Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 2 of Islamabad Islamicus

پاکستان میں غیر مسلموں کے جان و مال کا تحفظ، قرآن وسنت کی روشنی میں خصوصی مطالعہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060033219_1259

Pages

46-69

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Article3.pdf

Subjects

Non-Muslims Protection Property Rights Minorities.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

This fact is quite obvious from Quran o Sunnah that Islam is a religion of peace and provides guarantee of protection of life, property and self respect to the all members of society without any discrimination of colour, race and religion. It is the duty of an Islamic State to provide protection to the basic rights of all minorities. Holy Prophetﷺ said:"Beware! Whoever is cruel and harsh to a non-muslims minority, curtailing their rights, overburdening them or stealing from them, I will complain (to God) about that person on the day of judgement." Islam seeks to establish such a society where all citizens of the state enjoy equal rights and religion doesn't become the basis from any discrimination. Islamic law holds both muslims and non-muslims equal and no superiority or privilege is given to the muslims on any ground. The constitution of Pakistan provides protection to the all basic rights of minorities. Quaid-e -Azam himself assured minorities of their equal rights as a responsible leader of an Islamic State. Quaid-e-Azam was well aware that peace and prosperity of an Islamic State is hidden in it. The constitution of Pakistan doesn't allow any kind of aggression against minorities. It is reality that minorities are enjoying their basic rights more as compared to all other countries. Pakistan is being blamed for many years but there is no reality in it. The basic rights of minorities in Pakistan are tried to discuss in this article.

اسلام دینِ اَمن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو،جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے حتیٰ کہ ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے۔اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں. اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے، جو انہیں ہر قسم کے خارجی اور داخلی ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوگا تاکہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں ۔دینِ اسلام نے جتنا اقلیتوں کے حقو ق پر زور دیا ہے اور ان کو تحفظ فراہم کیا ہے، دنیا کے کسی مذہب یا قانون نے اتنا تحفظ نہیں دیا۔ قدیم مصر، یونان،روم، بابل ، عرب اور دیگر ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ کس قدر انسانیت سوز سلوک کیا جاتاتھا۔ دین اسلام ہی ہے جس نے مظلوم لوگوں کی داد رسی کی اور ان کے تحفظ کے لیے قوانین وضع کیئے۔

 

قرآن و سنت کی روشنی میں غیرمسلموں کے جان ومال کا تحفظ:

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے۔کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو قتل کرے۔قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا﴾[1]

 

"جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔"

 

اس آیت کریمہ میں نَفْسًا کا لفظ عام ہے، لہٰذا اس کا اطلاق بھی عموم پر ہوگا. یعنی کسی ایک انسانی جان کا قتلِ ناحق - خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو اور دنیا کے کسی بھی ملک یا علاقے کا رہنے والا ہو - قطعاً حرام ہے اور اس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے. لہٰذا مسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا. اس کی تصریح احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

 

فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم۔[2]

 

"بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے. یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے۔"

 

لہٰذا کسی بھی اِنسان اور کسی بھی مذہب کے پیروکار کو ناحق قتل کرنا، اُس کا مال لوٹنا، اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کے مرتکب شخص کو الم ناک سزا کی وعید سنائی گئی ہے. قرآن و حدیث کے متعدد دلائل و براہین سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسلام نے کس طرح غیر مسلم شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تلقین کی ہے۔حضور سرورِ کائنا ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے. اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو ظلم و زیادتی سے تحفظ کی ضمانت دے. اگر اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم شہری پر ظلم ہو اور ریاست اسے انصاف نہ دلا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کے روز ایسے مظلوم لوگوں کا وکیل بن کر انہیں ان کا حق دلوانے کا اعلان فرمایا ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ [3]

 

"خبر دار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اُس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اُس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔"

 

ایک اور حدیث حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

مَنْ آذی ذِمِّيا فَأَنَا خَصْمه، وَمَنْ کُنْتُ خَصْمهُ خَصَمْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَة۔[4]

 

"جس نے کسی غیر مسلم شہری کو تکلیف پہنچائی تو میں اس کا وکیل ہوں گا اور جس کا میں فریق ہوں گا تو قیامت کے دن اس پر غالب آجاؤں گا۔"

 

آیاتِ قرآنی اور اَحادیثِ مقدّسہ کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی غیر مسلم شہری کو محض اس کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر قتل کر دے ۔اسلام غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

 

1۔غیر مسلموں کی جان کا تحفظ :

