Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

قرآن مجیدکے پانچ منظوم اردو تراجم کا تعارف و تجزیہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

قرآ ن حکیم اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ہے،جو انسانیت کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سامان ہے۔ اس کا فہم ہر انسان کے لیے بالعموم اور مسلمان کے لیے با لخصوص اہمیت کا حامل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اس کتاب مقدس کو سمجھ کر پڑھیں۔تفہیم قرآن مجید غیر عربوں کے لیے کبھی آسان نہیں رہی۔ اس حوالے سے انھیں جو مشکلات پیش آتی ہیں ان میں ایک اہم مشکل عربی زبان سے نا آشنائی ہے۔اہلِ علم کی طرف سے اس فرض کو آسان بنانے کے لیے مختلف ادوار میں کوششیں کی گئیں۔ابتداء میں قرآن مجید کے متن کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے اس پر اعراب اور نقطے لگائے گئے۔ پھر کلامِ الٰہی کو عام فہم بنانے کے لیے مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کیے گئے اور اس کے مضامین کی وضاحت کی غرض سے تفا سیر لکھی گئیں تاکہ انسانیت اس کتاب ہدایت سے بخوبی فائدہ اٹھا سکے۔

بر صغیر پاک و ہند میں قرآن حکیم کے تراجم کی ابتداء کا جائزہ لیا جائے تو اولیت سندھی زبان کو حاصل ہے۔سندھی میں قرآن کا ترجمہ تیسری صدی ہجری میں معرض وجود میں آیا، جسے ایک عراقی عالم نے تحریر کیا تھا۔[1]اردو زبان میں تراجم و تفاسیر کی ابتداء دسویں صدی ہجری(سولہویں صدی عیسوی کے اواخر)میں ہوئی، یہ تراجم جزوی تھے۔[2]

سترہویں صدی عیسوی تک وجود میں آنے والے اردو تراجم طباعت سے محروم رہے، جس کی بنا ء پر یہ عوام کی دسترس سے باہر تھے۔[3] شمالی ہند میں قرآن حکیم کی پہلی باقاعدہ اور معیاری تفسیرشاہ مراد اللہ سنبھلی کی خدائی نعمت معروف بہ تفسیر مرادیہ تھی، جوتیسویں پارے کی تفسیر تھی۔ یہ تفسیر بہت مقبول ہوئی،جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہےکہ یہ متعدد با ر طبع ہوئی۔[4]

اردو زبان میں قرآن حکیم کے اولین تراجم کی فہرست میں ایک ترجمہ قاضی محمد معظم سنبھلی کابھی ہے۔یہ ترجمہ خالص اردو میں نہیں تھا، بلکہ اردو اور فارسی کے میل جول سے پیدا ہونے والی زبان میں تھا۔موصوف نے اسے ۱۱۳۱ھ(۱۷۱۹ء) میں تصنیف کیا۔[5]

بر صغیر میں تراجمِ قرآنی کو عام کرنے میں امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ اور ان کے صاحبزادوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کام کی ابتداء شاہ صاحب نے کی اور قرآن مجید کے مفاہیم کو عام کرنے کے لیے فتح الرحمٰنکے نام سے آسان فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔یہ ترجمہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی بدولت برصغیرپاک و ہند میں قرآن حکیم کے تراجم کی راہ ہموار ہوئی۔فتح الرحمٰناس خطےمیں قرآن کا اولین باقاعدہ ترجمہ تھا،جسےعوام و خواص میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ شاہ صاحبؒ کی پیروی کرتے ہوئے ان کے صاحبزادو ں نے اردو زبان میں قرآن حکیم کے تراجم کا بیڑا اٹھایا۔شاہ رفیع الدین نے۱۷۷۶ء میں ترجمہ کیا، جو قرآن مجید کا لفظی ترجمہ تھا۔شاہ عبدالقادر نے بامحاورہ ترجمہ کیا،جوسنہ۱۷۹۰ءمیں ترتیب دیاگیا۔[6]

شاہ عبد القادر کے ترجمےموضح قرآنکوزبان و بیان کے حوالے سے دیکھا جائے تویہ شاہ مراد اللہ سنبھلی کی تفسیر مرادیہ سے بہت قریب معلوم ہوتاہے۔[7] شاہ عبدالقادرکے ترجمے کے بعد اردو زبان میں قرآن حکیم کے تراجم کو رواج عام حاصل ہوا اور قرآنی تراجم کاباقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا۔مذکورہ ترجمے کی اشاعت کے بعد سے اب تک قرآن حکیم کے سینکڑوں تراجم شائع ہو چکے ہیں اور یہ طباعت اب بھی جاری و ساری ہے، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تراجم کے شائع ہونے کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔اردو زبان میں جو تراجمِ قرآنی تحریرکیے گئےان میں جزوی تراجم بھی ہیں اور مکمل بھی ، منثور بھی ہیں اور منظوم بھی۔ موضح قرآن سے شروع ہونے والا یہ دریائے فیض دو سو سال سے بہتا چلا آرہا ہے۔ دورِ حاضر اردو تراجم و تفاسیر کے حوالےسےخاص اہمیت رکھتا ہے اور اسےان تراجم و تفاسیر کا روشن ترین دور قرار دیا جاسکتاہے ۔اس میں سرسید احمد خان ، مولانا محمود حسن، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابوالکلام آزاد، سید ابو الاعلیٰ مودودی، مفتی محمد شفیع، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولاناعبد الماجد دریابادی وغیرہم جیسے جلیل القدر مفسرین نے اردو زبان میں فن ترجمہ و تفسیر کو چار چاند لگائے۔ علاوہ ازیں عربی و فارسی کی بہت سی مہتم بالشان تفاسیر کواردو کا جامہ پہنایا گیا۔[8]اس کے علاوہ مولانا احمد رضا خان بریلوی، نواب صدیق حسن خان قنوجی اور پیر محمدکرم شاہ الازہری کے تراجم بھی مقبول ہوئے۔

منظوم اردوتراجم قرآن

انسانی فطرت نظم سے زیادہ لگاؤ رکھتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ نثر سے زیادہ نظم کی طرف ما ئل ہوتاہے۔شاعری کی تحسین میں انسان کے اس فطری رجحان کو دخل ہے۔نظم دیگر خوبیوں کے ہمراہ روانی اور غنائیت کی حامل بھی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اسے یاد رکھنا اور دہرانا نثر کی بہ نسبت سہل ہوتاہے۔اسی لیے شاعری کو حافظے میں بٹھانے کا رجحان نثر کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ منظوم تراجمِ قرآن کی تخلیق کی بہت سی وجوہات ہیں، لیکن ان میں سے اہم ترین وجہ شعراء کرام کا قرآن حکیم کے ساتھ قلبی لگاؤ اور قرآن کےمفاہیم کی اشاعت ہے۔تاہم ایک اور اہم محرک شعر سے انسان کی یہ قدرتی مناسبت بھی ہے۔ اسی بنا پر اردوشعراء نے قرآن مجید کے مطالب و معانی کو نظم کی صورت میں پیش کیا، اور ان تراجم کو پسندیدگی کی نظرسےدیکھا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں اس حوالے سے قابلِ ذکر ذخیرہ موجود ہے۔

اردو زبان کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو مختلف ادوار میں شعراء کرام نے قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قرآن کے پیغام کو شعری پیکر عطا کیا۔ یہ منظوم تراجم سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان میں قرآن حکیم کے مکمل منظوم تراجم بھی ہیں اور جزوی بھی،مطبوعہ منظوم تراجم بھی ہیں اورغیر مطبوعہ بھی، نیز ایسے منظوم تراجم بھی ہیں جن کے مترجمین نامعلوم ہیں۔

قرآن حکیم کے منظو م تراجم و تفاسیر کے آغاز کے حوالے سے دیکھا جائے تو سترھویں صدی عیسوی کے اواخر اور اٹھارہویں صدی عیسوی کی ابتداء میں ان کے اولین نقوش نظر آتے ہیں۔اب تک کے دستیاب شواہد کے مطابق منظوم تفاسیرِ قرآن میں شاہ غلام مرتضیٰ جنون الٰہ آبادی کی تفسیر مرتضویکو اولیت حاصل ہے۔یہ تیسویں پارے کی منظوم تفسیرہےجس کی تکمیل ۱۱۹۴ھ(۱۷۸۰ء)میں ہوئی۔تفسیر کا سنہ طباعت ۱۲۵۹ھ(۱۸۴۳ء) ہے۔شاہ غلام مرتضیٰ کا شمار عہد شاہ عالم کے مقتدر شعراء میں ہوتا ہے۔[9] تفسیر مرتضوی مطبع طبی (کلکتہ؟)سے شائع ہوئی، کل صفحات ۲۷۹ ہیں۔[10]

قرآن مجید کے مکمل منظوم تراجم کے حوالے سے دیکھا جائےتو مولوی عبدالسلام بدایونی کےترجمےزادالآخرتکو پہلا ترجمہ قرار دیا جاتا ہے۔یہ منظوم ترجمہ۱۸۲۸ء(۱۲۴۴ھ) میں مطبع نولکشور لکھنؤ سے طبع ہوا۔ زادالآخرتچار جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے کل صفحات کی تعداد۱۷۶۲ ہے۔[11]

آنے والے ادوارمیں بہت سےشعراءنے قرآن حکیم کے منظوم تراجم تحریرکیے،جن میں مکمل قرآن کےمنظوم تراجم بھی تھے اورمختلف سورتوں اور پاروں کے تراجم بھی۔ان منظوم ترجمہ نگاروں کی فہرست خاصی طویل ہے۔اہم ترجمہ نگاروں میں محمدشمس الدین شائق ایزدی، آغا شاعر قزلباش دہلوی،مطیع الرحمان خادم،سیماب اکبر آبادی،مجید الدین اثر زبیری لکھنوی، محمد ادریس کیف بھوپالی ، قاری محمد ابراہیم،مرزا خادم ہوشیار پوری ،سید شمیم رجز، علامہ کبیر کوثر، محبوب ککے زئی، عبد العزیز خالد، نیساں اکبرآبادی، ڈاکٹر نور احمد شیخ،انجم عرفانی، محمد امین میاں ،چودھری اصغر علی کو ثر وڑائچ ،قاضی عطاء اللہ، ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی قلعہ داری،حکیم محمد نعمان ساجد، احمد عقیل روبی ،مخدوم علی ممتازاور دلاور فگار شامل ہیں۔

ذیل میں پانچ مکمل مطبوعہ منظوم تراجم کا تعارف اور ان پر مختصرتبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔

(۱)سحر البیان از اثر زبیری لکھنوی

اثر زبیری لکھنوی[12] قلمی نام ، جب کہ اصل نام مجید الدین احمدتھا۔آبائی تعلق لکھنؤ سے تھا ۔کچھ عرصہ کانپور میں بھی مقیم رہے۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور ملیر(کراچی) میں رہائش پذیر ہوئے۔ یہیں انھوں نے سرکاری ملازمت اختیار کی۔اسی دوران قرانِ حکیم کا منظوم ترجمہ مکمل کیا۔ان کی وفات ۱۹۹۴ ء میں کراچی ہوئی ۔

اثر صاحب نے شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا ۔طبعی طور پر ان کا میلان مذہب کی طرف تھا۔انھوں نے حمد ،نعت اور منقبت کے میدان میں شہرت حاصل کی۔حضرت عثمانؓ کی شہادت سے متعلق ایک طویل نظم "شہیدِؓ ستم" لکھی، جس میں ان کی خلا فت اورواقعۂ شہادت سے بحث کی گئی ہے۔ ان کا شمار اہم نعت گو شعرا ء میں ہوتا ہے۔ سلسبیل کے نام سے ان کا نعتیہ مجموعہ موجود ہے،جوزبان و بیان کے اعتبار سے ایک خوبصورت کاوش ہے۔

اثر زبیری صاحب نے قرآن حکیم کے منظوم ترجمے کا آغاز جنوری ۱۹۴۳ء میں قیامِ کانپور کے دوران کیا،لیکن مصروفیات کے باعث اس کام کو جاری نہ رکھ سکے۔مارچ ۱۹۴۸ء میں کراچی میں موصوف نے یہ کام از سرِ نوشروع کیا ۔چودہ برس کی محنت شاقہ کے بعد ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۹۴ھ بمطابق ۲۳ فروری ۱۹۶۲ء کو ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔البتہ ترجمے کی اشاعت اس وقت نہ ہو سکی اور یہ کام بارہ برس بعدعمل میں آیا۔

