Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

امام بلاذری بحیثیت سیرت نگار |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060030498_580

Pages

1-20

DOI

10.36476/JIRS.2:2.12.2017.01

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/278/109

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/278

Subjects

Imam Balādhuri Ansāb-Ul-Ashrāf Seerah Imam Balādhuri Ansāb-ul-Ashrāf Seerah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

امام بلاذریؒ کا نام احمد بن یحیی بن جابر بن داؤد ہے[1]۔اور لقب بلاذری ، بغدادی اور کاتب مشہور ہے[2]۔ابو العباس[3]، ابو جعفر، ابوالحسن اور ابو بکر[4] میں سے ہر ایک کوبلاذری کی کنیت میں شمار کیا جاتا ہے۔ صلاح الدین منجد اپنی کتاباعلام التاريخ و الجغرافيا عند العرب" میں لکھتے ہیں:

اختلفت في كنيته فجعلته أبا جعفر، أبا بكر و أبا الحسن ولا نعلم إذا كان أوتي أولادا فكني بأسمائهم فحياته الخاصة غامضة جدا[5]

ان کی کنیت میں اختلاف کی وجہ سے ابو جعفر،ابو بکر اور ابو الحسن ان کی کنیت بن گئی۔شاید جب ان کے ہاں اولاد ہوتی ہو وہ کنیت رکھ لیتے ہوں۔ان کی نجی زندگی پردہ اخفاء میں ہے۔

امام بلاذری ؒکے نسب کے متعلق بھی مصادر میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ البتہ بعض محققین نے امام بلاذریؒ کے فارسی النسل ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔ احمد الحوفیؒ نے "تيارات ثقافية بين العرب و الفرس" میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ امام بلاذریؒ فارسی الاصل تھے[6]۔عبد الستار فراجؒ اپنے مقالہ میں امام بلاذریؒ کے فارسی الاصل ہونے کی دلیل میں لکھتے ہیں کہ اگر وہ عربی الاصل ہوتے تو اپنے نسب کا اظہار ضرور کرتے[7]۔

George Sarton میں امام بلاذریؒ کے فارسی الاصل ہونے کے بارے میں لکھتا ہے:

Abul Abbas Ahmad ibn Yahia jabir al Balādhuri of Persian birth but very Arabicized[8]

ابو العباس احمد بن یحیی بن جابر البلاذریؒ فارس میں پیدا ہوئے لیکن عربی زبان پر عبور تھا۔

دیگر مستشرقین میں Dr. S.D.F. Goitein Professor Hitti, اورپروفیسر نکلسن نے بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ امام بلاذری فارسی الاصل تھے[9]۔

وہ محققین جنہوں نے امام بلاذری کے عربی الاصل ہونے پر شک کا اظہار کیا ہےاور انہیں فارسی الاصل کہا ، ان کا ردکرتے ہوئے محمد جاسم حمادی مشہدانی نے لکھا ہےکہ ان محققین کے پا س کوئی دلیل موجود نہیں جو ان کادعوی ثابت کر سکے۔ مزید برآں مشہدانی نے امام بلاذریؒ کے عربی النسب ہونے پر متعدد دلائل دیے ہیں ۔* امام بلاذریؒ کے آباء و اجداد میں سے کسی فرد کا نام بھی ایسا نہیں جو ان کے عجمی ہونے پر دلالت کرتا ہو۔

  • مسعودیؒ نے امام بلاذری ؒ کی ایک تصنیف کا ذکر کیا ہے الرد علی الشعوبیۃ ۔اس موضوع پر کتاب لکھنے کا کام کوئی ایسا شخص کر ہی نہیں سکتا جو کہ عر ب ہونے کا واضح شعور اور احساس نہ رکھتا ہو۔
  • امام بلاذری ؒ انساب عرب کے عالم تھےاور اس کا انہوں نے انساب الاشراف میں خاص اہتمام کیا۔

جن لوگوں نے امام بلاذری ؒ کے عجمی غیر عرب ہونے کی طرف نسبت کی ہے۔ان کے پاس سوائے اس فرضیہ کے کوئی دلیل نہیں کہ امام بلاذری ؒ فارسی زبان کے ماہر تھے۔لیکن فارسی زبان کا جاننا اس امر پر دلیل نہیں بن سکتا کہ امام بلاذری ؒ فارس کے باشندے تھے یا ان کی پرورش فارس میں ہوئی تھی[10]۔

امام بلاذری ؒ کی تاریخ ولادت

احمد بن یحیی بلاذری ؒ کی صحیح تاریخ ولادت کے متعلق مؤرخین خاموش ہیں۔البتہ ان کی زندگی کے متعلق دیگر معلومات سے ان کے سن ولادت کی بابت استدلال کیا جاسکتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ امام بلاذری ؒ نے ایسے شیوخ سے استفادہ کیا جن کی تاریخ وفات 197ھ سے 211ھ کے درمیان ہے۔چنانچہ بلاذری ؒ نے عراق میں وکیع بن جراح ؒکوفی سے سماع کیا اور وکیع بن جراح ؒکی تاریخ وفات 197ھ ہے[11]۔واقدیؒ جن کی تاریخ وفات 207ھ ہے۔ ان سے بھی امام بلاذری ؒ نے سماع کیا[12] ۔اسی طرح امام بلاذری ؒ نے مامون کی مدح میں اشعار کہےاورمامون کی وفات 218ھ میں ہوئی [13]۔

اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ انہوں نے یہ اشعار مامون کے عہد حکومت کے آخری سال میں کہےتب بھی یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ اشعار اور قصائد عمر کے اس حصے میں کہے ہوں جس میں وہ اچھے اشعار کہنے کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہوں کیونکہ مامون الرشید(م:218ھ) بذات خود ایک عالم خلیفہ تھا جو کہ اشعار کے حسن و قبح سے بخوبی واقف تھا مذکورہ بالا بحث سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتاہےکہ امام بلاذری ؒ دوسری صدی کے اختتام سے کچھ ہی سال قبل پیدا ہوئے۔محمد جاسم مشہدانی نےبھی مذکورہ دونوں امور کا حوالہ دیتے ہوئےلکھا ہے:

کل هذه الأمور تدل ما رجحنا من تاريخ مولده[14]

یہ تمام اموردلالت کرتے ہیں اس پر جو ہم نے ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں ترجیح دی ہے۔

جرجی زیدان نے بھی اپنی کتاب "تاريخ آداب اللغة العربية" میں لکھا ہے:

ولد في أواخر القرن الثاني للهجرة[15]وہ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں پیدا ہوئے۔

خورشید احمد فارق نے بھی اس امر کا اظہار کیا ہے کہ بلاذری دوسری صدی ہجری کے اواخر میں پیدا ہوئے[16]۔

بلاذری کی وجہ تسمیہ

امام بلاذری ؒ کو بلاذری کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے بلاذر نامی پھل زیادہ مقدار میں کھا لیا تھا[17] ۔ محمدبن اسحاق الندیمؒ (م:438ھ)نے بلاذر نامی پھل کھانے اور نتیجہ کے طور پر بیمار ہونے کو احمد بن یحییؒ کے دادا کی طرف منسوب کیا ہے[18]۔ابن عساکرؒ(م:571ھ)نے تاریخ دمشق[19]اور خیر الدین زرکلیؒ (م:1396ھ)نے الاعلام[20]میں بلاذر نامی پھل کھانے اور بلاذری ؒ کی نسبت کو احمد بن یحییؒ کی طرف منسوب کیا ہے۔امام بلاذری ؒ اس پھل کا استعمال اپنے حافظہ کو تقویت دینے کے لئے کرتے تھے۔امام شمس الدین ذہبیؒ (م:748ھ)نےامام بلاذری ؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے:

وُسْوِسَ بِأَخَرَةٍ لأَنَّهُ شَرِبَ البَلاَذُرَ للحِفْظِ[21]

بلاذری ؒ نے حافظہ کو تقویت دینےکے لئے بلاذر کا شربت پیا تھا۔ آخر عمر میں وہ ذہنی وسوسوں کو شکار ہو گئے تھے۔

فلپ کے ہٹی فتوح البلدان کے مقدمہ میں امام بلاذری ؒ کی اس نسبت کی بابت یوں لکھتا ہے:

The year 279/892 saw his death , mentally deranged as a result of drinking the juice of anacardia: hence his surname al-Balādhuri[22]

279ھ میں امام بلاذری ؒ کی وفات ہوئی جب کہ انہوں نے بلاذر کا شربت پی لیاجس کی بناء پر ذہنی عارضہ کا شکار ہو گئے اوراسی وجہ سے بلاذری کی نسبت سے مشہور ہوگئے۔

مذکورہ بالا روایات سےبآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہےکہ بلاذر پھل کھانے والاشخص احمدبن یحیی ؒتھا نہ کہ جابر بن داؤد ؒجو کہ احمد بن یحییؒ کا دادا تھا۔جیسا کہ بعض تذکرہ نگاروں نے ذکر کیا ہے۔اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس پھل کو استعمال کرنے والا احمد بن یحییؒ کا دادا تھا تب یہ کہا جائے گا کہ یہ نام ان کے خاندان میں مشہور ہو گیا اور احمد بن یحییؒ بھی اسی نسبت سے مشہور ہو ئے۔ امام بلاذری ؒ کا تعلق کس ملک سے تھا۔ اس بابت بھی تاریخی مصادر خاموش ہیں۔البتہ زیادہ تر مؤرخین نے ان کی نسبت بغداد کی طرف کی ہے۔امام ذہبیؒ(م:748ھ)نے بھی فقط بغدادی کہنے پر اکتفاء کیاہے[23]۔