اسلام تمام انسانوں کو عزت وتکریم عطا کرتا ہے اور جان کے تحفظ کا ضامن بھی ہے ۔اسی ضمن میں غیر مسلم شہریوں کےقتل کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو قتل کرے۔

 

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا﴾[5]

 

"جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

 

احادیث مبارکہ میں بھی غیرمسلموں کی جان کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے ۔چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ کُنْهِهِ، حَرَّمَ اﷲُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.[6]

 

"جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔"

 

ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 

مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيْحَهَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ اَرْبَعِيْنَ عَامًا.[7]

 

"جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔"

 

گویا کسی غیر مسلم کا ناحق قتل کرنے والا جنت کے قریب بھی نہیں جا سکے گا بلکہ اسے جنت سے چالیس برس کی مسافت سے بھی دور رکھا جائے گا.

 

علامہ انور شاہ کاشمیری فیض الباری میں اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

"آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے کسی غیر مسلم شہری کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا.‘‘ اے مخاطب! حدیث کا لبِ لباب تجھے قتلِ مسلم کے گناہ کی سنگینی بتا رہا ہے کہ اس کی قباحت کفر تک پہنچا دیتی ہے جو جہنم میں خلود کا باعث بنتا ہے، جبکہ غیر مسلم شہری کو قتل کرنا بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے. اسی طرح اس کا قاتل بھی جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ڈالا جائے گا)۔[8]

 

(الف)سفارت کاروں کی جان کا تحفظ:

اسی طرح غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن و رواداری کا درس دیتا ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بدترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لیے آئے تو اس کا قتل حرام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کئی مواقع پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ہمیشہ خود بھی حسنِ سلوک فرمایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کو بھی یہی تعلیم دی۔ حتیٰ کہ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے نمائندے آئے جنہوں نے صریحاً اعترافِ اِرتداد کیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سفارت کار ہونے کے باعث ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئے۔

 

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبد اللہ بن نواحہ) اور ایک اور آدمی مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے (اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے) کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے (معاذ اﷲ). حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کمال برداشت اور تحمل کی مثال قائم فرماتے ہوئے ارشاد) فرمایا: میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں. اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا (مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہ کیا اور انہیں جان کی سلامتی دی)۔"[9]

 

غور کیجئے کہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے اعلانیہ کفر و ارتداد کے باوجود تحمل سے کام لیا گیا، کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی، نہ ہی انہیں قید کیا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا. صرف اس لیے کہ وہ سفارت کار (diplomats) تھے. بعض روایات میں رَسُوْلاً کا لفظ آیا ہے یعنی اکیلا سفارت کار ہو یا سفارتی عملہ ہو، ہر دو صورتوں میں ان کا قتل جائز نہیں ہے.

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد اور آپ کے عمل مبارک سے یہ امر پایہءِ ثبوت کو پہنچ گیا کہ غیر ملکی نمائندوں اور سفارت کاروں کی جان کی حفاظت کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

 

(ب ) مذہبی رہنماؤں کی جان کا تحفظ :

جس طرح غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کو حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح غیر مسلموں کے مذہبی رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے:

 

کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ: لَا تَغْدِرُوا وَلَا تَغُلُّوْا وَلَا تُمَثِّلُوْا وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ==.[10]

 

"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے: غداری نہ کرنا، دھوکا نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا۔"

 

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کے مذہبی رہنماؤں کا قتل عام حالات کے علاوہ دورانِ جنگ بھی جائز نہیں ہے۔

 

(ج ) کسی اور غیر مسلم کے بدلے جان کا تحفظ :

قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ جس نے ظلم کیا حسبِ دستور بدلہ اور سزا کا وہی مستحق ہے، اس کے بدلے میں کوئی دوسرا نہیں۔ اس کے جرم کی سزا اس کے اہل و عیال، دوستوں یا اس کی قوم کے دیگر افراد کو نہیں دی جا سکتی۔ ارشادِ ربانی ہے:

 

﴿وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَاج وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ج ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ﴾[11]

 

"اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا. پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت) سے آگاہ فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔"

 

اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ پر امن شہریوں کو دوسرے ظالم افراد کے ظلم کے عوض سزا دے۔ امام ابویوسف فرماتے ہیں :

 

"کسی( امن پسند غیر مسلم ) شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے عوض کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔"[12]

 

لہٰذا ایسے دہشت گرد افراد جو انتقاماً مخالف قوم کے افراد کو قتل کریں، ان کا مال لوٹیں اور ان کی املاک تباہ کریں، وہ صریحاً قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہیں۔ اسلام میں اس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

(د) عزت نفس کا تحفظ :

اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت و آبرو کی حرمت کو پامال کرنا حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کسی مسلمان کو اجازت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو گالی گلوچ کرے، اس پر تہمت لگائے، اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرے یا اس کی غیبت کرے. اسلام کسی مسلمان کو اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ایسے عیب کا تذکرہ کرے جس کا تعلق اس کی ذات، اس کے حسب و نسب یا اس کے جسمانی و اخلاقی عیب سے ہو.