اثرزبیری صاحب نے ترجمہ کرتے وقت احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔دوران ترجمہ وہ مشہور عالم و مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریا بادی ؒ سے اصلاح لیتے رہے۔ انھوں نے ترجمہ مکمل کرنے کے بعد اس کا مسودہ مختلف علماء کرام کو دکھایا، تاکہ کسی قسم کا سقم باقی نہ رہے۔ان تمام احتیاطوں کے باوجود وہ اپنے منظوم ترجمے کو "نظم اردو میں قرآن کریم کا سلیس اور با محاورہ حاصل ترجمہ" قرار دیتے ہیں۔مولانا محمد طیبؒ کے مشورے پرترجمے کا نام سحر البیان رکھا گیا۔ مفتی محمد شفیعؒ کی رائے پراس ترجمے میں ضرورتِ شعری کے تحت لائے گئے زائدازمتن الفاظ کو واوین میں درج کیا گیا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ،مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ ،قاری محمد طیبؒ، مفتی محمد شفیعؒ ، سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ،مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ وغیرھم نے اس ترجمے کی تحسین فرمائی ہے۔

سحر البیان۱۹۷۴ء کو الحجاز پبلشرز کراچی نے طبع کیا۔ [13]ترجمہ پندرہ ،پندرہ پاروں کی دو جلدوں پر مشتمل ہے۔پہلی جلد کے ابتداءئی صفحات پر مترجم کا تحریر کردہ تفصیلی مقدمہ ہے۔اس کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی تقریظ ہے۔پھر مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ کا لکھا ہوا پیش لفظ ہے۔بعد ازاں مولانا قاری محمد طیبؒ نے ترجمے کا تعارف کروایا ہے۔اگلے صفحات پر مفتی محمد شفیعؒ، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، سید اعزازعلیؒ، مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ، مولانا شمس الحسنؒ اور مولانا ابوا لبشیرؒکی تقاریظ ہیں۔اس کے بعد پاروں و سورتوں کی فہرستیں دی گئی ہیں۔ سحر البیانسے متعلق دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ اس کے مآخذ بھی بیان کیے گئے ہیں۔اگلے صفحے سے منظوم ترجمے کا آغاز ہوتا ہے۔قرآنی متن کے ذیل میں ترجمہ دیا گیا ہے۔

مترجم نے ہیئت اور بحر کا انتخاب روایتی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا ہے۔اس ترجمے کے لیے مثنوی کی ہیئت اختیار کی گئی ہے۔ یہ ہیئت در حقیقت افسانوی قصوں اور داستانوں کی پیشکش میں معاون ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ ان میں اختراع کی بہت حد تک گنجائش موجود ہوتی ہے۔شاعرحسن بیان کے تحت جو اضافہ کرنا چاہتا ہے وہ اس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔قرآن حکیم کے منظوم ترجمے میں یہ ہیئت جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کرتی ہے، وہیں اس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔اس کا سب سے بڑا عیب دو مصرعوں کی ایسی پابندی ہے جو ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔بعض اوقات ایک مصرعے میں نفس مضمون ادا ہو جاتا ہے، مگر ہیئت کی مجبوری کے تحت دوسرے مصرعے کو اس طرح شامل کرنا پڑتا ہے کہ اس کا انداز تصریحی اور وضاحتی نوعیت کا ہوتا ہے، جسے ترجمہ ہر گز نہیں قرار دیا جا سکتا۔مترجم نے کئی مقامات پر اس عیب سے بچنے کی کوشش کی ہے اورمضمون کی تکمیل یا آیت قرآنی کے اختتام پر نظم کے مصرعوں کو طاق ہی رہنے دیا ہے، اس طرح انھوں نے زائد مصرعے سے دامن بچا لیا ہے۔مثلاً "إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ" [14]کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:

یقیناً کا فروں کے حق میں دونوں حال ہیں یکساںڈرائیں یا نہ آپ اُن کو ڈرائیں وہ "کسی عنواں"

نہ لائیں گے کبھی ایمان"مولائے دو عالم پر"[15]

ان کا یہ طریقۂ کارلائق تحسین ہے کیونکہ ایسی صورت میں ترجمۂ قرآن کے ادب و احتیاط کا تقا ضا یہی ہے۔

منظوم ترجمۂ قرآن کے حوالے سے قافیے اور ردیف کی پابندی بھی بعض اوقات ایسی کو تاہیوں کا موجب بنتی ہے جن سے ترجمے کے آداب و قوانین پر حرف آتا ہے۔مثلاً سحر البیانمیں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا ترجمہ دیکھیں :

خدا کے نام سے آغاز کرتا ہوں کہ"وہ آقا "بڑا ہی مہرباں ہے اور نہایت مرحمت والا[16]

مذکورہ ترجمے میں پہلے مصرعے کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو "وہ آقا" کا ٹکڑا صرف ضرورت شعری اور ضرورت قافیہ کے تحت شامل کیا گیا ہے، جو حشو و زوائد کی صورت میں خامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ خامی تین مختلف وجوہات کی بنا پر سامنے آتی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" کی بحر کو مد نظر رکھتے ہوئے ارکان کی تعداد پوری کرنی ہے۔ دوسری مجبوری قافیے کی ہے، اور تیسری مجبوری غلط ہیئت کا انتخاب ہے۔

اسی طرح دیگر مقامات پر بھی اس نوع کی کوتاہیاں نظرآتی ہیں۔مثلاً سورہ فاتحہ کے الفاظ"الْحَمْدُ لِلَّهِ"[17] کے ترجمے پر نظر ڈالی جائے تو مترجم نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

خدا ہی کے لیے ہر قسم کی تعریف زیبا ہے[18]

مذکورہ آیت کا نثری ترجمہ"ہر تعریف اللہ کے لیے ہے" ہے، منظوم ترجمے میں "زیبا" کا لفظ حشوکےزمرےمیں آتاہے۔"وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ"[19] کامنظوم ترجمہ حسب ذیل ہے:

اور ان سارے نوشتوں کےبھی ہیں ماننے والے جونازل آپ سے پہلےہوئےتھے"رب کی جانب سے"[20]

اس ترجمے میں"رب کی جانب سے"زائد از متن ہے،جسے واوین میں لکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ پہلا مصرع الفاظِ قرآنی کی توضیحی صورت ہے، کیوں کہ اس کے تمام الفاظ کے مقابل متن موجود نہیں ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو گو اس منظوم ترجمے میں شاعر نے حتی الامکان روزمرہ محاورے کی پابندی کی ہے، مگر ہیئت اور مخصوص بحر کے استعمال کی وجہ سے اس میں کئی خامیاں پیدا ہو گئی ہیں۔

(۲)وحیِ منظوم از سیماب اکبر آبادی

شیخ عاشق حسین صدیقی[21] ۵جون۱۸۸۲ء(۲۸رجب ۱۲۹۹ھ)[22]کواکبرآباد (آگرہ)میں پیداہوئے۔وہ والدین کی طرف سے رکھے جانے والے اس نام کے بجائے اپنے قلمی نام"سیماب اکبر آبادی "سے مشہور ہوئے۔ان کے والد کا نام مولانا محمد حسین صدیقی تھا ۔ سیماب کی تعلیم کی ابتداءءعربی اورفارسی سے ہوئی۔انھوں نے اس حوالے سے مروجہ کتب مولاناجمال الدین سرحدی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قمر الدین اور مولانا عبدالغفورسےپڑھیں۔ اپنے والد کے قائم کردہ نجی کتب خانے سے بھی وہ فیض یاب ہوئے۔ کم عمری میں ہی انھیں زبان و بیان اورعلم عروض پر عبور حاصل ہوگیاتھا۔

مولانا محمد حسین اپنے بیٹے کو بہتر تعلیم دلوانا چاہتے تھے،اس لیے انھوں نے رواج عام کے خلاف سیماب کو انگریزی سکول میں داخل کروایا ۔اس ادارے میں انھوں نے مولوی سدید الدین قریشی اکبر آبادی، مولوی تحسین علی اجمیری اور مولوی عابد حسین سے فیض پایا۔ اساتذہ نے ان کے ذوق شاعری کو پروان چڑھایا۔سیماب صاحب اپنے نصاب میں شریک فارسی اشعار کا منظوم اردو ترجمہ کر کے اساتذہ کے سامنے پیش کرتے، اور وہ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔

سیماب اکبر آبادی کی طبیعت کم عمری میں ہی شعر کہنے کی طرف مائل ہو گئی تھی۔ طالب علمی کے زمانے ہی میں انھوں نے سیماب تخلص اختیار کر لیا تھا۔وہ ابھی انٹر کے سال آخر میں تھے کہ والد کے انتقال کے سبب انھیں تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ والد کی کتابوں کی کھپت کی وجہ سے کچھ عرصہ تو گذر بسر ہوتی رہی، لیکن یہ آمدنی کا مستقل ذریعہ نہ تھا۔بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آپڑی، اورانھیں ملازمت اختیارکرنا پڑی۔اس غرض سے وہ کانپور چلے گئے اورایک کمیشن ایجنٹ کے ہاں کچھ روز ملازمت کی۔ ۱۸۹۸ء کے اواخر میں وہ دوبارہ کانپور گئے اورایک کارخانے میں بطور فیکٹری کلرک ملازم ہو گئے۔ بیس سال کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی۔ان کی زوجہ سکینہ خاتون، ملا امام الدین( رئیس حویلی بشیر خاں۔ آگرہ) کی بیٹی تھیں۔ان سےسیماب صاحب کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔

سیماب اکبر آبادی نے شاعری کی ابتداءقیام اجمیر کے دوران زمانۂ طالب علمی سے کر دی تھی، لیکن شاعری میں کسی سے اصلاح کا تعلق قائم نہ تھا، نہ ہی وہ کسی کے باضابطہ شاگرد تھے۔ ۱۸۹۸ءمیں انھوں نے منشی نظیرحسن سخا دہلوی کے مشورے سے کانپور میں داغ دہلوی سے ملاقات کی ۔دورانِ ملاقات حضرت داغ نے سیماب صاحب سے ایک غزل سنی اور انھیں اپنا شاگرد بنا لیا۔[23]

ملازمت کے سلسلے میں سیماب کا قیام مختلف شہروں میں رہا۔ ان کی طبیعت ملازمت سے مناسبت نہ رکھتی تھی،اس لیے انھوں نے اسے ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔اس ارادے پر عمل کرتے ہوئے قریباً جون ۱۹۲۸ء میں وہ مستقل آگرہ آگئےاور علمی و ادبی مصروفیات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ انھوں نے مختلف رسائل و جرائد کا اجرا کیا ،جن میں سب سے اہم رسالہ شاعر تھا۔اس رسالےکی اشاعت کا آغاز فروری ۱۹۳۰ء میں ہوا۔ یہ پرچہ سیماب صاحب کے علمی و ادبی افکار کا ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ دبستان سیماب کا نقیب بھی تھا۔ اس کی اشاعت اب تک جاری و ساری ہے۔

قیام پاکستان کے بعدسیماب صاحب پاکستان آئے اور اپنے بیٹے مظہر صدیقی کے ساتھ کراچی میں مقیم رہے۔آخری عمر میں وہ فالج کے مرض کا شکار ہوئے ۔اسی عارضے کے باعث اردو کے اس نامورشاعرنے ۳۱ جنوری ۱۹۵۱ ء کوکراچی میں وفات پائی۔ انھیں مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔

سیماب اکبر آبادی نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھی۔انھوں نے مختلف معاشرتی و سیاسی موضوعات پرقلم اٹھایا۔ نظم و نثر میں ان کی تصانیف کی تعدادتین سو کے لگ بھگ ہے۔ان میں سے نصف سے زائد کتب شائع نہ ہو سکیں۔ان کی شاعری کے اہم مجموعوں میں کلیمِ عجم، لوحِ محفوظ، نیستاں، کارِ امروز، سازِ حجازاور قائد کی خوشبو شامل ہیں، جب کہ منظوم تراجم میں سے وحیِ منظوم اور الہامِ منظوم نےشہرت پائی۔

