Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 1 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

بہاء اللہ کی تعلیمات میں علمی سرقات کا تنقیدی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

تخلیق آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی شیطان کی انسان دشمنی کا آغاز ہو گیا۔ تکبر اور حکم خداوندی سے انکار کی بنیاد پر شیطان کو مردود قرار دیکر جنت سے نکالا گیا ۔ جس کے نتیجے میں اس نے بنی آدم کو درغلانے اور گمراہ کرنے کی ٹھان لی۔ قرآن کریم میں آتا ہے:

قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ[1]

"بولا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور بیٹھونگا ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر۔ پھر ان پر آؤنگا ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور نہ پائے گا تو اکثروں کو ان میں شکر گزار۔"

اس دن سے لے کر آج تک بلکہ تا قیامت شیطان اور عباد الرحمٰن کی کشمکش اور حق و باطل کا یہ معرکہ جاری رہے گا۔ نبی صادق ﷺ نے اپنی اُمت کو خبر دی ہے کہ: ’’الجھاد ماض الی یوم القیامۃ[2] ‘‘جہاد قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔

اقبال نے بھی اس حقیقت کا اظہار اپنے اس شعر میں کیا ہے:

ستیزہ کا ر رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفویﷺ سے شرار بولہبی است[3]

اس حقیقت سے کسی بھی ذی عقل کو انکار نہیں ہے کہ اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطن اپنے اپنے مشن میں لگے رہیں گے اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کا آپس میں سابقہ پڑے گا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ باطل جب ایک طرح نا کام ہو جاتا ہے۔ توحالت بدل کر پھر حق سے معرکہ آراءہو جاتا ہے۔ تاریخ انسانی اس کی شاہد ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے:

بدل کے بھیسں زمانے میں پھر سے آتے ہیں

اگرچہ پیر ہے آدم، جوان ہے لات ومنات[4]

مسلمانوں کی شاندار ماضی اس پر شاہد ہے کہ جب بھی باطل نے اہل حق (مسلمانوں ) کا مقابلہ براہ راست کیا ہے تو مخالف کو ہر قسم کی عسکری اور اخلاقی شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ لہذا یہ بات دشمنان اسلام پر واضح ہو گئی ہے کہ اہل حق کا مقابلہ کسی بھی طور سے براہ راست اور بلا واسطہ (direct) نہیں کیا جا سکتا ۔

ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اپنا دین چھوڑ کر بے دین کرنا اور قرآن کے الفاظ میں تحریف کرنا دشمنان اسلام کے لئے ممکن نہیں لہذا انہوں نے ایک خطرناک سکیم یہ چلائی کہ دین کی شکل اور اصل حقیقت کو بگاڑ کر مذہب کا ایک من پسند ملغوبہ تیار کیا جائے تاکہ ایک طرف تو لوگ حقیقی دین سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور دوسری طرف وہ بے دین اور کافر بھی نہ کہلائے جاسکیں،بلکہ مذہب کے نام پر چند رسومات ادا کر کے گویا روحانی تسکین بھی حاصل کرتے رہیں۔

بہاء اللہ حسین علی

ایسے ہی باطل کی آلہٰ کار لوگوں میں سے اور اپنے خیالات کو دین الہٰی کا جامہ پہنانے والوں میں سے ایک حسین علی مازندرانی بھی ہے جس کا لقب بہاء اللہ ہے۔ والد کا نام مرزا عباس نوری تھا جو کہ حکومت ایران کے ایک وزیر تھے ۔ آپ کی پیدائش ۱۲ نومبر ۱۸۱۷؁ مطابق ۲ محرم ۱۲۳۳؁ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ہوئی۔ آپ کا تعلق ایک متمول خاندان سے تھا۔ اور کئی رشتہ دار حکومت ایران کے مختلف فوجی اور سول عہدوں پر تعینات تھے۔ اہل بہاء کا دعویٰ ہے کہ بہاء اللہ نے کسی ادارے میں تعلیم نہیں پائی تھی، جو کچھ آپ نے پڑھا تھا وہ گھر ہی میں پڑھایا سکھایا گیا تھا۔ اس کے باوجود بچپن ہی سے آپ سے علم و دانائی کی عجیب عجیب باتیں ظاہر ہونے لگیں۔ ابھی جوان تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی نگرانی اور وسیع خاندانی جائیداد کے انتظام کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آپڑی[5] ۔

ٍبہائیت کی بنیاد دراصل علی محمد نے رکھی جس کا پورا نام سید علی محمد تھا۔ بعد میں باب کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ ۲۰ اکتوبر ۱۸۱۹بمطابق یکم محرم ۱۲۳۵کو جنوبی ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا تعلق خاندان سادات سے تھا۔ جوانی ہی میں علی محمد باب اپنے حسن سیرت وصورت، عمدہ چال چلن اور غیر معمولی تقویٰ کیلئے مشہور ہو گئے۔ بائیس سال کی عمر میں شادی کی[6]۔

اہل بہاءکے مطابق جب علی محمد پچیس برس کے ہوئے تو آپ نے خدا کے حکم کے مطابق اعلان کیا کہ خدا نے آپ کو" باب" کے مقام کے لئے برگزیدہ کیا ہے۔لفظ یا اصطلاح باب سے آپ کی مراد یہ تھی کہ آپ ایک عظیم الشان شخص کے فضل کا ذریعہ ہیں جو ابھی پردہ جلال میں مخفی تھا اور جو بے شمار اور بے حد کمالات کا مالک تھا۔ اسی کی مرضی سے آپ حرکت کرتے تھے اور اسی کی محبت کی رسی کو آپ تھامے ہوئے تھے[7]۔

۱۸۴۴ءمیں جبکہ آپ کی عمر ۲۷ سال کی تھی، محمد علی باب نے اپنی ظہور کا اعلان کیا، بہاء اللہ نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور اس نئے نام نہاد دین کے ابتدائی مبلغین میں اس کا شمار ہونے لگا[8]۔

بہاء اللہ کہا کرتا تھا کہ علی محمد باب نے میرے متعلق بشارت دی تھی۔ اس کا وجود میرے لئے تمہید کا حکم رکھتا تھا جس طرح نصاریٰ کی نظر میں حضرت یحییٰ علیہ السلام ظہور مسیح کا پیش خیمہ تھے[9] ۔

دعویٰ نبوت

علی محمد باب کے اعلان کے انیس سال بعد ۱۸۲۳ءمیں آپ بغداد کے قریب ایک باغ میں خیمہ زن تھے ۔دیگر بہائی بھی آپ کے ساتھ تھے وہاں آپ نے ۲۱ اپریل تا ۲ مئی ۱۸۲۳ءقیام کیا اسی دوران آپ نے اپنے چند احباب اور پیروکاروں کو یہ خوشخبری سنائی کہ آپ ہی وہ من یظھرہ اللہ (وہ جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرے) ہیں جس کی آمد کی خوشخبری علی محمد باب نے دی تھی اور جو تمام انبیاء کا موعود ہے۔ جس باغ میں یہ اعلان کیا گیا وہ بہائیوں میں باغ رضوان کے نام سے مشہور ہوا۔ اور ان بارہ دنوں میں وہ ایک عید مناتے ہیں جس کا نام عید رضوان ہے[10]۔