امام بلاذری ؒ کے اساتذہ و شیوخ

احمد بن یحیی بن جابرؒ نے تحصیل علوم اور تالیف و تصنیف میں اپنی زندگی کا طویل حصہ بسر کیا ۔تحصیل علم کی غرض سے متعدد علمی مراکز کا سفر کیا ۔ان علمی اسفار کے دوران انہوں نے متعدد کبار محدثین اور اساتذہ اور شیوخ سے استفادہ کیا ۔ابن عساکرؒ(م:571ھ) نے تاریخ دمشق میں امام بلاذری ؒ کے شیوخ کے متعلق کافی تفصیل فراہم کی ہے۔انہوں نے اس امر کا اظہارکیا ہے کہ امام بلاذری ؒ نے حصول علم کےلئے اپنے وطن اصلی کے علاوہ دمشق ،حمص ، عراق اور انطاکیہ کا سفر کیا ۔ ابن عساکر ؒ(م:571ھ)نے امام بلاذری ؒ کے پچیس 25 شیوخ و اساتذہ کا ذکر کیا ہے[24]۔

محمد جاسم مشہدانی نے ابن عساکر ؒ(م:571ھ)کے ذکر کردہ پچیس شیوخ کے علاوہ 54اساتذہ کا ذکر کیا ہے جن سے امام بلاذری ؒ نے سماع کیا [25]۔البتہ انساب الاشراف میں روایات سیرت کے تجزیاتی مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امام بلاذری ؒ کے اساتذہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔اس ضمن میں مشہدانی کے ذکر کردہ شیوخ کے علاوہ بھی امام بلاذری ؒ نے25 مزید اساتذہ سے روایات نقل کی ہیں۔

امام بلاذری ؒ کا علمی مقام اور تصانیف

امام بلاذری ؒ کی ولادت اور پرورش بغداد میں ہوئی۔ ابو جعفر منصور(م:158ھ) نے بغداد کو تعمیر کیا تو اس میں ملک کے اطراف و اکناف سے مترجمین ،محدثین،علما ء ، فقہاء ، ادباء اور شعراء کو اکٹھا کیا ۔ ان علما ء سےامام بلاذری ؒ نے اکتساب فیض کیا۔امام بلاذری ؒ کے شیوخ اور اساتذہ کی کثیر تعداد اور ان کی علمی ثقاہت امام بلاذری ؒ کی علمی منزلت کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا اعتراف متعدد علما ء نے کیا ہے۔ابن ندیم ؒ(م:438ھ)نے لکھا :

كان شاعرا راوية... وكان أحد النقلة من الفارسي إلى اللسان العربي[26]

وہ شاعر اور راوی تھا اور فارسی زبان سے عربی زبان میں نقل کرنے والوں میں سے ایک تھا۔

یاقوت حمویؒ(م:626ھ) نے"معجم الادباء "میں امام بلاذری ؒ کی درج ذیل خوبیا ں ذکر کی ہیں۔

كان أحمد بن يحيى بن جابر عالما فاضلا شاعرا راوية نسابة متقنا[27]

احمد بن یحیی ؒعالم وفاضل ، شاعر اور راوی اورثقہ ماہر انساب تھے۔

حافظ شمس الدین ذہبیؒ (م:748ھ)لکھتے ہیں:

أَدْرَكَ عَفَّانَ بنَ مُسْلِمٍ وَمَنْ بَعْدَهُ، يُعَدُّ مِنْ طَبَقَةِ أَبِي دَاوُدَ (صَاحبِ السُّنَنِ)[28]

بلاذری ؒ نے عفان بن مسلمؒ اور ان کے بعد کا زمانہ پایا، انہیں ابو داؤد کے طبقہ میں شمار کیا جا تا ہے۔

امام بلاذری ؒ کے علمی مرتبہ کے برعکس ان کی تصانیف کی تعداد اتنی زیادہ نہیں۔ابن ندیمؒ (م:438ھ)نے "الفهرست" میں امام بلاذری ؒ کی چار کتب کے نام ذکر کئے ہیں[29]۔یاقوت حمویؒ(م:626ھ)نے "کتاب الفتوح "کا ذکر بھی کیا ہے[30]۔ مسعودیؒ(م:446ھ) نے "مروج الذهب" میں امام بلاذری ؒکی تین کتب کے نام ذکر کئے ہیں[31]۔

فتوح البلدان

"فتوح البلدان"تاریخ اسلامی کے قدیم ترین ماٰ خذ میں سے اہم ترین ماخذ ہے۔اس فن میں تالیف کی گئی کتب میں بہترین کتاب ہے۔مسعودیؒ (م:446ھ)ؒنے اس کتاب کے متعلق لکھا:

لا نعلم فی فتوح البلدان احسن منه [32](شہروں کی فتوحات میں ہم اس سے بہتر کتاب نہیں جانتے)۔

"فتوح البلدان "کو مؤلف نے تاریخی ترتیب سےمرتب کیا ہے۔"فتوح البلدان" میں نہ صرف تاریخی واقعات کا مختصر ذکر ہے بلکہ اس دور میں اسلامی معاشرے کے لئے تہذیبی ، معاشرتی اور اقتصادی تنظیم کا حوالہ بھی ملتاہے۔ اس کتاب میں مہر ، کرنسی ، خط ، خراج اور عشر کے احکام ، آبادی ، عمارتوں اور دیہاتوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

کتاب البلدان الکبیر

کتاب البلدان الکبیرکےمتعلق اسماعیل پاشا بغدادیؒ(م:1399ھ)لکھتے ہیں کہ امام بلاذریؒ یہ کتاب مکمل نہ کر سکے[33]۔حاجی خلیفہؒ(م:1067ھ)نے "کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون "میں "فتوح البلدان" ہی کو "کتاب البلدان الکبير" قرار دیاہے[34]۔

کتاب الرد علی الشعوبیۃ

امام بلاذری ؒکے تراجم نگاروں میں سے سوائے مسعودیؒ کے اور کسی نے بھی اس کتاب کا ذکر نہیں کیا ۔ مسعودیؒ نے"مروج الذهب "میں اس کتاب سے عبارت بھی نقل کی ہے۔

وقد ذكر أبو الحسن أحمد بن يحيى في كتابه في الرد على الشعوبية عللا كثيرة[35]

کتاب عہد ارد شیر

امام بلاذریؒ فارسی زبان کے ماہر تھےاور فارسی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ کرتے تھے۔[36] کتاب عہد اردشیر فارسی زبان میں تھی جسےامام بلاذریؒ نے شعروں کی شکل میں ترجمہ کیا[37]۔

امام بلاذریؒ کی وفات

احمد بن یحیی بلاذریؒ کے تراجم نگاروں میں سے اکثر نےامام بلاذریؒ کی تاریخ وفات کا تعین نہیں کیا ۔البتہ تمام تراجم نگار اس بات پر متفق ہیں کہ امام بلاذری ؒ کی وفات معتمد علی اللہ کے عہد خلافت(256ھ تا 279ھ) میں ہوئی۔اسماعیل پاشا بغدادی ؒ(م:1399ھ)ؒنے امام بلاذری کی تاریخ وفات 279ھ ذکر کی ہے[38]۔

انساب الاشراف للبلاذری کا تعارف

انساب الاشراف احمد بن یحی بن جابر بن داؤد بلاذریؒ کی اہم ترین تالیف ہے۔جس میں عرب اور دوسری اور تیسری صدی ہجری تک کی عالم اسلام کی عسکری، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی حالت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ کتاب کےنام میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔مشہور مؤرخ مسعودیؒ نے مروج الذهب میں اس کا نام کتاب التاريخ ذکر کیاہے[39]۔ ابن ندیمؒ نے اس کا نام الاخبار و الانساب ذکر کیا ہے[40]۔ ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق میں اس کانام التاريخ[41]، یاقوت حمویؒ (م:626ھ)نے جمل نسب الاشراف لکھا ہے[42]۔ابن عدیمؒ (م:660ھ)نے اس کا نام جمل انساب الاشراف ذکر کیا ہے[43]۔ابن خلکانؒ (م:681ھ)نے ایک مقام پر اس کا نام انساب الاشراف[44] اور دوسرے مقام پر انساب الاشراف و اخبارهم [45]ذکر کیا ہے۔حافظ شمس الدین ذہبیؒ(م:748ھ) ایک جگہ پر اس کا نام التاريخ[46] اور دوسری جگہ پر اس کا نام التاريخ الکبيرلکھا ہے[47]۔ حاجی خلیفہؒ (م:1067ھ)نے کشف الظنون میں اس کا نام انساب الاشراف ذکر کیا ہے [48]۔ زبیدی ؒ(م:1205ھ)نے اس کتاب کے ناموں میں مفاهيم الاشراف ، الانساب ، المعالم اور المعاليم کا ذکر کیا ہے[49]۔

کتاب کے ناموں کا یہ اختلاف کئی وجوہات کی بناء پر ہے۔علماء متقدمین بعض اوقات کتاب کا پورا نام ذکر کرتے ، بعض اوقات آدھے نام پر اکتفاء کرتے اور بعض اوقات کتاب کی اس صفت کا ذکر کر دیا کرتے جو اس پر غالب ہوتی۔اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ انساب اور اشراف کے الفاظ اپنے غلبہ کی بناء پر نام بن گئے۔ مؤلف بلاذریؒ چونکہ کتاب کی تکمیل سے پہلےانتقال کر گئے اس لئے نہ تو کتاب پر کوئی مقدمہ لکھ سکے اور نہ ہی اس کا نام وضع کر سکے۔کتاب کا پورا نام جمل انساب الاشراف و اخبارهم ہے۔

انساب الاشراف تیسری صدی ہجری میں تالیف کی گئی اس کا مقام تالیف عراق تھا جو کہ احمد بن یحی بن جابر بلاذریؒ کا وطن تھا۔ لیکن پانچویں صدی ہجری میں عراق میں انساب الاشراف کا ایک بھی مکمل نسخہ موجود نہیں تھا۔ڈاکٹر حمید اللہؒ (م:2002ء)نے انساب الاشراف پر تحقیق کرتے ہوئے اس کے مقدمہ میں لکھا کہ انساب الاشراف کا پہلا نسخہ محمد بن احمد بخاریؒ نے مصر میں دریافت کیا جو کہ بیس جلدوں پر مشتمل تھا۔ کاتب اس کو حسب ضرورت دو ، چار یا بیس جلدوں میں نقل کرتے تھے[50]۔اب یہ کتاب نئی تحقیق کےساتھ آٹھ جلدوں میں بیروت سے طبع ہو چکی ہے۔

