Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

استحسان کی اصلیت و ماہیت کے بارے میں مستشرقین کی آراء کا تنقیدی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

معاصردنیا میں نظام ہائے قانون سے متعلقہ مباحث کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ سماجی علوم (Social Sciences) کے فروغ پانے سے قانون کے مضمون کو بڑی اہمیت سے نوازا گیا ہے اور اب دنیا بھر کے ادیان و مذاہب کے نظام ہائے قانون زیر مطالعہ و تحقیق ہیں۔ کلیات و جامعات میں اسلامی قانون کی تعلیم و تدریس کو بھی فروغ ملا ہے۔ اسلام کی قانونی جہت کا نمائندہ علم فقہ اسلامی ہے جو اسلامی علوم کی درجہ بندی میں قرآن اور حدیث کے بعد آتاہے۔ اسلام کے دیگر اساسی موضوعات کی طرح مستشرقین نے فقہ اسلامی کو بھی اپنی دل چسپی اور توجہ کا مرکز بنایا۔ انہوں نے اسلامی فقہ کی اساسیات،آغازوارتقاء،ماخذ و مصادر کے ساتھ ساتھ فقہی اصولوں کو بھی موضوع تحقیق بنایا۔

علمائے استشراق کی مساعی کی بدولت فقہ اسلامی کی بہت سی نادر کتب منصہء شہود پر آئیں۔ان کا یہ عمل قابل داد ہے۔ اسی طرح فقہ سے متعلقہ مستشرقین کے تخلیق کردہ ادب کی بدولت دنیا کی مختلف زبانوں میں قانون اسلامی متعارف ہوا لیکن اسلامی فقہ کے بارے میں ان کے اخذ کردہ نتائج تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسلام کے دیگر میادین کی طرح فقہ میں بھی مجموعی طور پر مستشرقین نے معروضی انداز بحث و تحقیق اختیار نہیں کیا۔

ان کے بقول فقہ اسلامی براہ راست قرآن وسنت سے ماخوذ نہیں ہے۔وہ قانون سازی کے اعتبار سے نص قرآنی کو ناقص قرار دیتے ہیں۔وہ فقہی و احکامی احادیث کے ذخیرہ کو موضوع اور مابعد کی پیداوار قرار دیتے ہیں اسی طرح استشراقی تحقیق اسلامی قانون کو رومی قانون سے ماخوذ ثابت کرنے کے درپے ہے جبکہ حلقہ استشراق کا ایک دبستان فقہ اسلامی کو یہودیت و مسیحیت سے متاثر قرار دیتا ہے۔

مسلمان محققین نے مذکورہ استشراقی نتائج تحقیق کا دلائل و براہین سے ابطال کیا اور ثابت کیا کہ اسلامی قانون یعنی فقہ اسلامی قرآن و سنت سے ماخوذ ہے جو عہد نبوی ہی سے موجود ہے اور اس کی تحفیظ و تدوین کی مساعی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورمیں شروع ہوگئی تھی۔ صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین اور علمائے امت نے اسلامی قانون اور اسکی مبادیات کی حفاظت اور انتقال میں اپنی زندگیاں لگا دیں۔اور فقہ اسلامی کا عظیم ذخیرہ محفوظ بنادیا۔

مستشرقین نے فقہ اسلامی کے مصادر اصلیہ Original/Primary Sources) (قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ اجماع و قیاس کی بنیادوں اور ان کے کردار کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ ان تحقیقی امور میں مسلمانوں کا نقطہء نظر جانے بغیر خود سے متعین کردہ موقف کو مسلمانوں کے نقطہء نظر کے طور پر پیش کر تے دکھائی دیتے ہیں۔

