Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

طبي خدمات اور سہولیات کے تحفظ کي ضرورت: اسلامي شريعت کے چند رہنما اصول |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہيد

الحمد لله ، و الصلاة و السلام علي رسول الله ، و علي آله و اصحابه و من والاه ۔

بين الاقوامي ريڈ کراس کميٹي نے Health Care in Danger کے عنوان سے جو آگاہي مہم شروع کي ہے اس کے مختلف پہلو ہيں ۔ زير نظر مقالے ميں اس موضوع کے ايک خاص پہلو کے متعلق اسلامي قانون کے اہم اصولوں پر گفتگو ہوگي ۔ تاہم مقالے کے موضوع کو اس کے مخصوص سياق و سباق ميں سمجھنے کے ليے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے Health Care in Danger کے عمومي تصور پر مختصر بحث کي جائے ۔

Health Care in Dangerکے عنوان کے تحت کئي اہم مسائل آتے ہيں :[1]

  1. عام شہريوں کے علاوہ زخمي ہونے ، بيمار پڑجانے يا کسي اور وجہ سے جنگ سے الگ ہونے والے مقاتلين کو لاحق خطرہ ؛ جيسے زخميوں پر حملہ يا ان تک طبي سہوليات کي فراہمي ميں رکاوٹ ۔
  2. اسي خطرے کا ايک اہم پہلو يہ ہے کہ بعض اوقات طبي سہوليات ، جيسےاسپتال يا ايمبولينس ، پر حملہ کرديا جاتا ہے ؛
  3. اس سے بھي زيادہ اہم پہلو يہ ہے کہ بعض اوقات طبي عملے اور امداد فراہم کرنے والے رضاکاروں کو حملے کا نشانہ بنا ديا جاتا ہے ؛
  4. طبي عملے کو خطرہ بعض اوقات اس صورت ميں پيدا ہوتا ہے جب وہ دشمن کي قيد ميں آجاتے ہيں اور وہاں ان سے غير انساني سلوک کيا جاتا ہے ؛
  5. بعض حلقوں کي جانب سے يہ موقف اختيار کيا گيا ہے کہ مخالف فريق کو کسي بھي نوعيت کي بلا واسطہ يا بالواسطہ مدد فراہم کرنے والے تمام افراد جائز ہدف ہيں ۔ اس وسيع مفہوم کي رو سے طبي عملہ تو ايک طرف، ٹيکس ادا کرنے والے عام شہري بھي خطرے سے دوچار ہوجاتے ہيں۔ بين الاقوامي قانون کي رو سے اصول يہ ہے کہ جنگ ميں صرف انہي لوگوں کو جائز ہدف قرارديا جاسکتا ہے جو جنگ ميں براہِ راست حصہ ليں ۔ اس ليے اس سوال پر بحث ضروري ہوجاتي ہے کہ "جنگ ميں براہ راست حصہ لينے " (Direct Participation in Hostilities) سے مراد کيا ہے ؟ کيا طبي امداد کي فراہمي کو بھي جنگ ميں براہ راست حصہ لينے کے مترادف قرار ديا جاسکتا ہے ؟
  6. بعض اوقات طبي عملے اور سہوليات کو خطرہ ان کے "ناجائز استعمال "کي وجہ سے لاحق ہوجاتا ہے ؛ جيسے اسپتال کو ہتھياروں کے ذخيرے کے طور پر استعمال کرنا ، ياايمبولينس کو حملے کے مقاصد کے ليے استعمال کرنا، يا ڈاکٹر کے روپ ميں دشمن تک پہنچ کر اس پر حملہ کرنا ۔ بين الاقوامي قانون کي رو سے يہ سارے کام "غدر" (Perfidy) کے ضمن ميں آتے ہيں اور اس وجہ سے جنگي جرائم ميں شمار کيے جاتے ہيں ۔ تاہم بہت سے لوگ اسے خدعہ يا جنگي چال (Ruse of War)قرار ديتے ہيں ۔ اس ليے غدر اور خدعہ پر بحث بھي ضروري ہوجاتي ہے ۔

Health Care in Danger کے عنوان کے تحت ان کے علاوہ بھي بعض ديگر مسائل آتے ہيں ليکن "امہات المسائل " کي حيثيت غالباً انہي کو حاصل ہے ۔ ان مسائل پر اسلامي قانون کي رو سے بحث کے ليے زير نظر مقالے کو پانچ فصول ميں تقسيم کيا گيا ہے :

اس مقالہ میں پہلے ميں غير مقاتلين کے تحفظ کے بارے ميں اسلامي قانون کے بنيادي اصولوں کي وضاحت کي جائے گي، جو تمام ديگر مباحث کے ليے بنياد کي حيثيت رکھتي ہے اور اس ميں بنيادي مفروضہ يہ ہے کہ طبي عملہ اور امدادي کارکن غير مقاتلين ہيں اور اسي وجہ سے وہ اس تحفظ کے مستحق ہيں جو غير مقاتلين کے ليے اسلامي قانون نے فراہم کي ہے ۔

اس مقالہ کے دوسرے حصے ميں "جنگ ميں براہ راست حصہ لينے " کے تصور پر اسلامي قانون کي رو سے تفصيلي بحث کي جائے گي ۔ تیسرے حصے ميں خاص طبي عملے اور امدادي کارکنوں کے تحفظ سے متعلق اسلامي قانون کے اہم اصولوں کي وضاحت کي جائے گي ۔ جب کہ چوتھے حصے ميں غدر اور خدعہ کے تصورات کو ايک دوسرے سےمميز کرنے کے ليے فقہي جزئيات اور قواعد پيش کيے جائيں گے ۔ اور آخر ميں ان بعض جزئيات کا ذکر کيا جائے گا جن کا تعلق جنگي قيدي بن جانے والے مقاتلين اور طبي عملے سے ہے ۔

غير مقاتلين کا تحفظ اسلامي قانون کي رو شني ميں

مسلمان اہل علم کا اس بات پر اصولاً اتفاق ہے کہ غير مقاتلين کو جنگ ميں نشانہ نہيں بنايا جائے گا۔ اس پر بھي اتفاق ہے کہ اگر غير مقاتلين جنگ ميں حصہ ليں تو ان کو نشانہ بناياجاسکتا ہے، ليکن عصر حاضر کے تناظر ميں چند امور ايسے ہيں جن پر اختلاف پاياجاتا ہے اور جو مزيد غور و فکر کے متقاضي ہيں۔ [2]

اولاً :غيرمقاتلين ميں کون لوگ شامل ہيں؟ خواتين اور بچوں کو بالعموم غيرمقاتلين ميں شامل کياجاتا ہے ليکن وہ مرد جو فوج کا حصہ نہ ہوں کيا ان کو بھي غير مقاتل کہاجائے گا؟ پرانے زمانے ميں جوان مرد کو بالفعل يا بالقوۃ جنگجو سمجھا جاتا تھا اور عورتوں کو اصلاً غير مقاتل ہي سمجھا جاتاتھا ليکن کيا يہ بات عصر حاضر کے تناظر ميں بھي صحيح ہے؟ کيا موجودہ حالات ميں “غير فوجي” کو ہي غير مقاتل سمجھا جائے گا؟

ثانياً : بہت سے اہل علم نے شہري (Civilian)اور غير مقاتل کو مترادف مانا ہے ليکن ايک راے يہ بھي پيش کي گئي ہے کہ چونکہ شہريوں کے ٹيکسوں سے فوج کے اخراجات پورے کيے جاتے ہيں اس ليے بالواسطہ ہي سہي شہري بھي جنگ ميں حصہ ليتے ہيں اس ليے ہر ٹيکس دينے والا (Tax-payer) مقاتل تصور ہوگا۔ اس وسيع تصور کي رو سے طبي عملے ، بالخصوص فوجي ڈاکٹرز اور نرسز ، کو بدرجۂ اولي مقاتلين کہا جائے گا کيونکہ عام شہريوں کي بہ نسبت فوج کے ليے ان کي معاونت زيادہ واضح ہوتي ہے ۔

