Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

اندلس میں مسلمانوں کے ادوار حکومت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060030498_582

Pages

21-36

DOI

10.36476/JIRS.2:1.06.2017.03

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/167/10.12816%2F0037060

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/167

Subjects

Muslim in Spain Different Period Downfall Andulus Muslim in Spain Different period downfall Andulus

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

مسلمانوں کی اُندلس میں کامیابی سے لے کرزوال تک کی تاریخ کو ہم مختلف ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں جس کی مختصر تفصیل درجہ ذیل ہے۔

(۱): اموی امراء کا دور (711 تا 756)

(۲):اموی امرا ءاور خلفاء کا دور (756تا 912)

(۳):ملوک الطوائف (1023 تا 1091)

(۴): المرابطون ،الموحدون (1091 تا 1269)

(۵):بنو احمر (1232 تا 1492)

(۶):زوال غرناطہ

(۱):اموی امرا کا دور(711تا 756)

تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ پہلی صدی ہجری کی آخری دھائیوں میں اموی فوجیں موسیٰ بن نصیر کی قیادت میں شمالی افریقہ کے اکثر علاقوں پر قابض ہو چکی تھیں۔افریقہ کے شمالی اطراف کے ساحلی حصے سلطنت روما سے تعلق رکھتے تھےلیکن قرطاجنہ کے سقوط سے افریقہ میں رومی سلطنت کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔تاہم شمالی افریقہ کا ساحلی شہر سبتہ بدستوررومی سلطنت کا حصہ تھا۔سبتہ کا حاکم جولیان قوطیہ، بادشاہ سپین وی تیزا کا داماد اور خاص آدمی تھا۔رزریق بادشاہ و تیزا اور اس کے ولی عہد کے قتل کے بعد تخت پر بیٹھ گیااور اپنے ظلم کی وجہ سے بہت جلد مشہور ہوا۔جس کی بدولت بہت سے لوگ ہجرت کرکے افریقہ کے ساحلی شہروں میں پناہ لینے لگے۔

جب710ء میں موسیٰ بن نصیرکا ایک سپہ سالار طریف اس راستے سے سپین میں داخل ہونے لگاتو جولیان نے ان کی بڑی مدد کی تھی۔جب موسیٰ کا دوسرا سپہ سالار طارق بن زیاد ۷۱۱ء میں ساحل پر اترا(جبرالٹر)اور حملوں کا آغاز کر دیاتو19 جولائی 711ء کو وادی لطہ میں انھوں نے بادشاہ رزریق کو شکست دے دی۔اس کے بعد تیزی سے بڑھ کر دوسرے شہروں پر قبضہ کر لیااور711ء میں قرطبہ [1]اور طلیطلہ [2]فتح ہوئے۔اسی طرح 712ء میں اشبیلیہ[3]،ماردہ[4] اور سرقسطہ [5]بھی فتح ہو گئے۔

یوں سپین اموی خلافت کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔اس دور میں سپین کی مقامی ثقافت اور اسلام کی شامی تہذیب کے امتزاج سے مذہبی رواداری بڑھی اورتجارت کو بہت فروغ حاصل ہواالبتہ معاشرت کی بنیاد قبائلی تقسیم پر رہی۔[6]اس لئےعرب شامی اور غیر شامی تفریق کا شکار تھے۔اس عہد کاایک قابل ذکر واقعہ بلاط الشہداء کی جنگ ہے۔[7]جسےیورپ کے مورخین نے ایک اہم واقعہ بتایا ہے۔

آخری اموی والی یوسف بن عبدالرحمن الفہری (747ء۔756ء)تھاجب عباسیوں نے اموی خلافت کے خاتمہ کے بعد 756ء میں عباسی خلافت قائم کی۔ابو العباس عبد اللہ اس کا پہلا خلیفہ بنا۔ تو ایک اموی شہزادہ عبدالرحمن بن معاویہ عباسیوں سے بچتا بچاتا شمالی افریقہ پہنچ گیا۔یہاں اس نے فوج جمع کی اور سپین پر حملہ کیااورقرطبہ کے باہر الفہری کو شکست دے کر 10مئی756ء کو اس نے امیرِ اندلس ہونے کا اعلان کیااور اموی امارت کے دور کا آغاز ہو گیا۔[8]

فہرست والیان اندلس مع مدت حکومت:

ذیل میں والیان اُندلس کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔

  1. طارق بن زیاد [9](شوال 92 ھ ۱ جولائی711ء) (جمادی الاول 93ھ مارچ یا اپریل 714ء ( 
  2. موسیٰ بن نصیر ۔ذی الحجہ 95ھ ( ستمبر 714ء تک (
  3. عبد العزیزبن موسیٰ۔ذی الحجہ 97ھ اگست 716ء تک
  4.  ایوب بن حبیب اللخمی ۔ذی الحج98 ھ جولائی یا اگست 717ء تک
  5. الحر بن عبد الرحمن الثقفی۔رمضان 100ھ مارچ یا اپریل 719ء تک
  6. السمح بن مالک الخولانی ۔ ذی الحجہ 102 ھ مئی 721ء تک
  7. عبد الرحمن الغافقی ۔ صفر 103 ھ اگست 721 ء تک
  8. عنبسہ بن سحیم کلبی۔شعبان 107 ھ دسمبر 725 ء یا جنوری726 ء تک۔۔(قرطبہ دارالحکومت ہو گیا)
  9. عذرہ بن عبداللہ الفہری ۔ شوال 107ھ مارچ 726 تک
  10. یحیی بن سلمہ االکلبی۔ ربیع الثانی 108 ھ ستمبر 726 تک 
  11. عثمان بن ابی عبدہ ۔شعبان 109ھ نومبر 727ء تک
  12. عثمان بن ابی نسعہ الخثعمی ۔ربیع الاول 110ھ جون یا جولائی 728 تک 
  13. حذیفہ بن احوص قیسی ۔ محرم 111ھ اپریل 729ء تک
  14. ہیثم بن عبید کلابی ۔ جمادی الاول 113ھ اگست 731 تک
  15. محمد بن عبد اللہ اشجعی۔ شعبان 113 ھ اکتوبر 731ء تک
  16. عبد الرحمن بن عبد اللہ غافقی۔ رمضان 114ھ اکتوبر 732ء تک
  17. عبد الملک بن قطن فہری ۔ رمضان 116 ھ اکتوبر یا نومبر734ء تک
  18. عقبہ بن حجاج سلولی۔ صفر 121 ھ 739ء تک
  19. عبد الملک بن قطن فہری۔124 ھ 742ء تک
  20. بلج بن بشر القثیری ۔ شوال 124 ھ ستمبر 742ء تک
  21. ثعلبہ بن سلامہ ۔ رجب 125 ھ مئی 743ء تک 
  22. ابو الحظار حسام بن ضرار کلبی ۔ رجب127ھ اپریل ۔ مئی 745ء تک
  23. ثوابہ بن سلمہ ۔ ربیع الثانی 129ھ دسمبر 746یا جنوری 747 ء تک
  24. یوسف بن عبدالرحمن ۔ذی الحجہ138ھ مئی 756ء تک[10]

اندلس کا دور ولایت:

طارق بن زیادکے وقت سے لے کر یوسف بن عبدالرحمن تک یعنی711ء سے 756 تک کے عر صے میں یہ ملک صحیح معنوں میں اسلامی اندلس بن گیا۔اس نصف صدی کا زیادہ تر وقت گو کہ خانہ جنگی میں گزرالیکن پھر بھی یورپ کی سرزمین پر اسلام کی کرنیں چمکنے لگی۔اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ "اندلس اسلامی حکومت کے زیرسایہ پچاس سال کے اندر اندر تہذیب کے اس نقطہ پر پہنچ گیا۔جہاں تک اٹلی کو پوپ کی حکومت کے ماتحت پہنچنے میں ایک ہزار برس لگے"۔[11]

اس دور کے بارے میں ڈاکٹر عبد الرؤف لکھتے ہیں کہ" پہلا دور بوکھلاہٹ اورانتشار کا دور تھا اوردوسرا دورطاقت اور ترقی کا دور شمار ہوتا ہےجب کہ تیسرا دور ناخوشگوارلاقانونیت اور بربادی کا دور کہلایا جاتا ہے"۔[12]

ڈاکٹر عبد الروف پہلے دور کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں :

" بد قسمتی سے مسلمان سپین میں صحیح طور ہر حکومت کرنے میں ناکام ہوئے اس کے باوجود کہ مسلمانوں کے پاس سائنس کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ تہذیب بھی موجود تھی لیکن اندرونی انتشار اور سازشوں کی وجہ سے وہ بغاوت کو ختم کرنے میں ناکام ہوئے۔ آگے بڑھ کر وہ اس دور کی چند خوبیاں بھی بیان کرتے ہیں کہ باوجود اس انتشار اور غیر یقینی حالات کے مسلمانوں نے فرانس کا کافی علاقہ قبضہ کیا تھا"۔[13]

بالآخراندلس کا دور ولایت بہت سے مشکلات کے باوجود اچھا رہا۔اکبر شاہ خان نجیب آبادی اس دورکے بارے میں لکھتے ہیں۔اس پچاس سال کے عرصے میں سپین نے سائنس اور فنون عامہ میں وہ کامیابیاں حاصل کی جس سے اس دور کی ترقی ظاہر ہوتی ہے۔[14]

اموی امراء اور خلفا ء کا دور (756ء ۔۔۔۔۔۔912ء)

اموی امراء اورخلفاء کے دور میں اندلس کی باقاعدہ ثقافت اُجاگر ہوئی۔زبان ادب اور علم و فن کوخاصی ترقی حاصل ہوئی اورمالکی مذہب سرکاری سطح پر متعارف ہوا۔صنعت و حرفت،زراعت ،عمارت ،کتب خانے ،الغرض زندگی کے ہر شعبے میں اندلس نے مقام حاصل کیا۔مسلمانوں سے پہلے اندلس کے شہروں میں جابجا دلدلیں اور غلیظ جوھڑ تھے۔سارایورپ وحشت ، بربریت اور جہالت میں گرفتارتھا۔اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:

"اتنے طویل تاریخی زمانے میں بدی کی یہ کثرت اور نیکی کی یہ قلت اور کہیں نظر نہیں آتی"[15] اُندلس کے ابتدائی اموی امراء میں عبدالرحمن جو اول اور داخل کے نام سے بھی معروف ہیں نے اندلس کی مشہور مسجد قرطبہ کی بنیاد ڈالی۔[16]عبد الرحمن کے بعد ابو الولید ہشام اول نے796 ء تک اور الحکم اول نے 822ء تک حکومت کی جو بہت مشہور ہیں۔الحکم کے بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں:

"اس نے ممالک کثرت سے جمع کیےاورسوارں کے دستے بنائے۔اس کی سلطنت نے ترقی کی اور کاموں پر بذاتِ خود توجہ رکھتا تھا۔خوب اسلحہ جمع کیا۔تعدادکا شمار رکھا،خدم و حشم بڑھائے،اپنے دروازے پر سوار متعین کئے۔اس کے پاس چند دیکھنے والی آنکھیں تھی جو لوگوں کے حالات سے اس کو مطلع کرتی تھیں۔یہ وہی ہےجس نے اندلس کو اپنے جانشینوں کے لئے اچھی حالت میں سپرد کیا۔"[17]

آپ کے خلاف بغاوتوں میں علماء سب سے آگے تھے۔ یہی وجہ ہےکہ صدیوں تک مشرقی طرز کے دینی مدارس کا نظام رائج نہ ہو سکا۔علم الکلام اور فلسفہ ممنوعہ علوم تھے۔اس کے بعدعبدالرحمن ثانی نے(852 ء)سلطنت کو مزید مستحکم کر لیا۔آپ نے اپنے دور میں جہاز کے کارخانے بنائے تھے۔آپ کے بارے میں ابن القوطیہ لکھتے ہیں:

"نارمنوں کے حملے کے بعد امیر عبدالرحمن بن حکم مستعد ہو گیا۔اور اشبیلیہ میں ایک دارلقضاء قائم کر نیکا حکم دیا۔چنانچہ کشتیاں تیار کرائیں۔اورسواحل اندلس کے بحری ماہروں کو یہاں جمع کیا۔اوران کے معاوضے میں اضافہ کیااور آلاتِ واقفیت مہیا کئے۔چند سالوں کے بعد اس بحری تیاری سے خاطر خواہ فائدہ پہنچا ۔چنانچہ امیر محمد کی حکومت میں جب 244ھ میں نارمنوں نے اندلس پر دوسری مرتبہ یورش کی تو وادی کبیر کے دہانے پر ان کو سمندر میں روکا گیا۔انھیں شکست ہوئی۔ان کی کشتیاں جلا دی گئیں اور وہ فوراََ لوٹ جانے پر مجبور ہو گئے"۔[18]

عبدالرحمن نے عباسی طرز کے نظام کو رائج کر دیا۔آپ کے عہد کے آخری آیام میں شامیوں نے بغاوت شروع کر دی تھی۔ابھی تک اندلس کے خلفاء کو امیر کہا جاتا تھا۔عبد الرحمن نے باقاعدہ خلافت کا آغاز کیا۔آپ نے پچاس سال حکومت کی۔عیسائیوں اور بربروں کو حملے سے روکا،اس کے ساتھ آبپاشی کا نظام متعارف کرایااور کھیتی باڑی کو فروغ دیا۔اِس دور میں اندلس یورپ کاسب سے ترقی یافتہ ملک شمار ہوتا تھا۔دوسرے یورپی بادشاہ اندلس سے تعلق قائم کرنے میں فخر محسوس کرتے تھےاور اپنے سفیر بھیج رکھے تھے۔الناصر کے بعد اسکا بیٹا الحکم ثانی المستنصرباللہ (976ء) کے لقب سے خلیفہ بنا۔یہ خود عالم تھا۔ اُس وقت قرطبہ کو عروسِ عالم کا زیور کہا جاتا تھا۔[19]آپ کے بعد خلا فت کا زوال شروع ہوتا ہےکیونکہ قبائلی منافرتوں کے سامنے کوئی بھی خلیفہ مضبوطی سے نہ ٹھہرا رہا۔اور آخر 1023 میں یہ خلافت ختم ہوئی۔

اموی سلاطین و خلفاء اندلس 

عبدالرحمن اول ۔ 138 ھ / 756ء ہشام اول ۔172ھ /788ءحکم اول ۔180ھ / 796ءعبد الر حمن ثانی ۔206ھ / 822ء ایک خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ محمد اول ۔ 238ھ / 752ءمنذر ۔273ھ / 886ءعبداللہ ۔257ھ /888ءعبدالرحمن ثالث ۔300ھ / 912ء (عبداللہ کا پوتا۔محمد کا بیٹا تھا)حکم ثانی ۔350ھ / 961ء (عبدالرحمن ثالث کا بیٹا(ہشام ثانی ۔366ھ / 976 ء (حکم ثانی کا بیٹا )محمد ثانی ۔399ھ / 1009ء(عبدالرحمن ثالث کا پرپوتا محمدبن ہشام بن عبد الجبار۔لقب مہدی سلیمان المستعین بااللہ۔400 ھ / 1009ء(چند مہینوں کے لئے تخت پر قابض ہوا تھا(محمدثانی ۔400ھ / 1010ء (دوبارہ تخت نشین ہوئے(ہشام ثانی ۔400ھ / 1010ء(محمد ثانی مہدی کو سردربارقتل کر دیا گیا۔اور ہشام دوبارہ تخت نشین ہوئے سلیمان ۔403ھ / 1013ء( دوبارہ تخت نشین ہوا۔تین سال حکومت کرنے کے بعد علی بن حمودسے شکست کھا کر مقتول ہوااور بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔علی بن حمود(ناصرالدین اللہ)۔407ھ /1016 ء(حمود بن میمون بن احمد بن علی بن عبید اللہ بن عمر بن ادریس۔خاندان ادریسیہ سے تعلق تھا۔مراکش سے بربر لوگوں کے ساتھ اندلس آئے تھے۔(عبدالرحمن بن محمد ۔408ھ /1018 ء (خیران صقلبی نے اس کو بادشاہ مشہور کیا تھا۔(قاسم بن حمود ۔408ھ / 1018ء(بربر لوگوں نے اس کو منتخب کیا۔جزیرہ خضرا کا حاکم تھا(یحیی بن علی بن حمود۔412ھ /1021 ء (اپنے چچا سے اقتدار انہوں نے اپنے بھائی ادریس بن علی کے مدد سے حاصل کی(قاسم بن حمود ۔413ھ / 1022ء(یحیی کے بھاگ جانے کے بعد پھر تخت نشین ہوا(عبد الرحمن خامس۔414ھ /1023ء(اہل قرطبہ نے مجمع عام میں اس کا انتخاب کیا تھا)محمد ثالث ۔ 414ھ / 1024ء(مستکفی کے لقب سے عبدالرحمن کے قتل کے بعد تخت نشین ہوئے(یحیی بن علی بن حمود۔416ھ /1025ء(محمد بن عبدالرحمن بن عبداللہ کے وفات پر تخت نشین ہوا)[20]