فقہ اسلامی یا اسلامی قانون کے چار بنیادی ماخذوں کے بعد ترتیب میں جو ماخذ ہیں انہیں مصادر تابعہ کا عنوان دیا جا سکتا ہے ان میں استحسان کو اولیت حاصل ہے، مصادر شرعیہ (قرآن، سنت، اجماع اور قیاس) کے ظاہری الفاظ و اشکال کی پیروی کی بجائے شرعی دلائل (قرآن، سنت، اجماع، قیاس ضرورۃ، مصالح، عرف وغیرہ) کی بنیا دپر مقاصد شریعت کی جستجو کرنا استحسان قرار پاتا ہے۔مستشرقین نے فقہ اسلامی کے ان ذیلی مصادر کو بھی اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے جن پر قانون اسلامی کی عظیم عمارت کھڑی ہے، استحسان کی اصطلاح کے ابتدائی استعمال کے بارے میں حلقہ استشراق میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں ۔

حلقہ ہائے استشراق میں شیخ کے مقام پر فائز معروف مستشرق گولڈ زیہر کے بقول استحسان کی اصطلاح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وضع کردہ ہے اور استحسان کا اصول سب سے پہلے امام صاحب نے تخلیق کر کے متعارف کروایا۔

پروفیسر جوزف شاخت اپنے فکری ونظریاتی استاد کی اس رائے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

“Goldziher, judging from the sources at his disposal, concluded that Abu hanifa himself established the principle of istihsan"[1]

جوزف شاخت گولڈ زیہر کی منقولہ رائے سے اختلاف کرتا ہے اس کے بقول استحسان کی اصطلاح سب سے پہلے امام ابویوسف رحمہ اللہ نے استعمال کی وہ لکھتا ہے:

“The technical term for it appears, as far as I know, for the first in abu Yusuf."[2]

پروفیسرشاخت کی رائے درست معلوم نہیں ہوتی اس لیے کہ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ نے متعدد جگہوں پر استحسان کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ [3]جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس فقہی مصدر کو استعمال کیا ہے تاہم گولڈ زیہرکا بھی یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اصول استحسان کی تخلیق کی ہے محل نظر ہے اس لیے کہ یہ اصول تو پہلے سے موجود تھا۔متن قرآنی میں بھی استحسان کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے اسی طرح آئمہ مجتہدین کی اصطلاح میں جسے استحسان کہا جاتا ہے اس طریق استدلال کا وجود شارع علیہ الصلاۃ والسلام سے بھی ثابت ہے اور اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے بھی استحسان پر عمل کے نظائر موجود ہیں اس لیے یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اصول استحسان کی بنیاد رکھی البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام صاحب نے اس فقہی مصدر کو استحسان کے عنوان سے متعارف کروایا ڈاکٹر احمد حسن لکھتے ہیں کہ استحسان کا اصول اور اس کا تصور فقہائے عراق سے پہلے موجود تھا وہ لکھتے ہیں:

"Departure from Qiyas and acting in accordance with a given situation was a method not peculiar to the Iraq, Jurists. Umar's acts of Ijtihad, e.g. stopping the amputation of the hands of thieves during the days of famine, declaring three talaq pronouncements as triple divorce, banning the sale of slave-mothers, prohibiting marriage with the women of ahl al-kitab in certain cases, and so on, in fact fall under istihsan. This term was not used before the Iraqis but the principle and concept was in existence there."[4]

ڈاکٹر احمدحسن فقہائے عراق سے قبل استحسان کی موجودگی کے اثبات کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجتہادی آراء سے چند امثلہ ذکر کرتے ہیں کہ قحط کے ایام میں چور کے ہاتھ کاٹنے سے اجتناب، تین دی گئی طلاقوں کو تین ہی شمار کرنا، ام الولد کو بیچنے پر پابندی، کتابیہ سے شادی کو ممنوع ٹھہرانا، یہ سب استحسان کے زمرے میں آتا ہے۔

استحسان اور رائے

پروفیسر جوزف شاخت کا نقطہ نظر ہے کہ علمائے عراق اور علمائے حجاز استحسان کو رائے کی ایک قسم کے طور پر استعمال کرتے ہیں :

"کان أهل العراق، و کذلك أهل الحجاز یستعملون الاستحسان، کنوع من أنواع الرأي"[5]