"انساب الاشراف "انساب اور اخبار پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں نسب نگاری اور تاریخ نگاری دونوں کو جمع کر دیا ہے۔نیز اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سےلگایا جا سکتا ہے کہ امام بلاذریؒ نے اس میں طبقات ابن سعد اور سیرت ابن اسحق کے بعض ایسے اقتباسات بھی نقل کئے ہیں جو بذات خود ان کتابوںمیں موجود نہیں ، اس اعتبار سے "انساب الاشراف" ان مذکورہ کتب کے لئے تکمیلی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔چنانچہ ڈاکٹر حمید اللہ ؒمقدمہ انساب الاشراف میں لکھتے ہیں۔

فکتاب البلاذري هذا مصدر لتکميل ما لم يصل الينامن تلک الکتب ۔[51]

امام بلاذری ؒکی انساب الاشراف مذکورہ کتب کے لئے تکمیلی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔اس میں مؤلف نے ایسی روایات اور آثار کو جمع کیا ہے جو دیگر مصادر میں دستیاب نہیں ہیں۔

انساب الاشراف للبلاذری کے مشمولات

"أنساب الاشراف" احمد بن یحی بن جابر بن داؤد بلاذریؒ کی اہم ترین تالیف ہے۔جس میں عرب اور دوسری اور تیسری صدی ہجری تک کی عالم اسلام کی عسکری، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی حالت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔انساب الاشراف انساب اور اخبار پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے نسب نگاری اور تاریخ نگاری دونوں کو جمع کر دیا ہے۔

احمد بن یحیی بلاذریؒ نے اپنی کتاب انساب الاشراف کا آغاز دیگر کتب تاریخ کی طرح ابتدائے آفرینش سے کرنے کی بجائےحضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد کے نسب سے کیا اور اس سلسلہ نسب کو عدنان تک بیان کیا۔ عدنانی قبائل کا ذکر کرتے ہوئے قریش کا تفصیلی ذکر کیا ۔پہلی جلد کو مولف نے مکمل طور پر سیرۃ النبی کےساتھ خاص کیا ہے۔سیرۃ النبی ﷺ کے بعض جزوی واقعات کو امام بلاذریؒ نے دیگر جلدوں میں بیان کیا ہے۔سیرۃ النبی کا مکمل تذکرہ کرنے کے بعد مؤلف نے ابو طالب اور ان کی اولاد کا ذکر کیا۔ابو طالب کی اولاد کا نسب بیان کرتے ہوئے امام بلاذری ؒنے حضرت علی المرتضی ؓ کی سیرت و کردار کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔حضرت علی ؓ اور ان کی اولاد کا تذکرہ 300 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔پھر عباس بن عبد المطلب ؓ اور ان کی اولاد کا نسب ذکر کیا۔ بنی عباس کےنسب کے ضمن میں مؤلف نے خلافت عباسیہ کے آغاز سے ہارون الرشید (م:193ھ)کی خلافت تک کے حالات کو ذکر کیا۔ بنی عبد المطلب کے نسب کے ضمن میں حضرت عباس بن عبد المطلب اور حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ کے حالات کو تفصیل سے ذکر کیا حضرت عباس اور حضرت حمزہ ؓکے حالات ذکر کرتے ہوئے بعض واقعات سیرت کا تکرار ہے۔بعد ازاں عبدالمطلب کی دیگر اولاد کا نسب ذکر کیا گیا ہے۔بنی عبد المطلب کے بعد بنی عبد شمس بن عبد مناف کا تذکرہ کرتے ہوئےدولت امویہ کی تاریخ اور اس دور کے مشہور واقعات (مثلاً خوارج کے معاملات، ابن اشعث کا معاملہ نیز عبد اللہ بن زبیرؓ کا معاملہ) کا ذکر کیا۔

اس کے بعد بنی زہرہ اور بنو تیم کا ذکر کیا ۔یہاں پر مؤلف نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خاندان کا تذکرہ کیا ہے اور حضرت ابو بکر ؓ کی سیرت اور خلافت کے واقعات کو ذکر کیا ہے۔پھر بنو مرہ بن کعب بن لوی کا تذکرہ کیا ۔بنی عدی کےنسب کے ضمن میں حضرت عمر فاروق ؓ کی سیرت اور خلافت کے واقعات کو ذکر کیا ہے۔ اس طرح مؤلف نے ایک ایک کر کے قیس عیلان تک قبائل کا ذکر کیا ۔بنو عبداللہ بن غطفان کے ذکر کے بعد مؤلف نے بنی مازن بن منصور اور بنی سلیم کا ذکر کیا ۔کتاب کا اختتام مؤلف نے بنو ثقیف کےذکر پر کیا ہے۔بنو ثقیف کا نسب ذکر کرتے ہوئے امام بلاذری ؒنے حجاج بن یوسف کے ترجمہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

انساب الاشراف میں امام بلاذریؒ کا منہج سیرت نگاری

کسی بھی کتاب کا اسلوب مؤلفین عموماً اس کتاب کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں لیکن"انساب الاشراف" میں مؤلف نے کوئی تفصیلی مقدمہ تحریر نہیں کیا جس میں کتاب کی وجہ تالیف اور اس کا اسلوب بیان کیا گیا ہو۔چند سطور پر مشتمل مختصر مقدمہ میں فقط اتنا لکھا ہے کہ انہوں نےنسب میں آنے والے اسماء کو دیگر نسابین کی طرح غیر معرب ذکر کیا ہے۔ امام بلاذری ؒنے کتاب کا آغاز ان الفاظ سے کرنے کے بعد براہ راست موضوع کا آغاز کر دیا :

قال أحمد بن يحيى بن جابر: أخبرني جماعة من أهل العلم بالكتب قالوا [52]

"أنساب الاشراف" کا اسلوب تاریخ اور خالص انساب کی کتب سے ذرا مختلف ہے۔اس میں مؤلف بلاذری ؒنے خالص تاریخ کی کتابوں کی طرح صرف تاریخی واقعات کے بیان کر دینےپر اکتفا نہیں کیا اور خالص کتب انساب کی طرح صرف افراد کے آباء و اجداد کے ناموں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس میں مؤلف نے ایک ایسا منفرد منہج اختیار کیا ہے جس میں انہوں نے مختلف تاریخی ادوار کو بیان کرتے ہوئے اس دور کے سیاسی ، عسکری اور معاشرتی حالات کی منظر کشی کی ہے۔چنانچہ اس تاریخ میں دیگر مؤرخین کے بر عکس زمانی ترتیب کی بجائےنسب کوبنیاد بنا کر اس کے ضمن میں تاریخی واقعات کو بیان کیا گیاہے۔مثال کے طور پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے قبول اسلام کا تذکرہ ساتویں جلدمیں بنی تیم کے نسب کے ضمن میں کیا گیا ہے۔نیز حضرت علی المرتضی ؓ کا تفصیلی تذکرہ جس کا تعلق براہ راست سیرت سے ہے اسے بھی انساب الاشراف کی تیسری جلد میں بنی ہاشم کے نسب کے ضمن میں کیا گیاہے۔حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام ،قبولیت اسلام میں تاخیر کا سبب وغیرہ آٹھویں جلد میں بنو عدی کے نسب کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

روایات سیرت میں محدثانہ اسلوب

روایات کو پوری سند کے ساتھ ذکر کرنا محدثین کرام کا طریقہ کار ہے۔امام بلاذریؒ نے انساب الاشراف میں محدثین کی طرز پر اسناد کے ذکر کا اہتما م کیا ہے ۔اس چیز نے کتاب کی اہمیت اور قدر و قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔اس ضمن میں امام بلاذریؒ نے کبار محدثین سے استفادہ کیا۔ان میں ابو عبید القاسم بن سلامؒ(م:224ھ)،ابو الحسن مدائنیؒ(م:225ھ)، یحیی بن معینؒ (م:233ھ)، عفان بن مسلمؒ(م:219ھ) وغیرھم جیسے نام موجود ہیں۔مثلاً

حدثنى أبو الحسن المدائني، عن أبي زيد الأنصاري، عن أبي عمرو بن العلاء، عن مجاهد، عن عبد الله بن عباس، قال:حصرنا في الشعب ثلاث سنين[53]

ابو الحسن مدائنی نے ابو زید انصاری سے انہوں نے ابو عمرو بن العلاء سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے عبد اللہ بن عباس سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا ہم گھاٹی میں تین سال تک محصور رہے۔

"انساب الاشراف"میں حدیث کی کتب کی طرز پر مؤلف کسی ایک خبر کو مختلف روایات کے ساتھ اور پوری سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعثت کے بعدنبی کریم ﷺ کے مکہ اور مدینہ میں عرصہ قیام کے بارے میں مؤلف کتاب نے مکمل اسناد کے ساتھ مختلف روایات کے ذکر کا اہتما م کیا ہے۔ اس ضمن میں مؤلف نے جو روایات ذکر کی ہیں ان میں سے چند ایک کو بطور مثال ذکر کیا جا رہا ہے:

حدثني عبد الله بن محمد بن أبي شيبة ثنا خالد بن مخلد ثنا سليمان بن بلال عن ربيعة عن أنس عن عائشة قالت : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم ابن أربعين فأقام بمكة عشر سنين و بالمدينة عشرا و توفي على رأس ستين.