بين الاقوامي قانون ِ انسانيت کي رو سے "غير مقاتل" (Non-Combatant) اور ٖ"شہري" يا "غير فوجي" (Civilian) تقريباً مترادف اصطلاحات ہيں۔ اس قانون کي رو سے باقاعدہ فوجي يا جنگجو تو مقاتل ہيں، الا يہ کہ وہ کسي وجہ سے جنگ سے باہر ہوجائيں؛ اور عام شہري، خواہ مرد ہوں يا عورتيں، غير مقاتل ہيں، الا يہ کہ وہ جنگ ميں براہ راست حصہ ليں۔ [3]

اس کے برعکس فقہا کے نصوص پر سرسري نظر ڈالنے سے بظاہر يہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزديک برسر جنگ قوم کا ہر عاقل بالغ مرد اصلاً مقاتل ہے، الا يہ کہ کسي اور سبب سے اسے مقاتل نہ سمجھا جائے؛ اور نا بالغ بچے اور عورتيں غير مقاتلين ہيں ، الا يہ کہ وہ جنگ ميں حصہ ليں۔

عورتوں کو اصلاً غير مقاتلين ميں شمار کرنے سے تو شايد اتنے بڑے مسائل پيدا نہيں ہوتے ليکن تمام مردوں کو اصلاً مقاتلين فرض کرنے سے بظاہر بڑے مسائل پيدا ہوسکتے ہيں۔ تاہم اگر اس اصول کا تفصيلي قانوني تجزيہ کيا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ يہاں بھي اسلامي شريعت اور بين الاقوامي قانون ميں توافق اور ہم آہنگي پائي جاتي ہے۔

مَردوں کو فقہا نے اس وجہ سے اصلاً مقاتلين ميں شمار کيا کہ زمانۂ قديم ميں، جبکہ فقہا نے اسلامي قانون کے اصول اور جزئيات کا استخراج کيا، جنگوں ميں بنيادي کردار مرد ہي ادا کرتے تھے اور کسي قوم کے تقريباً تمام ہي عاقل بالغ مرد جنگ ميں حصہ ليتے تھے۔ البتہ اس دور ميں بھي اگر بعض حالات کي وجہ سے بعض مرد جنگ ميں حصہ نہ لے پاتے تو فقہا ان کو مقاتلين ميں شمار نہيں کرتے تھے۔ مثلاً فقہا نے ايک طرف يہ اصول طے کيا ہے کہ ہر مرد مقاتل ہے اور دوسري طرف يہ بھي قرار ديا ہے کہ دشمن کے علاقے ميں داخل ہونے والے تاجر غنيمت ميں حصہ لينے کے مستحق نہيں ہيں کيونکہ وہ قتال ميں حصہ لينے کے ليے نہيں ، بلکہ تجارت کے ليے وہاں جاتے ہيں۔ پس وہ صرف اسي صورت ميں غنيمت ميں حصہ لينے کے مستحق ہوں گے جب وہ قتال ميں باقاعدہ شرکت کريں۔ شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابي سہل السرخسي ( م 483 ھ ) اس حکم کے پيچھے کارفرما قانوني اصول کي وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہيں: فانهم کانوا تجاراً قبل هذا، لا غزاةً۔ (کيونکہ وہ قتال ميں حصہ لينے سے پہلے تاجر تھے، نہ کہ غازي۔)[4]

پس اصل قاعدہ يہ ہے کہ مقاتل اور غير مقاتل کي حيثيت کا تعين کسي شخص کي جنس سے نہيں ،بلکہ اس کے قتال ميں حصہ لينے يا نہ لينے سے ہوتا ہے۔

اس مسئلے کا تجزيہ ايک اور پہلو سے بھي کيا جاسکتا ہے۔ غير مقاتلين کي ممانعت کا حکم کہاں سے اخذ کيا گيا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جنگوں ميں عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمايا۔ [5]اہل ظاہر قرار ديتے ہيں کہ اصلاً جنگ ميں ہر غير مسلم کا قتل جائز ہے، سوائے عورتوں اور بچوں کے۔ اس کي وجہ وہ يہ بيان کرتے ہيں کہ سورۃ التوبۃ ميں تمام مشرکين کو قتل کرنے کا حکم ديا گيا ہے اور رسول اللہ ﷺ کي ممانعت گويا قاعدے سے استثنا ہے۔ [6]اس کے برعکس جمہور فقہا عورتوں اور بچوں کے علاوہ ديگر ايسے لوگوں کو بھي غير مقاتلين ميں شمار کرتے ہيں جو جنگ ميں حصہ نہيں ليتے مثلاً شيخ فاني، خانقاہ ميں باقي دنيا سے الگ تھلگ رہنے والے راہب، کھيتوں ميں کام کرنے والے کسان ۔ [7]

اس کي وجہ يہ ہے کہ بعض ديگر احاديث ميں ، جو متشدد روايت پسندوں کے نزديک قابل قبول نہيں ہيں، ان لوگوں کا بھي ذکر آيا ہے۔ نيز خلفائے راشدين کے فرامين اور احکامات ميں بھي يہ استثناء ات مذکور ہيں۔[8]

سوال يہ ہے کہ اگر سورۃ التوبۃ کي آيت ۵ کے حکم فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِيْنَ حَيثُ وَجَدتُّمُوهُمْ (پس مشرکين کو قتل کرو جہاں بھي ان کو پاؤ ) کو عام حکم مانا جائے تو ان احاديث اور خلفا کے فرامين نے اس عام کي تخصيص کيسے کردي؟ يہ سوال شافعي فقہا کے ليے اتنا اہم نہيں ہے کيونکہ ان کے نزديک عام ظني الدلالۃ ہوتا ہے جس کي تخصيص خبر واحداور قياس کے ذريعے بھي ہوسکتي ہے۔ تاہم احناف کے نزديک عام قطعي الدلالۃ ہوتا ہے اور اس کي پہلي تخصيص کے ليے قطعي دليل کي ضرورت ہوتي ہے۔ البتہ پہلي تخصيص کے بعد احناف کے نزديک بھي مزيد تخصيص خبر واحد اور قياس کے ذريعے ہوسکتي ہے کيونکہ “عام مخصوص منہ البعض” ان کے نزديک بھي ظني الدلالۃ ہوجاتا ہے۔ [9]

يہاں اس عام حکم کي تخصيص اس آيت کريمہ کے معاً بعد آنے والي آيت نے کر دي ہے: وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِيْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْه حَتَّي يسْمَعَ کَلاَمَ اللِّه ثُمَّ أَبْلِغْهُ َمأْمَنَه (سورۃ التوبۃ، آيت ۶) (اگر ان مشرکين ميں کوئي تم سے امان مانگے تو اسے امان دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے امان کي جگہ تک پہنچاؤ۔ ) اس آيت نے واضح کيا کہ ماسبق آيت ميں لفظ ’’المشرکين‘‘ بظاہر عام ہے ليکن درحقيقت عام نہيں ہے، بلکہ اس سے ايک مخصوص گروہ مراد ہے کيونکہ مستامن کو قتل کرنا جائز نہيں ہے اگرچہ وہ مشرک ہو۔ گويا ما سبق آيت ميں مذکور حکم کا يہ مطلب نہيں ہے کہ ’’تمام مشرکين‘‘ کو قتل کرو۔ اب جب لفظ ’’المشرکين‘‘ عام نہيں رہا تو ديگر دلائل ۔ احاديث مبارکہ، صحابہ کرام کے فيصلوں اور قياس ۔ کے ذريعے اس بظاہر عام حکم کي مزيد تخصيص ہوسکتي ہے۔

باقي رہا يہ سوال کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، راہبوں اور کسانوں کو اس حکم سے کيوں مستثني کيا گيا؟ تو اس کا جواب يہ ہے کہ انہيں مستثني کرنے کي وجہ وہي ہے جو مستامن کو مستثني کرنے کي ہے۔ جيسے مستامن مسلمانوں سے لڑتا نہيں بلکہ ان سے امن کا معاہدہ کرتا ہے اسي طرح يہ لوگ بھي جنگ ميں حصہ نہيں ليتے۔ بہ الفاظ ديگر، يہ لوگ “غير مقاتلين” ہيں۔ يہ علت رسول اللہ ﷺ کي ايک حديث مبارک سے براہ راست بھي معلوم ہوتي ہے۔ جب آپ نے ميدان جنگ ميں ايک خاتون کي لاش ديکھي تو اس پر سخت ناراضگي کا اظہار کرتے ہوئے فرمايا: ما کانت هذه فيمن يقاتل۔[10] (يہ تو لڑنے والوں ميں نہيں تھي۔ )