شاخت کا نقطہ نظر اصابت کا حامل نہیں ہے کہ استحسان رائے کے برابر ہے کہ جو طے شدہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں وجود و تعمیر نہیں پاتی اور نہ ہی اس کی پشت پر کوئی شرعی دلیل ہوتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ رائے محض فقیہ کا کسی مسئلے میں ذاتی عقل کو استعمال کرنا ہے اور مسئلے کا حل پیش کرنا ہے جیساکہ خود شاخت نے ذکر کیا ہے:

"للرأي أي استعمال الفقیه لعقله"[6]

حقیقت اس کے برعکس ہے مجتہد طے شدہ اصول و ضوابط اور شروط کا لحاظ کرتے ہوئے رائے قائم کرتا ہے رائے کی تعمیر میں بلاشبہ عقلی مشق بھی ہوتی ہے لیکن شریعت کے عمومی مزاج اور روح کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے ڈاکٹر احمد حسن رائے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

"Ra'y Has a flexible and dynamic nature, It decides the cases in the light of the spirit, wisdom and justice in Islam. It is a well-considered and balanced opinion of a person who aspires to reach a correct decision. Ra'y in the words of Ibn qayyim, is a decision which the mind arrives at after thinking, contemplation and genuine search for truth in a case where indications are conflicting. In other words, Ra'y stands for the decision that would have been taken, either by revelation if it were to come down on that occasion, or by the prophet if had been there."[7]

ڈاکٹر احمد حسن کہتے ہیں کہ رائے اور قیاس میں بڑا فرق ہے رائے میں لچک اور تحرک موجود ہوتا ہے کسی درست نتیجہ تک رسائی کے لیے اعتدال اور تدبر و تفقہ کا حامل موقف رائے کہلاتا ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول رائے اس حتمی فیصلہ کو کہتے ہیں کہ جس تک پہنچنے کے لیے سوچ بچار اور تحقیق کی گئی ہو اور یہ ان امور میں ہو جہاں تضاد و تناقض کے واضح اشارے بھی موجود ہوں۔ رائے کا تعلق فیصلے کے ساتھ ہوتا ہے جو وحی الٰہی کے ذریعے کیا جاتا ہے یا پیغمبر کے ذریعے۔معروف مستشرق مکڈونلڈ بھی استحسان کو فقیہ کی ذاتی رائے کے طور پر پیش کرتا ہے وہ لکھتا ہے:

"Is the one that the legist, in spite of the fact that the analogy of the fixed code clearly points out to one course considers it better to follow a different one."[8]

فاضل مستشرق کے بقول فقیہ قیاس کے واضح اشارہ کردہ حل کے مقابلے میں دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس کی اس بات سے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ استحسان فقیہ کی ذاتی رائے ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ استحسان فقیہ کی ذاتی ترجیح سے عبارت نہیں ہے بلکہ دلائل و نظائر کی بناء پر وجود پانے والی رائے ہوتی ہے۔

استحسان اور امام شافعی رحمہ اللہ

اسلام اور متعلقات اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے مستشرقین کی نمائندہ اکثریت علمی دیانت کے جملہ تقاضے پورے کرتی نہیں دکھائی دیتی ۔وہ مختلف امور میں گہرے غور وحوض کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اہتمام کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔ جس کی ایک مثال استحسان کے بارے میں امام شافعی کی رائے کا معاملہ ہے ۔پروفیسر جوزف شاخت امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں رقمطراز ہے کہ امام صاحب استحسان کے اصول کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور اسے محض فقیہ کا ذاتی طریقہ استدلال تصور کرتے تھے وہ تحریر کرتے ہیں:

"وقد هاجم الشافعي طریقة الاستحسان في عنف، لأنها طریقة ذاتیة، وقال بصحة القیاس وحده"[9]

فاضل مستشرق چونکہ استحسان سے مجرد رائے مراد لیتا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ ایسے استحسان کو تسلیم نہیں کرتے کہ جو مجرد رائے پر مبنی ہو اور ا سکی پشت پر کوئی دلیل موجود نہ ہو تو وہ یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ استحسان کو بالکل تسلیم نہیں کرتے۔امام شافعی رحمہ اللہ نے بلاشبہ اپنی دونوں تصانیف الام اور الرسالۃ میں استحسان کو مستقل موضوع بنا کر اس کی تردید کی ہے اور اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں ان دلائل کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام دلائل اس استحسان سے متعلق نہیں ہیں جو مسلمہ فقہی اصول ہے اور جسے احناف و مالکیہ نے قابل اعتبار قرار دیا ہے ۔