ابن ابی شیبہ نے مجھے خبر دی کہ ہمیں خالد بن مخلد نے خبر دی کہ ہمیں سلیمان بن بلال نے ربیعہ سے انہوں نے حضرت انس سے خبر دی انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہﷺ کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی ۔آپﷺ نے مکہ میں دس سال اور مدینہ میں دس سال قیام کیا اور آپ ﷺنے ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔

وحدثني عباس بن هشام، عن أبيه، عن جده، محمد بن السائب الكلبي قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن أربعين سنة فأقام بمكة اثنتي عشرة (سنة) ، وأقام باقي عمره بالمدينة، وتوفي وهو ابن اثنتين وستين سنة ونصف سنة[54]

عباس بن ہشام نے اپنے والد انہوں نے اپنے دادا ا بن السائب سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ کی بعثت چالیس سال کی عمرمیں ہوئی آپﷺ نے مکہ میں بارہ سال قیام کیا اور اپنی باقی زندگی مدینہ میں قیام کیا اور آپ ﷺ کی وفات ساڑھے باسٹھ سال کی عمر میں ہوئی۔

امام بلاذریؒ کا پوری سند ذکر کرنے کا یہ اسلوب پوری کتاب میں کثرت سے نظر آتا ہے۔

"انساب الاشراف" میں جب امام بلاذری ؒمتعدد ایسی روایات ذکر کرتے ہیں جن کا متن ایک جیسا ہوتا ہے تو ایک مرتبہ سند مع متن ذکر کرتے ہیں ۔ بعد ازاں تمام دیگر اسناد کو ذکر کرنے کےبعد لکھتے ہیں کہ راوی نے اسی کی مثل روایت کیا۔اور دوبارہ متن کا تکرار نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر مذکورہ بالا روایت درج کرنے کے بعد امام بلاذریؒ نےدو دیگر اسناد ذکر کی ہیں لیکن متن کا تکرار نہیں کیا۔

وحدثني عمرو الناقد، ثنا الحسين الجعفي، عن زائدة، عن هشام، عن الحسين بمثله.[55]

مجموعی سند کا استعمال

اکثر اوقات امام بلاذریؒ روایات کو الگ الگ سند سے ذکر کرتے ہیں لیکن بعض اوقات مجموعی سند سے بھی ذکر کرتے ہیں ۔ ایسے موقع پر وہ روایت کی ابتداء میں "قالوا "لکھتے ہیں چونکہ امام بلاذریؒ نے انساب الاشراف کا کوئی مقدمہ تحریر نہیں کیا جس میں اس بات کا ذکر ہوکہ وہ " قالوا "سے کیا مراد لیتے ہیں۔البتہ بغور مطالعہ اور پوری کتاب کا تجزیہ کرنےسےیہ بات سامنے آتی ہے کہ " قالوا "سے مؤلف کی مرادبعض اوقات اہل علم کی مخصوص جماعت ہوتی ہے۔اس کی واضح مثال کتاب کے آغاز میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں امام بلاذری ؒکتاب کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں:

قال أحمد بن يحيى بن جابر: أخبرني جماعة من أهل العلم بالكتب قالوا[56]

اس صورت میں امام بلاذریؒ اجتماعی سند سے روایت بیان کر رہے ہوتے ہیں ۔اور اجتماعی سند سے امام بلاذریؒ کی مراد متعدد راویوں کا مجموعہ ہوتاہے۔مثال کے طور پر

حدثني بكر بن الهيثم، حدثني بشر بن الوليد الكندي، عن سفيان عن معمرعن الزهري وقتادة والكلبي قالوا[57]

اسی طرح جب امام بلاذریؒ کسی بھی قسم کی سند ذکر کئے بغیر "قالوا" کا لفظ ذکر کرتے ہیں تو اس وقت یا تو امام بلاذریؒ کی مراد مذکورہ بالا راویوں کامجموعہ ہوتا ہے یا وہ اسناد کے ذکر کے بغیر روایت ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ایسا عام طور پر وہ اختصار کی وجہ سے کرتے ہیں اور وہ روایت امام بلاذریؒ کے اساتذہ و شیوخ کے ہاں متفق علیہ ہوتی ہے۔

بعض اوقات امام بلاذریؒ کسی روایت کی ابتداء میں فقط " قال " لکھ کر روایت ذکر کر دیتے ہیں ۔جہاں روایات کی ابتداء میں مؤلف" قال" لکھتے ہیں وہاں ان کی مراد سابقہ راوی ہوتا ہےنیز وہ روایت سابقہ روایت کا تسلسل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر امام بلاذری ؒنے عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ قریش مکہ نبی کریمﷺ کو دعوت اسلام سے روکنے کے لئے ابو طالب کے پاس آئے ۔پوری روایت ذکر کرنے کے بعدامام بلاذریؒ نے دوسری روایت کو سند کے بغیر فقط " قال " لکھ کر ذکر کر دیا ہے:

قال: وأتوه مرة أخرى، فأعلموه أنه إن لم يأخذ على يد رسول الله ﷺويرده قتلوه غيلة[58]

انہوں نے کہا وہ ان کے پاس دوبارہ آئے اور انہیں خبردار کیا کہ اگر انہوں نے رسول اللہﷺ کا ہاتھ نہ پکڑا اور انہیں منع نہ کیا تو وہ انہیں دھوکہ سے قتل کر دیں گے۔

قیل اور یقال کا استعمال

عام طور پرمحدثین اور سیرت نگاروں کے ہاں یہ اسلوب پایا جاتاہے کہ جب وہ ایک واقعہ سے متعلق مختلف روایات ذکر کرتے ہیں تو ان روایات میں ترجیح کا اہتمام کرتے ہیں۔اس صورت میں محدثین کے ہاں کمزور اور ضعیف روایات کے لئے قیل اور یقال کے الفاظ کا استعمال عام ملتا ہے۔ محدثین کی طرز پرامام بلاذریؒ نے بھی روایات سیرت ذکر کرتے وقت ایک ہی واقعہ سے متعلق متعدد روایات ذکر کی ہیں ۔ثقہ اور ترجیح شدہ روایت ذکر کرنے کے بعد امام بلاذری نے قیل اور یقال کے ذریعہ کم ثقہ اور کمزور روایات کو ذکر کیا ہے۔مثال کے طور پریزید بن معاویہ بن اسود بن مطلب کا ذکر کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

هاجر في المرة الثانية، واستشهد يوم حنين.ويقال:يوم الطائف[59]

دوسری مرتبہ ہجرت حبشہ میں ہجرت کی اور حنین کے روز شہید ہوئے ۔کہا جاتا ہے کہ طائف کے روز شہید ہوئے۔

بدر کے روز نبی کریمﷺکو مال غنیمت میں ذو الفقار تلوار ملی ۔یہ تلوار کس کی ملکیت تھی؟اس کے متعلق امام بلاذریؒ نے پہلا قول یہ لکھا ہے کہ یہ عاص بن منبہ کی تھی اور یہی بات ثابت شدہ ہے۔بعد ازاں امام بلاذریؒ نے دو مزید اقوال لکھے ہیں:

قتل أيضا العاص بن منبه، وكان صاحب ذي الفقار، سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم. وذلك الثبت.وبعضهم يقول: إنه كان سيف منبه. ويقال أيضا: إنه كان سيف نبيه[60]

عاص بن منبہ بھی قتل کیا گیا۔اور رسول اللہ ﷺ کی تلوار ذوالفقار کا مالک یہی تھا۔یہی بات ثابت شدہ ہے ۔بعض کہتے ہیں کہ کہ یہ منبہ کی تلوار تھی۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ نبیہ کی تلوار تھی۔

اسی طرح خالد بن قیس بن مالک بن عجلان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

شهد بدرا. وقيل: إنه لم يشهد العقبة. والثبت أنه شهدها.[61]

انہوں نے بدر میں شرکت کی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بیعت عقبہ میں شرکت نہیں کی اور ثابت شدہ بات یہ ہے کہ انہوں نے بیعت عقبہ میں شرکت کی تھی۔

اعلام کے تفصیلی تراجم

امام بلاذریؒ نے اپنی کتاب انساب الاشراف میں مختلف اعلام کے تفصیلی تراجم ذکر کئے ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق حکمران طبقہ سے ہے ،بعض کا علماء سے اور بعض کا شعراء اور ادباء کے طبقہ سے۔مثال کے طور پرامام بلاذریؒ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے ترجمہ کے لئے33صفحات ، حضرت عمر فاروق ؓ کے ترجمہ کے لئے 125 صفحات،حضرت عثمانؓ کے لئے 90صفحات ،حضرت علی ؓ کے ترجمہ کے لئے 208 صفحات حضرت عباس ؓ کے ترجمہ کے لئے 18 صفحات،فرزدق شاعر کے ترجمہ کے لئے 20صفحات اور حجاج بن یوسف ثقفی(م:95ھ) کے ترجمہ کے لئے 41 صفحات وقف کئے ہیں[62]۔

اعلام کے تراجم میں عام طور پر امام بلاذریؒ کا اسلوب یہ ہے کہ آپ پہلے ان اعلام کا نسب بیان کرتے ہیں۔اس کے بعدوہ واقعات بیان کرتے ہیں جن کا تعلق نبی کریمﷺ کی سیرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ امام بلاذریؒ صحابہ کرامرضوان اللہ علیہم کے تراجم میں ان کے فضائل میں نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ ذکر کرتے ہیں۔بعد ازاں دیگر واقعات بیان کرتے ہیں۔اعلام کے تراجم بعض اوقات واقعات سیرت کا تکرار بھی آجاتا ہے۔