چنانچہ جن سے لڑنے کا حکم ديا گيا ہے وہ صرف وہ ہيں جن کو مقاتلين کہا جاسکے، اور جو غير مقاتلين ہيں وہ اس حکم سے مستثنيٰ ہوئے۔ البتہ غير مقاتلين ميں کوئي فرد اگر قتال ميں حصہ لے تو اس پر حملہ جائز ہوجاتا ہے کيونکہ جس ’’علت‘‘ کي وجہ سے اس پر حملہ ناجائز تھا وہ علت معدوم ہوگئي، يا يوں کہيے کہ جس ’’علت‘‘ کي وجہ سے کسي پر حملہ کرنا جائز ہوجاتا ہے وہ علت اس ميں اب پائي جاتي ہے۔ چنانچہ اگر عورت جنگ ميں حصہ لے تو اسے ہدف بنايا جاسکتا ہے کيونکہ اسے استثنا عورت ہونے کي وجہ سے نہيں ديا گيا تھا بلکہ غير مقاتلہ ہونے کي وجہ سے ديا گيا تھا اور اب وہ غير مقاتلہ نہيں رہي۔

پس اصل چيز جو ديکھنے کي ہے، اور جس پر حکم کے وجود اور عدم کا مدار ہے، وہ يہ ہے کہ کون جنگ ميں حصہ ليتا ہے اور کون نہيں ليتا؟ اول الذکر کو مقاتل کہا جائے گا اور ثاني الذکر کو غير مقاتل۔ چونکہ عصر حاضر ميں جنگوں ميں، ماسوائے استثنائي حالات کے، عام شہري حصہ نہيں ليتے اس ليے عام شہريوں کو غير مقاتلين ہي کہا جائے گا جب تک وہ جنگ ميں باقاعدہ حصہ نہ ليں۔

جنگ ميں براہ راست حصہ لينے کا اصول

يہاں يہ سوال پيدا ہوجاتا ہے کہ “جنگ ميں باقاعدہ حصہ لينے” سے کيا مراد ہے؟ بعض لوگوں کي جانب سے يہ راے سامنے آئي ہے کہ چونکہ فوج کے اخراجات ان ٹيکسوں سے پورے کيے جاتے ہيں جو حکومت اپنے شہريوں پر لگاتي ہے اس ليے ہر وہ شخص مقاتل ہے جو حکومت کو ٹيکس ادا کرتا ہے کيونکہ اس طرح وہ مال کے ذريعے قتال ميں حصہ لے رہا ہے۔ اسي طرح ان لوگوں کے نزديک وہ تمام دانشور، ماہرين اور اہل علم بھي مقاتل شمار ہوں گے جن کي آرا يا نظريات کسي بھي طور پر جنگ ميں ممد و معاون ہوں۔ ظاہر ہے کہ فوجيوں يا جنگجووں کو طبي امداد فراہم کرنے والے لوگ تو اس تعريف کي رو سے بدرجۂ اولي مقاتلين شمار ہوں گے ۔

حقيقت يہ ہے کہ اگر اس راے کو تسليم کيا گيا تو پورے اسلامي آداب القتال کا حليہ ہي تبديل ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے دور ميں بھي جنگوں کے ليے سرمايے کي ضرورت ہوتي ليکن کيا آپ نے ہر اس شخص کو مقاتل قرار ديا جس نے جنگ کے ليے فنڈ ميں ذرا سا بھي حصہ ڈالا ہو؟ ہر شخص جانتا ہے کہ غزوۂ بدر ميں شکست کے بعد اہل ِمکہ کے ہر مرد و عورت نے بدلے کے ليے تياري ميں بھرپور حصہ ليا اور غزوۂاحد کے ليے باقاعدہ Fund Raising ہوئي۔

خود قرآن ِکريم اس پر گواہ ہے: إِنَّ الَّذِينَ کَفَرُواْ ينفِقُونَ أَمْوَالَهمْ لِيصُدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّه فَسَينفِقُونَهَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَيهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يغْلَبُونَ (سورۃ الانفال، آيت ۶۳) (کفر کرنے والے اپنا مال اس مقصد سے خرچ کررہے ہيں کہ لوگوں کو اللہ کي راہ سے روکيں۔ پس وہ اسے خرچ تو کرليں گے، پھر يہ ان کے ليے سرمايۂ حسرت بنے گا، پھر وہ مغلوب ہو جائيں گے۔ ) اس سے بھي آگے بڑھ کر مشرکين کي عورتيں اپنے مردوں کا حوصلہ بڑھانے کے ليے ميدان جنگ ميں بھي آئيں اور شعر اور نغمے گا گا کر مردوں کے جذبات کو برانگيختہ کرتي رہيں۔ [11]اس کے باوجود بھي رسول اللہ ﷺ نے عورتوں پر حملہ کرنے سے منع فرمايا۔

يہ بات اپني جگہ صحيح ہے کہ جنگ صرف ہتھياروں سے نہيں لڑي جاتي اور اس ميں بہت سارے لوگ حصہ ڈالتے ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ کيا شريعت نے مباشر اور متسبب ميں فرق کيا ہے يا نہيں؟ پھر دوسرا سوال يہ ہے کہ اگر ايک سبب کے وجود ميں آنے کے بعد نتيجہ نمودار ہونے سے پہلے درميان ميں ايک اور سبب طاري ہوجائے تو فعل کي نسبت کس کي طرف کي جائے گي؟ اگر ايک سبب کا کوئي نتيجہ برآمد ہو اور وہ نتيجہ ايک اور فعل کا سبب بنے تو يہ آخري فعل سبب ِاول کي طرف منسوب ہوگا يا سبب ِثاني کي طرف؟ کيا فعل اور اثر کے درميان رابطہ سببيہ (Causal Link) ثابت کرنا ضروري ہے يا نہيں؟ اسباب کا يہ سلسلہ کہاں روکا جائے گا؟ [12]کيا شہد کي مکھي کے باغ ميں داخل ہونے کو اس بنا پر پروانے کے خونِ ناحق کا سبب قرار ديا جاسکتا ہے کہ نہ وہ باغ ميں داخل ہوتي ، نہ رس چوستي، نہ اس سے موم بنتا، نہ موم بتي وجود ميں آتي، نہ موم بتي جلائي جاتي، نہ ہي پروانے اس پر نثار ہوتے؟

پس حقيقت يہ ہے کہ جن لوگوں کا جنگ کي تياري ميں براہ راست حصہ ہو، جنہيں جنگ کا “متسبب” قرار ديا جاسکے، جن کے فعل اور جنگ کے درميان رابطہ سببيہ ثابت کيا جاسکے، جن کے فعل اور جنگ کے درميان کوئي اور قوي سبب طاري نہ ہوا ہو، ان کو يقينا جنگ کے ليے ذمہ دار ٹھہرايا جاسکتا ہے خواہ انہوں نے باقاعدہ ہتھيار نہ اٹھائے ہوں۔ کعب بن الاشرف کو مقاتل قرار ديا گيا تو محض اس وجہ سے نہيں کہ اس نے غزوۂ بدر ميں قريش کے مقتولين کا مرثيہ کہا تھا، بلکہ دراصل اس نے اپني اس شاعري اورخطابت کے زور پر مشرکين مکہ کو رسول اللہ ﷺ پر حملہ کرنے کے ليے باقاعدہ مہم چلائي تھي اور جنگ کي منصوبہ بندي ميں حصہ ليا تھا۔[13] نيز اس نے رسول اللہ ﷺ کي شان ميں گستاخياں کي تھيں جو نص قرآني کے بموجب “طعن في الدين” ہونے کے سبب سے قتال کي علت ميں شامل ہے۔ [14]اسي سبب سے ابو عزہ شاعر کو سزاے موت سنائي گئي کہ وہ قريہ قريہ جا کر اپنے اشعار کے ذريعے لوگوں کو جنگ کے ليے اکٹھا کرتا رہا، اور ساتھ ہي وہ رسول اللہ ﷺ کے ہجو ميں شعر کہتا تھا۔ [15]اسي طرح عمر رسيدہ دريد ابن الصمہ کو مقاتل شمار کيا گيا کيونکہ اس نے جنگ کي منصوبہ بندي ميں باقاعدہ حصہ ليا تھا اور جنگ کي ابتدا ميں مسلمانوں کو جو سخت جاني نقصان ہوا اس ميں دريد کے مشوروں نے اہم کردار ادا کيا تھا۔ [16]

