Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

ضلع ہری پورکے علماء کی تصنیفی اور تحقیقی خدمات |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

انبیاء کرام کےبعد دینِ اسلام کے علماء ہی تمام انسانیت تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں، علماء اپنے اپنے علاقوں میں دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج کرنے والے قوم کے رہنماء ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو دین سے مانوس کرنے اور ان کی مذہبی تعلیم و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں علماء کے حالاتِ زندگی سے آگاہی حاصل ہو،چنانچہ ان کا تعارف، علم و تحقیق کے میدان میں اگلی نسل کے لیے راہِ عمل متعین کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مشعل راہ بھی ہوتا ہے ۔زیر نظر مقالہ میں ضلع ہری پور[1] کےان علماء کرام کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جنہوں نے مختلف علوم و فنون میں تصانیف کی ہیں تا کہ اس خطہ کے علماء کرام کی مطبوع اور مخطوط کتب سامنے آسکیں اور مخطوطات پر تحقیق کرنے والے محققین کے لئے تحقیق کا ایک نیا در وا ہو سکے۔یہ مقالہ دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں ان تیرہ علماء کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے مختلف اسلامی علوم و فنون میں کتابیں تالیف کی ہیں جب کہ باقی ماندہ علماء کا تذکرہ اس مضمون کے دوسرے حصے کے طور پر اگلے شمارہ میں اشاعت کے لئے پیش کیا جائے گا۔

طریقۂ کار

زیرِ نظر تحریر میں علماء کرام کے سوانحی حالات اور تصنیفی خدمات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے جہاں شائع شدہ کتب شدہ کتب سے استفادہ کیا گیا ہے وہیں انٹر نیٹ پر موجود مقالات سے بھی مدد لی گئی ہے نیز جن علماء کرام کے حالاتِ زندگی پر کوئی کتاب میسر نہیں ہے، ان میں سے جو ابھی تک بقیدِ حیات ہیں ان سے بالمشافہہ ملاقات کر کے ان کے حالات و خدمات کو قلمبند کیا گیا ہے جب کہ فوت شدگان کے حالات و خدمات ان کے ورثاء سے معلوم کرکے احاطۂ تحریر میں لائے گئے ہیں۔

سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ

تذکرہ علماءِ خیبر پختونخواہ

[2]: محمد قاسم بن محمد صالح [3]کی یہ کتاب ایک جلد میں ہے اور ۶۶۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں انہوں نے تمام صوبے کے چیدہ چیدہ علماء کا تعارف کیاہے۔

تذکرہ علماء و مشائخ سرحد

فقیر محمد امیر شاہ قادری [4]کی اس تصنیف میں بھی صوبہ خیبرپختون خوا کے بریلوی مکتب فکرکے چند مشہور علماء کرام کا تعارف ہے۔

انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا

سید قاسم محمود[5] کے مرتب شدہ اس مجموعے میں بھی چند ایک علماء ہری پور کاتذکرہ موجود ہے ۔

تذکرہ علمائے ہند

مولوی رحمن علی کی اس تالیف[6] میں بھی چند ایک علماء ہری پور کا تذکرہ ہے ۔

شخصیات سرحد

محمد شفیع صابر [7]کی اس کتاب میں صوبہ خیبر پختونخواہ کی سرکردہ مشہور شخصیات کا تعارف ہے ۔ جن میں ہری پور کے محدودے چند کے سوا کسی اور کا تعارف نہیں ملتا۔

صوبہ سرحد کے علمائے دیوبند کی سیاسی خدمات

مولانا ڈاکٹر عبد الدیان کلیم فاضل دیوبند[8] کی اس کتاب میں صرف زیادہ شہرت پانے والے علمائے خیبر پختونخواہ اور وہ بھی صرف مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والے علماء کا تعارف موجود ہے ۔

علماء کی کہانی خود ان کی زبانی

ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن [9]کی اس تالیف میں بھی بعض علمائے ہری پور کا ذکر موجود ہے ۔

مصنفین ہزارہ

پروفیسر بشیر احمد سوز[10] کی اس کتاب میں بھی ایک باب مصنفین علمائے ہزارہ کے نام سے ہے جس میں ہری پور کے بعض علماء کا تذکرہ بھی ہے ۔

ہزارہ کے نامور اہل قلم

پروفیسر بشیر احمد سوز کی اس کتاب میں بھی چند ایک شخصیات ہری پور کا بیان ہے ۔

تاریخ ہزارہ

ڈاکٹر شیر بہادر خان پنی [11]کی اس تاریخ کتاب میں بھی ہری پور کے چند علماء کا تذکرہ پایا جاتا ہے ۔

تاریخ ہزارہ

منصف خان سحاب[12] کی اس کتاب میں بھی بعض علمائے ہری پور کے ناموں کا تذکرہ ہے ۔

سلسلہ نقشبندیہ کی روشن کرنیں

مولانا روح اللہ نقشبندی[13] کی یہ کتاب ۳ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں بھی چند ایک مشائخ ِ ہری پور کا تذکرہ موجود ہے ۔

تعارف علمائے ہری پور ہزارہ ( حصہ اول)

تاج محمود بن مولانا محمد حبیب بن فیض اللہ بن خیر محمد

[14](۱۹۱۸ء- ۱۹۸۴ء)

آپ جاگل[15] میلم [16]ہری پور میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ضلع جھنگ[17] میں مولانا عبد الرحمٰن ہزاروی اور مولانا یار محمد سے تعلیم حاصل کی۔ جامع مسجد فیصل آباد میں مولانا محمد یونس سے دورہ حدیث پڑھ کر فراغت حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا ۔[18]

قادیانی عقائد کا تعارف

آپ کی یہ تصنیف نبوت کے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی[19] اور اس کے پیروکاروں کے عقائد سے متعلق ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے مرزا کی اپنی کتابوں کی روشنی میں ان کے عقائد کے اوپر علمی و تحقیقی گفتگو کی ہے ۔

حبیب الرحمٰن بن اخوند ذادہؒ محمد شاہگل بن اخوند زادہؒ عنایت اللہؒ (۱۹۱۷ء- ۱۹۹۲ء)

