Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

رتن ہندی کے دعوی صحابیت کا تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060030498_820

Pages

85-94

DOI

10.36476/JIRS.3:1.06.2018.06

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/327/151

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/327

Subjects

Madinah Ḥadith Rijal Ratan Hindi Madinah Ḥadith Rijal Ratan Hindi

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

اسلام میں صحابہ کرامؓ کا مقام و مرتبہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ آنحضرت ﷺ کی صحبت سے فیض یابی، آپ ﷺ کے ارشاداتِ گرامی کی بلا واسطہ سماعت اور جمالِ مصطفوی ﷺ کا دیدار میسر آنا انتہائی خوش بختی کی علامت ہے کیوںکہ آپ ﷺ کے صحابہ کو سنایا جانے والا مژدۂ جانفزاں "رضی الله عنهم و رضوا عنه" کے الفاظ میں تا قیامت وردِ زباں رہے گا نیز آپ ﷺ کے ارشادات کو نقل کرنے والی پہلی کڑی ہونے کی وجہ سے احادیثِ نبویہ ﷺ ، جن پر قرآن حکیم کی توضیح و تشریح اور احکامِ شریعت کا دارومدار ہے، کی صحت و عدمِ صحت کا سلسلہ بھی ان ہی حضرات کے گرد گھومتا ہے۔

صحابیت کے اس شرف و اعزاز کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے صحابیت کا دعویٰ کیا ہے جن میں سے ایک شخصیت کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ عرفِ عام میں وہ "بابا رتن ہندی" اور "ہندوستانی صحابی" کے نام سے معروف ہیں جب کہ کتب میں ان کا تذکرہ "رتن ہندی" کے نام سے ہے اور ان سے مروی احادیث کی تعداد چار سو سے متجاوز ہے۔ ان احادیث کو محدثین نے موضوع قرار دیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کے دعویٔ صحابیت کی عدمِ صحت ہے۔ آئندہ سطور میں "رتن ہندی" کے مختصر حالاتِ زندگی کو بیان کرنے کے بعد ان کے دعویٔ صحابیت کی صحت و عدمِ صحت پر مدلل کلام کیا گیا ہے تاکہ اس کی حقیقت واضح ہو سکے۔

رتن ہندی کا تعارف

آپ کا نام و نسب یہ ہے: " رتن بن عبداللہ ہند ی ثم البرنتندی/مرندی،رتن بن نصر بن کربال یا رتن میدن بن مندی "۔ اُن کے زعم کے مطابق اُنہوں نے طویل زمانہ پایا ،یہاں تک کہ چھٹی صدی میں ظاہر ہوا اور صحابیت کا دعویٰ کر بیٹھا[1]۔

آپ کی پیدائش آپ کے آبائی وطن میں ہونے پر اتفاق رائے ہے لیکن وہ آبائی وطن کون سا ہے؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی "بھٹنڈہ" جبکہ مولانا عبدالصمد صارم "موضع: ترمذ، قصبہ:ریڑھ، ضلع: بجنور" کو ان کا آبائی وطن قرار دیتے ہیں۔ آپ قصبہ "جیور" ضلع "علی گڑھ" کے وزیر تھے۔ شق القمر کا معجزہ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے اور اس کی تحقیق کروانے کے بعد عازمِ مکہ ہوئے تاکہ نبی آخر الزماں ﷺ سے ملاقات کر سکیں چنانچہ وہاں پہنچے، شرفِ ملاقات حاصل کیا اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ایک عرصہ تک مدینہ میں مقیم رہنے کے بعد واپس ہندوستان آ گئے اور "کھادڑی، ضلع مراد آباد" میں سکونت اختیار کی اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہو گئے اور ۶۲۵ھ میں وفات پائی۔[2]

رتن ہندی کا دعویٰ صحابیت

رتن ہندی کا ظہور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے چھ سو سال بعد ہوا۔ علامہ شمس الدین ذہبیؒ[3]،حافظ ابن کثیر ؒ[4]،حافظ ابن حجرؒ[5]، امام شوکانیؒ [6]کی تصریح کے مطابق رتن ہندی نے چھٹی صدی ہجری میں صحابیت کا دعویٰ کیا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ میں نے معجزہ شق القمر دیکھا ہےاورسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی تقریب اور خندق کی کھدائی میں شرکت کی ہے[7]۔

