Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

بریل لینگویج میں قرآن کریم لکھنے کا تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060030498_610

Pages

17-25

DOI

10.36476/JIRS.3:1.06.2018.02

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/323/146

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/323

Subjects

Islam Qur’an Braille Language Holy Book Islam Qur’ān braille language holy book

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جس کے بعد قیامت تک کوئی اور آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی، یہی کتاب قیامت تک کے انسانوں اور جنات کے لیے راہ ہدایت ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی لیا ہے فرمایا:"إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ"[1]

یہی وجہ ہے کہ چودہ صدیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی یہ کلام الٰہی اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آپﷺ پر نازل ہوا تھا، اسلام کے دشمنوں کی کوششوں اور تگ و دو کے باوجود نہ اس کے الفاظ میں کمی بیشی ہوئی اور نہ اس کے مفاہیم و مطالب میں تحاریف کی کوششیں بار آور ہوئیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی حفاظت کا وعدہ فرمایا تو اس کے لیے ایسی غیبی صورتیں مہیا کیں، جس کی مثال گذشتہ اقوام و امم میں ناپید ہے۔ اس کی عملی صورت یہ مقرر کی کہ امت مسلمہ میں کلام اللہ کے یاد کرنے ، اس کی تشریحات و تراجم از بر کرنے اور احادیث مبارکہ میں اس کی تشریحات کے حفظ اور پھر ان احادیث کی اسناد اور ان اسانید میں مذکور رجال کی جانچ پھٹک کر کے ایسا محیر العقول کارنامہ سرانجام دیا کہ تاریخ انسانی دنگ اور حیران رہ گئی۔

مسلمانوں نے قرآن کریم یاد کرنے میں انتہائی شوق وجذبہ سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے تسہیل کے اسباب مہیا کردئیے جس کی وجہ سے نو، دس سال کا بچہ بھی مختصر دورانیہ میں قرآن حفظ کرتا ہے اور پوری دنیا میں ہزاروں لاکھوں حفاظِ قرآن ہر دور و زمانہ میں موجود رہتے ہیں۔

بریل لینگویج کی حقیقت

"Braille System" ابھرے ہوئے حروف کو پڑھنے کا ایک طریقہ ہے جو نابینا افراد کے لیے ایجاد ہوا۔ یہ حروف چھو کر پڑھے جاتے ہیں۔ دراصل یہ حروف نہیں ہوتے بلکہ چھ لفظوں کی مدد سے حروف کی اور ہندسوں کی علامتیں بنائی جاتی ہیں۔ بریل لینگویج کا بانی لوئیس بریل فرانسیسی ہے۔ بریل لینگویج نا بینا افراد کی تعلیم وتعلم کے لئے ایک کلید ہے اور اس سے مراد وہ ابھرے ہوئے نقوش ہیں جنھیں ہاتھ کے پوروں سے چھوکر لفظ کی پہچان کی جاتی ہے۔

یہ موٹے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطوں کی شکل میں ہوتی ہیں، جسے عام طور پر نابینا افراد اپنی انگلیوں کے پوروں سے چھوتے ہیں جس سے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس نقطے سے کون سا حرف مراد ہے؟

اس طریقہ کے ایجاد سے آہستہ آہستہ بریل کوڈ میں مختلف کتابیں تیار ہوگئیں، رسالے نکلنے لگے اور نابینا افراد کے لیے پڑھنے اور لکھنے کی ایک وسیع دنیا کھل گئی۔

نابینا افراد کے لیے اس پیش رفت کو اسلام نہ صرف پسند کرتا ہے، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے، اس لیے اب بریل لینگویج کی مدد سے نابینا افراد کی تعلیم کے بڑے بڑے دینی و تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے دینی لٹریچر بھی تیار کیا جانے لگا ہے۔

بریل لینگویج میں کتابت قرآن

دور قدیم میں نابینا افراد کی تعلیم کا واحد ذریعہ دوسرے عام بینا افراد کی طرح تعلیم وتعلم ، املاء وتلقین کا تھا، نظر سے محروم اندھوں کے لیے اس بات کی کوئی صورت نہ تھی کہ وہ لکھی ہوئی عبارت کو پڑھ سکیں، مگر عصر حاضر میں یہ معمہ بھی حل ہو گیا اور بینائی سےمحروم یا کمزور نظر والے افراد کی تعلیم وتربیت کے لیے بریل لینگویج ایجاد کی گئی۔