سیماب اکبر آبادی کاانداز و اسلوب جہاں روایت سے جڑا ہوا ہے وہیں جدت خیال اور ندرت فکر سے اس کی آراستگی بھی قابل توجہ ہے۔ان کے منظوم ترجمۂقرآن مجید میں بھی ان کی یہی جودت طبع اپنی تمام تر تزئینی خوبیوں کے ساتھ دل میں گھر کر لیتی ہے۔ سیماب صاحب نے دوست احباب اور علماء و مشائخ سے مشاورت کے بعدمنظوم ترجمۂ قرآن کا آغاز۱۹۴۳ ء میں کیا۔[24]

انھوں نےشاہ عبد القادرؒ اور شیخ الہند مولانا محمود حسن کے تراجمِ قرآن مجید کی مدد سے وحیِ منظوم کے نام سے منظوم ترجمۂ قرآن مکمل کیا۔ اس دوران وہ مختلف لغات سے بھی استفادہ کرتے رہے ،جن میں فرہنگِ آصفیہ، لغاتِ کشوریاورنوراللغات شامل ہیں۔ سیماب صاحب مستقل مزاج شخصیت کے حامل تھے، کبھی کسی کام کو ادھورا نہ چھوڑتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کے دوران انھوں نے اپنی دیگر مصروفیات ترک کر دیں اور مکمل توجہ اور یکسوئی سے اس ترجمے پر کام کیا۔ اس طرح یہ ترجمہ قلیل وقت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔کْل سات ماہ اور نو دن میں ترجمہ مکمل کر لیا گیا۔

قرآن مجید کے ترجمے کے حوالے سے سیماب صاحب نے احتیاط اور تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمے کی تکمیل کے بعد انھوں نے اس پر نظرِ ثانی کی۔ انھوں نے مختلف اشاعتی اداروں کی طرف سے بھاری رقوم کی پیشکش ٹھکرا دی۔ وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ ترجمے میں معمولی لغزش بھی بہت بڑا گناہ ہے،لہٰذانظرِثانی کےبعدانھوں نےوحیِ منظوم کا مسودہ مختلف مکاتبِ فکر کے علماءِ کرام اور ناقدینِ ادب کو اصلاح کی غرض سے دکھایا۔اس حوالے سے انھوں نےجن شخصیات سے رابطہ کیا ان میں مولاناحسین احمد مدنیؒ، مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ، مولانا محمد حفظ الرحمنؒ، خواجہ حسن نظامی اور مولانا عتیق الرحمنؒ شامل ہیں۔ ان حضرات کی آراء کی روشنی میں سیماب صاحب نے ترجمے کی تصحیح فرمائی۔

سیماب صاحب نے شعری ضروریات کے تحت ترجمے میں کیےجانے والے اضافے قوسین میں درج کیے، تاکہ قاری کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو،اور اسے یہ علم ہو جائے کہ یہ الفاظ قرآن کا ترجمہ نہیں بلکہ اس کی وضاحت ہیں۔ اس کے بعد بھی وہ تین سال تک ایک ایک لفظ پر غور و فکر کرتے رہے۔ اسی دوران تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔ان مخدوش حالات میں سیماب صاحب وحیِ منظوم کی طباعت کا اہتما م نہ کر سکے۔ پاکستان آنے کے بعد بھی انھوں نے ترجمے کی اشاعت کے لیے دوڑ دھوپ کی مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔بسترِ علالت پر انھوں نے اپنے بیٹے مظہر صدیقی کو وحیِ منظوم شائع کرانے کا حکم دیا، جنھوں نےوالد کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔سب سے پہلے تیسواں پارہ پرچم پریس کراچی سے۱۹۵۲ء میں شائع کیا گیا۔[25] بعد ازاں ۱۹۸۱ء میں مکمل ترجمہ ٔقرآن مجیدطبع ہوا ۔

وحیِ منظوم صوری اورمعنوی ہر دواعتبار سے خوبصورتی کا حامل ہے۔ سیماب اکیڈمی کراچی نے اسے نومبر۱۹۸۱ء میں شائع کیا۔ سفید کاغذ پر طبع شدہ یہ نسخہ مجلد اورلیمینیٹڈ(Laminated)ہے۔ترجمے کے آغاز پرمظہر صدیقی نےسیماب صاحب کے حالاتِ زندگی اختصار سےبیان کیے ہیں، نیز وحیِ منظوم کے آغاز و تکمیل کے بارے میں اہم باتیں تحریر کی ہیں۔ اس کے بعد مظہر صدیقی کے نام مولانا جمال میاں فرنگی محلی کا خط ہے، جس میں منظوم ترجمے کو سراہا گیا ہے۔ بعدازاں جسٹس آفتاب احمد(چئیرمین وفاقی شرعی عدالت) کا تحسینی خط ہے۔ اگلے صفحات پروحیِ منظومکے بارے میں راجہ محمد ظفر الحق کی رائےاور محمد علی خان ہوتی(وزیر تعلیم) کا تبصرہ ہے۔ پھرمولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ اور مولانا عتیق الرحمن عثمانیؒ کی آراء ہیں۔ اگلے دو صفحات پر اے۔کے بروہی صاحب کا انگریزی زبان میں ترجمے پر تبصرہ ہے۔ بعد ازاں پروفیسر غلام مصطفی خاں کا تحریر کردہ مبسوط مقدمہ ہے ،جوچار صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ پھر تہدیہ بنام سید المرسلین محمد مصطفی(ﷺ)ہے۔اس صفحے پر ۲۳شعبان المعظم ۱۳۶۵ھ کی تاریخ رقم ہے۔ اس کے بعد ترجمے کا آغاز ہو تاہے۔

اس اشاعت میں ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ دائیں صفحے پر قرآنی متن چھاپا گیا ہے، جب کہ بائیں صفحے پر اس کے مقابل منظوم ترجمہ درج ہے۔ مختصر حاشیہ بھی موجود ہے، جس میں اہم تفسیری نکات کو نثر میں اختصار سےبیان کیا گیا ہے۔ اگر مقابل صفحے پرمتعلقہ آیات کا منظوم ترجمہ مکمل نہ ہو تو بقیہ ترجمہ حاشیے میں لکھا گیا ہے۔منظوم ترجمے کے صفحات کی کل تعداد۹۶۸ ہے۔ اختتام پر منظوم دعائے ختم القرآن ہے۔

آخری صفحات پر ترجمے کے بارے میں درج ذیل مشاہیرکی آراءپیش کی گئی ہیں:مولانا محمد حفظ الرحمنؒ صاحب، خواجہ حسن نظامیؒ، مولانا عبد النعیم صدیقیؒ، مولانا محمد صادقؒ، مولانا محمد میاںؒ، مولانا احمد علیؒ، مفتی محمد نعیم لدھیانویؒ، مولانا محمد ادریسؒ۔

وحیِ منظوم کے سر ورق سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس منظوم ترجمے میں قرآن حکیم کے مفہوم کی توضیحی صورت بھی موجود ہے۔ گویا یہ تفسیری انداز کا حامل منظوم ترجمہ ہے، اس لیے ترجمے میں موجود توضیحی اور وضاحتی مصرعے بھی قابل توجہ ہیں۔

فنی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ترجمہ مثنوی کی ہیئت میں ہے۔ اس کے لیے اختیار کردہ بحر، بحرِرمل محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن )ہے۔مترجم کے ہاں مثنوی کی ہیئت میں چندتصرفات بھی موجودہیں۔ نفسِ مضمون کی ادائیگی کے لیے وہ مثنوی کی ہیئت کے برخلاف تیسرے ہم قافیہ مصرعے کی بھی گنجائش پیدا کرتے ہیں اور ایک مصرعے میں مفہوم کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔نفسِ مضمون کی ادائیگی کے لیے سیماب صاحب نے اس طرح کا جو طریقہ ٔکار اختیار کیا وہ سراسر اجتہادی تھا۔

مثنوی کی ہیئت میں یہ تبدیلی فنی حوالے سے تو درست قرار نہیں دی جاسکتی،تاہم قرآن حکیم کے منظوم ترجمے کے لیے یہ تصرف بہتر نظر آتاہے۔ اس حوالے سے کچھ مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

رکھو آیندہ کا بھی کچھ بندوبست اپنے لیےیہ سمجھ لو،اُس سےملنا ہے،ڈرواللہ سے

اور جو ہیں اہلِ ایماں اُن کو مژدہ دیجیے[26]

مذکورہ تینوں مصرعوں کا جائزہ لیا جائےتو مثنوی کی ہیئت میں تبدیلی واضح نظر آتی ہے۔کیوں کہ یہاں تیسرامصرع اضافی ہے ۔ شاعر نے نفس ِمضمون کی ادئیگی کے لیے قرآن حکیم کے ترجمے کے اصول و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف ایک مصرعے کے ذریعے ہی مفہوم کو ادا کر دیا۔البتہ اس مصرعے میں فنی حوالے سے ایک کوتاہی بھی موجودہے، پہلے دو مصرعوں میں"تم"کا صیغہ جمع حاضر قائم کیا گیا ہے۔

جبکہ تیسرےمصرعےمیں"آپ"کاصیغہ مستعمل ہےجوکہ ایک فنی خامی تصور کیا جائے گا۔

سورۃ بقرۃ کی آیت:"فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِيۤ أَنْفُسِهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ" [27]کا ترجمہ اس حوالے ایک اور مثال کے طور پردیکھتے ہیں:

پھرجو پوری کر لیں عدت،تو نہیں کچھ تم پہ بارقاعدےسےجوکریں اپنے لیے وہ اختیار

اور تمہارے کاموں سے آگاہ ہے پروردگار[28]

اس مقام پر بھی شاعر نے تیسرے مصرعے کا جواضافہ کیاہے، وہ اہمیت کا حامل ہے۔اس سے نہ صرف مترجم کی جودتِ طبع اور خلاقی نمایا ں ہوتی ہے، وہیں یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ مثنوی کی ہیئت میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ بہت مشکل ہے، تاہم شاعر اگر اس میں مختلف انواع کی اختراعات اختیار کر لے تو اس کے لیے آسانی پیداہو جاتی ہے۔اس ذریعے سے وہ نہ صرف ایجاز و اختصار سے کام لے سکتا ہے بلکہ متن کے مفہوم کی بہتر ادائیگی بھی ممکن ہو جاتی ہے۔نیز اضافی الفاظ و مفاہیم سے بھی شاعر کی جان چھوٹ جاتی ہے۔

ہیئت کے حوالے سے شاعر نے اپنی مشکلات اضافی مصرعوں کے ذریعے کم کر لیں،تاہم بحر اور ردیف و قافیہ کی پابندیوں کی وجہ سے وہ ترجمے میں در آنے والے اضافی مفاہیم سے دامن نہ بچا سکے۔اس حوالے سےسورۃ کوثر کی پہلی دو آیات "إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ"[29] کے ترجمےکی مثال ملاحظہ ہو:

(اے پیمبر)ہم نے بے شک تم کو کوثر دے دیا پس پڑھو رب کی نماز ، اور پھر کرو شکرِ خدا[30]

یہاں پہلا مصرع تو متن کے مطابق ہے، تا ہم دوسرے مصرعے میں"اور پھر کرو شکرِ خدا" کے الفاظ متن سے زائد ہیں۔ شاعر نے بحر کی پابندی اور قافیہ پورا کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں، جن کی وجہ سے ترجمہ متن سے دور ہو گیا ہے۔

اسی طرح بعض مقامات پر واوین میں درج الفاظ کی وجہ سے ترجمے کی روانی اور حسن متاثر ہوتاہے۔مثلاً:

تم کہو (کچھ) کرو (کچھ بھی)نہیں،(سوچو تمہیں)[31]

ایک مصرعے میں تین واوین نےجہاں نظم کی خوبصورتی کو ماند کیا ہے وہیں درست مفہوم اخذ کرنے کے حوالے سے قاری کو بھی مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔

مجموعی طور پریہ ترجمہ اپنی سلاست اور اسلو بِ بیان کے اعتبار سے دیگر کئی منظوم تراجم پر فوقیت رکھتاہے۔ اندازِ بیان دلنشیں ہے اور یہ خوبی فطری انداز میں اس ترجمے سے عیاں ہوتی ہے۔سیماب صاحب نے روایت کی مکمل پیروی کے ساتھ ساتھ جدتِ طبع کی بدولت ترجمے کے لیے بہتر ہیئت کا انتخاب کیا،جس کی بنا پر انھیں متنِ قرآنی کی بہتر ترجمانی میں سہولت رہی۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی زبان و اسلوب بھی خوبصورت اور پُر اثر ہے،جس نے ان کے لیے اس کارِ دشوار کو سہل بنایا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری کےلوازم ان کے لیے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے،جس کی وجہ سے چند دیگر فرو گذاشتوں کے ساتھ متن سے زائد مفہوم بھی ترجمے میں شامل ہو گیا۔

(۳)آب رواں از سید شمیم رجز

سید شمیم رجز[32] کا اصل نام سید نجم الحسن رضوی تھا۔ وہ موضع محمدپور ملاسا،ضلع کانپور،یو پی(برٹش انڈیا)میں پیدا ہوئے۔ ان کا سنہ پیدائش۱۹۲۰ءہے۔رجز صاحب اپنے والدین کی پہلی اولاد تھے۔ان کی دو بہنیں اور چار بھا ئی تھے۔ والد کا نام سید یعقوب الحسن رضوی،جب کہ والدہ کا نام اعجاز فاطمہ رضوی تھا۔سید صاحب کا سلسلۂ نسب چالیسویں پشت میں امام جعفر صادقؒ سے جا ملتا ہے۔

سید شمیم رجز کی تعلیم کی ابتداء گھر سے ہوئی ۔پھر انھوں نے سکول کا رخ کیا اورابتداءئی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔ بعد ازاں انھیں بی۔ این ہائی سکول اکبرپورمیں داخل کروایا گیا۔ میٹرک کی سند ایس ۔آئی کالج لکھنؤ سے حاصل کی، اس امتحان میں انھوں نےامتیازی نمبرحاصل کیے۔مذکورہ کالج ہی سے انھوں نےایف۔ ایس۔ سی کا امتحا ن پاس کیا۔ بعد ازاں انھوں نےانجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی ۔جھانسی اور بمبئی میں جے آئی پی آر کے ادارے سے لوکوموٹیو میں سب انجینیئرنگ کا امتحان پاس کیا۔

۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد سید شمیم کا خاندان پاکستان آگیا۔ وہ۱۴ اگست سے قبل ہی پاکستان تشریف لے آئے اورلاہور میں رہائش پذیر ہوئے۔ان کے والد سید یعقوب الحسن رضوی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور گڑھی شاہو میں ایک کالج میں پڑھانے لگے۔جب کہ رجز صاحب کو پاکستان ریلویز میں ملازمت مل گئی اور انھوں نےریلویز کی آئرن اینڈ سٹیل شاپ میں کام شروع کیا۔ اسی دوران ان کا تبادلہ حیدر آباد سندھ میں ہو گیا۔ وہاں انھوں نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور سٹی آرٹس کالج سے بی۔اے آنرزکیا ۔ کچھ عرصے بعد ان کا تبادلہ واپس لاہور ہو گیا۔لاہور آ کر انھوں نے علم کی تشنگی بجھانے کے لیے اورینٹل کالج لاہور کا رخ کیا اور وہاں سے ایم۔ اے اردو کی سند حاصل کی۔

سید صاحب دو مرتبہ رشتہ ٔ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ پہلی شادی قیام پاکستان سے قبل فروری ۱۹۴۷ء میں ماموں زاد "احسان فاطمہ "سے ہوئی۔ اس سے ان کی ایک بیٹی سیدہ درنجف رضوی زیبی(پ فروری ۱۹۵۰ء) اورایک بیٹا سید حیدر شکوہ رضوی (پ دسمبر ۱۹۵۱ء)پیدا ہوئے۔ سیدہ احسان فاطمہ نے ۱۹۵۵ء میں ٹائیفائیڈکے مرض کے

باعث وفات پائی۔ رجز صاحب کی دوسری شادی ۱۹۵۷ء میں حیدر آباد کے مقام پرہوئی۔ اس شادی سےان کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔

قیام لکھنؤ(۱۹۳۶ء تا ۱۹۴۴ء)کے دوران سید صاحب نےفنِ شعرکے میدان میں حضرت مہذب لکھنوی کی شاگردی اختیار کی۔جن سے انھوں نے شعر گوئی کے اسرار و رموز سیکھے۔ انھیں اپنے استاد پر ناز تھا، وہ ہمیشہ ان کا ذکر بڑے احترام سے کرتے تھے۔آب رواں کے ابتداءئیے میں اپنے استاد گرامی کے بارے میں فرماتے ہیں:

پاکستان بن جانے کی وجہ سے آب رواں کو استاد محترم حضرت مہذب لکھنوی کی خدمت میں پیش کرنے سے محروم رہا ہوں لیکن قیام لکھنؤ کے دوران (۱۹۳۶ تا ۱۹۴۴) حضرت اقدس نے اس حقیر کو فن شعر کی جو تعلیم دی ہے انشا اللہ اس کی بنا پر مجھے کسی کے سامنے شرمندگی نہ ہو گی۔[33]

شاعری رجز صاحب کی فطرت میں موجود تھی ۔اوائلِ عمری میں ہی انھوں نےشعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ان کی بیٹی سیدہ در نجف زیبی کی رائے کے مطابق سید شمیم نےدو تخلص اختیار کیے، "شمیم" اور "رجز"۔[34] ابھی وہ آٹھویں جماعت ہی کے طالب علم تھے کہ ان کا ابتداءئی کلام شائع ہوا،جس کا نامدریائے غمتھا۔اس کے دو سال بعد دوسرا مجموعہمحافظ اسلام کے نام سے طبع ہوا۔ شعر گوئی سے اس قدر لگاؤ کےباوجود وہ پڑھائی کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے،اور ہر جماعت میں اول آتے رہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد لکھنؤ سے ان کی ایک اور تصنیف منظر عام پر آئی، کتاب کا نام گلستان فاطمہتھا۔

سید صاحب نے قیام لاہور کے دوران اپنی ادبی تخلیقات کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ مشاعروں اور محافل مسالمہ میں شریک ہوتے رہے، تاہم انھوں نے کسی ادبی گروہ سے تعلق نہ رکھا،کیوں کہ یہ ان کے مزاج کے خلاف تھا۔اردو شعراء میں سےانھیں انیس، میر، غالب اور جوش سے زیادہ لگاؤ تھا۔ سخن کے میدان میں ان کا مقولہ "ادب برائے ثواب"تھا،جس پر وہ ساری زندگی کار بند رہے۔ اس میدان میں انھوں نے ۷۶ برس سے زائد طبع آزمائی کی۔

۱۹۸۹ء میں سید شمیم امریکہ چلے گئے، جہاں وہ اپنے بیٹے سید حیدر شکوہ رضوی کے پاس لاس اینجلس میں قیام پذیر ہوئے۔ بعد ازاں ان کے دوسرے بیٹے بھی امریکہ منتقل ہوئے تورجز صاحب ان کے پاس شکاگو میں مقیم ہو گئے۔ انھوں نے بقیہ زندگی امریکہ میں ہی گزاری۔ وہ ساری زندگی صحت مند رہے، البتہ آخری عمر میں انھیں نسیان کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔ اس عظیم شاعر کا انتقال۱۲ جولائی ۲۰۱۲ء کو شکاگو میں ہوا۔ان کی تد فین شکاگو ہی میں عمل میں لائی گئی۔

سید شمیم رجز قادر الکلام شا عر تھے۔ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں مثنوی،مرثیہ، منقبت، سلام، مناجات اور رباعیات شامل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے نثر میں تنقید و تحقیق اور انجینیئرنگ کے موضوعات پر قلم اٹھایا۔رجز صاحب کی تصانیف میں سے سب سے اہم قرآن مجید کا منظوم ترجمہ ہے۔علاوہ ازیں مختلف موضوعات پر ان کی ایک درجن کے لگ بھگ کتب موجود ہیں۔جن میں میرِ کارواں، نقشِ جاوداںاور خلوصِ بیکراں اہم ہیں۔ قیام امریکہ کے دوران ۲۰۰۶ء میں سید صاحب کو ان کی ادبی خدمات کے صلے میں ایک عالمی اعزاز سے بھی نوازا گیا، جس کا نام "حسن اردو انٹر نیشنل ایوارڈ "ہے۔[35]

سید شمیم رجز کی تالیفات میں سےاہم ترین کارنامہ آب رواں کے نام سے منظوم ترجمۂ قرآن ہے۔ اس منظوم ترجمے کی ابتداءء انھوں نے فروری ۱۹۵۲ء میں کی۔ پہلا پارہ مکمل ہونےکے بعد ۱۹۶۰ ء میں علمی پرنٹنگ پریس لاہور سے شائع کروایا گیا۔ دوسرا پارہ ۱۹۶۴ء میں چھپا، مطبع کا نام اشرف پریس لاہور تھا۔ تیسرےپارے کی طباعت ۱۹۶۶ء میں عمل میں آئی،چھاپہ خانہ اشرف پریس لاہور ہی تھا۔ان اشاعتوں میں دائیں صفحے پر آیاتِ قرآنی چھاپی گئی ہیں، زیرِ متن شاہ رفیع الدین دہلوی کا نثری ترجمہ درج ہے،جب کہ سید صاحب کا منظوم ترجمہ بائیں صفحے پر ہے۔

اس منظوم ترجمۂ قرآن کی تکمیل ۱۹۶۵ء میں ہو ئی،اور اس کا ناممثنوی آب رواں رکھا گیا۔مثنوی کےاشعار کی کل تعداد سترہ ہزا ر تھی ۔ بعد ازاں موصوف نےمختلف اوقات میں اس ترجمے پر نظرِ ثا نی کااہتمام کیا۔ بالآخر۱۹۷۷ ء میں یہ کام بھی مکمل ہو گیا۔منظوم ترجمہ کی تخلیق اور اس پر نظرِ ثانی کے وقت انھوں نےبہت محنت و کاوش سے کام کیا۔اس حوالے سےوہ خود بیان فرماتے ہیں:

"جن مقامات پر قلم رک جاتا تھا اور ہمت جواب دے جاتی تھی اس وقت بارگاہ خدا میں دست دعا بلند کرنے کا فوری اور حیران کن نتیجہ ہوتا تھا۔بارہ سال تک ایک ایک لفظ ایک ایک مصرعے اور ایک ایک شعر کو دس دس مرتبہ درست کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ الفاظ کو روزمرہ بول چال میں جس طرح لکھنؤ، دہلی، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کی گلیوں میں بولا جاتا ہے اسی بے ساختگی کے ساتھ نظم کرنے کا شوق، تعقید سے بچنے اور نظم کو نثر کے بالکل قریب لے آنے کی تمنا اورہر وقت یہ فکر کہ آیات کی صحیح ترین ترجمانی کے باوجود آب رواں کےقاری کو کسی مقام پر یہ احساس نہ ہو کہ یہ کسی کتاب کا "ترجمہ"ہے اس کے لیے خون جگر کی قربانی دی گئی۔"[36]

رجز صاحب کی خواہش تھی کہ آب رواں جلد از جلدشائع ہو جائے، لیکن ناشرین کے تقاضے ان کی اس آرزو کے آڑے آگئے ،جس کے باعث اشاعت کے کام میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔بالآخرانھوں نے فیصلہ کیا کہ قرآن حکیم کے متن اور منظوم ترجمے کی کتابت وہ خود کریں گے،اور اپنے اس ارادے پرانھوں نےفوراً عمل شروع کر دیا۔موصوف نے اس کام کا آغازنے ۷ جون ۱۹۷۸ء کو کیا اور یکم جنوری ۱۹۸۰ء کو یہ سلسلہ مکمل ہوا۔سید شمیم نےمنظوم ترجمۂ قرآن کو چھ، چھ پاروں کی پانچ جلدوں میں شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس اشاعت میں بھی ترتیب سابقہ اشاعتوں کی طرح ہی رکھی گئی، یعنی دائیں صفحے پر قرآنی متن کے نیچے شاہ رفیع الدین دہلوی کا نثری ترجمہ چھاپا گیا، جب کہ بائیں صفحے پر منظوم مطالب و معانئ قرآن مجید درج کیے گئے۔اس سلسلے کی پہلی جلد ۱۹۸۰ء میں پاکستان ٹائمزپریس لاہور سے طبع ہوئی۔یہ سلسلۂ اشاعت ۱۹۸۵ءمیں پانچویں جلد کی اشاعت پر مکمل ہوا۔[37]