پس مقاتلين ميں کچھ تو وہ لوگ ہيں جن کو “مباشر” کي حيثيت حاصل ہے، يعني جنگجو يا فوجي، اور کچھ وہ ہوتے ہيں جن کو “متسبب” کي حيثيت حاصل ہے۔ اس ثاني الذکر گروہ ميں صرف انہي کو شامل کيا جاسکتا ہے جن پر جنگ کي براہ راست ذمہ داري ڈالي جاسکے۔ يہي اصول بين الاقوامي قانون کا بھي ہے۔ مثال کے طور پر رياست کا سربراہ جنگ ميں فوجي کے طور پر حصہ نہيں ليتا ليکن اس کے باوجود جنگ شروع کرنے اور جنگ کے دوران ميں کيے جانے والے بعض کاموں کے ليے اسے ذمہ دار ٹھہرايا جاتا ہے اور بعض کے ليے ذمہ داري اس پر نہيں ڈالي جاتي۔[17]

طبي عملے کے تحفظ سے متعلق اسلامي قانون کے قواعد

زمانۂ قديم کي جنگوں ميں بھي زخميوں اور بيماروں کے علاج معالجے کا کچھ نہ کچھ بندوبست ہوتا تھا اور عام طور پر زخميوں کي مرہم پٹي اور انہيں دوا يا پاني پلانے کا کام خواتين کيا کرتي تھيں ۔ رسول اللہ ﷺ کے غزوات اور صحابۂ کرام رضي اللہ عنہم کي جنگوں ميں بھي اس کي مثاليں ملتي ہيں ۔ سوال يہ ہے کہ کيا طبي خدمات کي فراہمي کو جنگ ميں براہ راست حصہ لينے کے مترادف قرار ديا جاسکتا ہے ؟ بہ الفاظ ِ ديگر ، کيا طبي امداد فراہم کرنے والوں کو مقاتل مان کر حملے کے ليے جائز ہدف قرار ديا جاسکتا ہے ؟

امام محمد بن الحسن الشيباني ( م 189 ھ ) کا پيش کردہ يہ جزئيہ اس سلسلے ميں بنيادي اصول فراہم کرتا ہے : فأما العجائز ، فلا بأس بأن يخرجن مع الصوائف لمداواة الجرحى ۔ جاء عن أم عطية قالت‏:‏ خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سبع غزوات ؛ فكنت أطبخ لهم ، وأداوي الجرحى ، وأسقيهم الماء‏۔[18] (جہاں تک بوڑھي عورتوں کا تعلق ہے تو اس ميں کوئي قباحت نہيں ہے کہ وہ بڑے لشکروں ميں زخميوں کو طبي امداد کي فراہمي کے ليے جائيں ۔ ام عطيہ رضي اللہ عنہا سے روايت ہے کہ ميں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات جنگوں ميں شريک ہوئي اور ميں ان کے ليے کھانا پکاتي ، زخميوں کي ديکھ بھال کرتي اور انہيں پاني پلاتي ۔) اس کے بعد امام شيباني فرماتے ہيں : ولا يعجبني أن يباشرن القتال۔[19] (البتہ مجھے يہ بات اچھي نہيں لگتي کہ وہ لڑائي ميں حصہ ليں۔ )

اس سے معلوم ہوا کہ جنگ ميں مقاتلين کو طبي امداد فراہم کرنے ، ان کے ليے کھانا تيار کرنے اور پاني پلانے کے اعمال براہ ِ راست ميں جنگ ميں حصہ لينے کے عمل (المباشرة بالقتال) سے يکسر مختلف ہيں ۔

اس پر اس جزئيے کا اضافہ کيجيے کہ اسلامي قانون کي رو سے جنگ سے حاصل شدہ مال ِغنيمت ميں حصہ صرف اسي کو ملتا تھا جس کا جنگ ميں کچھ کردار ہوتا تھا ۔ چنانچہ اوپر ہم نے ذکر کيا کہ دشمن کے علاقے ميں تجارت کي غرض سے جانے والے تاجروں کو مال ِ غنيمت ميں حصہ نہيں ملتا تھا۔ تاہم اگر خواتين جنگ ميں طبي امداد فراہم کرتيں ، يا کھانا بناتيں ، يا اس طرح کے ديگر کام کرتيں تو ان اعمال پر انہيں مال غنيمت ميں غير مقدر حصہ (رضخ ) ملتا تھا : ولا يسهم عندنا لصبي ، و لا يقاتلوا ؛ ويرضخ لمن سواهم ، إذا قاتلوا ؛ وللنساء ، إذا خرجن لمداواة الجرحى والطبخ والخبز للغزاة ‏۔[20] (ہمارے نزديک بچے کے ليے غنيمت ميں حصہ نہيں ہے ، نہ ہي ہ لڑائي ميں شريک ہوں ؛بچوں کے سوا ديگر غير مقاتلين کو غير مقررہ حصہ ملے گا بشرطيکہ وہ لڑائي ميں حصہ ليں ؛ جبکہ عورتوں کو غير مقررہ حصہ اس وقت ملے گا جب وہ زخميوں کي ديکھ بھال کريں اور جنگجووں کے ليے کھانا اور روٹي پکائيں ۔ )

يہاں قابل ِ غور بات يہ ہے کہ خواتين کے ماسوا ديگر غير مقاتلين ( جيسے تاجر يا غلام ) کو مال ِ غنيمت ميں حصہ تبھي ملتا جب وہ جنگ ميں براہ ِ راست حصہ ليتے (إذا قاتلوا) ؛ جبکہ خواتين کو يہ حق زخميوں کي مرہم پٹي اور مقاتلين کے ليے کھانا پکانے پر ہي ملتا ۔ اس سے ايک طرف يہ معلوم ہوا کہ طبي امداد کي فراہمي کو فقہائے کرام نے جنگ ميں کردار ادا کرنے کے مفہوم ميں شامل سمجھا ہے ليکن دوسري طرف يہ بھي معلوم ہوا کہ فقہائے کرام اس فعل کو جنگ ميں براہ راست حصہ لينے کے مترادف نہيں سمجھتے ۔

يہي بات ايک اور جزئيے سے قطعي طريقے سے ثابت ہوتي ہے ۔ مسلمان مرد تاجر کو يہ اختيار حاصل نہيں ہے کہ وہ دشمن کے مقاتلين کو امان دے کيونکہ تاجر دشمن کے علاقے ميں جنگ کے ليے نہيں جاتا ۔ اس کے برعکس جنگ ميں طبي امداد فراہم کرنے والي مسلمان خاتون دشمن کے مقاتلين کو امان دے سکتي ہے کيونکہ طبي خدمت انجام دے کر وہ جسماني جہاد کرتي ہے۔

امام شيباني فرماتے ہيں : لو أمنت المرأة من أهل دار الاسلام أهل الحرب ، جاز أمانها ۔[21] (دار الاسلام سے تعلق رکھنے والي خاتون نے اگر دار الحرب کے لوگوں کو امان ديا تو يہ امان نافذ ہوگا ۔ )اس سلسلے ميں امام سرخسي دو نظائر کا حوالہ ديتے ہيں :

لما روي أن زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم و رضي الله عنها أمنت زوجها أبا العاص بن الربيع ، فأجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم أمانها ۔ و عن أم هانئ رضى الله عنها قالت : أجرت حموين لى يوم فتح مكة، فدخل على رضى الله عنه يريد قتلهما ، وقال : اتجيرين المشركين ؟ فقلت : لا ، الا أن تبدأ بي قبلهما ، وأخرجته من البيت ، وأغلقت الباب عليهما ؛ ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ؛ فلما رأني ، قال : مرحبا بأم هانئ فاختة ! قلت : ماذا لقيت من ابن أمي على ، أجرت حموين لى ، وأراد قتلهما ۔ فقال صلى الله عليه وسلم : ليس له ذلك ، وقد أجرنا من أجرت، وأمنا من أمنت ۔[22]