بریل لینگویج میں مطبوعہ قرآن مجید کے فوائد

نا بینا افراد قدم قدم پر بینا افراد کے محتاج نہیں رہ جاتے، اس طرح قرآن مجید حفظ کرنے والے کسی کی مدد کے بغیر قرآن یاد کر سکتے ہیں اور بھولنے کی صورت میں اس کی طرف مراجعت کر سکتے ہیں اسی طرح براہ راست قرآن مجید کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

اس صورت حال میں اب اہم ضروری بات سامنے آئی ہے کہ بریل لینگویج میں قرآن مجید تیار کرنا درست ہے یا نہیں کیونکہ بریل لینگویج نہ تو عربی رسم الخط ہے اور نہ ہی رسمِ عثمانی۔ زیر نظر مقالہ میں بریل لینگویج کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور دلائل سے ثابت کیا گیاہے کہ عربی رسم الخط اور رسمِ عثمانی نہ ہونے کے باوجود نابیناؤں کی مجبوری کی بناء پر بریل لینگویج میں قرآن مجید تیار کرنا جائز ہےیا نہیں؟ نیز بریل لینگویج میں لکھا ہوا قرآن مجید مصحف کے حکم میں ہوگا یا نہیں؟

بریل لینگویج کا پس منظر

حرف شناسی کا یہ طریقہ پیرس کے ایک مدرس  لوئیس بریل"۱۸۰۹ء تا ۱۸۵۲ء" نے ۱۸۳۴ء میں ایجاد کیا، تین سال کی عمر میں یہ بینائی سے محروم ہوا، تو اپنی مدد آپ کے تحت اپنی فطری ذکاوت سے ایک بہترین موسیقار اور اندھوں کا معاون نگران بن گیااس دوران ان کے تعلیم وتعلم کے لیے چھ نقاطی طریقہ رائج کرکے ایک نئی بنیاد رکھی، اس کے مقابلے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ طریقہ تشارلس باریبر نے خفیہ جنگی امور کے تبادلۂ خیال کے لیے رائج کیا، جس سے لوئیس بریل نے یہ طریقہ اپنا لیا۔[2]

۱۸۳۷ء میں ایک پورا طریقہ تیار ہوا، مگر اسے تدریسی کتب میں جگہ نہیں ملی، طلبہ و اساتذہ انفرادی طور پر اس سے استفادہ کرتے۔ ۱۸۳۹ء میں یہ طریقہ کامیابی سے اپنی تکمیل کو پہنچا اور فرانس میں بریل لینگویج کے ذریعے تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری ہوا لیکن کتبِ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بریل لینگویج کی بنیاد علامہ آمدیؒ نے رکھی ہے۔ ان کے بارے میں علامہ صفدیؒ لکھتے ہیں کہ آپ نابینا ہونے کے باوجود کتابوں کی تجارت کرتے تھے، جب کوئی آپ سے کتاب کے بارے میں پوچھتا تو آپ مطلوبہ کتاب متعلقہ مقام سے لا کر ان کی جلدوں کا رنگ تک بتاتے۔ اس کے لیے انھوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے کتاب کے بارے میں ضروری معلومات مثلاً کتاب کی قیمت،جلد نمبر وغیرہ معلوم کرتے۔[3]

کتابت قرآن کے لیے رسم عثمانی کے بغیر دوسرے رسم الخط کا حکم

اس بارے میں دو رائے ہیں:

پہلی رائے

جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ کتابت قرآن کے لیے رسم عثمانی کی اتباع لازمی ہے کیونکہ عہد صحابہ ٔکرام میں اس پر اجماع ہوا ہے اور امت مسلمہ میں اسی خط کو قبولیتِ عامہ حاصل ہو چکی ہے، لہذا اس رسم عثمانی کو چھوڑ کر کتابت قرآن میں دوسرے رسوم اختیار کرنا جائز نہیں۔

