Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

مصحف ابن مسعود کی تاریخی حیثیت کے بارے میں ابن وراق کی آراء کا تنقیدی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060030498_1189

Pages

1-10

DOI

10.36476/JIRS.2:1.06.2017.01

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/269/102

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/269

Subjects

Mushaf Ibn E Mas’ud Ibn Warraq Qur’an Mushaf ibn e Mas’ud ibn Warraq Qur’an

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ابتدائیہ

قراء ات قرآنیہ مستشرقین اور استشراق زدہ ذہنوں کے حاملین کے لیے ہمیشہ باعث تشکیک رہی ہیں۔ چنانچہ ساتویں صدی عیسوی سے تاحال قرآن کریم پر کام کرنے والے یہود و نصارٰی نے ان قراء ات کو لحن و لہجہ اور تلفّظ کے فرق کے برعکس متنِ قرآن کا اختلاف قرار دیتے ہوئے دعوٰی کیا کہ اگر قرآن کا متن منزّل من اللہ ہوتا تو متعین ہوتا اور ایک ہی انداز میں پڑھا جاتا۔ اس کی قراء ت کے مختلف طُرُق نہ ہوتے۔ چنانچہ یہود و نصارٰی نے اپنی اپنی دانست اور افتادِ طبع کے مطابق اپنی اپنی کتب اور مقالات میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔

عصرِ حاضر میں ان کے بعض جانشین [جو خود لادین ہیں لیکن یہود و نصاریٰ کی نیابت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں] ان کے نظریات اور ان کی نام نہاد، مبنی برتعصّب و عناد تحقیقات کے من چاہے نتائج کے پرچار میں کوشاں ہیں۔ ان کی کتب و مقالات کی تدوینِ نو کرکے ان کو شائع کررہے ہیں۔ اسی طبقے کا ایک نمایاں نام ابن ورّاق ہے۔ ابن ورّاق قلمی نام راج کوٹ ہندوستان کے ایک مسلم گھرانے میں جنم لینے والا’’ حالاً دہریہ‘‘ ہے[1] ، جو قرآن کریم پر مستشرقین کی تقریباً تمام اہم کتب و مقالات کو از سر نو مدون کرکے شائع کررہا ہے۔ نیز انہی استشراقی تحقیقات پر تکیہ کرتے ہوئے خود بھی مقالات وغیرہ لکھ کر رسائل و جرائد میں شائع کرانے میں مشغول ہے۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی اس کا مقالہ "Which Koran" ہے۔ اس مقالے میں اس نے متن قرآن پر انگشت نمائی کرتے ہوئے اسے خالصتاً انسانی تصنیف قرار دیا ہے جس کا بہت سا حصہ دست برد زمانہ کی نذر ہوچکا ہے۔ جس کی تدوین ایک طویل تاریخ کی حامل ہے اور اس کا ثبوت وہ قراء ات قرآنیہ ہیں جو دراصل متن قرآن کی "re-editing" کے مختلف مراحل ہیں۔ جبکہ مسلمان اپنے قرآن کو محفوظ و مامون ثابت کرنے کے لیے حقیقت سے اغماض برتتے ہوئے اس کو قراء ت کے مختلف طرق قرار دیتے ہیں[2]۔

اس ادعّا کی تصدیق و تائید کے لیے ابن ورّاق مصاحفِ صحابہ کے حوالے دیتے ہوئے ان کو بھی مصحف عثمانی کے مساوی قرار دیتا ہے۔ اس کے مطابق مصحف عثمان مختلف مقابل مسوّدات میں سے ایک تھا ااور مصحف ابن مسعود جو بدقسمتی سے ہماری دسترس میں نہیں وہ بھی اسی مقام و مرتبے کا حامل تھا، اگرچہ وہ مصحف ہمارے پاس موجود نہیں لیکن تفاسیر میں موجود قراء اتِ صحابہ میں حضرت ابن مسعودؓ کی جانب منسوب قراء ات کی تعداد چونکہ سب سے زیادہ ہے۔ لہٰذا مستشرقین (برٹن، نولڈکے، آرتھر جیفری وغیرہ) اور ان کے تتبّع میں ابن ورّاق نے اس مصحف کو مقابل مسوّدات (rival codices) میں سے اساسی و اہم ترین گردانتے ہوئے اس مصحف اور مصحف عثمانی کے مابین پائے جانے والے تضادات کی بنا پر متن قرآن کے پایۂ استناد پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور مصحف ابن مسعودؓ کو تدوین متن قرآن کے مختلف مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ قرار دیا ہے۔ بقول ابن ورّاق مصحف ابن مسعودؓ کے اہم ممیزات درج ذیل ہیں:

۱-ترتیب سور اور اسمائے سور کا مصحف عثمانی سے مصحف ہونا

۲-الفاتحہ اور معوذتین کی عدم موجودگی

۳-کثیر تعداد میں قراء ات کا اختلاف جو محض قرا ء ات نہیں تھیں بلکہ انہی کی بنا پر کوفی مکتب فکر کی داغ بیل پڑی۔

۴-اگر ہم صحابہ کی جانب منسوب قراء ات کو غیر معتبر گردانتے ہیں تو ہمیں ان سے مروی احادیث کو بھی غیر معتبر قرار دینا ہوگا۔

اس مقالہ میں ابن ورّاق کے پیش کردہ مواد اور اس کے مصادر و دعاوی کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا۔ مقالہ کی ابتداء میں میں حضرت ابن مسعودؓ کی مختصر سوانح اور ان کے مصحف کی تالیف کا اجمالی بیان ہے۔ جس کے بعد امہات الکتب کی روشنی میں تحقیق کی چشم کشادہ سے ان نکات پر بحث کی گئی ہے کہ مصحف ابن مسعود قراء ات کے حوالے سے مصحف عثمانی سے کس حد تک مختلف تھا اور کیوں؟ اور کیا ان کی جانب منسوب قراء ات معتبر ہیں؟،اورمقالہ کے آخر میں اختتامیہ پیش کیا گیاہے۔

حضرت عبداللہؓ بن مسعود- ایک تعارف

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ آنجنابﷺ کے ان جانثار رفقا میں سے تھے جو بعثت رسولﷺ کے ابتدائی ایام ہی سے آپﷺ کے ساتھ تھے۔ سابقون الاولون میں وہ چھٹے شمار کیے جاتے ہیں[3]۔ ان کی ولادت ۲۲ عام الفیل میں ہوئی ان کا تعلق قبیلہ ھذیل سے تھا۔ مدرکہ بن الیاس پر ان کا سلسلۂ نسب آنجنابﷺ سے جاملتا ہے[4]۔ نوجوانی میں دستور عرب کے مطابق گلّہ بانی کا پیشہ اختیار کیا۔ ایک دن بکریاں چرا رہے تھے جب آپﷺ اور حضرت ابوبکرؓ صدیق سے ملاقات ہوئی۔ اسی ملاقات میں حضورﷺ کا ایک معجزہ دیکھا جو ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب بن گیا[5]۔

حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد بیش تر وقت بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر رہے۔ جلوت و خلوت، سفر و حضر میں آنجنابﷺ کے رفیق خاص تھے۔ قربت و رفاقت کا یہ عالم تھا کہ اکثر و بیشتر بیرونِ مکہ مکرمہ سے آنے والوں کو گمان ہوتا کہ شاید وہ آنجنابﷺ کے اہل بیت میں سے ہیں[6]۔ صحابہؓ میں سے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مشرکین مکہ کے سامنے بآواز بلند تلاوتِ قرآن کی جس پر ان کو زدو کوب کیا گیا[7]۔

حضرت ابن مسعودؓ تمام معرکوں میں رفیقِ رسولﷺ رہے۔ اسی طرح اہم مواقع مثلاً لیلۃ الجن اور معجزہ شق القمر کے عینی شاہدین میں سے تھے[8]۔ اہلِ مکہ کے ظلم و جور سے تحفظ کے لیے جن لوگوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کا اذن ملا ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی شامل تھے۔ تاہم مختصر سی مدت کے بعد وہ قریش کے مسلمان ہونے کی افواہ پر واپس لوٹ آئے[9]۔ اس عرصے کے علاوہ آنجنابﷺ کے وصال تک آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر رہے۔ ۲۰ھ میں حضرت عمرؓ نے ان کو قاضی اور امورِ بیت المال کا نگران بناکر کوفہ بھیجا[10]۔ دس سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور نہایت احسن طریقے سے یہ منصبِ گراں بار اٹھایا۔

