Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

امام جلال الدین سیوطی کی الخصائص الکبری کا اسلوب ومنہج |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

 

خصائص نبوی پر متقدمین ومتاخرین علمائے اسلام نےبہت سی علمی وتحقیقی تالیفات پیش کی ہیں جن میں موضوع سے متعلق اطراف وجوانب کو بخوبی زیربحث لایاگیاہے،لیکن مرورزمانہ اور علمی ارتقاء نے آنے والے اہل علم کو برانگیختہ کیاکہ وہ اس موضوع پر جدیدتقاضوں کے مطابق اپنی تحقیقات پیش کریں۔چنانچہ متذکرہ صنف میں تنوع اور علمی تقسیمات نے خاصی وسعت پیداکردی اوریوں سیرت نبوی کا یہ جزوی موضوع ایک مستقل حیثیت اختیارکرتاچلا گیا۔ امام سیوطی نے نویں صدی ہجری میں موجود موادسیرت کی روشنی اور اپنے طویل مطالعہ کے تناظر میں اس صنف پر نئی جہت کو وجودبخشااورسینکڑوں برس کے منتشرسرمایہ اور بعد کی صدیوں میں صدری روایات کی بازیافت سےبھرپوراستفادہ کرتے ہوئے جامع بنیادوں پر"الخصائص الکبری" تالیف کی ،جس میں سیرت نگاروں کے مواد اور ذخیرہ احادیث وفقہ کے وسیع وعمیق سمندروں کی غواصی سے بیش بہا اضافہ یکجا کردیا،جوآنےوالوں کی سیرابی کا سامان ہوا۔

 

چونکہ یہ تالیف اپنی صنف پر بہت حدتک جامع وکامل ہے،اسی لیے ضرورت محسوس کی گئی کہ اسےضمنی مباحث سے بالاترہوکر مستقل طورپر تحقیقی مقالہ کا موضوع قراردیتے ہوئے بحث کی جائے،جس میں بالخصوص اس کتاب کے منہج واُسلوب اوردیگر امتیازات کو اُجاگرکیاجائے ،تاکہ اہل علم اورمحققین کرام کے لیے اَخذواعتناء کے مراحل میں اس کی علمی واستنادی اہمیت وحیثیت مزیدواضح ہوسکے۔اس تحقیق کےدوران اس کتاب کے متعدد ایڈیشن ملحوظ رہے،جن میں دار الکتب العلمیہ بیروت،سن 2017ءاور دارا لکتب الحدیثیہ مطبع المدنی،سن 1967ءکے نسخہ جات قابل ذکرہیں،لیکن اول الذکر نسخہ مطبوعات میں متاخرہونے اور کئی مرتبہ نظرثانی کیے جانے کی وجہ سے زیادہ موزوں معلوم ہوا،اسی لیے اس نسخہ کو دوران تحقیق پیش نظررکھاگیاہے۔

 

مقالہ کامنہج تحقیق* الخصائص الکبری کے مؤلف امام سیوطیؒ کا مختصرتعارف شامل کیاگیاہے۔

  • تمہیدکی صورت میں صنف کتاب اور ضرورت تحقیق پر مختصرکلام پیش کیاگیاہےتاکہ مجموعی کیفیت پیش نظررہے۔
  • خصائص کی اصطلاح ،اس کے مطالب ومفاہیم نیزخصائص نبویہ کی علمی تقسیمات پر بحث کی گئی ہے۔
  • انتساب کتاب،نام کتاب کی تحقیق وتنقیح اور کتاب کے مندرجات کااجمالی تعارف شامل کیاگیاہے۔
  • کتاب کا منہج واسلوب خود مؤلف کی عبارات سےاکتساب کرتے ہوئے مقدماً ذکرکیاگیاہے۔
  • بعداَزاں منہج واُسلوب سے متعلق حاصل ہونے والے اُمورکو مسلسل نکات کی صورت مع امثلہ مرتب کیاگیاہے۔
  • حسب ضرورت اصل عبارات کو بحوالہ نقل کیاگیاہے،البتہ بعض مقامات پر صرف حوالہ پراکتفاکیاگیاہے۔
  • اختتام پر خلاصہ ونتائج تحقیق پیش کیے گئے ہیں۔

 

 

 

اس مقالہ کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں:* امام جلال الدین سیوطی کا اجمالی تعارف

  • اصطلاح ِ خصائص کے معانی و مفاہیم
  • خصائص نبوی ﷺکی اقسام اورمتعلقہ کتب کا اجمالی جائزہ
  • الخصائص الکبریٰ کا منہج و اُسلوب

 

 

 

امام جلال الدین سیوطی،متوفی911ھ،اجمالی تعارف

آپ نویں صدی ہجری کی ممتازعلمی شخصیت اور متاخرین علمائے اسلام میں بلندمقام کے حامل ہیں۔ امام سیوطی کے بقول ان کی پیدائش یکم رجب المرجب بروزاتوارمغرب کی نمازکے بعدسن849ھ کو ملک مصرمیں ہوئی۔کنیت "ابوالفضل"،نام "عبد الرحمن"اورمعروف لقب"جلال الدین"ہے۔آپ کے والد گرامی ابوبکرکمال الدین الاسیوطی متوفی 855ھ مصرکے ممتازعالم اورامام ابن حجرعسقلانی صاحب فتح الباری شرح بخاری کے ارشدتلامذہ میں سے ایک تھے۔

 

امام سیوطی کی تعلیم وتربیت کے بیشترمراحل قاہرہ مصرمیں ہی مکمل ہوئے،البتہ دوران اسفاربھی آپ نے جزوی طورپر ممتازمشائخ کرام سے اخذواکتساب کیا، آپ کے اساتذہ کی تعداد سینکڑوں میں شمارکی گئی ہے،جن میں سے اکثرمشائخ کا ذکرآپ نےمستقل تالیفات مثلاً "المنجم فی المعجم" وغیرہ میں کیاہے۔جن میں امام کمال الدین ابن ہمام حنفی (متوفی 861ھ) صاحب فتح القدیرشرح ہدایہ،شیخ جلال الدین محلی شافعی (متوفی 864ھ) صاحب تفسیرجلالین،شیخ علم الدین صالح ابن رسلان بلقینی (متوفی 868ھ) اورشیخ شرف الدین یحیی مناوی شافعی (متوفی 871ھ) وغیرہ قابل ذکرہیں۔سرزمین مصرمیں امام عسقلانی کی وفات کے بعدجامع طولونی میں املاء حدیث موقوف رہا، تو اللہ تعالی کی توفیق سے اس کے احیاء کی سعادت بھی عرصہ دراز تک امام سیوطی کے ہی حصہ میں رہی۔

 

آپ نے تمام زندگی تعلیم وتصنیف میں بسرفرمائی ،چنانچہ تدریسی فیضان سے مستفید ہونے اورزمرہ تلامذہ میں شامل ہونے والوں میں بلندعلمی مقام کے حامل ائمہ کرام شامل ہیں،جن میں شیخ عبد القادرشاذلی (متوفی935ھ)،شیخ شمس الدین شامی (متوفی942ھ) صاحب سبل الہدی والرشاد،شیخ ابن طولون مصری (متوفی 953ھ) اورشیخ عبد الوہاب شعرانی (متوفی 973ھ) وغیرہ معروف ہیں۔آپ نے علوم اسلامیہ کی مختلف جہات پر ایک ہزاروقیع کتب تحریرفرمائیں،جن میں سے کئی کتب ایسی بھی ہیں،جو اپنے موضوع پر اسلام کے علمی ذخیرہ میں گراں قدراضافہ ہیں۔

 

آپ کی مشہورکتب میں سے چندایک یہ ہیں: "الاتقان فی علوم القرآن،تفسیر الدرالمنثور،جمع الجوامع ،تدریب الراوی شرح تقریب النووی،الاشباہ والنظائر،الاقتراح فی اصول النحووجدلہ،البدورالسافرہ فی احوال الآخرہ،حسن المحاضرہ فی تاریخ مصروالقاھرہ،طبقات الحفاظ۔" آپ نے 19 جمادی الاولیٰ 911ھ میں ہاتھ کے ورم میں مبتلا ہوکر وصال کیا اور اپنے والدگرامی کے پہلو میں باب القرافہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔[1]

 

اصطلاح ِ خصائص کے معانی و مفاہیم

خصائص دراصل "خَصِیْصَةٌ" کی جمع ہے اوریہ "خَصَّ"سے مشتق ہے۔ شیخ ابن منظورافریقی لکھتے ہیں:

 

"خَصَّهُ بِالشَّيْءِ يخُصّه خَصّاً وَخُصُوْصاً وَخَصُوصِيَّةً وَخُصُوصِيَّةً، وَالْفَتْحُ أَفصح، وَخِصِّيصَى وَخَصَّصَهُ وَاخْتَصَّهُ : أَفْرَدَه بِهِ دُونَ غَيْرِهِ" [2]

 

شیخ مجد الدین یعقوب فیروزآبادی،"القاموس المحیط"میں لکھتے ہیں:

 

