Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

توریہ کے اصطلاحی مفاہیم اور اس کی شرعی حیثیت |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060030498_683

Pages

135-148

DOI

10.36476/JIRS.2:1.06.2017.12

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/242/10.12816%2F0037069

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/242

Subjects

Twriya T’ryd Double Entendre Twriya T’ryd double entendre

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

روئے زمین پر خدا کی بہترین مخلوق انسان ہے " لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ"[1] (بے شک ہم نے انسان کو بہترین )اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا کیا ہے۔) تخلیق کے بعد انسان کو مانند شترِ بے مہار بھی نہیں چھوڑا۔ انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے الوہی منصوبہ بندی ترتیب دی۔ ہر قوم کی زبان میں انہی میں سے رسول بھیجے۔ "وَ مَااَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّابِلِسَانِ قَوْمِه"[2] (اورہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ) جنھوں نے اس الہامی ہدایت کا اقرار کیا اور الوہی دعوت پر لبیک کہا وہ" خَیْرُالْبَرِیَّةِ"[3] (سب سے بہترین مخلوق) قرار پائے اور جو عقل و شعور اور قلب و نظر کے باوجود الہامی"ضیاء" سے اندھے اور"صراطِ مستقیم" سے بے بہرہ دکھائی دیے اوروہ کبھی "شَرُّالْبَرِیَّةِ"[4] اور کبھی "كالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ"[5] (وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ [ان سے بھی] زیادہ گمراہ)کے مصداق ٹھہرے۔

اللہ رب العزت نے حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے رسل کو صحائف اور کتابیں عطا فرمائیں ان میں اس دور ، اس قوم ، علاقے اور زمانے کے لیے مکمل ہدایت موجود تھی مگر اللہ رب العزت نے اپنے آخری رسول اور نبی حضرت محمدﷺ کو جو کتاب عطا فرمائی اس کی وسعتِ علم کو زمان و مکان، علاقہ و قوم کی حدود سے برتر کر دیا۔ قیامت تک نسلِ انسانی کی ہدایت کو اس کلام میں مضمر کر دیا۔"وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ"[6] (اورنہ کوئی ترچیزہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں سب کچھ لکھ دیا گیا گیا ہے ) اور "وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ"[7] (ہر چیز کی تفصیل) اس کتابِ ہدایت کی وسعتِ علمی کے لیے کافی شہادت ہے۔

سچ کیا ہے؟ اس کی ہر حد اور سرحد بہت واضح ہے۔ اور جھوٹ کیا ہے؟ اس کے ہر تصور پر بہت واضح تعلیمات قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ سچ اور جھوٹ میں کوئی قدر مشترک نہیں "قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ"[8] (بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے) سچ روشنی اور ابدی حقیقت کا ترجمان ہے۔ ہر قوم اور ہر مذہب کے ہاں پسندیدہ ہے۔ اور جھوٹ اندھیرے ، لاقانونیت اور گمراہی کا استعارا ہے اور ہر قوم و مذہب کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔

مگر کھرے سچ اور ادنیٰ جھوٹ کے درمیان الفاظ اور کلمات کا ایسا تصور بھی موجود ہے جو کہنے والے کی نیت کے مطابق کسی ایک حقیقت کے ترجمان ہوتے ہیں اور سننے والے کے ذہن میں الگ اور مختلف تصور پیش کرتے ہیں۔ کہنے والے کی مراد کچھ ہوتی ہے اور سننے والے کے ہاں مفہوم کچھ اور ۔

اولاً : اسلامی تعلیمات میں اس تصور کو ’’توریہ ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ثانیاً: بعض طبقات ِ فکر کے نزدیک اس عمل کو تقیہ کا نام دیا جاتا ہے۔

زیر نظر عنوان کے تحت لغات و معاجم اور قرآن و حدیث کی روشنی میں توریہ کی تعریف ، مثال کے طور پر مختلف انبیاء کرام کے کلماتِ توریہ کی اقوال مفسرین کی روشنی میں توجیہات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اور اس کے علاوہ توریہ کے جواز کے بارے میں آیات قرآنیہ ، احادیث و آثار اور مختلف علماء کا موقف بیان کیا گیا ہے

توریہ کے لغوی معانی اور مفاہیم:

عربی لغت میں توریہ کا معنی ہے چھپانا۔[9]

اگر لفظ "توریه" کو "وری" سے مشتق تسلیم کیا جائے تو ’’وری‘‘سے مشتق دیگر الفاظ و کلمات کا مفہوم عربی لغت کی معروف کتاب "لسان العرب" میں یوں بیان کیا گیا ہے:

"وَوَرَّیْتُ الشئَ وَ وَارَیْتُه‘ : اَخضیتُه‘"

یعنی "وَرَّیْتُ الشّئَ" اور"وَارَیْتُ الشّئ" کا مطلب ہے میں نے اس شے کو چھپایا اور مخفی رکھا۔

اسی طرح" تواری هُوَ : اسْتَتَرَ " یعنی اُس نے چھپایا ۔

"اَلْوَرِيُّ " مہمان اور پڑوسی کو بھی کہا جاتا ہے کیونکہ میزبان مہمان کو اپنے گھر میں جیسے چھپا لیتا ہے اور پڑوسی کا مکان پڑوسی کے مکان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔

اسی مفہوم کو علامہ ابن ِ منظور[10]یوں بیان کرتے ہیں:

" اَلْوَرِيُّ : الضیفُ و فُلَانٌ وَ رِيُّ فلانٍ اَي جَارَهُ الّذِی تُوَارِيهِ بُیُوته وَ تَسْتُرُهُ"[11]

"اَلْوَرِيُّ"کا مطلب ہے مہمان ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے"فُلَانٌ وَ رِيُّ فلان"فلاں فلاں کا مہمان یا پڑوسی ہے۔ جس (کے گھر) نے اس کو چھپا رکھا ہے۔

اسی طرح عربی لغت میں" وَراء"کاایک معنی "پیچھے" کا ہے اگرچہ وراء کا ایک معنی "آگے" بھی ہے۔

علامہ ابن منظور لکھتے ہیں:

"وَوَرَّاء بمعنی الخلف، و قد یکونُ بمعنی قدام و هو من الضداد"[12]

"وَراء" کا معنی پیچھے ہے جب کہ اس کا معنی آگے بھی ہے اور یہ متضاد معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"وَکَانَ وَرَاَء هُمْ مَّلِکٌ"[13]

اور ان کے آگے ایک جابر بادشاہ کھڑا تھا۔

" المحیط فی اللغة" میں توریہ کا مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے :

"ورَّیته أَ وَرِّيه تَوريةً وَ اُ وْرَیتُ الشیَٔ: اَخْفَیتُه"[14]

یعنی میں نے کسی چیز کو چھپایا۔

عبدالرحمٰن حسن المیدانی نےتوریہ کا جولغوی معنی بیان کیا ہے اس کا مفہوم درج ذیل ہے :

لغت میں توریہ کی اصل یہ ہے کہ کسی شے کا ارادہ کرنا مگر اس پر پردہ ڈالتے ہوئے اس کے علاوہ کا اظہار کرنا۔)[15](

"التعاریف" میں مختصراً توریہ کی تعریف یوں درج ہے:

"التورية لغة الستر"[16]

توریہ کا لغوی معنی ہے چھپانا۔

المنجد (عربی، اردو) میں توریہ کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

ورَّی تَورِیةً الشیَٔ : چھپانا۔

(ورَّی) عن کذا : حقیقت کو چھپانا۔

(ورَّی) الخبر و عن الخبر : پیچھے کرنا، چھپانا۔

(ورَّی) عن فلانِ بصره : کسی سے آنکھ پھیر لینا۔

واریٰ موازاة. الشيئَ : چھپانا، پوشیدہ کرنا۔

تَورَّی تَوَریًا وَتَوارَیْ تَوَارِیًا.عنه‘ : چھپنا "[17]

عربی لغات میں توریہ کے جتنے بھی مفاہیم بیان کیے گئے ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

کسی بات کو خفیہ یا پوشیدہ رکھنا

اصل بات کی بجائے کوئی دیگر بات ظاہر کرنا وغیرہ

توریہ کی اصطلاحی تعریفات:

اصطلاح میں توریہ سے مراد ہے لفظ کے ایسے مخالف معنی کا قصد کرنا جس معنی کی طرف ذہن نہ جائے۔[18]

امام راغب اصفہانی" توریہ" کی مثال یوں بیان کرتے ہیں:

"توریہ یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام سے اس کے ظاہری معنی کے خلاف (کسی معنی کو) ظاہر کرے مثلاً جنگ کے دوران کہے کہ تمہارا امام مر گیا ہے اور وہ لفظ امام سے لغوی معنی مراد لیتے ہوئے آگے والوں میں سے کسی کے مرنے والوں کی نیت کرے۔"[19]

علامہ جلال الدین سیوطیؒ[20] لکھتے ہیں:

"ایہام، اس کو توریہ بھی کہتے ہیں۔ یہ اس بات کا نام ہے کہ ایک ایسا ذو معنی لفظ استعمال کیا جائے جس کے دو معنی اشتراک ، حقیقت اور مجاز کے لحاظ سے ہوں اور ان میں سے کوئی ایک معنی قریب ہو اور دوسرا بعید مگر قصد معنی بعید کا کیا جائے اور اس کو معنی قریب کے پردہ میں اس طرح مخفی کر لیا جائے کہ سننے والا ابتداًاس لفظ سے اسی قریب معنی کے مقصود ہونے کا وہم کرے۔"[21]

علامہ قاضی محمد ثنااللہ پانی پتی قرآن مجید کی ایک آیتِ کریمہ"فقال انِّی سقیم"[22]کی تفسیر میں ایک حدیث مبارکہ[23]ذکر کرنے کے بعد توریہ کی اصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

"حدیث مذکور میں جھوٹ سے مراد ہے توریہ اور دو معنی والے الفاظ بولنا (کہ متکلم کی مراد دوسرا معنی ہو اور مخاطب اس پہلا معنی سمجھے)۔"[24]

مفتی محمد شفیع[25]توریہ کا اصطلاحی مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں:

"توریہ کا مطلب ہے کوئی ایسی بات کہنا جو بظاہر واقعہ کے خلاف ہو لیکن کہنے والے نے اس سے کوئی ایسے دور کے معنی مراد لیے ہوں جو واقعہ کے مطابق ہوں۔"[26]

اسی طرح علم البلاغہ کے ماہریں بھی مختلف لحاظ توریہ کو علم البلاغہ کا ایک اہم حصہ سمجھتے ہیں-

علامہ سعدالدین تفتازانی[27]اورمحمد عبدالرحمان القزوینی[28]کے مطابق توریہ محسناتِ معنویہ کی پہلی قسم ہے۔

"و منه‘ اَيُ مِنَ المعنوی التورية "[29]

یعنی کلام کے محسنات معنوی میں سے توریہ ہے۔

علامہ تفتازانی اور القزوینی توریہ کی تعریف میں لکھتےہیں:

"التورية و تسمّٰی الايهام ایضًا وهو ان یطلق لفظ له معنیان قریبٌ و بعیدٌ و یُرادُ به البعیدُ اعتمادًا علی قرینة خفية"[30]

توریہ کو ایہام بھی کہا جاتا ہے اور وہ(توریہ) یہ ہے کہ ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس کے دو معنی ہوں۔ (معنی)قریب اور (معنی)بعید اور وہ (متکلم) کسی مخفی قرینہ کا اعتماد کرتے ہوئے معنی بعید مراد لے۔

علامہ عبدالرحمٰن الخطیب القزوینی لکھتے ہیں:

اور اسی (علم البدیع) میں سے ایک توریہ ہے ۔ اس کو ایہام بھی کہا جاتا ہے اور توریہ یہ ہے کہ ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس کے دو معانی ہوں، قریب اور بعید اور دونوں میں سے معنی بعید مراد ہوں۔[31]

توریہ کے لغوی اور اصطلاحی مفاہیم کی قرآنی آیات سے امثلہ اور وضاحت:

قرآنی آیات میں توریہ کے مذکورہ مفہوم کی خوب صورت مثالیں موجود ہیں ذیل میں چند پیش کی جاتی ہیں۔

"فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَه كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ"[32]

پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے۔

اس آیت میں لفظ " یُوَارِیْ" استعمال ہوا ہے جس کے اندر چھپانے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ لفظ "ورِی" سے ہی مشتق ہے۔

" یٰبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا"[33]

اے اولادِ آدم ! بیشک ہم نے تمہارے لیے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے۔

اس آیت میں بھی لفظ" یُوَارِیْ"استعمال ہوا ہے جو انسانی لباس کی حکمت کو بیان کرتا ہے کہ لباس انسانی شرم گاہ کو ننگا اور عیاں ہونے سے چھپاتا ہے۔ یہاں بھی لفظ " یُوَارِیْ"کے اندر چھپانے کا مفہوم پایاموجود ہے۔

"فَقَالَ اِنّیٓ اَحببتُ حُبّ الخیرِ عَنْ ذِکرِ رَبیّ حتّٰی تَوارتْ بالحِجَابِ"[34]

تو انھوں نے (انابةً) کہا : میں مال (یعنی گھوڑوں) کی محبت کو اپنے رب کے ذکر سے بھی زیادہ پسند کربیٹھا ہوں یہاں تک کہ (سورج رات کے )پردے میں چھپ گیا ۔

اس آیت میں لفظ "تَوارتْ"چھپانے اور چھپنے کا مفہوم پیش کر رہا ہے اور یہ لفظ بھی اصلاً "ورِی" سے ہی مشتق ہے۔

"یَتوارٰی مِنَ الْقومِ منْ سوئِ مَا بُشّرَ بهِ"[35]

وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے۔

اس آیت کریمہ میں لفظ " یَتَوَارٰی"کے اندر بھی چھپنے اور اخفا کا مفہوم موجود ہے اور اس لفظ کی اصل بھی "ورِی" مصدر ہی ہے۔

"وَ هُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ"[36]

ترجمہ: اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہےاور جانتا ہے جو کچھ دن میں کماؤ

مذکورہ آیت کریمہ میں لفظ " جَرَحْتُمْ "کے دو معنی ہیں۔ قریب اور ظاہری معنی ہے جسم کا زخمی ہونا۔ مگر یہ معنی آیت میں مراد نہیں ہے۔ دوسرا بعید معنی ہے اور یہ گناہ اور معاصی کا ارتکاب ہے اور اس آیت کریمہ میں "جَرَحْتُم" سے یہی مراد ہے۔

توریہ کی اقسام:

اُردو دائرۃ المعارف اسلامیہ اورعلمِ بلاغت کے ماہرین نے توریہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں:

(الف) مجردہ:اس سے مراد ایسا توریہ ہے جس میں ایسی کوئی چیز موجود نہ ہو معنی قریب کی طرف اشارہ کرے۔ جیسے "اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی"[37] (وہ) نہایت رحمت والا (ہے) جو عرش (یعنی جملہ نظام ہائے کائنات کے اقتدار) پر (اپنی شان کے مطابق) متمکن ہوگیا) "استوٰی"سے مراد معنی بعید ہے یعنی متمکن ہونا۔ مگر اس میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو معنی قریب پر دلالت کرے یعنی استقرار و آرام۔

(ب) مرشحہ:جس میں معنی قریب کا کوئی قرینہ موجود ہومثلاً " وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ"[38]میں لفظ "بِاَیدٍ" سے مراد معنیٰ بعید "قدرت" ہے مگر اس کا فعل " بَنَیْنٰهَا " لفظ "بِاَیدٍ" کے ساتھ مل کر آیا ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر معنی قریب کا قرینہ پایا جاتا ہے۔[39]

عبدالرحمان حسن توریہ کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

توریہ کو تین اقسام مجردہ، مرشحہ اور مبینۃ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

توریہ مجردہ :یہ ہے کہ جس میں ایسا کوئی قرینہ نہ پایا جائے جو معنی قریب یا بعید کی طرف اشارہ کرتا ہو۔

توریہ مرشحہ: یہ ہے کہ جس میں معنی قریب کا قرینہ موجود ہو ، چاہے یہ قرینہ توریہ والے لفظ سے قبل ہو یا بعد میں

توریہ مبینۃ : یہ ہے جس میں معنی بعید و معنی مقصود کا قرینہ پایا جائے۔[40]

ابوالبقاء ایوب بن موسیٰ الحسینی الکفوی[41]" توریہ" کی چار اقسام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"والتورية أنواع : مجردة ومرشحة ومبینة ومهيأة"[42]

توریہ مفسرین کے اقوال کی روشنی میں

علامہ جلال الدین سیوطی"توریہ" کی مثالیں قرآن سے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

" منجملہ توریہ کی مثالوں کے قولہ تعالیٰ :"قَالُوْا تَاللّٰهِ اِنَّكَ لَفِیْ ضَلٰلِكَ الْقَدِیْمِ"[43]بھی ہے۔ اس میں ضلال کا لفظ اول محبت اور دوم ہدایت کی ضد دو معنوں کا احتمال رکھتا ہے۔ چنانچہ یہاں پر یعقوب علیہ اسلام کے بیٹوں نے ہدایت کی ضد (خلاف) معنی کو محبت سے توریہ ڈال کر استعمال کیاہے۔ اور قولہ تعالیٰ:"فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ"[44]میں بھی توریہ ہے۔ مگر جب کہ بدن کی تفسیر درع(قمیص) کے ساتھ کی جائے۔ اس وقت کیونکہ بدن کا اطلاق درع اور جسم دونوں پر ہوتا ہے اور یہاں معنی بعید یعنی جسد(جسم) ہی مراد ہے۔ اور اللہ پاک کا یہود و نصاریٰ میں سے اہل کتاب لوگوں کے ذکر کے بعد یہ فرمانا کہ:"وَ لَىِٕنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰیَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ وَمَاۤاَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ"[45]اس کو بھی توریہ کی قسم میں شمار کیا گیا ہے۔