۱۹۱۷ء میں پیدا ہوئے۔دارالعلوم دیو بند سے پڑھ کر فارغ ہوئے ۔گوارداسپور ، انڈیا ، لاہور ، راولپنڈی ، ہری پور شہر اور کھلابٹ میں امامت و خطابت کی۔

تصانیف

تقریر بخاری، تقریر ترمذی، تقریر ابن ماجہ ، تقریر سنن نسائی ، طحاوی شریف جنوری ۱۹۹۲ء کو وفات پا گئےاور جامع مسجد کھلابٹ ٹاؤن کے دائیں پہلو میں دفن کیے گئے[20]۔
تقریر بخاری

آپ ؒ نے دارالعلوم دیوبند میں اپنے اساتذہ سے پڑھے گئے اسباق کو قلم بند کیا۔ بعد میں ان میں اضافہ اور نظرثانی کر کے انہیں کتابی شکل دی ۔ ان میں سے ایک کتاب تقریر بخاری کے نام سے معروف ہوئی ۔ اس میں قاری محمد طیب ؒاور مولانا حسین احمد مدنیؒ کے افادات کو قلم بند کیا گیا ہے ۔

تقریر ترمذی

اس تالیف میں مولانا انور شاہ کشمیریؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ کے افادات کو کتابی شکل دی گئی ہے۔

تقریر ابن ماجہ
اس تالیف میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے اسباق کو قلم بند کیا گیاہے ۔
تقریر سنن نسائی

اس مجموعہ میں نسائی شریف سے متعلق اپنے دروس کو کتابی شکل میں قلم بند کیا ہے ۔ اس کو مرتب کرنے میں مؤلفؒ نے اپنے اساتذہ کے ملفوظات کو بھی مدنظر رکھا ہے۔

تقریر طحاوی شریف
شرح مشکل الآثار المعروف ب طحاوی شریف سے متعلق مؤلفؒ نے اپنے اور اساتذہ کے دروس کے مجموعہ کو ایک مفید اور جامع انداز میں لکھا ہے ۔

 

حیدر زمان صدیقی ہزاروی بن احمد دین (۱۹۰۷ء- ۱۹۵۲ء)

۲۲ جنوری ۱۹۰۷ ءکو برتھال [21]متصل ریحانہ ضلع ہری پور (ہزارہ) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم علاقہ کے علماء حکیم عبد السلام [22]کے والد مولانا محمد دین(میر پور[23] ،ہزارہ)،مولانا سکندر علی(شاہ محمد[24]،ہزارہ)، اور مولانا محمد اسماعیل (کوکل،ہزارہ) سے حاصل کی۔ بعد ازاں دارالعلوم دیو بند چلے گئے ،مولانا حسین احمدمدنیؒ [25]سے دورہ حدیث پڑھا۔۱۳۴۹ھ۔ ۱۹۳۰ء کو دارالعلوم دیو بند سے سندِ فراغت حاصل کی۔۱۹۴۰ء میں مسجد قاضیاں پٹھان کوٹ میں خطیب مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۲ ء کو وفات پا گئے[26]اور ہری پور شہر کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔عتیق الرحمٰن صدیقی[27] اور مشتاق احمد صدیقی آپ کے فرزند ہیں۔

تصانیف

اسلامی نظریہ اجتماع، اسلام کا معاشی نظام، جہاد استقلال ،تعمیری انقلاب اور قرآنی اصول حکمت۔[28]

اسلامی نظریہ اجتماع

مولانا حیدر زمان صدیقیؒ معاشرے کا درد رکھنے والے بصیرت عالم دین وانشاء پرداز تھے ۔ آپؒ نے اپنی تصنیف میں دنیا میں موجود اسلامی ممالک کے قوانین و طرز حکومت اور اسلامی ریاست کے خدوخال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہےاور ساتھ ہی اجتماعی زندگی میں اسلامی رہنمائی کو واضح کیا ہے ۔

اسلام کا معاشی نظام

اس تالیف میں اسلام کے معاشی نظام پر بڑے خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ اسلام دین حیات ہے ۔اور اسلام نے دنیا کے ہر مسئلے کا حل پیش کیا ہے ۔

جہاد استقلال

احب الاعمال الي الله ادومها وان قل"[29] آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے ۔یعنی مستقل مزاجی کے ساتھ عمل کیا جائے ،بھلے وہ چھوٹا یا تھوڑا عمل ہو ۔اسی چیز کو بنیاد بنا کر آپؒ نے یہ کتاب تصنیف کی کہ مستقل مزاجی بھی ایک بہترین جہاد ہے ۔ اور قوم کے اندر اس خاصیت کا پایا جانا نہایت ضروری ہے ۔اس حوالے سے آپ کی یہ تصنیف اپنی نوعیت کا منفرد شاہکار ہے۔

تعمیری انقلاب اور قرآنی اصول حکمت

کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے اس کے اندر تعمیری انقلاب کا پیدا کرنا ازحد ضروری ہوا کرتا ہے ۔اور تعمیری انقلاب کا فہم حاصل کرنا اور اس کے لیے درست راہوں کا انتخاب کرنا یہ حکمت بالغہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور حکمت کا حصول بغیر قرآن فہمی کے ممکن نہیں ہے ۔ اسی چیز کو مدنظر رکھ کر مصنف ؒ نے یہ کتاب"تعمیری انقلاب اور قرآنی اصول حکمت" تحریر کی ہے ۔سلیس اور دل چسپ پیرائے میں اسے ترتیب دیا گیا ہے ۔

  1.  