 

ایک دفعہ گورنرِ مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی. خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلابِ فرانس کی جد و جہد میں روحِ رواں بنا. آپ رضی اللہ عنہ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے فرمایا :

 

مذ كم تعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا؟[13]

 

"تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟"

 

غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے۔غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا۔

 

علامہ ابن عابدین شامی غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے بارے میں لکھتے ہیں:

 

لِأَنَّهُ بِعَقْدِ الذِّمَّةِ، وَجَبَ لَهُ مَالَنَا فَإِذَا حَرُمَتْ غِيبَةُ الْمُسْلِمِ حَرُمَتْ غِيبَتُهُ بَلْ قَالُوا: إنَّ ظُلْمَ الذِّمِّيِّ أَشَدُّ ۔[14]

 

عقدِ ذمہ کی وجہ سے غیر مسلم کے وہی حقوق لازم ہیں جو ہمارے ہیں۔ جب مسلمان کی غیبت حرام ہے تو اس کی غیبت بھی حرام ہے بلکہ علماء نے کہا کہ غیر مسلم اقلیت پر ظلم کرنا مسلمان کے مقابلے میں بڑا سخت گناہ ہے۔"

 

درج بالا آثار و اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔

 

(ہ) قصاص اور دیت کا تحفظ :

اسلام نے کسی بھی شخص (مسلم یا غیر مسلم) کو ناحق قتل کرنے والے قاتل پر قصاص لازم کیا ہے۔جبکہ قتل خطاء یعنی غلطی سے قتل ہو جانے کی صورت میں دیت (monetary compensation) کی ادائیگی کو واجب قرار دیا ہے۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَيوةٌ ياُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾[15]

 

"اور تمہارے لیے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خونریزی اور بربادی سے) بچو۔"

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیرمسلموں کو دیت (monetary compensation) میں مساوی حقوق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

 

قال دية اليهودي والنصراني والمجوسي مثل دية المسلم[16]

 

"یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔"

 

حضرت عبد الرحمن بن بیلمانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

 

"ایک مسلمان نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا، وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بطورِ قصاص مسلمان قاتل کو قتل کیے جانے کا) حکم دیا اور اُسے قتل کر دیا گیا۔" [17]

 

امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے:

 

دِيَةِ الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ مِثْلُ دِيَةِ الْحُرِّ الْمُسْلِمِ۔[18]

 

"اہل ذمہ ( یہودی، عیسائی اور مجوسی) کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔"

 

ان احادیث مبارکہ اور فقہاء کے عمومی بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کو بھی قصاص اور دیت میں مسلمانوں کے برابر حیثیت دی ہے یعنی ان کے قصاص اور دیت کا تحفظ کیا ہے۔

 

2۔غیر مسلموں کے مال کا تحفظ :

اسلام اور اسلامی ریاست میں جہاں غیر مسلموں کے جان کا تحفظ کیا گیا ہے وہاں ان کے مال کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا بھی حرام قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[19]

 

"اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالاں کہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔"

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے. ارشاد نبویؐ ہے:

 

إِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ۔[20]

 

"بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔"

 

غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاطت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے. ہر دور میں جمیع مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے۔امام ابو عبید قاسم بن سلام، ابن زنجویہ، ابن سعد اور امام ابو یوسف نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے:

 

ولنجران وحاشيتها جوار اﷲ وذمه محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، علي اَموالهم وأنفسهم وأرضهم وملتهم، وغائبهم وشاهدهم، وعشيرتهم وبيعهم، وکل ما تحت يديهم من قليل أو کثير۔[21]

 

اللہ اور اﷲ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔"

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھاتھا اس میں من جملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا:

 

وَامْنَعِ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ ظُلْمِهِمْ وَالْإِضْرَارِ بِهِمْ وَأَکْلِ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا بِحِلِّهَا۔[22]

 

"(تم بحیثیت گورنر شام) مسلمانوں کو ان غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے، انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔"

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

 

