Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

غریب الحدیث کی مشہور کتابوں کے مناہج تألیف کا تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید:

اسلام نے ابتداء ہی میں جزیرہ عرب کی سرحد پار کرکے عجم میں قدم رکھا۔ اوریہ ایک خوش آئند بات اس لحاظ سے بھی ثابت ہوئی کہ چونکہ یہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اور ابھی دنیائے علم تقریبا مکمل طور پر قرآن وسنت پر مرکوز تھی، اس لئےعرب دنیا کے ساتھ ساتھ عجمی مسلمانوں نے بھی اوائل سے ہی قرآن وسنت کا کسی نہ کسی صورت میں اہتمام کیا۔

چونکہ زمانہ اور علاقائی بعد کی وجہ سے احادیث میں لغات کے اعتبار سے کافی مشکلات درپیش ہیں اور بسا اوقات احادیث مبارکہ کے صحیح معنی و مفہوم کے ادراک میں خلل آ جاتا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے مسلم علماء کرام اور محدثین نے ایسی احادیث کو مستقل الگ کتابی شکل میں جمع کر کے اس کی شرح و توضیح شروع کی ، جس کو "علم غریب الحدیث" کا نام دیا گیا۔

علم غریب الحدیث کے تدوینی مراحل کا باقاعدہ آغاز دوسری صدی ہجری میں شروع ہوگئیں جس میں اولین تصنیف ابوعبیدۃ معمر بن مثنی کی ہے جو کہ بصری عالم تھے۔ اس دور میں اور بھی بہت سے کتابیں لکھی گئی ۔غریب الحدیث کی کتابیں مختلف طریقوں میں لکھی گئی ہیں۔غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کے مصنّفین نے دوران تصنیف مختلف مناہج اختیار کیں۔کس کتاب کا منہج اورخصوصیت کیا ہیں۔؟

غریب الحدیث کا لغوی معنی:

لفظ”غریب“مجرد کے تین ابواب سے مستعمل ہے، باب حسب، نصر اور کرم سے، ان سب کے بنیادی معانی مندرجہ ذیل ہیں۔ دور جانا یا دور لے جانا، قلت وندرت، ناقابل فہم، خفی المراد اور انجان بات، اجنبی اور پردیسی انسان، ڈوب جانا یا چھپ جانا، کسی چیزکی حد اور کنارہ۔ مثلا غربت الشمس: سورج چھپ گیا۔ غرب عنی: وہ مجھ سے دور گیا۔ بدء الاسلام غریبا: یعنی اسلام کا آغاز تھوڑے لوگوں سے ہواتھا۔

نیز عرب کہتے ہیں: "العلماء غرباء"یعنی علماء جاہلوں کی بہ نسبت کم ہوتے ہیں۔غرب فلان: وہ دور گیا، یا غائب ہوگیا۔ غرب عن وطنه: اپنے ملک سے دور گیا۔ غرب الکلام غرابة: خفی المراد اور ناقابل فہم بات وغیرہ۔ باب تفعیل سے اس کا معنی جلاوطنی بھی ہوتا ہے۔ مثلا کہا جاتا ہے: غرّب الامیر فلانا، باب افتعال سے اجنبیوں میں شادی کرنے کو کہتے ہیں: اغترب فلان،یعنی اس نے اجنبیوں میں نکاح کیا[1]۔

غریب الحدیث کا اصطلاحی معنی:

اصطلاح میں یہ اس فن کانام ہے جس میں حدیث کے مشکل الفاظ حل کئے جاتے ہیں۔الفاظ میں اشکال یاتو ندرت اور قلت استعمال کی وجہ سے ہوتاہے یا کسی اور قبیلہ میں مستعمل ہونے کی وجہ سے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ پوری دنیا کے لئے داعی بنا کر بھیجے گئے تھے اس لئے آپ ﷺکو عرب کی تمام لغات اور اہل عرب کے مختلف مزاجوں کے موافق معرفت دی گئی تھی،آپ ﷺمختلف لوگوں سے ہم کلام ہوتے تھے اور ایک ہی مفہوم کے لئے مختلف مواقع پر الگ الگ مناسب الفاظ استعمال کرتے تھے، اسی طرح دیگر قبائل کے لئے وہ لفظ انجان ثابت ہوتا تھا جسکی وجہ سے اس لفظ سے صحیح معنی اور مفہوم حاصل کرنا مشکل ہوجا تا تھا، سوایسے الفاظ کے اشکالات کو دورکرکے اس کے معنی ومفہوم کو واضح کرنا علم غریب الحدیث کا موضوع ہے[2]۔

غریب الحدیث لابی عبید(متوفی ۲۲۴ھ)کا منہج:

ابو عبید قاسم بن سلام لغت کے امام مانے جاتے ہیں، اس کے علاوہ آپ تفسیر، حدیث اور فقہ کے عالم بھی تھے۔مختلف فنون میں 20 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اسحاق بن راہویہ کہتے تھے:ابوعبید مجھ سے بہت بڑے فقیہ اور عالم ہیں۔ امام احمدبن حنبل آپ کو استاد کہتے تھے۔ اور ہلال بن علاء الرقی کہتے ہیں: چار انسانوں کو پیداکرکے اللہ نے اس زمانے کے لوگوں پر احسان کیاان میں سے ایک ابو عبیدہے۔ اگر آپ نہ ہوتے تو لوگ غلطیوں کے نیچے دبے رہتے[3]۔