صدر الدین (محمد صدر الدین)نقشبندی ہزاروی بن مولانا محمد فیروز الدین(۱۹۱۰ء- ۱۹۷۸ء)

۱۹۱۰ء کو موضع درویش[30] ضلع ہری پور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد اور مولانا سکندر علی[31] سے حاصل کی، پھر مدرسہ عالیہ رامپور[32] اور اس کے بعد بھوپال [33]میں مولانا بشیر احمد سےحدیث پڑھ کرفراغت حاصل کی۔حیدر آباد دکن اور درویش میں تدریس کی۔ ریلوے سٹیشن ہری پور کے قریب ایک شاندار مسجد ،مدرسہ اور خانقاہ مجددیہ تعمیر کرائی اور آخری وقت تک تدریس کے ساتھ وابستہ رہے[34]۔

تصانیف

عقائد اسلام، مکتوبات صدریہ۔۲۹ مارچ ۱۹۷۸ء میں وفات پا گئے[35]۔

عقائد اسلام

آپ ؒ نے جہاں اپنے وعظوں سے قوم کی اصلاح کا کام کیا ،وہیں آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعے بھی قوم کی رہنمائی کی ہے ۔ "عقائداسلام "نظریات و عقائد کی اصلاح کے حوالے سے بہترین تصنیف ہے ،رسوم وبدعات اور غلط نظریات کا مدلل انداز میں رد کیا ہے ۔

مکتوبات صدریہ

آپ نے مختلف موقعوں پر اپنے متعلقین اور متوسلین کے ساتھ خط و کتابت کی اور ان کی رہنمائی کا فرض ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ان خطوط کو جمع کر کے کتابی شکل میں مکتوبات صدریہ کے نام سے شائع کیا گیا ہے ۔ان خطوط میں علمی، فکری، نظری اور اصلاحی ہدایت کے لیے رہنمائی موجود ہے ۔

  1.  

عبد الحق ہزاروی بن مولانا محمد الیاس علوی (۱۸۹۵ء- ۱۹۶۹ء)

۱۹۸۵ء میں سکنہ الولی [36]ہری پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا محمد الیاس سے حاصل کی۔ ۱۳۳۶ھ میں مظاہر العلوم سہارن پور[37] میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری [38]سے حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ لاہور میں درس و تدریس اور خطابت کی۔ آپ نے رد المختار کا تجرید الشامی کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ۔ ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو وفات پا گئے۔[39]

تجرید الشامی

رد المختار فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختارکا حاشیہ ہے ۔ الدر المختار شرح تنویر الابصار فقہ حنفی کے مشہور عالم علاء الدین الحصکفیؒ [40]کی تصنیف ہے ۔اس کے اوپر علامہ ابن عابدین نے حاشیہ لکھا ۔جسے رد المختار علی حاشیہ الدر المختار کا نام دیا گیا۔ جو کہ حاشیہ ابن عابدین[41] کے نام سے معروف ہوا۔مولانا عبد الحق ہزاروی الولویؒ نے تجرید الشامی کے نام سے در مختار کے حاشیہ "ردالمختار" کا سلیس اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔

  1.  

عبد الحکیم(۱۳۲۱ھ/۱۹۰۳ء)

آپ ۱۳۲۱ھ میں کوٹ نجیب اللہ[42] ضلع ہری پور میں پیدا ہوئے۔ دار العلوم دیو بند سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آپ صرف و نحو ، علم عروض و قوافی[43] میں ماہر تھے۔

تصانیف

قواعدِ فارسی ، طبِ مشرق ۔ آپ کی تاریخ وفات معلوم نہیں ہو سکی۔[44]
قواعد فارسی
مولانا عبد الحکیم مرحوم ؒ نے اس کتاب میں ابتدائی فارسی سیکھنے کے لیے اصول وقواعد کو جمع کیا ہے ۔ اور اجراء کے لیے آسان فہم مشقیں بھی دی ہیں ۔ بلاشبہ فارسی سیکھنے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے ۔
طبِ مشرق

دارالعلوم دیوبند کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ اس نے ہر دور میں قدیم و جدید علوم کا امتزاج بنائے رکھا۔اس ادارہ میں تعلیم پانے والے فضلاء نے ہر دور و زمانہ میں معاشرہ کی دین و دنیا کی رہنمائی میں بساط بھر کوشش جاری رکھی ۔انہی فضلاء میں سے مولانا عبد الحکیم بھی ہیں ۔ انہوں نے یونانی طریقہ علاج کو مفید و سہل بنانے کے لیے اس عنوان پر ایک مکمل کتاب تحریر کی ۔جسے طب مشرق کا نام دیا گیا ۔ آپ کی کتاب سے آج بھی حکماء استفادہ کرتے ہیں ۔

  1.  

عبد الحئی بن عبد الرحیم (۱۹۰۰ء- ۱۹۹۲ء)

آپ ۱۹۰۰ء میں جاگل ہری پورمیں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مقامی علماء اور پھر اٹک کے علماء سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ مظاہر العلوم سہارن پورمیں پڑھنے کے بعددارالعلوم دیو بند میں داخلہ لیااور ۱۳۴۲ھ میں مولانا محمد انور شاہ کشمیری ، مولانا رسول خان ہزاروی اور دیگر اساتذہ سے دورہ حدیث پڑھ کر فراغت حاصل کی۔ہندوستان کے کچھ علاقوں میں تدریس کرنے کے بعد اپنے علاقہ میں مدرسہ احیاء العلوم راولپنڈی میں تدریس کی۔

تصنیف

التبیان الغائز فی الدعاءبعد الجنائز۔آپ ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۲ء کو وفات پا گئے۔[45]
التبیان الغائز فی الدعاءبعد الجنائز

مولانا عبد الحئی جاگلویؒ نے نماز جنازہ کے بعد میت کو اٹھانے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کیا ہے ۔اس رسالہ کو انہوں نے "التبیان الغائز فی الدعاء بعد الجنائز" کا نام دیا ہے ۔

  1.  

عبد الرؤف بن مولانا عبد الکریم (۱۸۹۶ء- ۱۹۷۸ء)

۱۳۱۳ھ/۱۸۹۶ء کو سیریاں ،بگڑا,ہری پور میں پیدا ہوئے۔درس نظامی کی تکمیل اپنے والد اور بڑے بھائی مولانا عبد الجبار [46]سے کی ۔ اعلیٰ تعلیم ،دار العلوم دیو بند سے ۱۳۳۸ھ میں مولانا انور شاہ کشمیری اور دیگر اساتذہ سے حاصل کی۔ فارغ ہونے کے بعد ہزارہ اور دوسرے شہروں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

تصانیف

فضل الباری فی فقہ البخاری ۴ جلدوں میں ہے۔ آپ ۱۴ ذی الحجہ ۱۳۹۸ھ ۔ ۱۶ نومبر ۱۹۷۸ء کو وفات پا گئے۔[47]

فضل الباری فی فقہ البخاری

[48] آپ نے عربی زبان میں بخاری کی شرح لکھی ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے تراجم ابواب اور امام بخاری کے مسلک کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آپ ؒ مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد ہیں۔آپؒ کی یہ کتاب چار جلدوں میں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہے۔

  1.  