اور چونکہ موسیٰ کے ساتھ خطابِ باری تعالیٰ عزلی کی جانب سے ہوا تھا لہٰذا یہودیوں نے اپنی توجہ مغرب کی سمت رکھی (یعنی قبلہ بنایا) اور نصاریٰ نے مشرق کی جانب توجہ کی (یعنی اپنا قبلہ مشرق کی جانب رکھا ) بدیں وجہ اسلام کا قبلہ ان دونوں قبلوں کے وسط میں رہا اور اس کی بابت پروردگار تعالیٰ نے ارشاد کیا:"وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا "[46]"یعنی خیاراً " مگر بظاہر اس آیت کے لفظ سے توسط کا وہم پیدا ہوتا تھا جس کی امداد مسلمانوں کے قبلہ کے توسط سے ہوتی تھی اور بوجہ اس کے لفظ وسط دونوں معنوں (خیار اور متوسط) کا احتمال رکھتا تھا۔ اس جگہ وسط پر صادق آیا کہ خدا کو اُس سے موسوم کیا جائے لیکن چونکہ دونوں مذکورہ بالا معنوں میں سے مراد وہی معنی تھے جو دور تر ہیں یعنی خیار(برگزیدہ) اس لیے یہ آیت توریہ کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ آیت مرشحہ اور موریٰ عنہٗ کو لازم لیتی ہے جو کہ قولہ تعالیٰ :"لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ"[47] ہے۔ کیونکہ یہ بات مسلمانوں کے خیار(برگزیدہ) یعنی عدول(ثقہ) ہونے کے لوازم میں سے ہے (گواہی میں عدالت شرط ہے) اور اس آیت کے قبل دونوں آیتیں توریہ کی قسم سے ہیں۔

پھر مرشحہ کی اور مثال قولہ تعالیٰ:"وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ"[48]ہے کہ نجم کا اطلاق کوکب(ستارہ) پر ہوتا ہے اور اس کی ترشیح(آرائش) شمس و قمر کا ذکر کرتا ہے اور نجم غیر تنہ دار نبات(جڑی) کو کہتے ہیں۔ اور یہ اس لفظ کے بعید معنی ہیں اور آیت میں یہی معنی مقصود ہیں۔"[49]

اسی طرح امام سیوطی ، شیخ الاسلام ابن حجر ؒ[50]کی کسی تحریر کے حوالے سے توریہ کی قرآنی آیات میں مثال کے ضمن

میں تحریر کرتے ہیں:

"شیخ الاسلام ابن حجر کی تحریر سے منقول ہے کہ قرآن میں قولہ تعالیٰ"وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ "[51]توریہ کی قسم سے ہے۔ یوں کہ" كَآفَّةً "کے معنی "مَانع"ہیں یعنی پیغمبرﷺ لوگوں کو کفر اور خطا کاری سے روکیں۔ اور حرف حا اس میں مبالغہ کے واسطے ہے اور معنی بعید ہیں اور جلد جلد سمجھ میں آنے والے قریبی معنی یہ ہیں کہ اس (كَآفَّةً) سے جامعۃ بمعنی جمیعًا (سب کے سب) مراد ہیں۔ لیکن لفظ كَآفَّةً کو اس معنی پر حمل کرنے سے اس بات نے منع کیا کہ اس صورت میں تاکید موکد سے متراجی(بچھڑ جانے والی) ہو جائے گی۔ اس لیے جس طرح تم "رَأیت جمیعًاالنَّاس" نہیں کہتے ویسے ہی "رَأیت كَآفَّةً النَّاس" بھی نہیں کہہ سکتے۔ "[52]

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی کے مطابق قولہ تعالیٰ "اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی"[53] میں بھی توریہ استعمال ہوا ہے ۔[54]

توریہ کا جواز اور اس کے دلائل

اصطلاح میں توریہ سے مراد ہے لفظ کے ایسے مخالف معنی کا قصد کرنا جس کے معنی کی طرف ذہن نہ جائے۔ اسی طرح توریہ کی ایک تعریف یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام سے اس کے ظاہری معنی کے خلاف (کسی معنی کو) ظاہر کرے۔توریہ میں کلام کے دو مفاہیم ہوتے ہیں۔سامع کا دھیان قریبی معنیٰ کی طرف جاتا ہے جب کہ متکلم کی مراد اصلی اور بعید معنی ہوتے ہیں۔ اس تعریف کی روشنی میں چونکہ شریعت کی کسی حد کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اس لیے تمام فقہی مسالک کے آئمہ کرام ، محدثین اور مفسرین عظام توریہ کے جواز کے قائل ہیں۔اس لیے کہ فی الحقیقت توریہ میں کوئی بھی ایسی شرعی قباحت نہیں ہے جس سے توریہ کی ممانعت قرار دی جائے۔

اسلام نے جھوٹ کو گناہِ کبیرہ، موجبِ سزا اور گرفت اور اللہ کی ناراضگی کا سبب قرار دیا ہے اور اس پر سخت پکڑ اور عذاب کی وعید سنائی ہے۔

قرآن کے نزدیک جھوٹاشخص ہدایت سے دور اور محروم ہے۔فرمان خداوندی ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ[55]

بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا،جو حسد سے گزرنے والا سراسر جھوٹا ہو۔

اسی طرح قرآن کے نزدیک جھوٹ بولنا منافقین کا شیوہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَكٰذِبُوْنَ[56]

اور اللہ گوایہ دیتا ہے کہ منافق لوگ جھوٹے ہیں۔

ان آیات سے جھوٹ اور کذب کی ممانعت واضح ہوجاتی ہے اور کوئی مومن جھوٹ بولنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

توریہ کے جواز میں آیاتِ قرآنیہ ، احادیث و آثار کا بیان

بعض آیاتِ قرآنیہ ایسی ہیں جن سے واضح طور پر توریہ کا جواز ثابت ہوتاہے اور علماء کرام نے اس توریہ کو باقا عدہ طور پر اپنی کتاب میں مکمل تفصیل سے بیان کیا ہے۔

مفسرین کرام نے قرآن مجید کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق دو آیات کو توریہ سے تعبیر کیا ہے جن میں سے ایک آیت "قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ"[57]ہے۔

آپ نے فرمایا: بلکہ یہ (کام) ان کے اس بڑے (بت) نے کیا ہوگا تو ان بتوں سے ہی پوچھو اگر وہ بول سکتے ہیں۔

اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا قول مبارک جس میں آپ علیہ اسلام نے توریہ اور تعریض کلام سے کام لیا وہ "فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ"[58]ہے۔ ( اور کہا: میری طبیعت مضمحل ہے)

اسی طرح بعض آیات قرآنی کے کلمہ"ضال""ضلال" اور "ضالاً" میں بھی "حب یعنی محبت " کا توریہ موجود ہے۔

توریہ اور تعریض کلام کے ایسے طریقے ہیں جن میں جھوٹ اور اس کے مفاسد و گناہ سے بچنے کی گنجائش موجود ہے۔ احادیث کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بعض مواقع پر توریہ اور تعریض مباح ہے اور ان میں جھوٹ سے بچنے کا امکان موجود ہے۔ توریہ کے جواز میں کافی احادیث مبارکہ کتب حدیث میں موجود ہیں۔ محدثین و مفسرین نے مختلف واقعاتِ سیرت اور احادیث کے کلمات سے توریہ کے جواز کو ثابت کیا ہے۔ ذیل میں بطور مثال چند روایات پیش کی جاتی ہیں-

توریہ کی اباحت و جواز میں اکثر مفسرین کرام اورمحدیثینِ عظام نے حضور اکرم ﷺ کی درج ذیل حدیثِ مبارکہ سے استنباط کیا ہے

"اِنَّ فی المَعَاریضِ لَمَنْدُوحةٌ عَنِ الکَذِبِ "[59](بے شک معاریض میں جھوٹ سے بچنے کی گنجائش ہے)۔

امام بہیقی اس حدیثِ مبارکہ کے ذکر کے بعد ایک اثر نقل کرتے ہیں جس میں تعریض کا مفہوم مذکور ہے۔

"ابو عبیدہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص یہ سوچتا ہے کہ اس نے صریح کلام کیا تو جھوٹ ہو گا تو وہ کسی دوسرے جملے کے ساتھ تعریض کرے جو الفاظ میں اس کلام کے موافق ہو اور معنی میں مخالف ہو اور

سامع کو یہ وہم ہو کہ اس (مخاطب) نے اسی (قریب) مفہوم کا ارادہ کیا ہے اور مندوحۃ کا مطلب ہے وسیع۔")[60](

محدثین کرام نے مذکورہ حدیث کے بیان کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کے آثار اور تابعین کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ ان آثار سے جہاں توریہ و تعریض کے اباحت واضح ہوتی ہے وہاں یہ آثار مذکورہ حدیث کی مزید توضیح و تفسیر کرتے ہیں۔

ابن ابی الشیبہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول معاویہ بن قرق سے درج ذیل الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔

" مَایسرنی ان لی بما اعلم من معاریض القول مثل اهلی و ما لی اولا یحسبون انی اوَدُّ ان لی اهلی و مالی وَدِدتُ ان لی مثل اهلی و ما لی ثم مثل اهلی و ما لی"[61]

جو بات مجھے خوش کرتی ہے وہ یہ ہے کہ میں معاریض کلام کو اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کی طرح جانتا ہوں۔ کیا وہ گمان نہیں کرتے کہ میرے لیے میرا اہل و عیال اور مال ہو۔ میری تو خواہش ہے کہ کوئی چیز میرے گھر بار اور میرے مال کی طرح ہو۔

معاریض کے متعلق حضرت عمر بن خطاب کا یہ قول بھی روایات میں منقول ہے:

" اِن فی المعاریضِ ما یَکفُّ اَو یَعِفُّ الرجُلَ عَنِ الکذِبِ"[62]

معاریض آدمی کو جھوٹ سے بچاتی اور باز رکھتی ہیں۔

محدثین کرام نے حضرت عبداللہ بن عباس کا ایک قول بھی روایت کیاہے جس سے معاریض کی اباحت اور کلام میں بقدر ضرورت گنجائش کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کی تفصیل باب سوم میں گزر چکی ہے-

توریۃً جھوٹ کے جواز پر علماء کا مؤقف:

فقہاء کرام اور علما نے بڑی صراحت سے جھوٹ کی مذمت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کیا ہے مگر چند ایسے حالات بھی بیان کیے ہیں جن میں توریہً جھوٹ کی گنجائش کو بیان کیا ہے۔

ابنِ قتیبہ لکھتے ہیں:

"جھوٹ اور جھوٹی قسم بعض حالات میں بندے کے لیے اور اللہ کے قرب کے لیے سچی بات اور سچی قسم کے ثواب سے زیادہ اولیٰ ہیں۔ مثلاً ایک ظالم اور جابر حکمران کسی مسلمان کا ناحق خون کرنا چاہتا ہے یا اس کی حرمت کو پامال کرنا چاہتا ہے یا اس کا گھر جلانا چاہتا ہے تو توریۃً جھوٹ بولنے میں حرج نہیں یا جھوٹی قسم کھانا بھی جائز ہے۔")[63](

اسی طرح السندی المدنی رقمطراز ہیں:

"و قد رخص فی بعض الاوقات فی الفساد القلیل الذی یؤمل فيه الصلاح الکثیر")[64](

بعض اوقات فساد کے عالم میں معمولی جھوٹ (توریۃً) بولنے کی رخصت ہے جس میں بہت زیادہ خیر ہو۔

اسی طرح فیصل بن عبدالعزیز لکھتے ہیں:

"جھوٹ اصلاً حرام ہے مگر بعض حالات میں بعض شرطوں کے ساتھ اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ کلام میں اصل مقاصد کے حصول کا وسیلہ ہوتا ہے۔ ہر وہ مقصود جو محمود ہو اور بغیر جھوٹ کے اس کی تحصیل ممکن ہو وہاں جھوٹ حرام ہے اور محمود ، مقصود کی تحصیل جھوٹ کے بغیر ناممکن ہو تو (توریۃً) اس کا جواز ہے۔ اور اگر اس اچھے مقصود کی تحصیل واجب ہو تو جھوٹ واجب ہو جاتا ہے مثلاً کسی مسلمان کو کسی ظالم و جابر کے اقدام قتل سے بچانے کے لیے جھوٹ بول دینا۔")[65](