آپ نے اپنی کتاب غریب الحدیث میں کسی خاص ترتیب کا خیال نہیں رکھا، کتاب کا ایک بڑا حصہ تو اس طرح ہے کہ بس حدیث نقل کرتے ہیں اور اس میں موجود غریب لفظ کی تفصیلی تشریح کرتےہیں۔ ابتداء میں بلاکسی ترتیب کے روایات نقل کرتے ہیں ،یہ طرز کتاب کے اکثر حصہ میں نمایاں ہے، تیسری جلد میں صفحہ 208 کے بعد ,مسند کے طرز پر احادیث نقل کرتے ہیں، اور تیسری جلدکے اخیر تک خلفاء راشدین کی روایات نقل کرتے ہیں۔

چوتھی جلد کا آغاز زبیر،طلحہ اوردیگر چار اشخاص جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، کی روایات نقل کرتے ہیں، اس کے بعد ابن عباس اور خالد بن ولیدوغیرہ کی روایات اور پھر بالترتیب صحابیات اور تابعین کی روایات نقل کرتے ہیں، کتاب کی آخری روایات کے راوی پھر نا معلوم ہیں۔

اس کتاب کے بارے میں علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

”فصار كتابه إماما لأهل الحديث، به يتذاكرون، وإليه يتحاكمون“[4]

بعد کے علماء لغت اور حدیث نےآپ سے بھرپور استفادہ کیا، مثلا ازہری نے تہذیب میں، قزوینی نے مقاییس میں، ابن سیدہ نے مخصص میں، اسی طرح امام بخاری، ترمذی اور ابوداود نے آپ کی توضیحات نقل کی ہیں۔ ابو عبید قاسم بن سلام کی غریب الحدیث کی کتاب ، غریب الحدیث لابی عبید[5]، کا بہترین نسخہ وزارت اعلٰی تعلیم کی تعاون سے ڈاکٹر محمد عبدالمعید خان استاد عثمانیہ یونیورسٹی بھارت کے زیرنگرانی مجلس دائرة المعارف العثمانیہ حیدر آباد دکن بھارت سے 1384ھ بمطابق 1964م کوشائع کیا گیا ہے۔

غریب الحدیث لابن قتیبہ (متوفی ۲۷۶ھ) کا منہج:

ابن قتیبہ نے وہ احادیث ذکر کی ہیں جوابو عبید نے ذکر نہیں کی تھیں[6]، یعنی یہ اس کی کتاب پر استدراک ہے۔ نیز ان الفاظ کی صحیح تعبیر پیش کی جن کے بارے میں آپ کا خیال تھاکہ ابو عبید نے ان کی غلط ترجمانی کی ہے[7]، آپ نے اپنی کتاب کا آغاز ایک مفید اور قدرے طویل مقدمہ سے کیا، پھر بالترتیب فقہی اصطلاحات، آسمانی کتب کے ناموں، قرآن کریم کے کچھ الفاظ مثلا ظالم، فاسق، منافق اور ملحد، پھر فرق کے ناموں مثلا مرجئہ، رافضہ، شراۃ، خوارج وغیرہ کی توضیح کی، اس کے بعد بالترتیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ارشادات، صحابہ، صحابیات، تابعین، تبع تابعین اور کچھ حکمرانوں کے اقوال کو نقل کیا، اور آخر میں ایسے اقوال نقل کئے جن کے منسوبین معلوم نہیں، محض اہل لغت سے سن کر آپ نے درج کئے۔

آپ حدیث یا قول کو نقل کرکے اس میں غریب لفظ کی قابل تشفی وضاحت کرتے ہیں اور دوسرا کام یہ کرتے ہیں کہ کلمۃ کا اصل نقل کرکے قرآن وسنت یا سلف کے ارشادات میں اس کے استعمالات پیش کرتے ہیں۔عبد الله بن مسلم بن قتیبہ کی کتاب،غريب الحديث لابن قتیبہ[8] کاجدید نسخہ 1397ھ کو مطبعہ عانی بغداد عراق سے شائع ہوا ہے۔

غریب الحدیث للحربی (متوفی ۲۸۵ھ) کا منہج:

شیخ، امام، حافظ، علامہ، شیخ الاسلام ابواسحاق ابراہیم بن اسحاق بن ابراہیم بن بشیر البغدادی الحربی سن 198 ہجری میں پیدا ہوئے۔ قاضی محمد بن صالح کہتے ہیں:بغداد میں ادب، فقہ، حدیث اور زہد میں آپ کی مثل ہم نہیں جانتے۔ معتضد باللہ نے آپ کو دس ہزار اور ایک ہزار دینار بھیجے، دونوں دفعہ آپ نے واپس کئے۔ ابو العباس ثعلب کہتے ہیں: پچھلے پچاس سالوں سے میں نے فقہ اور نحو کی ایک بھی مجلس ایسی نہیں دیکھی جس میں آپ مفقود ہو۔ آپ کو وراثت میں بیس سے زائد گھر اور باغات ملے تھے، فرماتے ہیں وہ سب میں نے حصول علم کی نذر کردئیے، امام دارقطنی فرماتے ہیں: ابراہیم حربی ہرفن مولا تھے۔ آپ بغداد میں سن 285 ہجری میں وفات پائے[9]۔

ابو اسحاق ابراہیم الحربی نے روایات کو دو طریقوں پر جمع کیا، ایک محدثین کے مناہج میں سے مسانید اور دوسرا اہل لغت کے مناہج میں سے منہج تقلیبی پر۔ آپ مسانید کے تحت الفاظ کو تقلیبا ذکر کرتے ہیں، مثلا آپ اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایتیں نقل کرتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ روایت ذکر کرتے ہیں جس میں حل طلب لفظ عق، قع سے شروع ہوتے ہیں، اس کے لئے مسند ابن عباس کے نیچے باب عق اور باب قع رکھتے ہیں۔ باب عق کے نیچے وہ روایتیں نقل کرتے ہیں جن میں عقیقہ، عقیق،عقوق الوالدین، فرسا عقوقا، یعق، عقق، عقعق وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں۔