یحیی بن علی کے قتل ہونے کے بعد ادریس بن علی مالقہ میں تخت نشین ہوا۔431ھ میں اس کے وفات کے بعد حسن بن یحیی سبطہ(مستنصر) کے لقب سے تخت پر جانشین ہوا۔438ھ میں اس کے وفات کے بعد تین چار سال تک اس خاندان کے غلاموں اور نوکروں نے مالقہ میں حکومت کی۔443 ھ میں ادریس بن یحیی تخت پر قابض ہوئے۔

448ھ میں محمد بن ادریس نے مہدی کا لقب اختیار کر کے تخت پر قبضہ حاصل کیا۔449ھ میں اس کے وفات پر ادریس بن یحیی دوبارہ تخت نشین ہوا۔ 450ھ میں اس کی وفات کے بعد محمد اصغر بن ادریس بن علی بن حمود تخت پر جانشین ہوئے۔451ھ میں بادیس بن حابوس نے مالقہ پر حملہ کیا اور اصغر پریشانی کے حالت میں 456ھ میں (ملیلہ)چلاگیا۔ 470ھ تک حکومت کی۔ محمد اصغرنے مالقہ میں 451 ھ تک حکومت کی۔آخر بادشاہ قاسم بن محمد الملقب بہ واثق باللہ (صوبہ جزیرہ)پر اشبیلیہ کے بادشاہ معتضدبن ابوالقاسم بن عبادنے حملہ(450ھ)کر کے خاندان حمود کا اندلس سے خاتمہ کیا۔ [21]

اموی سلاطین پر تبصرہ

سپین میں اموی دور کا آغازتب شروع ہوا جب عبد الرحمن نے سنہ138ھ کو اندلس میں داخل ہو کر اپنی حکومت کی بنیاد رکھی۔عبدالرحمن اول کی اولاد میں بعض ایسے حوصلہ مند لوگ تھے۔جنہوں نے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔آج تمام دنیا ان کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں۔قرطبہ میں خلفاء اندلس نے ایسی مشعلیں روشن کی تھیں جس سے تمام یورپ مستفید ہوا۔سلاطین یورپ خلفاء اندلس کی شان و شوکت کو دیکھ کر کا نپتے تھے۔

پھر ایسی عظیم الشان اسلامی ریاست کی بربادی کی اصل وجہ کیا بنی۔اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہےکہ مسلمانوں نے شریعت اسلام اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں قصور کیا۔اسلام نے دنیا کی سلطنت و حکومت کو کسی خاندان یا کسی خاص قبیلہ کا حق نہیں بتایا۔مسلمانوں نے تعلیم اسلامی کے خلاف حکومت میں وراثت کو دخل دیااور باپ کے بعد بیٹے کو مستحق خلافت سمجھا۔جیسا کہ دنیا میں پہلے رواج تھا۔اسی رواج کو حضور ﷺ نے ختم کیا تھا۔مگر مسلمانوں نے چند سال بعد پھر اس لعنت کو گلے میں ڈال دیا۔جب مسلمانوں میں نااتفاقی پیدا ہوئی اور وہ آپس میں لڑنے لگےتوان کا یہ عالم ہواکہ لوگ شعروں میں ان کے ظلم و ستم کا ذکر کرنے لگے۔سلیمان المستعین کے بارے میں آتاہے:

"لا رحمة الله سليمانکم فانه ضد سليمان ذاك به غلت شياطينها وحل هذا کل شيطان"" خدا تمھارے سلیمان پر رحم نہ کرے۔کیونکہ وہ حضرت سلیمانؑ کے بالکل ضد ہیں۔اس نے تمام شیطانوں کو قید کر دیا تھا۔اِس نے تمام شیطانوں کو آزاد کر دیا ہے"۔[22]

ملوک الطوائف

تاریخ کے مطالعےسے ہمارے سامنے ایسے حقائق آجاتے ہیں جن کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔جس وقت اموی خلافت کے زوال سے مختلف شہروں میں باغی سرداروں نے اپنی حکومتیں قائم کرلیں تویہ اندلس کے سیاسی انتشار کی علامت تھی۔ان ریاستوں میں سے بعض اتنی کمزور تھیں کہ دوسرے ہمسائیوں نے انہیں ہڑپ کر لیااور وہ اپنا دفاع نہ کر سکے۔بے چینی اور اضطراب کا یہ دور ملوک الطوائف کا دور کہلاتا ہے۔[23]جس کی مثال بنی حمود ہمارے سامنے ہے۔اگر چہ اور بھی خاندان الگ الگ صوبوں پر خود مختارانہ حکومتیں کر رہے تھے۔ اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پریشانی کے اس دور میں سپین کے مسلمان ایک دوسرے کو گھڑے میں دھکیل رہے تھےجب کہ دوسری طرف عیسائی طبقہ متحد ہونے اور مسلمانوں کو سپین کی سرزمین سے باہر کرانے میں مصروف تھا۔[24]

انتشار کی اس گھڑی میں جنوب میں بربر امراء اور شمال میں عیسائی بادشاہوں کو اندلس پر حملے کا موقع مل گیا ۔Dynasties of Spain کے مصنف لکھتے ہیں کہ اس وقت سپین ثانوی درجے کے چھوٹے چھوٹے ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔[25]

 تاہم ان ملوک الطوائف میں قرطبہ میں بنو جوھر (1031ء ۔1070ء)اشبیلیہ میں عباد) 1033۔1091) طلیطلہ میں ذوالنونیہ (1035 ۔1085)سرقسطہ میں بنو ھود(1010ء ۔1111ء)اور غرناطہ میں بنو زیری (1012ء ۔ 1090ء)زیادہ مشہورہیں۔سر ڈوزی لکھتے ہیں کہ" مسلمانوں کے اندرونی انتشار کی وجہ سے مسلم حکومت مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوئی اوراس طرح سیاسی کمزوری ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اورآخر کار مسلمانوں کی اندلس سے انخلاء پر ختم ہوئی"۔[26]

عیسائی بادشاہ الفانسو [27]نے بغیر کسی لڑائی کے 1085ء میں طلیطلہ پر قبضہ کر لیااور اتنی طاقت حاصل کی کہ ملوک الطوئف اسے اپنی لڑائی میں معاون بنانے لگے۔اپنی اقتدار کی حفاظت کیلئے کبھی وہ بربروں اور کبھی عیسائیوں سے مدد لیتے تھے۔[28]ان ملوک الطوائف میں مشہور بنو حمود،بنوعباد،بنو ذوالنون،بنو ہود ،قرطبہ میں ابن جہور کی حکومت وغیرہ ہیں۔[29]

اس دور میں اندرونی انتشار کی وجہ سے مسلمانوں میں وہ اتحاد باقی نہ رہا جو مسلمانوں کے اندلس پر حملے کے وقت دیکھنے میں آیا تھا۔اس انتشار کے دور میں چند ایک ریاستوں نے کافی شہرت پالی اور علمی و ثقافتی سرگرمیوں میں اُونچا مقام حاصل کیا۔لیکن یہی انتشار تھا کہ جنوب میں بربر امراء اور شمال میں عیسائی بادشاہوں کو اندلس پر حملے کا موقع مل گیا۔ان عیسائی بادشاہوں نے اتنی طاقت حاصل کر لی کہ ملوک الطوئف اپنی لڑائیوں میں اسے ثالث اور معاون بنانے لگے۔

المرابطون ،الموحدون(1091ء۔1269ء)

یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ملوک الطوئف نے جب بربروں اور عیسائیوں سے مدد لینا شروع کیا تو اُن کے مخالفین نے افریقہ میں المرابطون [30]کے امیر یوسف بن تاشفین [31]کو سپین پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ابن تاشفین نے 2 نومبر1086 کو جنگ زلاقہ [32]میں الفانسو کو عبرتناک شکست دی مگر اس سے ملوک الطوائف کی باہمی رقابتوں میں کوئی فرق نہ آیاتو انھوں نے اندلس کے بیشترحصوں کو المرابطون کی سلطنت میں شامل کر لیا۔اس زمانے میں اندلس میں داخلی طور پر تو امن رہالیکن شمال کی جانب سے عیسائیوں کا دباؤ بڑھتا رہاکیونکہ طلیطلہ پر عیسائیوں کا قبضہ تھاجب کہ سرقسطہ پر بھی1118ء میں عیسائیوں نے قبضہ کر لیا۔اسی طرح طرطوشہ،لاردہ،یابرہ،اور قونکہ [33]بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔[34]