عبد السبحان ہزاروی بن مولانا مظہر جمیل علوی بن مولانا مفتی محمد غوث(۱۸۹۸ء- ۱۹۸۵ء)

۱۳۱۵ھ کو کھلابٹ[49] ہری پور میں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔ پھر علاقہ کے دوسرے علماء سے استفادہ کیا۔ آپ کے اساتذہ مولانا حمید الدین مانسہروی اور مولانا قطب الدین غورغوشتی کیمبلپوری ، مولانا غلام رسول ، مولانا خلیل ہیں۔ فراغت کے بعد ۴۰ سال تک تدریس سے وابستہ رہے۔

تصانیف

انوار الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء، مواہب الرحمٰن فی رد جواہرالقرآن ۔

آپ ۱۲ مئی ۱۹۵۸ء کو وفات پا گئے اور کھلا بٹ کی جامع مسجد میں دفن کئے گئے۔ تربیلہ ڈیم کی تعمیر کے بعد آپ کا مزار زیرِ آب آ گیا ہے[50]۔

انوار الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء
آپ کی یہ تصنیف مسئلہ "عقیدہ حیات النبی ﷺ" سے متعلق ہے ۔ انبیاء علیھم الصلوات والسلام اپنی قبروں میں کس حالت و کیفیت پر ہیں ۔ انہوں نے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔
مواہب الرحمن فی رد جواہر القرآن

مصنف ؒ نے اس کتاب میں راولپنڈی کے مشہور عالم مولانا غلام اللہ خان[51] کی تفسیر "جواہر القرآن" کے کچھ مقامات پراپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔

  1.  

عبد الصبور خان بن عبد القیوم خان (۱۹۷۷ء)

آپ ۲۸ اپریل ۱۹۷۷ء کو گاؤں مراد آباد ضلع ہری پور میں پیدا ہوئے۔ احمد المدارس ہری پور، دار العلوم فاروقیہ راولپنڈی ، جامعہ فاروقیہ کراچی ، جامعہ عثمانیہ اور جامعۃ الرشید کراچی[52] سے تعلیم حاصل کی ۔ جامعہ عثمانیہ میں تدریس بھی کی ، جامع مسجد مونن، جامع مسجد سریا میں امامت و خطابت بھی کی۔ آپ نے ایک مقالہ " تصوف کا تاریخی ارتقاء و متصوفین کا کردار" تحریر کیا۔[53]

تصوف کا تاریخی ارتقاء اور متصوفین کا کردار

آپؒ نے زمانہ طالبعلمی میں ایک مقالہ بعنوان"تصوف کا تاریخی ارتقاء اور متصوفین کا کردار" تحریر کیا تھا۔ بعد میں اس میں اضافہ و ترمیم سے اسے مزید مفید ومحقق کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس مقالہ (غیر شائع شدہ) میں مصنف نے تصوف کی ابتداء و بنیادی ادوارپر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔اور معاشرہ کی اصلاح میں متصوفین کے مثبت کردار پر روشنی ڈالی ہے ۔

  1.  

عبد الغفور عباسی مہاجر مدنی ہزاروی(۱۸۹۴ء- ۱۹۶۹ء)

آپ علاقہ چغرزئی ،دربند،ہری پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے علماء سے حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم کے لئے مدرسہ امینیہ دہلی میں داخلہ لیا وہا ں موقوف علیہ کی تکمیل کے بعد دورہ حدیث مولا نا مفتی محمدکفایت اللہ دہلوی [54]سے پڑھ کر حاصل کی۔۱۳۵۵ھ-۱۹۳۶ء کوحج کے ارادہ سے حجاز پہنچےاور پھر وہیں ۳۳ سال تک مقیم رہے۔ آپ ۱۸ مئی۱۹۶۹ء کو وفات پا گئے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

تصانیف

مجموعہ دعوات ِ فضلیہ ،اورادِ فضلیہ،اذکارِ نقشبندیہ اور مجموعہ اورادِ غفوریہ[55]

مجموعہ دعواتِ فضلیہ

آپؒ نے اپنے شیخ مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کے دروس و بیانات اور ان کے دعوتی خطوط کو آسان پیرائے میں قلم بند کر کے مجموعہ دعوات فضلیہ کے نام سے شائع کیا ہے۔

اوراد فضلیہ

مصنف کا مرتب کردہ یہ مجموعہ بھی اپنے شیخ کی یادگار ہے ۔ اس میں آپؒ نے مولانا فضل حق مرادآبادیؒ سے سنے گئے اوراد کو جمع کیا ہے ۔

اذکار نقشبندیہ

آپ تصوف کے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے متعلق تھے ۔ آپ نے اپنے سلسلہ کے تمام اذکار کو مختلف کتابوں سے جمع کر کے کتابی شکل میں مرتب کیاہے ۔

مجموعہ اوراد غفوریہ

آپؒ نے ان تمام اوراد ، جو آپ اپنے متعلقین کو بتایا کرتے تھے ،کو کتابی شکل میں جمع کیا ۔اس مجموعے کو "مجموعہ اوراد غفوریہ" کا نام دیا گیا۔


عبد القادر جامی ہزاروی بن سید احمد بن شرف دین(۱۹۰۰ء-۱۹۸۱ء)

۱۹۰۰ء میں جامہ ،نوردی[56]، ہری پور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم علاقہ کے علماء سے حاصل کرنے کے بعد امرتسر چلے گئے۔پھر دار العلوم دیوبند میں ۱۹۱۸ء میں مولانا انور شاہ کشمیری [57]اور دیگر اساتذہ سے کتب حدیث پڑھ کر فراغت حاصل کی۔ لاہور ، فیصل آباد ، سرگودھا کے مدارس میں تدریس و خطابت کی، ۱۹۳۸ء سے ۵ سال تک مدرسہ رحمانیہ[58] ہری پور میں پڑھاتے رہے۔