اُن سے اپنے برخوردارمحمود وعبداللہ اور موسیٰ بن بجلی بن بندار،حسن بن محمد حسینی،کمال شیرازی،اسماعیل بارقی ،عثمان بن ابی بکر بن سعید اربلی ،داؤد بن اسعد بن حامد،شریف علی بن محمد خراسانی،معمر ابوبکر مقدسی،ہمام سہرکندی اور ابو مروان عبد الملک بن بشر مغربی روایت کرتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے دو مرتبہ شرف ملاقات حاصل ہوا ہے اور دونوں بار تین تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے میرے لئے درازی عمر کی دعا مانگی تھی،اس لئے میں نے طویل عمر پائی۔[8]

رتن ہندی کےدعویٰ صحابیت کی تحقیق سے قبل صحابی کی تعریف اور ثبوت صحابیت کی شرائط ذیل میں درج کی جاتی ہیں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ واقعی وہ صحابی ہیں یا نہیں۔

صحابی کی تعریف

امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابی کی تعریف یوں کی ہے:

"ومن صحب النبی أو رآه من المسلمین فهو من أصحابه"[9]۔

"مسلمانوں میں سے جو رسول اللہﷺ کا ساتھی رہا ہو یا جس نے آپ کو دیکھا ہو تو وہ آپ کے اصحاب میں سے ہے"۔

امام نووی رحمہ اللہ صحابی کی تعریف میں لکھتے ہیں:

"أما الصحابي ففيه مذهبان ، أصحهما وهو مذهب البخاري وسائر المحدثین وجماعة من الفقهاء وغیرهم، أنه کل مسلم رأی النبي ولو ساعة، وإن لم یجالسه ویخالطه، والثاني وهو مذهب أکثر أهل الأصول أنه یشترط مجالسته وهذا مقتضی العرف وذاک مقتضی اللغة[10]۔"

"صحابی کی تعریف میں(علماء) کے دو اقوال ہیں،ایک امام بخاریؒ ،تمام محدثین اور فقہاء کی ایک جماعت کا ہےاورجواصح بھی ہے کہ ہر وہ مسلمان صحابی کہلائے گا جس نے رسول اللہ ﷺ کو ایک ساعت کے لئے دیکھا ہو،اگر چہ اُن کی صحبت نہ پائی ہواور نہ اُن کی مجلس میں شریک ہوا ہو۔ دوسرا قول اصولیین کا ہے جنہوں نے صحابی ہو نے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نشست کو شرط رکھا ہے اور یہ عرف و لغت کا تقاضا بھی ہے"۔

حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ صحابی کی جامع تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الصحابي من لقی النبي مؤمنا به ومات علی الإسلام ، فیدخل في من لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت ، ومن رویٰ عنه أو لم یرو ، ومن غزا معه أو لم یغز ، ومن رآه ولم یجالسه ، ومن لم یره لعارض کالعمی[11]۔"

"صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایما ن میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی ہو اور اسلام ہی پر اس کو موت آئی ہو۔اس تعریف میں وہ سب لوگ داخل ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی مجالس میں زیادہ شریک ہوئے ہوں یا کم،جنہوں نے آپ ﷺ سے روایت فرمائی ہے یانہیں، جہاد میں حصہ لیا ہو یا نہیں، جنہوں نے آپ ﷺ کودیکھا ہو لیکن صحبت نہ کرسکےہو ں اور جنہیں کسی معذوری (اندھاپن) کے باعث شرف دیدار نصیب نہ ہو ا ہو"۔

ثبوتِ صحابیت کی شرائط

اہل فن نے صحابیت کےثبوت کے لئے مختلف طریقےمقررکئے ہیں،مثلا ًابو اسحاق ابراہیم بن عمر و ؒنے مدعی صحبت کے لئے درج ذیل چار شرائط بیان کی ہیں:

(۱)تواتر

(۲) استفاضہ]تواتر سے کم تر درجہ کی شہرت[

(۳)صحابی کا قول

(۴)کوئی ایسا شخص جوعادل اور ثقہ ہو اور صحابیت کا دعویٰ کرے[12]۔

ابن عراقی ؒاور حافظ السیوطی ؒبھی ثبوت ِصحابیت کے لئے انہی شرائط کا تذکرہ کر چکے ہیں[13]۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ ان میں ایک اور شرط کا اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" صحبت، تابعی کے قول (تابعی کسی کا صحابی ہونا بیان کرے)سے بھی ثابت ہوتی ہےنیزانہوں نےدعویٰ صحابیت کو عدالت اور معاصرت کی شرط سے مقید کر رکھا ہے،لکھتے ہیں:

" پہلی شرط عدالت ہے، جس کی امام آمدی وغیرہ نے بھی تائید کی ہے ، کیونکہ مدعی صحابیت کی عدالت سے قبل اس کا یہ کہنا کہ میں صحابی ہوں یا اس جیسے اور الفاظ ، اس کے عدالت ثابت ہونے سے مشروط ہیں ۔ دوسری شرط معاصرت یعنی زمانہ ہے تویہ ہجرت کے ۱۲۰سال تک محدود ہےکیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آخری عمر میں اپنے صحابہ سےفرمایا ہے:

"أرأتیکم لیلتکم هذه فأن علی رأس مأة سنة منها لا یبقی ممن هو الیوم علیها أحد"[14]۔

"آج کی رات سے سو سال بعد آج کا کوئی انسان دنیا میں آج کا کوئی بھی شخص زندہ نہیں رہے گا۔"

دوسری جگہ ارشاد نبوی ﷺ ہے:

"أقسم بالله ما علی الأرض من نفس منفوسة الیوم یأتي عليها مأة سنة وهي حیة یومئذ"[15]۔

"میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج کوئی نفس ایسا نہیں جو سوسال گزرنے کے بعد بھی زندہ رہے۔"[16]

امام نووی رحمہ اللہ حدیث مذکور کی تشریح کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

"والمراد أن کل نفس منفوسة کانت اللیلة علی الأرض لا تعیش بعدها أکثر من مأة سنة سواء قل عمرها قبل ذلک أم لا۔"[17]

"حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس رات جو بھی شخص بقید حیات تھا ،وہ سو سال سے زیادہ نہ رہے گااگر چہ اس کی عمرمذکورہ رات سے پہلے کم ہو یا زیادہ۔"

حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ " أرأتیکم لیلتکم " کی وضاحت کرتے ہیں:

"أما ما قاله صلی الله علیه وسلم من أنه: لا یبقیٰ علی رأس مأة سنة من تلک اللیلة أحد، فمراده بذلک إنحزام قرنه وموت أهله کلهم الموجودین منهم في تلک اللیلة علی الأرض، وبذلک فسره أکابر الصحابة کعلي بن طالب وابن عمر رضي الله عنهما وغیرهما۔"[18]

"رسول اللہ ﷺ کے قول کہ "آج جتنے لوگ بقید حیات ہیں، ایک صدی گزرنے کے بعد ان میں سے ایک شخص بھی زندہ باقی نہ رہے گا"سے مراد ہے کہ اُس وقت جتنے بھی لوگ موجود تھے ،سب کے سب سو سال کے اندر ختم ہو جائیں گے اور حدیث کی یہی تفسیر اکابر صحابہ کرام مثلا سیدنا علی وسیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ نے بھی فرمائی ہے۔"

مندرجہ بالا احادیث سے استدلال کرکے حافظ سیوطیؒ مدعی صحابیت کے متعلق لکھتے ہیں :" اب اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کی وفات کے سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کرے تو قابل قبول نہیں اگر چہ دعویٰ سے پہلے اس کا عادل ہونا بھی ثابت ہو۔"[19]

رتن ہندی کےدعویٰ صحابیت کی تحقیق

رتن ہندی کا دعویٰ باطل اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ سب سے پہلےان کے ہم زمانہ امام صغانیؒ (م:650ھ)نے رتن ہندی کی مرویات کو موضوع قرار دے کر لکھا ہے:

"وما یحکی عن بعض الجهال أنه اجتمع بالنبی وسمع منه ودعا له بقوله: عمرک الله ،لیس له أصل عند أئمة الحدیث"[20]

علامہ ذہبیؒ(م:748ھ) نے رتن ہندی کی تردید میں "کسر وثن رتن" نامی کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے،لکھتےہیں:

"من صدق بهذه الأعجوبة،وآمن ببقاء رتن، فما لنا فیه من طب، فلیعلم أننی أول من کذب بذلک"[21]

"اس عجیب بات کی تصدیق اور رتن کی بقاء پر ایمان کون لائے گا؟ اس میں ہمارے لئے کوئی خوشی نہیں۔آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ میں پہلا بندہ ہوں جس نے اسے جھٹلایا"۔

مزیدلکھتے ہیں:

"شیخ دجال بلا ریب ، ظهر بعد الستمأة، فادعی الصحبة والصحابة لا یکذبون وهذا جری علی الله ورسوله"[22]