آپ نے بغداد ،قسطنطنیہ اور ایڈریا نوپل[11] میں بہائیت کی تبلیغ کی جس کے نیتجے میں ایک بڑا گروہ آپ کے گرد جمع ہو گیا۔ پچھتر ۷۵ سال کی عمر میں آپ بیمار ہوگئے اور ۲۸ مئی ۱۸۴۹ءکو انتقال کر گئے ۔ عسکا ہی میں آپ کو دفن کر دیا گیا[12]۔

بہاء اللہ کے باطل دعاوی

بہاءاللہ نے اپنے آپ کو نبی اور موعود ثابت کرنے کیلئے کئی ایک دعاوی بھی گحڑ لیے تھے جن میں سے چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے:

اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے ایک رات خواب میں یہ الفاظ سنائے گئے کہ ہم تیری مدد تیرے ساتھ کریں گے اور تیرے قلم سے کریں گے جو بھی پریشانی تجھے پہنچے ،اس پر غم نہ کھانا اور خوف نہ کرنا، تمہیں امن دیا گیا ہے، عنقریب اللہ زمین کے خزانے نکالے گا اور لوگ تیری مدد کریں گے، تیرے ساتھ اور تیرے نام کے ساتھ اللہ عارفین کے دلوں کو زندہ رکھے گا[13]۔

اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسے ماکان و مایکون کا علم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے لکھا کہ اے بادشاہ !میں انسانوں میں ایک تھا، بستر پر سویا ہوا تھا کہ اللہ پاک کی طرف سے مجھ پر خوشی کے لمحات آئے اور مجھے اس نے علم ما کان سکھایا۔ یہ میرے طرف سے نہیں بلکہ عزیز و علیم کی طرف سے ہے اس نے مجھے حکم دیا کہ مٰیں آسمانوں اور زمین کے درمیان اس کا اعلان کر دوں[14]۔

وہ مزید دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ کی تعریف جس نے نکتہ کو ظاہر کیا اور اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس کا علم ما کان و ما یکون دیا اس نے نام کا منادی بنایا اور ظہور اعظم کا مبشر بنایا یہ وہی ہےجس کا ذکر محمد رسول اللہ اور روح یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور ان سے پہلے کلیم اللہ نے کیا اور یہ وہی ہے جو تمام نبیوں کے دلوں میں پوشیدہ خزانہ تھا[15]۔ اور پھر ادرنہ جا کر ایک اور قدم آگے بڑھایا اور خود نبوت کا دعویٰ کیا[16]۔

پھر اس نے خدائی کے ساتھ متصف ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ اس کا حکم پانی پر چلتا ہے اور عصمت کبریٰ کا مالک ہے اور معصوم عن الخطاءوالنسیان ہے۔ وہ ایسا نور ہے جس کے بعد اندھیرا نہیں آسکتا اور وہ ایسا حق ہے جس میں کوئی شک نہیں اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کی اجازت نہیں اور کوئی اسے کیوں اور کیسے نہیں کہہ سکتا جو اس پر اعتراض کرے وہ رب العلمین کی کتاب سے اعراض کرنے والوں میں سے ہے جو وہ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے پوچھا نہیں جا سکتا[17]

اس کے بعد اس نے براہ راست اپنے معبود ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ اگر آج باب شیرازی آجائے تو وہ بھی کہے گا کہ میں اس کا پہلا عبادت گزار ہوں[18]۔

بہاء اللہ یہاں تک معاذ اللہ کہتا ہے کہ جس نے میرا عرفان حاصل کیا اُس نے تمام اُمیدوں کا مقصود پہچان لیا اور جس نے میری طرف توجہ کی اس نے سب کے معبود کی طرف توجہ کی اسی کتاب میں تفصیل بیان کی گئی ہے اور اسی طرح خدائے رب العالمین نے حکم دیا ہے[19]۔

بہاء اللہ کے یہ تمام دعاوی اور عقائد ثابت کرتے ہیں کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے برعکس اس نے توحید شان انبیاء علیہم السلام اور ختم نبوت کا نہ صرف مذاق اُڑایا بلکہ خود نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے یہاں تک جسارت کی کہ ربوبیت اور الوہیت کا دعویدار بن بیٹھا جو کہ سراسر کفر اور شرک ہے۔

بہائی تعلیمات

بہاء اللہ نے جو خودساختہ دین پیش کیا اس میں پانچ ارکان و تعلیمات بہت نمایاں ہیں:

۱۔وحدت ادیاں۲۔وحدت لسان۳۔وحدت اوطان

۴۔مساوات مرد وزن۵۔امن عالم بذریعہ ترک جہاد

بہاء اللہ کی تالیفات

مرزا حسین علی مازندارانی کا دعویٰ ہے کہ اس نے کئی کتابیں لکھی ہیں، لیکن حقیقت میں اکثر کتابیں چند اور اق پر مشتمل ہیں۔ جنہیں الواح کا نام دیا گیا۔ اکثر الواح ایک دو صفحات پر مشتمل ہیں اس کے معروف رسالوں کے نام درج ذہل ہیں۔

۱۔کتاب اقدس۲۔الرسالہ السلطانیہ۳۔لوح احمد

۴۔لوح علی۵۔سورۃ الامیں۶۔لوح طرازا

۷۔بشارات۸۔تجلیات۹۔سورۃ الملوک

ان کتابوں میں اکثر سرقات ہیں ان میں" کتاب اقدس" زیادہ مشہور ہے، جس کو موصوف نے تمام کتب سماویہ بشمول قرآن کریم کی ناسخ کتاب قرار دیا ہے۔ بہائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بہاء اللہ کی کتب اور خصوصا کتاب اقدس منزل میں اللہ ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں جا بجا قرآن کریم کی آیات اور احادیث کو کانٹ چھانٹ کر لکھا گیا ہے، بلکہ بعض مقامات پر تو قرآن کریم ہی کا مضمون ہو بہو نقل کر کے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اہل بہاء کتاب اقدس کو تمام کتب سے افضل بتاتے ہیں۔ اس میں درج ہے:

من یقرأ أية من آیاتي لخیر له من یقرأ کتب الا ولین والاخرین[20]۔

جس نے میری کتاب کی محض ایک آیت کی تلاوت کی اولین و آخرین کی تمام مقدس کتابوں کی تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔

صحیح تر عبارت لخیر له ممن یقرء آنا چاہیئے تھا جبکہ کتاب اقدس میں من یقرئ آیا ہے۔ یہ کمزوری اس کا کلام انسانی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

ایک اور مقام پرتحریر ہے:

’’یہ کتاب ہے جو تمام عالم کے لئے مصباح القدم ہے اور تمام عالمین کیلئے اس کا صراط مستقیم اور نہ بھٹکانے والا راستہ ہے، کہہ دو یہ مطلع علم الہیٰ ہے اگر تم ان میں سے ہو جو سمجھتے ہیں[21] ‘‘