اس بارے میں ایک حدیث بھی مروی ہے، جس میں نبی کریمﷺ نے سیدنا معاویہؓ کو رسمِ عثمانی کے مطابق قرآن مجید لکھنے کا حکم دیا۔[4] ابو عمرو الدانی لکھتے ہیں کہ امام مالکؒ سے قرآن مجید کے بارے میں پوچھا گیا، جس میں رسمِ عثمانی کی موافقت نہیں ہوتی، تو آپ نے جواب دیا کہ یہ طریقہ درست نہیں، بلکہ صحابہ کرام ؓ اور حضرات تابعینؒ کی طرح لکھنا ضروری ہے۔[5] اسی طرح جب واؤ اور الف کے نہ لکھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپؒ نے جواب دیا کہ یہ جائز نہیں۔[6]

علامہ ہیتمی ؒ لکھتے ہیں کہ یہ مسلک صرف امام مالکؒ کا نہیں بلکہ تمام ائمہ اربعہؒ کا ہے۔[7]

امام قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ رسم اور خط دونوں کے مطابق کتابت قرآن لازمی ہے۔[8]

ابن العربیؒ "لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ"میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی "لَا أُقْسِمُ" کے بجائے "لَأُقْسِمُ" لکھے اور الف کو حذف کرے تو یہ طریقہ جائز نہیں۔[9]

علامہ بہوتی لکھتے ہیں کہ کتابت قرآن میں رسم عثمانی کے بغیر لکھنا اور واؤ، الف اور یاء وغیرہ اضافات و وصلات کو چھوڑنا حرام اور ناجائز ہے۔[10]

جمہور حضرات قرآن مجید کی آیت مبارکہ( وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا)[11] کے عموم سے استدلال کرتے ہیں۔

اسی طرح نبی کریمﷺ کے جتنے بھی کاتبین تھے ان میں سے اکثر یہ طریقہ ٔ کتابت اختیار کیے ہوئے تھے اور آپﷺ نے ان پر رد نہیں فرمایا، اسی طریقہ کو حضرت ابوبکرؓ پھر عمرؓ اور پھر سیدنا عثمان ؓ نے بھی اپنایا اور دوسرے مصاحف کو ختم کردیا اور ان پرپابندی لگا دی۔اس طرح رسمِ عثمانی پر اجماع امت چلا آ رہا ہے لہذا اسے چھوڑ کر دوسرا رسم کتابت قرآن کے لیے اختیار کرنا درست نہیں۔

دوسری رائے

رسم عثمانی کے بغیر کتابت قرآن کے بارے میں کبار محدثینؒ نے اختیار کی ہے، ان میں عز بن عبدالسلامؒ، ابن خلدونؒ، ابوبکر الباقلانیؒ، علامہ شوکانیؒ، علامہ زرکشیؒ وغیرہ حضرات شامل ہیں۔

عز بن عبدالسلام لکھتے ہیں کہ رسم عثمانی کے بغیر کتابت قرآن کے بارے میں عدم جواز کاحکم اس وجہ سے تھا کہ جاہل لوگ قرآن کریم میں تغیر وتبدل نہ کریں، لیکن علی الاطلاق یہ حکم نافذ العمل کرنا محل نظر ہے، کیوں کہ آج روئے زمین پر اس کلام کی حفاظت کرنے والے بہت ہیں لہذا جاہلوں کی رعایت میں اصل حکم کو باطل کرنا درست نہیں۔[12]

قاضی ابوبکر باقلانی لکھتے ہیں: کتابت قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی فرض نہیں فرمایا کہ مصاحف کی کتابت میں ایک خاص رسم الخط کو اپنا کر دوسروں کو چھوڑ دیا جائے، بلکہ یہ سب درحقیقت سمعی اور توقیفی طور پر رائج طرق ہیں، یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی اور دور صحابہ ؓ میں مختلف رسوم الخط کے مصاحف موجود تھے اور ان پر نکیر نہیں ہوئی۔[13]

محقق ابن خلدون ؒ لکھتے ہیں: عرب میں بداوت غالب تھی اس وجہ سے رسم الخط اپنے عروج تک عہدصحابہ میں نہیں پہنچا تھا، کتابت قرآن میں بھی صحابہ کرامؓ کے خطوط زیادہ عمدہ نہیں تھے، بعد کے زمانے میں آنے والوں نے ان کی پیروی میں تبرک کو ملحوظ نظر رکھ کر متقدمین کی روش کو اپنایا۔[14]