"رتن ہندی کے دجال ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ وہ چھٹی صدی ہجری کے بعد ظاہر ہوا اور اس کے باوجود صحابیت کا مدعی بن بیٹھا، جب کہ صحابہ کرام جھوٹ نہیں بولا کرتے ۔یہ شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلے میں بڑا بہادرواقع ہوا ہے"۔

حافظ ابن کثیرؒ (م:774ھ)رتن ہندی کے متعلق لکھتے ہیں:

"رتن الهندی أحد من ادعی له الصحبة فی حدود ست مأة وهذا مبلغ فی الکذب من ذلک ، فانه لا یعرف أن أحدا من هولاء الصحابة المسمین فی هذا السیاق دخل إلی بلاد الهند لا فی حیاة رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ولا بعد وفاته"[23]

"رتن ہندی نے چھٹی صدی ہجری میں صحابیت کا دعویٰ کیا جو کہ سراسرجھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ ہند میں اس نام سے موسوم صحابی نہ تو رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں کوئی جانتا تھا اور نہ اُن کے وفات کے بعد"۔

حافظ عراقی ؒ (م:806ھ)فرماتے ہیں:

"وعلی کل تقدیر فلا بد من تقیید ما أطلقه بأن یکون ادعاؤه لذلک یقتضیه الظاهر أما لو إدعاه بعد مأة سنة من وفاته صلی الله علیه وسلم فانه لا یقبل ذلک منه کجماعة إدعوا الصحبة بعد ذلک کأبي الدنیا الأشج و مکلبة بن ملکان ورتن الهندي، فقد أجمع أهل الحدیث علی تکذیبهم وذلک لما ثبت في الصحیحین من حدیث ابن عمر، قال: صلی بنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ذات لیلة صلاة العشاء في آخر حیاته فلما سلم قام فقال: أرأتیکم لیلتکم هذه فان علی رأس مأة سنة منها لا یبقی ممن هو الیوم علیها أحد"[24]

"کسی شخص کا دعویٰ صحابیت ظاہری حالات کے موافق ہو نے سے مقید ہے پس اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے وفات کے سو سال بعدصحابی ہونے کا مدعی بن بیٹھے تو ان کا دعویٰ قبول نہیں کیاجائے گا جیسے ابو الدنیا اشج ، مکلبہ بن ملکان اور رتن وغیرہ ۔علمائے حدیث کا اُن کے دعوی کو جھوٹا قرار دینے میں اجماع ہے۔یہی مضمون صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے، فرماتے ہیں :رسول اللہ ﷺ کی اخیر عمر میں ایک رات ہم نے عشاء کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ نےفرمایا:اس رات جو شخص بھی روئے زمین پر بقید حیات ہے،سو سال بعد نہیں ہوگا"۔

صا حب قاموس علامہ مجد الدینؒ (م:817ھ) کا قول ہے:

"إبن کربال بن رتن البرتندی،لیس بصحابی ، وإنما هو کذاب، ظهر بالهند بعد الستمأة ، فادعی الصحبة"[25]

"ابن کربال بن رتن برٹندی،صحابی نہیں بلکہ جھوٹا ہے۔ہند میں چھٹی صدی کے بعد ظاہر ہوا اور صحابی ہونےکا دعویٰ کر ڈالا"۔

رتن ہندی کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ(م:852ھ)لکھتے ہیں:

"ولم أجد له فی المتقدمین فی کتب الصحابة ولا غیرهم ذکرا، لکن ذکره الذهبی فی تجریده فقال: رتن الهندی شیخ ظهر بعد الستمأة بالشرق وادعی الصحبة ، فسمع منه الجهل ، ولا وجود له ، بل اختلق إسمه بعض الکذابین"[26]

"متقدمین علماء کی صحابہ کرام سے متعلق کتابیں ہوں یا دوسری تاریخی کتابیں ، میں نے ان میں سے کسی میں رتن کا تذکرہ نہیں پایا ، البتہ علامہ ذہبی نے تجرید میں اس کا تذکرہ کرکے لکھا ہے کہ مشرق میں چھٹی صدی ہجری میں ظاہر ہوا اور صحابی ہونے کا دعویٰ کیا۔ کچھ جہال نے اس سے روایات سنیں حالانکہ اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں بلکہ بعض جھوٹوں نے اس کا نام گھڑ لیا ہے"۔

امام سخاوی ؒ(م: 902ھ) نے بھی رتن ہندی کو صحابیت کا جھوٹا دعویدار قرار دیا ہے؛لکھتے ہیں:

"قد ادعی الصحبة جماعة فکذبوا وکان آخرهم رتن الهندی لان الظاهر کذبهم فی دعوٰهم"[27]

امام سیوطی ؒ(م:911ھ) نے علامہ ذہبیؒ کے حوالے سے انہیں جھوٹا قرار دیا ہے [28]۔

ابن عراق الکنانیؒ (م:963ھ) کی تصریح کے مطابق رتن ہندی وہ مشہور جھوٹا شخص ہے جس نے چھٹی صدی ہجری میں صحابیت کا دعویٰ کیا۔ "رتن الهندی ذلک الکذاب المشهور ظهر بعد الستمأة، فادعی الصحبة"[29]۔

محمد طاہر فتنی ؒ(م:986ھ)نے"تذکرۃ الموضوعات"میں "باب فیمن ادعی الصحبة کذبا من المعمرین" کا عنوان قائم کرکے جھوٹے مدعیان صحابیت کی فہرست میں انہیں شمار کیاہے[30]۔

ملا علی قاری حنفی ؒ(م:1014ھ)صحیح مسلم کی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"معناه ما تبقی نفس مولودة الیوم مأة سنه، أراد به موت الصحابة رضی الله عنهم وقال صلی الله علیه وسلم هذا علی الغالب وإلا فقد عاش بعض الصحابة أکثر من مأة سنة ،ومنهم أنس بن مالک وسلمان رضی الله عنهما وغیرهما۔ والأظهر أن المعنی لا تعیش نفس مأة سنة بعد هذا القول ، کما یدل علیه الحدیث الآتی فلا حاجة إلی اعتبار الغالب فلعل المولودین فی ذلک الزمان إنقرضوا قبل تمام المأة من زمان ورود الحدیث۔ ومما یؤید هذا المعنی إستدلال المحققین من المحدثین وغیرهم من المتکلمین علی بطلان دعوی بابا رتن الهندی وغیره ممن ادعی الصحبة وزعم أنه من المعمرین إلی المأتین والزیادة"[31]

"اس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو بندہ زندہ ہے،سو سال بعد نہیں ہوگانیز اس سے مراد صحابہ کی موت تھی اور رسول اللہ ﷺ کا قول بناء بر اکثریت تھی کیونکہ بعض صحابہ ایسے بھی تھے جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی جیسے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اورسیدنا سلمان رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ظاہری طور پر حدیث کا معنی یہ ہے کہ اس قول کے بعد کوئی بھی شخص زندہ نہیں رہے گااورآنے والی روایت بھی اس مضمون کی تائید کرتی ہے تو حدیث مذکور کو اکثریت کے بارے میں قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں،شائد اسی زمانے کے مولودین نے اپنی عمر حدیث شریف کے ورود کے بعد سو سال کے اندر پوری کردی تھی۔ اس حدیث سے محققین محدثین نے استدلال کیا ہے کہ بابا رتن ہندی سمیت جو لوگ دو سوصدی بعد صحابیت کا دعوی کر بیٹھے ہیں،باطل ہے"۔

مرتضی زبیدی ؒ(م:1205ھ)ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

"والصحیح أنه لیس بصحابی وإنما هو کذاب ظهر بالهند بعد الستمأة ، فادعی الصحبة[32]۔

"صحیح بات یہ ہے کہ رتن صحابی نہیں بلکہ کذاب ہے جو ہند میں چھ سو صدی کے بعد ظاہر ہوا اورجس نے صحابیت کا دعویٰ کیا"۔

امام شوکانی ؒ(م:1250ھ)نےاپنی کتاب "الفوائد المجموعۃ"میں "باب فیمن ادعی الصحبة کذابا" کے تحت اُن کا تذکرہ کیا ہے[33]۔

امام آلوسی بغدادی حنفی ؒ(م:1270ھ)نے رسول اللہ ﷺکی حدیث مبارک "آج سے ایک سو سال گزرنے کے بعد کوئی بندہ زندہ نہیں رہے گا"کو رتن ہندی کے خلاف صریح رد قرار دیا ہے[34]۔

مولانا عبد الحی لکھنوی ؒ(م:1341ھ)رتن ہندی کے تفصیلی واقعات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"وکل هذا لیس له أصل یعتمد علیه"[35]۔

"یہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد باتیں ہیں۔"

نتائج بحث

رتن ہندی کا دعویٰ صحابیت نرا ، عجیب اور باطل ہے کیونکہ بقول اس کے اس نے لمبی عمر پائی اور سات سو سال تک زندہ رہا۔ یہ دعویٰ اس لئے بھی درست نہیں کہ صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً روایت ہے :

