Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

اسلامی علوم و فنون میں ضلع ہری پور کی دینی شخصیات کی کتب کا تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060030498_563

Pages

45-55

DOI

10.36476/JIRS.3:2.12.2018.03

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/302/131

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/302

Subjects

Haripur Islamic Sciences Interfaith Dialogue Haripur Islamic Sciences Interfaith dialogue

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

اسلامی شریعت کی تعبیر و تشریح سے متعلق مباحث میں اسلامی تصانیف اور تحقیقات ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کا کوئی بھی قانون، خواہ وہ سماوی ہو یا انسانوں کا وضع کردہ، اپنے تمام تر ظاہری ڈھانچے کی تشکیل و تعمیر کے لئے کتب کا سہارا لیتا ہے۔ ضلع ہری پور، جو زمانۂ قدیم ہی سے اسلامیان کا مسکن رہا ہے، میں اس طرح کے علمی افراد موجود رہے ہیں جن کی تصانیف اور رہنمائی کی بدولت یہ خطہ اب تک اسلامی علوم و فنون سے آشنا ہے۔ یہاں کے علماء نے نہ صرف اپنے خطبات اور مجالس کے ذریعے لوگوں کے سامنے اسلام کا اصلی چہرہ پیش کیا بلکہ اپنی علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف علوم و فنون اور دیگر مسائل پر محققانہ انداز میں کتابیں تحریر کیں۔ ان علماء کرام میں سے چند کا تذکرہ، ان کے مختصر سوانحی خاکہ اور علمی خدمات و تحریرات کے ساتھ آئندہ سطور میں پیش کیا گیا ہے۔

محمد اعظم بن مولانا محمد گل:

آپ 1944ء میں پیدا ہوئے۔دار القرآن پنج پیر اور دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے تعلیم حاصل کی ۔ اسلام پور ہریپور اور پنج پیر صوابی میں امامت و خطابت کی ہے۔تصنیف: الرباط لرد حیلۃ الاسقاط[1]۔

الرباط لرد حیلة الاسقاط:

یہ ایک مشہور اختلافی مسئلہ ہے کہ میت کے انتقال کے بعد اس کی چارپائی کے اردگرد بیٹھ کر اس کے گناہوں کے کفارہ کے طور پرکچھ حیلہ کیا جا تا ہے ۔ جسے حیلہ اسقاط کہا جاتا ہے ۔ فاضل مصنف نے اس موضوع پر علمی انداز میں اپنے نظریہ کے اثبات میں دلائل فراہم کیے ہیں اور مخاف نظریہ والوں پر سوال قائم کیے ہیں ۔ یہ اپنے موضوع پہ تشنگی رفع کرنے والی ایک مدلل کتاب ہے ۔

محمد امین:

آپ یکم جمادی الآخر 1346ھ ۔ 1927ء کو موضع سری کوٹ [2]ضلع ہریپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ رحمانیہ ہری پور سے حاصل کی [3]۔اعلی ٰ تعلیم دار العلوم دیو بند سے حاصل کی ۔1970 میں ضلع شیخوپورہ میں ضلعی خطیب مقرر ہوئے۔ تصانیف: چند رسائل مثلاً میلاد النبی اور مسلمان، شہری دفاع اور جہاد وغیرہ[4]۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان:

مولانا محمد امین بریلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے صاحب علم شخصیت ہیں ۔آپ نے اپنے مسلک کے مطابق میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے حوالے سے مسلمانوں کی ذمہ داریوں پر قلم اٹھایا ہے ۔

شہری دفاع اور جہاد:

فاضل مصنفؒ نے اپنی اس تصنیف میں جہاد کے بارے میں پھیلی غلط تشریحات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ اور شہری دفاع کو ہر فرد کی ذمہ داری گردانتے ہوئے اسے جہاد کی قسم قرار دیا ہے ۔

محمد حسن (1892ء ۔ 1973ء):

آپ "دیدل کماچ " علاقہ چغرزئی ملحقہ ہزارہ کے رہنے والے تھے۔ابتدائی تعلیم جدباء برکلی کے مولانا سعد عمر سے حاصل کی پھر کراچی میں مولانا محمد صادق اور سندھ کے دیگر علماء مولانا عبید اللہ سندھی[5] اور مولانا احمد علی سے تعلیم حاصل کی ۔ پھر سہارنپور میں مولانا اعظم الدین ہزاروی سے تعلیم حاصل کی ۔دورہ حدیث کی تکمیل اجمیر میں مولانا معین الدین اجمیری[6] سے کی ۔تصانیف: معین العقائد، معین الحکمت، معین الفرائض، معین المنطق[7]۔