کتاب اقدس کے اکثر احکامات سے واضح ہوتا ہے کہ حسین علی (بہاء اللہ) نے اپنی کتاب الاقدس کو آسمانی والہامی کتاب ثابت کرنے کے لئے اکثر و بیشتر قرآن کریم سے خوشہ چینی بلکہ سرقہ کیا ہے۔ اصل مضمون قرآن سے لیکر اس میں اپنی طرف سے تحریف ، رد و بدل اور کمی بیشی کی ہے۔ تاکہ کتاب اقدس اور بہائی شریعت کی ایک الگ امتیازی شکل بطور مذہب برقرار رہے۔ مثلا نماز ، روزہ، زکوۃ، حج ، وضو، نکاح ، وراثت، نفاست وصفائی اور اتحاد وغیرہ کے احکامات میں اس نے یہی (کمی بیشی والا) فارمولا اختیار کیا ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے:

اسلامی شریعت میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ بہاء اللہ نے اہل بہاء کے لیئے تین نمازیں مقررکیں ۔ کتاب اقدس میں درج ہے:

’’منزل آیات خدا کے حضور ہم نے تم پر نو رکعت نماز فرض کی ہے جو زوال کے وقت ، صبح اور شام کو ادا کی جائے۔ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ہم نے زیاد تعداد معاف کردی [22]‘‘۔

نیز دوران سفر اسلامی شریعت نے نماز میں قصر کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ بہاء اللہ نے لوگوں کی سہولت پسندی کو بنیاد قرار دیکر اس میں اس حد تک آسانی کر دی جس سے عبادت کی اہمیت اور معبود کے ساتھ تعلق وعشق بالکل معدوم ہو جاتا ہے۔ الاقدس میں لکھتا ہے : ’’دوران سفر جب تم کسی محفوظ مقام پر رکو اور آرام کرو تو تم مرد ہو یا عورت ہر قضائ نماز کی جگہ ایک سجدہ کرو اور اس مٰیں یہ آیت پڑھو: سبحان الله ذی العظمةوالاجلال والموهبة والا فضال اور جو یہ پڑھنے سے قاصر ہو وہ صرف سبحان اللہ کہہ دے تو یقیناً یہ اس کے لئے کافی ہو گا‘‘[23]۔

اس کے علاوہ نماز جنازہ میں بھی اس نے اسلامی شریعت سے سرقہ کر کے اس میں ذاتی رنگ بھرا ہے۔ شریعت اسلامی میں نماز جنازہ کے دوران چار تکبیرات ہوتی ہیں جبکہ کتاب اقدس میں چھ تکبیرات کا ذکر ہے۔ اس میں لکھا ہے:

"منزل آیات خدا کی طرف سے سے نماز جنازہ میں چھ تکبیرات نازل ہوئی ہیں[24]۔"

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب اقدس پر اسلامی تعلیمات کا اثر بھی ہے لیکن اس میں بہاء اللہ نے جان بوجھ کر اصل شکل کو تبدیل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام میں میت کو غسل دے کر کفن دینے کے بعد دفن کیا جاتا ہے جبکہ بہاء اللہ نے اسی سے سرقہ کر کے اس میں پائیدار لکڑی کے تابوت کا بھی اضافہ کر لیا۔ کتاب اقدس میں ہے:

"اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میت کو بلور، سخت اور دیرپا پتھر یا لفیف پائیدار لکڑی کے تابوت میں رکھ کر دفن کرنا چاہیے اور ان کی انگلیوں میں منقوش انگشتریاں ڈالنی چاہیئے[25]۔ "

نیز میت کی انگشتریوں پر اگر یہ آیت کندہ کی جائے تو یہ ان کیلئے بہتر ہوگا۔ قد بدئت من الله و رجعت الیه منقطعاً عما سواه و متمسکا باسمه الرحمٰن الرحیم[26]۔

"میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس کے سوا سب سے منقطع ہوں اور اس کے رحمٰن اور رحیم نام سے متمسک ہوں۔ "

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہاء اللہ نے قرآن کریم کے درج ذیل آیت کو چرا کر صرف الفاظ کو تبدیل کیا ہے۔

منها خلقنکم وفیها نعید کم ومنها نخر جکم تارةاُخری[27]

اسی زمین سے ہم نے تم کو بنایا اور اسی میں تم کو پھر پہنچا دیتے ہیں۔ اور اسی سے نکالیں گے تم کو دوسری بار۔

زکوٰۃ میں بھی اس نے اسلامی شریعت کے احکام میں رد و بدل کر کے اپنی طرف سے احکام دیئے ہیں مثلاً نصاب میں الگ معیار قائم کیا ہے۔ یعنی جوُ انیس مثقال سونے کا مالک ہو وہ زکوۃ ادا کر یگا۔ کتاب اقدس میں روزہ کا حکم اور عید کا ذکر بھی موجود ہے لیکن اس کے احکام و مسائل میں انتہائی سہولت پسندی سے کام لیا ہے۔ اسلامی شریعت کا جو روزہ ہے اس میں ترمیم و تبدیلی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعداد میں بھی کمی کی ہے۔ چونکہ بہائیت میں مہینہ انیس دن کا ہوتا ہے لہذا بہائی روزہ صرف انیس ایام پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کی عید ، عید نوروز کہلاتا ہے۔ کتاب اقدس میں لکھا ہے۔ "اے اہل عالم ! ہم نے تم پر معدود ایام کے روزے فرض کیے ہیں اور ان کی تکمیل کے بعد ہم نے نوروز کو تمہارے لئے عید بنایا ہے[28]۔"ظاہر ہے کہ عید نوروز میں بہائیت نے اہل تشیع کی نقل اتاری ہے۔

حج کے احکام میں بھی کتاب اقدس نے قرآن کریم سے نقل کر کے اس میں اپنی طرف سے تحریف کی ہے۔ بہائیت میں حج صرف صاحب استطاعت پر ہے۔ کتاب اقدس میں ہے:

"اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تم میں سے جو استطاعت رکتھا ہے وہ حج بیت مبارک ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے طور پر عورتوں کو اس سے معافی دے دی ہے[29]۔"

صاحب استطاعت پر حج کی فرضیت کا حکم تو قرآن کریم سے چرایا ۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ولله علی الناس حج البیت من استطاع الیه سبیلا[30]

"اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر (بیت اللہ) کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی۔ "

البتہ عورتوں کو اس سے مستثنی کر کے اس نے اسلام کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیز ان کا مقام حج بھی مسلمانوں سے الگ ہے، یعنی عکا ئ شہر۔ دیگر احکام کی طرح مقدس مقامات کا تصور بھی بہاء اللہ نے اہل اسلام سے لیا ہے۔ مسلمانوں کے دو مقدس مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہیں۔ بہاء اللہ نے بھی اپنی نام نہاد شریعت میں دو مقامات کو قرار دیا ہے جو کہ اہل اسلام کے مقدس مقامات کے علاوہ الگ مقامات ہیں۔ کتاب اقدس سے ملحقہ نوٹ میں لکھا ہے:

"حضرت بہاء اللہ دو بیوت مبارکہ کی نشاند ہی فرماتے ہیں۔ ایک بغداد میں آپ کا بیت مبارک ہے جسے آپ نے بیت اعظم کا نام دیا ہے اور دوسرا شیراز میں حضرت باب کا بیت مبارک ہے۔ ان دونوں بیوت مبارکہ کو آپ نے مقامات مقدس مقرر فرمایا ہے[31]۔ "