اسی طرح حرب و اضطرار میں بھی جھوٹ کا جواز ہے۔

تین مواقع پر توریہ کی اباحت کا حدیث سے ثبوت:

تین مواقع پر توریۃً کلام کرنے کی اباحت کو آئمہ کرام نے بیان کیا ہے:

مرد کا اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے

جنگ کے دوران

اور مسلمانوں میں صلح کروانے کے لیے

درج بالا تین مواقع پر توریۃً کلام کی اباحت حضور اکرمﷺ کی حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:

"لا یحل الکذب الا فی ثلاث یحدث الرجل امراته لیرضيها والکذب فی الحرب و الکذب لیصلح بین الناس"[66]

بعض اوقات سفاد کے عالم میں معمولی جھوٹ (توریۃً) بولنے کی رخصت ہے جس میں بہت زیادہ خیر ہو۔

اس حدیثِ مبارکہ کو معمولی کلمات کی تبدیلی کے ساتھ "کنز العمال" میں بھی نقل کیا گیا ہے۔)[67](

اسی طرح صلح کروانے والے کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

"لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس یقول خیراً او یمنی خیراً"[68]

وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے مابین صلح کرواتا ہے۔ وہ کلمۂ خیر کہتا ہے اور خیر والی چغلی کھاتا ہے۔

اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرواتے وقت صلح کروانے والا فریقین کے ساتھ اپنی طرف جو باتیں خیر، بھلائی اور خیر اندیشی پر مشتمل کرتا ہے وہ جھوٹ نہیں ہیں بلکہ وہ توریہ اور معاریض ہیں۔

ان احادیثِ مبارکہ کی شرح میں بھی آئمہ کرام نے بیان شدہ تین مواقع پر توریۃً جھوٹ بولنے کی وضاحت کی ہے اور اس کی اباحت کو بیان کیا۔ یہان جھوٹ سے مراد صریح جھوٹ نہیں ہے بلکہ توریہ ہے۔[69]

علامہ انور شاہ کشمیری بھی ان مواقع کے استثناء کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں میرے نزدیک جھوٹ کے چار مقام ہیں اور ابن وحبان کی نظم کا ایک شعر نقل کرتے ہیں۔

"وللصلح جاز الکذب او دفع ظالم و اھل لترضیٰ او قتالٍ لیظفروا"[70]

جھوٹ صلح کے لیے جائز ہے اور ظالم سے بچنے کے لیے، بیوی کو راضی کرنے کے لیے اور قتال کے وقت کامیابی کے لیے۔

اسی طرح حالتِ جنگ میں بھی توریۃً جھوٹ بولنا جائز ہے۔ علامہ ابن بطال نے بخاری کی شرح میں باقاعدہ باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے "الکذب فی الحرب" اس کے تحت آپ ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

"وہ جھوٹ جس کو حضوراکرمﷺ نے جنگ میں جائز قرار دیا ہے وہ معاریض ہے جس سے مخاطب، متکلم کا مطلب مکمل صراحت سے نہیں سمجھ سکتا۔"[71]

مذکورہ احادیث سے یہ مطلب اخذ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ بعض شرعی حالات کے تحت توریہ کا جواز موجود ہے۔ اسی لیے علماء کرام نے حالت جنگ میں اپنے راز اور تدابیر کے تحفظ ، دشمنوں کے شر سے بچنے کے لیے ، ظالم سے بچنے اور کسی دوسرے مسلمان کو کسی کے ظلم سے بچانے اور شرعی و دینی مصلحت کے تحت توریہ کرنا جائز قرار دیا ہے۔

اسی طرح امام بخاری ؒ نے بھی ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے "باب المعاریض مندوحۃ عن الکذب"[72]

امام بخاریؒ کا اس عنوان کے تحت باب قائم کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شریعت محمدیہﷺ میں بعض خاص حالات کے تحت توریہ کے جواز کے قائل تھے اور اس کے متعلق شرعی احکام سے واقف بھی تھے۔

خلاصہ کلام :

محدثین کرام اور فقہاء کرام نے توریہ کو جھوٹ سے الگ قرار دیا ہے۔

توریہ نہ جھوٹ ہے اور نہ جھوٹ کا حصہ ,اور توریہ مشروع ہے۔ جھوٹ سے اپنے دامن کو محفوظ رکھنے کا باعث ہے۔[73]