مزید یہ کہ آپ مسانید کے تحت الحدیث الاول، الحدیث الثانی… کے نام سے عنوان رکھتے ہیں، مگر اس سے اشارہ احادیث کے ایک مجموعے کی طرف ہوتا ہے، یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ یہ ایک حدیث ہے۔ کبھی آپ اس عنوان کے تحت درجنوں حدیثیں بھی ذکر کرتے ہیں۔ آپ کی کتاب کی ضخامت اس لئے زیادہ ہے کہ آپ پوری سند بھی نقل کرتے ہیں اور پورا متن بھی، چاہے حدیث کتنی طویل ہو اور چاہے اس میں ایک ہی غریب لفظ کیوں نہ ہو ابن الاثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسی طوالت کی وجہ سے لوگوں نے اسے نظرانداز کیا، باوجودیکہ یہ انتہائی مفید کتاب ہے، کیونکہ ابراہیم حربی امام، حافظ، بے عیب، فقیہ، محدث، ماہر لغت اور ادیب تھے[10]۔

یہ کتاب معجم معانی کی بھی ایک مثال ہے، آپ کبھی مترادفات اور متراکبات ذکر کرتے ہیں، کبھی کسی چیز کے مختلف نام مثلا نیزہ، تلوار کے مختلف نام، اشربہ، اشتہائے انسانی کے مختلف نام، زمانوں کے نام، شراب کے نام، عربی میں زوجہ کے معنی میں مستعمل الفاظ وغیرہ ذکر کرتے ہیں۔ کبھی یوں کہتے ہیں مثلا وہ الفاظ جو حسبک کے معنی میں ہے۔

آپ تصحیفات کی نشاندہی بھی بڑے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔آپ کبھی مسلسل چند احادیث، صحابہ وتابعین کے آثار ذکر کرتے ہیں ، پھر الفاظ کی وضاحت کرتے ہیں، اس طرح کبھی کبھی روایت اور لفظ کی توضیح کے درمیان کئی صفحات کا فاصلہ ہوتا ہے۔ آپ کی کتاب کا کافی حصہ مفقود ہے، ہم تک اس کے مسانید کا جو حصہ پہنچا ہے وہ بھی ادھورا، کیونکہ اس کا آغاز مسند عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کے تحت بقیۃ الحدیث التاسع والثلاثون سے ہوتا ہے۔ غریب الحدیث للحربی [11]سلیمان بن ابراہیم بن مخلد کی تحقیق کے ساتھ مرکز البحث العلمی اور احیاء التراث الاسلامی سے سن 1985 م میں تین جلدوں میں چھپ چکی ہے۔

الدلائل فی غریب الحدیث للسرقسطی (متوفی ۳۰۲ھ) کا منہج:

ابو محمد قاسم بن ثابت نے اس کتاب کا آغاز کیا تھا، اور پورا نہیں کیا تھا کہ وفات پائی، تواس کی تکمیل آپ کے والد محترم ثابت نے کی۔ ابو القاسم ثابت بن حزم بن عبد الرحمان بن مطرف السرقسطی عالم، مفتی، شاعر اور سرقسطہ کے قاضی تھے۔ حدیث، غریب الحدیث، لغت اور نحو کے ماہر تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ رمضان سنہ 313 ہجری کو وفات پائے[12]۔ الدلائل بھی ابو عبیدہ اور ابن قتیبہ پر استدراک ہے، رواۃ میں سے صرف صحابی کا ذکر کرتے ہیں، رواۃ کی توضیح اور اپنے شیوخ کی توضیح بھی اگر ہے تو نقل کرتے ہیں۔ نصب الرایۃ میں زیلعی نے اسے اپنا مصدر بنایا ہے۔

ان کے منہج میں ایک خامی ہے کہ بات سے بات نکال کر کتاب کو غیر ضروری طول دیا گیا، اور یہ طالب لغت کے لئے مفید بھی ہے ۔بالترتیب خلفائے راشدین، عشرۃمبشرۃ، دیگر صحابہ، تابعین، امہات المومنین اور دیگر صحابیات کی روایات ذکر کی ہیں۔ ابو محمد قاسم بن ثابت کی الدلائل فی غریب الحدیث للسرقسطی[13] مکتبہ عبیکان ریاض سعودی عرب سے جدید اور عمدہ طباعت میں 1422ھ بمطابق2001م میں شائع ہوا۔

غریب الحدیث للخطابی (متوفی ۳۸۸ھ) کا منہج:

یہ ابو عبید اور ابن قتیبہ پر استدراک ہے، یعنی جو الفاظ انہوں نے ذکر نہیں کئے انہی الفاظ کی وضاحت کی[14]۔ آپ نے بڑا قیمتی مقدمہ لکھا، اس کے بعد بالترتیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، پھر صحابہ اور پھر تابعین کی روایات نقل کرکے غریب الفاظ کی وضاحت کی ہے، ان کے علاوہ آخر میں وہ روایات نقل کی ہیں، جن کی سند مذکور نہیں، آپ معنی کی تائیدمیں دوسری حدیث، آیت یا کوئی شعر پیش کرتے ہیں، پھر کچھ مرویات کے الفاظ کی اصلاح کی جو لوگوں میں غلط مشہور ہیں۔