"خَصَّهُ بالشيءِ خَصّاً وَخُصُوْصاً وَخُصُوْصِيَّةً، وَيُفْتَحُ، وَخِصِّيصَى، وَيُمَدُّ، وَخَصِّيَّةً وَتَخِصَّةً فَضَّلَهُ" [3]

 

اس طرح "المعجم الوسیط"میں ہے :

 

"(الخَصِيْصَةُ) اَلْصِّفَةُ الَّتِي تَميز الشَّيْء وَتَحدَّدَهُ (ج) خَصَائِصٌ"[4]

 

متذکرہ بالا لغوی تعریفات کی روشنی میں "خصائص"کے تین معانی واضح ہوتے ہیں:

 

(۱)انفرادیت (۲)فضیلت(۳)تمیز

 

چنانچہ اس کااطلاق تینوں معانی پر دلالت کرتا ہے ،جو حسب استعمال واشتقاق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔جبکہ "خصائص" کی اصطلاحی تعریف یوں ذکرکی گئی ہے :

 

"الخصائص النبوية: هي الفضائل والأمور التي إنفرد بها النبي وامتاز بها إما عن إخوانه الأنبياء وإما عن سائر البشر"[5]

 

"خصائص نبویہ سے مراد ایسے فضائل وامور ہیں ،جن کے سبب آپﷺکوتمام انبیائے کرام سے یا تمام انسانوں سے ممتازومنفرد کیاگیا ہے ۔"

 

خصائص نبوی ﷺکی اقسام اورمتعلقہ کتب کا اجمالی جائزہ

 

لغوی واصطلاحی تعریفات کے بعد یہ واضح ہونابھی ضروری ہے کہ علمائے سیرت نے خصائص نبویہ کابیان کرتے ہوئے مختلف اقسام بیان کی ہیں،جن کی صورت میں کتب وموادمرتب کیا گیا۔ علمائے سیرت کے یہاں خصائص نبوی کو دوبنیادی اقسام میں تقسیم کیاگیاہے:

 

(۱)خصائص تشریعی(۲)خصائص تفضیلی

 

(۱)خصائص تشریعی : اس کی مزیددوقسمیں ہیں:

 

(الف )ایسے تشریعی اختصاصات جوانبیاء ومرسلین میں سے صرف آپﷺکو عطاکیے گئے ،مثلاً حلت غنائم ، طہوریت اَرض وغیرہ۔

 

(ب)ایسے تشریعی اختصاصات جو اُمت محمدیہ کے برعکس صرف آپﷺکو عطاکیے گئے ،البتہ انبیائے کرام میں سے بعض اس میں شریک ہیں،مثلاً چارسے زائد شادیاں وغیرہ۔

 

(۲)خصائص تفضیلی : اس کی مزید دوقسمیں ہیں:

 

(الف)ایسے اُمورجوانبیاء ومرسلین میں سے صرف آپﷺکو ہی عطا ہوئے ۔ اس کی دوقسمیں ہیں۔

 

(1)دنیاوی حیات میں ایسے اُمورجو انبیاء ومرسیلن میں سے صرف آپﷺکو ہی عطاہوئے ،مثلاً ختم نبوت،حفاطت قرآن۔

 

(2)اُخروی حیات میں ایسے اُمورجو انبیاء ومرسیلن میں سے صرف آپﷺکو ہی عطاہوں گے، مثلاًمقام محمود، جنت میں اوّل داخلہ،حوض کوثر۔

 

(ب)ایسے اُمور جو اُمت محمدیہ کے برعکس صرف آپﷺکو ہی عطاہوئے،البتہ ان میں سےبعض دیگر انبیاء ومرسلین میں بھی موجودہیں،مثلاً انتقال کی جگہ پر ہی تدفین،اجسام کا سلامت رہنا۔

 

سیرت وشمائل کی کتب میں بسااوقات متذکرہ اَصناف کو یوں بھی تقسیم کیا گیا ہے:

 

"دنیوی خصائص"،"برزخی خصائص" اور"اُخروی خصائص"۔

 

پس یہ تمام ہماری ذکرکردہ بنیادی اقسام میں شامل ہیں ،جن کی ضمنی تقسیم کی صورت میں یہ اَصناف بھی حاصل ہوجاتی ہیں ،چنانچہ انہیں مستقل ذکرکرنا ہمارامطلوب نہیں ،لہٰذااسی قدر پراکتفاء ہے ۔بہرحال جس طرح سے خصائص کی اقسام مقرر کی گئی ہیں تاکہ ہرصنف کا مواد الگ مرتب ہوسکے ،اسی طرح اس پر مشتمل مواد اور متعلقہ کتب کی بھی درجہ بندی کی گئی ہے،جس میں کئی اصناف کو شامل کیاگیاہے ،لیکن ہماے نزدیک ان میں سے سات(۷)صورتیں زیادہ موزوں اور جامع ہیں،جن کی تفصیل یوں ہے:# خصائص نبوی کےموضوع پرمستقل کتاب ،مثلاً

 

  • نهایة السّول في خصائص الرّسول اَزشیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی،متوفی ۶۳۳ھ
  • غایة السّول في خصائص الرّسولاَز شیخ سراج الدین ابن الملقن،متوفی۸۰۴ھ
  • الأنوار بخصائص النّبیّ المختاراَز شیخ ابن حجر عسقلانی شافعی،متوفی۸۵۲ھ
  • اللفظ المکرّم بخصائص النّبيّ الأکرماَز شیخ قطب الدین محمد خیضری ،متوفی ۸۹۴ھ

 

  1. کتب سیرت میں خصائص پرمشتمل اَبواب،مثلاً

 

  • المواهب اللّدنیة بالمنح المحمّدیة(مقصد رابع کی فصل ثانی ) اَز شیخ احمدبن محمد قسطلانی،متوفی ۹۲۳ھ
  • الشّفاء بتعریف حقوق المصطفی اَز شیخ قاضی عیاض ،متوفی۵۴۴ھ

 

 

 

اس کی قسم اوّل،باب رابع اورقسم ثالث ،باب اوّل وثانی میں تفصیلی کلام پیش کیاگیاہے۔# کتب تاریخ کے ضمن میں خصائص سے متعلق فصول ،مثلاً

 

  • البدایة والنهایة اَز شیخ ابن کثیر دمشقی،متوفی۷۷۴ھ

 

 

 

اس کی چھٹی جلد میں شمائل کے تحت چند فصول مختص کرکے کلام کیا گیاہے۔# کتب معجزات وشمائل کےضمن میں فصول واَبواب ،مثلاً

 

  • الآیات البیّنات في ذکر ما في اَعضاء رسول الله من المعجزات اَزشیخ ابو الخطاب ابن دحیہ ،متوفی ۶۳۳ھ
  • الأنوار في شمائل النّبيّ المختار اَز شیخ حسین بن مسعود بغوی،متوفی۵۱۶ھ

 

  1. کتب دلائل نبوت کے ضمن میں مباحث وفصول ،مثلاً

 

  • دلائل النّبوة اَز شیخ احمد بن حسین بیہقی ،متوفی ۴۵
  • علامات النّبوة اَز شیخ احمد بن ابوبکر بوصیری،متوفی۸۴۰ھ

 

  1. کتب حدیث کے تحت مغازی ومناقب کی ضمنی فصول ،مثلاً

 

  • مجمع الزّوائد ومنبع الفوائداَز شیخ نورالدین ہیثمی ،متوفی۸۰۷ھ

 

 

 

اس میں "کتاب علامات النبوۃ "کے تحت "فصل "میں موضوع سے متعلق احادیث کو جمع کیا۔# معجزات وخصائص کے عنوان پر مستقل تالیف ،مثلاً

 

  • المعجزات والخصائص النّبویةاَز شیخ جلال الدین سیوطی شافعی،متوفی۹۱۱ھ

 

 

 

امام سیوطی کی تالیف کے علاوہ کسی اور کتاب کا علم نہیں ہوسکاجس میں معجزات وخصائص دونوں ہی موضوعات پر سیرحاصل مواد یکجا کرکے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی گئی ہو،چنانچہ اس موضوع پر امام سیوطی کی یہ کتاب اپنی نوعیت کی مفصل وجامع کتاب ہے۔ البتہ امام سیوطی کی کتب سے خصائص نبوی ﷺ کے حوالہ سے درجہ بندی کی جائے تو یہ کل چھ کتب بنتی ہیں، جن کے اسماء درج ذیل ہیں۔# اَلمعْجِزَاتُ وَالخصَائِصُ النَّبَوِيَّة أو كِفَايَةُ الطَّالِبِ الْلَبِيْبِ في خَصَائِصِ الحْبِيْبِ ﷺ أو اَلخْصَائِصُ الْكُبْرَىٰ

  1. أُنْمُوْذَجُ الْلَبِیْبِ فِيْ خَصَائِصِ الحَبِیْبِ ﷺ أو الخَصَائِصُ الصُّغْرَىٰ
  1. اَلْبَاهِرْ فِيْ حُکْمِ النَّبِيِّ ﷺ بِالْبَاطِنِ وَالظَّاهِرْ
  1. طَرْحُ السَّقَطْ وَنَظْمُ الْلُقَطْ
  1. شُعْلَةُ نَارٍ
  1. تَزْيِيْنُ الْأَرَائِكْ فِيْ إِرْسَالِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی المَلَائِكْ