تصانیف

تفریح الجنان فی تفسیر ام القرآن، حج بیت اللہ کے اسرار اور عمدۃ الفکر فی تفسیر سورۃ العصر۔

آپ ۲۴ فروری۱۹۸۱ء کو وفات پا گئے۔[59]

تفریح الجنان فی تفسیر ام القرآن

آپ نے سورۂ فاتحہ کی دلنشین انداز میں تفسیرلکھی ہے ۔ اس کا نام آپ نے "تفریح الجنان فی تفسیر ام القرآن " رکھا ہے ۔

حج بیت اللہ کے اسرار

مصنفؒ نے اپنی اس تصنیف میں بیت اللہ کے سفر اور حج کے تمام ارکان و اعمال کی حکمتیں اور اسرار بیان کیے ہیں ۔

عمدۃ الفکر فی تفسیر سورۃ العصر

مصنفؒ نے سورۃ العصر کی عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید اسلوب میں عام فہم انداز میں تشریح کی ہے ۔ جسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔

  1.  

غلام ربانی لودھی ہزاروی بن برکت اللہ لودھی(۱۸۹۹ء- ۱۹۷۴ء)

جنوری ۱۸۹۹ء کو سرائے صالح [60]ہری پور میں پیدا ہوئے۔ ۱۳۵۲ھ میں مدرسہ غزنویہ امرتسر[61] میں مولانا نیک محمد اور مولانا داؤد غزنوی [62]سے پڑھ کر فارغ ہوئے۔

تصانیف

مشیر قوم ، سیرۃ النبی، ذخیرۃ المضامین ۔ ۱۲ اپریل ۱۹۷۴ء کو جمعہ کے روز آپ نے وفات پائی[63]۔

مشیر قوم

مولانا غلام ربانی لودھی امرتسر کے پڑھے ہوئے جید عالم دین تھے ۔ آپ نے بھی بساط بھر علاقہ کی اصلاح کے حوالے سے کاوشیں کی ہیں ۔ تحریر میں بھی آپ نے رہنمائی کا فرض سرانجام دینے کی کوشش کی ہے ۔ آپ ؒ کی تصنیف "مشیر قوم" معاشرہ کی ناہمواریوں کی داستان ہونے کے ساتھ ساتھ درست سمت کی رہنمائی اور عملی زندگی میں استقلال کی دعوت دیتی نظر آتی ہے ۔