معین العقائد:

آپؒ نے اجمیر شریف ہندوستان میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی ہے ۔آپؒ نے عقائد کے حوالے سے پھیلی گئی غلط باتوں کا رد کرتے ہوئے اور درست عقائد کی رہنمائی کرتے ہوئے یہ رسالہ "معین العقائد" تحریر کیاہے ۔بنیادی طور پر یہ کتاب شرح عقائد کی مغلق گتھیوں کو سلجھانے کے واسطے تحریر کی گئی ہے ۔

معین الحکمت:

درس نظامی کے نصاب میں شامل فلسفہ کی مشہور کتاب "ھدیہ سعیدیہ" کی آسان انداز میں عام فہم شرح کی گئی ہے جسے فاضل مصنفؒ نے "معین الحکمت" کا نام دیا ہے ۔

معین الفرائض:

درس نظامی کے نصاب میں شامل علم الفرائض کی کتاب "السراجی" کو سمجھنے کے لیے فاضل مصنفؒ نے علم الفرائض کی اصطلاحات کی آسان تشریح کی ہے ۔ جسے کتابی شکل میں "معین الفرائض " کے نام سے زیورِ طبع سے آراستہ کیا گیا۔

معین المنطق:

درس نظامی کے نصاب میں شامل علم منطق کی مشکل کتابوں :تیسیرمنطق،ایساغوجی، مرقات،شرح التہذیب اور قطب، کی مغلق اصطلاحات کو سمجھانے کے لیے مصنفؒ نے "معین المنطق" کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی ہے ۔ جو درس نظامی کے طلبہ کے لیے بہت مفید ہے ۔

محمد طاسین

[8]:

آپ 1923ء کو درگڑی ضلع ہریپور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے علا قہ میں حاصل کی ۔ پھر مراد آبا د میں مولوی احمد صاحب برھانوی ،مولانا محمد اشرف علی تھانوی اور بھی کئی ایک علماء سے استفادہ کیا۔1942ء میں دورہ حدیث پڑھ کر فارغ ہوئے۔اردو کالج کراچی میں کچھ عرصہ تک اسلامی فقہ کے لیکچرار رہے[9]۔ تصانیف: غیر مطبوعہ خطبات ماثورہ، اسلامی معاشیات، اسلامی نظام حیات۔

خطبات ماثورۃ:

آپؒ نے اپنی اس تصنیف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول تمام خطبات کو حوالہ جات کی روشنی میں مرتب کیا ہے ۔

اسلامی معاشیات:

رزق کے حصول کے مختلف طریقوں کے شرعی و غیر شرعی یا جائز و ناجائز ہونے کے حوالے سے اس مقالہ میں بحث کی گئی ہے ۔ اس مقالہ کی روشنی میں انسان اپنے طریقہ حصول رزق کو جانچ سکتا ہے کہ اس کی کمائی کا طریقہ کس حد تک درست ہے۔

اسلامی نظام حیات:

اس تصنیف میں مصنفؒ نے اسلام کے ان اصولوں پر روشنی ڈالی ہے جو فلسفہ حیات کو واضح کرتے ہیں۔اسلام بطور مذہب یا مسلک سے ہٹ کر اسلام بطور نظام حیات یا اسلام بطور دین کے بھی ہر انسان کی ضرورت ہے ۔ اسی بات کو اس کتاب میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

محمد عاصم:

آپ 1981ء میں ملکیار میں پیدا ہوئے۔ 2004ء میں جامعہ فاروقیہ کراچی سے سن فراغت حاصل کی ۔ اس کے بعد جامعہ اشرف المدارس گلشن اقبال کراچی سے فقہ میں تخصص کیا۔ آپ عر صہ دس سال سے مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم کھلابٹ میں تدریس سے منسلک ہیں۔ اور فتاوی کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہے۔آپ نے مولانا عبدا لحئی ؒ کی کتاب النفع المفتی والسائل کی تخریج کی ۔دروس رمضان، فقہی اصول اور صراط مستقیم کورس آپ کے قلمی مخطوطات ہیں۔[10]

تخریج نفع المفتی والسائل:

مصنف تصنیفی ذوق کی حامل شخصیت ہیں ۔ آپ نے مولانا عبدا لحئی لکھنوی ؒ کی مشہور کتاب نفع المفتی والسائل میں موجود مسائل اور احادیث کی تخریج کی ہے ۔ یہ ایک قابل قدر کام ہے ۔ لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی ۔

دروس رمضان:

آپ رمضان المبارک میں فضیلت اعمال مختلفہ اور اصلاح الرسوم کے حوالے سے پورا مہینہ دروس کی محفلیں سجاتے ہیں۔ آپ اپنے تمام دروس کو قلمبند بھی فرماتے ہیں ۔ اسی کاوش کا نتیجہ ہے کہ آپ کے تما م دروس دروس رمضان کے عنوان سے حوالہ قرطاس ہو چکے ہیں ۔

صراط مستقیم:

سکول و کالج کے طلباء کی چھٹیوں کے دنوں میں آپ اپنی مسجد میں شہر کے بڑے علماء کرام کی زیر نگرانی ان طلباء کے لیے صراط مستقیم کورس کا اہتمام فرماتے ہیں ۔ جس میں بنیادی عقائد و مسائل اور احکام کی عملی تربیت کے حوالے سے مفید باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں ۔اس کورس کی تمام ترتیب کو آپ نے قلمبند کیا ہوا ہے ۔جو کہ صراط مستقیم کورس کے نام سےمعروف ہے ۔

محمد عبد الدائم ہزاروی بن مولانا قاضی محمد صدر الدین بن مولانا محمد فیروز الدین:

30 جون 1945ء کو ہریپور ہزارہ میں پیدا ہوئے۔اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ نعمانیہ لاہور سے تعلیم حاصل کی ۔مولانا صدر الدین نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے مولانا محمد عبد الدائم کو مسجد کی امامت ، خطابت، درس و تدریس مدرسہ ربانیہ اور خانقاہ مددیہ کا اہتمام سونپ دیا ۔1978ء میں والد کی وفات کے بعد علاقہ کے مشائخ نے انہیں والد کا جانشین مقرر کیا۔آپ کو سیرت نگاری پر صدراتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ آپ کی مشہور تصنیف " سید الوری" ہے جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔[11] ؎

سید الوریٰ:

قاضی عبد الدائم صاحب موجودہ زمانے میں ہری پور کے مایہ ناز مصنف،عالم و خطیب ہیں ۔ آپ ماہنامہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر مضمون لکھا کرتے تھے ۔ گورنمنٹ کی طرف سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تحریری مقابلے کا اعلان ہوا تو آپ کو اصرار کر کے متعلقین نے حصہ لینے پر مجبور کیا ۔ آپ نے اپنے ماہنامے میں لکھے گئے مضامین پر نظر ثانی کی اور انہیں تصنیفی رنگ میں رنگا ۔تو سید الوریٰ کی شکل میں ایک زبردست مقالہ منظر عام پر آیا ۔ جس نے اس مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی ۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی تحریر ہے ۔ کہیں کہیں مسلک اہل سنت سے ہٹ کر بھی بات کی گئی ہے ۔ لیکن مجموعی طور پر یہ ایک خوبصورت تحریر ہے ۔

محمد عبد اللہ ہزاروی بن قاضی محمد بن غلام حسن(1888ء ۔ 1979ء):

5 ستمبر 1888ء کو خان پور[12] ہری پور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور حافظ محمد رمضان پشاوری سے سند حاصل کی ۔آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کی ۔ آپ نے 1924ء میں مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ [13]سے ایل ایل بی کی ڈگری درجہ اول میں حاصل کی پھر مانسہرہ میں وکالت کرتے رہے۔ تصانیف: تذکرہ علمائے خانپور،بطش قدیر، زیارۃ القبور کا ترجمہ۔ آپ 22 جمادی الاول 1399ھ ۔ 20 اپریل 1979 ء کو بروز جمعہ وفات پا گئے۔[14]

تذکرہ علمائے خانپور:

مصنفؒ نے اپنی اس تصنیف میں خانپور(ہری پور) کے مشہور وقابل ذکر علمائے کرام کاتعارف لکھا ہے ۔ ہری پور کا علاقہ خانپور مردم خیز علاقہ رہا ہے ۔ یہاں بڑے بڑے علمائے کرام پیدا ہوئے ۔انہوں نے معاشرہ میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے میں قابل ذکر خدمات سرانجام دیں ہیں ۔

بطش قدیر:

اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے وقتاً فوقتاً انسان کو درست راہ دکھانے کے لیے قدرتی آفات بھی نازل ہوتی ہیں ۔ جن سے عقلمند اپنے لیے عبرت کا سامان حاصل کرتے ہیں ۔مولانا محمد عبدا للہ خانپوری ہزارویؒ نے انہی آفات کو موضوع بحث بنا کر انسانیت کی رہنمائی کے لیے عبرت کا سامان اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مصنفؒ نے اس تصنیف کو "بطش قدیر " کا نام دیا ہے ۔

زیارۃ القبورکا ترجمہ:

احمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن تيميہ ؒ نے اپنی اس تصنیف میں مردوں اور عورتوں کے الگ الگ طور پر قبرستان کی زیارت کرنے کے حوالے سے مسائل کو بیان کیا ہے ۔شریعت اسلامیہ کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مردوں کو تو اکثر قبرستان حاضر ہونا چاہیے لیکن شرک کے لیے نہیں بلکہ موعظت و نصیحت کے حصول کے لیے ۔ جب کہ عورتوں کو قبرستان کی حاضری سے پرہیز کرنا چاہیے۔مصنفؒ نے مشہور زمانہ اس کتاب کا اردو میں آسان ،سلیس و دلنشین ترجمہ کیا ہے ۔

محمد عثمان:

آپ کا تعلق ڈھونڈاں بانڈی سے تھا ۔آپ 1920 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم "واہ" سے حاصل کی۔ ہری پور اور حسن ابدال سے مروجہ تعلیم حاصل کی۔آپ نے تذکرہ سلمان فارسی [15]پر ایک طویل تبصرہ لکھا ہے۔[16]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ :

یہ ایک مختصر رسالہ ہے ۔ اس میں مصنٖفؒ نے صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ اور اُن کی شخصیت پہ ایک زبردست تذکرہ تحریر کیا ہے ۔

محمد فاروق چھوہروی:

آپ 1947ء میں مولوی عبد الرحیم چھوہرویؒ مرحوم کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے مدرسہ رحمانیہ ہری پور، مدرسہ احمد المدارس سکندر پور، جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام مدنی محلہ جہلم، جامعہ مدنیہ قدیم لاہور میں تعلیم حاصل کی ۔ 1970ء میں آپ نے جامعہ مدنیہ قدیم سے سند فراغت حاصل کی ۔ مولانا عبد اللہ دوخواستی (حافظ الحدیث ) سے آپ نے دورہ تفسیر القرآن کیا۔ مولانا عبدالستار تونسوی صاحب کے پاس دورہ رد فرق باطلہ کیا۔ مولانا حق نواز جھنگوی ؒ [17]آپ کے ہم سبق تھے۔ مولانا عبد اللطیف صاحب جہلمی[18] ؒاور مولانا سید حامد میاں ؒ آپ کے مشہور اساتذہ اور مولانا قاضی مظہر حسینؒ [19]صاحب چکوال والےآپ کے شیخ طریقت ہیں ۔

آپ جامعہ مسجد عائشہ صدیقہ ملکیارمیں 8 سال اور جامعہ مسجد مکی تربیلہ روڈ ہری پور میں 28 سال تک امامت و خطابت اوردرس قرآن دیتے رہے۔آپ نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر بھی لکھی ۔ جو کہ آپ کے مخطوطات میں موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ماہنامہ حق چار یار اور نصرۃ العلوم کے ماہنامے میں بھی آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے۔[20]

تفسیر ام الکتاب:

آپ نے تفسیر کا دورہ اپنے وقت کے مشہور مفسر شیخ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی[21] کے پاس کیا ۔ انہی کے علمی نکات جو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سے متعلق تھے ،ان کو قلم بند کیا ۔ جو کہ کتاب کی شکل اختیارکرگئے ۔ کچھ مسائل کی وجہ سے یہ علمی ذخیرہ شائع نہ ہو سکا۔

مضامین:

آپ نے اپنے استاد محترم حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب جہلمی ؒ کے حالات زندگی پر مشتمل جہلمی نمبر میں ان سے وابستہ یادوں سے متعلق مضمون قلم بند کیا جو کہ جہلمی نمبر میں شائع ہوا۔ اسی طرح اپنے مرشد و مربی شیخ قاضی مظہر حسینؒ کے حالات زندگی پر مشتمل قاضی نمبر میں ان سے متعلق مضمون لکھا جو کہ قاضی مظہر حسین نمبر میں شائع ہوا۔

مطیع الرحمٰن قاسمی:

آپ 12 دسمبر 1946ء کو ہری پور کے گاؤں مکھن [22]میں عبد الصمد کے گھر میں پیدا ہوئے۔مدرسہ عربیہ اسلامیہ، دارالعلوم اسلام آباد اور جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں آپ نے تعلیم حاصل کی۔ 1988ء میں آپ کی تعلیم مکمل ہوئی۔ آپ ضلع ہری پور کے ڈسٹرکٹ ناظم بھی رہے ۔آپ ابتداء میں کچھ عرصہ پڑھاتے رہے پھر تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے[23]۔ تصانیف: تاریخ مزار شریف ، مہر علی شاہ کے حالات ِ زندگی، خلفائے راشدین، داڑھی کی اسلامی حیثیت، بے باک محاسبہ۔