(کيونکہ روايت ميں آيا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کي بيٹي زينب رضي اللہ عنہا نے اپنے شوہر ابو العاص بن الربيع رضي اللہ عنہ کو امان دي تو رسول اللہ ﷺ نے اسے نافذ فرمايا ۔ اسي طرح ام ہاني رضي اللہ عنہا سے روايت ہے کہ انہوں نے کہا کہ فتح ِ مکہ کے دن ميں نے اپنے سسرالي رشتہ داروں ميں دو افراد کوامان دي تو اتنے ميں علي رضي اللہ عنہ انہيں قتل کرنے کے ارادے سے داخل ہوئےاور مجھے کہا کہ کيا تم مشرکين کو پناہ دے رہي ہو ؟ ميں نے کہا : تم مجھے مارنے سے پہلے انہيں نقصان نہيں پہنچا سکتے ۔ پھر ميں نے علي رضي اللہ عنہ کو گھر سے نکالا اور ان دونوں پر گھر کا دروازہ باہر سے بند کرکے رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئي ۔ جب آپ نے مجھے ديکھا تو فرمايا : مرحبا اے فاختہ ام ہاني !ميں نے آپ کو وہ ساري بات بتادي جو مجھے اپنے ماں جائے کے ساتھ پيش آئي تھي کہ ميں نے اپنے سسرالي رشتہ داروں کو پناہ دي تو علي رضي اللہ عنہ نے انہيں قتل کرنے کا ارادہ کيا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا : "اس کے پاس يہ اختيار نہيں ہے ؛ ہم نے اسے پناہ دي جسے تم نے پناہ دي اور ہم نے اسے امان ديا جسے تم نے امان ديا۔")

اس کے بعد قانوني اصول کي توضيح امام سرخسي نے جن الفاظ ميں کي ہے وہ نہايت اہم ہيں اور مسئلۂ زير ِ بحث ميں برہان ِ قاطع کي حيثيت رکھتے ہيں : ولانها من أهل الجهاد ، فانها تجاهد بمالها ؛ وكذلك بنفسها ، فانها تخرج لمداواة المرضى والخبز ؛ وذلك جهاد منها ۔ [23](اس کي قانوني اصل يہ ہے کہ خاتون جہاد کي اہليت رکھتي ہے ( اس ليے امان بھي دے سکتي ہے ) کيونکہ وہ مال کے ذريعے جہاد ميں شرکت کرتي ہے ، بلکہ وہ نفس کے ذريعے بھي جہاد ميں شريک ہوسکتي ہے کيونکہ جب وہ مريضوں کي ديکھ بھال اور کھانا پکانے کے ليے ميدان ِجنگ ميں جاتي ہے تو يہ اس کي جانب سے جہاد ميں شرکت ہے ۔ )

اس سے صراحتاً معلوم ہوا کہ فقہائے کرام طبي امداد کي فراہمي کو "جہاد "قرار دينے کے باوجود اسے "قتال " نہيں مانتے۔ بہ الفاظ ِ ديگر طبي امداد کي فراہمي کو " جنگ ميں براہ ِ راست حصہ لينے " کے مفہوم ميں شامل نہيں سمجھا جاسکتا۔ پس اسلامي قانون کي رو سے مقاتلين کو طبي امداد فراہم کرنے والے افراد پر حملہ ناجائز ہے کيونکہ جنگ ميں اپنا مخصوص کردار ادا کرنے کے باوجود قانوني لحاظ سے وہ مقاتلين نہيں ہيں ۔

غدر اور خدعہ ميں فرق اور طبي عملے اور سہوليات کے ليے خطرے کا تدارک

شريعت ِ اسلاميہ نے سختي سے غدر ( عہد شکني ) کي ممانعت کي ہے اور کئي آيات و احاديث اس سلسلے ميں وارد ہوئي ہيں جن کي بنا پر فقہا نے قرار ديا ہے کہ غدر ان ناجائز کاموں ميں ہے جس کي رخصت اضطرار کي حالت ميں بھي نہيں ملتي ۔ اس کے متوازي ايک اہم قاعدہ يہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگي چالوں کي اجازت دي ہے اور جنگ کو خدعۃ (چال چلنا) کا نام ديا۔

يہاں پہلا اہم قانوني سوال يہ ہے کہ کيا خدعہ سے مراد يہ ہے کہ جنگ ميں جھوٹ بولنا جائز ہے؟ ايک روايت ميں بظاہر تين مواقع پر جھوٹ بولنے کي رخصت ذکر کي گئي ہے جن ميں ايک جنگ کا موقع ہے ۔ تاہم امام سرخسي اس روايت کي توضيح ميں کہتے ہيں:

و أخذ بعض العلماء بالظاهر فقالوا: يرخص في الکذب في هذه الحالة۔ و استدلوا بحديث أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي ﷺ قال: لا يصلح الکذب الا في ثلاث: في الصلح بين اثنين، و في القتال، و في ارضاء الرجل أهله۔ و المذهب عندنا: أنه ليس المراد الکذب المحض، فان ذلک لا رخصة فيه ۔ و انما المراد: استعمال المعاريض۔ و هو نظير ما روي أن ابراهيم صلوات الله و سلامه عليه کذب ثلاث کذبات، و المراد أنه تکلم بالمعاريض، اذ الأنبياء عليهم صلوات الله و سلامه معصومون عن الکذب المحض۔ و قال عمر رضي الله عنه: ان في المعاريض لمندوحة عن الکذب۔ و تفسيرهذا ما ذکره محمد رحمه الله في الکتاب و هو: أن يکلم من يبارزه بشيء و ليس الأمر کما قال، و لکنه يضمر خلاف ما يظهره له۔[24]

(بعض علما نے ظاہري معني کو ديکھتے ہوئے کہا کہ اس حالت ميں جھوٹ بولنے کي رخصت ہے، اور اس کے ليے ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ کي اس روايت سے استدلال کيا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا: جھوٹ جائز نہيں مگر تين مواقع پر: دو افراد کے درميان صلح کے ليے، جنگ کے دوران ميں اور کسي شخص کے اپني بيوي کو منانے کے سلسلے ميں۔ ہمارے نزديک مذہب يہ ہے کہ يہاں مراد محض جھوٹ نہيں ہے کيونکہ اس ميں کوئي رخصت نہيں ہے۔ (وہ کسي حالت ميں بھي جائز نہيں ہے۔) بلکہ مراد ہے ذو معني الفاظ کا استعمال۔ اس قسم کے استعمال کي مثال وہ روايت ہے جس ميں کہا گيا ہے کہ ابراہيم عليہ الصلوۃ و السلام نے تين مواقع پر جھوٹ بولا۔ اس روايت ميں بھي مراد ذو معني الفاظ کا استعمال ہے کيونکہ انبياء عليہم الصلوۃ والسلام محض جھوٹ کے بولنے سے معصوم ہيں۔ سيدنا عمر رضي اللہ عنہ نے کہا تھا: ذو معني کلام کے ذريعے جھوٹ سے بچا جاسکتا ہے۔ خدعہ کے لفظ کي تفسير امام محمد رحمہ اللہ نے کتاب (سير کبير) ميں يہ ذکر کي ہے کہ: جنگ کے ليے مد مقابل آنے والے سے کوئي بات کہي جائے جس سے وہ معاملے کو يوں سمجھ بيٹھے جيسے وہ حقيقت ميں نہيں ہے، ليکن يہ بولنے والا اس اصل حقيقت کو دل ميں چھپائے رکھے۔ )