"واضح رہے کہ آج جتنےبھی لوگ بقید حیات ہیں، ایک صدی گزرنے پر ان میں سے ایک شخص بھی زندہ باقی نہ رہے گا۔"

تو یہ چھ صدی تک کیسے زندہ رہا اور اگر بقید حیات تھا تو شہرت کیسے نہ پائی؟ صدیاں گزر گئیں اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ یہاں پر صحابی رسول موجود ہے۔ تراجم وطبقات میں صحابہ کرام کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اِن میں کسی بھی کتاب میں رتن ہندی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اسمائے رجال کی کتابوں میں ہند کی بہت سی شخصیات کا تذکرہ پایا جاتا ہے، ان میں بھی رتن ہندی کا تذکر ہ کہیں نہیں ملتا۔ اُن کے قول کے مطابق وہ غزوہ خندق میں شریک ہوئے تھے تواصحاب السیر والتاریخ نے اُن کو کیوں یاد نہیں کیا ۔


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات(References) == ابن حجر، ابو الفضل احمد بن علی بن محمد بن احمد العسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ،دارالکتب العلمیۃ بیروت، طبع اول۱۴۱۵ ھ، ۴۳۴:۲۔ Ibn e Ḥajar, ‘Aḥmad bin Ali bin Muḥammad, Al Iṣabah fi Tamyyiz al Ṣahabah, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah, 1st Edition,1415), 2:434. الصفدی،صلاح الدین خلیل بن ایبک بن عبداللہ،الوافی بالوفیات ، دار احیاء التراث بیروت، ۱۴۲۰ھ:۲۰۰۰ء،۶۸:۱۴۔ Al Ṣafdi, Khalil bin Aybak, (Beirut: Dar Iḥyaʼ al turath al ‘Arabi, 2000), 14:68.
  2. ماہنامہ جہانِ کتب، ایس، ایف پرنٹرز، دریا گنج، دہلی، مارچ ۲۰۰۸، جلد:۵،شمارہ:۴۵، ص:۲۴۔ Monthly Jahan-e-Kutub, (Darya Ganj, Dehli: S.F. Printers, March: 2008), Vol: 5, Issue: 45, p:24.
  3. الذہبی،محمد بن احمد بن عثمان بن قائماز،میزان الاعتدال فی نقد الرجال، دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر،بیروت،طبع اول،۱۹۶۳ء،۴۵:۲۔ Al Dhabi, Muḥammad bin Aḥmad bin Uthman, Meezan al A‘tadal fi Naqd al Rijal, (Beurit: Dar al Ma‘arifah lil Taba‘h wal Nashr, 1st Edition, 1963), 2:45.
  4. ابن کثیر ،اسماعیل بن عمر ،جامع المسانید والسنن، دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،بیروت،۱۹۹۸ء،۲۷۶:۳۔ Ibn Kathir, Isma‘il bin ‘Umar, Jam‘a al Masanid wal Sunan, (Beurit: Dar Khizar lil Taba‘ah wal Tawziy‘, 1998), 3:276.
  5. الاصابۃ،۴۳۴:۲۔ Al Iṣabah fi Tamyyiz al Ṣahabah, 2:434.
  6. الشوکانی،محمد بن علی بن محمد ،الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ، دار الکتب العلمیہ ،بیروت لبنان،بدون تاریخ،۴۲۲:۱۔ Al Showkani, Muḥammad bin ‘Aliy bin Muḥammad, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah), 1:422.
  7. الاصابۃ،۴۳۹:۲۔ Al Iṣabah fi Tamyyiz al Ṣahabah, 2:439.
  8. ایضاً، ۲:۴۳۴۔ Ibid., 2:434.
  9. صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بخاری ، دار طوق النجاۃ،طبع اول۱۴۲۲ھ، کتاب اصحاب النبی(۶۲)باب فضائل اصحاب النبی(۱) امام بخاری نے ترجمۃ الباب میں صحابی کی تعریف کی ہے[ Al Bukhari, Muḥammad bin Isma‘il, (Dar Towq al Najah, 1st Edition, 1422).
  10. النووی،ابو زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف،تہذیب الاسماء واللغات، دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،۱۴:۱۔ Al Nowwi, Yaḥya bin Sharf, Tahziyb al Asma’ wal Lughāt, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah) 1:41.