تاریخ مزار:

افغانستان کے مشہور شہر مزار شریف کی مختصر مگر جامع انداز میں مولانا مطیع الرحمن قاسمی صاحب نے تاریخ مرتب کی ہے ۔

مہر علی شاہ کے حالات زندگی:

پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ اپنے زمانے کے مشہور عالم اور مرشد گزرے ہیں ۔ مصنف نے ان کے حالاتِ زندگی کو قلم بند کیا ہے تا کہ نئی نسل کے لیے اس سے سامان ہدایت میسر آسکے۔

خلفائے راشدین:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلے چار صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین جو مسند خلافت پر متمکن ہوئے ،انہیں خلفائے راشدین کے لقب سے یاد کیا جا تا ہے ۔ وہ ہر مسلمان کے لیے نشان منزل کی طرح روشن ،تابندہ ودرخشندہ ہیں ۔ ان کی شخصیات و کردار کے حوالے سے فاضل مصنفؒ نے اپنی نگارشات کو حوالہ قرطاس کیا ہے ۔

داڑھی کی اسلامی حیثیت:

افراط وتفریط ہمارے معاشرے کا خاصہ بنتا جا رہا ہے ۔ فاضل مصنف نے اس حوالے سے اپنے قلم سے ایک خاصہ مسئلہ یعنی داڑھی کی اسلامی حیثیت پر اعتدال کا درس دینے کی کوشش کی ہے ۔

بے باک محاسبہ:

فاضل مصنف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ متحرک سیاسی رہنما بھی ہیں ۔ اور وہ ڈسٹرکٹ ناظم بھی رہے ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے بھی معاشرہ کی رہنمائی کرنے کی کوشش کی ہے اور "بے باک محاسبہ" کے نام سے شفاف سیاست کا درس دینے کی کوشش کی ہے ۔

مفتی محمد عمر صاحب:

آپ 1972ء کو ملکیار میں صوبیدار گوہر رحمان صاحب مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔1996ء میں جامعہ خیر المدارس ملتان سے آپ نے دورہ حدیث مکمل کیا۔سن 97ء سے 2007ء تک آپ نے مدرسہ احمد المدارس سکند پور میں تدریس کی ۔ اس کے بعد ایک سال تک مدرسہ اہل بیت کھلابٹ میں تدریس کی ۔ 2008ء میں مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم کی بنیاد رکھی ۔ اس کے بعد سے تاحال اسی سے منسلک ہیں۔ آپ بہت ہی قابل اور ماہر مدرس ہیں۔آپ نے تصنیفی کام بھی کیا ہے ۔ وہ ہنوز طبع نہ ہو سکا ۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔خلاصہ التوضیح، خلاصہ کافیہ ، تسھیل الصرف، تسھیل النحو،کنز الدقائق کے بعض مغلق مقامات کی تشریح۔[24]

خلاصۃ التوضیح:

آپ کے درسی افادات ہیں ۔ آپ عرصہ 8 سال سے درس نظامی [25]کے نصاب میں شامل اصول فقہ[26] کی مشہور کتاب توضیح تلویح [27]کا درس دے رہے ہیں ۔ درس کی تیاری میں آپ درسی نکات قلم بند کرتے رہے ،انہی کو مرتب و منظم کر کے تالیف کی شکل دی گئی ہے۔

خلاصہ کافیہ :

درس نظامی میں علم نحو [28]کی مقبول و مشہور کتاب کافیہ لابن حاجب[29] فی النحو کا درس مصنف ایک عشرہ سے دے رہےہیں ۔آپ نے اس کا خلاصہ آسان اردو میں حوالہ قرطاس کیا ہے ۔ اسے خلاصہ کافیہ کا نام دیا ہے ۔ ابھی تک طبع نہ ہوسکا ۔

تسہیل الصرف:

مصنف نے درس نظامی میں فن صرف[30] کی مشہور کتاب علم الصیغہ[31] کی آسان اردو شرح تسہیل الصرف کے نام سے مرتب کی ہے ۔جس میں انتہائی آسان انداز میں علم صرف کے بنیادی مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے ۔ اور قواعد کو دلچسپ اور عام فہم مثالوں سے واضح کیا گیا ہے ۔

تسہیل النحو:

مصنف عرصہ 16 سال سے علم النحو کی تدریس فرما رہے ہیں ۔آپ نے علم نحو کی مشہور کتابیں نحو میر، ہدایۃ النحو، کافیہ، شرح جامیکادرس دیا ۔ ان تمام کتابوں کے نچوڑ کو آسان فہم انداز میں مرتب کرنا مصنف کا قابل قدر کارنامہ ہے۔ اس تصنیف میں نحو کے بنیادی مسائل کو دلنشین انداز میں پیش کیا گیا ۔