توریہ کے جواز کے لیے شرائط اور ضوابط مقرر ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی و مصادر التّین ۹۵ : ۴
  2. ابراہیم۱۴ : ۴
  3. البینہ ۹۸ : ۷
  4. البینہ ۹۸ : ۷
  5. الاعراف ۷ : ۱۷۹
  6. الانعام ۶ : ۵۹
  7. الانعام ۶ : ۱۵۴
  8. البقرۃ ۲ : ۲۵۶
  9. ابن منظور، علامہ، افریقی، محمد بن مکرم بن علی، ابوالفضل جمال الدین (متوفی ۷۱۱ھ)”لسان العرب “مطبوعہ دار صادر، بیروت ، طبع الثالث ۱۴۱۴ھ ،ج۱۵،ص ۳۸۹
  10. آپ کا پورا نام محمد بن مکرم بن علی کنیت ابوالفضل لقب جمال الدین اور نسبت انصاری ہے۔ ابنِ منظور الافریقی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ لغت کے امام اور حجت ہیں۔۲۳۰ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ طرابلس کے مغرب میں پیدا ہوئے۔ آپ کی مشہور کتب میں مشہور و معروف"لسان العرب، مختار الاغانی، مختصر مفردات ابن البیطار، نثارالازھار فی اللیل والنہار زیادہ مشہور ہیں۔ آپ نے مصر میں ۷۱۱ھ میں وفات پائی۔(الاعلام للزرکلی،ج۷،ص۱۰۸/ وفیات الاعیان، ج۲، ص۲۶۵)
  11. ابن منظور"لسان العرب" ج۱۵، ص ۳۸۸
  12. ابن منظور"لسان العرب"ج۱۵،ص۳۸۸
  13. الکہف : ۱۸ : ۷۹
  14. صاحب بن عبادہ،المحیط فی اللغۃ http://www.alwarraq.com.۔ ص ۴۴۶
  15. المیدانی ،عبدالرحمٰن حسن حبنّکۃ ، البلاغة العربیة اسسهاوعلومهاوفنونها، مکہ مکرمہ ،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۳ء۔ ص ۷۴۸
  16. المناوی ،محمد عبدالرؤف ، التعاریف، تحقیق محمد رضوان الدایۃ، دارالفکر بیروت ، لبنان ، طبع الاول ۱۴۱۰ھ، ص ۲۱۴
  17. المنجد،(عربی ، اُردو) ، دارالاشاعت کراچی، طبع یازدھم ۱۹۹۴ء ،ص۱۰۸۰
  18. المناوی ،محمد عبدالرؤف ‘‘ التعاریف’’تحقیق محمد رضوان الدایۃ، دارالفکر بیروت ، لبنان، طبع الاول ۱۴۱۰ھ۔ ص ۲۱۴
  19. الجرجانی،علی بن محمد بن علی ‘‘التعریفات’’تحقیق ابراہیم الابیاری ، دارالکتاب العربی، بیروت ، طبع الاول ۱۴۰۵ھ۔ ص ۹۷
  20. آپ کا پورا نام عبدالرحمان بن ابو بکر بن محمد بن سابق الدین السیوطی ہے۔ آپ امام وقت حافظ حدیث، مؤرخ اور ادیب ہیں۔ آپ ۸۴۹ھ میں قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے تقریباً ۶۰۰ کتابیں تحریر کیں جن میں سے "الاتقان فی علوم القرآن، الاشباہ والنظائر،انباہ الاذکیا، لحیاتِ الانبیاء، تاریخ الخلفاء، تدریب الراوی، تفسیر جلالین اور الجامع الصغیر"زیادہ مشہور اور اہم کتب ہیں۔ (الاعلام للزرکلی، ج۳،ص۳۰۱)
  21. سیوطی،جلال الدین ، علامہ ‘‘ الاتقان فی علوم القرآن’’مکتبہ العلم ، اُردوبازار لاہور،ج۲ ، ص۲۰۵
  22. الصّفٰت: ۳۷ : ۸۹
  23. بخاری ، محمد بن اسماعیل، ابوعبداللہ"صحیح بخاری" دارطوق النجاۃ، طبع اول ۱۴۲۲ھ ،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول الله تعالیٰ واتخذالله ابراهیم خلیلا، حدیث۳۳۵۸،ج۴،ص۴۰
  24. پانی پتی، محمدثناء اللہ ، قاضی، علامہ، عثمانی ،مجددی‘‘تفسیر مظھری’’ داراشاعت اُردو بازار ، کراچی ، ۱۹۹۹ء،ج۱۰، ص ۲۸
  25. آپ کا پورا نام محمدشفیع عثمانی اور والد کا نام محمد یاسین عثمانی ہے۔آپ ۲۵جنوری۱۸۹۷ کو دیوبند انڈیا میں پیدا ہوئے۔ آپ نے دینی تعلیم کا اکتساب دارالعلوم دیوبند انڈیا سے کیا۔ اسی وجہ سے آپ دیوبند مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کی مشہور تصنیف تفسیرِ قرآن "معارف القرآن " ہے۔ آپ ۶اکتوبر۱۹۷۶ ء کو رحلت فرما گئے۔
  26. محمدشفیع،مفتی،مولانا"معارف القرآن" ادارۃالمعارف ، کراچی۱۴، پاکستان،ج۷، ص ۴۵۲
  27. آپ کا پورا نام مسعود بن عمر بن عبداللہ تفتازانی ہے۔ آپ عربی زبان ، علم البیان اور منطق کے امام ہیں۔ آپ خراسان کے شہر تفتازان میں ۷۱۲ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کتب میں" تہذیب المنطق، المطول، المختصر، ،قاصد الطالبین، ارشاد الہادی، شرح عقائد نسفیہ" وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے ۷۹۳ھ میں وفات پائی۔(الاعلام للزرکلی، ج5،ص۲۷۸)
  28. آپ کا پورا نام محمد بن عبدالرحمان بن عمر ، ابو المعالی، جلال الدین القزوینی ہے۔ آپ خطیبِ دمشق کے نام سے معروف ہیں۔ آپ قاضی تھے۔ اور فقیہہ و ادیب تھے۔آپ موصل کے علاقے قزوین میں ۶۶۶ھ میں پیدا ہوئے۔ مصر کے قاضی القضاۃ رہے۔ آپ کی کتب میں تلخیص المفتاح، الایضاح، وغیرہ شامل ہیں۔ (الاعلام للزرکلی، ج۶،ص۱۹۲)
  29. تفتازانی،سعد الدین ، علامہ"مختصرالمعانی" میر محمد کتب خانہ، آرام باغ کراچی، ۱۳۴۴ھ، ص ۴۵۶۔القزوینی،محمد عبدالرحمٰن، علامہ، الامام"تلخیص المفتاح" مکتبہ رحمانیہ اقرا سنٹر غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور،ص ۹۰