حضرت عثمان غنیؓ کے عہد مبارک میں ۳۲ھ میں انھیں مدینہ منورہ بلوالیا۔ وہیں ان کی وفات ۳۲ھ اور ایک روایت کے مطابق ۳۳ھ میں ہوئی اور ان کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا[11]۔ابن مسعودؓ کا بیش تر وقت تلاوت قرآن اور تفکّر و تدبّرِ قرآن میں بسر ہوتا۔ آنجنابﷺ کی ہمہ وقتی رفاقت ان کی علمی طلب و جستجو کو مزید مہمیز دینے کا سبب بنی۔ علوم قرآن سے ان کا شغف ان کے درج ذیل فرامین سے خوب جھلکتا ہے:

’’اللہ کی قسم میں نے آنحضورﷺ سے ستر سے کچھ زائد سور براہِ راست سیکھیں‘‘ اور ’’آپﷺ کے اصحاب جانتے ہیں[12] کہ میں ان میں سے کتاب اللہ کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں اگرچہ میں ان میں سے بہترین نہیں ہوں‘‘[13]۔ اسی طرح ’’اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مجھ سے زیادہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کتاب اللہ کی کون سی سورت کہاں نازل ہوئی اور نہ کسی آیت کے متعلق کوئی مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے اور اگر کوئی ہے اور اس تک اونٹ جاسکتے ہیں تو میں ضرور اس کی طرف سفر کروں‘‘۔[14]

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی علمی استعداد شغف و انہماکِ قرآن اور درک کو صحابہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان کو کنیف مَلِیَٔ علمَا (علم سے بھرپور باڑہ) قرار دیا۔ ایک بار حضرت عمرؓ کے پاس، جبکہ وہ میدان عرفات میں تھے، ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں نے عراق میں ایک ایسا شخص دیکھا ہے جو لوگوں کو محض اپنے حفظ کی بنا پر مصحف املا کرواتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کا چہرہ شدت غضب سے سرخ ہوگیا۔ فرمایا کون ہے وہ شخص؟ جواب ملا عبداللہ بن مسعودؓ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا وہ اس کا حق رکھتے ہیں[15]۔

خوش الحانی حضرت ابن مسعود کا امتیازی وصف تھا۔ وہ بہت ہی پرتاثیر اور بلند آواز میں قراء ت فرماتے[16]۔ آنجنابﷺ حضرت ابن مسعود کی تلاوت بڑی رغبت اور شوق سے سماعت فرماتے تھے۔[17]

مصحف عبداللہ بن مسعودؓ

حضرت عبداللہ بن مسعود بھی ان سعید صحابہ کرامؓ میں سے تھے جو قرآن کریم کو ضبط تحریر میں لارہے تھے۔ کتابت وحی کے لیے اگرچہ کچھ صحابہ کی ذمہ داری لگائی گئی تھی لیکن صحابہ کرام اپنے اپنے ذوق کے مطابق آپﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکر قرآن کریم سنتے، حفظ بھی کرتے اور محفوظ بھی۔ ان کے مکتوبہ نسخے دراصل ان کی ذاتی بیاض یا ڈائری ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ انفرادی مصاحف ایک دوسرے سے مختلف ہوتے تھے۔ کوئی صحابہ جتنی سورتیں آپﷺ سے اخذ کرتے ان کو اسی اعتبار سے اپنے مصحف میں شامل کرلیتے۔ اسی طرح حضرت ابن مسعود کا بھی ایک ذاتی نسخہ قرآن تھا۔

حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم و فضلہ میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق عبدالرحمن بن عبداللہ [بن مسعود] نے ایک کتاب دکھائی اور حاضرین مجلس کو حلفاً بتایا کہ یہ میرے والد نے لکھی ہے[18]۔ یہ روایت حضرت ابن مسعود کے نوشت و خواند سے شناسا ہونے اور کتابت کے ذریعے علم کو محفوظ کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کے قرآن سے شغف و محبت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ انہوں نے اپنا مصحف ذاتی نسخہ مرتب کیا ہوگا۔ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مصحف کا حوالہ دیتے ہوئے تألیف ابن مسعود کے الفاظ استعمال کیے ہیں[19]۔ بخاری ہی کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مصحف ابن مسعود کی ترتیب سور تالیف مشہور [عثمانی] کے موافق نہیں تھی[20]۔ چونکہ یہ نسخہ ذاتی نوعیت کا تھا لہٰذا اس پر حواشی بھی تھے اور مہبط وحی سے مأخوذ تفسیری اضافے بھی، وضاحتی نوٹ وغیرہ بھی۔