یوسف حسین ہزاروی(ابو اسماعیل) بن قاضی محمد حسن (1868ء ۔ 1933ء):

آپ بروز جمعہ،28 جمادی الثانی 1285ھ کو خانپور ضلع ہریپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور بھائیوں قاضی عبد الاحد اور قاضی محمد سے حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم کےلئے دہلی چلے گئے اور مولانا میاں نذیر حسین [32]محدث دہلوی سے 1307ھ ،1890ء میں دورہ حدیث کی سند حاصل کی۔آپ نے1901ء میں علامہ بدر الدین شامی [33]سے بغداد میں سند الاجازۃ حاصل کی ۔ فراغت کے بعد 7 جولائی 1904ء کو بغداد پہنچے اور جامع بغداد میں سات سال تک تدریس کی۔ 1917ء میں وطن واپسی کے بعد تا دم حیات درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔آپ 6 صفر1352ھ ۔ یکم جون 1933ء کو خانپور میں وفات پا گئے۔تصانیف: زبدۃ المقادیر(شرعی اوزان کی تحقیق)، تقویم دار العلوم دہلی، ترویح المؤحدین، دعوۃ الحق، تفسیر کبیر کا عربی سے اردو ترجمہ۔[34]

زبدۃ المقادیر:

مصنفؒ نے اپنی اس تالیف میں شریعت مطہرہ میں وارد مختلف قسم کے اوزان کی تشریح و توضیح کے ساتھ ساتھ شریعت میں اوزان کی حقیقت و ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔

تقویم دارالعلوم دہلی:

یہ مصنف کا مرتب کردہ مختصر رسالہ ہے ۔ اس میں مصنفؒ نے دہلی وگردونواح کے اوقات کار کو مدنظر رکھ کر کلینڈر سازی کی ہے ۔

ترویح الموحدین:

مصنف ؒ نے اپنی اس تصنیف میں آٹھ رکعت اور بیس رکعت تراویح کے اختلاف پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔

دعوۃ الحق:

مصنفؒ نے اپنی اس تصنیف میں اپنے مسلک کو حق ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس مسلک کو قبول کرتے ہوئے اس کے مطابق عملی زندگی بسر کرے ۔

تفسیر کبیر کا عربی سے اردو ترجمہ :

مصنفؒ نے تفسیر کبیر [35]کااردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس کی کچھ جلدیں دستیاب ہیں ۔ لیکن اکثر ناپید ہیں ۔ تلاش و بسیار کی کوششوں سے انہیں منظر عام پر لایا جا سکتا ہے ۔ یہ مصنف کی ایک قابل قدر کاوش ہے ۔

خلاصہ بحث:

اس مقالہ میں ضلع ہری پور کے ان مصنفین علماء کرام کا تذکرہ ہے جن کی لکھی ہوئی کتب کی وجہ سے عامۃ الناس بالخصوص علمی حلقوں سے منسلک افراد کے درمیان فرقہ پرستی اور مسلکی تعصب کا زور کم ہوتا جا رہا ہے اور بھائی چارے کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے۔ مذکورہ بالا علماء اپنے دور کے بہترین خطباء ہونے کے علاوہ اچھے لکھاری بھی تھے۔ ان علماء میں دینی مدارس کے نصاب میں شامل تفسیر، عقائد، میراث اور منطق کی کتابوں کی شروحات لکھنے والوں مثلاً مولانا محمد حسن، مولانا فاروق چھوہروی اور مولانا یوسف حسین وغیرہ، کے علاوہ ایسے علماءِ کرام بھی شامل ہیں جنھوں نے عام لوگوں کی اسلامی عقائد اور شریعت کی تفصیلات تک رسائی آسان بنانے کے لئے عام فہم کتب تحریر کیں مثلاً مولانا محمد امین وغیرہ۔