بریل لینگویج میں قرآن مجید کا حکم

بریل لینگویج میں کتابت قرآن کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت

قرآن مجید کی کتابت رسمِ عثمانی میں ہو، جیسے "الرِّبَا" کو "الرِّبو" لکھنا، لفظ "العَالَمِینَ" کو "العٰلَمِینَ" لکھنا وغیرہ۔

مگر اس صورت میں بعض کلمات مشکل ہوتے ہیں، جن کو عملی جامہ پہنانا انسانی بس کی بات نہیں ہے، لہذا اگر بریل لینگویج میں رسمِ عثمانی کی اتباع نہ ہوتی ہو، تو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے معاف ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:"لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا"[15]

اسی بات کی تصریح متقدمین حضرات محدثین نے کی ہے کہ کتابتِ قرآن کے وقت رسمِ عثمانی کی اتباع ممکنہ حد تک ضروری ہے ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو قرآن مجید لکھے تو اسے رسمِ عثمانی میں لکھے گئے موجودہ مصاحف کے حروف و ہجا کے مطابق لکھنا چاہیےاور کتابت میں ان کی مخالفت نہ کریں، کیونکہ متقدمین قراء کرام علم میں ہم سے زیادہ، زبان میں سچے اور دل میں صادق تھے، لہذا ان کی لکھائی کو غلط کہہ کر اپنی طرف سے لکھنا درست نہیں۔[16]

اس سے جہاں کتابت قرآن میں رسمِ عثمانی کی موافقت کا حکم معلوم ہوا، وہیں رسمِ عثمانی کی مخالفت کا دائرہ بھی سامنے آیا کہ یہ مخالفت اس وقت تک ہے، جب لوگ رسمِ عثمانی کے کاتبین کو کم علم جان کر اپنی طرف سے کتابت قرآن کریں، لیکن اگر یہ صورت حال نہ ہو بلکہ رسمِ عثمانی کی اقتداء ممکن نہ ہو تو ضرورت کی حد تک اس کی مخالفت درست ہے۔

دوسری صورت

کتابتِ قرآن رسمِ عثمانی کے بجائے رسمِ قیاسی املائی میں ہو، کیوں کہ رسمِ عثمانی میں لکھنا ایک انتظامی حکم کی بنیاد پر ہوا،تاکہ قرآن کریم اور دوسرے عربی کلام میں خلط ملط نہ ہو۔ اب جب اس زمانے میں قراء و حفاظ کرام کی کثرت ہے اور دوسرے خطوط بھی رائج ہوئے ہیں لہذا جب قرآن وحدیث میں صریح حکم نہیں ہے، بلکہ سیدنا عثمانؓ کے عہدِ خلافت کا فیصلہ ہے، جو انتظامی بنیادوں پر طے ہوا تھا، تو حتی الوسع اس کی مطابقت کرنا ضروری ہے، مگر جہاں کہیں ضرورت ہو، تو موقع کی مناسبت سے دوسرے رسم الخط میں بھی لکھنا جائز ہے۔

اسی طرح ان پڑھ اور بچے رسم عثمانی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے لیے اس طرح پڑھنا مشکل ہوتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن کریم کو پڑھنے کے لیے آسان بنا دیا ہے۔

قرآن مجید کے رسم الخط میں بعض مقامات پر عوام کی رعایت اور ان کی آسانی کے لیے کچھ ایسی ترمیمات کی گئیں، جو اصل کلام کو نقصان نہیں پہنچاتی تھیں، مثلاً "العٰلَمینَ" کے بجائے"العَالَمینَ" وغیرہ۔

اسی طرح تابعین و تبع تابعین کے دور میں مصاحف پر نقطے اوراعراب کی مخالفت ہوتی رہی، مگر بعد میں آسانی کے لیے اس کے جواز کا حکم دیا گیا لہذا اس طرح قیاسی اور املائی طریقہ کے جواز سے بھی سہولت مہیا ہو جائے گی۔