محمد ابوزہرہ مصری امام شافعی رحمہ اللہ کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"إن هذه الأدلة كلها لا تردد على الاستحسان الحنفي "[10]

یعنی یہ سارے دلائل استحسان حنفی کے خلاف نہیں ہیں۔ امام صاحب کے دلائل میں اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں:

"لو کان لأحد أن یفتی بذوق الفقهي، الخ بل یعتمد علی العقل وحده، الخ وغیرها"

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ مطلقا استحسان کو باطل اور قابل رد تسلیم نہیں کرتے بلکہ جس استحسان میں صرف فقہی ذوق اور محض عقلی اقتضا کے تحت قانون سازی ہو ایسا استحسان امام صاحب کے نزدیک باطل و مردود ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کے فقہی ادب میں استحسان کے نظائر موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ استحسان کو مصدر شرعی تسلیم کرتے ہیں چند مثالیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"استحسن في المتعة أن تکون ثلاثین درهما"[11]

یعنی ازروئے استحسان متعہ (مطلقہ کو دیا جانے والا ہدیہ) کی مقدار تیس درہم ہے۔

موذن کے بارے میں فرمایا:

"حسن أن یضع إصبیعه في صماخي أذنیه"[12]

موذن کے لیے پسندیدہ ہے کہ وہ اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر اذان دیا کرے۔

"استحسن أن یترك شيئ للمکاتب من نجوم الکتابة"[13]

استحسان کا تقاضا ہے کہ مکاتب غلام کو بدل کتابت کی اقساط سے کچھ معاف کر دیا جائے۔

"إن أخرج السارق يده الیسری بدل الیمنی فقطعت، فالقیاس یقتضي قطع یمناه والاستحسان أن لا تقطع"[14]

یعنی اگر چور اپنا بایاں ہاتھ سامنے کر دے اور حد سرقہ میں کاٹ دیا جائے تو قیاس کا تقاضا ہے اب اس کا دایاں ہاتھ بھی کاٹا جائے (کیونکہ اصل میں تو داہاں ہاتھ کاٹنا واجب تھا) لیکن استحسان کی رو سے اس کا دایاں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔

اسی طرح بہت سارے مسائل ایسے ہیں جہاں امام شافعی رحمہ اللہ استحسان کا لفظ تو استعمال نہیں کرتے لیکن جو اصول اور طریق کار اختیار کرتے ہیں وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے استحسان میں داخل ہوتا ہے۔ استحسان کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے چونکہ مستشرقین علمائے اصولیین اور فقہائے عظام کے عظیم علمی ذخیرے کا بنظر غائر مطالعہ نہیں کرتے ا س لیے وہ فقہ اسلامی اور اس کی اساسیات کا صحیح ادراک نہیں کر سکتے اور صحیح تفہیم نہ ہونے کی بناء پر وہ غلط نتائج اخذ کرتے ہیں

مستشرق ڈیوڈ پرل(David pearl)اس رائے کاحامل ہے کہ متاخرین فقہائے اسلام نے اصول استحسان کے نتیجے میں اخذ کردہ مفہومات کو احادیث نبویہ کے ذریعے ثبوت فراہم کیے:

“Later scholars traced back concepts introduced by istihsan to a hadith.”[15]

پرل یہ تاثر قائم کر رہا ہے کہ گویا استحسان کوئی غیر طبعی دلیل ہے جو شرعی دلائل و شواہد سے محروم ہوتی ہے اس کی رائے کے مطابق جب اصولیین کے ایک طبقے نے استحسان کی مخالفت کی اور اس کا رد کیا تو پھر متاخرین فقہاء نے اپنی اور اپنے آئمہ کی آراء کو احادیث سے ثبوت فراہم کرنے کا اہتمام کیا اگلے حصہ میں اصولین کے بیان کردہ استحسان کے صحیح مفہوم کی وضاحت سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ پرل کے نقطہ نظر کی دلائل توثیق نہیں کرتے۔