اس کی اصل وجہ یہ بتائی جا سکتی ہےکہ مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول گئے تھے۔سیاسی انتشار تھااوربڑے لیڈر جیسے یوسف بن تاشفین ، علی بن تاشفین1106ء(500ھ)تا 1143ء(538ھ) اور تاشفین بن علی بن یوسف 1143ء(538ھ) تا 1145ء(450ھ)یہ سب بڑے متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔فقیہوں کی بے حد عزت کرتے تھے۔اُن کے جانے سے ملک میں اندرونی انتشارنے ایک مرتبہ پھرسراُٹھاناشروع کیا۔[35]اس انتشار سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جب1133ء میں شاہ قشتالہ الفانسو ھفتم نے جب قرطبہ کا تخت و تاج سنبھالا تو مسجد قرطبہ کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ دوسرے شہر بھی تباہی کا نشانہ بنے۔۱۱۴۴ء تک پورا اندلس زیر و زبر ہو چکا تھا۔[36]

ابن خلدون 1362ء تا1365ء اندلس میں رہےاور مختلف امور سرانجام دئیے۔کبھی وزیر کے ذریعہ سے تو کبھی سفیر کے ذریعے سے۔شاہ قثتالہ نے جب اشبیلیہ پر حملہ کر کے اِس پر قبضہ کیا۔تو صلح کا پیغام آپ لیکر گئے تھے۔[37]الغرض مختلف ادوار میں عیسائیوں نے آکر مسلمانوں سے ا پنے علاقے چھین لیے۔افریقہ میں مرابطین کی جگہ موحدین[38] (1147ء۔1228ء)برسر اقتدار آچکے تھے۔ان کے بارے میں مصنف Muhammaden dynasties in Spain میں لکھتے ہیں کہ جون ۱۱۴۵ عیسوی کو موحدین نے ابو عمران موسیٰ کی سرکردگی میں جزیرہ طریف اور اس کے اردگرد علاقوں کو قبضہ کیا تھا۔[39]

چنانچہ جب اندلس کے امراء نے موحدین کو دعوت دی تو1147ء میں موحدین نے اشبیلیہ،مالقہ اور دیگر اہم شہروں سے المرابطون کی حکومت کا خاتمہ کر کے اندلس کو متحد کرنا شروع کر دیا۔الموحد کے خلیفہ ابو یعقوب یوسف[40] (1163ء۔1184ء) نے اپنے مختصر دور میں اشبیلیہ کو چار چاند لگا دئیے ۔آپ 1184ء میں عیسائیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئےاور مسلمانوں کو شکست ہوئی۔اس کے ساتھ سپین میں عیسائیوں کی فتح ثانی میں تیزی آگئی۔[41]

ابو یوسف بن ابو یعقوب جس کی حکومت (1184ء تا 1199ء) تک رہی، نے ایک مرتبہ پھر 18جولائی1195ء الفانسوہشتم (1158ء۔1214ء)کو الارکہ کے مقام پر شکست دی۔تاہم اس کے اثرات دیر پا ثابت نہ ہوئے۔[42]اس کے بارے میں امام غزالی کی پیشن گوئی تو ٹھیک ثابت ہوئی۔[43]لیکن اب پھر مسلمان آپس میں لڑنے میں مصروف اور اقتدار کی تلاش میں تھے۔جس کا مخالف فائدہ عیسائیوں کو ملتا تھااور موحدین کمزور ہوتے گئے۔عیسائی ریاستیں متحد ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتی رہیں جس کے نتیجے میں 17جولائی1212 ء کو بہت بڑی شکست ہوئی۔

اِس شکست کے بارے میں مصنف Muhammaden dynasty in Spain میں لکھتے ہیں کہ یعقوب المنصور کے بعد اس کا بیٹا ابو عبد اللہ محمدتخت نشین ہوا۔اُس کے اقتدار میں آنے سے مسلمانوں کے وہ اُصول جو اُنہوں نے 1212 عیسوی میں سپین میں قائم کئیے تھے تباہ و برباد کر دئیے۔آپ نے کافی فوج کو جمع کیا لیکن کچھ خاص ترقی حاصل نہیں کی لہذا آپ کا دور نہایت مہلک اور تباہ کن تھا۔[44] پھرآخر کار1236ء میں قرطبہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیااور ارغون[45] پر 1237ء میں بلنسیہ [46]اور قشتالہ [47]1248ء میں اور اشبیلیہ بھی دوبارہ عیسایوں کے قبضے میں آگیا۔بظاہر تو اس دور میں اندرونی انتشار جاری رہالیکن مسلمانوں نے کئی نئے علا قوں کو بھی فتح کیا۔صنعت و حرفت میں اضافہ ہوا۔تجارت ترقی کرگئی۔[48]

اگر چہ مسلمانوں نے اس دور میں کافی ترقی کی۔تاہم اس دور کو اگر ہم" عیسائیوں کی چیرہ دستی کا دور"کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ذیل میں ہم مرابطین کے خلفاء کی فہرست دیتے ہیں۔جن سے ان کے زمانہ حکومت کا بخوبی اندازہو جائے گا۔

  1. یوسف بن تاشفین۔ 485ھ ۔ ۵۰۰ھ(1106ء تک(
  2. ابوالحسن علی بن یوسف بن تاشفین۔ 500ھ ۔ 537ھ(1143ء تک(
  3. ابو محمد تاشفین۔ 537ھ ۔ چند مہینے اِن کی حکومت رہی۔
  4. تاشفین بن علی۔537ھ ۔ ۵۳۹ھ(1145ء تک (
  5. ابراہیم بن تاشفین۔ 539ھ ۔ ۵۴۱ ھ( 1147ء تک (

اِس دور کے بعد طوائف الملوکی پھر شروع ہوئی۔لیکن چند روز بعد اندلس موحدین کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔

موحدین کے خلفاء :

موحدین کے خلفاء کے دوراقتدار کا زمانہ کچھ اس طرح ہے

محمد بن عبداللہ تومرت 515ھ میں اپنے وطن مراکش سے تحریک شروع کی۔اور آخر میں کامیاب ہوئے۔544ھ میں وفات پاگئے۔

عبد المومن مرید خاص ابن تومرت۔ 544ھ ۔ 558ھ(1163ء تک (

ابو یعقوب بن عبد المومن۔ 558ھ ۔ 580ھ( 1184ء تک)

ابویوسف منصور(یعقوب کا بیٹا)۔ 580ھ ۔ 595ھ(1199 ء تک (

ابو عبد اللہ محمد(منصور کا بیٹا)۔ 595ھ ۔ 610ھ(1214 ء تک (

یوسف مستنصر(عبد اللہ کا بیٹا)۔ 610ھ ۔ 620ھ(1224ء تک (

عبد الواحد(مستنصر کا بھائی)۔ 620ھ۔تقریباَ9 مہینے حکومت کرنے کے بعد اس کو قتل کر دیا گیا۔

عبد الواجدعادل(ناصربن منصور کا بھائی)۔ عبد الواحد کے بعد تخت نشین ہوااور 625ھ میں موحدین کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔[49]

المرابطون کے دور میں اندلس میں اندرونی طور پر امن رہا لیکن شمال کی جانب سے دباؤ مسلسل بڑھتا رہا۔یوسف بن تاشفین نے اس دور میں کافی مقبوضہ علاقوں کو واپس اپنے تحویل میں لے لیااورزراعت وغیرہ میں کافی ترقی حاصل کی۔اس دور میں فقہا کا خوب زور شور رہا۔فلسفہ اور علم الکلام نے کافی ترقی کی لیکن مرابطین کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر اندلس میں انتشار پھیل گیا۔جو شخص جس شہر یا قلعہ کا حاکم تھاوہ خود مختار فرماں روا بن بیٹھا۔اس دور میں اندلس کے امراء نے افریقہ کے الموحدین کو دعوت دی تو انہوں نے فوراً لبیک کہااور حملہ کرکےُ اندلس کو متحد کرنا شروع کیا۔

موحدین کے دور میں فلسفے اور علم الکلام نے کافی ترقی کی۔ابوبکر محمد بن طفیل جن کو فلسفہ اور علم الکلام کا امام کہا جاتا تھا ابو یعقوب کا مشیر خاص تھا۔ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن رشد وغیر ہ اس دور کے مشہور علماء تھے۔سلطنت موحدین کا دور مشہور فرماں رواؤں میں شمار ہوتا ہےلیکن اس دور کا اختتام بھی اندرونی انتشار ،قبائلی تعصب اور اندرونی دشمنی کی وجہ سے ہوا۔