پہلی اشاعت میںمثنوی آب رواںکے نسخوں کی تعداد بہت کم تھی ، جس کی وجہ سے یہ ترجمہ جلد ہی ختم ہو گیا۔ سید صاحب کے امریکہ منتقل ہوجانے کے باعث ترجمے کی اشاعت کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ تاہم ان کی خواہش اس وقت تکمیل کو پہنچی جب رمضان المبارک ۱۴۲۶ھ بمطابق اکتوبر ۲۰۰۵ ء میںمثنوی آب رواںاظہار سنز لاہور نے شائع کی۔ تیس پاروں کی ایک جلد پر مشتمل یہ ایڈیشن دیدہ زیب طباعت کا حامل ہے۔ ہر صفحے پر سبز رنگ کا حاشیہ ہے، جس میں دو کالم بنائے گئے ہیں۔ دائیں طرف ہلکے سبز رنگ کے کالم میں متنِ قرآن مجید ہے، جب کہ بائیں طرف سفید کالم میں منظوم ترجمانی ہے۔ شاہ رفیع الدین کا نثری ترجمہ اس اشاعت میں غالباً ضخامت کی وجہ سےشامل نہیں کیا گیا ہے۔ ترجمے کے اختتام پر فہرست ہے،جبکہ آخری صفحات پر اہل علم کی آراء اور تبصرے پیش کیے گئے ہیں۔

آب رواں قرآن حکیم کے منظوم تراجم میں اہم اضافہ ہے۔یہ ترجمہ سید شمیم رجز نے مثنوی کی ہیئت میں کیا ہے۔ ترجمہ کے لیے اختیا ر کردہ بحر ، بحرِ متقارب محذوف ہے،جوفعولن فعولن فعولن فَعَل/فعول کے ارکا ن پر مشتمل ہے۔ یہ بحر غنائیت اور ترنم کی حامل ہے ۔اس بحرکوداستانوی پیرایۂ اظہار کے لیےموزوں خیال کیا جاتاہے۔ سید صاحب نے اس بحر کو قرآن حکیم کے مطالب و مفاہیم کی ادائیگی کے لیے خوبی سےاستعمال کرنے کی سعی کی ہے۔ موصوف نے مقدور بھر کو شش کی ہےکہ روزمرہ اورمحاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی تحریری اپچ کو بروئے کار لایا جائے۔

قرآن حکیم کی آیات کے مفاہیم کو پیش کرنے میں وہ کس حد تک کامیاب رہے ہیں،اس کی کسی قدر وضاحت سطورِ ذیل سے ہو جائے گی۔آب رواںکے سر سری جائزے سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قران حکیم کے ترجمے کی مشکلات کے باعث سید شمیم سے مفہوم قرآنی کی پیشکش کے حوالے سے کچھ لغزشیں ہوئی ہیں۔مثلاً سورۃ بقرۃ کی آیت:"خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ"[38] کا ترجمہ درج ذیل ہے:

ہے مُہرِ خدا گوش و دل پر لگیانھیں راہ سیدھی نہیں سوجھتی[39]

اس ترجمے کاپہلا مصرع تو قرآنی متن سےمطابقت رکھتاہے، لیکن دوسرے مصرعے میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے، اس کے مقابل قرآنی الفاظ موجود نہیں ہیں۔ آیتِ قرآنی میں "سیدھی راہ سوجھنے"کے الفاظ کے مقابل متن موجود نہیں ہے۔دراصل شاعر نے بحر کے ارکان پورا کرنے اور قافیے کے التزام کی وجہ سے یہ الفاظ لائے ہیں، جس کی بنا پر نفسِ مضمون کی پیروی نہ ہو سکی۔نتیجتاً ترجمے میں وہ مفہوم در آیا جو قرآنی الفاظ سے مختلف ہے۔

سورۃ بقرۃ کی ایک اور آیت کے ٹکڑے"وَمَا يَشْعُرُونَ"[40] کا منظوم ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:

ہے فہم و فراست کا ان کو جنوںانہیں کی نشانی ہے ما یشعروں[41]

اس شعرکے دونوں مصرعوں میں معانی و مفہوم کے اعتبار سے خامیاں موجود ہیں۔ یہاں روزمرہ محاورے کا اہتمام خوبصورت ہے، مگر نصِ قرآنی کو پیش نظر رکھتے ہوئے نفسِ مضمون کی ادائیگی درست انداز میں نہیں کی گئی۔ پہلا مصرع "ہے فہم و فراست کا ان کو جنوں" اپنے کثیر الجہت معانی کے تناظر میں مختلف النوع مفاہیم کا حامل ہے۔ان میں سے زیادہ قرین قیاس صرف یہی مفہوم ہے کہ انہیں فہم و فراست کے حصول کا جنون اور اشتیاق تھا۔اگر اس مفہوم کو درست مان لیا جائےتو نصِ قرآنی سے اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔دوسرے مصرعے میں قرآنی الفاظ "ما یشعرون" کو اُسی طرح لکھ دینا درست تو ہے،لیکن انھیں مزید سہل انداز میں بھی پیش کیا جا سکتا تھا۔

ایک اور مثال آیت:"وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ" [42]کا ترجمہ ہے، جو حسب ذیل ہے:

اگر اہلِ ایماں کی دے کر مثالکر و اُن سے تائید حق کا سوال[43]

یہاں پہلا مصرع تو کسی حد تک قرآنی الفاظ کامفہوم پیش کرتا ہے، لیکن دوسرے مصرعےمیں یہ صورت موجودنہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں متن ِقرآنی سے مطابقت کو برقرار نہیں رکھا گیا ۔ لہٰذا اسےمنظوم ترجمہ قرار نہیں دیا جاسکتا،بلکہ یہ پہلے مصرعے کی توضیح و تفسیر ہے۔

سورۃ البقرۃ کی آیت:"وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ"[44] کاترجمہ بھی بطورِمثال پیش کیاجاسکتا ہے:

پہنچتے ہیں جب مشرکوں کی طرفتو کہتے ہیں ہم ہیں تمھاری طرف[45]

اس مقام پر متنِ قرآنی میں"مشرک" کا لفظ نہیں آیا، صرف شیاطین کا ذکر ہے ۔شرح کےمطابق یہاں شیاطین سےمشرک اورکافردونوں مرادہیں۔لہٰذا ترجمے میں صرف مشرکوں ہی کا حوالہ درست نہیں ہے،کیوں کہ یہ متن کی مکمل نمائندگی نہیں کرتا۔

اس آیت کے آخری حصے:"إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ"[46] کاترجمہ اس طرح ہے:

بناتے ہیں ہم اہلِ اسلام کومسلماں ہوئے ہیں فقط نام کو[47]

قرآنی الفاظ میں تمسخر اڑانے کا حوالہ موجودہے۔مترجم نے"بنانے" کا لفظ "تمسخر"کے متبادل طور پر پیش کیا ہے، جس سے مکمل مفہوم ادا نہیں ہوتا۔

اگلی آیت کے ابتدائی حصے "اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ"[48] کاترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

انھیں کاش اتنا ہی ہوتا پتابناتا ہے دراصل ان کو خدا[49]

اس مقام پر بھی لفظ"بناتا"کو "استہزاء"کے ترجمے کے طور پر پیش کیا گیاہے۔یہ ترجمہ درست نہیں ہے، کیوں کہ مذکورہ لفظ یہاں تخلیق کا مفہوم پیش کررہاہے، جب کہ متن کے مطابق یہاں"تمسخر"کے معنی ہونے چاہییں۔ اسی طرح شعر کا پہلا مصرع بھی قرآنی الفاظ سے مطابقت کا حامل نہیں ہے۔

الغرض اس ترجمے میں بہت سے مقامات پر قرآنی مفہوم کی مکمل ادائیگی کی صورت نظر نہیں آتی۔کئی جگہوں پرایسےمصرعےموجود ہیں جومتن سے مکمل مطابقت نہیں رکھتےاورانھیں شامل کرنے کی وجہ صرف اور صرف لوازماتِ شعری ہیں۔ قرآن حکیم کے ترجمے کے حوالے سے مثنوی کی ہیئت مناسب نہیں ہے،کیوں کہ اس ترجمے میں توضیحات و تصریحات پر مبنی اشعار و مصرعوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔اگر مذکورہ صورت اپنائی جائےتو ترجمہ اپنی حدود سے نکل کرمنظوم تفسیر کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ درج با لافروگذاشتوں کے باوجودآب رواںکو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہ قرآن حکیم کےمنظوم اردو تراجم میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ تاہم جدید اشاعت میں حسب سابق شاہ رفیع الدین کا نثری ترجمہ شامل کر دیا جاتا تو تفہیم کی مشکلات کسی قدر دور ہوسکتی تھیں۔

(۴)فرقان جاوید ازعبد العزیز خالد

عبد العزیز خالد[50] پرجیاں کلاں، تحصیل نکودر، ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ء ہے۔خالد کےوا لد شاہ محمد ،سکول مدرس تھے۔ دادا کا اسم گرامی محمد خلیل ،جب کہ والدہ کانام غلام فاطمہ تھا۔ والدین نے ان کا نام عبد العزیز رکھا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ان کے دو بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ابتداءئی تعلیم انھوں نےاپنے گاؤں کے مدرسے سےپائی۔ وہ بچپن ہی سے غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔آغاز تعلیم ہی سے ان کی ذہانت و فطانت ظاہر ہونے لگی۔پانچویں جماعت میں انھیں اسلامیہ ہائی سکول ننگل انبیاء میں داخل کروا دیا گیا، جہاں انھیں علم دوست اساتذہ کی رہنمائی میسر آئی۔ ۱۹۴۲ء میں انھوں نے مڈل کا امتحان دیا،جس میں وہ صوبے بھر میں اول آئے۔اپنی زندگی کے اسی دورمیں خالد شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ چودھری رحمت علی نازش اور آغا صادق حسین جیسے اسا تذہ کی سرپرستی نے ان کے ذوقِ شعری کوجلا بخشی۔

۱۹۴۴ء میں انھوں نے میٹرک کا امتحا ن دیا اور صوبہ بھر میں تیسری ،جب کہ مسلما ن طالب علموں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔اس کے بعد انھوں نے اسلامیہ کالج لاہورمیں داخلہ لیا۔ ۱۹۴۶ء میں ایف۔ اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ۔ ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور جھنگ میں مقیم ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں اسلامیہ کالج سے بی۔ اے کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کیا ۔۱۹۵۰ء میں انھوں نے اسی کالج سے ایم۔ اے معاشیات کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ دسمبر۱۹۵۰ء میں انھوں نے انکم ٹیکس سروس کا امتحان دیا اورکامران ٹھہرے۔ان کی پہلی تعیناتی بطور انکم ٹیکس آفیسر ہوئی، مقامِ ملازمت کراچی تھا۔

خالد کی شادی اپریل ۱۹۵۲ء میں کراچی شہر میں ہوئی۔ یہ شادی غیر رسمی اور شرعی انداز میں ہوئی۔ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

خالد کو چھوٹی عمر سے ہی شاعری سے لگاؤ تھا۔ ادب دوست اساتذہ نے اس شوق کونکھارا۔ ان کاپہلا تخلص"بایزید"تھا۔ پھرانھوں نے"صہبائی "اپنایااوربالآخر"خالد"اختیار کیا۔کراچی آمد کے بعد انھوں نے شاعری پربھرپور توجہ دی۔ نظم"راہ ورسم منزلہا"علمی و ادبی حلقوں میں ان کے تعارف کا ذریعہ بنی ۔ان کا پہلاشعری مجموعہ "زر داغ دل" ۱۹۵۵ء میں کراچی سے شائع ہوا۔

