، ص: ۸۷
  16. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۳/۸
  17. ن۔م
  18. مقری تلمسانی،ازھار الریاض ،۳/۱۰
  19. ن۔م
  20. الکتانی ،فہرس الفہارس ،۲/ ۷۹۸
  21. مقری تلمسانی ،ازھارالریاض ،۳/۹۵
  22. ن۔م،ص : ۵۴۔۱۶۱
  23. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  24. مقری تلمسانی ازھار الریاض،۳/ ۹
  25. الکتانی،فہرس الفہارس ،۲/ ۲۷۹
  26. الکتانی،عبدالحئی،الرسالۃ المستطرفۃ( دار المغرب الاسلامی، بیروت ، ۱۴۲۰ھ )،ص:۱۴۱
  27. الذہبی،سیر اعلام النبلاء،ص: ۲۹۸۳
  28. الکتانی،فہرس الفہارس ، ج:۲،ص:۷۹۸
  29. مخلوف،محمد بن محمد،”شجرۃ النورا لزکیہ( دار الکتب العلمیہ،بیروت،۲۰۱۰م)، ۱/۲۰۵
  30. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  31. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۳/۱۱
  32. ن۔م ،۳/۳۲
  33. چلپی،حاجی خلیفہ،مصطفی بن عبداللہ،سلم الوصول الی طبقات الفحول،(شرکۃ یلذر،استنبول ،۲۰۱۰م) ،۲/ ۴۳۲
  34. الکتانی،فہرس الفہارس،۲/ ۷۹۹
  35. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  36. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۳/۹۰
  37. ن۔م
  38. ن۔م،۳/۹۱
  39. ن۔م ، ۲/۸۰۲
  40. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۳/۲۱
  41. کنّون،عبداللہ،النبوغ المغربی فی الادب العربی، ن،س،ن ،۲/۳۲۷،۳۴۷،۴۶۰،۵۹۱،۳/ ۶۷۸،۷۲۱
  42. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  43. ن۔م ،ص:۲۹۸۳
  44. ابن خلکان،وفیات الاعیان،۳/ ۴۸۳
  45. الیافعی،عبداللہ بن اسعد،قراۃ الجنان و عبرۃ الیقظان(دار الکتب العلمیۃ،بیروت ، ۱۴۷۱ھ) ۳/ ۲۱۶
  46. العصری،سیف بن علی ،القول التمام باثبات التفویض مذہباً للسلف الکرام( دار الفتح للدرسات والنشر،عمان،اردن ،۲۰۰۸م)،ص:۲۱۰
  47. ابن السبکی،عبدالوھاب،طبقات الشافعیۃ الکبریٰ( دار الکتب العلمیہ،بیروت،۲۰۱۰م)،۲/ ۲۶۸
  48. ابن السبکی، طبقات الشافعیۃ الکبریٰ،۲/ ۲۶۸
  49. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۵/ ۷۹
  50. ن۔م،ص:۸۰
  51. ن۔م
  52. ن۔م،۵/ ۸۱
  53. الکتانی،فہرس الفہارس،۲/ ۸۰۴
  54. رستم،بیوتات العلم والحدیث فی الاندلس،ص:۸۷
  55. ن۔م
  56. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۵/ ۱۸
  57. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  58. یافعی،عبد اللہ بن اسعد،امام،مرأۃ الجنان(دارالکتب العلمیہ ،بیروت،۱۹۹۸م)، ۳/۲۱۶
  59. ابن خلکان،وفیات الاعیان،۳/ ۴۸۳
  60. ن۔م
  61. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  62. الکتانی،فہرس الفہارس، ۲/۱۰۸
  63. الکتانی،الرسالۃ المستطرفۃ،ص: ۱۴۱
  64. مخلوف،شجرۃ النور الزکیۃ،۱/ ۲۰۵
  65. ن۔م