آپ کی اس کتاب کوعلامہ ابن الاثیر نے "غریب الحدیث "کی تین امہات الکتب میں سے شمار کیا۔آپ اسانید کا ذکر کرتے ہیں، اور متعلقہ لفظ کی اصل ذکر کرنے کا بھی اہتمام کرتے ہیں، کبھی کبھار آپ کسی لفظ کی تشریح کے لئے نہیں بلکہ کسی اشکال کی وجہ سے حدیث کو محض تشریح کے لئے نقل کرتے ہیں۔ نیز آپ بعض احادیث سے استنباطات بھی کرتے ہیں۔ مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد "أما معاوية فإنه رجل عائل"[15]نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

”وفي الحديث أنواع من الفقه منها إباحة تأديب النساء ولو كان غير جائز لم يذكر ذلك من فعله إلا مقرونا بالنهي عنه والإنكار له ومنها أن المال معتبر في باب المكافأة وفيه دلالة على أنه إذا لم يجد نفقة أهله وطلبت فراقة فرق بينهما. . . . وفيه من الفقه جواز نكاح المولى القرشية. . . . . وفيه أيضا من الفقه جواز ذكر ما في الإنسان من عيب إذا لم يقصد به المذمة له وأن ذلك ليس من باب الغيبة.وفيه أيضا من الفقه أن للمبتوتة السكنى“[16].

اس حدیث میں ہمیں کئی فقہی مسائل ملتے ہیں: پہلا یہ کہ عورتوں کی تادیب عمل گناہ نہیں، ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کرتے وقت اس عمل سے منع فرماتے یا نکیر کرتے۔ دوسرا یہ کہ مکافات میں مال کو اعتبار ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر شوہر کے پاس نفقہ نہیں اور بیوی علیحدگی چاہتی ہے، تو علیحدگی اس کا حق ہے. . . چو تھا یہ کہ آزاد کردہ غلام کا ایک قریشی عورت کے ساتھ نکاح جائز ہے ....پانچواں یہ کہ اگر مذمت مقصود نہ ہو تو انسان کا عیب بیان کیا جا سکتا ہے۔ چھٹا یہ کہ سکنی طلاق یافتہ عورت کا حق ہے۔

ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی کی کتاب ،غریب الحدیث للخطابی[17]عبدالکریم ابراہیم الغرباوی کی تحقیق کی ساتھ جامعہ امّ القریٰ مکہ مکرمہ سے 1402ھ کو شائع کیا گیا ہے۔

الغریبین للھروی (متوفی ۴۰۱ھ) کا منہج:

ابو عبید احمد بن محمد بن محمد بن عبد الرحمان العبدی الہروی کو ہرات کے گاؤں فاشان کی نسبت سے فاشانی بھی کہا جاتا ہے، مسلکًا شافعی تھے، آپ لغت کے ماہر اور ادیب تھے۔ سنہ 401 ھ میں وفات پائے۔ لغت آپ نے ازہری سے سیکھی۔ آپ نے اس فن میں ایک نیا موڑ لے لیا، اولاً یہ کسی کتاب کا استدراک نہیں تھا بلکہ پچھلی تحریرات کا ایک مجموعہ ہے[18]۔

ثانیاً اس میں حدیث کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ قرآن کے غرائب بھی زیر بحث لائے گئے آپ کسی مادہ کے تحت پہلے متعلقہ آیات اور پھر احادیث وآثار نقل کرتے ہیں، ثالثاًیہ معجم کے آسان ترین طرز پر لکھی گئی، ابن الاثیر رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ یہی بنی[19]۔ یعنی (الف-بائی) ترتیب کے ساتھ الفاظ جمع کئے ہیں، دستیاب کتب میں سے اس طرز پر لکھی گئی یہ پہلی کتاب ہے، یاقوت کے مطابق شمر بن حمدویہ کی کتاب الجیم بھی اسی الفبائی ترتیب سے مدون تھی، ابتداء جیم سے کی تھی[20]۔ رابعاآپ نے انتہائی اختصار سے کام لیا۔ اس کے لئے آپ نے ایک تو یہ کیا کہ حدیث کی سند کو ترک کیا دوسرا یہ کہ حدیث کی پوری عبارت نقل نہیں کی بلکہ صرف متعلقہ لفظ یا جملہ نقل کرنے پر اکتفاء کیا اور تیسرا یہ کہ آپ نے معنی کی تائید کے لئے شواہد نقل نہیں کئے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

”ثم جمع أبو عبيد الهروي صاحب الغريبين كتابا أوهم فيه أنه لم يبق شيء وإنما اقتصر على ما ذكره الأزهري في كتاب التهذيب ورأيته قد أخل بأشياء وذكر أشياء ليست بغريبة فلا تحتاج إلى تفسير“

پھر ابو عبید ہروی نے الغریبین لکھی، اور یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ جامع ہے حالانکہ آپ نے صرف ازہری کی التھذیب کے مواد پر اکتفاء کیا۔ اس کے علاوہ میں نے دیکھا کہ آپ نے کافی خلا چھوڑی اور کئی ایسے الفاظ ذکر کئے جو مشکل نہیں تھے اور اس لئے ان کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