إنما بذلوا الجزية لتكون دماؤهم كدمائنا وأموالهم كأموالنا ۔[23]

 

"غیر مسلم شہری ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اَموال کے برابر محفوظ ہو جائیں۔"

 

اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خنزیر کو تلف کر دے تو اس پر بھی جرمانہ لازم آئے گا۔

 

فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ میں ہے:

 

وَيَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِيْمَةَ خَمْرِهِ وَخِنْزِيْرِهِ إِذَا أَتْلَفَهُ۔[24]

 

"غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کرے گا۔"

 

خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام نے غیر مسلموں کے مال کو بھی وہی اہمیت دی ہے جو مسلمانوں کے مال کو حاصل تھی اور اس کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا ہے۔

 

(الف) غیر مسلم کے مال کے تحفظ کے لیے اسلامی حد کا نفاذ :

اسلام نے مال کی چوری کو حرام قرار دیا ہے اور اس پر نہایت سخت سزا مقرر کی ہے۔ یہ تمام سزائیں صرف مسلمانوں کے مال چرانے پر نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ عمل غیرمسلموں تک بھی محیط ہے۔

 

امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں:

 

فَإِنَّ مَالَ الذِّمِّيِّ وَالْمُعَاهَدِ وَالْمُرْتَدِّ فِي هَذَا كَمَالِ الْمُسْلِم۔[25]

 

"یقینا غیر مسلم شہری، معاہد اور مرتد کا مال بھی اس اعتبار سے مسلمان کے مال ہی کی طرح ہے۔"

 

امام ابن قدامہ حنبلی نے کہا ہے کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے والے پر اُسی طرح حد عائد ہوگی جس طرح مسلمان کا مال چوری کرنے والے پر ہوتی ہے.[26]

 

علامہ ابن حزم بیان کرتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے پر بھی مسلمان پر حد جاری کی جائے گی۔[27]

 

مال کے حکمِ حفاظت میں بھی مسلم اور غیر مسلم شہری برابر ہیں. اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم شہری کا مال چوری کیا تو اس پر حد نافذ ہوگی اور اگر کسی نے غیر مسلم شہری کا مال غصب کیا تو اس پر تعزیر نافذ ہوگی۔ اسلام میں غیر مسلم شہریوں کے اَموال کی حفاظت کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کی ہر اس چیز کی حفاظت کی جائے گی جسے وہ مال میں شمار کرتے ہوں اگرچہ مسلمانوں کے نزدیک وہ مال کے زمرے میں نہ آتی ہو. جیسا کہ شراب اور خنزیر مسلمانوں کے لیے قابلِ حیثیت مال نہیں. لہٰذا اگر کوئی شخص مسلمان کی شراب ضائع کر دے تو اس پر کوئی سزا اور تعزیر نہیں ہے. اس کے برعکس اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم کی شراب اور خنزیر کو نقصان پہنچایا تو اس سے ان کی قیمت تاوان کے طور پر لی جائے گی کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس غیر مسلم کے نزدیک مال متصور ہوتی ہیں۔

 

پاکستان میں غیر مسلموں کی جان و مال کا تحفظ

غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کیا ہے اور انہیں آزادانہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے۔ اسی ذمہ داری سے با احسن عہدہ برا ہونے کی خاطر پاکستان کی اسلامی ریاست نے غیر مسلموں کے حقوق کے حوالے سے نہ صرف قانونی چارہ جوئی کی ہے بلکہ عملاً بھی اس کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اس کے برعکس تاریخ کے تاریک واقعات اس بات کی گواہی بھی دیتے ہیں کہ جہاں مسلمان اقلیت میں رہے تو ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا ۔ بھارت کی مثال لے لیں جو کہ ایک سیکولر ریاست ہے لیکن وہاں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ انتہا ء پسند تنظیمیں گائے کا گوشت کھانے کے جھوٹے الزامات کی آڑ میں وہاں کی اقلیتوں کو پھانسی چڑھانے بلکہ آگ میں جلانے کی سزا تک دیتی ہیں۔ ریاست ایودھیہ میں بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے واقعات وہاں ہونے والے مظالم کی مشہور مثالیں ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے معاملے کو صرف وہاں اٹھایاجاتا ہے جہاں غیر مسلم اقلیت میں ہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ شام ، برما، کشمیر، مقبوضہ فلسطین وغیرہ وہ ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود انہیں جانوروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے لیکن انسانی حقوق کے علمبردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں بھی اسی روش کو اختیار کیاگیا ہے اور آئے دن اقلیتوں کے حقوق پر بحث ومباحثہ شروع کردیاجاتاہے۔ حالانکہ آئینِ پاکستان اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔

 

(الف)قیام پاکستان کے پس منظر میں غیر مسلموں کے جان و مال کا تحفظ:

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی قیام پاکستان سے پہلے اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہائی کرائی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اللہ تعالی نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا ۔ آپ انسانیت دوست سیاستدان تھے۔ آپ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ ملک کو صحیح معنوں میں خوشحال ،مضبوط اور پرامن بنانے کے لیے اشد ضروری ہے کہ پاکستان میں رہنے والے امن پسند شہریوں کے حقوق کی تسلی بخش انداز میں حفاظت کی جائے۔قائد اعظم نے کئی مقامات پر پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کے ساتھ بہترین سلوک اور رواداری کی اہمیت پر زور دیا ۔اپریل ۱۹۴۱ء میں آل آنڈیا مسلم لیگ کے مدراس اجلاس سے صدارتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

 

"اقلیتوں میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کیے بغیر کوئی حکومت بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ اگر کسی حکومت کی پالیسی اور پروگرام اقلیتوں کے بارے میں غیرمنصفانہ نامناسب اور ظالمانہ ہوں گے تو وہ حکومت کبھی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی۔ ہمارے ملک کی اقلیتوں کو معلوم ہوجائے گا کہ ہماری روایات ہمارا ورثہ اور اسلامی تعلیمات ان کے لیے نہ صرف مناسب اور انصاف پسندانہ ہوں گی بلکہ ان کے ساتھ فیاضانہ سلوک بھی کیا جائے گا۔"

 

اسی طرح ۴ ۲ اپریل ۱۹۴۳ء کو آل انڈیا مسلم لیگ دہلی کے اجلاس میں خطبۂ صدارت دیتے ہوئے فرمایا:

 

"اقلیتوں کی بدرجہ اتم حفاظت ہونی چاہیئے ۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کے ساتھ نہ صرف عادلانہ بلکہ فیاضانہ سلوک کرکے واضح ترین ثبوت پیش کیا ہے۔"

 

۱۵ نومبر ۱۹۴۲ء کوآل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھرکے سالانہ اجلاس سے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

 

"ہماری مذہبی تعلیم ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ مسلمان حکومت میں ہر غیر مسلم اقلیت کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کیا جائے۔"

 

قائداعظم نے یکم فروری۱۹۴۳ء کو اسماعیلی کالج بمبئی سے تقریر کرتے ہوئے کانگریس کے ہندو رہنماؤں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ :

 

ہم تمہاری اقلیتوں کے ساتھ مہذب حکومتوں سے بھی زیادہ بہتر انداز میں سلوک کریں گے کیونکہ اقلیتوں کے ساتھ ایسا برتاو کرنے کا ہمیں قرآن کریم نے حکم دیا ہے۔"

 

۲۴ دسمبر ۱۹۴۳ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

 

"ہندوستان اور پاکستان کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کی اقلیتوں کے ساتھ عدل اور انصاف کا برتاؤ کریں اور ان کی حفاظت بھی کریں ۔"[28]

 

قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جو پہلی کابینہ بنائی اس میں ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنا کر عزت سے سرفراز کیا۔ 1950ء میں شہید ملت لیاقت علی خان انڈیا گئے تو دونوں ممالک کے درمیان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لیاقت نہرو پیکٹ دستخط کر کے آئے۔ مسلم لیگ کے تیار کردہ 1956ء کے آئین میں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ اور مذہبی احترام اور فلاح و بہبود کے لیے کئی دفعات رکھی گئیں اور اقلیتوں کو ایک مقدس امانت قرار دیا گیا۔ پاکستان کے موجودہ آئین 1973ء میں بھی اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں اور ان کے استحصال کو روکنے کے لیے ہر طرح کے امتیازات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی غیرمسلموں کے حقوق کے حوالے سے کام تیزی سے جاری تھا اور انہیں اسی وقت سے جان ومال اور ہر طرح کی آزادی اور تحفظ حاصل تھا۔

 

(ب)قیام پاکستان کے بعد سے اب تک غیر مسلموں کے جان و مال کا تحفظ:

پاکستان بن جانے کے بعد سے عصر حاضر تک ہر دور میں غیر مسلموں کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے نہ صرف قانون سازی ہوتی رہی بلکہ عملاً بھی بہت کچھ ہوا البتہ چند ایک افسوس ناک واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن وہ صرف غیرمسلموں کے ساتھ نہیں بلکہ اس کا شکار ملک کے رہنے والے تمام طبقات ہوئے اور ان واقعات کے محرک دہشت گرد افراد کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔

 

آئین پاکستان کے آرٹیکل ۳۶کے مطابق ریا ست اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی اور آئین کے ہی آرٹیکل ۸کے مطابق بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی قوانین کالعدم ہوں گے اور پاکستان چارٹر آف ہیومن رائٹس پر بھی عمل درآمد کا پابند ہے ۔ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق سب کو آزادی اور تحفظ حا صل ہے ۔اسی طرح دنیا کے ہر معاشرے کی طرح پاکستان میں بھی آئین فرد کی سلامتی کو اہمیت دیتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب ، ذات پات ، رنگ نسل سے تعلق رکھتا ہو اس وقت تک اسکی جان نہیں لی جاسکتی سوائے اس کہ قانون اسکی اجازت دے۔اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل ۹ کے تحت فرد کو سلامتی حاصل ہے اورکسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گاسوائے اسکے کہ قانون اسکی اجازت دے ۔یعنی آئین پاکستان قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہر شخص کو مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔

 

1956ء کےپہلے دستور میں بھی تمام اہلیان پاکستان کے جملہ حقوق کے مساوی تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی۔اسی طرح 1962ء کے آئین میں تمام پاکستانیوں کی بلاامتیاز مسلم و غیر مسلم تمام مذہبی معاشرتی وسیاسی حقوق کے مساویانہ تحفظ کی ضمانت دی گئی اور ان کو تمام بنیادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ جان ومال کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ۔[29]

 

1956ء کے آئین کی روح سے جو مساوی حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے اس کو پاکستان میں من وعن پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور تمام اقلیتوں کے جان ومال سمیت جملہ حقوق کا پوری طرح خیال کیا گیا۔اسی طرح 1962ء کے آئین میں بھی جو اقلیتوں کے حقوق بیان ہوئے ، ان کو بھی بلا امتیاز مذہب پورا پورا ادا کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔

 

1973ء کے دستور میں بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں تمام غیر مسلموں کی جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ۔ان کو حق جائیداد دیا گیا یعنی کسی بھی غیر مسلم کی زمین وجائیداد کو بلامعاوضہ ومتبادل کے حکومت بھی قبضہ میں نہیں لے سکتی۔[30]

 

1973ء کا آئین سب سے زیادہ اقلیتوں کے حقوق کا محافظ ہے۔اس میں جملہ حقوق کے علاوہ اقلیتوں کی جائیداد کا بھی بھرپور تحفظ کیا گیا۔پاکستان میں غیر مسلموں کو نہ صرف جانی و مالی تحفظ دیا جاتا رہا ہے بلکہ ان کو عزت وتوقیر بھی دی جاتی رہی ہے۔ جسٹس اے آر کارنیلیس ایک عیسائی تھے جو کئی برس تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ رانا بھگوان داس ہندو مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں، وہ مشہور و معروف جج رہے ہیں۔ پہلے سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے بعد میں ترقی پا کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج بنے۔ سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی گرانقدر قومی اور قانون کی عملداری میں شاندار ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ خدمات اور کردار کی وجہ سے سول سروس آف پاکستان کے چیئرمین بنے۔غیر مسلموں كی جان کے تحفظ کے حوالے سے حکومت کے اقدامات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب طالبان کی شورش کی وجہ سے باجوڑ اور مالا کنڈ میں سکھوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہوا تو ریاست نے انہیں محفوظ مقامات پر پہنچانے اور اشیائے ضرورت مہیا کرنے میں مستعدی کا ثبوت دیا۔ اگر کبھی سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا تو اسے بگڑنے سے پہلے فرو کر دیا گیا۔ چند برس قبل ننکانہ صاحب میں طالب علموں نے ہنگامہ برپا کیا تو فوراً سرکاری طور پر سخت قدم اٹھایا گیا۔ فسادیوں کے سرغنوں کو جلد گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

 

لاہور میں صرف بارہ سکھ خاندان آباد ہیں بشن اور اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ الگ تھلگ محسوس نہیں کرتے۔ مسلمان پڑوسی اور ساتھی کاروباری ہمیں شادیوں اور مذہبی تقریبات پر مدعو کرتے ہیں اور اپنے جیسا سمجھتے ہیں بشن کا بیٹا ترلوک کہتا ہے۔ " یہ ہمارا شہر ہے۔ میرا خیال نہیں کہ دنیا کے کسی بھی شہر میں مجھے لاہور جتنا چین نصیب ہو سکتا ہے۔اسی طرح پاکستان میں غیر مسلم مالی حوالے سے بھی بعض علاقوں میں کافی مستحکم رہے ہیں ۔بعض ٹیکسٹائل مِلوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ایکڑ زمینوں کے مالک بھی رہے ہیں۔[31]