جہاں تک ايسي چال کا تعلق ہے جس سے غدر، عہد شکني يا اعتماد شکني لازم آتي ہو تو وہ جائز خدعہ ميں شامل نہيں ہے۔ مثال کے طور پر اسلامي قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ اگر جنگ ميں کسي ايک مسلمان غازي نے بھي مخالفين ميں کسي کو امان ديا تو وہ شخص يا اشخاص حملے سے محفوظ ہوگئے۔ اس کے بعد ان پر حملہ کرنا ناجائز ہوگا۔ اب اگر کسي مسلمان نے لڑائي کے دوران ميں مخالفين کو اپني طرف آنے کا اشارہ کيا اور زير لب کہا کہ تم يہاں آؤ تو ميں تمہيں قتل کردوں، اور اس اشارے پر اعتماد کرتے ہوئے مخالفين مسلمانوں کي طرف آئے تو ان پر حملہ ناجائز ہوگا۔ اشارہ کرنے والا يہ نہيں کہہ سکتا کہ يہ تو اس نے ايک چال چلي تھي کہ دشمن کسي طرح حملے کي زد ميں آجائے۔ پس يہ خدعہ نہيں بلکہ غدر ہے۔ يہ اصول سيدنا عمر رضي اللہ عنہ سے مروي ہے اور اس کي وضاحت ميں امام سرخسي کہتے ہيں: فان ظاهر اشارته أمان له، و قوله: ان جئت قتلتک، بمعني النبذ لذلک الأمان۔ فما لم يعلم بالنبذ کان آمناً۔[25] (کيونکہ اس کا ظاہري اشارہ دوسرے فريق کے ليے امان ہے اور اس کا قول کہ ’اگر تم ميرے قريب آئے تو ميں تمہيں قتل کردوں گا‘ اس امان کے خاتمے کے مترادف ہے۔ پس جب تک دوسرے فريق کو امان کے خاتمے کا علم نہ ہو اسے امان حاصل رہے گا۔ )

اسي طرح يہ ناجائز ہے کہ کوئي مسلمان خود کو مسلمانوں کے سفير کے طور پر پيش کرے اور پھر جب دوسرا فريق اس کي جانب سے مطمئن ہوکر اسے قريب آنے دے تو يہ اس پر حملہ کرے۔ يہ کام ناجائز ہوگا خواہ يہ مسلمان درحقيقت سفير ہو يا اس نے بطور جنگي چال خود کو سفير بنا کر پيش کيا ہو۔ يہ جنگي چال نہيں بلکہ غدر ہے۔ امام شيباني نے تصريح کي ہے:

و لو أن رهطاً من المسلمين أتوا أول مسالح أهل الحرب فقالوا: نحن رسل الخليفة، و أخرجوا کتابا يشبه کتاب الخليفة، أو لم يخرجوا، و کان ذلک خديعة منهم للمشرکين، فقالوا لهم: ادخلوا، فدخلوا دار الحرب، فليس يحل لهم قتل أحد من أهل الحرب، و لا أخذ شيء من أموالهم ماداموا في دارهم۔[26]

(اگر مسلمانوں کا کوئي گروہ دشمنوں کے پہلے مورچوں کي طرف آکر ان سے کہے کہ ہم اپنے حکمران کے سفير ہيں، پھر خواہ وہ سفارت کي دستاويز پيش کريں جو مسلمانوں کے حکمران کي دستاويز سے مشابہ ہو، يا ايسي کوئي دستاويز پيش نہ کريں، اور اس طرح وہ مشرکين کے ساتھ چال چل رہے ہوں (درحقيقت وہ سفير نہ ہوں)، تو اگر مشرکين نے انہيں اپنے علاقے ميں داخل ہونے کي اجازت دي تو داخل ہونے کے بعد جب تک وہ ان کے علاقے ميں ہوں گے ان کے ليے جائز نہيں ہوگا کہ اس علاقے کے لوگوں ميں کسي کو قتل کريں يا ان کا مال چھينيں۔ )

اس حکم کي وضاحت ميں امام سرخسي نے جو کچھ کہا ہے اس کے لفظ لفظ پر ڈيرے ڈالنے کي ضرورت ہے کيونکہ اس تشريح سے جو اہم قانوني اصول سامنے آتے ہيں ان سے عصر حاضر کي جنگي چالوں کے متعلق نہايت واضح رہنمائي حاصل ہوتي ہے:

لأن ما أظهروه لو کان حقاً کانوا في أمان أهل الحرب، و أهل الحرب في أمان منهم أيضاً، لا يحل لهم أن يتعرضوا لهم بشيء۔ هو الحکم في الرسل اذا دخلوا اليهم کما بينا، فکذلک اذا أظهروا ذلک من أنفسهم، لأنه لا طريق لهم الي الوقوف علي ما في باطن الداخلين حقيقةً وانما يبني الحکم علي ما يظهرون، لوجوب التحرز عن الغدر۔ و هذا لما بينا أن أمر الأمان شديد، و القليل منه يکفي۔ فيجعل ما أظهروه بمنزلة الاستئمان منهم۔ و لو استأمنوا فأمنوهم وجب لهم أن يفوا لهم۔ فکذلک اذا ظهر ما هو دليل الاستئمان۔[27]

( کيونکہ جو کچھ انہوں نے ظاہر کيا (کہ وہ سفير ہيں) اگر يہ حقيقت ہوتي تو وہ دشمن قوم کي جانب سے امان ميں ہوتے اور دشمن قوم بھي ان کي جانب سے امان ميں ہوتي کيونکہ ان مسلمانوں کے ليے جائز نہ ہوتا کہ دشمن کو کسي قسم کا جاني يا مالي نقصان پہنچائيں۔ سفير جب ان کے علاقے ميں داخل ہوں تو ان کے ليے حکم يہي ہے، جيسا کہ ہم نے پہلے واضح کيا ہے۔ پس يہي حکم اس صورت ميں بھي ہوگا جب وہ خود کو سفير ظاہر کريں کيونکہ جو کچھ ان داخل ہونے والوں کے دلوں ميں چھپا ہوا ہے اسے جاننے کا کوئي ذريعہ دوسرے فريق کے پاس نہيں ہے۔ پس حکم کي بنا ان کے ظاہر پر کي جائے گي کيونکہ غدر سے بچنا واجب ہے۔ اس کي وجہ يہ ہے، جيسا کہ ہم نے واضح کيا ہے، کہ امان کا معاملہ انتہائي سنگين ہے اور اس کي خلاف ورزي کے ليے معمولي بات بھي کافي ہوتي ہے۔ پس جو کچھ انہوں نے ظاہر کيا اس کے متعلق کہا جائے گا کہ يہ گويا انہوں نے دوسرے فريق سے امان طلب کيا۔ پس اگر ان کے امان طلب کرنے پر وہ انہيں امان ديتے تو ان کے ليے لازم ہوتا کہ اس کي پابندي کرتے (اور ان پر حملہ نہ کرتے)۔ پس يہي حکم اس صورت ميں بھي ہے جب ان کي جانب سے ايسا طرز عمل سامنے آيا جو امان طلب کرنے کے برابر ہے۔ )

انہي اصولوں پر آگے امام شيباني نے قرار ديا ہے کہ اگر مسلمان تاجر کے روپ ميں جا کر انہيں يہ تاثر ديں کہ وہ تو لڑنے نہيں آئے تو ان کے ليے جائز نہيں ہوگا کہ وہ ان پر حملہ کريں۔[28]

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح بين الاقوامي قانون نے اس قسم کے حملوں کو Perfidy قرار دے کر جنگي جرم قرار ديا ہے اسي طرح اسلامي قانون کي رو سے بھي اس قسم کے حملے قطعي طور پر ناجائز ہيں اور ان کو جائز جنگي چال قرار نہيں ديا جاسکتا۔ اگر اسلامي قانون نے اس قسم کے حملوں کو ناجائز نہ قرار ديا ہوتا تب بھي مسلمانوں کے ليے يہ حملے ناجائز ہوتے کيونکہ ان حملوں کو جنيوا معاہدات کے ذريعے ناجائز قرار ديا گيا ہے اور، جيسا کہ اوپر تفصيل سے واضح کيا گيا، آداب القتال کے ليے کيے گئے اس طرح کے معاہدات کي پابندي مسلمانوں پر لازم ہے۔ تاہم يہاں امام شيباني کي تصريحات اور امام سرخسي کي توضيحات سے معلوم ہوا کہ اصلاً بھي اسلامي قانون کا اس معاملے ميں موقف وہي ہے جو بين الاقوامي قانون کا ہے۔ بلکہ بسا اوقات کوئي چال بين الاقوامي قانون کے تحت جائز ہو تب بھي اسلامي قانون کے تحت وہ ناجائز ہوتي ہے۔ مثال کے طور پر دشمن کو اپني پوزيشن يا حملے کے ارادے کے متعلق غلط فہمي ميں مبتلا رکھنا بين الاقوامي قانون اور اسلامي قانون دونوں کي رو سے جائز جنگي چال ہے۔ البتہ بين الاقوامي قانون کي رو سے دشمن کو غلط اطلاع دينا (Misinformation) جائز ہے اور اسلامي قانون کي رو سے يہ صرف اس صورت ميں جائز ہوسکتا ہے جب اس کے ليے جھوٹ نہ بولنا پڑے بلکہ “معاريض الکلام”سے کام ليا جائے۔