استحسان کی ماخذ

مستشرق بنجمن استحسان کو خالصتا فقہ اسلامی کی اصطلاح تصور نہیں کرتا اس کے بقول یہ رومی قانون کی ایک اصطلاح کا براہ راست ترجمہ ہے اسی طرح وہ یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ امام شیبانی رحمہ اللہ نے کلیسائی ماہرین قانون کی طرح ہی اس اصطلاح کی وضاحت کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

“That the term Istihsan (equity/preference) is a translation of Aequitas appears not only from the frequent use of this principle both in the Asl (book of Imam Shaybani) and the Digests (Roman law) but also from the historical context.Shaybani interpreted this principle in the same way as the Christian canonists who transformed the Roman principle of equity into the Christian principle of “preference” Aequitas canonica.”[16]

فاضل مستشرق حلقہ استشراق کے اسی روایتی نقطہ نظر کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسلامی قانون رومی قانون سے ماخوذ ہے ۔ استحسان کو وہ نہ صرف براہ راست مترجم اصطلاح بتا رہے ہیں بلکہ اسے تاریخی طور پر ثابت ذکررہے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ علمائے استشراق اسلامی اور رومی قانون میں موجود مماثلتوں کو تلاش کر کے اجاگر کرتے ہیں اور محض ظاہری مشابہتوں کی بنا پر ماخوذ کا حکم صادر کردیتے ہیں ۔ ان کا یہ رویہ درست نہیں کیونکہ صرف مشابہت ماخوذ ہونے کی دلیل ہر گز نہیں ہو سکتی ۔بعض امور کی حد تک مماثلت پائی جا سکتی ہے کیونکہ احکام علل و اسباب پر مبنی ہوتے ہیں ۔لہذا دو ممالک میں اسباب و علت میں یکسانیت پائی جائے گی تو اس یکسانیت کی وجہ سے احکام میں بھی مشابہت پائی جا سکتی ہے ۔

فقہ اسلامی کے آغاز و ارتقا کا مطالعہ کرنے والا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ آئمہ مجتھدین جنہوں نے اسلامی قانون کی تشکیل و تدوین کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا وہ عربی کے علاوہ دیگر زبانوں سے نابلد تھے اور نہ ہی ان کے ادوار میں دیگر ادیان و اقوام کے نظام ہائے قانون ترجمہ ہو کر آئمہ تک پہنچے تھے ۔ استحسان کا تصور جیسا کہ ماقبل ذکر کیا گیا ہے متن قرآنی میں بھی اس کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے اسی طرح آئمہ مجتہدین کی اصطلاح میں جسے استحسان کہا جاتا ہے اس طریق استدلال کا وجود شارع علیہ الصلاۃ والسلام سے بھی ثابت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے بھی استحسان پر عمل کے نظائر موجود ہیں۔

استحسان کا اصل تصور

استحسان لفظ حسن سے استفعال کے باب پر مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی چیز کو اچھا خیال کرنا اور مستحسن سمجھنا ہیں عربی محاورہ میں ہے.

"استحسن الرأي، استحسن القول، استحسن الطعام"

یعنی اس نے رائے کو یا بات کو، یا کھانے کو اچھا سمجھا۔اسی طرح استحسان کے مفہوم کا ایک پہلو یہ ہے۔

"طلب الأحسن للاتباع الذي هو مامور به"

یعنی اچھی بات کی جستجو کرنا تاکہ اس کی پیروی کی جا سکے جو کہ شرعا ماموربہ ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔

"فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَه"[17]

"سو آپ بشارت دے دیجئے میرے انہی بندوں کو جو (اس)کلام کو کان لگا کر سنتے ہیں، پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں۔"