واقعات سیرت کا تکرار

انساب الاشراف للبلاذری چونکہ بنیادی طور پر سیرت کی کتاب نہیں ہےاس بنا ء پراس میں واقعات سیرت کا تکرار پایا جاتا ہے۔یعنی مؤلف جب کسی ایک موضوع پر روایت ذکر کر دیتے ہیں اور بعد ازاں دوبارہ کسی فرد کے ترجمہ کے ساتھ اس روایت کا تعلق ہو تو اسے دوبارہ ذکر کردیتے ہیں۔مثال کے طور پرحضرت علی ؓ کی ہجرت کا تذکرہ ہجرت کے واقعات کے ضمن میں ہے دوبارہ حضرت علی ؓکے ترجمہ کے ضمن میں اسی واقعہ کو ذکر کیا گیا ہے۔اسی طرح عبد المطلب کے خواب کا تذکرہ کتاب کی ابتداء میں ہے ۔بعد ازاں جلد سوم ص243 پر نسب عبد المطلب کے ذکر میں اس واقعہ کا تکرار ہے۔دیگر واقعات سیرت جن کا "انساب الاشراف" میں تکرار پایا جا تا ہے ان میں رکانہ بن عبد یزید کے ساتھ نبی کریمﷺ کی کشتی[63]، ،کلید کعبہ کی عثمان بن ابی طلحہ ؓ کو واپسی[64] ،جہیم بن الصلت کا خواب[65]،عقبہ بن ابی معیط کی اسلام دشمنی کے واقعات [66]وغیرہ شامل ہیں۔

واقعات سیرت کی طرف اجمالی اشارہ

انساب کی کتاب ہونے کی وجہ سے انساب الاشراف میں امام بلاذری کے اسلوب ِ سیرت کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ امام بلاذریؒ اکثر و بیشتر ایک دفعہ ذکرکردہ واقعہ کی طرف فقط اشارہ کر دیتے ہیں ،اس وقت امام بلاذریؒ یوں لکھتے ہیں:

قد ذکرنا فيما سبق(ہم نے پیچھےاس کا ذکر کر دیا ہے)،کتبنا ذکره فيما سبق (ہم نے پیچھےاس کا ذکر لکھ دیا ہے)،قد كتبنا خبره فيما تقدم(ہم نے پیچھےاس کی خبر لکھ دی ہے)وغیرہ۔

مثال کے طور پربدر کے روز عتبہ کو کس نے قتل کیا ۔چونکہ بدر کے واقعہ میں اس کے بارے میں متعدد اقوال ذکر کر دیئے گئے تھے،لہذا دوبارہ جب بنو عبد شمس کے نسب کے ضمن میں عتبہ کا ذکر آیا توامام بلاذریؒ نے لکھا:

وقتل عتبة عبيدة بن الحارث يوم بدر، ويقال إنه شرك في قتله علي بن أبي طالب، ويقال قتله حمزة. وقد كتبنا خبره فيما تقدم[67]

عتبہ کو عبیدہ بن حارث ؓ نے بدر کے روز قتل کیا ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے قتل میں حضرت علی ؓ بھی شریک ہوئے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے حضرت حمزہ ؓ نے قتل کیا۔

ابو لہب کی رسول اللہ ﷺ سے دشمنی اور ایذاء کے واقعات مکی دور میں مفصل ذکر کر دیئے گئےلہذا بنی عبد المطلب کے نسب کے ضمن میں امام بلاذریؒ نے مطلقا سابقہ واقعہ کے مقام کی طرف اشارہ کر دیا:

وقد كتبنا لأبي لهب أخبارا فيما تقدم من كتابنا فلم يحتج إلى إعادتها[68]

بعض اوقات امام بلاذریؒ کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کی تفصیل بعد میں ذکر کی جائے گی۔مثال کے طور پر دوران ہجرت حضرت ام معبد ؓاکا واقعہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وصفت أم معبد رسول الله صلى الله عليه وسلم صفة سنذكرها إن شاء الله تعالى [69]

ام معبد ؓ نے رسول اللہﷺ کا حلیہ بیان کیا ہے ہم ان شاء اللہ عنقریب اس کا ذکر کریں گے۔

آیات قرآنیہ کا شان نزول

فہم قرآن کے لئے فہم سیرت ضروری ہے۔اس ضمن میں سیرت نگاروں نے قرآنی آیات کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کو بیان کیا۔فہم قرآن میں سیرت کے اس اسلوب کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے قرآنی آیات کا شان نزول سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔امام بلاذری نے بھی سیرت کے واقعات بیان کرتے ہوئے آیات کے شان نزول کا اہتمام کیا ہے۔چنانچہ کسی مؤمن، کافر یا کسی منافق کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔مثلاًابوالبختری کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

في أبي البختري نزلت:والذين اتخذوا من دونه أولياء ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى [70]

ابو البختری کے بارےمیں یہ آیت نازل ہوئی:اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا مدد گار بنا ئے وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لئے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔

حضرات عمار، ابو فکیہہ ، بلال، عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہم اور دیگر کمزور مسلمان صحابہ کے بارےمیں لکھتے ہیں:

فأنزل الله عز وجل فيهم: أليس الله بأعلم بالشاكرين [71]

اس پر اللہ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی : کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں؟

بعض مقامات پر امام بلاذری ؒ متعدد آیات کو اکٹھا ذکر کر دیتے ہیں۔مثال کے طور پرنضر بن حارث بن کلدۃ کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو اکٹھا ذکر کر دیا گیا ہے:

﴿اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء أو ائتنا بعذاب أليم﴾[72]

اور جب انھوں نے کہا اے اللہ اگر ہو یہ سچ تیری طرف سے تو برسا ہم پر پتھر آسمان سےاور لے آ ہم پر دردناک عذاب۔

﴿وقالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل يوم الحساب﴾[73]

اور کہتے ہیں اے ہمارے رب جلدی دے دے ہمارے حصہ (کا عذاب) یوم حساب سے پہلے

﴿سأل سائل بعذاب واقع﴾ [74]

مطالبہ کیا ہے ایک سائل نے ایسے عذاب کا جو ہو کر رہےگا۔

امام بلاذریؒ نے آیات قرآنیہ کے شان نزول میں جمہور مفسرین کی آراء سے موافقت کی ہے۔نیز امام بلاذری ؒنے فقط اتنا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے کہ کون سی آیت کس فرد کے بارے میں نازل ہوئی ۔

سیرت نگاروں کی آراء میں ترجیح

سیرت کی امہات کتب میں واقعات سیرت میں جزوی اختلافات پائے جاتے ہیں اور سیرت نگار عام طور پر ان میں تطبیق و ترجیح کی کوشش کرتے ہیں ۔ امام بلاذریؒ نے بھی انساب الاشراف میں روایات سیرت کو ذکر کرتے وقت مطلقا متقدمین سیرت نگاروں کی آراء کو فقط نقل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مؤلف مختلف روایات میں ترجیح قائم کرتے ہیں صحیح اور ثابت شدہ روایت کی طرف ثابت(ثابت شدہ ہے)، الاول اثبت(پہلی بات زیادہ ثابت شدہ ہے)، القول الاول اثبت(پہلی خبر زیادہ ثابت شدہ ہے)، الخبر الاول اثبت (پہلی خبر زیادہ ثابت شدہ ہے)کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کے والد عبداللہ بن عبد المطلب کی وفات کے بارے میں تین روایات ذکر کرتےہوئے لکھتے ہیں:

وتوفي عبد الله بن عبد المطلب، أبو رسول الله ﷺ وهو حمل. وذلك الثبت.[75]

رسول اللہ ﷺ کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب کی وفات اس وقت ہوئی جب کہ آپ ﷺ رحم مادر میں تھے اور یہی بات ثابت شدہ ہے۔

دوسری دونوں روایات کہ عبداللہ بن عبد المطلب کی وفات کے وقت نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک سات ماہ یا بیس ماہ تھی کو "يقال "کے لفظ کے ساتھ ذکر کیاہے۔

غزوہ احد کے شہداء میں امام بلاذریؒ نے شماس بن عثمان ؓ کا ذکر کیا ہےکہ انہیں ابی بن خلف نے شہید کیا ۔اس کے بعد امام بلاذریؒ نے دوسرا قول لکھاہے:

واسمه عثمان هاجر إلى الحبشة في المرة الثانية. واستشهد يوم أحد. وقال بعضهم: استشهد يوم بدر. والأول أثبت[76]

اور ان کا نام عثمان تھا انہوں نے دوسری ہجرت حبشہ میں ہجرت کی اور احد کے روز شہید ہوئےاور بعض نے کہا کہ بدر کے روز شہید ہوئے۔اور پہلا قول زیادہ ثابت شدہ ہے۔

مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے میں اولین تین صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے امام بلاذریؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابو سلمہ،حضرات مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم ؓکے بعد تیسرے مہاجر مدینہ تھے۔اس کے بعد امام بلاذریؒ لکھتے ہیں:

وسمعت من يذكر أن أبا سلمة قبل ابن أم مكتوم. والخبر الأول أثبت[77]

اور میں نے سنا جس نے ذکر کیا کہ ابو سلمہ نے ابن ام مکتوم سے پہلے ہجر ت کی اور پہلی خبر زیادہ ثابت شدہ ہے۔

تحقیق روایات کا اہتمام

امام بلاذریؒ جہاں مختلف روایات میں ترجیح کا اہتمام کرتے ہیں۔علاوہ ازیں اگر کوئی روایت ان کی رائے کے مطابق درست نہیں ہوتی تو وہاں واضح الفاظ میں لکھتے ہیں: هذا غلط (یہ غلط ہے)، ليس هذا بثبت(یہ ثابت شدہ نہیں ہے)،ليس ذلك بثبت (یہ ثابت شدہ نہیں ہے)،ایسی صورت میں اکثر اوقات امام بلاذریؒ درست روایت بھی ذکر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر غزوہ بدر کے شہدا ء کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقوم يقولون إن أنسة مولى النبي صلى الله عليه وسلم قتل يوم بدر وليس ذلك بثبت.والمجمع عليه أنه شهد يوم أحد، وبقي بعد ذلك ومات في خلافة أبى بكر[78]