جب طبي عملہ جنگي قيدي بن جائے

عہد رسالت ميں بھي اس کي مثال ملتي ہے کہ کفار نے کسي مسلمان کو اس شرط پر رہا کيا ہو کہ وہ ان کے خلاف نہيں لڑے گا۔ ايسي صورت ميں رسول اللہ ﷺ نے انہيں اس شرط پر عمل کي تلقين کي۔ سيدنا حذيفہ بن يمان اور ان کے والد رضي اللہ عنہما اسي بنا پر غزوۂ بدر ميں شرکت نہيں کرسکے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہيں فرمايا: انصرفا، نفي لهم بعهدهم، و نستعين الله عليهم۔[29] (تم دونوں جاؤ۔ ہم ان کے ساتھ کيے گئے عہد کي پابندي کريں گے، اور ان کے خلاف اللہ تعاليٰ سے مدد چاہيں گے۔ )

اسي طرح رسول اللہ ﷺ نے بھي بعض اوقات مشرکين کے قيديوں کو بعض شرائط پر رہا کيا۔ مثال کے طور پر ابو عزہ شاعر کو اس شرط پر غزوۂ بدر ميں رہا کيا گيا تھا کہ وہ آئندہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائي نہيں کرے گا۔ تاہم اس نے اس شرط پر عمل نہيں کيا تو غزوۂ احد ميں دوبارہ گرفتار ہونے پر اسے سزاے موت دے دي گئي۔ معاصر بين الاقوامي قانون کے تحت اس قسم کي مشروط رہائي کو Parole کہا جاتا ہے۔جنگ کي صورت ميں ہر فريق کي ذمہ داري ہوتي ہے کہ وہ اپنے مقاتلين کو آگاہ کرے کہ وہ کن شرائط پر Parole قبول کرسکتے ہيں۔ جب کسي مقاتل کو Parole پر رہا کيا جائے تو اس کي رياست اسے اس کي خلاف ورزي پر مجبور نہيں کرے گي۔ [30]

اسي طرح جنگ ميں کسي غير جانبدار رياست ميں اگر کوئي مقاتل پايا جائے تو اسے محبوس کرنے کے بجائے اس شرط پر رہا کيا جاسکتا ہے کہ وہ بغير اجازت کے اس رياست کے حدود سے باہر نہيں نکلے گا جب تک جنگ ختم نہ ہو۔ [31]

اگر قيديوں سے ان کي طاقت سے زيادہ مشقت لي جارہي ہو جس مقصود يہ ہو کہ ان کو سسکا سسکا کر مار ديا جائے تو کيا قيدي اپنے اوپر مسلط لوگوں کے خلاف لڑ سکتے ہيں؟ ظاہر ہے کہ ہر دو صورتوں ميں موت کا امکان ہوتا ہے۔ اس ليے يہاں اضطرار اور اکراہ سے متعلق قواعد عامہ کا اطلاق ہوگا ۔ چنانچہ اولاً اسے ديکھا جائے گا کہ کہيں دشمن پر حملہ کرکے قيدي خود اپني موت کا باعث تو نہيں بن جاتا؟ اگر ہر دو صورتوں ميں موت کا امکان غالب ہو تو پھر قيدي کے ليے جائز ہوگا کہ ان پر حملہ کرے:

اگر اس طرح واقع ہونے والی موت مشقت کی موت کی بہ نسبت آسان ہو؛ یا

اگر اس طرح وہ دشمن کو سخت مادی یا نفسیاتی نقصان پہنچا سکتا ہو۔

يہاں فقہا يہ مسئلہ بھي ذکر کرتے ہيں کہ کيا مسلمان قيدي دشمن مقاتلين کو زہر دے سکتا ہے ؟ ولو قال الأسير لهم‏:‏ أنا أعلم الطب ، فسألوه أن يسقيهم الدواء ، فسقاهم السم ، فقتلهم ؛ فإن سقى الرجال منهم ، لم يكن به بأس لأن ذلك نكاية فيهم۔ [32]

(اگر مسلمان قيدي نے ان سے کہا کہ ميں طب کا علم رکھتا ہوں اور انہوں نے اس سے کہا کہ ہميں دوا دو تو اس نےدوا کے بجاے انہيں زہر ديا تو اگر اس نے زہر مقاتلين کو ديا ہو تو اس ميں کوئي قباحت نہيں ہے کيونکہ يہ دشمن پر سخت وار ہوا۔)

اس کا يہ مطلب ہر گز نہيں ہے کہ فقہا اس صورت ميں مسلمانوں کو غدر کي اجازت ديتے ہيں ۔ اس سلسلے ميں اس بات پر توجہ رہے کہ يہ مسلمان قيدي تھا اور اسلامي قانون کي رو سے قيدي کسي کو امان نہيں دے سکتا ۔ دوسري قابل ِ توجہ بات يہ ہے کہ يہ مسلمان مقاتل تھا اور قتال ميں حصہ لينے کي وجہ سے جنگي قيدي بنا تھا ۔ اس ليے دشمن کو معلوم تھا کہ انہيں اس سے خطرہ ہے ۔ اس کے باوجود دشمن نے اگر کوتاہي کي ہے تو ان کا اپنا قصور ہے ۔ تيسري اہم بات يہ ہے کہ اگر يہ قيدي اصلاً مقاتل نہ بھي ہو تو زہر دينے کي کوشش کے بعد وہ مقاتل بن جاتا ہے کيونکہ اس طرح وہ قتال ميں براہ ِ راست حصہ لے ليتا ہے ۔ پس اس صورت ميں وہ اس قانوني تحفظ سے محروم ہوجاتا ہے جو غير مقاتلين کو حاصل ہے ۔

باقي رہي يہ بات کہ اگر يہ قيدي واقعي طبيب ہو تو کيا اسے دشمن کا علاج کرنا چاہيے يا اسے زہر دينا چاہيے تو يہ طبي اخلاقيات کا مسئلہ بن جاتا ہے جس پر بحث اس مقالے کے دائرے سے باہر ہے ۔

خلاصۂ بحث

اس مقالے ميں پيش کي گئي تحقيق سے معلوم ہوا کہ اسلامي شريعت ميں غير مقاتلين پر حملے کي جو ممانعت ہے اس کي رو سے ہر اس شخص پر حملہ ناجائز ہے جو جنگي کارروائي ميں براہِ راست حصہ نہيں ليتا ۔ يہ بھي معلوم ہوا کہ مقاتل اور غير مقاتل کا فرق جنس کي بنياد پر نہيں بلکہ اس امر پر ہے کہ کون جنگ ميں براہِ راست حصہ ليتا ہے اور کون براہِ راست حصہ نہيں ليتا؟ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ ميں جنگ ميں خواتين کئي طريقوں سے شرکت کرتي تھيں اور جب تک وہ باقاعدہ لڑائي ميں حصہ نہ ليتيں ان پر  حملہ ناجائز ہوتا خواہ وہ زخميوں کي مرہم پٹي کرتي رہي ہوں يا ان کے ليے کھانا پکانے اور ديگر انتظامات ميں حصہ ليتي رہي ہوں۔  مزيد برآں شريعت کا بنيادي اصول يہ ہے کہ فعل کي نسبت مباشر کي طرف کي جاتي ہے اور متسبب کي طرف اسي وقت فعل کي نسبت کي جاسکتي ہے جب مباشر کي حيثيت متسبب کے ہاتھ ميں محض ايک آلے کي ہو۔ ايک اور بنيادي اصول يہ ہے کہ فعل کي نسبت قريب ترين اور قوي ترين سبب کي طرف کي جاتي ہے ۔ ان اصولوں کي روشني ميں قطعي طور پر معلوم ہوتا ہے کہ طبي عملے اور سہوليات پر حملہ اسلامي قانون کي رو سے ناجائز ہے۔