سیرۃ النبی ﷺ

ہر عالم دین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے قلم سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر بیش قیمت موتی کتابوں کی دنیا کی فضا کو معطر کریں۔ اسی جذبے کے تحت مصنفؒ نے قلم اٹھایا ہے ۔لیکن اہلیان علاقہ کی بدقسمتی کہ ابھی تک آپؒ کی یہ تصنیف منظر عام پر نہ آسکی ۔ This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات(References) == ۔ خیبر پختونخواہ کا ضلع ہزارہ ڈویژن کا حصہ ہے۔ہری پور شہر کی بنیاد۱۸۲۱ء میں سکھ جنرل ہری سنگھ نلوہ نے فوجی نقطہ نظر سے رکھی۔ ہري پور کا نام رنجيت سنگھ کےايک سِکھ جرنيل ہري سنگھ نالوا کے نام پر رکھا گيا۔ ہري پور تحصيل کو یکم جولائی،۱۹۹۲ء ميں ضلع کا درجہ دے کر ضلع ايبٹ آباد سے علیحدہ کر دياگيا۔اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے ہری پور کی حدود آٹھ مختلف اضلاع سے ملتی ہیں ،جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ہری پورکی مشرقی اور شمال مشرقی سرحد ضلع ایبٹ آبادسے ملتی ہے۔شمال میں یہ ضلع مانسہرہ اور شمال مغرب میں ہری پور کا ناڑا امازئی اور بیٹ گلی کا علاقہ تورغر اور بونیر سے ملتا ہے۔ہری پورکی مغربی سرحد میں ضلع صوابی واقع ہے۔مغرب اور جنوب مغرب میں پنجاب کے دو اضلاع اٹک اور راولپنڈی جبکہ جنوب مشرق میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد واقع ہے۔
  2. ۔۲۰۱۰ءمیں پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والے اٹھارویں ترمیم میں صوبے کا نام سرحد سے تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا۔
  3. ۔آپ ضلع صوابی (خیبر پختونخواہ) کی تحصیل رزڑ کے نامور عالم دین ہیں۔
  4. ۔ سجادہ نشین یکہ شاہ توت پشاور
  5. ۔ سید قاسم محمود: (۱۷ نومبر ۱۹۲۸ء-۳۱ مارچ ۲۰۱۰ء) ایک پاکستانی مفکر، ادیب، افسانہ نگار، قاموس نگار، مدیر اور مترجم تھے۔ اردو میں چھوٹی کہانیاں، ناول اور دائرۃ المعارف لکھتے تھے۔ ایک اچھے تدوین کار، نثر نگار اور مترجم تھے۔ انھوں نے پندرہ دائرۃ المعارف مرتب کیے (جن میں سے سات مکمل نہیں ہوئے)، ایک لغت، تین جلدوں میں کہانیاں، ایک ناول، ریڈیو پاکستان کے لیے پانچ ڈرامے، ایک فلم کی کہانی باغی سپاہی اور بہت سی کتابوں اور رسالوں کا ترجمہ کیا۔
  6. ۔تالیف, رحمان علی : مرتبہ و مترجمہ، محمد ایوب قادری : مع مقدمہ، سید معین‌الحق پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی،۲۰۰۳، اشاعت دوم۔
  7. ۔ آپ کی اس کے علاوہ بھی اسی طرح کی مزید کتب بھی ہیں۔جن میں سے "تاریخ صوبہ سرحد ، یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور ۱۹۸۶ء"، "تحریک پاکستان میں صوبہ سرحد کا کردار، یونیورسٹی بک ایجنسی،پشاور ۱۹۹۰ء"، "تذکرہ سرفروشان صوبہ سرحد ، یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور ۱۹۹۱ء" زیادہ مشہور ہیں۔
  8. ۔ یو۔ پی کے ضلع سہارن پور کے ایک قصبے نانوتہ کے حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے ۳۰ مئی ۱۸۶۶ء بمطابق ۱۵ محرم الحرام ۱۲۸۳ء کو دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد (مسجد چھتہ) میں مدرسۃ دیوبند کی بنیاد رکھی۔ دارالعلوم دیوبند نے اب تک سینکڑوں مفسر ، محدث ، مجاہدین ادیب اور تلامذہ پیدا کیے ہیں جن میں مولانا محمود الحسن اور شبیر احمد عثمانی کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا حسین احمد مدنی اور سید انوار شاہ کاشمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انہی ہستیوں نے جنوبی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء سے باہر اسلام کی شمع کو روشن رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ہے۔ شمع سے شمع روشن کرنے کی یہ روایت اور سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
  9. ۔کرنل ڈاکٹرقاری فیوض الرحمن علوی صاحب تصنیف کثیرہ ہیں ۔آپ ایم۔اے، ایم۔او۔ایل اور پی ۔ایچ ۔ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ آپ کم و بیش ۷۰ کتابوں کے مصنف ہیں ۔ جن میں علماء سرحد کی تصنیفی خدمات، علماء پاکستان کی تفسیری خدمات، پاک وہند کے عربی شعراء، سرحد کے ممتاز قراء ،اور علماء ہزارہ مشہور ہیں۔ علماء ہزارہ فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے۔
  10. ۔ پروفیسر بشیر احمد شوز ہندکو زبان کے شاعر ، ایبٹ آباد کالج کے پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔جن میں ہزارہ میں نعت،ہزارہ شعراء کی نظر میں ،چلکاں (ہزارہ کی منظوم تاریخ) ہزارہ کے نامور اہل قلم قابل ذکر ہیں۔
  11. ۔ ڈاکٹر شیر بہادر خان پنی ہری پور کے ایک گاؤں پنیاں میں۱۸۹۸ء میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک مشہور سرجن گزرے ہیں۔
  12. ۔ آپ تین کتابوں کے مصنف ہیں ۔1۔ تاریخ ہزارہ قبل مسیح سے ۲۰۱۰ء تک ، جو مکتبہ جمال لاہور سے شائع ہوئی۔ دوسری نگارستان جو کہ اردو گرائمر کی کتاب ہے اور تیسری وادی کاغان جو لوک کہانی و ثقافت پر مشتمل ہے۔
  13. ۔ جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ،جامع مسجد بخاری سولجر بازار کراچی کے امام و خطیب اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ مذکورہ کتاب خانقاہ غفوریہ نقشبندیہ سولجر بازارنمبر۲ کراچی سے شائع ہوئی ۔
  14. ۔ ماہنامہ لولاک کے ایڈیٹر رہے ۔ آپ کے انتقال کے بعد ماہنامہ لولاک ملتان نے آپ کے حالات زندگی پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی ۔
  15. ۔ جاگل ہری پور شہر سے مغرب کی طرف ۸ کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک گاؤں ہے جو کہ یونین کونسل ڈھینڈہ کا حصہ ہے ۔ اس گاؤں کا کچھ حصہ تربیلہ جھیل کے اندر آگیا ہے ۔