کتابتِ قرآن میں قولِ فیصل

قرآن کریم کی حفاظت اور ہر طرح کی تحریف سے بچاؤ کے پیش نظر عہد صحابہ وتابعینؓ ہی سے لے کر آج تک ائمہ کرام ومجتہدین کا اجماع ہے کہ اس کو "رسمِ عثمانی" کے مطابق لکھنا ضروری ہے۔[17] جس کے مطابق قرآنی کلمات کو حذف وزیادت، وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا ضروری ہے، جس پر دورِ عثمانی میں صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوچکا ہے۔[18]

رسمِ عثمانی کا لحاظ رکھتے ہوئے عربی کے علاوہ دوسرے رسم الخط میں کتابتِ قرآن کا حکم

کتابتِ قرآن کریم کے لیے عربی رسم الخط کی پابندی بھی ضروری ہے، چنانچہ کسی غیر عربی خط میں اگر چہ "رسمِ عثمانی" کی رعایت بھی ہو سکتی ہو، مثلاً فارسی اور اردو نستعلیق وغیرہ، اس میں بھی راجح قول کے مطابق پورا قرآن کریم لکھنا جائز نہیں ہے، ہاں البتہ ایک دو آیات لکھنے کی گنجائش ہے۔[19]

آج کل اکثر و بیشتر قرآن مجید کی کتابت رسمِ عثمانی کے بغیر دوسرے طرقِ خطوط میں ہوتی ہے۔کیا عصرِ حاضر میں رسمِ عثمانی کو چھوڑ کر کتابتِ قرآن کے لیے دوسرا خط اختیار کیا جا سکتا ہے؟ کتابتِ قرآن میں رسمِ عثمانی کو غیر ضروری سمجھنے والے کا کیا حکم ہو گا؟ رسمِ عثمانی کو چھوڑ کر دوسرے طرق میں قرآن مجید کی کتابت کرنے والا بالاتفاق کافر نہیں ہوگا۔[20]

بریل لینگویج کتابت قرآن کی حیثیت

بریل لینگویج میں کتابت قرآن رسم عثمانی کی نہیں، کیونکہ بعض حروف ایسے ہیں کہ بریل لینگویج میں اس کی کتابت بالکل ممکن نہیں، مثلاً "مَآرب"[21] اور "شَنَآن"[22] جب کہ بعض مواقع پر نہ رسم قیاسی و املائی میں بریل کتابت ہو سکتی ہے اور نہ رسم عثمانی میں، بلکہ وہ خاص بریل لینگویج میں ہی ایک فرضی طریقہ سے ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ محققین نے اسے قرآن کریم کی تفسیر کا حکم دیا ہے۔ذیل میں ان حضرات کے آراء نقل کی جاتی ہیں:

بریل قرآن کو مصحف کا حکم دینا درست نہیں، تاہم یہ کتاب نابینا افراد کے لیے قرآن مجید پڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے، جس طرح اعراب اور نقاط کے سمجھنے کے لئے ابتدائی بچوں کو قاعدہ وغیرہ پڑھایا جاتا ہے، تاکہ آئندہ قرآن مجید پڑھنے میں آسانی ہو، اسی طرح بریل لینگویج کے ذریعے قرآن مجید پڑھنے میں آسانی ہوگی اور نابینا قرآن خواں ہر وقت استاذ کا محتاج نہیں ہوگا اور یہ تلاوت قرآن کے لیے ایک معاون کی حیثیت سے شمار ہوگا۔

بریل قرآن کو مصحف کا حکم نہ دینے کی وجوہات

بریل قرآن کو مصحف کا حکم نہ دینے کی متعدد وجوہات ہیں:

پہلی وجہ

حفاظت قرآن کی خاطر اس مسئلہ میں سد ذرائع کا اعتبار کرنا نہایت اہم ہے، کیونکہ اگر اس کو مصحف کا حکم دیا جائے، تو قرآن مجید میں رد وبدل کرنے، تحریف وتغیر وغیرہ طعن ہو سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عام قرآن پاک میں ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف رسم عثمانی کا لحاظ رکھا گیا ہے، جب کہ بریل لینگویج میں وہ طریقہ اپنایا گیا، جو جامعینِ قرآن اور کاتبین وحی کا تھا۔