اگرہم بنو احمر[50](1232ء۔1492ء )کے حالات کا ذکر کریں تو اس دور پر کافی روشنی پڑے گی اور اس عہد کی عیسائی یلغار ہمارے سامنے آجائے گی ۔چونکہ تیرھویں صدی میں عیسائیوں کی چیرہ دستی سے تنگ آکر بہت سے مسلمانوں نے ہجرت کی اور آفریقہ پہنچ گئے۔مرابطین اور موحدین کی حکومتیں بھی ان عیسائیوں کی چیرہ دستی کی وجہ سے ختم ہوئیں تھیں۔اسی طرح اندلس کے جنوب میں کئی ریاستیں قائم ہوئیں تھیں ان میں آخری اور طاقت ور سلطنت غرناطہ(1232ء۔1492ء)تھی۔یہ سلطنت جنوب میں بحیرہ روم کے سرحدی علاقوں المیریہ اور جبل طارق تک اور شمال میں رندہ اور البیرہ کے پہاڑی سلسلوں تک محدود تھی۔[51]

1237ء میں ارجونہ کے قلعدار محمد بن یوسف جو ابن احمر کے نام سے مشہور تھا،نے غرناطہ پر قبضہ کیااور الغالب با اللہ کے نام سے بنیاد رکھی۔اور اس طرح یہ خاندان بنو نصر اور بنو احمر کے نام سے مشہور ہوا۔محمد اول (1232ء۔1272ء)اس کا بانی تھا۔بنو نصر نے ۲ صدیوں تک حکومت کی۔اس دوران وہ کبھی عیسائیوں اور کھبی افریقی بربروں(بنو مرین سلاطین)کے ساتھ معاہدوں کے نازک اورخطرناک روابط کی بازارگری پر قائم تھا۔ان ادوار میں غرناطہ علماء ،فقہاء، حکماء اور صوفیا کی آخری آماجگاہ بن چکا تھا۔ابنِ خلدون(1406)ابنِ القوطیہ[52](1374)اور ابو اسحاق شاطبی[53](1398)اس دور سے تعلق رکھتے ہیں۔بہت سی یادگار عمارتیں مثلاََ قصر الحمراء اسی دور سے تعلق رکھتی ہے۔[54]

اس دور میں مسلمانوں نے سپین میں ہر ایک فن کو رائج کرکے ترقی دی۔کتابوں کو زیادہ تر نظر آتش کر دیا گیا جب کہ مسجدوں اور قدیم عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا ۔[55]آخری معاہدہ جب سلطان ابو عبداللہ زغل اور عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ [56]کے درمیان ہواتو دسمبر کے مہینے کی25 تاریخ 1491ء تھا۔[57]ابو عبداللہ شہر کے روساء کے ساتھ قلعہ الحمراء سے نکلا اور مسلمانوں کو خطاب کرکے کہا:

"مسلمانو! میں اقرار کرتا ہوں کہ اس ذلت و رسوائی میں کسی قسم کا گناہ نہیں۔گنہگار صرف میں ہوں۔میں نے اپنے باپ کے ساتھ نافرمانی اور سرکشی کا معاملا کیااور دشمنوں کو ملک پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔لیکن بہرحال خدا نے مجھ کو میرے گناہوں کی سزا دے دی ہے۔تاہم یہ باور کرنا چاہیے کہ میں نے اس وقت یہ معاہدہ جو قبول کیا ہےتو محض اس لئے کیا ہےکہ تم لوگوں کے اور تمھارے بچوں کے خون خواہ مخواہ نہ بہیں، تمھاری عورتیں لونڈیاں باندیاں نہ بنیں اور تمھاری شریعت اور تمھارے املاک و متاع ان بادشاہوں کے زیر سایہ محفوظ رہیں جو بہر حال بد نصیب ابو عبداللہ سے بہتر ہوں گے"[58]۔

خلفاء سلطنت غرناطہ:

سلطنت غرناطہ کے خلفاء کا دور اقتدار مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔

ابن الاحمر(نصر بن یوسف)۔ 632ھ ۔ 671ھ(1272 ء تک (ابو عبداللہ محمد ۔ 671ھ ۔ 701ھ(1302ء تک (محمد مخلوع۔ 701ھ ۔ 705ھ(1306ء تک (سلطان نصر بن محمد ۔ 705ھ ۔713ھ(1314ء تک (ابوالولید۔ 713ھ ۔ 725ھ(1326ء تک (سلطان محمد۔725ھ ۔ 733ھ(1334ء تک (سلطان یوسف۔ 733ھ ۔ 755ھ(1356ء تک (سلطان محمد غنی اللہ۔ 755ھ ۔ 760ھ(1361ء تک (

سلطان اسماعیل۔ 760ھ ۔ 761ھ(1362ء تک (

ابویحیی عبداللہ۔ 761ھ ۔ 763ھ(1364ء تک (سلطان محمد۔ 763ھ ۔ 793ھ(1394ء تک (سلطان یوسف ثانی۔793ھ ۔798ھ(1399ء تک (سلطان محمد ہفتم۔ 798ھ ۔ 803ھ(1404ء تک )۔سلطان یوسف ثالث۔ 803ھ ۔ 822ھ(1423ء تک (سلطان محمد ہشتم۔ 822ھ ۔ چند مہینےسلطان محمد نہم۔822ھ ۔ 833ھ(1434ء تک (

سلطان محمد ہشتم۔ 833ھ ۔ 839ھ(1440ء تک (یوسف بن الاحمر۔ 6مہینے حکومت کرنے کے بعد وفات ہوا۔سلطان محمد ہشتم۔ چند مہینے حکومت کی۔ابن عثمان: 859ھ تک حکومت کی۔(1460ء تک (ابن اسماعیل۔ 859ھ ۔ 870ھ(1471ء تک (سلطان ابو الحسن۔870ھ ۔ تقریباََ889ھ(1490ء تک (سلطان ابو عبداللہ زغل۔ ۸۹۲ھ میں مالقہ(1492ء تک (

آخر کا ر جنوری 1492ء کو اندلس مکمل عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔[59]بنو احمر جو بنو نصر کے نام سے بھی مشہور تھے، کی حکومت دو صدیوں تک قائم رہی۔لیکن ان کی سیاسی اقتدار کا توازن کبھی سپین کے عیسائی بادشاہوں اور کبھی شمالی آفریقہ کے سلاطین کے ساتھ معاہدوں کے نازک اور خطرناک روابط کی بازی گری پر قائم تھا۔اس دور میں فن اور ادب کو ایک مرتبہ پھرفروغ ملا۔غرناطہ علماء ،فقہا ،حکماء اور صوفیاکی آخری آماجگاہ بن گیا تھا۔ابن خلدون،ابن خطیب ،ابواسحاق اسی دور کے مشاہیر تھے۔قصرالحمراء جو فن تعمیر کی ایک نازک اور خیال آفرین ہے اسی عہد کا کارنامہ ہے۔عرب کی طرح اندلس میں بھی مسلمانوں کی حکومت اگرچہ شخصی نظر آتی ہےمگر اس میں جمہوریت کا رنگ شامل تھا۔خلیفہ کا حکم اور شریعت کا قانون ہر فرد پر یکساں نافذ العمل تھالیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی آپس میں اقتدار کے لئے لڑائی،عیش و عشرت ،نااہل خلفاء اوراندرونی انتشار ہی وہ عوامل تھے جو مسلمانوں کو عروج سے تنزول کی طرف لے کر گئے۔

زوال غرناطہ

غرناطہ [60]اندلس کے شہروں میں ایک دلہن کی حیثیت رکھتا ہے۔متعدد چشموں سے بھرا ہوا یہ شہر اندلس کی خوبصورتی میں بہت اضافہ کرتا ہے۔اندلس کے ایک شاعر نے اس کی خوبصورتی میں چند اشعار لکھے ہیں۔

"غرناطةً ما لها نظير ما مصر ما الشام ما العراق

ما هي إلا العروس تجلی والملک من جملة الصداق"[61]

" غرناطہ کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔نہ مصر ،نہ شام ،نہ عراق اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔اُس کی مثال ایک ایسی خوبصورت دلہن کی ہےجس کے مہرکایہ کل ملک ایک حصہ ہو سکتے ہیں"۔