  66. الکتانی،الرسالۃ المستطرفۃ،ص: ۱۴۱
  67. مرعثلی،یوسف بن عبدالرحمن،مصادر الدراسات الاسلامیہ( دارالبشائر الاسلامیہ،بیروت ،۱۴۲۷ھ )، ۱/۲۵۷
  68. یافعی،مراۃ الجنان،۳/ ۲۱۶
  69. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  70. الکتانی،الرسالۃ المستطرفۃ،ص:۶۰۱
  71. رستم،بیوتات العلم والحدیث فی الاندلس،ص:۹۸
  72. ابن بطوطہ،محمد بن عبداللہ،تحفۃ النظار فی غرائب الامصار وعجائب الاسفار(داراحیاء العلوم،بیروت ،۱۴۰۷ھ )،۱/ ۱۳۷
  73. السخاوی، عبدالرحمن،الانتھاض فی ختم الشفاء لعیاض( دارالبشائر الاسلامیہ،بیروت ،۱۴۲۲ھ)ص:۷۳
  74. پہلی طباعت ڈاکٹر احمد بن عثمان کی تحقیق سے”مدار الوطن للنشر“سعودیہ،۱۴۳۸ھ،سے دوسری عبدہ علی کوشک کی تحقیق سے”جائزۃ دوبی امدولیۃ“دبئی،۱۴۳۴ھ سے شائع ہوئی،مضمون میں ”الشفاء کے حوالہ جات اس دوسری طبع سے دئیے جائیں گے۔
  75. قاضی عیاض مالکی ،الشفاء،ص:۴۹
  76. قاضی عیاض ،الشفاء،ص:۴۷
  77. ن۔م
  78. ن۔م، ص:۳۰۷
  79. مقدمۃ الشفاء، ص: ۹
  80. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۵/ ۸۱
  81. القسطلانی،احمد بن محمد،المواھب اللدنیۃ(المکتب الاسلامی،بیروت ،۱۴۲۵ھ )،۱/ ۴۵
  82. الکتانی،الرسالۃ المستطرفۃ،ص:۱۰۶
  83. القسطلانی،المواھب اللدنیہ،۱/۴۵
  84. المقریزی، احمد بن علی،درر العقود الفریدہ، دار الغرب الاسلامی،بیروت ،۱۴۲۳ھ ،۱/ ۱۰۷
  85. ن۔م،۱/۸۷۔۸۶،۳/۳۶
  86. الذہبی،سیر اعلام النبلاء ،ص:۲۹۸۳
  87. الکتانی ، عبد الحی،المدخل الی کتاب الشفاء( دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۱۴۳۶ھ )،ص:۲۷۱۔۲۷۷
  88. ن۔م،ص:۲۷۴
  89. الفلانی ،صالح بن محمد ،قطف الثمر فی رفع اسانید المصنفات فی الفنون والاثر(م ن، دکن،۱۳۲۸ھ )،ص:۳۵
  90. الکتانی،المدخل الی کتاب الشفاء،ص: ۱۵۳
  91. الکتانی،المدخل الی کتاب الشفاء،۷۸۱
  92. ن۔م،ص:۲۸۷
  93. ن۔م،ص:۱۲۵
  94. ن۔م،ص:۱۷۵۔۱۷۳
  95. ن۔م،ص:۱۷۶
  96. ن۔م، ص:۲۴۲
  97. ن۔م
  98. ن۔م،ص:۱۵۶
  99. الفرہاروی،عبدالعزیز،النبراس(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۰ء )،ص:۳۶۰
  100. حقیقت کے لحاظ سے نقص ہونا یہ ہے کہ نفس الامر اور واقعہ کے خلاف کوئی بات ہو۔مثلاً آیت وحدیث غلط تحریر کردینا،مسلک غلط نقل کردینا،عمومی مشاہدہ کے برخلاف تحریر کرنا۔اور اضافت کے لحاظ سے نقص یہ ہے:کہ صاحب تحریر کی تحقیق سے اختلاف کرنا،جو چیز اس کے ہاں بالدلائل درست ہو۔دوسرے کے ہاں وہی بالدلائل نادرست ہو۔
  101. الحرانی ،ابن تیمیہ،احمد بن عبدالحلیم،مجموع الفتاویٰ( اوقاف،سعودیہ،۲۰۱۱م)،۴/ ۳۱۹
  102. ن۔م
  103. ن۔م
  104. قاضی عیاض ،الشفاء،ص: ۶۶۷
  105. ن۔م،ص: ۶۶۸
  106. ن۔م