 

 

 

اب ذیل میں امام سیوطی کی کتاب "الخصائص الکبریٰ "کے منہج واُسلوب کو پیش کیا جائے گا۔

 

اَلمعْجِزَاتُ وَالخصَائِصُ النَّبَوِيَّة أو..كِفَايَةُ الْلَبِيْبِ في خَصَائِصِ الحْبِيْبِ، أو. اَلخْصَائِصُ الْكُبْرَىٰ

 

اِنتساب کی تحقیق

اس کتاب کی امام سیوطی سے نسبت واضح و مشہور ہے، خودآپ نے اپنی تصنیف "حسن المحاضرة في تاریخ مصروالقاهرة"[6] میں اس کاذکر کیا ہے،اسی طرح علمی سرقہ بازی(plagiarism) کے حوالے سے اپنی تالیف "الفارق بین المصنّف والسّارق"کی ابتداء میں اس بابت کلام کیا اوروہاں اسے اپنی تالیف قراردیتے ہوئے معاصرین کے اس کتاب سے مواد چرانے اور اپنے نام سے ظاہر کرنے پر کلام فرمایاہے[7] ۔نیزکتاب کی تلخیص بنام "أنموذج اللّبیب في خصائص الحبیب"کے آغاز میں بھی اس کا ذکر موجود ہے[8]۔ اس کے علاوہ کتاب کے خطی نسخے دنیا کے متفرق کتب خانوں اور مخطوطات کے مراکز میں محفوظ ہیں،جن پر بصراحت امام سیوطی کا نام درج ہےچنانچہ بلادواَمصارکے اختلاف وبُعد میں ایسے مخطوطات کا وجودبذات خود بیّن دلیل ہے ۔

 

اسم کتاب کی تحقیق

اس کتاب کے مختلف نام مشہور ہیں ،لیکن ان میں سے اکثر کو کسی دلیل سے تقویت نہیں دی جاسکتی ،کیونکہ ان میں کچھ نام ایسے ہیں جنہیں موضوع کی مناسبت سے کاتب نے وضع کردیا،پس وہ بعض مضامین کی ترجمانی تو کرتے ہیں ،لیکن مؤلف کے موسوم کردہ نام سے منحرف ہیں،اس کے برخلاف جس نام کو امام سیوطی نے اپنی تصانیف کے ذکر میں باضابطہ بیان کیا ، وہ ان تمام سے جامع ہے،چنانچہ آپ نے"حسن المحاضرة في تاریخ مصر والقاهرة"[9] اور"التّحدث بنعمة الله"[10] میں اس کا نام "المعجزات والخصائص النّبویّة" ذکر کیا ہےاوریہ نام مضامین و مواد کے لحاظ سے بھی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ اس کتاب میں صرف خصائص نبویہ کا ہی ذکر نہیں کیا گیا،بلکہ آپﷺکے بہت سے معجزات کو بھی حسب عناوین جمع کیا گیا ہے ،جس کی وجہ سے اسم ہذااپنے مسمیٰ پر کامل دلالت کررہا ہے۔

 

نیز مؤلف کی حیات میں لکھے جانے والے مخطوطات پر بھی یہی نام درج ہے، اُن میں سے ایک مخطوط مکتبہ"توپ کاپی سرائے "،استنبول،ترکی میں رقم(۳۰۷۱،۵۱۴) کے تحت محفوظ ہے، اس کا سن کتابت جمادی الآخر ۸۸۶ھ ہے ،جبکہ دوسرا بھی اسی مکتبہ میں رقم(۵۱۳،۳۰۶۹)کے ضمن میں موجود ہےاورسن کتابت جمادی الاولیٰ۹۰۶ھ ہے۔اسی طرح "فهرس مؤلفات السيوطي" کے اکثر مخطوطات کے عکوس جو مؤلف کے قریبی زمانے میں نسخۂ سیوطی یا اُن کے تلامذہ کے معتمد نسخوں سے لکھے گئے، اُن میں بھی "المعجزات والخصائص" ہی درج ہے، البتہ ان میں "النبویہ" کا اضافہ موجودنہیں، جوغالباً شہرت کے سبب تحریر نہیں کیا گیا، بقیہ نام مؤلف کے مطابق ہی مذکورہے۔

 

برصغیر پاک وہنداوربعض عرب اَمصار میں اسے "الخصائص الکبری"کہتے ہیں،اوراسکی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس کی تلخیص بنام "أنموذج اللبیب في خصائص الحبیب"کی تھی ،جسے عرف میں"الخصائص الصُّغری"کے نام سے جانا گیا،تو زیادتی مواد اور اصل کی وجہ سے اوّل الذکر کو "الخصائص الکبری" اور ثانی کو "الخصائص الصغری" کہا جاتا ہے۔چنانچہ خود امام سیوطی نے اپنی تالیف"طرح السّقط و نظم اللقط"پراوّل الذکرکو"الخصائص الکبری"[11]جبکہ"المعجزات الکبری"[12]لکھا ہے اوردوسری کتاب "أنموذج اللّبیب" کو"الخصائص الصُّغری"[13]تحریرکیا،اسی طرح "التّعظیم والمنّة"[14]پراوّل الذکر کےلیے بالترتیب"کتاب المعجزات" اور "المعجزات"بھی تحریرکیاہے،تو ان تمام کا مستفاد یہ ہے کہ وہاں ان کی جانب صرف اشارہ مقصودتھا ،اصل نام کی تفصیلات نہیں، لہٰذاوہاں اشارے واختصارپر اکتفاء کیا گیا۔

 

ان اسماء کےعلاوہ حاجی خلیفہ نے "کشف الظنون"[15] میں "الخصائص النّبویّة"اورشیخ محمد بن جعفرکتانی نے "الرّسالة المستطرفة"[16]میں"کفایة اللبیب في خصائص الحبیب" لکھا ہے، نیز یوں ہی "اردودائرۂ معارف اسلامیہ"میں بھی درج ہے[17]، لیکن مؤخر الذکر نام کی صراحت کسی معتبر ماخذ سے نہیں مل سکی، شاید یہ نام "أنموذج اللبیب في خصائص الحبیب"کی مناسبت سے اختیارکیاگیا،یا پھر امام سیوطی نے ہی اسے بھی کسی مقام پر ذکرکیاہوگا، واللہ اعلم۔

 

تعارف کتاب

امام سیوطی نےاس کتاب میں اُسلوب ِسیرت پر مضامین مرتب کیے ہیں،چنانچہ ابتداء میں آپﷺکی تخلیق ، میثاق اور بشاراتِ انبیاء کا ذکرہے ،پھر ولادت مبارک کا ذکرکرتے ہوئے بچپن کے واقعات وکمالات کو بیان کیاگیاہے ،اس کے بعد آپﷺکی خلقت میں موجود معجزات وخصائص کا تفصیلی بیان ہے ،جس میں جسم اقدس کا شاہکارِقدرت ہونا واضح کیاہے،اس کے بعد والدہ ماجدہ، جناب عبد المطلب اورحضرت ابوطالب کے حوالے سے ایسے واقعات واُمورکا بیان ہے،جن میں آپﷺکےمعجزات ظہورپذیر ہوئے، پھرآپﷺکے نکاح کابیان شامل کرنے کے بعد اعلانِ نبوت پر تفصیلی کلام ہےاور اس کے تحت بہت سےواقعات ودلائل کو ابواب کی صورت میں بیان کیاگیاہے ،پھر اکابرصحابہ کرام مثلاً حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان غنی اوردیگر کے ایمان لانے کا ذکرکرتے ہوئے آپﷺکے معجزات کا ذکر ہے۔پھر ہجرت حبشہ پر مختصر کلام کرنے کے بعد اسراء ومعراج پر شرح وبسط سے کلام ہے ،اس کے بعد حضرت عائشہ وحضرت سودہ سے نکاح کا بیان کیا گیاہے،پھردعوتِ قبائل،واقعات ہجرت،تعمیرمسجد نبوی،تحویل قبلہ اوراذان کے مباحث شامل ہیں۔

 

اس کے بعداہم ومستقل عنوان یعنی غزوات میں صادر ہونے والے معجزات پر تفصیلی کلام ہے،اس میں تمام غزوات کو ابواب کی صورت میں مرتب کیاگیاہے،اس کے بعد سلاطین زمانہ کی جانب خطوط ،وفود کی آمد،حجۃ الوداع ، اَصابع مقدس سے پانی کا اجراء اورتکثیر طعام کا ذکرکرتے ہوئے حیوانات سے متعلق آپﷺکے معجزات کو بیان کیاہے ،بعداَزاں دیگرمعجزات کاذکرکرتے ہوئےمستقبل کے بارے میں آپﷺکی خبروں کے معجزات کو تفصیلاً ذکرکیاہے ،پھر آپﷺکی مستجاب دعاؤں کے بارے میں وارد معجزات اور آپﷺکے فضائل وکمالات میں سے بعض کا دیگر انبیائے کرام کے فضائل سے موازنہ پیش کیاہے۔ اس کےبعد آپﷺکے خصائص کا تفصیلی بیان شروع کیاہے جس میں دنیاوی ،اُخروی ،برزخی ،تشریعی وتکوینی خصائص کو ابواب کی صورت میں مرتب کیاہے،اختتام کتاب پر آپﷺکی اَولاد،اَزواج ،اہل بیت ،منتخب اصحاب کامختصرذکرہے،اس کے بعد آپﷺکےمرض،وصال، تجہیزوتکفین کے اُموربیان کیے ہیں،پھر چند برزخی فضائل وخصائص کو بیان کرکے وصال نبوی پرصحابہ کرام کی کیفیت کا بیان مذکورہے اوراس کے بعد حج سے متعلق آپﷺکی بشارت ودلیل نبوت کا ذکرکرتے ہوئے کتاب کو مکمل کیاہے ۔