یعنی میرے ان بندوں کو خوش خبری دے دیجئے جو اچھی بات سن کر اس پر عمل کرتے ہیں۔

استحسان کی اصطلاحی تعریف

علمائے اصول نے استحسان کی مختلف تعریفات ذکر کی ہیں ان کے درمیان لفظی اعتبار سے فرق تو پایا جاتا ہے، لیکن استحسان کو بطور دلیل کے علمائے اصولیین تسلیم کرتے ہیں اور اس پر عامل بھی ہیں، ذیل میں چند تعریفیں ذکر کی جاتی ہیں۔

امام بزدوی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:

"العدول عن موجب قیاس إلی قیاس أقوی منه"[18]

یعنی استحسان قیاس ظاہر کو چھوڑ کر اس سے قوی ترقیاس پر عمل کا نام ہے علامہ کرخی رحمہ اللہ استحسان کی تعریف ذکر کرتےہوئے لکھتے ہیں:

"الاستحسان هو أن یعدل الإنسان عن أن یحکم في مسئلة بمثل ما حکم به في نظائرها إلی خلافه لوجه هو أقوی من الأوّل یقتضي العدول عن الأول"[19]

علامہ کرخی کے بقول استحسان سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی مسئلہ میں اس فیصلہ سے ہٹ کر فیصلہ دے جو اس کے مشابہ مسائل میں پہلے دیا گیا ہو اور اس کا یہ فیصلہ کسی ایسے سبب کی بناء پر ہو جو سابقہ فیصلہ سے قوی تر اور اس سے انحراف کا متقاضی ہو۔ابوبکر ابن عربی رحمہ اللہ سے استحسان کی یہ تعریف منقول ہے۔

"ترک مقتضی الدلیل علی طریق الاستشناء والترخص، لمعارضة ما یعارض به فی بعض مقتضیاته"[20]

دلیل کے بعض تقاضوں میں تعارض کے سبب استثناء یا رخصت کے طور پر دلیل کے تقاضہ کے ترک کرنے کو ترجیح دینا، استحسان کہلاتا ہے یعنی کسی دلیل کے عمومی تقاضوں کو اگر مکمل طور پر بروئے کار لایا جائے تو بعض صورتوں میں کچھ رکاوٹیں پیش آتی ہیں یا تعارض ظاہر ہوتا ہے تو ایسی صورتوں میں بطور استثناء کے یا بطور رخصت اس دلیل کے تقاضوں پر عمل درآمد نہ کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ امر استحسان کہلاتا ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ استحسان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الأخذ بمصلحة جزئیة فی مقابلة دلیل کلي، ومقتضى الرجوع إلى القدیم الاستدلال المرسل علی القیاس"[21]

امام صاحب کے بقول کسی کلی دلیل کے مقابلہ میں کسی جزئی مصلحت کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس کا تقاضا قیاس پر استدلال مرسل (مصلحہ مرسلہ) کو مقدم کرنا ہے۔ یعنی امام شاطبی رحمہ اللہ کے نزدیک جب مجتہد اس بات پر غور کرتا ہے کہ پیش آمدہ مسئلہ میں قیا س کے تقاضے پر عمل کیا جائے تو کوئی مصلحت ضائع ہو جائے گی یا کوئی فساد پیدا ہو جائے گا تو ایسی صورت میں وہ اپنے ذوق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا بلکہ شریعت کے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی مقصود منفعت کے حصول کے لیے یا کسی فساد کو دور کرنے کے لیے جو فیصلہ کرتا ہے اسے استحسان کہا جائے گا۔

استحسان فقہی و قانونی احکام کے استنباط کا ایک قطعی اور یقینی اصول ہے جو اسلامی فقہ کی پوری عملی تاریخ پر محیط ہے ڈاکٹر حسین حامد حسان نے استحسان کے مفہوم اور اسکی مشروعیت پر بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا ہے:

"وهذا یدل علی أن قاعدة الاستحسان قاعدة قطعیة مأخوذة من مجموع النصوص الشرعیة بطریق الاستقراء فالعمل بها والتفریع علی أساسها والرجوع إلیها عمل بمجموع نصوص شرعیة ولیس عملا بالرأي ولاتشریعا بالهوی"[22]