رسم عثمانی ہی نظم قرآن کی موجودہ شکل میں اعجاز کا حقیقی محافظ ہے، جس میں قرآن مجید دوسری عربی کتب سے ممتاز اور جداگانہ ہےاس وجہ سے بریل قرآن مصحف کے حکم میں نہیں، کیونکہ یہ رسم عثمانی کے بالکل مخالف ہے۔[23]

دوسری وجہ

بریل قرآن میں حروف قرآنیہ نہیں، بلکہ ابھرے ہوئے خطوط ہیں، جو اپنے معنی مرادی پر دلالت کے لیے وضع ہوئے ہیں، جسے صرف نابینا یا ان کے استاد سمجھ سکتے ہیں، اس اعتبار سے اسے مصحف اور قرآن نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی قرآن مجید کی طرح اس کی حرمت وتعظیم کی جائے گی، ہاں البتہ قرآن کا حکم نہ دیتے ہوئے تلاوت قرآن کے لیے مساعد رہنما کتاب کہہ سکتے ہیں۔[24]

تیسری وجہ

جس طرح قرآن مجید کے معنی ومطلب سمجھنے کے لیے تفاسیر لکھی جاتی ہیں، ایسے ہی آج کل نا بینا حضرات کے لیےبریل قرآن درحقیقت ایک تفسیر ہے جو قرآن مجید کے الفاظ سمجھانے کے لیے اندھوں کو ویسا ہی فائدہ دیتا ہے، جیسا کہ بیناؤں کے لیے قرآن مجید کا مطلب سمجھنے کے لیے تفسیر قرآن ہوتا ہے۔

چوتھی وجہ

بریل قرآن میں اگر چہ آواز دونوں (حقیقی اور بریل) کا ایک ہوتا ہے، مگر قرآنیت اور عدم قرآنیت آواز کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ تو الفاظ کی وجہ سے ہے، جب کہ بریل قرآن کے الفاظ عربی نہیں اور قرآن مجید کی تعریف میں عربی کی قید ہے، لہذا قرآن مجید کی تعریف کا بریل قرآن پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔[25]

پانچویں وجہ

بریل قرآن اور حقیقی مصحف ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے، جس طرح استاد قرآن مجید پڑھاتے ہوئےکسی سی ڈی یا کیسٹ میں تلاوت ریکارڈ کریں، تو کوئی بھی اسے قرآن نہیں کہتا، ہاں قرآن کی کیسٹ یا سی ڈی ضرور کہتے ہیں، اسی طرح بریل اور حقیقی قرآن میں بھی وہی فرق ہے جو سی ڈی اور حقیقی قرآن میں ہے۔[26]

بریل لینگویج قرآن کے بارے میں اسلامک فقہ اکیڈمی کیرلا لولم، انڈیا کے چوبیسویں فقہی سیمینار کی روداد

نابینا اور معذور افراد سماج کی خصوصی توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہیں، ان کی تعلیم کے لئے بریل کوڈ کی ایجاد نہایت اہم پیش رفت ہے۔مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس رمزی زبان کے ذریعہ نابینا حضرات کو زیادہ سے زیادہ علوم اسلامیہ سے استفادہ کی سہولت فراہم کی جائے۔

بریل کوڈ کے مسلمان ماہرین سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس کوڈ کو زیادہ سے زیادہ عربی خط اور رسم عثمانی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں تاکہ یہ رموز قرآن مجید کے اصل رسم سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہوجائے۔ چونکہ بریل کوڈ علامتی زبان ہے، رسم الخط نہیں اس لئے نابینا افراد کی حاجت وسہولت کے پیش نظر بریل کوڈ میں قرآن حکیم کی کتابت واشاعت جائز ہے، اور چونکہ یہ قرآن کریم کا رمز ہے اس لئے اس کا پورا احترام ملحوظ رکھا جائے۔

نتائج و تجاویز

سابقہ سطور میں کی گئی بحث سے درج ذیل امور سامنے آتے ہیں:

  1. بریل لینگویج ایک علامتی زبان ہے اور اس کی ابتدائی شکل علامہ آمدیؒ کی طرف منسوب ہے جس کو مزید ترقی دے کر موجودہ شکل میں ڈھالا گیا ہے۔
  2. کتابت قرآن میں جمہور علمائے کرام کے مطابق رسم عثمانی کی اتباع لازم ہے،لیکن چوں کہ دیگر محدثین وفقہاء کے نزدیک اس کی مخالفت بھی جائز ہے، اس لئے ضرورت کی وجہ سےکسی دوسرے رسم الخط میں قرآن کریم لکھنے کی گنجائش موجود ہے۔
  3. بریل لینگویج میں لکھے جانے والے قرآن پر "قرآن مجید" کا اطلاق درست نہیں ہے کیوں کہ اس میں مخصوص اشارات کے ذریعے قرآن کریم کے الفاظ اور حروف کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
  4. بریل قرآن پر قرآن مجید کا اطلاق درست نہیں اس لئے "لمس" (چھونے) میں بھی اس کا حکم عام مصحف سے الگ ہو گا لہذا اسے بغیر وضو چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ چوں کہ یہ تلاوتِ قرآن کے لئے مساعد و رہنما کتاب ہے اس لئے ازروئے ادب باوضو چھونے کی روش اختیار کرنا زیادہ بہتر رہے گی۔