مگراس کو صرف تھذیب اللغۃ کی روایات کا مجموعہ قرار دینا ٹھیک نہیں ہے، بعض الفاظ کے تقابل کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ نے سب سے زیادہ استفادہ ازہری سے کیا مگر آپ کے اضافوں کو نظر انداز کرنا زیادتی ہوگی۔ آپ کی کتاب میں کافی اغلاط وتصحیفات بھی ہیں، جن کی نشاندہی کے لئے ابو الفضل محمد بن ناصر السلامی (متوفی ۵۵۰) نے التنبیه علی الالفاظ فی الغریبین نامی مستقل کتاب تحریر کی، جن میں الغریبین کے لگ بھگ 78 تصحیفات جمع کیں۔

ابو عبید احمد بن محمد بن محمد بن عبد الرحمان العبدی الہروی کی کتاب الغریبین للہروی [21]دارالکتب العربی بیروت سے 1396ھ کو عمدہ نسخہ کی ساتھ شائع ہوا ہے۔

المجموع المغیث فی غریبی القرآن والحدیث لابی موسی المدینی (متوفی ۵۸۱ھ) کا منہج:

آپ کی کنیت ابو موسی، نام محمد اور سلسلہ نسب محمد ابن ابی بكر عمر ابن ابی عیسى احمد بن عمر بن محمد بن احمد بن ابی عیسى المدينی ہے۔ شام کے علاقے اصبہان میں سنہ 501 ہجری میں پیدا ہوئے۔ مسلکا شافعی تھے۔ الطوالات، ذیل معرفة الصحابة، القنوت، تتمة الغریبین، اللطائف فی روایة الکبار ونحوهم عن الصغار، عوالی اور تضییع العمر فی اصطناع المعروف الی اللئام اور کئی دیگر کتابیں آپ نے قلم بند کئیں۔ ابن الدبیثی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابو موسی اپنے زمانے کی بے مثل شخصیت تھی، سند ومتن سے متعلقہ علوم میں کمال مہارت انہیں حاصل تھی۔علماء ان کے حافظے کی مثال دیتے تھے اور ان کی تصنیفات کو ابن عساکر کی تصنیفات پر ترجیح دیتے تھے[22]۔

ابو موسی کی المجموع المغیث بھی ترتیب ہجائی کے ساتھ مدون ہے، الغریبین کی استدراک ہے، یعنی المجموع المغیث میں صرف وہ الفاظ درج ہیں جو الغریبین میں مذکور نہیں ہیں۔ باقی ان کے اور الغریبین کے نہج میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے[23]۔ محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبہانی کی تصنیف، المجموع المغیث فی غریبی القرآن والحدیث لابی موسی المدینی[24] ،ج:1 (1406ھ بمطابق 1986 م اورج:2، 3 (1408 ھ بمطابق 1988 م) کو جامعہ أم القرى، مركز البحث العلمیہ وإحياء التراث الإسلامی بیروت لبنان، كليہ الشرعیہ والدراسات الإسلاميہ، مكہ المكرمہ سے شائع ہوئی ہے۔

الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری (۴۶۷ تا ۵۳۸) کا منہج:

الفائق جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری کی تصنیف ہے، یہ الف-بائی ترتیب کی ایک اہم تصنیف ہے، لیکن اس میں قاری کو ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ ایک مادے کے لئے پوری حدیث نقل کرتے ہیں، اور پھر اس میں بقیہ غرائب کی تشریح بھی وہیں کرتے ہیں، پھر متعلقہ مادہ میں اس کا ذکر نہیں کرتے، بہتریہ ہوتا کہ آپ حدیث کا صرف متعلقہ ٹکڑا نقل کرتا۔ اس کی ایک اور خامی یہ ہے کہ تصحیف کی نشاندہی کئے بغیر آپ اسے روایت کے طور پر نقل کرتے ہیں۔

الفائق کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ابن قتیبہ کی غریب الحدیث کا جدید ایڈیشن ہے، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ الفائق میں حدیث کا سیاق وہی ہوتا ہے جو غریب لابن قتیبہ میں ہوتا ہے، جہاں ابن قتیبہ نے اختصار کیا ہے وہیں زمخشری نے بھی اختصار کیا، جس کلمہ کو زمخشری نے مصحف کہا وہاں زمخشری نے کہا: بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کلمہ مصحف ہے، نیز دونوں کے شواہدواشعار بھی ایک جیسے ہوتے ہیں، جہاں ابن قتیبہ نے کہا: سالت ابا حاکم...فقال... وہاں زمخشری کہتے ہیں: قال ابو حاکم یا عن ابی حاکم... اسی طرح آپ حدیث کی تشریح بھی (بلااحالہ) ابن قتیبہ کے الفاظ میں کرتے ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں صرف وہی مواد ہیں جو ابن قتیبہ کی الغریب میں ہیں، اعراب کی کافی اضافی بحثیں آپ سیبویہ سے نقل کرتے ہیں۔ بعض ایسے زیادات بھی ہیں جو آپ سے پہلے کسی نے ذکر نہیں کئے۔ مواد کے اس فرق کے علاوہ ان دونوں میں ایک فرق یہ ہے کی زمخشری کی ترتیب معجمی ہے اور ابن قتیبہ کی اسانید۔ دوسرایہ کہ ابن قتیبہ روایات واقوال کی نسبت کا اہتمام کرتے ہیں اور زمخشری قیل کے ساتھ اقوال نقل کرتے ہیں۔ الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری[25] ،جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری کی تصنیف الفائق فی غریب الحدیث دارلمعرفہ بیروت لبنان سے شائع ہوا ہے۔

غریب الحدیث لابن الجوزی (متوفی ۵۹۷ھ) کا منہج:

ابو الفرج عبدالرحمان بن علی بن الجوزی حافظ الحدیث اور مفسر تھے، آپ کو فخر عراق کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ بغداد میں سنہ 509ھ یا 510ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے تفسیر میں المغنی لکھی، لیکن یہ بہت زیادہ طویل تھی اس لئے اس کا اختصار کرکے زاد المسیر تحریر کی۔ اس کے علاوہ آپ نے تحفة الاریب، الوجوه والنظائر، فنون الافنان، جامع المسانید، الحدائق، نقی النقل، عیون الحکایات، التحقیق فی مسائل الخلاف، مشکل الصحاح، الموضوعات، الواهیات، الضعفاء، تلقیح الفهوم، المنتظم فی التاریخ، المذهب فی المذهب، الانتصار فی الخلافیات، مشهور المسائل، الیواقیت، نسیم السحر، المنتخب، المدهش، صفوة الصفوة، اخبار الاخیار، اخبار النساء، مثیر العزم الساکن، المقعد المقیم، ذم الهوی، تلبیس ابلیس، غریب الحدیث اور دیگر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کہتے تھے میں نے دوہزار مجلدات لکھے ہیں، ایک لاکھ لوگ میرے ہاتھ پر توبہ تائب اور بیس ہزار مسلمان ہوئے ہیں[26]۔

غریب الحدیث میں آپ کے پیش نظر ہروی کی کتاب تھی، یہ بھی ترتیب ہجائی کی طرز پر لکھی گئی ہے۔ آپ نے ابو موسی الہروی پر یہ الزام تو لگایا کہ انہوں نے تھذیب کے مواد پر ہی اکتفاء کیا[27]اور خود استقصاء کا دعوی کرتے ہیں، مگر ابن الاثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”ولقد تتبعت كتابه فرأيته مختصرا من كتاب الهروي، منتزعا من أبوابه شيئا فشيئا ووضعا فوضعا، ولم يزد عليه إلا الكلمة الشاذة واللفظة الفاذة“[28].

میں نے یہ کتاب از اول تا آخر دیکھی اور اسے ہروی کی الغریبین ہی کا اختصار پائی، پائی پائی انہی کے ابواب سے نقل کی، الغریبین پر آپ کا اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے جتنا ہے۔غریب الحدیث لابن الجوزی[29] 1985م میں عبدالمعطی امین قلعجی کی تحقیق کے ساتھ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان سے عمدہ طباعت سے شائع ہوا ہے۔

النہایہ فی غریب الحدیث والاثر لابن الاثیر (متوفی ۶۰۶ھ) کا منہج:

النہایہ مبارک بن محمد الشیبانی الجزری کی تصنیف ہے، یہ بھی ہجائی ترتیب کے ساتھ ہے، اس میں قرآنی غرائب کی تشریح نہیں، ابن الاثیر کی کتاب کو بہت زیادہ مقبولیت ملی، اس کی وجہ ایک تو خود آپ کی شہرت تھی، دوسری حدیث ولغت میں آپ کی علمی عبقریت تھی، آپ نے اپنی مشہور زمانہ اور بیش بہا کتاب جامع الاصول فی احادیث الرسول میں بھی غرائب کی توضیح کی ہے، تیسری وجہ یہ تھی کہ یہ چونکہ اس فن کی اخری کتاب تھی (بجز مجمع بحارالانوار کے) اس لئے زیادہ مفصل اور منقح تھی۔ اس تصنیف کی اہمیت کے لئے یہ ایک اعزاز کافی ہے کہ لسان العرب جن پانچ کتب کا مجموعہ ہے ان میں سے ایک النہایہ ہے[30]۔ النہایہ فی غریب الحدیث والاثر[31] ادارہ الشؤون الاسلامیہ قطر، 1399ھ 1979م سے شائع ہوا ہے۔

مجمع بحار الانوار علامہ محمد طاہر پٹنی (متوفی۹۸۶ھ)کامنہج:

مجمع بحار الانوار محمد بن طاہر بن علی صدیقی پٹنی کی تصنیف ہے۔آپ سن۹۱۳ ہجری بمطابق ۱۵۰۴ عیسوی میں انڈیا کے صوبہ گجرات کے قصبہ پٹنہ میں پیدا ہوئے، اسی کی نسبت سے آپ کو پٹنی کہا جاتا ہے۔ زمحشری اور ابن الاثیر رحمہم اللہ کی طرح پٹنی رحمہ اللہ نے بھی انتہائی سہل یعنی ہجائی طرز اپنائی ہے۔ حدیث کا متعلقہ حصہ نقل کرنے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔اور اگر ایک روایت میں ایک سے زائد الفاظ محتاج تفسیر ہیں، تو وہ متعلقہ مادہ کے تحت مندرج پائیں گے، لیکن آپ حدیث کے کم سے کم تر الفاظ نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجمع بحار الانوار کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں غرائب القرآن کی بھی ضمنا وضاحت کی گئی ہے، غریب القرآن کے لئے آپ نے عام طور پر الغریبین کو مصدر بنایا ہے[32]، تاہم دیگر کتب مثلا الکواکب الدراری، ارشاد الساری وغیرہ سے بھی استفادہ کیا ہے، غریب الحدیث میں سب سے زیادہ آپ نے النہایہ سے استفادہ کیا ہے، جس کی وجہ اس کی اشتمالیت ہے۔ مختلف ابواب سے مستعمل ہے، تو ہر استعمال کا معنی الگ ہوتا ہے، حدیث کی وضاحت کرنے کے بعد کبھی مصنف الگ سے وضاحت کرتے ہیں کہ یہ کس باب سے کس معنی میں مستعمل ہے۔