  11. الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ،ا۱۵۸:۱۔ Al Iṣabah fi Tamyyiz al Ṣahabah, 11:158.
  12. ابراہیم بن عمر بن ابراہیم بن خلیل،رسوم التحدیث فی علوم الحدیث،دار ابن حزم، لبنان،بیروت،طبع اول۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء،۱۴۴:۱۔ Ibrahim bin ‘Umar, Rusum al Tahdiyth fi ‘Uloom al Ḥadith, (Beurit:Dar ibn Ḥazam, 1st Edition, 2000/1421), 1:144.
  13. عبد الرحیم بن الحسین،التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح، المکتبۃ السلفیۃ بالمدینۃ المنورۃ،طبع اول،۱۹۶۹ء، ۲۹۹:۱۔ ‘Abdul Rahim bin al Ḥusain, Al Taqyiyd wal Idhaḥ, (Madinah:al Maktabah al Salfiyyah, 1st Edition, 1969), 1:299. السیوطی،عبد الرحمٰن بن ابی بکر،تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ، دارطیبہ ،بدون تاریخ۶۶۷:۲۔ Al Sayuwti, ‘Abdul Raḥman bin Abi Bakar, Tadriyb al Rawiy, (Dar e Tayyibah), 2:667.
  14. صحیح بخاری، کتاب العلم(۳)باب السمر فی العلم(۴۱)حدیث:۱۱۶۔ Ṣaḥiḥ Bukhari, Ḥadith: 116. مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم،دار احیاء التراث العربی،بیروت،بدون تاریخ ، حدیث:۲۵۳۷۔ Muslim bin Ḥajjaj, Ṣaḥiḥ Muslim, (Beirut: Dār Iḥyaʼ al Turath al ‘Arabi), Ḥadith:2537.
  15. صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ ،باب قولہ ﷺ :لا تأ تی مأۃ سنۃ، حدیث:۲۵۳۸۔ Ṣaḥiḥ Muslim, Ḥadith:2538.
  16. الاصابۃ،۱۶۰:۱۔ Al Iṣabah fi Tamyyiz al Ṣahabah, 1:160.
  17. النووی،یحییٰ بن شرف،المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، دار احیاء التراث العربی بیروت،طبع دوم ۱۳۹۲ھ،۹۰:۱۶۔ Al Nowwi, Yaḥya bin Sharf, Al Minhaj, (Beirut: Dār Iḥyaʼ al Turath al ‘Arabi, 2nd Edition, 1392), 16:90.
  18. ابن رجب،زین الدین عبد الرحمٰن،فتح الباری شرح صحیح البخاری، مکتبۃ الغرباء الاثریۃ،مدینہ منورہ، طبع اول۱۴۱۷ھ:۱۹۹۶ء،۳۶۹:۴۔ Ibn Rajab, ‘Abdul Raḥman bin Aḥmad, (Madinah: Maktabah al Ghuraba’ al Athariyyah, 1st Edition, 1996/1417), 4:369.
  19. تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ۶۷۳:۲۔ Tadriyb al Rawiy, 2:673.
  20. الصغانی،رضی الدین حسن بن محمد بن حسن بن حیدر،الموضوعات،دارالمأمون التراث،دمشق،طبع دوم۱۴۰۵ھ،۳۱:۱۔ Al Ṣaghani, Ḥassan bin Muḥammad bin Ḥassan, al Mawzuw‘at, (Damascus: Dar al Ma’muwn al Turath, 2nd Edition, 1405), 1:31.
  21. الطرابلسی،ابراہیم بن محمد بن خلیل،کشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث،عالم الکتب مکتبۃالنہضۃالعربیۃ،بیروت،۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء، ۱۱۶:۱۔ Al Tarablisi, Ibraḥim bin Muḥammad bin Khalil, Kashf al Ḥathith, (Beurit: ‘Alam al Kutub, 1987/1407), 1:61. الذہبی،محمد بن احمد بن عثمان،تاریخ اسلام ووفیات المشاہیر والاعلام،دارالکتاب العربی،بیروت لبنان،طبع سوم۱۴۱۳ھ:۱۹۹۳ء،۹۹:۴۶۔ Al Dhabi, Muḥammad bin Aḥmad bin Uthman, Tareekh al Islam wa Wafiyyāt al Mashahiyr wal A‘lam, (Beurit: Dat al Kutub al ‘Arabi, 3rd Edition, 1993/1413), 46:99.
  22. الذہبی،محمد بن احمد بن عثمان، میزان الاعتدال فی نقد الرجال،دارالمعرفۃ للطباعۃوالنشر،بیروت،لبنان،۱۳۸۲ھ/۱۹۶۳ء، ۴۵:۲۔ Meezan al A‘tadal fi Naqd al Rijal, 2:45.