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات(References) == ۔ سورۃ الحجر، ۹۔ Surah Al Ḥajar:9
  2. ۔http://louisbrailleschool.org/resources/louis-braille/
  3. ۔ الصفدی،خلیل بن ایبک، النکت الہمیان فی نکت العمیان، دارالکتب العلمیہ بیروت، الطبعۃ الأولیٰ: ۱۴۲۸ھ/ ۲۰۰۷م، ص:۲۰۶۔۲۰۸۔ Al Safdi, Khalil bin Aybak, Al Nikt al Himyan fy Nikt al U’myan, (Beurit:Dar al Kutub al I’lmiyyah, 1st Edition, 2007), p:206-208.
  4. ۔شیرویہ بن شہردارالدیلمی،مسندالفردوس بمأثور الخطاب،دارالکتب العلمیہ،بیروت،طبع اول،۱۹۸۶م/۱۴۰۶ھ،۵:۳۹۴، رقم:۸۵۳۳۔ Al Daylami, Sherwayh bin Shahardar, Musnad al Firdws b Mathwr al Khitab, (Beurit: Dar al Kutub al ’Ilmiyyah, 1st Edition, 1986/1406), Ḥadith:8533, 5:394.
  5. ۔ عثمان بن سعید الدانی، المقنع فی رسم مصاحف الأمصار، مکتبہ الکلیات الأزہریۃ قاہرۃ، مصر،ص:۱۹۔ Al Dani, Usman bin Sa‘eed, Al Mqni' fi Rasm Masaḥif al Amṣar, (Cairo, Egypt: Maktbah al Kulyat al Azhariyyah), p:19.
  6. ۔المقنع فی رسم مصاحف الأمصار،ص۳۶۔ Ibid., p:36.
  7. ۔ الہیتمی،احمد ابن حجر ،الفتاویٰ الفقہیۃ الکبری، المکتبۃ الاسلامیہ بیروت، ۱:۳۸۔ Al Hythami, Aḥmad Ibn Ḥajar, Al Fatawa al Fiqhiyyah al Kubra, (Beurit: Al Maktbah al Islamiyyah), 1:38.
  8. ۔تفسیر القرطبی، ۱:۶۱۔ Tafsir al Qurtabi, 1:61.
  9. ۔تفسیر احکام ۴:۱۹۴۳۔ Tafsyr Aḥkam al Qurān, 4:1934.
  10. ۔کشاف القناع،۱:۱۵۵۔ Kashaf al Qina', 1:155.
  11. ۔سورۃ الحشر، ۷۔ Surah Al Ḥashar:7.
  12. ۔ الزرکشی، محمد بن عبداللہ، البرہان فی علوم داراحیاء الکتب العربیۃ دمشق، الطبعۃ الأولیٰ: ۱۳۷۶ھ/ ۱۹۵۷م، ۱:۳۷۹۔ Al Zarkashi, Muḥammad bin ‘Abdullah, Al Burhan fy U’luwm al Qurān, (Damascus: Dar Ihya' al Kitab al A'rabiyyah, 1st Edition, 1957/1376), 1:379.
  13. ۔ صبحی الصالح،مباحث فی علوم دارالعلم للملایین، الطبعۃ الرابعۃ والعشرون۲۰۰۰م/۱۴۲۰ھ،۱:۲۷۸۔ Ṣubḥi al Ṣaliḥ, Mabahith fy U'lwum al Qurān, (Dar al I'lm lil Malayiyn, 14th Edition, 2000/1420), 1:278.
  14. ۔ ابن خلدون،عبدالرحمن بن محمد ،دیوان المبتدأ والخبر فی تاریخ العرب والبربر ومن عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر، الفصل الثلاثون فیان الخط والكتابۃ من عداد الصنائع الانسانيۃ، دارالفکر بیروت، الطبعۃ الثانیۃ: ۱۹۸۸م/ ۱۴۰۸ھ،۱:۵۲۶۔ Ibn Khalduwn, ‘Abdul Rahman bin Muḥammad, Diywan al Mubtada wal Khabar fi Tariykh al A'rab wal Barbar w Mn A'aṣrhum mn Dhwy al Shan al Akbar, (Beirut: Dar al Fikar, 2nd Edition, 1988/1403), 1:526.
  15. ۔سورۃ البقرۃ، ۲۸۶۔ Surah Al Baqarah:286
  16. ۔ البیہقی، احمد بن الحسین،شعب الایمان،باب تعظیم فصل فی افراد ا لمصحف للقرآن وتجریدہ فیہ مما سواہ، مکتبۃ الرشد الریاض، الطبعۃ الأولیٰ: ۲۰۰۳م/ ۱۴۲۳ھ،۴:۲۱۹۔ Al Bayhaqi, Aḥmad bin al Ḥusain, Shu'ab al Aiyman, (Riyadh: Maktabah al Rushad 2003/1432), 4:219.
  17. ۔ مفتی محمد شفیع ؒ،جواہر الفقہ، مکتبہ دارالعلوم کراچی کورنگی،۱:۴۴-۸۵۔ Mufti Muḥammad Shafi, Jawahir al Fiqh, (Karachi: Maktabah Dar al U'luwm), 1:44-85.
  18. ۔ قاری رحیم بخشؒ،الخط العثمانی فی الرسم القرآنی، قراءت اکیڈمی ملتان،۹:۱۰۔ Qari Rahim Bakhsh, Al Khat al U'thmani fi al Rasm al Qurāni, (Multan: Qira't Academy), p: 9-10.
  19. ۔ مولانا ظفر احمد عثمانی،امداد الاحکام، مکتبہ دارالعلوم کراچی،۱:۲۴۰۔ Usmani, Mawlana Zafar Aḥmad, Imdad al Aḥkam, (Karachi: Maktabah Dar al U'luwm), 1:240.
  20. ۔فتاوی ابن تیمیہ،۱۳:۴۲۰۔ Fatawy Ibn Tymayah, 13:420.
  21. سورۃ طٰہٰ، ۱۸۔ Surah Ṭaha, 18
  22. سورۃ المائدۃ، ۸۔ Surah Al Ma’idah, 8
  23. ۔یہ رائے مجمع البحوث الاسلامیہ کے ایک رکن ڈاکٹر محمد الشحات جندی کا ہے، جو مجلہ البحوث الاسلامیہ میں مذکورہے۔ دیکھئے: مجلۃ البحوث الاسلامیہ،۶۶:۳۶۱۔ Majallah al Baḥuwth al Islamiyyah, 66:361.
  24. ۔یہ رائےڈاکٹر احمد طٰہٰ ریان کی ہے، جو جامعۃ الازہر، مصر میں فقہ مقارن کے پروفیسر ہیں۔ دیکھئے: مجلۃ البحوث الاسلامیہ،۶۶:۳۶۱۔ Ibid., 66:361
  25. ۔یہ رائےڈاکٹرسعود الفنیسان کی ہے، جو جامعۃ الامام میں کلیۃ الشریعہ کے سابق مدیر تھے۔ دیکھئے: مجلۃ البحوث الاسلامیہ،۶۶:۳۵۵۔ Ibid., 66:355
  26. ۔یہ رائےڈاکٹر محمد الراوی کی ہے جو علوم القرآن کے پروفیسر اور مجمع البحوث الاسلامیہ کے رکن ہیں۔ http://el-wasat.com/assawy/?p=5085
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...