بعض لوگ کہتے ہیں کہ انسہ مولی رسول اللہﷺ بدر کے روز شہید ہوئے اور یہ بات ثابت شدہ نہیں ہے۔اور متفق علیہ بات یہ ہے کہ انہوں نے احد میں شرکت کی اور احد کے بعد زندہ رہے اور حضرت ابو بکر کی خلافت میں وفات پائی۔

امام بلاذریؒ نے مہاجرین حبشہ کے اسماء میں وہب بن ابی سرح کے بارے میں ہیثم بن عدی کا قول ذکر کیا ہے کہ وہب بن ابی سرح مہاجرین حبشہ میں شامل تھے ۔امام بلاذری ؒیوں لکھتے ہیں:

وأما وهب بن أبي سرح أخوه، فإن الهيثم بن عدي ذكر أنه من مهاجرة الحبشة. وليس ذلك بثبت[79]

وہب بن ابی سرح کو ہیثم بن عدی نے مہاجرین حبشہ میں ذکر کیا ہے اور یہ بات ثابت شدہ نہیں ہے۔

انساب الاشراف کی تنظیم و ترتیب

احمد بن یحیی بلاذریؒ نے متقدمین سیرت نگاروں کے برعکس اپنی کتاب کو زیادہ منظم اور مرتب انداز میں پیش کیا ہے۔چنانچہ مؤلف نے کتاب کو مختلف مرکزی اور ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔مثال کے طور پر دعاءُ رسول اللهکے مرکزی عنوان کےتحت مؤلف نے قریش کے ان افراد کا ذکر کیا جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی مخالفت کی اور اسلام کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔ان تمام افراد میں سے ہر ایک کے لئے مؤلف نے الگ الگ ذیلی عنوانات قائم کئے۔مثلا امر ابی جهل، امر ابی لهب بن عبد المطلب، امر الاسود بن عبد يغوث۔

امام بلاذریؒ نے ہر ایک موضوع کے لئے الگ ذیلی عنوان قائم کیا ہےجو کہ اسی موضوع کے ساتھ خاص ہے۔اس طرح ہر عنوان اپنی جگہ پر ایک مستقل حیثیت رکھتاہے۔کیونکہ مضامین تاریخی ترتیب سے درج نہیں کئے گئے بلکہ انساب کے ضمن میں اخبار ، اشعار اور مختلف تاریخی شخصیات کے تراجم ذکر کئے گئے ہیں۔

اخذ ِروایات میں امام بلاذریؒ کا اسلوب

کسی واقعہ کے متعلق روایات لکھتے وقت امام بلاذریؒ اولا ًاس علاقہ یا قبیلہ کے راویوں کی روایات درج کرتے ہیں۔اس کے بعد دیگر رواۃ کی روایات کے ساتھ اس واقعہ کی تکمیل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مدینہ طیبہ اور اس میں پیش آنے والے واقعات میں امام بلاذریؒ مدینہ کے شیوخ اور علماء مثلاً واقدیؒ اور زہریؒ وغیرہ پر اعتماد کرتے ہیں۔اس ضمن میں غزوات النبیﷺکا مطالعہ نہایت اہم ہے۔غزوات کے واقعات میں امام بلاذریؒ نے زیادہ تر واقدیؒ کی روایات نقل کی ہیں نیزغزوات النبی میں امام بلاذریؒ نے سند سے کم اعتناء کیا ہے۔

ماہرین فن سے استفادہ

انساب الاشراف میں امام بلاذریؒ کے منہج سیرت کی ایک انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ہر فن کی روایات اس فن کے ماہرین سے لی ہیں۔انساب کی روایات امام بلاذری علماء انساب مصعب الزبیریؒ(م:236ھ)، زبیر بن بکارؒ(م:256ھ)اورعباس بن ہشام ؒسے لیتے ہیں نیز ہشام ابن الکلبیؒ اور واقدی ؒکے اقوال درج کرتے ہیں۔مثلاً

حدثني عباس بن هشام، عن أبيه، عن جده، عن أبي صالح، عن ابن عباس قال:كان رسول الله إذا بلغ في النسب إلى أدد، قال:كذب النسابون، كذب النسابون[80]

عباس بن ہشام نے عبدا للہ بن عباس سے روایت کیا انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ نسب میں ادد تک پہنچتے تو فرماتے نسب نگاروں نے جھوٹ کہا، نسب نگاروں نے جھوٹ کہا۔

سیرت کی روایات امام بلاذریؒ اپنے شیوخ محمد ابن سعدؒ(م:230ھ)،ولید بن صالحؒ(م:ما بعد200ھ) ،عمرو بن محمد الناقدؒ(م:232ھ) عباس بن ہشامؒ،ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہؒ (م:235)محمد بن حاتمؒ وغیرہ سے لیتے ہیں۔ موضوع کی سب سے زیادہ روایات امام بلاذریؒ نے اپنے استاذ محمد بن سعد ؒسے لی ہیں ۔اس ضمن میں امام بلاذریؒ نے نبی کریم ﷺ کے مکی دور کی حیات مبارکہ میں زیادہ روایات ابن سعدؒ سے لی ہیں۔اسی طرح نبی کریمﷺ کی خانگی زندگی کے واقعات سیرت میں بھی امام بلاذری نے زیادہ روایات محمد ابن سعدؒ سے نقل کی ہیں۔

آیات قرآنیہ کی تفسیر و توضیح اور شان نزول بیان کرنے کے لئےامام بلاذریؒ نے قتادہ ، عکرمہ ،ضحاک اور مجاہد رحمہم اللہ کے اقوال نقل کئےہیں مثال کے طور پر مختلف الفاظ قرآنی کی شرح میں امام بلاذری ؒنے ضحاک ؒاور مجاہدؒ کے اقوال نقل کئے ہیں۔مثال کے طور پر

روى عن أبى ورق الهمداني، عن الضحاك، عن ابن عباس مثل ذلك. وكان مجاهد يقول:حمالة النميمة تحطب بذلك على ظهرها والممسودالمفتول الموثق والجيد العنق[81]

سورہ فاتحہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئےامام بلاذریؒ نے بکر بن ہیثمؒ،عمرو بن محمد الناقدؒ اورابو بکر بن ابی شیبہؒ کی سند سے مجاہدؒ سے تین روایات نقل کی ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:

حدثني بكر بن الهيثم، ثنا محمد بن يوسف الفاريابي، ثنا سفيان، عن منصور، عن مجاهد، قال:أنزلت فاتحة الكتاب بالمدينة[82].

غزوات النبی ﷺ کے واقعات میں امام بلاذریؒ کا عمومی اسلوب یہ ہے کہ وہ اجتماعی سند سے غزوات کو بیان کرتے ہیں لیکن سند کو ذکر کئے بغیر " قالوا " کے لفظ کے ساتھ واقعات کو بیان کر دیتے ہیں۔اسی طرح امام بلاذری ؒغزوات کے ذکر میں واقدی کے اقوال کثرت سے ذکر کرتے ہیں۔امام بلاذریؒ نے غزوہ بدر اور احد کے واقعات انتہائی تفصیل سے ذکر کئے ہیں اور بعض ایسی جزوی تفصیلات فراہم کی ہیں جو دیگر سیرت نگاروں کے ہاں نہیں ملتیں۔مثال کے طور پر غزوہ بدر کے قیدیوں کا ذکر کرتے ہوئے امام بلاذریؒ نے یہ معلومات بھی فراہم کی ہیں کہ بدر کے روز کس کافر کو کس مسلمان نے گرفتار کیا تھا۔

"انساب الاشراف" کا منہج سیرت نگاری اس اعتبار سے بھی انفرادی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ کتاب بنیادی طور پر انساب کی کتاب ہے جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے لیکن امام احمد بن یحیی بلاذریؒ نے نسب کو بنیاد بنا کر واقعات سیرت کو اس انداز سے ذکر کیا ہے کہ مختلف انساب کے نبی کریمﷺ سے نسبت اور تعلق کی وضاحت ہو گئی ہے۔نیزامام بلاذریؒ نے نبی کریمﷺ کے مادری اور پدری نسب کے آباء و اجداد کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کی ہیں۔"انساب الاشراف" سیرت کے بنیادی مواد کے لئے متاخرین کے لئے ایک ماخذ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور بعد کے سیرت نگاروں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔"انساب الاشراف"میں سیرت کا ایسا مواد موجود ہے جو اس سے پہلے کی کتب سیرت میں موجود نہیں ہے اس اعتبار سے اس سے اخذ و استفادہ کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

خلاصہ مضمون

1۔امام احمد بن یحیی بلاذریؒ تیسری صدی ہجری کے عظیم مؤرخ، محقق اور ماہر انساب تھے۔

2۔امام بلاذری ؒنے بغداد، کوفہ، بصرہ، دمشق، واسط، حمص، انطاکیہ میں سو سے زائد اساتذہ و شیوخ سے اکتساب فیض کیا۔

3۔امام بلاذری ؒکی وجہ شہرت کتاب انساب الاشراف اور فتوح البلدان ہیں جو علمی دنیا میں خاص اہمیت کی حامل کتب ہیں۔

"انساب الاشراف"میں نسب اور تاریخ کو بنیاد بنا کر نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے حالات و تراجم کو تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

"انساب الاشراف"میں امام بلاذری نے اخذ روایات سیرت میں محدثانہ اسلوب اختیار کیا ہے اورروایات سیرت نقل کرتے وقت اسناد کے ذکر کا اہتمام کیا ہے۔ نیز روایات کی تحقیق، ترجیح اور تصحیح کا اہتمام بھی کیا ہے۔

6۔اخذ روایات سیرت میں امام بلاذری کے ہاں محمد بن سعد صاحب طبقات کبری کو مرکزی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔

7۔امام بلاذری ؒنے "انساب الاشراف" میں محدثین کی طرز پر بعض مقامات پر واقعات سیرت کو مکرر ذکر کیا ہے اور بعض مقامات پر پہلے سے ذکر کردہ واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