 

ایک ہندو مصنف اترچند کے مطابق صرف سندھ میں پچاس ہزار ہندو خاندان آباد ہیں اور یہ ہر دور میں اپنے مسلمان ہمسایوں کے ساتھ مکمل امن وتحفظ کی زندگی گزارتے رہے ہیں۔[32]

 

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے باوجود یہاں پاکستان میں ہندؤں کو تحفظ حاصل رہا ہے۔ماضی قریب میں گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کی جانوں ،املاک اور مذہبی اداروں کی تباہی کے باوجود پاکستان میں مکمل طور پر سکون رہا۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں اور انہیں تحفظ بھی فراہم کیاجاتا ہے۔ وہ آزادانہ اپنی مذہبی و معاشرتی رسومات ادا کرتے ہیں ۔ اس ملک میں جہاں کہیں غیر مسلم رہتے ہیں وہ بالکل محفوظ ہیں۔ان پر کوئی جبر و تشدد نہیں ہوتا۔ غیر مسلم اپنے مذہبی تہوار بھی بلاخوف و خطر جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری دنیا کی بہ نسبت پاکستان میں اقلیتیں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔حال ہی میں آسیہ مسیحہ کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلہ نے یہ بات پھر سے ثابت کردی ہے کہ یہاں اقلیتوں کے جان کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور آئین وقانو ن کو بالا دستی حاصل ہے۔دنیا بھر کے تمام مذاہب اور قوانین میں اقلیتوں کو سب سے زیادہ تحفظ اسلام نے دیا ہے اور جتنا تحفظ اسلام نے دیا ہے اس کے مطابق یہاں اقلیتیں بالکل محفوظ ہیں۔

 

جہاں پاکستان میں ان اقلیتوں کو ہر طرح کے بلا امتیاز شہری حقوق، جانی و مالی تحفظ حاصل ہے اور ان کے مقدس مقامات کا احترام روا رکھا گیا وہاں یہ اقلیتیں بھی قومی زندگی کے ہر شعبہ دفاع، امور خارجہ، فنانس، قانون، تعلیم و تحقیق، صنعت و تجارت، سول ایڈمنسٹریشن، فلاحی اور تعمیراتی میدانوں وغیرہ میں اپنی ناقابل فراموش خدمات انجام دے کر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر آج تک شک نہیں کیا گیا بلکہ وہ بھی اکثریتی مسلمان آبادی ہی طرح محب وطن پاکستانی ہیں ۔

 

نتایج بحث:

.1دینِ اسلام اور ریاست پاکستان معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو،جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

 

2۔ اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے۔

 

3۔اسلامی تعلیمات اور ریاست پاکستان میں غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔

 

4۔ غیر مسلموں کے مذہبی رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔

 

5۔ قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔اور کسی ایک غیر مسلم کا بدلہ دوسرے سے نہیں لیا جاسکتا۔

 

6۔ غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

 

7۔ اسلام نے کسی بھی شخص (مسلم یا غیر مسلم) کو ناحق قتل کرنے والے قاتل پر قصاص لازم کیا ہے۔

 

8۔ اسلام اور اسلامی ریاست نے غیر مسلموں کے مال کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔اور دوسروں کے مال لوٹناکو بھی حرام قرار دیا ہے۔

 

9۔ یہ تمام سزائیں صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ عمل غیرمسلموں تک بھی شامل ہے۔

 

10۔ آئین پاکستان میں غیر مسلموں کو مکمل جانی ومالی تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔

 

11۔ ریاست پاکستان میں غیر مسلموں کو مکمل قانونی اور عملی طور پر جان و مال کا تحفظ حاصل ہے۔

 

سفارشات و تجاویز:

1۔غیر مسلموں کی جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے منبرومحراب سے لوگوں کی صحیح رہنمائی ہونی چاہیے۔

 

2۔ غیر مسلموں کے حقوق کے حوالے سے سیمینارز،سمپوزیم اور کانفرنسز کا اہتما م بھی وقت کی اہم ضروت ہے۔

 

3۔آئین پاکستان میں غیر مسلموں کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے کی گئی قانون سازی پر انتظامیہ کو سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے۔

 

4۔ غیرمسلموں سے متعلق قانون سازی کے وقت ان کو مناسب نمائندگی دی جانی چاہیے ۔

 