 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام سیوطی نے کتاب کو سیرت کے اکثرمضامین پر مرتب کیاہے جس میں غالب طورپر امام بیہقی کی "دلائل النبوة" کا اُسلوب جھلکتا ہے ،لیکن مباحث کے انتخاب میں معجزات وخصائص کا پہلو ملحوظ رکھا،یعنی مکمل سیرت کے مباحث نقل نہیں کیے، بلکہ صرف اُنہیں شامل کیاہے جن میں کسی خصوصیت ومعجزہ کا تعلق نمایاں تھا، چنانچہ ابتداءً توسیرت کے مباحث ترتیب واردرج ہیں،لیکن بعداَزاں کچھ ایسے معجزات واُمور بھی شامل ہیں، جن کا تسلسل مضامین سے بالکل مختلف ہے،پھر اختتام پر تفصیلاً خصائص کو ذکرکیاگیاہے،یوں کتاب ،سیرت کے مباحث پرمبنی ہے، لیکن اسے مستقل سیرت کی کتاب نہیں کہا جاسکتا ،کیونکہ معروف اُسلوب کے مطابق کتب ِسیرت میں اِرتقائی طورپر مباحث کو بتدریج مرتب کیا جاتاہے، جو تخلیق سے وصال تک پر محیط ہوتے ہیں،لیکن یہاں سیرت کے کئی اہم مباحث شامل نہیں ،تواس کی وجہ یہی ہےکہ مطلوب معجزات وخصائص کا بیان تھا،لہٰذا جس پہلو پر مطلوبہ مواد میسرآیا،اُسے شامل کرلیاگیااوربقیہ سے صرف نظر کی گئی تاکہ تالیف اَہداف ومقاصد سے ہی متعلق رہے ۔واللہ اعلم

 

منہج کتاب

امام سیوطی نےاس کتاب میں دومقامات پر اپنے اُسلوب ومنہج کی صراحت کی ہے،چنانچہ پہلے انہیں ذکرکرنا اَزحد ضروری ہے، تاکہ مؤلف کے اپنے بیان سے استفادہ کیاجاسکے۔

 

"وأوردت فيه كلّما ورد، ونزّهته عن الأخبار الموضوعة وما يرد، وتتبّعت الطّرق والشّواهد لما ضعف من حيث السّند، ورتّبته أقساماً متناسقةً، وأبواباً متلاحقةً، بحيث جاء بحمد الله كاملاً في فنّه، وابلاً مطرّد جنّه، سابغة ذيوله، سائغة نيوله، حلله ضافية، ومناهله صافية، وموارده كافية، ومصادره وافية، لا تجمع واردة إلا وهي فيه مسموعة، ولا تسمع شاردة إلا وتراها في ديوانه مجموعة." [18]

 

"میں نے اس کتاب میں متعلقہ مرویات کو جمع کیاہے اوراس باب میں وارد موضوع روایات سے اجتناب کیاہے ، چنانچہ جب سند ضعیف ہوئی تو میں نے طرق وشواہد سے(اس کے ضعف کا) اِزالہ کیاہے،اورمیں نے اسے بہترین اقسام اور موزوں ابواب پر مرتب کیاہے ،بایں طورکہ اللہ تعالی کے فضل سے یہ اپنے موضوع پر کامل اورسیرابی میں بارانِ رحمت ہے،اس کادامن کشادہ اور فیضان عام ہے ،اس کے جواہربیش قیمت اور چشمے پاکیزہ ہیں،اس کا موادکفایت کرنے والا اور مصادر بھرپور(وبکثرت)ہیں،نیز موضوع سے متعلق کوئی حدیث ایسی نہیں ملے گی،جس کابیان اس (کتاب)میں سنائی نہ دےاورتم کوئی شاذاَمر(حدیث واَثر)بھی ایسانہ سنوگے، جسے تم ہماری کتاب کے مجموعے میں درج نہ دیکھو۔"

 

اسی کتاب کے دوسرے مقام پر رقم طرازہیں:

 

"وأعلم إني أذكر كل ما قال فيه عالم أنه من خصائصه، سواء كان عليه أصحابنا أم لا، مصححاً أم لا، فإن ذلك دأب المتتبّعين المستوعبين، وإن كان الجهلة القاصرون إذا رأوا مثل ذلك بادروا إلى الإنكار على مورده."[19]

 

"اورجان لوکہ میں اس کتاب میں ہراس قول کو درج کرو ں گا ،جس کے بارے میں کسی ذی علم نے کہاہو کہ وہ آپﷺکے خصائص میں سے ہے ،چاہے ہمارے اَصحاب اس کے قائل ہوں ،یا نہ ہوں ،اسے صحیح مانتے ہوں ،یا نہ مانتے ہوں،پس بیشک احاطہ واستیعاب کرنے والوں کا یہی طریقہ کارہواکرتاہے ،اگرچہ جاہل لوگ جب کبھی ایسا معاملہ دیکھتے ہیں تو انکارکرتے ہوئے ایسااقدام کرنے والے پر ہی چڑھ دوڑتے ہیں۔"

 

نیز اپنی کتاب "الفارق بین المصنف والسارق"میں لکھتے ہیں:

 

"لقد أقمت في تتّبع هذه الخصائص عشرين سنة إلى أن زادت على الألف، و نظرت عليها من كتب التفسير والحديث وشروحه والفقه والأصول من المذاهب الأربعة والتّصوف وغيرها ما يجلّ عن العدّ والوصف، بحيث إن الرّوضة التي أعظم كتب المذهب وأجمعها، ليس فيها من الخصائص عُشر ما في كتابي، ولا ظفر طالبٌ بما يرويه في هذا الباب إلا من شرابي، وأنا إلى الآن ساع في الزّيادة، و كلّ وقت أظفر في المطالعة بخصيصة لم تكن قبل ذلك في كتابي مُفاده، و قسّمتها أقساماً حسنةً، وهذّبتها تهذيباً يزيل عن الطالب وسنه."[20]

 

"میں نے ان خصائص کی تلاش میں بیس (۲۰)سال صرف کیے ہیں ،تب جاکریہ تعداد ایک ہزار سے زائد ہوئی، اورمیں نے ان کے لیے کتب تفسیر،حدیث،شروحات حدیث،فقہ ،مذاہب اربعہ کے اُصول اور تصوف وغیرہ کی اتنی تعداد میں کتب ملاحظہ کی ہیں، جنہیں شمارنہیں کیا جاسکتا ،چنانچہ کتاب الروضہ جو (شافعی)مذہبِ فقہ کی بڑی وضخیم کتاب گردانی جاتی ہے ،اس میں میری کتاب کے مقابلے میں خصائص کا دسواں حصہ بھی موجود نہیں ہے ،لہٰذااس باب میں کوئی بھی طالب میری کتاب سے مستغنی نہیں ہوسکتااورہنوزمیں اس کے مندرجات میں اضافے کے لیے کوشاں ہوں اور دورانِ مطالعہ مجھے کہیں بھی کوئی ایسی خصوصیت ملتی ہے جو اس کتاب میں مذکورنہ تھی تو اسے شامل کرلیتاہوں اور میں نے اسے نفیس اقسام پر منقسم کیااور ایسی تہذیب کی ہے جو طالب کی مشقت کو زائل کردیتی ہے۔"

 

(۱)کتاب میں معروضی اُسلوب اپناتے ہوئے جامعیت وحسن ترتیب کے پیش نظر مواد کوتقریباً چھ سو(۶۰۰)ضمنی ابواب میں تقسیم کیا اورپھر ان میں سےکچھ کو کسی خاص عنوان کے تحت ذکر کیا ہے، تاکہ قاری کو اس باب میں وارد مختلف مضامین کے لیےسرگرداں نہ رہنا پڑے،مثلاً "ذكر المعجزات الّتي وقعت عند وفادة الوفود عليه"[21]،اس عنوان کے تحت پچاس(۵۰)ابواب کو ترتیب وار جمع کیا ہے۔اسی طرح "ذكر المعجزات في إجابة الدّعوات"[22]،اس عنوان کے تحت اُنتالیس(۳۹)ابواب کو جمع کیا ہے ۔

 

(۲)موادومباحث کے انتہائی مختصر ہونے کے باوجود کبھی "باب " کا عنوان قائم کیا ہے ،مثلاً "باب كلامه في المهد"،[23] "باب إختصاصه بأن تطوعه في الصّلاة قاعداً كتطوّعه قائماً"[24] اورکبھی طویل ہونے کے باوجود "باب" کا عنوان قائم نہیں کیا ،مثلاً"دعا جبريل عليه السّلام"[25]