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات(References) == ۔ آپ کے بیٹے مولانا محمد فرید نے آپ سے متعلق معلومات فراہم کیں۔
  2. ۔ ہری پور سے مغرب کی جانب تحصیل غازی کے رستے میں یہ قصبہ واقع ہے ۔ پیر صابر شاہ سابق وزیر اعلی صبہ سرحد بھی اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
  3. ۔ علمائے ہزارہ ، ص:181 ‘Ulama’-e- Hazara, 181
  4. ۔ سوز،بشیر احمد، پروفیسر، تاریخ صحافت ہزارہ، گندھارا ہندکو اکیڈمی، پیشاور، ط1 ،2016ء، ص:156 Sowz, Bashir ‘Aḥmad, Professor, Tarīkh Ṣaḥafat Hazara, (Peshawar: Gandhara Hindko Aademy, 1st Edition, 2016), 156
  5. ۔ مولانا عبید اللہ سندھی (1872ء تا 1944ء)فاضل دار العلوم دیوبند شاگر شیخ الہند تھے ۔
  6. ۔ مولانا معین الدین اجمیر (م1941ء) شارح ترمذی، بانی دارالعلوم معینیہ عثمانیہ
  7. ۔ سوز،بشیر احمد، پروفیسر، تاریخ صحافت ہزارہ، گندھارا ہندکو اکیڈمی، پشاور، ط1 ،2016ء، ص:161 Sowz, Bashir ‘Aḥmad, Professor, Tarīkh Ṣaḥafat Hazara, (Peshawar: Gandhara Hindko Aademy, 1st Edition, 2016), 161
  8. ۔ آپ کے حالات زندگی پر سالانہ نمبر بھی شائع ہوا ہے ۔ جس کا نام حیاتِ مولانا محمد طاسین ہے۔
  9. ۔ سوز،بشیر احمد، پروفیسر، تاریخ صحافت ہزارہ، گندھارا ہندکو اکیڈمی، پشاور، ط1 ،2016ء، ص:158 Sowz, Bashir ‘Aḥmad, Professor, Tarīkh Ṣaḥafat Hazara, (Peshawar: Gandhara Hindko Aademy, 1st Edition, 2016), 158
  10. ۔ آپ کے حالات آپ سے ملاقات کر کے حاصل کیے گئے۔ Personally Interviewed
  11. ۔ آپ سے ملاقات کر کے معلومات لی گئیں۔ Personally Interviewed
  12. ۔ ہری پور سے جنوب کی جانب 45 کلومیٹر کے فصلے پہ یہ مشہور قصبہ آباد ہے ۔ یہاں خانپور ڈیم بھی ہے جہاں بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔ ابھی حال ہی میں خان پور کو تحصیل کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
  13. ۔ سر سید احمد خان نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔
  14. ۔ ڈاکٹر،حافظ قاری فیوض الرحمٰن،مشاہیر علمائے سرحد، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی، اردو بازار لاہور،ص: 474 ‘Alvi, Dr. Qariy Colnal Fuyuz al Raḥman, Mashahīr ‘Ulama’ Sarḥad, (Lahore: Frontier Publishing Company), 474
  15. ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشینگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔33ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔
  16. عراقی، عبد الرشید،تذکرۃ النبلاء فی تراجم العلماء، بیت الحکمت لاہور، 2004ء، ص: 389 ‘Iraqi, ‘Abdul Rasheed, Tazkirah al Nubala’ fi Tarajim al ‘Ulama’, (Lahore: Bayt al Ḥikmat, 2044), 389
  17. ۔ بانی سپاہ صحابہ پاکستان
  18. ۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ، حسین احمد مدنی کے شاگرد اور مولانا احمد علی لاہوری کے خلیفہ تھے ۔ آپ نے جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام مدنی محلہ جہلم کی بنیاد رکھی۔
  19. ۔ آپ مولانا قاضی کرم الدین دبیر کے فرزند ، دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور مولانا حسین احمد کے شاگرد خاص اور خلیفہ مجاز تھے ۔ آپ تحریک خدام اہل سنت والجماعت کے بانی ہیں۔ بیسیوں اہم علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ 2004ء میں آپ کا انتقال ہوا۔
  20. ۔ آپ کے حالات آپ کے چھوٹے صاحبزادے مولوی محمد عمر (فاضل دارالعلوم کراچی 2014ء)مدرس مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم کھلابٹ ٹاؤن شپ سے حاصل ہوئے ۔