خالدبطورا نکم ٹیکس آفیسر کراچی گئے تھے اور ترقی کی منازل طے کرتےکرتے کمشنر انکم ٹیکس کے عہدے تک جا پہنچے ۔ اسی حیثیت سے ان کا تبادلہ لاہور ہوا اور وہ اسی شہر کے ہو کر رہ گئے۔ ۱۵ جنوری ۱۹۸۷ء کو وہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کےکمشنر انکم ٹیکس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

عبد العزیزخالد شاعری کی تمام اصناف پرعبوررکھتے تھے۔ وہ ایک قاد ر الکلام شاعر تھے۔ تراجم،غزل گوئی،نظم نگاری، نعت اور منقبت کے حوالے سےانھوں نے شہرت پائی۔ ان کے تراجم بھی بہت مقبول ہوئے۔ان کی خدمات کے اعتراف میں مختلف اخبارات و رسائل میں متعدد مضامین لکھے گئے۔

خالد کا انتقال۲۸ جنوری ۲۰۱۰ء کولاہور میں ہوا۔ ان کی تدفین ڈیفنس لاہور کے قبرستان میں عمل میں لائی گئی۔[51]

عبد العزیز خالد کی تصانیف میں شعری مجموعوں کے علاوہ تراجم اور نثری کتب شامل ہیں۔ان تصانیف کی تعداد ۴۰ کے قریب ہے۔جن میں زر داغ دل، کلک موج، کف دریا، دشت شام، سراب ساحل، فارقلیط، منحمنا، ثانی لاثانی، سلومی، فرقان جاوید اور کتاب العلم شامل ہیں۔

خالد کےمجموعہ ہائے کلام میں عربی،فارسی،عبرانی اورہندی زبانوں سے استفادے کا رجحان نظر آتا ہے۔ اس مخصوص رجحان کی مثال اردو شاعری میں بہت ہی کم ملتی ہے۔ خالد نے دیگر ادبی اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ تراجم کے میدان میں بھی اپنا کمال دکھایا۔ تراجم کے حوالے سے ان کا سب سے اہم کارنامہ فرقان جاوید کے نام سے منظوم ترجمۂ قرآن حکیم ہے۔ ترجمے کے لیے اختیار کردہ ہیئت "آزاد نظم"ہے۔موصوف نے اس ترجمے میں قرآن مجید کے مفہوم کوآسان اور سادہ الفاظ میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔

فرقان جاوید کی پہلی اشا عت ۱۹۸۸ء میں منظرِ عام پر آئی،ناشر مقبول اکیڈمی لاہورتھی۔ دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۹ء میں اسی ادارے سےطبع ہوا۔ راقم کے پیش نظر یہی دوسرا ایڈیشن ہے۔[52] سفید کا غذ پر شائع کیا گیا یہ نسخہ مجلد اور لیمینیٹڈ ہے۔صفحات کی کل تعداد ۱۰۷۱ہے۔

دوسرے صفحے پر قرآن حکیم کی عظمت وشان سے متعلق سات اشعار پر مشتمل ایک قطعہ ہے،جس کے بعد عرض مترجم کے نام سے منظوم مقدمہ ہے۔ یہ مقدمہ نظم معرّیٰ کی صورت میں ہے اوراس کے اشعار کی تعداد چودہ ہے۔ اس کے بعد اٹھارہ اشعار پر مشتمل ایک بلا عنوان مناجات ہے۔اگلے صفحات پر "فہرست سور قرآن"کے عنوان سے دو فہرستیں موجود ہیں۔ پہلی فہرست ترتیبِ تلاوت کے مطابق ہے، جوصفحہ ۹، ۱۰ پر موجود ہے۔ دوسری فہرست الفبائی ترتیب میں ہے، جو صفحہ ۱۱،۱۲ پر دی گئی ہے۔ اس کے بعد منظوم ترجمے کا آغاز ہوتا ہے۔ ہر صفحے پردو کالم بنائے گئے ہیں۔ دائیں کالم میں متن ِقرآنی ہے، جب کہ بائیں کالم میں منظوم ترجمہ تحریرہے۔ اس حوالے سے یہ خیال رکھا گیا ہے کہ متن اور منظوم ترجمہ سطر بہ سطر آمنے سامنے رہیں۔قرآنی متن میں آیت کے آخر میں اس کا نمبر درج ہے، جب کہ منظوم ترجمے میں آیت نمبر متعلقہ آیت کے ترجمے سے پہلے لکھا گیا ہے۔ اس ترجمے میں یہ التزام بھی کیا گیا ہےکہ ہرسورۃ کا آغازنئےصفحےسےہو۔چندمقامات پرفٹ نوٹ میں مختصر وضاحت بھی موجودہے۔ سورۃکے آغاز میں متعلقہ سورۃ کے دیگر نام فٹ نوٹ میں درج ہیں۔ مثلاًسورۃالفاتحۃ کے ۲۵ نام گنوائے گئے ہیں۔[53] سورۃ اللہب کے دو اورنام "تبَّت" اور "الْمَسَد"لکھے گئے ہیں۔[54] سورۃ الاخلاص کا دوسرا نام "سُورةُ اْلاَسَاس" فٹ نوٹ میں دیا گیا ہے۔[55]

ایک اور اہتمام جو اس ترجمے میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی لفظ یا مصرعے کی جگہ دوسرا لفظ یا مصرع بطورِ ترجمہ استعمال ہو سکتا ہو تو اسے بھی فٹ نوٹ میں درج کیا گیا ہے۔مثلاً

"وَمَا یَشْعُرُوْنَ" کا منظوم ترجمہ اور"ان کو کچھ شعور اس کا نہیں" کیا گیا ہے۔فٹ نوٹ میں "اور وہ رکھتے نہیں اس کا شعور" درج کیا گیا ہے۔[56]

اسی طرح "اِلَّا اِبْلِیْسَ" کا ترجمہ "سوا ابلیس کے" دیا گیا ہے۔ فٹ نوٹ میں "سوا" کی جگہ "بجز" لکھا گیا ہے۔[57]

بعض مقامات پرمنظوم ترجمے کے ساتھ ہی قوسین میں متبادل ترجمہ دیا گیا ہے۔مثلاً "وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ" کا منظوم ترجمہ"اور تم ظالم تھے" کیا گیا ہے اورساتھ ہی قوسین میں "بے انصاف تھے" بھی درج ہے۔[58] ترجمے کے آخر میں یہ قطعہ درج ہے:

ترجمہ تائید غیبی سے مکمل ہو گیاشکر کس منہ سے ہو اس شان کریمی کا ادا!

ایک جاہل کو بنایا محرم حرف و بیاں للہ الْمَنَّۃْ کہ ہے جس کی یہ بے پایاں عطا!

عام طور پر قرآن حکیم کے منظوم تراجم ،نثری تراجم کی مدد سے تیار کیے جاتے ہیں۔شعراء ان تراجم کی روشنی میں مضامینِ قرآنی کو شعری قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ ترجمہ کرنے والےاکثر شعراءقرآن حکیم اور عربی زبان سے براہ راست واقفیت نہیں رکھتے۔ فرقان جاویداس حوالے سےممتاز ہے کہ اس کے شاعر عربی زبان کے عالم تھے۔ اس منظوم ترجمۂ قرآن کا شماران چند تراجم میں ہوتا ہے جو قرآن حکیم کا براہ راست ترجمہ ہیں۔ مترجم اور متنِ قرآنی میں کوئی اور واسطہ موجود نہیں ہے۔

عبد العزیز خالد کی عربی ،فارسی اورعبرانی زبانوں سے وابستگی نےقرآن حکیم کے ترجمے کی تالیف میں انھیں بہت مدد دی ۔اپنے شاعرانہ مزاج سےوہ اس دقت طلب کام سے بہ سہولت عہدہ برآ ہو ئے۔

یہ منظوم ترجمہ اس حوالے سے بھی خوب ہے کہ اس میں کسی مخصوص بحر کی پابندی کواختیارنہیں کیا گیا۔مترجم نے قرآن حکیم کی ہر سورۃکے مزاج اورمضامین ومطالب کو پیش نظررکھتے ہوئے اس کے لیے بحر منتخب کی۔اسی بنا پر یہ بحور کی متعلقہ سورتوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ غنائیت کی حامل بھی ہیں۔مثلاً سورۃ الفاتحہ کے لیے مستعمل بحر،بحر مجتث مخبون محذوف(مفاعلن فِعلاتن مفاعلن فعلن)ہے۔ سورۃالبقرہ کا منظوم ترجمہ جس بحر میں کیا گیا ہے وہ بحر رمل مسدس سالم (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن)ہے۔ مترجم نے متنِ قرآنی کی ضرورت کے مطابق منظوم ترجمے میں بحر کے ارکان کی تعداد میں کمی بیشی بھی کی ہے۔اس سہولت کے باعث انھیں متن سے قریب مفہوم پیش کرنے میں آسانی رہی ہے۔

خالد نے آزاد نظم کی ہیئت استعمال کر کے منظوم ترجمے کی کئی مشکلات سے دامن بچایا ہے۔ اس کی بدولتفرقان جاویدمیں کئی ایسی خامیاں نظر نہیں آتیں جو دوسرے تراجم میں موجود ہیں۔ پابند نظم کے فنی لوازمات کو پورا کرنے کے لیے شاعرتوضیحی یا تصریحی طریقۂ کار اختیار کرتا ہے،جس کی وجہ سے ترجمہ متن سے زائد مفاہیم کا حامل ہو جاتا ہے۔فرقان جاویداس عیب سے بڑی حد تک پاک ہے۔ شاعر نےان جدید ہیئتی سہولیات سے بخوبی فائدہ اٹھایا ہے،اور ایک بہتر منظوم ترجمہ پیش کیا ہے۔ فرقان جاویدنثر سے قریب ترنظر آتا ہے۔ترجمے کی زبان سہل ہے اور اسے نثری انداز کے قریب کرنےمیں روزمرہ و محاورہ کے استعمال اورعام فہم الفاظ کےانتخاب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس منظوم ترجمے کےمختصر جائزے سے یہ بات بھی نکھر کر سامنے آتی ہے کہ عبدا لعزیزخالد منظوم ترجمے کے جملہ اصول و ضوابط اور اس کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں،اور ترجمہ کرتے وقت وہ ان تما م امور کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کاوش دیگر منظوم تراجم سےمنفرداوراعلیٰ مقام کی حامل ہے۔ڈاکٹر محمد نواز کنول فرقانِ جاویدکے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

"عبد العزیز خالد کا ترجمہ "فرقانِ جاوید" جو آزاد نظم میں ہے سلیس اور دل نشیں زبان میں ہے۔ خالد نے اس ترجمے میں شعریت کا خیال رکھتے ہوئے مطالب و مفاہیم کو کمال مہارت سے عالمانہ انداز میں پیش کیا ہے، گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ منظوم تراجم قرآن مجید میں عبدالعزیز خالد اپنی زبان دانی، علمیت اورقدرتِ الفاظ کے حوالے سے نمایاں حیثیت کے حامل ہیں"[59]

خالد نےاپنےمنظوم ترجمے کو آزاد نظم کی ہیئت عطا کر کے ایک نیا رخ متعین کیا۔ان کےاختیار کردہ نئےرنگ نے انھیں ترجمے کی تخلیق کے حوالے سےبہت سی آسانیاں بخشیں۔موصوف نے مختلف سورتوں کے موضوعات اور اندازِ بیان کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کا منظوم ترجمہ الگ الگ بحور میں کیا،جس کی وجہ سے وہ بہت سی رکاوٹوں سے دامن بچا کرایک خوبصورت ترجمہ پیش کرنے میں کامیاب رہے۔