یعنی ان جملہ امور سے اس با ت کا اثبات ہوتا ہے کہ استحسان ایک قطعی و یقینی قاعدہ ہے جو بہت سے نصوص شریعت کے استقراء سے اخذ شدہ ہے۔لہذا اس پر عمل اور اس کے ذریعہ تفرع احکام درحقیقت ان متعدد شرعی نصوص پر عمل کے مترادف ہے نہ کہ محض اپنی رائے یا خواہش کے ذریعہ شریعت سازی۔

استحسان اور آئمہ فقہ

استحسان کا اصول تمام فقہی مذاہب میں موجود ہے۔ڈاکٹر حسان لکھتے ہیں:

"وهذا نوع من الاجتهاد موجود في فقه الأئمة جمیعا"[23]

ڈاکٹر حسان کہتے ہیں کہ اجتہاد کی یہ نوع تمام آئمہ فقہ کے فقہی مذاہب میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔

استحسان کی اقسام

استحسان کی معروف تقسیم کے اعتبار سے اس کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں۔

1استحسان نصی4 استحسان اجماعی

2استحسان قیاسی5استحسان مصلحی

3استحسان ضرورت6استحسان عرفی

استحسان نصی

کسی معاملہ میں قیاس ظاہر قاعدہ کلیہ یا لغوی اطلاق کا مقتضی ترک کر کے نص شرعی کے ذریعے ثابت ہونے والے خصوصی حکم یا مفہوم کو اپنانا استحسان کہلاتا ہے۔

استحسان اجماعی

استحسان اجماعی سے مراد وہ استحسان ہے کہ جس میں کسی معاملہ میں قیاس و قواعد کا تقاضا ترک کر کے قولی یا تعاملی اجماع کی بناء پر ثابت ہونے والے خاص حکم کو اختیار کیا جائے۔

استحسان قیاسی

کسی مسئلے میں ظاہر (متبادر) اور فوری سمجھ آنے والے قیاس کے حکم سے اس کے مخالف حکم کی طرف کسی دوسرے قیاس کی بناء پر عدول کیا جائے جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ دقیق مخفی ہو لیکن باعتبار دلیل زیادہ قوی، غور و فکر کے لحظ سے زیادہ راست اور نتائج کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہو

استحسان مصلحی

بعض مواقع پر قیاسی احکام حالات وواقعات کی مخصوص نوعیت کی بناء پر نتائج اور مآل کے لحاظ سے مفید اور مصلحت کےحامل نہیں ہوتے بلکہ ان کا عامل ہونے سے شرعی مصالح کے فوت ہونے یا مضر اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ایسی صورت میں قیاس کو چھوڑ کر متبادل مصلحی احکام کو اپنانا استحسان کہلاتا ہے۔

استحسان ضرورت

استحسان ضرورت یہ ہے کہ بعض مواقع پر قیاس و کلی احکام پر عمل پیرا ہونا ممکن نہ ہو یا حرج و مشقت کا باعث بنے تو ایسی صورت میں ضرورت کی بناء پر قیاس احکام کو ترک کر کے متبادل رخصتی و استثنائی احکام اپنائے جائیں۔

استحسان عرفی

استحسان عرفی یہ ہے کہ ان امور کا تعین کیا جائے کہ جن کے تعین کو شریعت نے حالات کے مطابق اجتہاد کے سپرد کیا ہے یا یہ کہ کسی پیش آمدہ مسئلے میں قیاس یا عام قاعدہ کے مقتضی سے عدول کرتے ہوئے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے لوگوں کے مابین رائج عادت پر مبنی حکم کو اختیار کیا جائے۔فقہی ادب میں ان اقسام کی مثالیں موجود ہیں۔

استحسان کی اس تقسیم کے دقت نظری سے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ استحسان کے بارے میں یہ تصور کہ یہ خواہش نفس اور ذاتی رائے کے ذریعے تشریعی امور کی تشکیل ہے درست نہیں ہے۔ استحسان اور اس کی اقسام مستند دلائل کی حامل ہوتی ہیں۔ تمام آئمہ مجتہدین حنفیہ ہوں یا مالکیہ و حنابلہ اور شافعیہ عملاً استحسان کے مصدر شرعی ہونے کو تسلیم کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استحسان جیسی دیگر ادلہ فقہیہ کے بارے میں استشراقی تحقیقات کا محاکمہ کیا جائے اور انکی تسامحات کی نشاندہی کر کے حقیقی تصورات کو سامنے لایا جائے تاکہ قانون کا طالب علم اسلامی قانون اور اس کی مبادیات کا صحیح ادراک کر سکے ۔