 

(۳)کسی باب کے تحت احادیث کو بکثرت وارد کیا ہے،مثلاً "باب ما وقع في غزوة خیبر من الآیات والمعجزات"[26]کے تحت ترپن(۵۳)احادیث ذکر کی ہیں،جبکہ کسی مقام پر ایک ہی روایت ذکر کی ہے ،حالانکہ اس مقام سے متعلق مزید صحیح وحسن روایات بھی موجودتھیں،مثلاً "باب غزوة الهند"[27] اور"باب إخباره بقوم یأتون من بعده"[28]کے تحت صرف ایک ایک روایت ہی ذکرکی ہے ۔

 

(۴)کبھی مخرجین حدیث کا بکثرت ذکر کیا ہے جو عرب محققین کے نزدیک اس کتاب میں آٹھ (۸)تک پہنچتا ہے ،مثلاً "باب الآية في قدوم الأَعرابي من بني عامر بن صعصعة"[29]کے تحت حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی حدیث تخریج کرنے والوں میں امام احمد،بخاری، دارمی ،ترمذی،حاکم،بیہقی،ابویعلی اورابن سعدکاذکر کیا ہے،لیکن کتاب ہذا کے مطبوعہ نسخے مثلاً "دار الکتب الحدیثیة"اور"جامعة اُم القری"وغیرہ میں اسی مقام پربیہقی کےبعد ابونعیم کا بھی ذکر ہے[30] ،جس سے مخرجین کی تعداد آٹھ(۸) کے بجائے نو(۹)ہوجاتی ہے اوریوں امام سیوطی کا اس کتاب میں مخرجین کے ذکرکا انتہائی عدد اضافے کے ساتھ نو(۹) قرارپاتا ہے،لیکن اکثر مقامات پر صرف ایک مخرج کے ذکرپر اکتفاء کیا گیاہے اوراس کے نظائر بکثرت موجودہیں،جنہیں یہاں ذکر کرنے کی حاجت نہیں۔

 

(۵)اگر کسی حدیث کی سند پر محدثین نے موضوع ہونے کا حکم لگایا اور اس سند کے علاوہ کوئی سندایسی تھی جس کا شاہد وتابع موجودہے،تو اسے بعض مقامات پر پیش کیا ہے ،مثلاً "باب قصة الضبّ" پرحضرت عمر فاروق سے مروی حدیث کو امام طبرانی ،ابن عدی ،بیہقی ،ابونعیم اور ابن عساکرکے حوالے سے نقل کیاہے،پھر امام بیہقی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ان کے نزدیک راوی"محمد بن علی بن ولید"جائے مقال ہے،جبکہ اس کے دیگر طرق میں حضرت عائشہ اورحضرت ابوہریرہ کی احادیث بھی موجود ہیں۔بعدازاں اس کے موضوع ہونے پر امام ابن دحیۃ کلبی اور امام ذہبی کا مؤقف بیان کیاہے ،پھر ان اعتراضات کو رفع کرنے کے لیے ایسا طریق ذکرکیا ،جو حضرت عمرسے ہی مروی ہے ، لیکن اس میں راوی "محمد بن علی بن ولید " موجودنہیں،اوریہ امام ابونعیم کا تخریج کردہ ہے،اس کے بعد اسی حدیث کا حضرت علی سے مروی ہونا بیان کیاہےاوراسے امام ابن عساکرنے تخریج کیاہے،پس اس مقام پر امام سیوطی نے شاہد و تابع ذکر کرتے ہوئےحدیث پر وارد موضوع کا حکم دور کیا ہے۔

 

"أخرج الطبراني في الأوسط والصغير وابن عدي والحاكم في المعجزات والبيهقي وأبو نعيم وابن عساكر عن عمر بن الخطاب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم : كان في محفل من أصحابه إذ جاء إعرابي من بني سليم قد صاد ضبا، فقال : واللات والعزى لا آمنت بك حتى يؤمن بك هذا الضب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أنا يا ضب؟ فقال الضَّب بلسان عربي مبين يفهمه القوم جميعا: لبيك وسعديك يا رسول رب العالمين، قال: من تعبد؟ فقال: الذي في السماء عرشه وفي الأرض سلطانه وفي البحر سبيله وفي الجنة رحمته وفي النار عذابه. قال: فمن أَنا؟ قال: أنت رسول رب العالمين وخاتم النبيين قد أفلح من صدقك وقد خاب من كذبك، فأسلم الأعرابي.

 

ليس في إسناده من ينظر في حاله سوى محمد بن علي بن الوليد البصري السلمي شيخ الطّبرانيّ وابن عدي. قال البيهقي: الحمل في هذا الحديث عليه. قال: وقد روي من طرق أخرى عن عائشة أبي هريرة، وقد زعم ابن دحية: أن هذا الحديث موضوع وكذا الذهبي. قلت: لحديث عمر طريق أخر ليس فيه محمد بن عليّ بن الولِيد، أخرجه أبو نعيم وقد ورد أيضا مثله من حديث علي أخرجه ابن عساكر." [31]

 

(۶)بسااوقات کسی حدیث کی سند پر انہیں خود اندیشہ ہوا،یا انہیں اُس وقت روایت کی کوئی قوی سند نہیں مل سکی، تو روایت نقل کرنے کے ساتھ اس کی کیفیت کو ذکر کردیا ہےتاکہ اہل علم پر اس کی تقویت واستنادیت کے متعلقات واضح رہیں،مثلاً "باب ما وقع في الهجرة من الآیات والمعجزات"[32]کے تحت امام ابن عساکر کی حضرت ابن عباس سے مروی حدیث ذکر کی، لیکن اس کے آغازمیں ہی بیان کردیا:

 

"واخرج ابن عساكر بسند واه، عن ابن عباس قال: كان أبو بكر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الغار، فعطش، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذهب إلى صدر الغار فاشرب، فانطلق أبو بكر إلى صدر الغار فشرب منه ماء أحلى من العسل وأبيض من اللبن وأذكى رائحة من المسك، ثمّ عاد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله أمر الملك الموكل بأنهار الجنة إن خرق نهرا من جنة الفردوس إلى صدر الغار لتشرب."

 

اسی طرح "باب سفر النّبيّ مع عمّه أبي طالب...الخ"[33]کے تحت امام ابن عساکر کی حضرت ابن عباس سے مروی حدیث کے آغازمیں یوں ذکر کیا :

 

"وأخرج ابن مندة بسند ضعيف، عن ابن عباس، أن أبا بكر الصّديق صحب النبي صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثمان عشرة سنة والنبيّ ابن عشرين سنة وهم يريدون الشّام في تجارة حتى إذا نزل منزلا فيه سدرة، قعد في ظلها ومضى أبو بكر إلى راهب، يقال له: بحيرا، يسأله عن شيء، فقال له: من الرجل الّذي في ظل الشجرة؟ قال: محمد بن عبد الله بن عبد المطلب، قال: هذا والله نبي، ما استظل تحتها بعد عيسى بن مريم إلّا محمد. ووقع في قلب أبي بكر الصّديق، فلما بعث النّبي صلى الله عليه وسلم أتبعه. قال ابن حجر في الإصابة: إن صحت هذه القصّة، فهي سفرة أخرى بعد سفرة أبي طالب."

 

جبکہ بسااوقات سند کی قوت وصحت کے بارے میں بھی وضاحت کی ہےمثلاً "باب إختصاصه بشرح الصدر..الخ"[34] کے تحت امام بزارکی حضرت ابوہریرہ سے روایت کے بارے میں لکھا ہے :

 

"وأخرج البزار بسند جيد، عن أبي هريرة أن النّبي صلى الله عليه وسلم، قال: فضلت على الأنبياء بست لم يعطهنّ أحد كان قبلي غفر لي ما تقدم من ذنبي وما تأخّر وأحلت لي الغنائم وجعلت أمتي خير الأمم وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا وأعطيت الكوثر ونصرت بالرعب والذي نفسي بيده أن صاحبكم لصاحب لواء الحمد يوم القيامة تحته آدم فمن دونه."

 

(۷)اگر باب سے متعلق کوئی واضح آیت وحدیث موجود تھی ،جس سے عنوانِ باب کی وضاحت ہورہی تھی، تواسے کبھی براہ راست اورکبھی روایت وتفسیر کی صورت باب کے آغازمیں ذکرکیاہے،مثلاً "باب المعجزة والخصائص في عينيه الشريفتين"[35]

 

"قال الله تعالى: "مَا زاغ الْبَصَر وَمَا طَغى" أخرج ابن عدي والبيهقي وابن عساكر عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرى في الظلماء كما يرى في الضّوء."

 

مثلاً "باب خصوصية النّبي بكونه أول النّبيين في الخلق وتقدم نبوته وأخذ الميثاق عليه"[36]

 

"أخرج ابن أبي حاتم في تفسيره وأبو نعيم في الدلائل من طرق عن قتادة عن الحسن عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله تعالى: "وَإِذ أَخذنَا من النَّبِيين ميثاقهم" الْآية. قال: كنت أول النبيين في الخلق وآخرهم في البعث فبدأ به قبلهم."