  23. جامع المسانید والسنن الہادی لاقوم سنن، ۲۷۶:۳۔ Jam‘a al Masanid wal Sunan, 3:276.
  24. التقیید والایضاح،۳۰۰:۱۔ Al Taqyiyd wal Idhaḥ, 1:300.
  25. فیروز آبادی،محمد بن یعقوب،القاموس المحیط،مؤسسۃ الرسالۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت، طبع ہشتم، ۱۴۲۶ھ/۲۰۰۵ء،۱۱۹۹:۱۔ Feroz Abadi, Muḥammad bin Yaquwb, (Beirut: Mua’ssasat al Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 8th Edition, 2005/1426), 1:1199.
  26. الاصابۃ،۴۳۴:۲۔ Al Iṣabah fi Tamyyiz al Ṣahabah, 2:434.
  27. محمد بن عبدالرحمٰن بن محمد،فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث للعراقی،السخاوی، مکتبۃ السنۃ مصر،طبع اول، ۱۴۲۴ھ:۲۰۰۳ء،۲۹:۴۔ Al Sakhāwi, Muḥammad bin ‘Abdul Raḥman bin Muḥammad, Fatḥ al Mughiyth, (Cairo: Maktabah al Sunnah, 1st Edition, 2003/1424), 4:29.
  28. تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ۶۷۳:۲۔ Tadriyb al Rawiy, 2:673.
  29. الکنانی،علی بن محمد بن علی،تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ،دار الکتب العلمیہ بیروت،طبع اول، ۱۳۹۹ھ،۵۹:۱۔ Al Kanani, Ali bin Muḥammad bin Ali, Tanziyh al Shari‘ah al Marfu‘ah ‘n al Akhbar al Shani‘ah al Mawzuw‘ah, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1399), 1:59.
  30. محمد طاہر بن علی، تذکرۃ الموضوعات،ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ،طبع اول، ۱۳۴۳ھ،۱۰۳:۱۔ Muḥammad Tahir bin Ali, Tazkirah al Mawzu‘āt, (Idarah al Taba‘ah al Muniyriyyah, 1st Edition, 1343), 1:103.
  31. ملا علی قاری،علی بن سلطان محمد ،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، دارالفکر بیروت لبنان،طبع اول، ۱۴۲۲ھ:۲۰۰۲ء،۳۴۹۸:۸۔ Mulla ‘Ali Qari, ‘Ali bin Sultan Muḥammad, (Beurit: Dar al Fikar, 1st Edition, 2002/1422), 8:3489.
  32. الزبیدی،محمد بن محمد بن عبد الرزاق،تاج العروس من جواہر القاموس،دار الہدایہ، بدون تاریخ ، ۷۵:۳۵ ۔ Al Zubaiydi, Muḥammad bin Muḥammad bin ‘Abdul Razzaq, (Dar al Hidayah), 35:75. 31 الشوکانی،محمد بن علی بن محمد،الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان،بدون تاریخ ، ۴۲۲:۱۔ Al Showkani, Muḥammad bin ‘Ali bin Muḥammad, Al Fawa’id al Majmu‘ah fi al Aḥadith al Mawdhu‘ah, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah) 1:422. 32 الآلوسی،محمود بن عبداللہ،روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی،دار الکتب العلمیۃ بیروت،طبع اول، ۱۴۱۵ھ،۳۰۵:۸۔ Al Āluwsi, Ma ḥmuwd bin ‘Abdullah, Ruwḥ al Ma‘aniy, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1415), 8:305. 33 الحسنی،عبد الحی بن فخر الدین بن عبد العلی،الاعلام بمن فی تاریخ الہند من الأعلام المسمی بنزہۃ الخواطر وبہجۃ المسامع والنواظر، دار ابن حزم بیروت لبنان، طبع اول، ۱۴۲۰ھ:۱۹۹۹ء،۹۸:۱۔
  33. Al Ḥasani, ‘Abdul Ḥayiy bin Fakhar al Din bin ‘Abdul ‘Aliyy, Al Ai‘lam b mn fil Hind min Al Aa‘lam, (Beurit: Dar ibn Ḥazam, 1st Edition, 1999/1420), 1:98.
  34. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn34
  35. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn35
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...