بقدرِ ضرورت لفظ کی وضاحت کے بعد حدیث کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔مصنف تکرار نہیں کرتے، اور طوالت سے بچنے کے لئے آپ دوسرے مقام کا حوالہ دیتے ہیں، جہاں آپ نے ایک اور لفظ کی وضاحت کے لئے نقل کیا ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی مگر وہاں پر بھی آپ مادہ کے مختلف احادیث نقل کرکے وضاحت کرتے ہیں، وہ فائدہ سے خالی ہرگز نہیں ہوتا مگر موضوع کتاب ان سے اباء کرتا ہے۔

مجمع بحار الأنوار فی غرائب التنزيل ولطائف الأخبار[33] 1387ھ بمطابق 1967م کو مطبعہ مجلس دائرہ معارف عثمانيہ بھارت سے شائع ہوا ہے۔

خلاصۃ البحث:

مذکورہ بحث سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں:* علم غریب حدیث کی تدوین دوسری صدی ہجری سے شروع ہوئی ، جس میں ابو عبیدۃ معمر بن مثنی کی کتاب اس فن کی اولین تصنیف ہے۔

  • تیسری صدی ہجری کے مصنفین نے فقہی اصطلاحات، مسانید اور اہل لغت کے منہج تقلیبی کی طرز پر اپنی کتابوں کو مرتب کیا۔
  • چوتھی صدی ہجری میں قیمتی مقدمات کتاب کا حصہ بنے، جس کے بعد بالترتیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، پھر صحابہ اور پھر تابعین کی روایات نقل کرکے غریب الفاظ کی وضاحت کرتے ۔اس منہج کی بہترین کتابوں میں الدلائل فی غریب الحدیث للسرقسطی،غریب الحدیث للخطابی اور غریب الحدیث للہروی شامل ہیں۔
  • پانچویں اورچھٹی صدی کے تصانیف کو ترتیب ہجائی اور الف بائی ترتیب کے مرتب کیا گیا۔ اسمنہج کی بہترین کتابوں میں المجموع المغیث فی غریبی القرؤن والحدیث،الفائق فی غریب الحدیث للزمحشری، غریب الحدیث لابن جوزی،النہائیہ فی غریب الحدیث ولاثراور مجمع بحار الانوارشامل ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی و مصادر الازہری، محمد بن احمد بن الہروی، ابو منصور (المتوفى: 370ہـ) تہذیب اللغۃ ، الغین مع الراء، دار احیاء التراث العربی – بیروت لبنان، طبع اول 2001م،ج:8ص:17۔ابن منظور افریقی، ابو الفضل، جمال الدین محمد بن مکرم (م : 711ھ) لسان العرب ، باء مع الغین، دار صادر – بیروت لبنان ،طبع سوم 1414ھ،ج:1ص:638۔
  2. الخطابی، ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی (المتوفى: 388ھ) غریب الحدیث ، مقدمہ موٗلف، دار الفكردمشق لبنان، سنِ اشاعت 1402 ھ- 1982 م،ج:1ص:68۔
  3. ابن العماد، أبو الفلاح عبد الحیی بن أحمد بن محمد ابن العماد العَكری الحنبلی(المتوفى: 1089ھ)، شذرات الذھب ،دارابن کثیر دمشق،شام، طبع اول 1986م،ج:2 ،ص:54
  4. الخطابی، ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی (المتوفى: 388ھ)،غریب الحدیث للخطابی ،مقدمہ موٗلف، دار الفكردمشق لبنان، سنِ اشاعت 1402 ھ- 1982 م، ج:1 ،ص:48 ۔
  5. ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی 224ھ) ،غریب الحدیث لابی عبید،مجلس دائرة المعارف العثمانیہ حیدر آباد دکن بھارت 1384ھ۔1964م
  6. ابن قتیبہ، ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتيبہ الدينوری (المتوفى: 276ھ)، غریب الحدیث ،مقدمہ، مکتبہ العانی، بغداد،عراق، طبع اول 1397ھ ،ج:1 ،ص:150
  7. ابن قتیبہ، ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتيبۃ الدينوری (المتوفى: 276ھ)، غریب الحدیث ،مقدمہ،مکتبہ العانی، بغداد،عراق، طبع اول 1397ھ ،ج:1 ،ص:151 ۔
  8. ابن قتیبہ، عبد الله بن مسلم بن قتیبہ (متوفی276ھ)،غريب الحديث لابن قتیبہ، مطبعہ عانی بغداد عراق،1397ھ۔
  9. الذہبی، شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد (م : 748ھ )، سیر اعلام النبلاء،موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان ،طبع سوم 1985م ، ج:25،ص:361
  10. ابن الاثیر، مجد الدین مبارک بن محمد الجزری [م 606ھ] النھایہ فی غریب الحدیث والاثر،مقدمہ، ادارہ الشؤون الاسلامیہ قطر، 1399ھ 1979م ،ج:1 ،ص:10 )۔
  11. الحربی , شیخ الاسلام ابواسحاق ابراہیم بن اسحاق بن ابراہیم بن بشیر البغدادی الحربی(285ھ)،غریب الحدیث للحربی، محقق سلیمان بن ابراہیم بن مخلد، دار احیاء التراث الاسلامی بیروت، لبنان ،1985 م۔
  12. الذہبی، شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد (م : 748ھ )، سیر اعلام النبلاء،موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان ،طبع سوم 1985م ، ج:28،ص:141