اسلامی سلطنتِ اندلس کے آخری دور میں غرناطہ بنی نصر کی سلطنت کا تخت تھا۔ سقوطہِ غرناطہ کے بعد اندلس سے مسلمانوں کی حکومت جو تقریباََ آٹھ سو سال سے یہاں قائم تھی،بالکل ختم ہوئی۔ظلم کی وہ داستان شروع ہو گئی جو ختم ہونے کو نہ تھی۔چنانچہ فرڈ یننڈ اور اسکی بیوی ازابیلا نے غرناطہ میں داخل ہو کر پہلا کام یہ کیاکہ غرناطہ کی سب سے بڑی مسجد کو گرجا میں تبدیل کر دیا[62]جو مسلمان عیسائی مذہب اختیار کرتاان کے لئے زروسیم کے انبار لگا دئیے جاتے تھے۔البتہ عیسائیوں کے لئے اسلام قبول کرنا منع قرار دیا گیا۔1499ء میں ایک فرمان جاری ہواکہ جو لوگ عیسائیت قبول نہیں کرتے وہ سپین سے نکل جائیں۔[63]مسلمانوں کے لئے مغربی رقص میں شریک ہونا،عربی زبان کا نہ بولنااور عورتوں کے لئے برقعہ استعمال نہ کرنا لازمی قرار دیا گیا[64]یہاں تک کے نام بھی بدل دئیے گئے۔

عیسائی اپنے دور حکومت میں یہودیوں کے ساتھ ننگ انسانیت کا سا سلوک روا رکھتے تھے۔مسلمانوں نے یہودیوں کو وہ تمام حقوق دئیے تھےجو ایک مذہبی حکومت میں کسی کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ان کے بغاوتوں کو معاف کر دیا۔اِن کے شرارتوں اور سازشوں سے درگزر کیا[65]لیکن جب مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوااور عیسائی اقتدار میں آگئےتو انھوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈال دئیے۔جب ان مظالم کی فریاد لیکر مسلمان 1528ء میں بادشاہ سے ملےاور شکایت کی تو انھوں نے حکم تو واپس نہیں لیالیکن سزا کا نفاذ روک لیا۔[66]

اس طرح مسلمان مجبور ہو کر مختلف ملکوں کو ہجرت کرنے لگے۔کچھ افریقہ کی طرف اور کچھ دوسرے ملکوں کی طرف چلے گئے۔کہا جاتا ہے کہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں سے ۳ چوتھائی مسلمان وہ تھےجن کو قتل کر دیا گیااور وہ غریب منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے۔ستر ہویں صدی عیسوئی کی شروع میں مسلمانوں کا سپین سے مکمل خاتمہ ہوا۔[67]

اندلس کی اسلامی حکومت پر ایک نظر

اگر ہم اندلس کی اسلامی حکومت پر نظر ڈالیں تو ہر طرف ترقی ہی ترقی نظر آئے گی۔ہرشعبہ میں مسلمانوں نے کافی ترقی کی اور صرف مسلمان نہیں مغربی مصنفین بھی اسکے قائل ہیں۔ مسیحی یورپ نے اسلام کی علمی و ثقافتی سرگرمیوں کا موازنہ کرتے ہوئے لکھاہے۔"جو نہی عربوں کو اسپین میں مضبوطی سے قدم جمانے کا موقع ملاوہیں انہوں نے ایک روشن دورکا آغاز کر دیا۔قرطبہ کے امیروں نے خود کو علم وادب کا سرپرست بنا کر ممتاز کر لیااور ذوق سلیم کی ایک ایسی مثال قائم کر دی جو یورپ کے دیسی شہزادوں کی حالت کے بالکل عکس تھی"۔[68]

اسلام کے دشمنوں نے جہاں اپنی تمام تر کوششیں اسلام کے انہدام کے لیےء صرف کیں۔وہاں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے آخری اور پسندیدہ دین کی صداقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔سر ایڈورڈڈینی راس۔سی آئی۔ای کہتے ہیں۔

"قرآن شریف اس بات کا مستحق ہےکہ یورپ کے گوشہ گوشہ میں اسے پھیلایا جائے " ۔[69]اسطرح حضور ﷺ کی تعریف میں بھی وہ خود کہتے ہیں کہ"عرب میں حضرت محمد ﷺ نے ایک مذہب توحید کی بنیاد ڈالی جس نے آگے چل کر پورے عالم انسانی کے ساتویں حصہ کو اپنا حلقہ بگوش بنا لیا"۔[70]

ا لغرض ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ دسویں صدی میں جن لوگوں کو علم کا شوق ہوتا تو وہ اسپین پہنچتےتھے۔ان دنوں قرطبہ تعلیم کے شعبے میں آگے آگے تھااور ساتھ ساتھ ان دنوں میں ایران اور عراق نے بھی اسلامی حکومت کے زیر اثر کافی ترقی کی تھی ۔ اسلامی حکومت کا ہر شعبہ ہم کو ایک ماہر اہل علم و فنکار عطاکرتا ہے۔منطق و فلسفہ میں ہم کو ابویوسف یعقوب ابن اسحق الکندی،ابوالعباس احمد بن الطیب السرخسی،ابو نصرالفارابی ،ابن رشد وغیرہ ملتے ہیں۔طب میں ہم کو ابوبکر محمد بن زکریا الرازی،ابو منصور،شیخ بو علی سینا،ریاضی میں ہم کو محمد بن موسیٰ الخوارزمی،ابراہیم بن سنان وغیرہ ،ہیت میں محمد بن ابراہیم الفزاری،یعقوب بن طارق وغیرہ،جغرافیہ میں ابو الحسن المسعودی،المقدس،تاریخ میں ابن اسحاق،ابن ہشام ،ابن خلدون وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔[71]

اس مختصر فہرست سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اپنے دور حکومت میں مسلمانوں نے اندلس کو چار چاندلگائےاور وہاں کے بنجر زمینوں میں کیسے گل بوٹے کھلائے۔لیکن اندلس نے ان احسانات کا اعتراف نہ کیااور مسلمانوں کو دیس سے نکالا۔ان کے علوم و فنون کو آگ میں جلا ڈالا۔صرف ایک دن اور ایک جگہ80 ہزار کتابیں جلائی گئیں۔الغرض سکے ،زراعت ، صنعت، تعمیراتی کام،زیورات ،غذا ، فوجی نظام ،تعلیمی مراکز ،ان سب میں آج بھی اسلامی رنگ کچھ نہ کچھ ضرور دکھائی دے رہا ہے[72]اور جب بھی عربوں نے مختلف قوموں سے میل جول کیاتو ان کی عمارتوں نے بھی ان کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ مختلف زمانوں میں اسلامی طرز تعمیر نے مختلف شکلیں اختیار کیں لیکن جغرافیائی اختلافات کے باوجود اسلامی طرز تعمیر میں ایک خاص تسلسل پایا جاتا ہےجو اُن کے عقیدہ وحدانیت کا نتیجہ ہےاور جس پر زمانے اور فاصلے کا کوئی اثر نہیں پڑا۔[73]