  107. سبکی،تاج الدین،طبقات الشافعیہ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۱۰ء،۴ /۴۲۹
  108. عثمانی،محمدتقی،اکابر دیوبند کیا تھے؟( ادارۃ المعارف،کراچی ،۲۰۱۰ء )،ص:۴۰
  109. البغدادی ،ابو منصور،اصول الدین(م ن،استنبول،۱۳۴۶ھ )،ص:۱۶۹
  110. الحرانی ،ابن تیمیہ ،مجموع الفتاویٰ،۴/ ۳۱۹
  111. مزید یہ کہ اس وقت تو ”تکلیف“کابھی وجود نہیں ہوتا؟لہٰذا اس کو معصیت کہنا ہی محل نظر ہوا،ہاں ”امور قبیحہ“کالفظ مناسب ہوسکتا ہے۔یااس طرح کاکوئی دوسرالفظ،جومعصیت سے کم درجہ کا ہو۔
  112. تتان،عبدالکریم وکیلانی،محمد اریب،جوھرۃ التوحید فی عقیدۃ اہل السنۃ(دارالبشائر،دمشق،۱۴۱۹ھ)،۲/۷۳۳
  113. فرہاروی،النبراس،ص:۲۸۴
  114. ن۔م
  115. ن۔م
  116. ن۔م،ص:۳۸۲
  117. ن۔م
  118. سید شریف،و صبیح،محمد سید،فتاویٰ ابن تیمیہ فی المیزان(مرکز اہل السنۃ برکات رضا گجرات،ہندوستان،۱۴۲۳ھ )،ص:۴۲۲
  119. الحرانی، ابن تیمیہ ،مجموع الفتاویٰ،۴/ ۳۱۹
  120. ابن الھمام،عبدالواحدبن کمال،المسایرۃ فی الکلام( مطبعہ محمودیہ،مصر،الطبعۃ الاولیٰ،۲۰۰۶ء )، ص:۱۲۸۔۱۲۷
  121. الحرانی، ابن تیمیہ ،مجموع الفتاویٰ، ۱۰/ ۲۹۳۔۲۹۲
  122. الذہبی،سیر اعلام النبلاء،ص:۲۹۸۳
  123. قاضی عیاض ،الشفاء ،ص:۸۰۸
  124. ن۔م
  125. الکشمیری،انور شاہ،فیض الباری(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۵ء)،۵/ ۱۸۵
  126. الکتانی،الرسالۃ المستطرفۃ،ص:۱۰۶
  127. ڈھاکوی،شیخ عبدالمالک،المدخل الی دراستہ الحدیث الشریف(م ن، بنگلہ دیش ، س ن) ،ص:۳۹
  128. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۴/ ۳۴۳
  129. المقری،احمد بن محمد،نفح الطیب من غصن الاندلس الرطیب( دار صادر،بیروت،۱۳۸۸ھ )،۲ /۸
  130. الکتانی،المدخل الی کتاب الشفاء ،ص:۲۰۱
  131. ن۔م
  132. القاری،ملاعلی،الموضوعات الکبیر( قدیمی کتب خانہ،کراچی،۲۰۱۰ء)، ص:۵۴
  133. الذہبی،محمد بن احمد،میزان الاعتدال(مکتبہ اسلامیہ ،گوجرانوالہ،۲۰۱۱ء )،۳/ ۳۸۵
  134. عطاء،محمد سفیان،صفات متشابہات(مکتبہ فاروقیہ،کراچی،۱۴۳۶ھ )،ص:۴۴۵۔۴۰۵
  135. فرہاروی،النبراس،ص:۱۲۰
  136. قاضی عیاض،الشفاء،۷۴۵
  137. الکتانی،المدخل الی کتاب الشفاء،ص:۱۹۷۔۱۱۲
  138. قاضی عیاض ،الشفاء،ص:۵۴۸۔۵۴۷
  139. مقری تلمسانی،ازھار الریاض،۳/ ۵۷
  140. السخاوی،شمس الدین ،الجواہر والدررفی ترجمۃ شیخ الاسلام ابن حجر(دار ابن حزم ،بیروت،۱۴۱۹ھ) ، ۳/۱۲۵۳
  141. قاضی عیاض،الشفاء،ص:۳۸۸
  142. السخاوی،الجواہر والدرر، ،۲/ ۹۵۱
  143. قاضی عیاض،الشفاء،ص:۳۸۸
  144. قاضی عیاض،الشفاء،ص:۵۴۹
  145. العسقلانی،احمد بن علی،ابن حجر،فتح الباری( دار الکتب العلمیہ ، بیروت،۲۰۱۳م )،۳ /۵۹
  146. مقری تلمسانی،نفح الطیب، ۷/۳۳۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...