نتائج

مذکورہ بحث سے مندرجہ ذیل نتائج معلوم ہوتے ہیں:* گولڈ زیہر ، استحسان کی اصطلاح کو امام ابو حنیفہؒ کی وضع کردہ مانتے ہیں، جو درست نہیں۔

  • جوزف شاخت، امام ابو یوسف ؒ کی طرف استحسان کی اصطلاح کی وضع کو منسوب کرتے ہیں ، یہ بھی درست نہیں۔
  • مکڈونلڈ کے مطابق استحسان اور فقیہ کی ذاتی رائے میں کوئی فرق نہیں، حالانکہ اصولی طور پر دونوں میں واضح فرق موجود ہے۔
  • جوزف شاخت ، امام شافعیؒ کو "استحسان"کا منکر قرار دیتے ہیں، جب کہ دلائل سے ثابت ہوا کہ وہ "مصطلح استحسان"کے منکر نہیں، بلکہ قائل ہیں۔
  • مستشرق بنجمن کے بقول "استحسان" رومی قانون کی ایک اصطلاح کا براہ راست ترجمہ ہے۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی و مصادر Schacht, Joseph, The Origins of Muhammadan Jurisprudence, University Press, 1959, p.112
  2. ibid
  3. الشیبانی، محمد بن حسن، الجامع الصغیر، لکھنو،۱۲۹۱، ص۸۴
  4. Ahmad hasan, The Early Development of Islamic Jurisprudence, Islamabad, Islamic Research Institute, 1973, p. 145
  5. شاخت، یوسف، اصول الفقہ، بیروت، دارلکتاب اللبنانی،۱۱۹۸، ص۸۶
  6. حوالہ بالا
  7. Ahmad Hasan, The Early Development of Islamic Jurisprudence, p. 136
  8. Macdonald, D.B, Development of Muslim Theology, Jurisprudence and Constitutional Theory, London, 1993, p. 87
  9. شاخت، یوسف، اصول الفقہ،ص ۸۶
  10. ابوزہرہ، محمد، اصول الفقہ، بیروت، دارالفکر العربی،۵۸۹۱،ص ۲۷۲
  11. الآمدی، علی بن محمد، الإحکام فی اصول الاحکام، بیروت، دارالکتاب العربی، ل۔ت،۴/۶۲۱
  12. الماوردی، علی بن محمد بن حبیب (مولف) ، الحاوی الکبیر فی فقہ مذہب الإمام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ:۴۹۱۹،۶۱/۶۶۱
  13. السبکی، علی بن عبدالکافی، الابہاج فی شرح المنہاج، بیروت، دارالکتب العلمیۃ: ۵۹۹۱، ۳/۱۹۱
  14. حوالہ بالا
  15. David Pearl, a Text Book on Muslim Law, London, Croom Helm Ltd, 1979, p. 15.
  16. Benjamin Jokisch, Islamic Imperial Law, Berlin, New York, Walter de gruyter, 2007, p.212
  17. الزمر: ۹۳:۷ ۱۔۸۱
  18. البزدوی، علی بن محمد، اصول البزدوی، کراچی، جاوید پریس، ل۔ت، ص۶۷۲
  19. السبکی، علی بن عبدالکافی، الابہاج فی شرح المنہاج،۳/۱۸۹
  20. الشاطبی، ابراہیم بن موسی، الموافقات السعودیۃ، دارابن عفان،۹۹۷۱ء،۵/۹۶۱
  21. ایضًا، ۵/۹۴۱
  22. حسین حامد حسان، نظریۃ المصلحۃ فی الفقہ الاسلامی،القاہرۃ،المطبعہ العالمیۃ ، 1۹۹۷،ص ،۳۹ ۲
  23. ایضا، ص،۳۵۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...