حوالہ جات

  1. حواشی ومصادر قرطبہ کی وجہ تسمیہ طرح طرح سے بیان ہوئی ہے۔یورپ کے بعض مصنفین کے مطابق یہ عبرانی لفظ ہے۔جس کے معنی اچھے گاؤں کے ہیں۔(قریہ طیب) بحر حال جدید تحقیق سے پتہ چلتاہے۔کہ اسکا پرانا نام کوردوبہ تھا۔جس سے قرطبہ ہو گیا۔92ھ میں مسلمانوں نے اس شہر کو فتح کیا تھا۔اندلس کا تاریخی جغرافیہ،محمد عنایت اللہ ،ص،344
  2. اندلس وسطی کے ایک صوبے اور اس صوبے کے دارلحکومت کا نام ہے۔ ایضاً،ص،299تا 313
  3. اشبیلیہ اسپینی سیویلد آی بیری اور لاطینی ہسپالس عربی اشبیلیہ۔جنوبی مغربی اندلس کا آج کل کا یہ ایک صوبہ ہے۔اور اس صوبہ کے دارالحکومت کا نام بھی یہی ہے۔ایضاً،ص،98تا 104۔
  4. مغربی اندلس میں صوبہ بطلیوس کا ایک پرانا شہر ہے۔اس شہر سے30 میل مشرق میں وادی آنہ کے داہنے کنارے پر آباد ہے۔اسکا پرانا نام رومانی نام اوگستاایمیریتا تھا۔(ایضاً،ص،435تا 440۔
  5. زاراگوزا یا ساراگوسا ۔ شمالی اندلس کا ایک صوبہ ہے۔1833 ء میں جب ارغون کے وسیع صوبے کو تین علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔تو ان میں ایک علاقہ سر قسطہ کا تھا۔ 94ھ (712۔713ء) میں موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد نے فتح کیا تھا۔( ایضاً ،ص،240۔ 249۔
  6. اندلس کی اسلامی میراث،ڈاکٹر ساجد الرحمن،ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد،اشاعت 1996، ص،8۔
  7. یہ جنگ مسلمانوں کی یورپ میں شمال کی طرف مسلسل پیش قدمی کا آخری واقعہ تھا۔جو 719میں شروع ہوا۔721ء تک مسلمان نربونہ اور طلوشہ سے گذر کر 725میں وادی رودنہ میں بر گنڈی تک پہنچ گئے۔آخری حملہ مسلمان سپہ سالار عبدالرحمن الغافقی کی قیادت میں ہوا۔جو سپین کی سرحدیں عبور کرکے فرانس میں ہوا۔ 732میں فرانک سپہ سالار چارلس مارٹل سے اسکا مقابلہ ہوا۔اور اس مقابلے میں وہ شہید ہوا۔اور مسلمان فوجیں واپس آگئیں۔ ( ایضاً،ص،8۔تاریخ اندلس حصہ اول،مولانا ریاست علی ندوی،مدرسہ شمس الہدا آینہ اعظم گڈھ،اشاعت، 1950ص،150۔152..تاریخ اندلس دوربنی امیہ۔1117ء تا 1225ء عبد القوی ضیاء، الائیڈ بک کارپویشن37 لبرٹی مارکیٹ حیدر آباد سندھ،اشاعت 1957،ص،،108۔117۔
  8. مکمل تفصیلات کے لئے۔۔Andalus::Spain under the Muslims by Edwyn hole , C.B.E, late H.M. consul General in the levant Service Author of " Syrian Harvest " London Robert Hale limited 63 old Brampton Road ,S .W.7.April 1957 p152 to 157
  9. بعض مورخین نے طارق کواس فہرست میں داخل نہیں کیا۔اور ان کا ایسا کرنا بلاوجہ نہیں۔طارق، موسیٰ بن نصیر امیرآفریقہ کا محض ایک ماتحت افسر تھا۔طارق اور موسیٰ کی مکمل تفصیل کے لئے۔۔تاریخ مغرب ۔ ابن عذاری ترجمہ اردو ۔ص ،43 تا46 )(تاریخ اندلس ، سید ریاست علی ندوی، حصہ اول ص ،106۔109۔
  10. اندلس کا تاریخی جغرافیہ ،عنایت اللہ،ص ، 346۔ 347۔
  11. البيان المغرب فی أخبار الأندلس والمغرب ، ابن عذاری المراكشی، أبو عبد الله محمد بن محمد ،ج ،1۔ص ،321 
  12. Illustrated History of Islam ,Dr Abdur Rauf, Feroz sons (pvt) LTD, Lahore,Publish,1993, page,91,92
  13. As above, page,92
  14. History of Islam, Akber khan najeebabadi, DARUL Ishaat , Karachi Pakistan -translated by .Muhammad Younus Qureshi first edition-2001 vol,3-p,80
  15. فکر و نظرخصوصی شمارہ ۔اندلس کی اسلامی میراث، ص۔730۔
  16. جب ہسپانیہ رومانیوں کے تسلط میں تھا۔قرطبہ میں انہوں نے ایک بڑا بت خانہ تیار کیا تھا۔جب عیسائی آگئے تو انہوں نے اس کو گرجے میں تبدیل کر دیا۔جب مسلمان اندلس میں داخل ہوئےاور قرطبہ فتح ہواتو شرائط کے مطابق نصف کلیساء اور نصف مسجد قرار دیا گیا۔عبدالرحمن اول نے حکومت سنبھالتے ہوئے پورے شہر میں عمارتوں اور باغات کی بنیاد رکھی۔عیسائیوں سے باقی نصف والا حصہ لے لیا گیااور ان کے لئے دوسری جگہ پر گرجا تعمیر کیا گیا۔عبد الرحمن کے وفات کے بعد امیر ہشام نے 177 ھ (793ھ) میں اس کو مکمل کر لیا۔ اندلس کا تاریخی جغرافیہ،عنایت اللہ ص ، 360، 361۔
  17. مقدمہ ابن خلدون ج ، 4، ص ، 125، 127۔
  18. افتتاح الاندلس ، ص ،67۔
  19. اندلس کی اسلامی میراث،ڈاکٹر ساجد الرحمن، ص ،11۔
  20. عبرت نامہ اندلس حصہ دوم،رائن ڈوزی،ص ، 1191، اندلس کا تاریخی جغرافیہ،عنایت اللہ ص ،348۔
  21. ایضا،جلد دوم ، ص ، 358۔
  22. تاریخ اندلس دورِ بنی امیہ، عبد القوی ضیاء ، ص ،615۔
  23. طوائف الملوک کی مثال ۔اشبیلیہ میں بنو عباد ، صوبہ بطلیوس میں بنو افطس( ابو محمد عبداللہ بن مسلمہ معروف بہ ابن افطس)قرطبہ میں ابن جہور ، غرناطہ میں ابن حابوس ، طلیطلہ میں بنو ذوالنون ،سر قسطہ میں بنو ہود وغیرہ ۔اس سے مراد طوائف الملوک ہے۔ تاریخ اسلام، نجیب آبادی جلد سوم ، ص ،171 تا177۔ 
  24. History of Islam Dr. Abdur Rauf . P, 94
  25. The history of the Muhammaden dynasties in spain by Ahmad bin Muhammad al-Makkari,.Idarah-i-Adabiyat-i-Delhi 2009, Qasim jan Street Delhi-6 (India, vol ,2,p 245-249
  26. Spanish Islam, R dozy. Translated by, F.G. stokes published by karim sons Karachi , first edition 1978,p, 593 -606
  27. کیٹل اور لیون کا عیسائی بادشاہ فردی نند اول کا بیٹا تھا۔458 ھ فردی نند کے وفات پر وہ کیٹل کا بادشاہ بنا۔
  28. فکر و نظرخصوصی شمارہ ۔اندلس کی اسلامی میراث،مجلس ادارت ڈاکٹر ظفر اسحٰق انصاری،ڈاکٹر احمد حسن،ڈاکٹر سید علی رضا،ڈاکٹر خورشید الحسن،محمد میاں صدیق،ڈاکٹر ساجد الرحمن ،ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد ،اشاعت۔1996ء شوال 1411ھ جمادی ثانی1412ھ اپریل ۔ دسمبر 1991ء شمارہ4 ،1،2 جلد 28۔ 29۔
  29. عبرت نامہ اندلس ،رائن ڈوزی حصہ دوم ،ص ، 1191۔1197۔
  30. مرابطین افریقہ کے صحرا ئے اعظم کے بربر لوگ تھے۔مغرب میں دریائے سینگال سے شروع ہوئے تھے۔علماء دین نے مدد کے واسطے ان کو وہاں سے بُلایا تھا۔ایضاً، حصہ دوم، ص ۔ 1115۔
  31. یوسف بن تاشفین مراکش کے بادشاہ تھے۔مرابطین کا ایک فتح مند بادشاہ تھے۔محرم 500ھ میں فوت ہوئے تھے۔(تاریخ اسلام ،نجیب آبادی جلد سوم ،ص ، 173، 183۔
  32. اشبیلیہ میں زلاقہ کے میدان پر480ھ مطابق23اکتوبر 1086کو یہ جنگ ہوا تھا۔(ایضاً،جلد سوم،ص ،173