 

(۸)ائمہ کے مباحث پر اپنی جانب سے نفیس اضافہ جات شامل کیے ہیں ،بایں طور کسی مبحث میں تشنگی تھی ، تو اسے دلائل وتوضیحات سےدورکیا،مثلاً "ذكر الخصائص التي اختصّ بها عن أمته من واجبات ومحرمات ومباحات وكرامات مما لم يتقدّم له ذكر"[37]

 

"وهذا النّوع أفرده جماعة من الفقهاء وتعرض له أصحابنا الشّافعية في كتبهم الفقهية في باب النكاح ولم يستوفوا وأنا أستوفي هنا إن شاء الله تعالى ذلك إستيفاء لا مزيد عليه، وأعلم إني أذكر كل ما قال فيه عالم أنه من خصائصه سواء كان عليه أصحابنا أم لا مصححا أم لا، فإن ذلك دأب المتتبعين المستوعبين، وإن كان الجهلة القاصرون إذا رأوا مثل ذلك بادروا إلى الإنكار على مورده."

 

(۹)اگر ائمہ کرام نے کسی حدیث کی تقویت وصحت کی جانب اشارہ کیاتھا،لیکن حدیث وسند بیان نہیں کی ،تو بسااوقات اُسے ذکرکردیاہے۔ [38]

 

"قال البيهقي: أبو معشر روى عنه الكبار إلا أنه ضَعِيف، قال: وقد روي هذا الحديث من وجه آخر هذا أقوى منه. قلت: أخرجه أبو نعيم من طريق محمد بن بركة الحلبي عن عبد العزيز بن سليمان الموصلي عن يعقوب بن كعب عن عبد الله بن نوح البغدادي عن عيسى بن سوادة عن عطاء الخراساني عن ابن عباس عن عمر به. وأخرجه أيْضا من طريق أبي سلمة محمد بن عبد الله الأنصاريّ عن مالك بن دينار عن أنس ومن طريق زيد بن أبي الزّرقاء الموصلي عن عيسى بن طهمان عن أنس به بطوله. وأخرجه عبد الله بن احمد في زوائد الزهد حدثني محمد بن صالح مولى بني هاشم البصريّ حدثني أبو سلمة محمد بن عبد الله الأنصاريّ حدثنا مالك بن دينار عن أنس به."

 

(۱۰)بسااوقات اپنی جانب سے اورکبھی دیگرائمہ کی نسبت سےاحادیث کے شواہد ومتابع پیش کیے ہیں،[39] "باب إخباره صلى الله عليه وسلم بقتل الإعرابي قبل أن ينخرق سقاؤه "کی حدیث کے تحت یوں ذکرکیا:

 

"قال المنذريّ: رواته رواة الصحيح إلا أن كديرا تابعي، فالحديث مرسل، وتوهم ابن خزيمة أن له صحبة فأخرجه في صحيحه. قلت: له شاهد موصل، أخرج الطبراني بسند رجاله ثقات إلا يحيى الحماني عن ابن عباس، قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: ما عمل إن عملت به دخلت الجنة، قال أنت ببلد يجلب به الماء، قال: نعم، قال: فاشتر بها سقاء جديدا ثمّ اسق فيها حتى تخرقها فإنّك لن تخرقها حتى تبلغ بها عمل الجنة."

 

(۱۱)راویوں کی جرح وتعدیل پر اپنااوردیگر ائمہ کا کلام نقل کیاہے۔مثلاً"خطاب بن عبد الدائم ارسوقی "

 

"واخرج الخطيب وابن عساكر عن ابن عباس، سمعت النّبي صلى الله عليه وسلم يقول: شفعت في هؤلاء النّفر في أبي وعمي أبي طالب وأخي من الرضاعة يعني ابن سعدية ليكونوا بعد البعث هباء. قال الخطيب: في إسناده خطاب بن عبد الدّائم الأرسوقي وهو ضعيف يعرف برواية المناكير عن يحيى بن المبارك الصنعاني وهو مجهول عن منصور بن المعتمر عن ليث بن أبي سليم ومنصور لا يروي عن ليث وليث فيه ضعف." [40]

 

مثلاً"ہیثم"

 

"اخرج ابن عدي والبيهقي وأبو نعيم من طريق الهيثم بن حماد عن ثابت عن أنس، أن أبا طالب مرض فعاده النّبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا ابن اخي ادع ربك الذي تعبد أن يعافيني، فقال: اللّهم اشف عمي. فقام أبو طالب كأنما نشط من عقال، قال: يا ابن أخي، إن ربك الذي تعبد ليطيعك، قال وأنت يا عماه لئن أطعت الله ليطيعنك. تفرد به الهيثم وهو ضعيف." [41]

 

مثلاً"اسحاق"

 

"قال ابن عساكر: هذا حديث منكر، إسحاق كذّاب وجويبر ضعيف." [42]

 

مثلاً "جابرجعفی"

 

"وأخرج الدّارقطني والبيهقي في السّنن من طريق جابر الجعفي عن الشعبيّ قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يؤمن أحد بعدي جالسا. قال الدّارقطني: لم يروه غير جابر الجعفي وهو متروك، والحديث مرسل لا تقوم به حجّة."[43]

 

(۱۲)جمع کی غرض سے احادیث کو تفصیلاً پیش کیاہے ،مثلاً معراج کے ضمن میں تیس(۳۰) احادیث بمع متن وسند مذکورہیں ۔[44]

 

(۱۳)کبھی ایک ہی صحابی سے مروی احادیث کےمتعددطرق وروایات کومع متن ومخرج جمع کیاہے،مثلاً حضرت انس بن مالک سے معراج کی احادیث۔[45]

 

(۱۴)ضروری مقامات پر لغات حدیث اور مشکل کلمات کی شرح ذکرکی ہے۔مثلاً

 

"الوضم كل شيء يحمل عليه اللحم من خشب أوبارية، والصعدة القناة المستوية وردينة اسم امرأة كانت تقوم القنا، فنسب اليها الرماح الردينية، والقرح بضم القاف وفتح الرّاء المشدّدة جمع قارح وهو الفرس إذا استكمل خمس سنين وانتهت أسنانه واللطيم من الخيل الذي سالت غرته في أحد شقي وجهه والدهم بفتح الدال وسكون الهاء العدد الكثير والمزعزع بزايين معجمتين المحرك والصدد من أسماء الحجر والخرق بفتح الرّاء ضد الرّفق والنزق بفتح الزّاي الخفة والطيش والوصف منهما." [46]

 

(۱۵)کبھی باب کے اختتام پر فوائد ذکر کیے ہیں ، مثلاً "باب المعراج"[47] اور"باب ما وقع في غزوة بدر من الآیات والمعجزات"[48]

 

(۱۶)بسا اوقات طرق حدیث اور اس کے متابع وشواہدمیں امام سیوطی متون نقل کرنے کے بجائے صرف اس کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔

 

مثلاً "حديث الإفك"کے تحت حضرت جابر سے حدیث لائے :

 

"وَأخرج البُخَارِيّ عَن جَابر قَالَ: عَطش النَّاس يَوْم الْحُدَيْبِيَة وَرَسُول الله ﷺ بَين يَدَيْهِ رَكوةً فَتَوَضَّأ مِنْهَا ثمَّ أقبلَ عَلى النَّاسِ فَقَالَ: مَا لكُمْ؟ قَالُوا: لَيْسَ عِنْدنَا مَاءً نَتَوَضَّأ بِهِ وَلَا نَشْرِب إِلَّا مَا فِي ركوتِكَ فَوَضعَ النَّبِيُّ ﷺ يَدهُ فِي الرّكوةِ فَجعَل المَاءُ يَفُور مِنْ بَينَ أَصَابِعهِ كَأمْثَالِ الْعُيُونِ فَشَربنَا وَتَوَضأنا فَقلْتُ لجَابِر: كَم كُنْتُم يَوْمئِذٍ؟ قَالَ: لَو كُنَّا مائَة أَلفٍ لَكَفَانَا كُنَّا خمَس عَشَرَة مائَةٍ."[49]

 

چنانچہ اس کے بعد حدیث مذکور کے طرق نقل کرنے کے بجائے حضرت جابر سے مروی متعدد طرق کی جانب اشارہ فرمایا، جس کے مطابق اس حدیث کو انس بن مالک نے سیّدنا جابرسے روایت کیااور اُن کے طریق سے امام احمد نے "مسند"اورامام ابونعیم "دلائل النبوۃ"میں نقل کیاہے،اسی طرح نبیح عنزی نے بھی انہی سے روایت کیا،جسے امام احمد نے "مسند"اورامام ابن خزیمہ نے "صحیح"میں نقل کیاہے،نیز یہ روایت اوربھی طرق سے مروی ہے ۔

 

اسی طرح امام سیوطی نے آپﷺکی تدفین کے باب میں حدیث نقل کی :

 