  21. ۔ آپ محرم الحرام 1324ھ بمطابق 1906ء بروز جمعرات کو درخواست ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے۔حافظ الحدیث شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ نے کم و بیش پون صدی تک پاکستان میں امت مسلمہ اور خاص طور پر علما کرام اور دینی کارکنوں کی علمی و روحانی اور دینی و فکری راہنمائی کی ہے۔ لاکھوں لوگوں نے ان سے مختلف حوالوں سے استفادہ کیا ہے جو بلاشبہ وطن عزیز کی علمی و دینی جدوجہد کی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ وہ ہزاروں علما کرام کے استاد اور لاکھوں انسانوں کے دینی و روحانی مربی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے متعدد دینی تحریکات کی جو قیادت اور سرپرستی فرمائی وہ انحطاط اور تنزل کے اس دور میں بہت یاد آتی ہے۔ 19 ربیع الاول 1415ھ بمطابق 25 اگست 1994ء کو خالق حقیقی سے جاملے
  22. ۔ ہری شہر سے 3 کلومیٹڑشمالی جانب چھپر روڈ پہ دریائے دوڑ سے ملحق یہ گاؤں آباد ہے۔
  23. ۔ آپ سے ملاقات کر کے معلومات جمع کی گئیں۔ Personally Interviewed
  24. ۔ آپ کے حالات آپ سے ملاقات کر کے معلوم کیے گئے ۔ Personally Interviewed
  25. ۔ درس نظامی ملا نظام الدین محمد سہالوی سے منسوب طریقۂ تدریس و نصاب، نصاب تعلیم و نظام تدریس جو ملا نظام الدین نے مشرق کی دینی درسگاہوں کے لیے تیار کیا تھا۔ علومِ اسلامیہ پر مشتمل آٹھ سالہ مرو جہ کورس جو تقریبًا تمام مکاتب فکر میں رائج ہے۔ اسے عالم کورس بھی کہا جاتا ہے ۔درس نظامی میں تیرہ موضوعات کی تقریباً چالیس کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔
  26. ۔ اصول فقہ ایسا علم ہے جو فقہ کی اجمالی دلیلوں کے حالات ، ان دلیلوں سے فائدہ حاصل کرنے کے طریقوں اور فائدہ حاصل کرنے والے کے حالات کے بارے میں بحث کرتا ہے۔
  27. ۔ توضیح تلویح اصل میں التنقیح فی الاصول کی دو شرحیں ایک ساتھ چھپی ہوئی ہیں ۔ ایک شرح کا نام التوضیح فی حل غوامض التنقیح ہے ۔ یہ شرح اور اصل متن یعنی التنقیح فی الاصول یہ دونوں امام برہان الشريعہ محمود بن صدر الشريعہ الاول: عبيد الله المحبوبی، الحنفی متوفی 673ھ  کی تصنیفات ہیں ۔ جبکہ دوسری شرح جس کا نام التلویح فی کشف دقائق التنقیح سعدالدین مسعود بن عمر بن عبداللہ تفتازانی (1322ءتا1390ء) کی تصنیف ہے ۔
  28. ۔ قواعد زبان کا وہ حصہ جس میں ہم مرکبات اور جملوں کی بناوٹ کا علم حاصل کرتے ہیں اور جملوں میں استعمال ہونے والے مختلف الفاظ کی حیثیت پر بحث کرتے ہیں، علم النحو کہلاتا ہے۔
  29. ۔ أبو عمرو عثمان بن عمر بن أبي بكر بن يونس الدويني الأسنائ(1175ءتا 1249ء) جو کہ ابن حاجب کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ فقہ مالکی کے مشہور عالم دین تھے ۔ آپ ماہر قاری،اصولی و نحوی تھے ۔
  30. ۔ قواعد زبان کا وہ حصہ جس میں ہم الفاظ، ان کی بناوٹ اور ان کے باہمی تعلقات پر بحث کرتے ہیں، علمِ صرف کہلاتا ہے۔
  31. ۔ " علم الصیغہ" مولانا مفتی عنایت احمدؒ کی بے نظیر تصنیف ہے(متولد1228ھ/1813۔متوفی1279ھ/1863ء)
  32. ۔ مشہور اہل حدیث عالم
  33. ۔ بدر الدین حسنی شامی (1851ء تا 1939ء) دمشق شام کے عالم محدث اور فقیہ گزرے ہیں۔
  34. ۔صابر، محمد شفیع، شخصیات سرحد مشائخ عظام، علمائے کرام، یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور، ص:263 Ṣabir, Muḥammad Shafi’, Shakhṣiyat Sarḥad Masha’ikh e ‘Iẓaam Ulama’ e Kiram, (Peshawar: University Book Agency), 263
  35. ۔ "التفسیرالکبیر"امام فخر الدین رازی )ولادت 544ھ/ وفات 606ء( کی عربی تفسیر قرآن جس کا اصل نام "مفاتیح الغیب" ہے۔ جو امام محقق فخر الدین ابن خطیب الرازی شافعی کی تفسیرہے مشکلاتِ قرآن میں سے کوئی مشکل ایسی نہیں مگر اس کا حل امام موصوف نے اس تفسیر میں فرما دیا ہے۔اس تفسیر میں فقہی مسائل میں شافعی مسلک کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اس تفسیر میں معتزلہ، جبریہ، قدریہ اور رافضیہ کا بہت رد کیا گیا ہے۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...