  30. تفتازانی"مختصرالمعانی" ص ۴۵۶۔القزوینی،"تلخیص المفتاح" ص ۹۰
  31. القزوینی،"الایضاح فی علوم البلاغۃ" دارالاحیاء العلوم ، بیروت ۱۹۹۸ء ، ص ۳۳۱
  32. المائدۃ : ۵ : ۳۱
  33. الاعراف : ۷ : ۲۶
  34. ص : ۳۸ : ۳۲
  35. النحل : ۱۶ : ۵۹
  36. الانعام : ۶ : ۶۰
  37. طٰہٰ :۲۰: ۴
  38. الذاریات :۵۱ : ۴۷
  39. تفتازانی، "مختصر المعانی" مع حواشی (مولانا محمود الحسن) ، ص۴۵۷۔۴۵۶ ۔قزوینی، "تلخیص المفتاح"،ص۹۰۔اُردو دائرۃ المعارف اسلامیہ، ج۶،ص۷۸۱
  40. المیدانی " البلاغة العربيه اسسهاء وعلومهاوفنونها"ص ۷۴۸
  41. آپ کا پورا نام ایوب بن موسیٰ الحسینی الکفوی ہے۔ کنیت ابوالبقاء ہے۔آپ احناف کے قاضیوں میں سے ہیں۔آپ ترکی، القدس اور بغداد میں قاضی رہے اور استنبول میں وفات پائی۔آپ کی معروف کتاب "کتاب الکلیات "ہے۔ باقی کتب ترکی زبان میں ہیں۔ (الاعلام للزرکلی، ج۲، ص۳۸)
  42. الکفوی، ابوالبقاء ایوب بن موسیٰ، الحسینی "کتاب الکلیات"مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸ء ۔ ص۲۷۷
  43. یوسف : ۱۲ : ۹۵
  44. یونس : ۱۰ : ۹۲
  45. البقرہ : ۲ : ۱۴۵
  46. البقرہ : ۲ : ۱۴۳
  47. ایضاً
  48. الرحمٰن : ۵۵ : ۶
  49. سیوطی، جلال الدین ، علامہ، امام "الاتقان فی علوم القرآن" اُردو، جلد دوم ، ص۲۰۵
  50. آپ کا پورا نام احمد بن محمد بن علی بن حجر الہیثمی ہے۔ آپ شہاب الدین اور شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور ہیں۔آپ ۹۰۹ھ کو مصر میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تصانیف کثیر ہیں۔ جن میں سے الصواعق المحرقہ علیٰ اہل البدع و الضلال و الزندقہ ، الخیرات الحسان ، الفتویٰ الہیثمیہ ، شرح الاربعین النوویہ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ آپ نے ۹۷۴ھ کو مکہ میں وفات پائی -( الاعلام للذرکلی، ج۱،ص۲۳۴)
  51. السبا : ۳۴ : ۲۸
  52. سیوطی"الاتقان فی علوم القرآن" اُردو، جلد دوم ، ص۲۰۶
  53. طٰہٰ :۲۰ : ۴
  54. سیوطی "الاتقان فی علوم القرآن" اُردو، جلد دوم ۔ ص۲۰۵
  55. المؤمن : ۴۰ : ۲۸
  56. المنافقون : ۶۳ : ۱
  57. الانبیا : ۲۱ : ۶۳
  58. الصّٰفّٰتِ: ۳۷ : ۸۹
  59. البہیقی، احمد حسین بن علی، "السنن الکبریٰ"، باب المعاریض فیھا، مجلس دائرۃ المعارف، حیدرآباد ۱۳۴۴ھ، جلد۱۰، حدیث ۲۱۳۶۳،ص۱۹۹۔ طبری، محمد بن جریر "تہذیب الآثار و تفصیل الثابت من رسول اللہ من الاخبار" مطبع المدنی، قاھرہ، باب ذکر من قال ذالک ،جز۳، ص۱۴۵ ۔
  60. البہیقی "السنن الکبری"جلد۱۰،باب ۴۴باب المعاریض فیھا ،حدیث ۲۱۳۶۶،ص۱۹۹۔ علاؤ الدین، علی بن حسام الدین"کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال" مؤسسۃ الرسالۃ ، ۱۹۸۳ءباب الفصل الثالث:فی اخلاق و افعال مذمومۃ تختص باللسان،جلد۳، ص۶۳۰۔ القضاعی، محمد بن سلامۃ ،"مسند الشہاب" مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۸۶ءباب ان فی المعاریض لمندوحۃ، جلد۲، ص۱۱۹ ۔
  61. ابنِ ابی الشیبہ، عبداللہ بن محمد، ابوبکر،"مسند ابی الشیبہ"باب من کرہ المعاریض، جلد8، ص۵۳۵
  62. ایضاً
  63. ابن قتیبہ، ص۳۴۔"صحیح مسلم بشرح النووی" ج۱۵، ص۱۸۱-۱۸۰
  64. السندی المدنی، محمد بن عبدالہادی، الحنفی" حاشیۃ علی صحیح بخاری" دارالفکر بیروت، لبنان ، ج۲، ص۴۹
  65. النجدی، فیصل بن عبدالعزیز"قطریز ریاض الصالحین" دارالعاصمۃ للنشر و التوزیع، ریاض۲۰۰۲ء، ص۸۶۰
  66. ترمذی" باب ماجاء فی اصلاح ذات البین، رقم الحدیث ۱۹۳۹، ج۴، ص۳۳۱۔"کنزالعمال" باب فی اخلاق و افعال مذمومۃ تختص باللسان، رقم الحدیث۸۲۶۰، ج۳، ص۶۳۳
  67. الہندی"کنزالعمال" باب فی اخلاق و افعال مذمومۃ تختص باللسان ، رقم الحدیث۵۷-۵۶-۸۲۵۵، ج۳، ص۶۳۳
  68. ابنِ حبان "صحیح ابن حبان، طبع دوم۱۹۹۳ء باب الکذب رقم الحدیث ۵۷۳۳، ج۱۳، ص۴۰۔"بخاری" باب:لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، رقم الحدیث۲۶۹۲، ج۳، ص۱۸۳۔"مسلم" باب تحریم الکذب و بیان مایباح منہ، رقم الحدیث۲۶۰۵، ج۴، ص۲۰۱۱
  69. عسقلانی،ّارشاد الساری" ج۴، ص۴۱۹۔احمد بن عبدالعزیز بن مقرن "احادیث المشکلۃ الواردہ فی تفسیر القرآن الکریم، دار ابنِ جوزی ، سعودی عرب، ۱۴۳۰ھ ج۱، ص۶۵۸
  70. کشمیری، محمد انور"العر ف الشزی شرح سنن ترمذی" مؤسسۃ ضحی للنشر و التوزیع ،حدیث۱۶۷۵، ج۳، ص۲۳۱
  71. ابنِ بطال "شرح صحیح بخاری" ج۵، ص۱۸۸
  72. بخاری،صحیح بخاری ، کتاب الادب، باب ۱۰۶
  73. الجزائری "ایسرالتفاسیر الکلام العلی الکبیر" ج۳، ص۴۲۴۔"عمدۃ القاری" ج۳۲، ص۴۲۶۔عون المعبود، ج۱۳، ص۲۱۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...