ان تمام احکام و مسائل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہاء اللہ نے کتاب اقدس میں کوئی نئی شریعت نہیں دی بلکہ دیگر مذاہب اور خصوصاً اسلام سے سرقات نقل کر کے اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی اور توڑ مروڑ کر کے اس کا حلیہ بگاڑ ااور اس کو ایک نئے اور مکمل دین کا نام دیا ہے۔ مزید چند احکام درج ذیل ہیں:

بہائیت میں دو بیویوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ کتاب اقدس میں درج ہے:

"خبردار ! تم دو سے زیادہ بیویاں نے کرنا[32]۔"

یہاں بھی کتاب اقدس نے قرآن سے نقل کی ہے لیکن چونکہ بہاء اللہ ایک نئے دین اور کامل شریعت کا دعویدار ہے اس لئے یہاں بھی حسب عادت تبدیلی کر کے چار کی بجائے دو بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اسلام میں چار بیویوں تک کی اجازت ہے بشرطیکہ ان میں عدل قائم رکھا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔

فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنیٰ وثلٰث وربٰع [33]

"نکاح کر لو جو اور عورتیں تم کو خوش آویں دو دو اور تین تین اور چار چار ۔"

مہر کی ادائیگی میں بھی بہاء اللہ نے قرآن سے سرقہ کر کے حکم میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے۔ قرآن میں مسلمانوں کو اپنی بیویوں کا مہر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وا ٰتواالنساء صدقٰتهن نحلة[34]

"اور دے ڈالو عورتوں کو مہران کا خوشی سے ۔"

لیکن اس کی مقدار مقرر نہیں کی بلکہ نکاح کرنے والے کی مالی حیثیت اور فریقین کی رضا مندی پر چھوڑا ہے۔ کتاب اقدس میں بھی مہر کو نکاح کیلئے لازم قرار دیا ہے لیکن اس کی ادائیگی کے لئے مقدار مقرر کر کے بہاء اللہ نے اسلام کی خلاف ورزی کی ہے۔ کتاب اقدس میں ہے:

"شہر کے باشندوں کے لئے (مہر) انیس مثقال خالص سونا اور دیہات کے باشندوں کے لئے انیس مثقال چاندی مقرر ہے[35]۔ "

کتاب اقدس میں سوتیلی ماں کے ساتھ ازدواج کی ممانعت آئی ہے۔ یہ حکم بعینہ قرآن سے لیا گیا ہے۔ قرآن میں ارشاد خداوندی ہے۔

حرمت علیکم اُمهتكم[36]

"تمہاری لئے تمہاری مائیں (نکاح میں لیان) حرام ہیں۔ "

کتاب اقدس میں بھی یہی مضمون نقل کیا ہے:

"تمہارے لئے اپنے آبائ کی بیویوں سے ازدواج ممنوع ہے[37]۔"

کتاب اقدس میں ضیافت کو قبول کرنے کا حکم ہے۔ اس میں لکھا ہے۔

"جب تمہیں کسی ضیافت یا تقریب میں دعوت دی جائے تو اسے فرحت و انبساط کے ساتھ قبول کرو[38]۔"

یہ مضمون بھی اس حدیث سے نقل ہے جس میں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک الله کہنا [39]۔

ایک دوسری روایت میں آنا ہے کہ: جب کوئی بھائی تمہارا تمہیں دعوت دے کر بلاوے تو چاہیئے کہ اس کی دعوت قبول کر لیوے خواہ ولیمہ ہو یا مثل ولیمہ کے کچھ اور ہو[40]۔

کتاب اقدس میں اجازت لئے بغیر ، کسی کےمکان میں داخل ہونے کی مما نعت آئی ہے ا سمیں لکھا ہے:

"خبر دار ! تم مالک مکان کی عدم موجودگی میں اس کے مکان میں اس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہونا[41]۔ "

یہ مضمون بھی قرآن عظیم الشان کے مضمون کے متشابہ ہے اس میں ارشاد ہے:

"اے ایمان والو! مت جایا کرو کسی گھر میں اپنے گھروں کے سوائے جب تک بول چال نہ کرلو، اور سلام کر لو اُن گھر والوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اگر نہ پاؤ اُ س میں کسی کو تو اُس میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ ملے تم کو [42]۔ "

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہاء اللہ نے یہاں بھی قرآن سے براہ راست نقل کیا ہے۔ بہائیت میں اتحاد کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ کتاب اقدس میں درج ہے:

"خبردار! ایسانہ ہو کہ نفس و ہوا کی ترغیبات تمہارے درمیان فرقے پیدا کر دیں ۔ ایک ہاتھ کی انگلیوں کی طرح اور ایک بدن کے اعضاء کی طرح رہو[43]۔ "

یہاں بھی بہاء اللہ نے قرآن کریم اور حدیث نبویﷺ کی نقل اتاری ہے، صرف الفاظ کی ہیر پھیر کر کے بات کو اپنی طرف اور اس حکم کو نئے دین یعنی بہائیت کی طرف منسوب کی ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا[44]

"اللہ کی رسی کو سارے مل کر مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ "

نیز حدیث شریف میں آتا ہے کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد و شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کی اعضائ میں سے کسی عضو کو کو ئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہ آئے اور بخار چڑھ جانے میں اس کا شریک ہو جاتا ہے[45]۔

کتاب اقدس میں جوئے اور افیون استعمال کرنے کی مانعت آئی ہے۔ اس میں لکھاہے :

"تم پر جوا اور افیون کا استعمال حرام کیا گیا ہے۔ اے لوگوں ! ان دونوں سے اجتناب کرو اور تجاوز کرنے والوں میں سے نہ بنو[46]۔"

اس مضمون کو قرآن کریم سے سرقہ کر کے اپنے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"اے ایمان والو! یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو[47]۔ "

نیز عقل متاثر کرنے والی تمام اشیائ کو ممنوع قرار دیا ہے، کتاب اقدس میں درج ہے:

"انسان کے لئے جسے عقل عطا کی گئی ہے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایسی چیز کھائے جس سے عقل گم ہو جائے[48]۔"

حدیث میں بھی آیا ہے:

کل مسکر حرام فدعوه[49]

ہر نشہ آور چیز حرام ہے پس اسے چھوڑ دو۔ "

جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب اقدس پر قرآن عظیم الشان اور اسلامی تعلیمات کا نمایاں اثر ہے لیکن یہ اثر اس نے مثبت انداز میں نہیں لیا بلکہ اسکی تعلیمات کو اپنے معانی و مفہوم کا جامہ پہنا کر نئے انداز میں ترمیم کے ساتھ پیش کیا ہے اور پھر انہیں اپنی طرف منسوب کیا ہے جسے علمی سرقہ کہا جاتا ہے۔

حدود اور تعزیرات کے حوالے سے بھی بہاء اللہ نے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کر کے عوام کے مزاج کے مطابق اس میں تبدیلی کی ہے اور بہائیت میں شامل کیا ہے۔ مثلاً چور کی سزا اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیهما[50]

"چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ۔"

لیکن بہاء اللہ نے اس میں تبدیلی کر کے چور کو جلاوطن کرنے، قید کرنے اور تیسری بار چوری کرنے پر پیشانی پر داغ لگانے کی سزا دینے کا حکم دیا ہے[51]۔

کتاب اقدس میں درج ہے:

"چور کے لئے جلاوطنی اور قید کی سزا ہے۔ تیسری بار جرم کرنے پر تم اس کی پیشانی پر ایک نشان لگاؤ[52]۔"

چور کی سزا سے متعلق بہائیت کا جائزہ

حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جلاوطنی اس کا علاج نہیں ۔ چوری ثابت ہونے پر تو اپنے علاقے اور ملک کے لوگ اس کو پہچان سکیں گے لہذا لوگ اس سے اپنے مال و اسباب کی حفاظت با آسانی کر سکیں گے اور اس پر اب اعتماد نہیں کریں گے۔ مزید یہ کہ اپنے علاقے اور برادری والوں میں شرمساری کی وجہ سے اس کا ضمیر اسے ملامت کریگا اور اپنے کھوئے ہوئے ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کا امکان بھی موجود ہے۔ لیکن اگر دوسرے ملک یا علاقے میں جلاوطن کیا جائے تو اجنبی ہونے کی وجہ سےلوگ اس کی پہچان نہ کر سکیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اس اجنبیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں بھی اپنے عمل بد (چوری) کرنے پر کمر بستہ ہوجائے۔ مزید یہ کہ کتاب اقدس میں جلاوطنی ، قید کرنے اور تیسر ی بار جرم ثابت ہونے پر پیشانی کے اوپر نشان لگانے کا حکم ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ چوری پر جلاوطن کرنے کی سزا ہے اور دوسری دفعہ چوری کرنے پر قید کرنے کی سزا ہے۔

اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ چوری کرنے پر چور کو جب جلاوطن کیا جائے تو پھر قید کرنے کی کیا معنی؟ اس لئے کہ چور تو جلاوطن کیا گیا ہے، اب کس کو قید کریں گے؟ اور کس کی پیشانی پر نشان لگائیں گے؟ پھر نشان لگانے کی صراحت بھی نہیں کی گئی اس لئے کہ بعض نشانات تو کچھ عرصہ بعد مٹ جاتے ہیں۔

اصل تو یہ ہے کہ اس کے خلاف تادیبی کاروائی کر کے باقاعدہ سزا دی جائے تاکہ سارے لوگ اس کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور یہ خود بھی ہمیشہ کے لئے باز آجائے صرف پیشانی پر نشانی لگنے سے تو چور، چوری سے نہیں رُکتا اسلئے کہ چوری تو وہ چپکے سے کریگا، جس میں وہ اپنی پیشانی کانشان تو کیا، پورا چہرہ چھپائے گا۔ عین ممکن ہے کہ وہ چوتھی دفعہ بھی چوری کرے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس بار بار چوری کی جرات اس لئے ہوتی ہے اکہ ابتدائ ہی میں اس کے لئے کوئی مناسب اور مثالی و عبرتناک سزا مقرر نہیں ہے۔ ورنہ اگر پہلی دفعہ چوری کرنے پر اس کو عبرتناک سزا دی جائے تو آئندہ چوری کرنے کا امکان بہت کم رہے گا، اور دوسرے بُرے لوگ بھی تنبیہ پکڑ لیں گے۔ اسلامی شریعت اس مقام پر نہایت ہی مفید اور انسانیت کےلئے یقینی تحفظ فراہم کر کے مکمل راہنمائی کا حق ادا کرتا ہے، اور حکم دیتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائےچاہے چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت ارشاد ہوتا ہے:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا[53]

"چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت ، دونوں کے ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ "

ہاتھ کاٹنے پر وہ دوبارہ چوری کی کوشش نہیں کر یگا بلکہ نہیں کر سکے گا۔ اس لئے کہ ایک طرف ہاتھ کاٹا گیا ہے اور دوسری طرف اس کی نشاندہی کرنا بھی نسبتا آسان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مقام پر کتاب اقدس میں درج ہے :

"خبردار ! ایسا نہ ہو کہ شفقت و رحم کی بدولت تم اللہ تعالیٰ کے دین کے احکام پر عمل کرنے میں غفلت کرو اس پر عمل کرو جس کا تمہیں مشفق و رحیم خدا کی طرف سے حکم دیا گیا ہے[54]۔ "

اصحاب عقل سمجھتے ہیں کہ جہاں چوری ثابت ہونے پر سزا کی حد جاری کرنے کا خدائی حکم پورا کرنے کا کہا جارہا ہو وہاں پر اللہ تعالیٰ کی شفقت اور رحم والے صفاتی ناموں کا ستعمال کرنابے محل معلوم ہوتا ہے۔ یہاں پر تو عزیز، غالب ، شدید العقاب ، عزیز ذوانتقام وغیرہ جیسے صفاتی ناموں کا استعمال زیادہ مناسب لگتا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اقدس خدائی کتاب نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو ایک انسان اللہ کے کلام میں غلطیاں ہر گز نہ نکال سکتا۔

اسی طرح زانی اور زانیہ کے لئے اسلام میں رجم کرنے یا کوڑے لگانے کا حکم ہے۔قرآن میں ارشاد ہے:

الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ[55]

" زانی عورت اور زانی مرد، ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو ان کے سلسلہ میں ترس کھانے کا جذبہ دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ پر اور روزہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ اور چاہیے کہ مومنوں کا ایک گروہ ان کی سزا کا مشاہدہ کرے۔ "

لیکن کتاب اقدس نے یہاں بھی تخفیف کر لی اور بیت العدل میں صرف دیت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

کتاب اقدس میں درج ہے :

"اللہ نے ہر زانی مرد اور زانی عورت کے لئے بیت العدل میں دیت ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو سونے کے نو مثقال ہیں۔ اگر وہ دوبارہ اس جرم کا ارتکاب کریں تو دو گنی سزا ہے[56]۔"

زانی کے حکم کا جائزہ

زانی مرد و عورت کو بطور سزا و جرمانہ صرف دیت بیت العدل کو ادا کرنے کا حکم ہے۔ اور دوبارہ اس کا ارتکاب کرنے پر دو گنی قیمت بطور جرمانہ ادا کرنی ہو گی۔ اس کے علاوہ بطور عبرت اور تادیب اور زانی /زانیہ کی حوصلہ شکنی کے لئے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ گویا مالداروں کو اس کی اجازت اور سہولت دی گئی اس لئے کہ ناجائز خواہش پوری کرنے پر صرف فیس بطور جرمانہ اور دیت کے اد اکرنا ہے۔ غریب تو رقم کی کمی کی وجہ سے نہہیں کر سکتا لیکن مالداروں کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ جب اس بدفعلی کی صورت میں بیت العدل کو مالی فائدہ پہنچ رہا ہے تو وہ کیونکر اس کے تدارک کا انتظام کرے بلکہ وہ تو اس پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کر کے بیت الظلم کا کردار ادا کریگا۔ آسمانی شریعت اس عمل قبیح پر محض مالی سزا کا متحمل ہر گز نہیں ہو سکتی۔

شکار کھیلنے میں بہاء اللہ کو (اپنے زعم کے مطابق) قرآن سے بہتر حکم کہیں نہیں ملا لہذا اس کے متعلق مضمون میں رد و بدل اور توڑ مروڑ کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی محض الفاظ کی تبدیلی سے قرآن ہی کا مضمون بیان کر کے کتاب اقدس میں شامل کر دیا۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ[57]