(۵)مفہوم القرآن ازقاضی عطا ء اللہ عطاء

قاضی عطاءاللہ عطاءپسروری[60] ۱۹۳۴ء میں پسرور میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قاضی ظہور اللہ تھا، جو شہر کے مشہور تاجر تھے۔انھوں نے میٹرک کا امتحان ۱۹۴۷ء میں گورنمنٹ ہائی سکول پسرور سے پا س کیا۔اس سکول کے اساتذہ کی بدولت وہ شعرو ادب کی طرف مائل ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز لالہ موسیٰ میں آرٹسٹ کی حیثیت سے ملازمت سے کیا۔ ملازمت کی مصروفیات کے باعث وہ شاعری کو وقت نہ دے سکے۔ ۱۹۸۲ء میں گجرات سے ملازمت سےریٹائرہوئے۔اس دوران ان کی شناسائی آغا وفا ابدالی سے ہوئی۔اس تعارف کی بدولت ان کے اندر سویا ہوا شاعر بیدار ہوا اور انھوں نے شاعری کی طرف توجہ کی۔پسرورمیں "ادبی سبھا" کے نام سے ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم کےزیراہتمام مشاعروں اورادبی مجالس کا انعقاد ہونے لگا۔اس سبھا کے تحت ایک اشاعتی ادارہ بھی وجود میں آیا ،جس نے مختلف ادبی کتب شائع کیں۔

قاضی عطاء بنیادی طور پر ایک آرٹسٹ اور نعت گو شاعر ہیں۔ کتابت کے فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ان کی ایک درجن کے قریب مطبوعہ کتب دستیاب ہیں جن میں حمد ونعت پرمبنی مجموعۂ کلام ناز سخن، غزلیات پرمشتمل نیاز سخن، غزلیات،قطعات و رباعیات کا مجموعہ ساز سخن، قرآن حکیم کی توحیدی آیات کا منظوم مفہوم اعجاز سخن، سورۂ بقرۃ کا منظوم ترجمہ فراز سخن،تیسویں پارے کا ترجمہ راز سخن،گیارھویں پارے کا ترجمہ امتیاز سخن اور سورۂ آل عمران کا ترجمہ اعزاز سخن شامل ہیں۔ انھوں نے قرآنی دعاؤں کا مفہوم بھی نظم کیا۔ نثر میں شعرائے پسرور کے نام سے پسرور سے تعلق رکھنے والے شعراء کے تعارف پر مبنی کتاب لکھی۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنے دوست آغا وفا ابدالی کے مجموعہ ہائے کلام غبار دل، شرار دل، بہار دل کے ناموں سے مرتب کیے۔

مولانا رشید احمد پسروری کے مشورے پر قاضی عطاءاللہ نے منظوم ترجمۂ قرآن کا آغازکیا ۔ترجمے کی ابتداءءانھوں نے قرآنی دعاؤں کے ترجمے سے کی۔ بعد ازاں توحیدی آیات کا منظوم ترجمہ، پھر سورۃ بقرۃ، اس کے بعد تیسواں پارہ، گیارھواں پارہ، سورۃ آل عمران، سورۃ النسآء اور سورۃ المائدہ کے منظوم تراجم کیے ،جو الگ الگ شائع ہوئے۔دو سال اور چند ماہ میں قرآن حکیم کا مکمل منظوم ترجمہمفہوم القرآن کے نام سے مکمل کیا۔ قرآنی متن کے ساتھ موصوف نے نثری ترجمہ بھی دیا ہے، جس کی تیاری میں انھو ں نے تفہیم القرآن،بیان القرآن،معارف القرآن،کنز الایماناورمولانا فتح محمد جالندھری کے ترجمے سے مدد لی ہے۔

مفہوم القرآن اگست ۲۰۰۳ء سے جون۲۰۰۴ء تک طبع ہوا۔ یہ ترجمہ تین جلدوں پر مشتمل ہے اور اسے ادبی سبھا پسرور نے شائع کیا ہے۔ پہلی جلد سورۃفاتحہ سے سورۃ توبہ تک، دوسری جلد سورۃ یونس سے سورۃفاطر تک جب کہ تیسری جلد سورۂ یٰس سے سورۃ الناس تک ہے۔عطاء صاحب نے ترجمے کے لیے مسدس، قطعہ اور رباعی کی ہیئتیں استعمال کی ہیں۔ ترجمے کی ترتیب اس طرح ہے کہ ہر صفحے پر پہلے قرآنی متن ہے، جس کے نیچے سلیس اردو نثری ترجمہ ہے، اور اس کے بعد منظوم ترجمہ دیا گیا ہے۔

عطاء قاضی کا یہ ترجمہ روزمرہ و محاورہ سے آراستہ ہے اور اس میں حسن بیان کے ساتھ ساتھ صراحتی اورتوضیحی انداز بھی موجود ہے۔ترجمے میں زیادہ تر مسدس کی ہیئت کو برتا گیا ہے، لیکن بعض اوقات اس میں مزید مصرعوں کا اضافہ کر کے مذکورہ ہیئت سے روگردانی بھی کی گئی ہے۔درحقیقت یہ شاعر کی مجبوری ہوتی ہے، کیوں کہ قرآن مجید کے مطالب ومعانی کو کسی مخصوص ہیئت اور وزن میں بیان کرنا کارِ دشوار ثابت ہوتا ہے۔

مترجم نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ ترجمہ بامحاورہ اور سلیس ہو، جس میں وہ خاصے کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کا "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ" کا ترجمہ نہ صرف سہل اورمتن سے قریب تر مفہوم کا حامل ہے بلکہ دیگر کئی منظوم تراجم سے زیادہ مناسب اور قابلِ قبول نظر آتا ہے۔ترجمہ یہ ہے:

ساری تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے جو کہ ہے پالنے والا سبھی دنیاؤں کا[61]

ترجمے میں تفسیری و توضیحی انداز کی گنجائش موجود نہیں ہوتی، مگرمترجم نے بوجوہ یہ انداز بھی اختیار کیا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:

ایسارحمان کہ شفقت کی کوئی حد ہی نہیں ہے رحیم ایسا کہ مڑ مڑ کے ہے رحمت کرتا[62]

اس شعر کے پہلے مصرعے میں اصل مضمون کے ساتھ توضیحی انداز کا الحاق کیا گیا ہے۔ یہاں"شفقت کی کوئی حد ہی نہیں" درحقیقت "رحمان" کے مفہوم کی توضیحی صورت ہے۔ دوسرے مصرعے میں "مڑ مڑ کے ہے رحمت کرتا" کے الفاظ اصل مفہوم اورترجمےسےمناسبت قائم نہیں کرسکتے۔بنظر غائر تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے مصرعے میں "مڑ مڑ"کے الفاظ ضرورت شعری کے تحت تو استعمال ہوسکتے ہیں، لیکن ان کا متن ِقرآنی سے کوئی تعلق نہیں۔

"مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ"[63] کا منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو:

ہے وہی روز جزا او ر سزا کا مالک دن قیامت کا اور فنا اور بقا کا مالک[64]

مذکورہ شعر کا مصرعِ ثانی مکمل طور پر تفسیری اور تصریحی انداز کا حامل ہے،جس کا نصِ قرآنی سے کوئی تعلق استوار نہیں ہوتا۔اسی طرح"وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ"[65] کا منظوم ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:

اور آخرت پر بھی یقیں تام ہے ان لوگوں کا نیک بندوں میں بڑا نام ہے ان لوگوں کا[66]

یہا ں پہلے مصرعے میں "تام" اور"لوگوں"کے الفاظ متن سے زائد ہیں ،تاہم مجموعی طور پر یہ مصرع متن کے مطابق مفہوم کا حامل ہے۔ البتہ دوسرےمصرعےکےمقابل آیت کےاس ٹکڑےمیں کوئی لفظ موجودنہیں ہے۔

یہ فرو گذاشتیں اس ترجمے کے معیار کو کم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ بہتر یہ تھا کہ مترجم سرورق پر "ترجمہ مع مطالب و مفہوم" کے الفاظ شامل کر دیتے تو اس توضیحی انداز کی کوئی منطقی دلیل قائم کی جاسکتی تھی۔

نتائج و تجاویز

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کانظم کی صورت میں ترجمہ مناسب نہیں ہے۔ اس کے لوازمات اورقیود درست ترجمے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

  1. شاعری کی پابند ہیئت میں متن کی بہتر ترجمانی مشکل ہے،کیوں کہ ہر ہیئت کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں جن کا ساتھ ترجمہ نہیں دے سکتا۔
  2. وزن و بحرکی پابندی کی وجہ سے ترجمے میں زائد الفاظ آجاتے ہیں، جس سے منظوم ترجمہ تفسیری رنگ اختیار کر لیتا ہے۔
  3. ردیف اور قافیے کی پابندیاں بھی مترجم کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
  4. اکثر شعراء عربی زبان کی باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے،جس کی وجہ سے متن کا درست مفہوم سامنے نہیں آتا۔
  5. آزاد نظم کی ہیئت سےشاعر کی مشکلات کسی حد تک کم ہو جاتی ہیں،تاہم اس کےبہتر استعمال کے لیے کامل فنی مہارت ضروری ہے۔