8۔واقعات سیر ت کے تکرار کی وجہ یہ ہے کہ امام بلاذر یؒ ایک دفعہ سیرت کی زمانی ترتیب میں ایک واقعہ ذکر کر دیتے ہیں بعد ازاں قبائل کے نسب کے ضمن میں دوبارہ جب اس واقعہ کا ذکر آتا ہے تو دوبارہ بعینہ تمام واقعہ نقل کرتے ہیں۔

9۔امام بلاذری ؒکے منہج سیرت کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ہر فن کی روایات اس فن کے ماہرین سے لیتے ہیں۔ مثلاً مغازی کی روایات واقدی اور ابن سعد سے اور نسب کی روایات ابن ہشام کلبی سے ذکر کرتے ہیں۔

10۔مختلف آیات قرآنیہ کا شان نزول بیان کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں زیادہ وضاحت نہیں کرتے۔

11۔ امام بلاذری ؒکے ماٰخذ و مصادر میں محدثین، مؤرخین لغویین اور ماہرین انساب کی وہ جماعت شامل ہے جس کی ثقاہت وصداقت مسلمہ ہے۔

12۔"انساب الاشراف" کو سیرت میں اہم ماٰخذ کی حیثیت حاصل ہے۔


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. References ۔البلاذری، احمد بن یحیی بن جابر ،فتوح البلدان، دار مکتبۃ الہلال، بیروت،1988ء،ص :5۔ابن الندیم، محمد بن اسحاق،الفهرست،دار المعرفۃ ،بیروت،لبنان،1997ء،ص: 142۔ Aḥmad bin yaḥya al Balādhuri, Futooḥ al Buldan, (Bearut: Dār Maktabah al Hilāl, 1988), 5 Muḥammad bin Isḥaq, Al Fahrist, (Bearut: Dār al Ma‘rifah, 1997), 142
  2. ۔ ابن عساکر، ابو القاسم علی بن حسن،تاریخ دمشق،دار الفکر للطباعہ و النشر و التوزیع ، بیروت،ج6،ص: 74۔ ‘Ali bin Ḥasan, Tārikh Dimashq, (Bearut: Dār al Fikar ), 6:74
  3. ۔ سرکیس،یوسف بن الیان،معجم المطبوعات العربية و المعربة،مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ ،قاہرہ ،1919ء،ج1،ص:584۔ Yousaf bin ilyan, Mu‘jam al maṭbo‘at al ‘arabiyyah wa al mu‘rabah, (Cairo: Maktbah al Thiqafah al diniyyah, 1919), 1:584
  4. ۔ یاقوت حموی،شہاب الدین ابو عبداللہ ،معجم الادباء،دار الغرب الاسلامی،بیروت،1993ء،ج2،ص:530۔ Abu ‘Abd Ullah, shahāb al din, Mu‘jam al ʼUdabāʼ, (Bearut: Dār al Gharb al Islamy, 1993), 2:530
  5. ۔ المنجد، صلاح الدین،اعلام التاریخ و الجغرافیا عند العرب،مؤسسۃ التراث العربی،بیروت، 1959ء، ص:18،17۔ Ṣalaḥ al Din, ʼilam al Tārikh wa al Jughrafiya ‘ind al ‘arab, (Bearut: Mu’ssah Iḥya al Turath al ‘arabi1959), 17-18
  6. = ۔ احمد محمد الحوفی،تیارات ثقافیة بین العرب و الفرس، دارنھضۃ مصر، قاہرہ ،ص:247۔ = Aḥmad Muḥammad al Ḥowfi, Tiyyarāt thaqafiyyah bayn al ‘arab wa al faras, (Cairo: Da), 247
  7. ۔ عبد الستار فراج،البلاذری صاحب کتاب فتوح البلدان وکتاب انساب الاشراف، مجلۃ العربی الکویت، فبرایر 1967ء،ص:45۔ ‘Abd al Sattar faraāj, Al Balādhuri Ṣahib kitab Futoḥ al Buldan, (Kawait: Majallah al ‘arabi, 1967), 45
  8. Sarton, George, Introduction to the History of Science, ( Washington,1950), p.616
  9. Goitien, S.D.F, Introduction to Ansab al-Ashraf, 5th vol. (Jerusalem, 1936), p.21. Hitti, History of the Arabs, (London, 1970), 10th edition, p.388. Nicholson, Reynold A., The Literary History of the Arabs (New York : 1907), p. 387.
  10. ۔مشہدانی، محمد جاسم حمادی،موارد البلاذری عن الاسرة الامویة فی انساب الاشراف،مکتبہ الطالب الجامعی مکہ،1986ء،ص:44،45۔ Muḥammad Jasim Ḥammady, Mawarid al Balādhuri, (Makkah: Maktabah al Talib al Jam‘ey, 1986), 44-45
  11. ۔خطیب بغدادی،ابو بکر احمد بن علی، تاریخ بغداد، دارالغرب الاسلامی ، بیروت لبنان، 2002ء،ج15،ص:647۔ Abu Bakar Aḥmad bin ‘Ali, Tārikh Baghdad, (Bearut: Dār al Gharb al Islamy, 2002), 15:647
  12. ۔ البلاذری،احمد بن یحیی بن جابر ،انساب الاشراف،دار الکتب العلمیہ ،بیروت،2011ء ج2،ص:245۔ Aḥmad bin Yaḥya, Ansāb al Ashrāf, (Bearut: Dār al kutub al ‘ilmiyah, 2011), 2:245
  13. ۔ابن عساکر،ابو القاسم علی بن حسن ،تاریخ دمشق،دارالفکر ،بیروت،1995ء،ج6،ص:75۔ Abu al Qasim ‘Ali bin Ḥasan, Tārikh Dimashq, (Bearut: Dār al Fikar 1995), 6:75
  14. ۔ موارد البلاذری عن الاسرة الامویة فی انساب الاشراف ، ج1،ص:48۔ Mawarid al Balādhuri, 1:48
  15. ۔جرجی زیدان، تاریخ اٰداب اللغة العربیة ،مؤسسۃ ہنداوی للتعلیم و الثقافہ القاہرہ ،2012ء،ص:600۔ Jurji Zaydān, Tārikh adāb al lughat al ‘arabiyyah, (Cairo: Muassissat Hindawy, 2012), 600
  16. ۔فارق،خورشید احمد،بلاذری کی انساب الااشراف ،مضمون در ماہنامہ البرہان، دہلی،اپریل 1957ء،ص:209۔ Khurshid Aḥmad, Balādhuri ki ansab al arshrāf, Aritcle in Monthly al Burhan, (India: Dehly, April: 1957), 209
  17. ۔السمعانی،عبد الکریم بن محمد بن منصور،الانساب،دائرہ معارف عثمانیہ ،حیدر آباد،1962ء، ج2،ص:378۔ ‘Abd al Karim bin Muḥammad, Al Ansab, (India: Daʼera M‘arif ‘uthmaniyyah, 1962), 2:378
  18. ۔ الفهرست ،ص: 142،143۔ Al fahrist, 142-143
  19. ۔تاریخ دمشق لابن عساکر ،جلد 6،ص:75۔ Ibn e ‘Asakir, Tārikh Dimashq, 6:75
  20. ۔زرکلی،خیر الدین بن محمود، الاعلام،دار العلم للملایین ،2002ء،ج1،ص:267۔ Khyr al Din bin Maḥmood, Al a‘lam, (Dār al ‘ilm le al malayeyn, 2002), 1:267
  21. ۔ذہبی، شمس الدین ابو عبداللہ،سیر اعلام النبلاء، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،1985ء،ج13،ص:163 Shams al Din Abu ‘Abd allah, Seyar ʼalām al Nubalāʼ, (Bearut: Muassissat al Risalah, 1985), 13:163
  22. P.K. Hitti, The Origins of the Islamic State (Columbia University, NewYork:1916) p.06.
  23. ۔سیر اعلام النبلاء،ج13، ص:162۔ Seyar ʼalām al Nubalāʼ, 13:162
  24. ۔ابن عساکر،تاریخ دمشق، ج6،ص:74۔ Ibn e ‘Asakir, Tārikh Dimashq, 6:74
  25. ۔ موارد البلاذری عن الاسرة الامویة ،ج1،ص:49تا56۔ Mawarid al Balādhuri, 1:49-56
  26. ۔ الفهرست ،ص:143۔ Al Fehsrist, 143
  27. ۔معجم الادباء،ج2،ص:531۔ Mu‘jam al ʼadabāʼ, 2:531
  28. ۔ سیر اعلام النبلاء،ج13،ص:163۔ Seyar ʼalām al Nubalāʼ, 13:163
  29. ۔ الفهرست ،ص:143۔ Al Fehsrist, 143
  30. ۔معجم الادباء،ج2،ص:534 ۔ Mu‘jam al ʼadabāʼ, 2:534
  31. ۔مسعودی،ابو الحسن علی بن حسین، مروج الذهب ومعادن الجوهر،دار الفکر،بیروت،1973ء ،ج2،ص:54۔ Abu al Ḥasan ‘Ali bin Ḥusain, Maruoj al Dhahab wa m‘adin al jowhar, (Bearut: Dār al Fikar 1973), 2:54
  32. ۔ایضاً،ج1،ص:14۔ Ibid., 1:14
  33. ۔بغدادی ،اسماعیل بن محمد ،هدیة العارفین، دار احیاء التراث العربی بیروت،1951ء،ج1،ص:51۔ ’Isma’il bin Muḥammad, Hadiyyat al ‘ārafin, (Bearut: Dār Iḥya al turath al ‘arabi, 1951), 1:51
  34. ۔حاجی خلیفہ ،مصطفی بن عبداللہ،کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون، مکتبۃ المثنی، بغداد ، 1941ء،ج2،ص:1402۔ Muṣtafaʼ bin ‘Abd allah , Kashf al Ẓunoon, (Baghdad: Maktabah al muthannaʼ, 1941), 2:1402