5۔ غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر سماجی تعلقات کے حوالے سے میڈیا کو بھر پور اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

 

 

حوالہ جات

  1. سورۃ المائدۃ۳۲:۶
  2. بخاری، محمد بن اسماعیل الجامع الصحیح ،کتاب الحج،باب الخطبۃ ايام منی(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۱ء)، حدیث: ۱۶۵۴
  3. السجستانی ، سلیمان بن اشعث ،السنن،کتاب الخراج والفي والإمارة، باب في تعشير اهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۸ء) ،حدیث: ۳۰۵۲
  4. عینی،محمود بن احمد،عمدۃ القاری (داراحیاءالتراث العربی ، بیروت ،س ن )،۱۵/۸۹
  5. سورۃ المائدۃ ۳۲:۶
  6. نسائی ،احمد بن شعیب ،السنن ،کتاب القسامة، باب تعظيم قتل المعاهد(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۹ء) ،حدیث : ۴۷۴
  7. بخاری،الجامع الصحیح ،کتاب الجزية، باب إثم من قتل معاهدا بغير جرم ،حدیث: ۲۹۹۵
  8. کشمیری،محمدانورشاہ،فیض الباری (دارالکتب العلمیہ ، بیروت، ۲۰۰۵ء)،۴/۲۸۸
  9. الدارمی ، السنن ،کتاب السیر،باب يُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَدْنَاهُمْ (دار الکتب العلمیہ ، بیروت،۱۹۹۸م)،حدیث:۲۵۵۸
  10. ==احمد بن حنبل المسند،باب مُسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۱م)،حدیث: ۲۷۲۸
  11. سورۃ الانعام ۱۴۴:۵
  12. ابو يوسف،یعقوب بن ابراہیم، کتاب الخراج(مطبعہ سلفیہ ، قاہرہ،۱۳۸۲ھ)،ص:۷۲
  13. ہندی،علاء الدین علی بن حسام الدین ، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال ، (مؤسسہ الرسالہ ،بیروت،۱۴۰۱ھ) ،حدیث:۳۶۰۱
  14. شامی،ابن عابدين، رد المحتار على الدر المختار (دارالفکر، بیروت،۱۴۱۲ھ)،۴/۱۷۱
  15. سورۃ البقرۃ ۱۷۹:۲
  16. الصنعانی، عبد الرزاق بن ہمام ،المصنف(دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۷م)، حدیث:۱۰۲۲۵
  17. ۔ ابو نعیم ا صبہانی،احمدبن عبداللہ،مسندابی حنیفہ، (مکتبہ الکوثر ، ریاض،۱۴۱۵ھ)،۱/۱۰۴
  18. ابویوسف،یعقوب بن ابراہیم،الآثار، (دارالکتب العلمیہ، بیروت،س ن)،۱/۲۲۰
  19. سورۃ البقرۃ۱۸۸:۲
  20. البخاری ،الجامع الصحیح ، حدیث : ۱۶۵۴
  21. ابو یوسف ، کتاب الخراج ،ص:۷۲
  22. ابو یوسف ، کتاب الخراج ،ص:۱۴۱
  23. ابن قدامہ ،عبداللہ بن احمد، المغنی(دارالفکر، بیروت،۱۴۰۵ھ)،۱۰/۴۸۸
  24. شامی ، ابن عابدین ،رد المحتار ،۴/۱۷۰
  25. نووی، محی الدین یحیٰ بن شرف ،المنہاج شرح صحيح مسلم بن حجاج (داراحیاء التراث العربی، بیروت،۱۳۹۲ھ)،۱۲/۷
  26. ابن قدامہ ،المغنی،۱۰/۴۸۸
  27. ابن حزم، علی بن احمد، المحلی، ( دارالفکر ،بیروت،س ن )، ۱۰/۳۵۱
  28. بقا،محمد شریف ،قائد اعظم کے اسلامی افکار(نظریہ پاکستان ٹرسٹ، لاہور،۲۰۰۹ء)،ص:۳۳۔۳۰
  29. ایم اے ملک،تاریخ آئین پاکستان(پی ایل ڈی پبلیشرز، لاہور،۱۹۹۱ء)،ص:۵۹
  30. ایم اے ملک،تاریخ آئین پاکستان،ص:۸۵
  31. S.K Guptan Hindu in Pakistan (Karachi:Pakistan Publications,1964) p.4
  32. Attar Chand,Pakistan Party Politices Pressur Group and Minorities(Dehli:India Common wealth Publications,1964)p.4
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...