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات: == مرتبین محمودالحسن عارف،ڈاکٹر،ترجمہ قرآن حکیم۔آغاز و ارتقا ا ور مشکلات و مسائل،مشمولہ مقالات قرآن کانفرنس، جلداول،پروفیسر ڈاکٹر سلیم طارق خان،پرو فیسر ڈاکٹر عبد الر ؤ ف ظفر، دی اسلامیہ یونیو رسٹی آف بہاولپور، ۲۰۰۹ء، ص:۸۳۔۸۴۔ Maḥmuwd al Ḥassan ‘Arif, Dr., Tarjumah Qurān Ḥakiym- Āghaz w Airtiqa’ awr Mushkilat w Masail."(In Maqalat i Qurān Conference, by Prof,Dr. ‘Abdul Ra’uf ẓafar,Prof, Dr. Saliym Ṭariq Khan, (Bahawalpuwr: The Islamiah University Of Bahawalpuwr, 2009), p:83,84.
  2. صالحہ عبدالحکیم شرف الدین، ڈاکٹر،قرآن حکیم کے اردو تراجم، قدیمی کتب خانہ، کراچی، س۔ن، ص:۸۲۔ Dr. Saliḥah ‘Abdul Ḥakiym Sharaf al Diyn, Qurān i Ḥakiym ky Urdu Tarajim, (Karachi: Qadiymi Kutab Khanah), p:82.
  3. ایضاً ، ص:۸۱ Ibid., 81.
  4. جمیل نقوی،اردو تفاسیر(کتابیات)، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد، ۱۹۹۲ء، ص:۲۵۔ Naqwi, Jamil, Urdu Tafasiyr (Kitabiyat), (Islamabad: Muqtadrah Qaumiy Zuban, 1992), p:25.
  5. احمد خان ، ڈاکٹر ،قرآن کریم کے اردو تراجم(کتابیات)، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۷ء، ص:۱۲۔ Ahmad Khan, Dr., Quran e Kareem k Urdu Tarajam (Kitabiyaat). (Islamabad: Muqtadra Qoumi Zuban, 1987), p:12
  6. محمو د الحسن عارف،ڈاکٹر ،ترجمہ قرآن حکیم۔آغاز و ارتقا ا ور مشکلات و مسائل، ص:۸۴۔ Mehmood ul Hassan Arif, Dr. "Tarjuma Quran e Hakeem- Azghaaz o Irtiqa' Masail o Mushkilaat, p:84.
  7. جمیل نقوی،اردو تفاسیر(کتابیات)، ص:۲۶۔ Naqvi, Jamil. Urdu Tafaseer (Kitabiyaat), p:26.
  8. ایضاً،ص:۲۷۔ Ibid., p:27.
  9. ایضاً ،ص:۲۶۔ Ibid., p:26.
  10. احمد خان ، ڈاکٹر ،مرتب، قرآن کریم کے اردو تراجم(کتابیات)، ص:۱۷۰ Ahmad Khan, Dr., Qur’ān e Kareem k Urdu Tarajam (Kitabiyaat), p:170.
  11. ایضاً ،ص:۲۳۳،حمیدشطاری،ڈاکٹر ،سید،قرآن مجیدکے اردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ،نیشنل فائن پرنٹنگ پریس،حیدر آباد، ستمبر۱۹۸۲ء، ص:۳۸۶۔ Ibid., 233, Hameed Shattari, Dr,Syed. Quran Majeed kay Urdu Tarjam o Tafaseer Ka Tanqeedi Mutaliha.( Haydarabad: National Fine Printing Press, 1982), p:386.
  12. اثر زبیری لکھنوی کے حالات اور دیگر معلومات ان کے منظوم ترجمۂ قرآن سحر البیان کے مقدمہ،سید محمد قاسم کی تصنیف پاکستان کے نعت گو شعراء جلد سوم ، فروری ۲۰۱۰ء،ص:۱۰۷،اور محمد سعید شیخ کے مضمون‘منظوم اردو تراجم و تفاسیر۔ تعارفی جائزہ ’مشمولہ مقالات قرآن کانفرنس، جلداول ،محولہ بالاسے ماخوذ ہیں۔ Asar Zubairi, Lakhnavi. Sehr ul Bayan. (Karachi: Al-Hijaz Publishers), Muhammad Qasim, Syed. Pakistan kay Naat gou Shuharaa. (Karachi: Jahan e Hamd Publications, 2010.) 107, Muhammad Saeed, Shaikh. "Manzoom Urdu Tarajam o Tafaseer." (In Maqalaat e Quran Confernce)
  13. محمد نسیم عثمانی،پروفیسر،ڈاکٹر،اردو میں تفسیری ادب،عثمانیہ اکیڈمک ٹرسٹ، کراچی، ۱۹۹۴ء،ص :۱۱۰۔ Muḥammad Naseem Usmani, Prof, Dr. Urdu myn Tafseeri Adab, (Karachi: Usmania Academic Trust, 1994), p:110.
  14. سورۃ البقرۃ ،۶۔ Al Baqarah, 6.
  15. اثر زبیری لکھنوی،سحر البیان، جلد اول،الحجاز پبلشرز، کراچی،س۔ن، ص:۴۔ Athar Zubaiyriy, Lakhnavi. Saḥ r Al Bayan.(Karachi: Al Ḥijaz Publishers),p: 4.
  16. ایضاً،ص:۲۔ Ibid., p:2.
  17. سورۃالفاتحہ،۲۔ Al Fatiha, 2.
  18. اثرزبیری لکھنوی،سحر البیان، جلد اول، ص ۲ Athar Zubaiyriy, Lakhnavi. Saḥ r Al Bayan.(Karachi: Al Ḥijaz Publishers),p:2
  19. سورۃ البقرۃ ،۴۔ Al Baqarah, 4.
  20. اثرزبیری لکھنوی،سحر البیان، جلد اول ص:۳۔ Athar Zubaiyriy, Lakhnavi. Saḥ r Al Bayan.(Karachi: Al Ḥijaz Publishers), p:3.
  21. سیماب اکبر آبادی کے فن اور شخصیت کا احوال ان کی تصنیف کلیم عجم،حامد اقبال صدیقی کی کتاب سیماب اکبر آبادی اور وحیِ منظوم کے ابتدایئے سے اخذ شدہ ہے۔ Siymab, Akbar Ābadi, Kaliym e ‘Ajam. (Āgra: Dar Al Asha‘at Qaṣar Al Adab, 1936), Hamid Iqbal, Ṣiddiqiy, Siymab, Akbar Ābadi, (Delhi: Sahtiya Academy, 2009), Siymab, Akbar Ābadi, Waḥiy e Manẓum, (Karachi: Siymab Academy, 1981).
  22. سیماب اکبر آبادی نے کلیم عجم میں اپنا سال ولادت ۱۲۹۹ھ بمطابق ۱۸۸۰ء لکھا ہے، حامد اقبال صدیقی نے سنہ ولادت ۱۸۸۲ء تحریر کیاہے ، کہ ۱۲۹۹ھ عیسوی سنہ کے مطابق ۱۸۸۲ء ہی بنتاہے، اور یہی درست ہے، اس لیے سنہ ولادت ۱۸۸۲ء لکھا گیا ہے۔  Hamid Iqbal Ṣiddiqiy, Siymab, Akbar Ābadi.
  23. حامد اقبال صدیقی، سیماب اکبر آبادی، ساہتیہ اکیڈمی، دہلی، ۲۰۰۹ء، ص:۲۱۔ Hamid Iqbal Ṣiddiqiy, Siymab, Akbar Ābadi, 21.
  24. مظہر صدیقی ، ابتدائیہ وحیِ منظوم ، سیماب اکیڈمی،کراچی، نومبر ۱۹۸۱ء۔ Maẓhar Ṣiddiqiy, Ibtada’iyyah,( In Waḥiy e Manẓum, by Siymab, Akbar Ābadi).
  25. محمد عالم مختار حق، اردو تراجم و تفاسیر،مشمولہ ،ماہنامہ فیض الاسلام، راولپنڈی،قرآن نمبر، ج:۲۰, ش:۱،۲، (جنوری، فروری ۱۶۹۸ء) ص:۸۲۔ Muḥammad ‘Alam Mukhtar Ḥaq, Urdu Tarajim Wa Tafasiyr, Mashmuwlah Mahnama Fayz Al Islam, Qurān Number, Vol:20, Issue:1,2, (January,February: 1698), p:82.
  26. سیماب اکبر آبادی،وحیِ منظوم، ص:۵۵۔ Siymab, Akbar Ābadi, Waḥiy e Manẓum, p: 55.
  27. سورۃ البقرۃ،۲۳۴۔ Al Baqarah, 234.
  28. سیماب اکبر آبادی،وحیِ منظوم،ص:۶۱۔ Siymab, Akbar Ābadi, Waḥiy e Manẓum, p:61.
  29. سورۃ الکوثر،۲۔۱ Al Kousar, 1-2.
  30. سیماب اکبر آبادی،وحیِ منظوم ،ص:۹۶۹۔ Siymab, Akbar Ābadi, Waḥiy e Manẓum, p:969.
  31. ایضاً ،ص:۸۸۱۔ Ibid., p:881.
  32. سید شمیم رجز کے حالات ا ن کی تصنیف خلوص بیکراں میں"تعارف مصنف"، محمد سعید شیخ کے مقالہ "منظوم اردوتراجم و تفاسیر۔تعارفی جائزہ" اور ان کی بیٹی سیدہ در نجف زیبی کے مکتوب بنام راقم کی مدد سے تر تیب دیے گئے ہیں۔ Shamiym Rajz, Sayid, Khuluṣ e Bykaran, (Lahore: ẓafar Sons Printers, 2005), Muḥammad Sa‘iyd, Shaykh, Manẓuwm Urdu Tarajam w Tafasiyr, Durr e Najaf Zaiyby, Letter to Writer.
  33. شمیم رجز، سید،آب رواں ،جلد اول، ادارہ تصنیف و تالیف اسلامیہ، لاہور، بار اول، ۱۹۸۰ء، ص:۴۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Āb I Rawan, (Lahore: Idarah Taṣniyf w Taliyf e Islamiyah, 1980), 1:4.
  34. در نجف زیبی، سیدہ ،مکتوب بنام راقم۔ Durr e Najaf Zaiyby, Letter to Writer
  35. "Much More Than a Show of Love for Urdu.(http://pakistanlink.org. December 9, 2006) http://pakistanlink.org/Community/2006/Dec06/29/04.HTM,(accessed December 29, 2014)
  36. آب رواں ،جلد اول، ص:۴۔۵۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Āb I Rawan, 1:4,5.
  37. اردو تفاسیر(کتابیات)، ص :۴۷۔ Urdu Tafasiyr, (Kitabiyat), p: 47.
  38. سورۃ البقرۃ،۷۔ Al Baqarah, 7.
  39. شمیم رجز،سید ،مثنوی آبِ رواں، اشاعتِ دوم، اظہار سنز، لاہور،اکتوبر ۲۰۰۵ء ، ص:۴۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Mathnawiy Āb I Rawan, (Lahore: Iẓhar Sons, 2nd Edition, October 2005), p:4.
  40. سورۃ البقرۃ، ۹۔ Al Baqarah, 9.
  41. شمیم رجز،مثنوی آبِ رواں،ص:۴۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Mathnawiy Āb I Rawan, p:4.
  42. سورۃ البقرۃ، ۱۳۔ Al Baqarah, 13.
  43. شمیم رجز،مثنوی آبِ رواں،ص:۴۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Mathnawiy Āb I Rawan, p:4
  44. سورۃ البقرۃ،۱۴۔ Al Baqarah, 14.
  45. 45 شمیم رجز،مثنوی آبِ رواں،ص:۴۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Mathnawiy Āb I Rawan, p:4
  46. سورۃ البقرۃ ،۱۴۔ Al Baqarah, 14.
  47. شمیم رجز،مثنوی آبِ رواں،ص:۴۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Mathnawiy Āb I Rawan, p:4.
  48. سورۃ البقرۃ ،۱۵۔ Al Baqarah, 15.
  49. شمیم رجز،مثنوی آبِ رواں،ص:۴۔ Shamiym Rajz, Sayyid, Mathnawiy Āb I Rawan, p:4.
  50. عبدا لعزیز خالد کی زندگی کے حوالے سے معلومات مہمات خالد(مرتبہ کامل القادری)، ارمغان خالد ( مرتبہ ڈاکٹرنصیر احمد ناصر) اورڈاکٹرمحمدنواز کنول کی تصنیف عبد العزیز خالد،احوال و آثارسے ماخوذ ہیں۔ Kamil Al Qadri,Muhimmat i Khalid,(Lahore:Shaiykh Ghulam Ali & Sons, 1976),Dr. Naṣir Aḥmad Naṣir, Armaghan e Kahlid, (Lahore: Maqbuwl Academy,1988),Dr. Muḥammad Nawaz Kanwal,‘Abdul Aziyz Kahlid Aḥwal w Āsar, (Lahore: Iẓhar Sons, 2015)
  51. محمدنواز کنول، ڈاکٹر، عبد العزیز خالد،احوال و آثار، اظہار سنز، لاہور، ۲۰۱۵ء،ص:۱۰۵۔ Dr. Muḥammad Nawaz Kanwal,‘Abdul Aziyz Kahlid Aḥwal w Āsar, (Lahore: Iẓhar Sons, 2015), p: 105
  52. عبدا لعزیز خالد، فرقان جاوید، مقبول اکیڈمی، لاہور، طبع دوم،۱۹۸۹ء۔ Khalid, ‘Abul ‘Aziyz, Furqan Jawayd, (Lahore: Maqbuwl Academy, 2nd Edition, 1989).
  53. ایضاً،ص:۱۳۔ Ibid., p:13.
  54. ایضاً،ص:۱۰۶۷۔ Ibid., p:1067.
  55. ایضاً،ص:۱۰۶۸۔ Ibid., p:1068.
  56. ایضاً، ص:۱۵۔ Ibid., p:15.
  57. ایضاً، ص:۳۰۔ Ibid., p:30.
  58. ایضاً،ص:۲۳۔ Ibid., p:23.
  59. محمد نواز کنول، ڈاکٹر،عبد العزیز خالد بطور مترجم، اظہار سنز ،لاہور،۲۰۱۵ء،ص: ۴۷۔ Dr. Muḥammad Nawaz Kanwal,‘Abdul Aziyz Kahlid Batawr Mutarjim, (Lahore: Iẓhar Sons, 2015), p:47.
  60. قاضی عطاء اللہ کے حالات محمد سعید شیخ کے مضمو ن "منظوم اردو تراجم و تفاسیر۔تعارفی جائزہ" کی مددسے مرتب کیے گئے ہیں۔ Muḥammad Sa‘iyd Shaykh, Manzuwm Urdu Tarajim w Tafasiyr: Ta‘arufiy Ja’izah.
  61. عطاء قاضی،مفہوم القرآن،جلد اول،ادبی سبھا ،پسرور،۱۴اگست ۲۰۰۳ء،ص:۹ Qaḍi, ‘Atta, Mafhuwm Al Qur’ān, (Pasruwr: Adabiy Sabha, 14th August 2003), 1:9.
  62. ایضاً Ibid.
  63. سورۃ الفاتحہ،۴۔ Al Fatiḥah, 4.
  64. عطاء قاضی،مفہوم القرآن، ص:۹۔ Qaḍi, ‘Atta, Mafhuwm Al Qur’ān, p:9.
  65. سورۃ البقرۃ ،۴۔ Al Baqarah, 4.
  66. عطاء قاضی،مفہوم القرآن، ص:۱۱۔ Qaḍi, ‘Atta, Mafhuwm Al Qur’ān, p:11.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...