"وَأخرَج ابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ عَن ابْن عَبَّاسٍ قَالَ: اخْتلفَ المُسْلِمُوْنَ فِي دَفنِ رَسُولِ الله ﷺ فَقَالَ قَائِلٌ: اِدْفِنُوهُ فِي مَسْجِدِهِ، وَقَالَ قَائِلٌ: بِالْبقِيعِ، فَقَالَ أَبُو بَكرٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُول: مَا مَاتَ نَبِيٌّ إِلَّا دفِنَ حَيْثُ يقبضَ فَرفَع الْفِراشَ الَّذِي تَوفّي عَلَيْهِ حُفِر لَهُ تَحْتَهُ"[50]

 

اس حدیث کے بارے میں ائمہ کے مختلف مؤقف ہیں،پس بعض کے نزدیک یہ روایت مرسل ہے اور بعض کے نزدیک متصل، چنانچہ امام سیوطی نے اس روایت کو واردکرنے کے ساتھ ہی اس اَمر کی جانب اشارہ کیا:

 

"لَهُ طُرُقٌ عِدَّة مَوْصُولَة وَمُرْسِلَة."[51]

 

توحدیث کو وارد کرنے کے ساتھ ہی اس کی اسنادی قوت کی جانب بھی اشارہ کردیاتاکہ اخذ نتیجہ میں سہولت رہے اور قاری کو اس کے بارے میں صحت وثبوت تک رسائی وتحقیق کرنے میں دشواری نہ ہو،لیکن ان کے متون نقل نہیں کیے۔

 

(۱۷)کبھی متون اس مقام پر تووارد نہیں کرتے ،لیکن اپنی دوسری تالیف میں جہاں جمع آوری ہوتی ہے ،اُس کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔

 

چنانچہ نبی کریم ﷺکو ایذادینے والے پانچ کفارمکہ کے بارے میں آیت مبارکہ[52]کے تحت حضرت ابن عباس سے طویل حدیث نقل کی ،جس میں ان کے انجام کا ذکرہےاورحدیث کے اختتام پر بایں کلمات مزید طرق کی جانب تصریح کی ہے :

 

"لَهُ طُرُقٌ عَن ابْنِ عَبَّاسٍ وَغَيرَهُ أَوْرَدْتُها فِي التَّفْسِيرِ الْمسندِ"[53]

 

اسی طرح ایک طویل حدیث جو سیّدناعیسیٰ کے وصی "ذویب"کے بارے میں تھی ،اسے امام بیہقی اورامام ابونعیم سے سندضعیف کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اختتام پر بیان کیا:

 

"هَذَا الحَدِيْثُ لَهُ طُرُقٌ أُخْرى بَيَّنتُهَا فِي النُّكتِ عَلَى المَوضُوْعَاتِ"[54]

 

(۱۸)کبھی مراسیل کو الگ عنوان کے تحت ذکرکیاہے۔[55]

 

(۱۹)کبھی اَحادیث واسانید کے متعددطرق ذکرکیے ہیں۔[56]

 

"وأخرج ابن اسحاق والبيهقي عن الزّهري وجماعة ان العباس قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ما عندي ما أفدي به، قال: فأين المال الذي دفنته أنت وأم الفضل؟ فقلت لها: إن أصبت في سفري هذا فهذا المال لبني الفضل وعبد الله وقثم، فقال: والله إنّي لأعلم انك رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله ان هذا لشيء ما علمه أحد غيري وغير أم الْفضل. وأخرجه الحاكم من طريق ابن اسحاق عن يحيى بن عباد عن أبيه عن عائشة به وصححه. وأخرجه أبو نعيم من طريق ابن اسحاق عن بعض أصحابه عن مقسم عن ابن عباس. وأخرجه أحمد من طريق ابن اسحاق عمن سمع عكرمة عن ابن عباس. وأخرجه ابن سعد من طريق الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس."

 

(۲۰)فقہی احکام اوراختلاف علماء کا ذکر کیا ہے ۔[57]

 

"ومن خصائصه تحريم نكاح الأمة المسلمة في الأصح لأن جوازه مشروط بخوف العنت وهو صلى الله عليه وسلم معصوم وبفقدان طول الحرة ونكاحه غير مفتقر إلى المهر ولأن من نكح أمة كان ولده منها رقيقا ومنصبه منزه عن ذلك. وقال الرافعي لكن من جوز ذلك، قال: خوف العنت إنما يشترط في حق الأمة وكذا فقد الطول وعلى هذا يجوز له الزيادة على أمة واحدة بخلاف الأمة ولو قدر نكاحه أمة فأتت بولد لم يكن رقيقا ولا يلزمه قيمة الولد لسيدها على الصّحيح لان الرقّ متعذر. قال الإمام: ولو قدر نكاح غرور في حقه عليه السلام ولم يلزمه قيمة الولد. قال ابن الرفعة في المطلب: وفي إمكان تصور نكاح الغرور ووطئة فيه نظر، إِذا قلنا أن وطي الشّبْهة حرام مع كونه لا إثم فيه فيجوز أن يصان جانبه العلي عن ذلك ويجوز أن يقال بجوازه لأن الإثم مفقود بإجماع كالنسيان."

 

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر نقل کرتے ہیں۔[58]

 

خلاصہ بحث

امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں سیرت نبوی کی ضمنی صنف کو مستقل حیثیت دیتے ہوئے جمع مواد اور تنقیح وتالیف کی طرح ڈالی اورنوسوسال کے وسیع اسلامی سرمایہ کاحاصل مطالعہ پیش کیاہے،جس میں ناصرف سیرت نبوی کی قدیم تحریری روش کا انداز اور محدثانہ نقدوجرح بھی شامل ہے،بلکہ عوام الناس کے استفادےکی عام فہم سطح اور اہل علم کے تحقیقی لوازمات کی آبیاری بھی کی گئی ہے،جس کے نتیجے میں ابواب کتاب کی درجہ بندی اور اصناف ذیلی کی تقسیم نے متذکرہ اُمور کو سہل الحصول بنایادیاہے،چنانچہ مضامین کتاب کی روانی اور مواد سیرت کی مناسب ترتیب ہرسطح کے قاری کو متاثر ومستفید کرتی نظرآتی ہے۔انہی امتیازات کی وجہ سے مقالہ نگاران نے سعی کی ہے کہ کتاب کے علمی وامتیازی امورکو حتی الوسع اُجاگرکیاجائے تاکہ خصائص نبوی کی صنف پر اس کتاب کا تعلق بالخصوص اہل علم کے یہاں مزید مدلل ومتحقق ہوسکے،جس کے لیے ناصرف اصطلاح خصائص کےمطالب ومفاہیم اورخصائص نبویہ کی تقسیم سے ضروری بحث کی گئی ہے،بلکہ الخصائص الکبریٰ کے تفصیلی اوراہم اُمورکو 21نکات کی صورت میں مع امثلہ پیش کیاگیاہے۔وللہ الحمد

 

نتائج بحث

امام سیوطی کی کتاب الخصائص الکبریٰ کے مطالعہ سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:# سیرت نبوی کی متذکرہ صنف پر طویل موادکوتقریباً چھ سومناسب ومتوازن ابواب میں منضبط کیاگیاجواس سے پہلے اتنی جامعیت کے ساتھ کسی ایک کتاب میں یکجانہ تھے۔

  1. فقہی کتب میں منتشرسرمایہ سیرت سے بھی بھرپوراستفادہ کیاگیا،جوبیشترمتقدمین اوربالخصوص اس موضوع پر لکھنے والوں کے یہاں قریباً مفقود تھا۔
  2. تالیف وتنقیح میں عجلت کے بجائے طویل المدتی دورانیہ اور علمی بالیدگی کو ملحوظ رکھاگیاجس سے کتاب اپنے موضوع پر جامع ترہوسکی۔
  3. سیرت نگاروں کے یہاں بالعموم محدثانہ اصولوں پر نقدوجرح کا رحجان کم ہی کتب میں دکھائی دیتاہے،لیکن امام سیوطی نے اس کتاب میں حتی الوسع اسے ملحوظ نظررکھا ،چنانچہ کئی مقامات پر اس کے شواہد موجودہیں۔
  4. جن مضامین ومباحث میں کلیتاً خلاتھا ،اُن پرخاطرخواہ مواد کی تشکیل وترتیب کی گئی۔
  5. ایسےموضوعات جوقلتِ مواد کے حامل تھے، اُن میں اضافی مواد،کثرت دلائل ، اِستنباط واستشہاد کا کافی سرمایہ یکجا ہوا، جس سے بعد والے محققین ومستفیدین کے لیے راہیں ہموارہوئیں۔
  6. آپ نے اس کتاب میں حدیث ، سیرت ،فقہ اور تاریخ کی کم وبیش ایک سوپچاس سے زائد کتب علمیہ سے براہِ راست استفادہ کیا، تو اس کے پیش نظر اس نتیجہ کو اَخذ کرنے میں تامل نہیں ،کہ آپ نے اپنی علمی صلاحیتوں کا بھرپوراستعمال کرتے ہوئے ذخائر علمیہ کے معتدبہ حصہ کو پیش نظر رکھ کر کتاب ہذاتالیف کی۔

 