  13. ابو محمد قاسم بن ثابت(302ھ)، الدلائل فی غریب الحدیث للسرقسطی،مکتبہ عیکان ،ریاض سعودی عرب، 1422ھ۔ 2001م ۔
  14. الخطابی، ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی (المتوفى: 388ھ)،غریب الحدیث للخطابی ،مقدمہ موٗلف، دار الفكردمشق لبنان، سنِ اشاعت 1402 ھ- 1982 م، ج:1 ،ص:48 ۔
  15. مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261ھ )، صحیح مسلم ، دار احیاء التراث الاسلامی بیروت، لبنان ،سن طبع ندارد ، حدیث نمبر 2728 ۔
  16. الخطابی، ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی (المتوفى: 388ھ)،غریب الحدیث للخطابی ،مقدمہ موٗلف، دار الفكردمشق لبنان، سنِ اشاعت 1402 ھ۔ 1982 م،ج:1 ،ص:98۔
  17. الخطابی، ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی (المتوفى: 388ھ)،غریب الحدیث للخطابی ،محقق، عبدالکریم ابراہیم الغرباوی، جامعہ امّ القریٰ ، مکہ مکرمہ ، 1402ھ ۔
  18. ابن الاثیر، مجد الدین مبارک بن محمد الجزری (م 606ھ)النھایہ فی غریب الحدیث ،مقدمہ، ادارہ الشؤون الاسلامیہ قطر، 1399ھ، 1979م،ج:1 ،ص:15۔
  19. ابن الاثیر، مجد الدین مبارک بن محمد الجزری(م 606ھ)النھایہ فی غریب الحدیث ،مقدمہ، ادارہ الشؤون الاسلامیہ قطر، 1399ھ 1979م ،ج:1 ،ص:15۔
  20. الحموی، شہاب الدین یاقوت بن عبد اللہ (م 626ھ )، معجم الادباء ،دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان ،سن 1991م،ج:1 ،ص:3، ص:410 ۔
  21. ابو عبید احمد بن محمد بن محمد بن عبد الرحمان العبدی الہروی(401ھ)،الغریبین للہروی, دارالکتب العربی بیروت،لبنان 1396ھ ۔
  22. الذہبی، شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد (م : 748ھ )، سیر اعلام النبلاء،موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان ،طبع سوم 1985م ، ج:41،ص:138۔
  23. ابو موسی، محمد بن عمر بن احمد الاصبهانی المدينی (المتوفى: 581ھ) ،المجموع المغیث فی غریبی القران والحدیث ، مقدمہ موٗلف، احیاء التراث الاسلامی، مكۃ المكرمۃ، سعودی عرب ،طبع اول 1986م ،ج:1 ،ص:4 ۔
  24. ابو موسی، محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبہانی (المتوفى: 581ھ) ،المجموع المغیث فی غریبی القرآن والحدیث لابی موسی المدینی، جامعہ أم القرى،مکہ مکرمہ ،سعودی عرب۔ مركز البحث العلمی وإحياء التراث الإسلامی بیروت ،لبنان، ج:1 ،1406ھ ۔1986 م ،ج:2۔
  25. جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری(538 ھ) ،الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری ، ، دارلمعرفہ بیروت، لبنان
  26. الذہبی، شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد (م : 748ھ )، سیر اعلام النبلاء،موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان ،طبع سوم 1985م، ج:41، ص:340۔
  27. أبو الفرج عبدالرحمن بن علي بن محمد بن علي إبن عبيدالله بن حمادي بن أحمد بن جعفر ،غریب الحدیث لابن الجوزی،مقدمہ، دار الكتب العلميہ بيروت ،طبع اول ، 1985م ،ج:1 ،ص:4۔
  28. الازہری، محمد بن احمد بن الہروی، ابو منصور (المتوفى: 370ہـ )،تہذیب اللغۃ ، دار احیاء التراث العربی – بیروت، لبنان ،طبع اول 2001م ،ج:8 ،ص:117 ۔ابن منظور افریقی، ابو الفضل، جمال الدین محمد بن مکرم (م : 711ھ )، لسان العرب ،باء مع الغین، دار صادر ،بیروت ، لبنان ،طبع سوم 1414ھ،ج:1 ،ص:638۔
  29. أبو الفرج عبدالرحمن بن علي بن محمد بن علي إبن عبيدالله بن حمادي بن أحمد بن جعفر ،غریب الحدیث لابن الجوزی،محقق عبدالمعطی امین قلعجی، دار الكتب العلميہ بيروت ،لبنان، 1985م ۔
  30. ابن منظور افریقی، ابو الفضل، جمال الدین محمد بن مکرم (م : 711ھ )، لسان العرب ،باء مع الغین، دار صادر – بیروت ، لبنان ،طبع سوم 1414ھ ،ج:1 ،ص:8 ۔
  31. ابن الاثیر، مجد الدین مبارک بن محمد الجزری(م 606ھ)النہایہ فی غریب الحدیث ،مقدمہ، ادارہ الشؤون الاسلامیہ قطر، 1399ھ 1979م
  32. جمال الدین محمد بن طاہر بن علی (م : 986ھ) مجمع بحار الانوار مقدمۃ، مطبع مجلس دائرۃ المعارف الاسلامیہ، انڈیا، طبع سوم 1967ء،ج1ص2۔
  33. محمد بن طاہر بن علی صدیقی پٹنی ،(986ھ)،مجمع بحار الأنوار فی غرائب التنزيل ولطائف الأخبار ، 1387ھ ۔ 1967م ،مطبعہ مجلس دائرہ معارف عثمانيہ ، بھارت۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...