  16. ۔ میلم ہری پور شہر سے مغرب کی طرف اور جاگل کی مشرقی طرف واقع ایک گاؤں ہے ۔ یہ بھی یونین کونسل ڈھینڈہ کا حصہ ہے۔
  17. ۔ جھنگ دریائے چناب کے کنارے آباد وسطی پنجاب،پاکستان کا شہر ہے، جس کی آبادی تین لاکھ ستاسی ہزار چار سو سترہ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ضلع جھنگ میں شامل ہے۔ جھنگ کی سرحدیں شمال میں ضلع سرگودھا، شمال مشرق میں گوجرانوالہ، مشرق میں فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ، جنوب میں مظفر گڑھ اور خانیوال،مغرب میں لیہ اور بھکر اور شمال مغرب میں خوشاب سے ملتی ہیں۔
  18. محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علماء خیبر پختونخوا، دارالقرآن و السنۃ،۱۴۳۶ھ/۲۰۱۵ء،ص:۱۱۸۔ Muḥammad Qasim bin Muḥammad ‘Amin Ṣ aliḥ, Tazkirah U’lama’ Khybar Pakhtoon Khwa, (Dar al Qurān wal Sunnah, 2015/1436), p:118.
  19. ۔ مرزا غلام احمد: (۱۳ فروری ۱۸۳۵ء- ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی رہنما اور احمدیہ کے بانی تھے۔ مرزا غلام احمد نے دعویٰ کیا کہ وہ ہی مسیح موعود اور مہدی آخر الزمان ہے اور نبی ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔۱۸۸۸ء میں مرزا نے اعلان کیا کہ انہیں بیعت لے کر ایک جماعت بنانے کا حکم ملا ہے اور اس طرح ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لے کر جماعت احمدیہ جسے قادیانیت اور مرزئیت بھی کہا جاتا ہے، کی بنیاد رکھی۔
  20. ۔ قاضی انیس الرحمن (آپ کے صاحبزادہ ہیں ) نے آپ کے بارے میں حالات قلم بند کروائے۔
  21. ۔ ہری پور کے مشرقی جانب شہر سے ۷ کلو میٹر کی دوری پر جی روڈ کے قریب واقع ایک گاؤں ریحانہ کا ملحقہ علاقہ
  22. ۔ یہ ہری پور کی مشہور شخصیت ہیں ۔ ان سے گاندھی جی ملاقات کے لیے ہری پور آئے تھے ۔ ۱۹۳۵ء میں یہ کانگرس کے خلاف جمیعت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑے تھے ۔ ان کےصاحبزادے حکیم رشید انور بھی مشہور حکیم گزرے ہیں۔
  23. ۔ میر پور کاہل ، ہری پور شہر سے ۵ کلو میٹر کی دوری پر جنوبی جانب خانپور روڈ کے مشرقی جانب واقع ایک گاؤں۔
  24. ۔ ہری پور شہر سے ۲ کلومیٹر مشرق کی جانب جی ٹی روڈ پر واقع ایک گاؤں۔
  25. ۔ شاگرد شیخ الہند مولانا محمود حسن گنگوہی ، استاد حدیث دار العلوم دیوبند انڈیا۔(۱۸۷۹ء-۱۹۵۷ء)
  26. ۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علماء خیبر پختونخوا، دارالقرآن و السنۃ،۱۴۳۶ھ/۲۰۱۵ء،ص:۱۳۷۔ Muḥammad Qasim bin Muḥammad ‘Amin Ṣ aliḥ, Tazkirah U’lama’ Khybar Pakhtoon Khwa, (Dar al Qurān wal Sunnah, 2015/1436), p:137.
  27. ۔ مشہور ماہر تعلیم ،ریٹائرڈ پرنسپل اور کئی کتب کے مصنف ، محلہ عید گاہ نزد ریلوے اسٹیشن کے رہائشی۔
  28. پروفیسر بشیر احمد سوز ، مصنفین ِ ہزارہ، ادبیات ہزارہ (مرکز تحقیق و اشاعت)، دسمبر ۲۰۱۰ء۔ Professor Bashir ‘Aḥmad Sowz, Muṣanniyfiyn e Hazarah, Adbiyat e Hazarah (Markaz Teḥqiyq w Asha‘at , December:2010).
  29. ۔ البخاري، محمد بن إسماعيل،صحيح البخاري،دار طوق النجاة ،طبع اول،۱۴۲۲ھ،۸:۹۸۔ Al Bukhari, Muḥammad bin Isma’iyl, Ṣaḥiḥ Bukhari, (Beirut: Dār Ṭowq al Najat, 1st Edition, 1422), 8:98.
  30. ۔ درویش ہری پور شہر سے مغربی جانب 500 میٹر کی دوری پر جی ٹی روڈ کے جنوبی جانب یہ گاؤں آباد ہے۔
  31. ۔ ہری پور کے موضع شاہ محمد ایک جید عالم دین گزرے ہیں ۔(۱۸۸۳ء-۱۹۴۴)
  32. ۔ رام پور، بھارت کی ریاست اتر پردیش کے رام پور ضلع کا ایک شہر ہے۔
  33. ۔ ریاست بھوپال (Bhopal State) اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی۔ جبکہ ۱۸۱۸ء سے ۱۹۴۷ء تک برطانوی ہندوستان میں ایک نوابی ریاست تھی، اور۱۹۴۷ء سے۱۹۴۹ء  تک ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی۔ اسکا پہلا دار الحکومت اسلام نگر تھا جو بعد میں بھوپال منتقل کر دیا گیا۔ریاست دوست محمد خان نے قائم کی جو مغل فوج میں ایک افغان سپاہی تھے۔ جو شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد ایک باغی ہو گئے اور کئی علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کر لی۔ ریاست بھوپال تقسیم ہند کے وقت دوسری سب سے بڑی ریاست تھی، جبکہ پہلی ریاست حیدرآباد تھی۔ ۱۹۴۹ء میں ریاست کوڈومنین بھارت میں ضم کر دیا گیا۔
  34. ۔ محمد شفیع صابر،شخصیات سرحد، یونیورسٹی بک ایجنسی،پشاور۔۱۹۹۰ء،ص:۱۳۷۔ Muḥammad Shafi‘ Ṣabir, Shakhṣiyyat e Sarḥad, (Peshawar: University Book Agency, 1990), p:137.
  35. ۔ علوی، ڈاکٹر قاری کرنل فیوض الرحمن ، مشاہیر علمائے سرحد، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی اردو بازار لاہور،ص:۴۷۱۔ ‘Alvi, Dr. Qariy Colnal Fuyuz al Raḥman, Mashahiyr ‘Ulama’ Sarḥad, (Lahore: Frontier Publishing Company), p:471.
  36. ۔ یہ گاؤں ہری شہر کے مرکزی چوک شیرانوالہ گیٹ سے شمال کی جانب علاقہ تناول کی طرف چھپر روڈ پہ ۲۰ کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے۔
  37. ۔ مظاہر علوم سہارنپور بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع سہارنپور میں رجب ۱۲۸۲ھ نومبر ۱۸۶۶ کو دارالعلوم دیوبند کے قیام کے محض چند ماہ بعد قائم ہوا۔ مولانا سعادت علی سہارنپوری فقیہ (متوفی :۱۸۶۹ء) اس کے بانی ہیں۔
  38. ۔ خلیل احمد سہارنپوری (۱۸۵۲ء-۱۹۲۷ء) سنن ابی داؤد کے شارح (بذل المجھود فی حل ابی داؤد) آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