حوالہ جات

  1. حوالہ جات(References) سیوطی،امام جلال الدین،التحدث بنعمۃ اللہ،تحقیق:شیخ ہیثم خلیفہ،المکتبۃ العصریۃ، بیروت،طبع اوّل،2003ء، وشعرانی،عبد الوہاب،الطبقات الصغریٰ،مکتبۃ الثقافہ،قاہرہ،س ن،وایادخالد الطباع،الامام جلال الدین السیوطی معلمۃ العلوم الاسلامیہ،دارالقلم دمشق،طبع1417ھ،ملخصاً Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Taḥaddus Bi Naimatillah, (Beruit: Al Maktabah al ‘Aṣriyyah, 1st Edition, 2003), Sha‘ranī, Abdul Wahab, Al Tabqāt ul sughra, (Cairo: Maktabah al Saqafah), Ayyad Khalid Al Tabai, Imām Jalāl al Dīn Al Suyūti Muallima tul Ulūm al Islāmia, (Damascus: Dār Al Qalam, 1417).
  2. ابن منظورافریقی،محمد بن مکرم،شیخ ،لسان العرب،دار صادر،بیروت،1414ھ، 7:24 Ibn Manzūr, Muḥammad bin Mukarram, Lisān al ‘Arab, (Beurit: Dār Ṣadir, 1414), 7:24
  3. فیروزآبادی،محمد بن یعقوب ،شیخ ،القاموس المحیط،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 2005ء، 1:617 Ferozābādī, Muḥammad bin Ya’qūb, Al Qāmūs al Muḥīṭ, (Beirut: Mo’assasah al Risalah, 2005), 1:617
  4. لجنۃ من العلماء ،المعجم الوسیط،مکتبۃ الشروق الدولیۃ،مصر،طبع رابع،2004ء، مادۃ:خصّ، 1:238 A Group of Scholars, Al Mu’jam al Wasīṭ, (Egypt: Maktabah al Shurūq al Dawliyyah, 4th Edition, 2004), 1:238
  5. صادق بن محمد ،شیخ ،الخصائص المصطفیٰ بین الغلووالجفاء،مکتبۃ الرشد ،الریاض ،سن ندارد،ص:24 Ṣadiq bin Muḥammad, Al Khaṣi’ṣ al Muṣṭafa byn al Ghulu wal Jafa’, (Riyadh: Maktabah al Rushd), p:24
  6. سیوطی،امام جلال الدین،حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصروالقاہرۃ،داراحیاء الکتب العربیۃ،عیسیٰ البابی الحلبی،مصر،طبع اوّل،1968ء، 1:340 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Ḥusn al Muḥaḍarah fī Tārīkh Miṣr wal Qāhirah, (Egypt: Dār Iḥyā’ al Kutub al ‘Arabiyyah, 1st Edition, 1968), 1:340
  7. سیوطی،امام جلال الدین،الفارق بین المصنّف والسارق،تحقیق:ہلال ناجی،عالم الکتب، بیروت، طبع اوّل،1998ء،ص:33 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Fāriq byn al Muṣannif wal Sāriq, (Beirut: ‘Ālam al Kutub, 1st Edition, 1998), p:33
  8. سیوطی،امام جلال الدین،انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ،تحقیق:شیخ عباس احمد صقر حسینی ،مکتبۃ النجاح، المغرب، ۱۹۹۵ء، ص: 80 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Unmūdhab al Labīb fī Khāṣ‘iṣ al Ḥabīb, (Morocco: Maktabah al Najaḥ, 1995), p:80
  9. سیوطی،حسن المحاضرۃ،1:340 Al Suyūti, Ḥusn al Muḥaḍarah fī Tārīkh Miṣr wal Qāhirah, 1:340
  10. سیوطی،امام جلال الدین،التحدث بنعمۃ اللہ،تحقیق:شیخ ہیثم خلیفہ،المکتبۃ العصریۃ، بیروت،طبع اوّل،2003ء،القسم الثانی، ص:99 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Taḥaddus Bi Naimatillah, (Beirut: Al Maktabah al ‘Aṣriyyah, 1st Edition, 2003), p:99
  11. سیوطی،امام جلال الدین،طرح السقط ونظم اللقط، دارالکتب العلمیہ،بیروت،طبع ثانی،2000ء، ص:81-84 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Ṭarḥ al Saqṭ wa Naẓm al Luqaṭ, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2nd Edition, 2000), p:81-84
  12. ایضاً،ص:89 Ibid., p:89
  13. ایضاً،ص: 82 Ibid., p:82
  14. سیوطی،امام جلال الدین،التعظیم والمنۃ فی ان ابوی النبی ﷺفی الجنۃ،مشمولہ رسائل السیوطی فی نجاۃ والدی النبیﷺ، دارالکتب العلمیہ، بیروت،طبع اولی،1421ھ، ص:108 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Ta’ẓīm wal Mannah fī Anna Abaway Al Nabī fīl Jannah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1421), p:108
  15. حاجی خلیفہ ،محمد بن عبداللہ ،شیخ،کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،سن ندارد،1:705 Ḥajī Khalīfah, Muḥammad bin ‘Abdullāh, Kash al Ẓunūn ‘An Asāmī al Kutub wal Funūn, (Beirut: Dār Iḥyā’ al Turath al ‘Arabī), 1:705
  16. کتانی ،محمد بن جعفر،شیخ ،الرسالۃ المستطرفۃ لبیان مشہورکتب السنۃ المشرفۃ،مکتبہ الکلیات الازھریۃ،القاھرۃ،سن ندارد،ص:151 Kattanī, Muḥammad Bin Ja’far, Al Risālah al Mustaṭrifah li Bayān Mashūr Kutub al Sunnah al Mushrifah, (Cairo: Maktabah al Kulliyyāt al Azhariyyah), p:151
  17. لجنۃ من العلماء،اُردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ،دانش گاہِ پنجاب،لاہور،پاکستان،طبع اوّل،1975ء،11:539 Group of Scholars, Urdu Dā‘irah Ma’ārif Islāmia, (Lahore: Danish Gāh-e-Punjab, 1st Edition, 1975), 11:539
  18. سیوطی،امام جلال الدین،الخصائص الکبری ، دار الکتب العلمیہ، بیروت ، ۲۰۱۷ء، 1:40 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Khaṣā’iṣ al Kubra, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2017), 1:40
  19. ایضاً Ibid.
  20. سیوطی،الفارق بین المصنّف والسارق،ص: 33،34 Al Suyūti, Al Fāriq byn al Muṣannif wal Sāriq, p:33,34
  21. سیوطی،الخصائص الکبری، 2:23-66 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Khaṣā’iṣ al Kubra, 2:23-66
  22. ایضاً،2: 275-300 Ibid., 2: 275-300
  23. ایضاً،1:91 Ibid., 1:91
  24. ایضاً ،2:442 Ibid., 2:442
  25. ایضاً ،2:158-160 Ibid., 2:158-160
  26. ایضاً ،1: 417-427 Ibid., 1: 417-427
  27. ایضاً ،2:190 Ibid., 2:190
  28. ایضاً،2:255 Ibid., 2:255
  29. ایضاً ،2:59 Ibid., 2:59
  30. سیوطی ،الخصائص الکبری ،دار الکتب الحدیثیہ،بیروت ،مطبع المدنی ،1967ء،2:202 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Khaṣā’iṣ al Kubra, (Dār al Kutub al Ḥadithiyyah, 1967), 2:202
  31. سیوطی ،الخصائص الکبری ،دار الکتب العلمیہ، بیروت ، سن2017ء،2:107،108 Al Suyūti, Imām Jalāl al Dīn, Al Khaṣā’iṣ al Kubra, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2017), 2:107,108
  32. ایضاً ،1:307 Ibid., 1:307
  33. ایضاً ،1:145 Ibid., 1:145
  34. ایضاً ،2:336 Ibid., 2:336
  35. ایضاً،1:104 Ibid., 1:104
  36. ایضاً ،1:7 Ibid., 1:7
  37. ایضاً،2:396 Ibid., 2:396
  38. ایضاً ،1:235 Ibid., 1:235
  39. ایضاً ،2:224 Ibid., 2:224
  40. ایضاً،1:147 Ibid., 1:147
  41. ایضاً ،1:208 Ibid., 1:208
  42. ایضاً ،2:334 Ibid., 2:334
  43. ایضاً ،2:417 Ibid., 2:417
  44. ایضاً،1: 252-296 Ibid., 1: 252-296
  45. ایضاً،1:253-260, 296 Ibid., 1:253-260, 296
  46. ایضاً،1:59 Ibid., 1:59
  47. ایضاً،1:297 Ibid., 1:297
  48. ایضاً ،1:345 Ibid., 1:345
  49. ایضاً،1:406 Ibid., 1:406
  50. ایضاً،1:406 Ibid., 1:406
  51. محولہ بالا۔ Ibid.
  52. سورۃ الحجر: 95 Surah al Hajar, 95
  53. سیوطی ،الخصائص الکبری ،1:244 Ibid., 1:244
  54. ایضاً ،2:496 Ibid., 2:496
  55. ایضاً ،1:296 Ibid., 1:296
  56. ایضاً ،1:342 Ibid., 1:342
  57. ایضاً،2:414 Ibid., 2:414
  58. ایضاً،2:403 Ibid., 2:403
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...