  35. ۔ مروج الذهب ومعادن الجوهر ،ج2،ص:54۔ Maruoj al Dhahab wa m‘adin al jowhar, 2:54
  36. ۔ الفهرست ،ص:143۔ Al Fehsrist, 143
  37. ۔ فارق،خورشید احمد،بلاذری کی انساب الااشراف ،مضمون در ماہنامہ البرہان، دہلی،اپریل 1957ء،ص:209۔ Khurshid Aḥmad, Balādhuri ki ansab al arshrāf, Aritcle in Monthly al Burhan, (India: Dehly, April: 1957), 209
  38. ۔هدیة العارفین ،ج1،ص:51۔ Hadiyyat al ‘ārafin, 1:51
  39. 39۔ مروج الذهب ومعادن الجوهر ،ج1،ص:14۔ Maruoj al Dhahab wa m‘adin al jowhar, 1:14
  40. 40۔ الفهرست ،ص:126۔ Al Fehrist, 126
  41. 41۔تاریخ دمشق،ج2،ص:269۔ Tārikh Dimashq, 2:269
  42. 42۔معجم الادباء،ج2،ص:534۔ Mu‘jam al ʼadabaʼ, 2:534
  43. 43۔ابن العدیم ، عمر بن احمد کمال الدین، بغیةالطلب فی تاریخ حلب، دار الفکر ، بیروت،ج9،ص:3928۔ ‘Umar bin Aḥmad Kamal al Din, Bughyat al ṭalab fi Tārikh Hilb, (Bearut: Dār al Bearut: Dār al Fikar), 9:3928
  44. 44۔ابن خلکا ن ، شمس الدین احمد بن محمد،وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان،دار صادر بیروت،1994ء،ج6،ص:372۔ Shams al Din Aḥmad bin Muḥammad, Wafayat al ʼa‘yan, (Bearut: Dār Ṣadir, 1994), 372
  45. 45۔ایضاً،ج7،ص:103۔ Ibid., 7:103
  46. 46۔الذھبی،شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد،تذکرۃ الحفاظ، دار الکتب العلمیۃ،بیروت،1998ء،ج3،ص:73۔ Shams al Din Muḥammad bin Aḥmad, Tadhkirat al Ḥuffaẓ, (Bearut: Dār al kutub al ‘ilmiyah, 1998), 3:73
  47. 47۔سیر اعلام النبلاء،ج13،ص:163۔ Seyar ʼa‘lam al nubalāʼ, 13:163
  48. 48۔حاجی خلیفہ،مصطفی بن عبد اللہ، کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون،ج1،ص:179۔ Muṣtafa bin ‘Abd allah, Kashf al Ẓunoon, 1:179
  49. 49۔الزبیدی،محمد بن محمد بن عبد الرزاق ،تاج العروس من جواهر القاموس،دار الھدایۃ،س، ن،ج1، ص:7۔ Muḥammad bin ‘Abd al razzaq, Taj al ‘uroos min jawahir al qamoos, (Dār al hidayah), 1:7
  50. 50۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ،مقدمة انساب الاشراف،دارالمعارف مصر، 1996ء،ص:5۔ Dr. Muḥammad Ḥamyd allah , Muqaddimah Ansāb ul Ashrāf, (Egypt: Dār al Ma‘rif, 1996), 5
  51. 51۔ایضاً،ص:6۔ Ibid., 6
  52. 52۔انساب الاشراف، ج1،ص:17۔ Ansāb ul Ashrāf, 1:17
  53. 53۔ ایضاً ،ج1،ص:199۔ Ibid., 1:199
  54. 54۔ایضاً،ج1،ص:105،104۔ Ibid., 1:104-105
  55. ۔ایضاً ،ج1،ص:105۔ Ibid., 1:105
  56. ۔ایضاً ،ج1،ص17۔ Ibid., 1:17
  57. ۔ایضاً ،ج1،ص:102۔ Ibid., 1:102
  58. ۔ایضاً ،ج1،ص:198۔ Ibid., 1:198
  59. ۔ایضاً ،ج 1،ص: 172۔ Ibid., 1:172
  60. ۔ایضاً ،ج1،ص:127۔ Ibid., 1:127
  61. ۔ایضاً ،ج1،ص:209۔ Ibid., 1:209
  62. ۔ایضاً ،تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:ج6،ص:321تا 355،ج7،ص:28تا143،ج4،ص123 تا 192، ج2،ص: 62 تا 208 Ibid., 1:209, 6:321-355, 7:28-143, 4:123-192, 2:62-208
  63. ۔رکانہ بن عبد یزید کی مکہ کی وادی میں نبی کریمﷺ سے ملاقات ہوئی۔کہنے لگا اگر آپﷺ مجھے پچھاڑ دیں تو میں آپﷺ کو سچا نبی تسلیم کر لوں گا ۔نبی کریمﷺ نے اسے تین مرتبہ پچھاڑ دیا تو وہ قریش کے پاس واپس آیا اور ان سے کہا کہ تمہارا صاحب جادوگر ہے۔انساب الاشراف ،ج1،ص:135،ایضاً،ج6،ص:240۔نیز دیکھئے: ابن ہشام ،عبد الملک بن ہشام بن ایوب، السیرۃ النبویۃ ،تحقیق:مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبد الحفیظ شلبی،مطبعۃ مصطفی البابی،مصر،1955ء،ج1،ص:391۔ Ansāb ul Ashrāf, 1:135, 6:240 ‘Abd al Malik bin Hisham, Al Seyrat al nabwiyyah, (Egypt: Maṭba‘ Muṣtafaʼ al babi, 1955), 1:391
  64. ۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہﷺنے جب عثمان بن ابی طلحہ سے کعبہ کی کلید لی تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :﴿ان الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها۔ )النساء : 58(۔رسول اللہﷺنے وہ چابی حضرت عثمان کے حوالےکرتے ہوئے فرمایا: دونكموها يا بني أبي طلحة تالدة خالدة لا يظلمكموها إلا ظالماے بنی ابی طلحہ یہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی اور اس کے متعلق کوئی ظالم ہی تم پر ظلم کرے گا ۔انساب الاشراف،ج6،ص:247،ج3،ص:15۔الفاکہی،ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق،اخبار مكہ فی قدیم الدهرو حدیثه،تحقیق:عبد الملک ، دار خضر، بیروت،1414ء،ج1،ص:267۔ Ansāb ul Ashrāf, 6:247, 3:15. Muḥammad bin Isḥaq, Akhbar Makkah fi qadim al dahar wa ḥadithuho, (Bearut: Dār Khiḍar, 1414), 1:267
  65. ۔ بدر کے موقع پر جہیم بن الصلت بن مخرمہ بن مطلب خواب دیکھا کہ ایک گھڑ سوار آیا۔ اس کے پاس اونٹ بھی تھا۔ کہنے لگا: عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو لحکم بن ہشام اور امیہ بن خلف قتل کر دیئے گئے۔ اس نے ان سرداران قریش کے نام گنے جو بدر کے روز قتل ہوئےتھے۔ پھر اس نے اونٹ کی گردن پر نیزا مارااور اسے چھوڑ دیا۔ لشکر کے خیموں میں سے کوئی خیمہ ایسا نہ تھا جس پر اس کے خون کے چھینٹے نہ پڑے ہوں۔انساب الاشراف ،ج1،ص:247،ج6،ص:241۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ج1،ص:618۔ Ansāb ul Ashrāf, 6:241, 1:247. Ibn e Hisham, Al Seyrat al Nabwiyyah, 1:618
  66. ۔ عقبہ بن ابی معیط کی اسلام دشمنی اور رسول اللہﷺ کو ایذاء دینے کے متعدد واقعات امام بلاذری نے انساب الاشراف میں ذکر کئے ہیں۔ایک مرتبہ ابو جہل کے بر انگیختہ کرنے پر عقبہ بن ابی معیط نے سجدہ کی حالت میں رسول کریمﷺ کی گردن پر اوجھڑی رکھ دی جسے حضرت فاطمہ علیہا السلام نے ہٹایا۔ انساب الاشراف ،ج1،ص:112،ج6،ص:208۔اسی طرح ایک مرتبہ عقبہ نے چند دیگر کفار کے ساتھ مل کر حضرت طلیب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو باندھ دیا جب کہ آپ دیگر مسلمان صحابہ کے ساتھ ایک گھاٹی میں چھپ کر نماز ادا کر رہے تھے۔انساب الاشراف ،ج3،ص:252،ج6،ص:255۔ Ansāb ul Ashrāf, 6:208, 1:112. Ibid., 3:252 & 6:255
  67. ۔انساب الاشراف ،ج6،ص:225۔ Ibid., 6:225
  68. ۔ایضاً ،ج3،ص:246۔ Ibid., 3:246
  69. ۔ایضاً، ج1 ،ص: 223۔ Ibid., 1:223
  70. ۔ ایضاً،ج1،ص:136۔ Ibid., 1:136
  71. ۔ ایضاً،ج1،ص:138۔ Ibid., 1:138
  72. ۔الانفال:31،32۔ Surah Al Anfāl, Verse No. 31-32
  73. ۔ص:16۔ Surah Ṣad, Verse No. 16
  74. ۔المعارج:1۔ Surah al Ma‘arij, Verse No. 1
  75. ۔ انساب الاشراف ، ج1،ص:146۔ Ansāb ul Ashrāf, 1:146
  76. ۔ایضاً ۔ج1،ص:177۔ Ibid., 1:177
  77. ۔ایضاً ،ج1،ص:218۔ Ibid., 1:218
  78. ۔ ایضاً، ج 1، ص: 251۔ Ibid., 1:251
  79. ۔ایضاً ،ج1،ص:193۔ Ibid., 1:193
  80. ۔ایضاً،ج1،ص:25۔ Ibid., 1:25
  81. ۔ایضاً ،ج1،ص:110۔ Ibid., 1:110
  82. ۔ایضاً،ج1،ص:99۔ Ibid., 1:99
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...