  33. طرطوشہ پُرانا نام ہے۔رومانی نام ’’ کولونیا جولیا درتوسہ ‘‘ ہے۔اہل عرب نے اِسے طرطوشہ کہا۔موجودہ سپینی نام ’’ تور توسہ ‘‘ ہے۔شمال مشرقی اندلس کے صوبہ طرکونہ کا ایک پرانا شہر ہے۔دریائے اِبرہ کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ اندلس کا تاریخی جغرافیہ،عنایت اللہ،ص ،292۔ لَارِدَہ:اہل عرب اس کو لریداااہ بھی لکھتے ہیں۔یہ شمالی اندلس کے ایک صوبے اور اس کے دارلحکومت کا نام ہے۔آج کل اس کے حدود ،شمال میں فرانس ، مشرق میں صوبہ جرندہ(Gerona )جنوب میں صوبہ طرطونہ مغرب میں صوبہ وشقہ(Huesca)ایضاً،ص ، 420۔ یابرہ :ملک پرتگال کے صوبہ الم تیجو(Alemtejo)کے وسطی حصے کے ایک علاقے کا خاص شہر ہے۔شہر کا اصلی نام ’’ ایوورہ ‘‘(Evora)تھا۔اہل عرب نے اس کو یابرہ ، یابورہ ، یبورہ ، مختلف طریقوں سے لکھا۔ایضاً،ص ، 502۔ قونکہ :کونکہ یا کنکہ یا قونکہ یا فونکہ (Cnenca)وسطی اندلس کے ایک صوبے کا نام ہے۔اہل عرب اندلس کے جس حصے کو ثغرالاعلٰے کہتے تھے۔یہ اُس کا جنوبی حصہ ہے۔شمال میں وادی الحجارہ ، مشرق بلنسیہ ، جنوب البسیط ، مغرب میں صوبہ طلیطلہ واقع ہے۔ایضاً ،ص ، 418۔
  34. فکر و نظرخصوصی شمارہ ،اندلس کی اسلامی میراث،ص ، 12۔
  35. عبرت نامہ اندلس ،مصنف رائن ہارٹ ڈوزی ،حصہ دوم ،ص ، 1156۔
  36. فکر و نظرخصوصی شمارہ ،اندلس کی اسلامی میراث،ص ، 13۔
  37. مقدمہ ابن خلدون،مترجمہ سعد خان یوسفی،ص ، 20، 21۔
  38. موحدین۔اس کا تعلق محمد بن عبد اللہ تومرت جو مراکش کے علاقہ سو س کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔بربر قبیلہ مسمودہ سے ان کا تعلق تھا۔لیکن اپنے آپ کو حضرت علیؓ کی اولاد سے بتاتے تھے۔امام غزالیؒ سے بھی اِن کی ملاقات ہوئی تھی۔ان کے وفات کے بعد عبدالمومن بن علی (544ھ) جانشین بن گئے۔اِن لوگوں کی تعلیم کی وجہ سے ان کو موحدین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام ،نجیب آبادی ،جلد سوم ، ص ، 188۔ 
  39. The history of the Muhammaden dynasties in Spain by Ahmad bin Muhammad al-Makkari- vol-2 p , 310
  40. ابو یعقوب عبدالمومن کا تیسرا بیٹا تھا۔558ھ میں حاکم بنا۔ تاریخ اسلام ،نجیب آبادی ،جلد سوم، ص ، 189۔
  41. فکر و نظرخصوصی شمارہ ۔اندلس کی اسلامی میراث، ص ،13۔
  42. ایضاً، ص ،13۔
  43. امام غزالی ایک مرتبہ بیٹھے ہوئے تھے،ابن تومرت جو اپنے آپ کو حضرت علیؓ کی اولاد میں شمار کرتا تھا۔وہ بھی موجود تھا۔کسی نے عرض کیا۔کہ اے امام المسلمین فرمان روائے مراکش و اندلس علی بن یوسف بن تاشفین نے آپ کی کتابوں کے جلانے کا حکم دیا ہے۔تو امام صاحب نے فرمایا:کہ اس کا ملک بھی برباد ہو جائے گااور جس کی وجہ سے ہو گا وہ اس وقت ہماری مجلس میں ہے۔ابن تومرت کی طرف آپ نے اشارہ کیا تھا۔( تاریخ اسلام جلد سوم،نجیب آبادی،ص ، 187۔
  44. The history of the Muhammaden dynasties in Spain , vol-2 p,323
  45. اراگون عربی نام ۔ارغون تھا۔تین صوبوں پر مشتمل تھا۔ہواسکا ، زاراگورا ، تیرول۔اندلس کا تاریخی جغرافیہ،محمد عنایت اللہ ،مقبول اکیڈمی ،سرکلر روڈ چوک انار کلی لاہور،اشاعت دسمبر 1926ء ص ،41۔
  46. بلنسیہ ( والنسیہ )یہ تین صوبوں پر مشتمل تھا۔کاسٹی لون ، والنسیہ ، الی کانٹی ۔ایضاً ۔ص ،40۔
  47. کیسٹیلا لا ویجاعربی نام (قشتالیہ)تھا۔قدیم حصہ اس کا چھوٹے بڑے تقریباً ۸ حصوں پر مشتمل تھا۔اور جدید حصہ 5صوبوں پر مشتمل ہے ۔ ایضاً،ص ،37، 38۔
  48. Confluence of civilizations: professor A.R Momin. the IOS minaret (institute of objective studies ) January 2008vol-2,Issue 18 16-31
  49. The history of Muhammaden dynasties. vol , 2. p ,ixxxix 
  50. بنو احمرموحدین کے حکومت کے بعد اقتدار میں آیا تھا۔اس کے بزرگ بنو نصر کے نام سے ہسپانیہ میں آباد تھےاور فوج میں اُونچے عہدوں پر فائز تھے۔محمد جس کو شیخ کہا جاتا تھا،اس کا سردار تھا۔موحدین کے دور حکومت کی خانہ جنگی میں محمد بن یوسف ابن الا حمر نے بھی سلطان کا لقب اختیار کیا اور رفتہ رفتہ ترقی کرکے حاکم بن گیا۔تاریخ اسلام ، جسٹس امیر علی ،اردو اکیڈ می سندھ کراچی۔اشاعت ،جنوری 1965،ص ، 498۔
  51. فکر و نظرخصوصی شمارہ ،اندلس کی اسلامی میراث، ص ، 14۔
  52. ابن القوطیہ محمد بن عمر بن عبدالعزیزبن ابراہیم الاشبیلی ۔کنیت ابو بکر۔367ھ میں انتقال ہوئے۔نحو اور لغت میں مہارت حاصل تھی۔ ایضاً، ص ، 84۔
  53. امام شاطبی کا پورا نام ابو اسحاق ابراہیم بن موسیٰ بن محمد اللخمی الشاطبی ہے۔تمام زندگی غرناطہ میں گزاری۔اصول فقہ اور حدیث میں آپ نے قابلِ قدر کام کیا۔790ھ میں غرناطہ میں وفات پاگئے۔ایضاً، ص ، 541تا550۔
  54. ایضاً، ص ، 15۔
  55. History of Islam. Dr. Abdur rauf... p , 96
  56. عیسائی فردی نند شاہ قسطلہ مسمی جان کا بیٹا تھا۔اور اس کی شادی ارغون کی شہزادی ازابیلا سے ہوئی تھی۔تاریخ اسلام ،نجیب آبادی جلد سوم، ص ، 209۔ 
  57. مسلمانوں کا عروج و زوال،تالیف سعید احمد،ندوۃ المصنفین دہلی۔طبع دوم ،1947ء ص ، 192۔
  58. ایضاً۔ ص ،192۔
  59. Muhammaden dynasties in Spain. vol , 2 .p ,xci
  60. غرناطہ ۔جنوبی اندلس کے ایک صوبے اور اس کے دارالحکومت کا نام ہے۔جو حدود آج ہیں یہ1833ء میں قائم کئے گئے تھے۔عیسائیوں کی زبان میں غرناطہ کے معنی انار کے ہیں۔پرانی تحریروں میں اس کا نام کرناطہ بھی لکھا گیا ہے۔بعض کے خیال میں یہ عبرانی لفظ ہے ۔جس کے معنی ہیں۔پہاڑ کا غار۔اندلس کا تاریخی جغرافیہ،ص ، 318
  61. ایضاً،ص ، 319۔
  62. تاریخ اسلام ،اکبر نجیب آبادی جلد سوم ،ص ۔216 تا 220۔ 
  63. مسلمانوں کا عروج و زوال، ص ، 196۔
  64. ایضاً،ص ،196، 197۔
  65. تاریخ اسلام حصہ پنجم،رئیس احمد جعفری ندوی۔ طباعت اردو منزل بندر روڈ کراچی۔طبع اول۔1953ء ص ، 262۔ 
  66. اندلس کی اسلامی میراث۔ص ، 19۔
  67. مسلمانوں کا عروج و زوال۔ ص ، 201۔
  68. اسلامی ثقافت۔شبیر احمد خان علی گڑھ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ۔اشاعت ،1998ء۔ ص ، 13۔
  69. اسلام کی حقانیت(غیر مسلموں کی نظر میں)محمد ندیم قاسمی عمر پبلی کیشنز یوسف مارکیٹ ،لاہور،اشاعت ، نومبر 2007ء۔ ص ،41۔
  70. لائف انٹر نیشنل (نیو یارک)شمارہ:دنیائے اسلام۔ترجمہ:پروفیسر نظام الدین ایس گوریکر۔صدر شعبہ فارسی اردو سنٹ زیوٹرس کالج بمبئی۔ 8اگست 1955ء۔
  71. اسلامی ثقافت،ص ،14، 15۔
  72. فکرو نظر (خصوصی شمارہ )اندلس کی اسلامی میراث ڈاکٹر ساجد الرحمن۔ص ،637۔660، 663 ۔676۔
  73. اسلامی آرٹ اور فن تعمیر۔ارنسٹ کو ہنل۔ترجمہ غلام طیبفیروزسنزلمیٹڈلاہور،کراچی۔پہلاطباعت،1971ء، ص ،12۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...