هذا ما عندي ، و العلم عند الله


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. تفصیل کے لیے دیکھیے بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ بعنوان : Health Care in Danger: January to December 2012۔ یہ رپورٹ کمیٹی کی ویب سائٹ www.icrc.org پر دستیاب ہے جہاں سے راقم نے اسے 2 ستمبر 2013ء کو ڈاون لوڈ کیا ۔
  2. غیر مقاتلین کے متعلق اسلامی قانون کی جزئیات پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے : محمد منیر ، احکام المدنیین فی الشریعۃ الاسلامیۃ و القانون الدولی الانسانی : دراسۃ مقارنۃ ( بحث لنیل درجۃ الماجستیر فی الشریعۃ و القانون بکلیۃ الشریعۃ و القانون ، الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ ، اسلام آباد ، عام 1996 م ) ۔ Muḥammad Munir, aḥkam al Madniyyeyeen fi al sharyʼat al Islamiyah wa al qanoon al duwaly al insany,(Islamabd: MS Desertation, International Islamic University, 1996)
  3. 1949 کےجنیوا معاہدات کے ساتھ 1977 میں ملحق کیے گئے پہلے اضافی معاہدے کی دفعہ 50 میں "شہری " کی جو تعریف دی گئی ہے اس کی رو سے مقاتل کی تعریف سے خارج تمام افراد شہری کی تعریف میں داخل ہیں ۔
  4. ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی ، شرح کتاب السیر الکبیر ( بیروت : دار الکتب العلمیۃ ، 1997 ) ، ج 3، ص 48۔ Muḥammad bin Abi sahal, Sharaḥ kitab al Siyar al Kabir, (Beirut: Dār al kutub al ‘elmiyah, 1997), 3:48
  5. مثال کے طور پر دیکھیے : سنن ابی داود ، کتاب الجہاد ، باب ما جاء فی قتل النساء ۔ Sunan abi Dawood, Kitab al jihad
  6. علی بن احمد بن حزم الظاہری ، المحلی بالآثار ( القاہرۃ : ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، 1934 ) ، ج 7، ص 296-97۔ ‘Ali bin Aḥmad , Al muḥallaʼ be al āathar, (Cairo: iDārat al ṭiba‘ah al munyriyyah, 1934), 7:97-296
  7. برہان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی ، الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ( بیروت : دار احیاء التراث العربی ، ت ن ) ، ج 2، 380-81؛ موفق الدین عبد اللہ بن محمد بن قدامۃ ، المغنی علی مختصر الخرقی ( القاہرۃ : دار المنار ، 1367 ھ ) ، ج 8 ، ص 477 ۔ ʼaly bin abi bakar, Al Hidayah, (Beirut: Dār Iḥyaʼ al turath al ‘arabi), 2:81-380 ‘abd allah bin Muḥammad, Al Mughny, (Cairo: Dār al Manar, 1367), 8:477
  8. محمد بن علی الشوکانی ، نیل الاوطار من اسرارمنتقی الاخبار ( الدمام : دار ابن الجوزی ، 1427 ھ ) ، ج 14 ، ص 113-119۔ Muḥammad bin ʼaly, Nyl al awṭar, (Al Dmam: Dār Ibn e al Jowzi, 1427), 14:113-119
  9. اس اصول پر بحث کے لیے دیکھیے : ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی ، تمہید الفصول فی الاصول المعروف باصول السرخسی ( لاہور : مکتبۃ مدنیۃ ، 1981 ) ، ج 1، ص 132-151۔ Muḥammad bin abi sahal, ʼuṣool al sarakhsy , (Lahore: Maktabah Madniyyah, 1981), 1:132-151
  10. سنن ابن ماجۃ ، کتاب الجہاد ، باب الغارۃ و البیات و قتل النساء و الصبیان ۔ Sunan Ibn e Majah, Kitab al Jihad
  11. علامہ شبلی نعمانی و سید سلیمان ندوی ، سیرت النبی ﷺ (کراچی : دارالاشاعت ، 1985 ) ، ج 1 ، ص 212۔ Shibly Nu‘many and Sulyman Nadwy, Seirat al Nabi (PBUH), (Karachi: Dār al Isha‘at, 1985), 1:212
  12. مباشر اور متسسب کے متعلق اصولوں کی وضاحت کے لیے اہم جزئیہ اکراہ کے تحت قتل کا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی ، المبسوط شرح مختصر الکافی ( بیروت : دار الکتب العلمیۃ ، 1997 ) ، ج 24 ، ص 86-90 ۔ Muḥammad bin abi sahal, Al Mabsooṭ , (Beirut: Dār al kutub al ‘elmiyah, 1997), 24:86-90
  13. صحیح مسلم ، کتاب الجہاد ، باب قتل کعب بن الاشرف طاغوت الیہود ؛ سنن ابی داود ، کتاب الخراج و الامارۃ و الفیء ، باب کیف کان اخراج الیہود من المدینۃ ۔ Ṣaḥiḥ Muslim, Kitab al Jihad Sunan abi Dawood, Kitab al Khiraj wa al ʼemarate wa al fyʼ
  14. قرآن مجید نے سورۃ النسآء میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کو طعن فی الدین ، یعنی دین پر حملہ قرار دیا ہے ( آیات 44-46) اور سورۃ التوبۃ میں قرار دیا ہے کہ طعن فی الدین کی صورت میں مسلمانوں کو جنگ کا حق حاصل ہوجاتا ہے ( آیت 12) ۔ Surah al Nisāʼ, Verse No. 44-46 Surah al Tawbah, Verse No. 12
  15. جمال الدین الزیلعی ، نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ ( القاہرۃ : مصطفی البابی الحلبی ، ت ن ) ، ج 3 ، ص 409 ۔ Jamal al Din al zyla‘ey, Naṣb al Rayah le aḥadith al hidayah, (Cairo: Muṣtafa al baby al ḥalby), 3:409
  16. سیرت النبی ﷺ ، ج 1، ص 305-311۔ Seirat al Nabi (PBUH), 1:305-311
  17. معاصر بین الاقوامی قانون میں سیاسی حکمران یا فوجی افسر کی قانونی ذمہ داری کے متعلق اصولوں کی وضاحت کے لیے دیکھیے : Maria L. Nybondas, Command Responsibility and Its Applicability to Civilian Superiors (The Hague: TMC A Asser Press, 2010).
  18. شرح کتاب السیر الکبیر ، ج ا، ص 128۔ Sharaḥ kitab al Siyar al Kabir, 1:128
  19. ایضاً ۔ Ibid.
  20. ایضاً ، ج 3 ، ص 67۔ Ibid., 3:67
  21. المبسوط ، ج 10 ، ص 47۔ Al Mabsooṭ, 10:47
  22. ایضاً ۔ Ibid.
  23. ایضاً ۔ Ibid.
  24. شرح کتاب السیر الکبیر ، ج 1 ، ص 85-86۔ Sharaḥ kitab al Siyar al Kabir, 1:85-86
  25. ایضاً ، ص 183۔ Ibid., 183
  26. ایضاً ، ج 2 ، ص 66۔ Ibid., 2:66
  27. ایضاً ، ص 67۔ Ibid., 67
  28. ایضاً ، 68-69۔ Ibid., 68-69
  29. صحیح مسلم ، کتاب الجہاد و السیر ، باب الوفاء بالعہد ۔ Ṣaḥiḥ Muslim, Kitab al Jihad
  30. مثال کے طور پر دیکھیے : 1907 کے پانچویں معاہدۂ ہیگ کی دفعہ 11 ۔ 11th Sub Division of Law of Hague Contract in 1907
  31. 1949 کے تیسرے معاہدۂ جنیوا کی دفعہ 21 ۔ 21st Sub Division of Law of Contract Geneva in 1949
  32. شرح کتاب السیر الکبیر ، ج 4، ص 307۔ Sharaḥ kitab al Siyar al Kabir, 4:307
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...