"تم کو حلال ہیں ستھری چیزیں اور جو سدھاؤ شکاری جانور شکار پر دوڑانے کو کہ ان کو سکھاتے ہو اس میں سے جو اللہ نے تم کو سکھایا ہے، سو کھاؤ اس میں سے جو پکڑ رکھیں تمہارے واسطے اور اللہ کا نام لو اس پر۔ "

اس مضمون کو کتاب اقدس میں یوں لکھا ہے:

"جب تم شکاری جانوروں یا پرندوں کے ذریعے شکار کرو تو جب تم ان کو شکار پر چھوڑو تو اللہ کا ذکر کروتب وہ جو پکڑیں تمہارے لئے حلال ہو گا اگرچہ تم اس کو مردہ پاؤ[58]۔"

ان تمام مذکورہ احکامات سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اقدس لکھنے میں بہاء اللہ نے مذہبی کتابوں اور خصوصا اسلام اور قرآن کا خوب مطالعہ کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ اس نے سمجھ اور ہدایت کے حصول کے لئے نہیں لیا بلکہ اپنی باطل مذہبی کتاب (کتاب اقدس )لکھنے کے لئے سرقہ کیا ہے۔ اور قرآن کی یہ خاصیت ہے کہ:

يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ[59]

"اللہ اس کے ذریعے بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور بہتوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور گمراہ نہیں کرتا اس سے مگر بدکاروں کو۔ "

نیز قرآن میں یہ بھی ارشاد ہے:

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ[60]

"سو خرابی ہے ان کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے پھر کہہ دیتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ لیویں اُس پر تھوڑا سا مول۔ سو خرابی ہے ان کو اپنے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ہے ان کو اپنی کمائی سے۔"

اس کے علاوہ بہاء اللہ کی کتاب لوح ابن ذئب سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امی نہیں تھا۔ (جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے) بلکہ اس نے شیعہ کتب، قرآن کریم اور دیگر مذاہب کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ لوح ابن ذئب میں اس نے قرآن کریم کے علاوہ عیسائیت وغیرہ کے حوالے بھی دیئے ہیں۔ قرآن کریم سے چند ایک سرقات درج ذیل ہیں:

"موسیٰ علیہ السلام شہر میں وہاں کے باشندوں سے بے خبری کی حالت میں داخل ہوا تو دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے پایا ۔ ایک اس کی قوم کا تھا اور دوسرا اس کا مخالف۔ اس کی قوم کا آدمی جو تھا ،اس نےموسیٰ علیہ السلام سے اپنے دشمن کے مقابلے میں مدد طلب کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ایک گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ شیطانی کام ہے ، بیشک وہ دشمن اور کھلا ہوا گمراہ کنندہ ہے۔ اور کہا کہ اے پروردگار میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے سو مجھے بخش دے۔ سو خدا نے بخش دیا، یقیناً وہ غفور و رحیم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار تو نے مجھ پر اپنا انعام فرمایا ہے میں ہر گز کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا پھر موسیٰ علیہ الاسلام شہر کے اندر خوف ورجا کی حالت میں نکلا تو جس شخص نے کل آپ سے مدد طلب کی تھی وہ پھر موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے چلا کر پکار رہا تھا موسی علیہ السلام نے کہا تو بھی بڑا ہی کجرو آدمی ہے۔ سو جب موسیٰ علیہ السلام نے اردہ کیا کہ پھر اپنے دشمن کو پکڑے ، تو وہ بولا اے موسیٰ علیہ السلام تو چاہتا ہےکہ جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا، مجھے بھی قتل کر دے تو یہی چاہتا ہے کہ زمین پر ستمگار بنے اور اہل اصلاح میں ہونا پسند نہیں کرتا[61]۔"

درحقیقت یہ سارا مضمون قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے لیا گیا ہے:

وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَذَا مِنْ شِيعَتِهِ وَهَذَا مِنْ عَدُوِّهِ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَى فَقَضَى عَلَيْهِ قَالَ هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبِينٌ قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِلْمُجْرِمِينَ فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا يَتَرَقَّبُ فَإِذَا الَّذِي اسْتَنْصَرَهُ بِالْأَمْسِ يَسْتَصْرِخُهُ قَالَ لَهُ مُوسَى إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَنْ يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَهُمَا قَالَ يَا مُوسَى أَتُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ إِنْ تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ[62]

ایک اور مقام پر لکھا ہے اللہ تعالی تبارک کا قول ہے :

" خدا وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند فرمایا جو تمھاری نظروں کے سامنے ہیں پھر و ہ عرش پر جلوہ گر ہوا اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ۔ سب کے سب ایک وقت مقررہ کیلئے جاری ہیں۔"

آگے لکھتا ہے:

"اور اسی طرح فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے کہا جب ہم زمین میں کھو جائیں گے کیا ہم پھر نئی خلق میں ہوں گے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں[63]۔"

یہ مضمون قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے نقل کیا گیا ہے:

وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ[64]

اور ایسے ہی لکھتا ہے :

"جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی آرزونہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی قرآن لے آ، یا اسے بدل دے ۔کہہ دے مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں ۔ میں اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نا فرمانی کروں تو میں یو م عظیم کے عذاب سے ڈرتا ہوں[65]۔"

دراصل یہاں بھی قرآن کی سورۂ یونس کو نقل کیا ہے ۔ آیت درج ذیل ہے :

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ[66]

اور اسی طرح لکھتا ہے:

" کیا تجھے موسیٰ علیہ السلام کی خبر پہنچی جب اس نے آگ دیکھی تو اپنے اہل سے کہا کہ ذرا ٹھہرو مجھے آگ نظر آئی ہے میں اس میں سے تمہارے لئے انگار لے آؤں یا آگ کے اوپر رہنمائی پاؤں ۔ جب وہ پاس آیا آواز آئی : اے موسی علیہ السلام میں تیرا پروردگار ہوں اپنی جوتیاں اتار دے تو مقدس میدان طویٰ میں ہے میں نے تجھے اپنا مقبول بنایا، سو جو وحی کی جاتی ہے اسے سن کہ میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری عبادت کر[67]۔"

یہ مضمون بھی قرآن کی سورہ طہٰ کی درج ذیل آیات سے نقل کیا ہے:

وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَى إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي[68]

اور اسی طرح لکھتا ہے:

"یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدائی نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور خدا تو اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگرچہ منکر لوگ برا مناتے ہیں[69]۔"

یہ مضمون بھی دراصل سورہ الصف کی درج ذیل آیت کا ترجمہ ہے :

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ[70]

درجہ بالا مضامین واقتباسات بعینہ قرآن پاک سے لئے گئے ہیں، جس سے ایک طرف بہاء اللہ کے امی ہونے کی تردید ہوتی ہے اور دوسری طرف اسکی تصانیف میں قرآن کریم سےسرقہ ظاہر ہوتا ہے،جسے موصوف نے اپنی ذاتی غرض اور من گھڑت وفاسد افکار کی ترویج کے لئے استعمال کیا ۔

حفاظت قرآن کی پیشن گوئی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[71]

"بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے اتاری اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ "

واقعی آج قرآن کا ایک ایک حرف صحیح تلفظ کے ساتھ محفوظ ہے۔

قرآن مجید کی جمع و تدوین اور اشاعت و تشریح کی پیشن گوئی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ [72]

"(اے محمد ﷺ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کرو اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو، پھر اس ( کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔"

شاہ ولی اللہ[73] اس آیت کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں:

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ کے معنی یہ ہیں کہ مصاحف میں قرآن شریف کو جمع کرنے کا وعدہ ہم پرلازم ہے۔ اور وَقُرْآنَهُ کا مطلب یہ کہ آ نحضرت ﷺ کی امت کے قاریوں اور عام لوگوں کو اس کی تلاوت کی توفیق دیں گے تاکہ سلسلہ تو اتر ٹوٹنے نہ پائے۔ اور خدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپﷺ اس کی فکر نہ کریں کہ قرآن آپ ﷺ کے دل سے فراموش ہو جائیگا ۔ اس لئے اس کے رٹنے کی مشقت بھی نہ اُٹھایئے ۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قرآن کے رٹنے کی مشقت نہیں اٹھانی پڑی جو عام مسلمانوں کو اٹھانی پڑتی ہے۔ صرف تلاوت، جبرائیل کے ذریعہ ہی قرآن خاطر مبارک میں متمکن ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا کہ ہم نے اپنے اوپر اس چیز کو لازم کر لیا ہے جو آپﷺ کی تبلیغ کے بہت بعد کی چیز ہے۔ یعنی قرآن کا مصاحف میں جمع ہونا اور امت کے عوام و خواص کا اسے پڑھنا۔ پس اپنے دل کو اس کی حفظ کی مشقت میں نہ لگائیے بلکہ جب ہم جبرائیل کی زبان سے تلاوت کریں تو آپﷺ اسے غور سے سننے کا اہتمام کریں اس کے بعد قرآن کی توضیح و تشریح ہماری ذمہ داری ہے۔ جس کے لئے ہم ہر زمانے میں ایک جماعت کو قرآن کے مشکل الفاظ کے شرح اور سبب نزول کے بیان کی توفیق دیں گے کہ وہ حکم قرآن کا مصداق و مطلب بیان کریں۔ اور یہ کام بھی آپﷺ کے حفظ و تبلیغ قرآن کے بعد کا ہے کیونکہ قرآن کی آیات ایک دوسرے کی مشابہ ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ قرآن عظیم کے بیان کرنے والے ہیں۔

حفظ قرآن کا وعدہ حق اس طرح ظاہر ہوا کہ اسے لوگ مصاحف میں جمع کرتے ہیں اور مشرق و مغرب کے مسلمان شب و روز اس ک تلاوت کی توفیق پاتے ہیں۔ یہی مطلب ہے اس عبارت کا کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اسے پانی نہ مٹا سکے گا۔ جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ کو ایک جگہ لانا اور ثُمَّ کے بعد (جوتا خیر ظاہر کرتا ہے) ’’بیان‘‘ کہنا یہ بتاتا ہے کہ جمع قرآن کے وقت اس کی تلاوت کو شوق بھی عام ہو گیا تھا اور اس کی تفسیر بعد میں ہوئی اور عملا بھی ایسا ہی ہوا۔[74]

صلح حدیبیہ کی کامیابی اور فتح مکہ کی پیشن گوئی

قرآن میں ارشاد بار تعالیٰ ہے:

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا[75]

"(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو صریح و صاف فتح دی۔ "

تاریخ گواہ ہے کہ مکہ معظمہ بھی مسلمانوں نے فتح کیا اور عام فتوحات کی طرح شہر پر قبضہ نہیں کیا بلکہ اہل مکہ کے دلوں پر قبضہ کیا اور دیرینہ دشمنیاں گہری دوستیوں میں تبدیل ہو گئیں۔ اور ثابت ہو گیا کہ اس کا پیش خیمہ دراصل صلح حدیبیہ تھا۔ اس سے قرآن عظیم الشان کی علوئے مرتبت اور عالی شان کا اظہار ہوتا ہے۔

آئندہ غنائم اور فتوحات کی پیشن گوئی

قرآن نے یہ پیشن گوئی بھی دی:

وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا[76]

"خدا نے تم سے بہت سے غنیمتون کا وعدہ فرمایا کہ تم ان کو حاصل کرو گے، سو اس نے غنیمت کی تمہارئے لئے جلدی فرمائی۔

آگے ارشاد ہے:

وَأُخْرَى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا[77]

"اور (غنیمتیں) جن پر تم قدرت نہیں رکھتے تھے اور وہ خدا ہی کی قدرت میں تھی۔ "

تاریخ گواہ ہے کہ کہ دور فاروقی اور دور عثمانی کی عظیم الشان اسلامی فتوحات، ان کے خزانوں کے انبار مسلمانوں کو بطور غنیمت ملنا اور قیصرو کسری کی شہزادیاں اور ملکے مسلمانوں کی لونڈیاں بنیں، جس سے قرآن کی پیشن گوئی پوری ہوئی۔

مسجد حرام میں دخول کی پیشن گوئی

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پیشگی فرمایا تھا :

لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ[78]

"خدا نے چاہا تو تم مسجد حرام میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتر واکر امن ومان سے داخل ہو گے۔ "

واقعی یہ پیشن گوئی بھی حرف بہ حرف صیحح ثابت ہوئی۔ جن سے واضح طور پر یہ نیتجہ نکلتا ہےکہ قرآن واقعی کلام الہی ہے ۔ یہ انسانی کلام نہیں ہوسکتا۔

اس کے برعکس ذرا ایک نظر کتاب اقدس پر بھی ڈالیئے جو حسین علی مازندرانی (بہاء اللہ) کی شاہکار ہے، اور جس کو وہ منزل من اللہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس میں کوئی پیشن گوئی بھی نہیں کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ احتیاط ایک انسان ہی اپنے کلام میں کرتا ہے کہ وہ آئندہ کے حالات و واقعات کے علم سے عاجز ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ کتاب اقدس کسی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے بلکہ انسانی ہاتھ کی تحریر ہے، جو غلطیوں اور نقائص سے پاک ہو ہی نہیں سکتی۔

ظاہر ہے کہ تو رات و انجیل جو آسمانی کتابیں ہیں لیکن آسمانی حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے انسانی تحریف سے محفوظ و مامون نہ رہ سکیں اور ان کی وقتی تعلیمات، قرآن کے ابدی تعلیمات کا ہر گز مقابلہ نہیں کر سکتیں جس کا اقرار خود غیر متعصب غیر مسلموں نے کیا ہے۔ تو کتاب اقدس جو زمینی کتاب ہے اور جو ایران کے رہنے والے حسین علی مازندارنی (بہاء اللہ)کی لکھی ہوئی ہے۔ وہ کیونکر قرآن کے کسی ایک جزو کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ خالق خالق ہوتا ہے اور مخلوق مخلوق۔ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ[79]

"اس کی مثل کوئی شے نہیں۔"

دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی مخلوق بھی ذات وصفات میں اللہ تعالیٰ کے مشابہ اور ہمسر نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ اس سے بہتر۔ اسی طرح دنیا والوں میں کسی کا کلام بھی اللہ تعالیٰ کے کلام کے ہر گز برابر نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ اس کے کلام سے بہتر ۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو مخلوق کے کلام پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے[80]۔

قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں سے سب سے آخری کتاب اور ان سب کا مصدق اور نگران ہے تو اس کی شان دوسری آسمانی کتابوں سے بالکل مختلف ہے اور اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت اور ہر قسم کی تحریف و تبدیلی ، کمی و زیادتی سے دور رکھنے کا ذمہ لیا اور فرمایا:

وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ[81]

"یہ تو ایک عالی مرتبت ہے اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے سے (اور ) دانا (اور) خوبیوں والے (خدا) کی اتاری ہوئی ہے۔ "

حوالہ جات

  1. حواشی و مصادر (References) سورۃاعراف : ۱۶۔۱۷
  2. امام ابوداؤد سلیمان بن الاشعث سجستانی ، سنن ابوداود:3/18(2532) ، رقم : ۲۵۳۲
  3. کلیات اقبال (اردو) اقبال اکیڈمی لاہور، ۲۰۱۳، بانگ درا ،نظم ارتقاء ،ص ۲۵ٍ۱
  4. نفس مصدر، ضرب کلیم ، نظم نماز، ص: ۵۵۰
  5. J.E. Esslement, Bahaullah and the New Era, New Delhi, 1937 اردو ترجمہ ، بہاء اللہ و عصر جدید، عباس علی بٹ، بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی ، بارششم ۱۹۹۳، ص ۳۹
  6. نفس مصدر:27،28
  7. عبدالبہاءعباس آفندی، مقالہ شخصے سیاح ، اردو ترجمہ،مصفطیٰ رومی باب الحیات لاہور، ۱۹۰۸، ص ۳
  8. بہاءاللہ وعصر جدید، ص ۴۰
  9. ابوزہرہ مصری ،اسلامی مذاہب: ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری ،ملک سنز تا جران کتب ،فیصل آباد طبع سوم، س ن، ٍٍص367
  10. Bahaullah and The new Era Page 46
  11. ؏ ایڈر یا نوپل جسے اردو میں ادرنہ کہا جاتا ہے ترکی کا ایک شہر ہے جو استنبول (قسفنطنی) سے ایک سو تیس (۱۳۰) میل شمال مغرب کی طرف واقع ہے (The Encyclopedia America, Vol 1, Page 155)
  12. Bahaullah and The new Era Page 48
  13. حسین علی مازندرانی، لوح ابن ذئب :71، بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی۔
  14. حسین علی مازندرانی، رسالہ سلطانیہ:4،3۔
  15. حسین علی مازندرانی ، کلمات حضرت بہاء اللہ:95،94، اُردو ترجمہ ، لوح اشراقات، سید محفوظ الحق علمی، بہائی پبلشنگ ٹرسٹ سٹارلٹ پریس انار کلی لاہور،
  16. کلمات حضرت بہاءاللہ، لوح احمد : 3۔
  17. لوح اشراقات :104،103۔
  18. کلمات حضرت بہاء اللہ، لوح تجلیات:173۔
  19. مرزا حسین علی مازندرانی (بہاء اللہ) ، کتاب الاقدس:138/131 ، (عربی و اردو) بہائی پبلشنگ ٹرسٹ پاکستان ۱۹۹۷ء
  20. نفس مصدر
  21. نفس مصدر :186/178،177
  22. نفس مصدر:6/6
  23. نفس مصدر14/13
  24. نفس مصدر:8/9
  25. نفس مصدر:128/119
  26. نفس مصدر:128/119
  27. سورۃ طہ: ۵۵
  28. کتاب اقدس :15/16،15
  29. نفس مصدر:32/28،27
  30. سورۃ آل عمران: ۹۷
  31. کتاب اقدس : نوٹ 154/238-240
  32. نفس مصدر: فقرہ 23/58
  33. سورۃ النساء: ۳
  34. سورۃالنساء: ۴
  35. کتاب اقدس :66/56
  36. سورۃ النساء: ۲۳
  37. کتاب اقدس: فقرہ ۱۰۷، ص ۱۰۴
  38. ایضاً ، فقرہ ۱۵۶، ص ۱۴۷
  39. صحیح البخاری ، کتاب الجنائز:1/546،545(1167)، مکتبہ رحمانیہ اُردو بازار لاہور، ۱۹۷۵ء ۔
  40. امام ابوداؤد سلیمان بن الاشعث سجستانی، خالد احسان پبلشرز لاہور، ۱۹۸۷، اُردو ترجمہ مولانا وحید الزمان:3/339
  41. کتاب اقدس:فقرہ145/137
  42. سورۃ النور: 28،27
  43. کتاب اقدس :فقرہ58/54
  44. سورۃ ال عمران: ۱۰۳
  45. صحیح مسلم، اُردو ترجمہ مولانا عزیز الرحمٰن :3/792(2586)، مکتبہ رحمانیہ اُردو بازار لاہور۔
  46. کتاب اقدس :155/147،146
  47. سورۃ المائدہ: ۹۱۔
  48. کتاب اقدس :فقرہ119/113۔
  49. کنز العمال ، (13776)
  50. سورۃ المائدہ : ۳۸
  51. کتاب اقدس فقرہ45/43
  52. نفس مصدر
  53. سورۃ المائدہ: ۳۸
  54. کتاب اقدس: فقرہ45/43
  55. سورۃ النور: ۲
  56. کتاب اقدس :فقرہ49/47
  57. سورۃ المائدہ: ۴
  58. کتاب اقدس فقرہ60/55
  59. سورۃ البقرہ: ۲۶
  60. سورۃالبقرۃ: ۷۹
  61. لوح ابن ذئب :48
  62. سورہ القصص: ۱۵۔۱۹
  63. لوح ابن ذئب :80
  64. سورۃ السجدہ : ۱۰
  65. لوح ابن ذئب :82،81
  66. سورۃ یونس: ۱۵
  67. لوح ابن ذئب:82
  68. سورۃ طہ: ۹۔۱۴
  69. لوح ابن ذئب :82/81
  70. سورۃ الصف: 8
  71. سورۃ الحجر: ۹
  72. سورۃالقیمۃ : ۱۶۔۱۹
  73. شاہ ولی اللہؒ ۱۱۱۴ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۱۷۶ھ میں انتقال ہوا۔ علمی تالیفات میں فارسی زبان میں قرآن کا ترجمہ ’’ فتح الرحمن ‘‘ الفوز الکبیر اور حجۃ اللہ البالغۃ مشہور ہیں۔ عبد الحئی بن فخر الدین الحسینی لکھنوی، نزھۃ الخواطروبھجۃ المسامع والنواظر: 6/406-428 ، دار ابن حزم بیروت، ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ ء
  74. شاہ ولی اللہ، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء:191-193، اردو ترجمہ مولانا محمد عبدالشکور، قدیمی کتب خانہ، آرام باغ کراچی۔
  75. سورۃالفتح: ۱
  76. سورۃالفتح: ۲۰
  77. سورۃالفتح : ۲۱
  78. سورۃالفتح: ۲۷
  79. سورۃشوری : ۱۱
  80. سنن الدارمی:2/317(3359)۔
  81. سورۃ حم السجدہ: ۴۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...