  39. ڈاکٹر،حافظ قاری فیوض الرحمٰن،مشاہیر علمائے سرحد، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی، اردو بازار لاہور، ص ۳۸۴۔ ‘Alvi, Dr. Qariy Colnal Fuyuz al Raḥman, Mashahiyr ‘Ulama’ Sarḥad, (Lahore: Frontier Publishing Company), p:384.
  40. ۔ محمد بن علی المعروف علاؤ الدین حصکفی پورا نام محمد بن علی بن محمد علاؤ الدین الحصکفی ہے یہ صاحب در المختار کہلاتے ہیں ۔
  41. ۔ محمد امين بن عمر بن عبد العزيز عابدين دمشقی المعروف بہ ابن عابدین شامی شام کے فقیہ اور فقہ حنفی کے امام تھے۔
  42. ۔ ضلع ہری پور کے مرکزی چوک (چوک صدیق اکبر) سے جنوب مغرب کی طرف حطار روڈ پہ کانگڑہ کالونی سے متصل یہ قصبہ آباد ہے ۔ اس سے متصل حطار کا علاقہ ہے جو انڈسٹری کی وجہ سے مشہور ہے۔
  43. ۔ اشعار کی کانٹ چھانٹ اور اوزان و ابحار کے علم کو علم عروض و قوافی کہا جاتا ہے۔
  44. پروفیسر بشیر احمد سوز ، مصنفین ِ ہزارہ، ادبیات ہزارہ (مرکز تحقیق و اشاعت)، دسمبر ۲۰۱۰،ص:۱۴۴۔ Professor Bashir ‘Aḥmad Sowz, Muṣanniyfiyn e Hazarah, Adbiyat e Hazarah (Markaz Teḥqiyq w Asha‘at , December:2010), p:144.
  45. ڈاکٹر،حافظ قاری فیوض الرحمٰن،مشاہیر علمائے سرحد، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی، اردو بازار لاہور، ص:۵۹۰۔ ‘Alvi, Dr. Qariy Colnal Fuyuz al Raḥman, Mashahiyr ‘Ulama’ Sarḥad, (Lahore: Frontier Publishing Company), p:590.
  46. ۔ آپ شیخ الہند محمود الحسن کے شاگرد اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔
  47. ڈاکٹر،حافظ قاری فیوض الرحمٰن،مشاہیر علمائے سرحد، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی، اردو بازار لاہور، ص:۴۶۹۔ ‘Alvi, Dr. Qariy Colnal Fuyuz al Raḥman, Mashahiyr ‘Ulama’ Sarḥad, (Lahore: Frontier Publishing Company), p:471.
  48. ۔ ماہنامہ الفاروق،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل ٹاؤن کراچی،۱۴۳۳ھ، ص:۱۴، مضمون:صحیح بخاری وعلمائے دیوبند کی خدمات از مولانامحمد نجیب سنبھلی قاسمی۔ Monthly al Faruwq, Jamiah Faruwqiyah, Karachi, 1433, p:14, Ṣ ahiyh Bukhariy w Ulama’ e Deoband ki Khidmat by Mouwlana Muḥammad Najeeb Sanbhaliy Qasmiy.
  49. ۔ کھلابٹ ٹاؤن شپ ہری پور سے شمال مغرب کی طرف تقریبا 3 کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک قصبہ ہے ۔ جہاں تربیلہ ڈیم کے متاثرین آباد ہیں ۔
  50. ۔ محمود احمد قادری، مولانا، تذکرہ علمائے اہلسنت، سنی دارالاشاعت ، فیصل آباد، طبع دوم،۱۹۹۲ء، ص:۱۷۵۔ Ma ḥ muwd Aḥ mad Qadiry, Mouwlana, Tazkirah ulama’ e Ahl e Sunnat, (Faisalabad: Sunni Dar al Aisha‘t, 2nd Edition, 1992), p:175.
  51. ۔۱۹۰۹ء میں آپ کی پیدائش حضرو،اٹک میں ہوئی ۔۱۹۳۳ء میں ڈابھیل سے دورۂ حدیث کیا۔آپ نے راولپنڈی میں مشہور دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی جو دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار کے نام سے معروف ہے ۔آپ شیخ القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔ تفسیر جواہر القرآن آپ کی عظیم علمی یادگار ہے ۔۱۹۸۰ء میں آپ کا انتقال ہوا۔
  52. ۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں قائم کردہ عالمی جامعہ ہے ۔ اسے مفتی رشید احمد لدھیانوی نے قائم کیا۔آجکل مفتی عبد الرحیم صاحب اس کے مہتمم اور مفتی ابو لبابہ صاحب مشہور استاد ہیں۔
  53. ۔ آپ کے حالات آپ سے ملاقات کر کے معلوم کئے گئے ۔
  54. ۔ دار العلوم دیوبند کے مشہور استاد پہلے صدر مفتی تھے ۔ کفایت المفتی آپ کے فتاوی جات کا مجموعہ ہے۔ آپ شیخ الہند کے شاگرد تھے۔
  55. صابر، محمد شفیع، شخصیات سرحد مشائخ عظام، علمائے کرام، یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور، ص:۱۲۹۔ Ṣ abir, Muḥammad Shafiy’, Shakh ṣ iyat Sar ḥ ad Masha’ikh e ‘Iẓaam Ulama’ e Kiram, (Peshawar: University Book Agency), p:129.
  56. ۔ ہری پور شہر سے جنوب مشرق کی طرف ۱۰ کلومیٹر کے فاصلے پہ پوٹڑی ڈیم کے قریب یہ گاؤں آباد ہے ۔ ریحانہ (صدر ایوب کے گاؤں) سے متصل یہ علاقہ واقع ہے۔
  57. ۔ دارلعلوم کے مشہور استاد حدیث، شیخ الہند کے شاگرد رشید اور بیسیوں کمالات کے مجموعہ شخصیت تھے ۔
  58. ۔ ہری پور شہر میں پرانی کمیٹی سے مغرب کی طرف ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر ڈھینڈہ چوک سے پہلے واقع اس مدرسہ کو خواجہ عبد الرحمن چھوہروی نے ۱۹۰۲ء میں قائم کیا۔
  59. ڈاکٹر،حافظ قاری فیوض الرحمٰن،مشاہیر علمائے سرحد، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی، اردو بازار لاہور، ص:۵۰۱۔ ‘Alvi, Dr. Qariy Colnal Fuyuz al Raḥman, Mashahiyr ‘Ulama’ Sarḥad, (Lahore: Frontier Publishing Company), p:501.
  60. ۔ ہری پور شہر چوک صدیق اکبر سے ۵ کلومیٹر مشرق کی طرف جی ٹی روڈ سے متصل یہ قصبہ آباد ہے۔
  61. ۔ لاہور کے مشرقی جانب پاکستان کی سرحد کے متصل یہ ہندوستان کا سکھ اکثریتی علاقہ ہے ۔ تقسیم پاکستان سے پہلے یہاں مسلمان کافی تعداد میں ہوتے تھے ۔ اور کئی بڑے بڑے علماء اور مدارس یہاں موجود تھے۔
  62. ۔ مولانا داؤد غزنوی (۱۸۹۵ء-۱۹۶۳ء) امرتسر میں پیدا ہوئے ۔ مدتوں احرار کے مدیر رہے ۔ جید عالم دین تھے ۔ لاہور میں انتقال ہوا۔
  63. ۔ سوز،بشیر احمد، پروفیسر، تاریخ صحافت ہزارہ، گندھارا ہندکو اکیڈمی، پشاور، طبع اول،۲۰۱۶ء، ص:۳۳،۳۴۔ Professor Bashir ‘Aḥmad Sowz, Tariykh Ṣaḥafat e Hazarah (Peshawar: Gandhara Hindkaw Academy , 1st Edition, 2016), p:33,34.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...