مصحف ابن مسعودؓ اور ابن ورّاق کے دعاوی کی صداقت

اس حصّے میں امہات الکتب کی روشنی میں تحقیق کی چشم کشادہ سے اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ مصحف عبداللہ بن مسعود کے حوالے سے ابن ورّاق کے دعاوی میں کتنی صداقت ہے۔ اس ضمن میں چونکہ ابن ورّاق کی تحقیق و نگارشات کا بنیادی مصدر و مرکز آرتھرجیفری (۱۸-۱۹۵۲)[21] کی کتاب[22] ہے۔ لہٰذا سطور زیریں میں ابن ورّاق کے ساتھ ساتھ مذکورہ مستشرق کی آرا کا محاکمہ بھی کیا جائے گا۔ ذیل میں ابن ورّاق کے اٹھائے ہوئے نکات پر بالترتیب بحث پیش ہے۔

۱-ابن ورّاق کے مطابق مصحف ابن مسعود میں ترتیبِ سور مصحف عثمان سے مختلف تھی۔

امر واقعہ یہ ہے کہ مصحف ابن مسعود اب ہماری دسترس میں نہیں ہے۔ اس کے متعلق ہماری معلومات دیگر کتب پر مشتمل و منحصر ہیں۔ چنانچہ ابن ندیم کی فہرست کے مطابق مصحف مسعود کی ترتیب سور کی ایک فہرست درج ذیل ہے:

’’فضل بن شاذان کہتے ہیں کہ میں نے مصحف عبداللہ بن مسعود میں سورالقرآن کو اس ترتیب پر پایا: البقرة، نساء، آل عمران، المص، یونس، براءة، النحل، هود، یوسف، بنی اسرائیل، الانبیاء، المومنون، الشعراء، الصفّٰت، الاحزاب، القصص، النور، الانفال، مریم، العنکبوت، الروم، یٰس، الفرقان، الحج، الرعد، سباء، المکیه، ابراهیم، ص، الذین کفروا، القمر، الذمر، الحوامیم، المسبحات، حم المومن، حم الزخرف، حم السجدہ، الاحقاف، الجاثیه، الدخان، انافتحنا، الحدید، الحشر، تنزیل، السجدة، ق، الطلاق، الحجرات، تبارک الذی بیده الملک، التغابن، المنافقون، الجمعة، الحواریون، قل اوحی انا ارسلنا نوحا، المجادله، المتحنة، یاایهاالنبی،لم تحرم، الرحمن، النجم، الذریٰت، الطور، اقتربت الساعة، الحاقة، اذاوقعت، القلم، النازعات، سأل سائل، المدثر، المطففین، عبس، هل أتی علی الانسان، القیامة، المرسلت، عمّ یتسألون، اذا الشمس کورّت، اذا السماء انفطرت، هل اتک حدیث الغاشیة، سبح اسم ربک الاعلیٰ، واللیل اذا یغشی، الفجر، البروج، انشقت، اقراء باسم ربک، لااقسم بهٰذا البلد، والضحیٰ، ألم نشرح لک، والسماء والطارق، والعٰدیٰت، أرأیت، القارعة، لم یکن الذین کفروامن اهل الکتب، الشمس والضحا، والتین، ویل لکل همزة، الفیل، لایلف قریش، التکاثر، اناانزلنه، والعصر ان الانسان لفی خسر، اذا جاء نصرالله، ان اعطینک الکوثر، قل یاأیها الکافرون لاأعبدماتعبدون، تبت یدا ابی لهب و تبّ مااغنی عنه ماله وماکسب، قل هو الله احد الله الصمد۔ یہ کل ایک سو دس سورتیں ہیں [۱۰۸؟] اور ایک روایت میں ہے کہ الطّور الذٰریٰت سے پہلے ہے‘‘[23]۔

کتاب المصاحف کے عنوان سے ایک کتاب ابن اشتہ (م۳۶۰ھ) کی جانب منسوب ہے[24]۔ کتاب ناپید ہے لیکن امام سیوطیؒ نے ابن اشۃ کی کتاب سے مصحف ابن مسعود کی فہرستِ سور الاتقان میں نقل کی ہے (یہ فہرست جیفری نے اپنی کتاب The Materials میں بھی نقل کی ہے)۔ اس میں سورتوں کی ترتیب اسی طرح سے ہے:

"البقره، النساء، اٰل عمران، الاعراف، الانعام، المائده، یونس، میئن میں براءة، نحل، هود، یوسف، الکهف، بنی اسرائیل، الانبیاء، طٰه، المومنون، الشعراء، صٰفّٰت، مثانی میں الاحزاب، الحج، القصص، طس، النحل، النور، الانفال، مریم، العنکبوت، الروم، یٰس، الفرقان، الحجر، الرعد، سباء، الملائکه، ابراهیم، ص، الذین کفروا، لقمان، الزمر، حوامیم میں: حم المؤمن، الزخرف، السجدة، حم عسق، الاحقاف، الجاثیة، الدخان، الممتحنة، انا فتحنالک، الحشر، تنزیل السجدة، الطلاق، ق، القلم، الحجرات، انا ارسلنک، المجادلة، الواقعة، النٰزِعٰت، سأل سائل، المدثر، المزمل، المطففین، عبس، هل أتی، المرسلٰت، القیٰمة، عم یتسألون، اذا الشمس کورت، اذا السما انفطرت، الغاشیة، سبح، اللیل، الفجر، البروج، اذا السماء انشقت، اقرا باسم ربک، البلد، الضحیٰ، الطارق، العٰدیٰت، أرأیت، القارعة، لم یکن، والشمس وضحاها، التین، ویل لکل همزة، الم ترکیف لایلف قریش، الهکم، انا انزلنه، اذازلزلت، العصر، اذا جاء نصرالله، الکوثر، قل یایها الکافرون، تبّت، قل هو الله احد، الم نشرح۔ اس میں الحمد اور معوذتین نہیں ہیں۔[25]

دونوں فہارس کا تقابلی جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ اوّل الذکر فہرست میں سورة الحجر، الکهف، طٰه، النمل، الشوریٰ، الزلزلة نہیں ہیں۔ جبکہ یہ سورتیں الاتقان کی فہرست میں موجود ہیں۔ جبکہ دوسری فہرست میں ق، الحدید اور الحاقة نہیں ہیں۔

ابن ورّاق کا مصدر ومأخذ "جیفری" ان فہارس کا تقابل کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ان دونوں میں عدم مذکور سورتوں کی اختلافی قراء ات بھی تفاسیر میں موجود ہیں لہٰذا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ سورتیں یقینا مصحف ابن مسعود میں ہوں گی۔ اس صورت حال میں ہم اسے محض سہوِ کاتب کہہ سکتے ہیں۔ اور ان فہارس کی بنا پر پورے اعتماد سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا یہ بذاتِ خود اس امر کی ایک گواہی ہے کہ یہ فہارس بعد میں مرتب کی گئیں۔ اصل مصحف کی بنیاد اس پر نہیں رکھی جاسکتی[26]۔

اس سے زیادہ پرلطف ابن ورّاق کا نقل کردہ ابن ندیم کا قول ہے کہ میں نے مصحف ابن مسعود کی مختلف نقول دیکھیں۔ وہ سب نسخے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہ قول بذاتِ خود ایک قوی دلیل فراہم کرتا ہے کہ ان نسخوں کو حضرت ابن مسعود کی جانب منسوب قرار دینا درست نہیں کیونکہ ایک شخص اپنے ہی مصحف کے مختلف و متضاد نسخے تیار کرکے نشر کیسے کرسکتا ہے؟

امر واقعہ ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ کے مصحف کی سور کی ترتیب مصحف عثمانی سے مختلف تھی۔ اس کی تائید صحیح بخاری کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ لیکن اسے متضاد یا مقابلِ مصحف عثمانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ کوئی بھی صحابی ہمہ وقت خدمتِ رسول میں حاضر نہیں رہتے تھے۔ کسی اہم ضرورت کے پیشِ نظر کبھی نہ کبھی وہ بارگاہِ رسالتﷺ سے غیرحاضر بھی ہوتے ہوں گے۔ اس دوران آنجنابﷺ نے اگر کوئی سورت یا آیت [وحی] املا کروائی تو وہ غائب کو لازماً حاضرین سے نقل کرنا ہوتی تھی۔ اس صورت میں ان کے مصحف میں جو ان کی ذاتی بیاض کی حیثیت رکھتا تھا، ترتیب کا بدل جانا قدرے تقدیم و تأخیر ہوجانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ نیز یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ صحابہ کے ذاتی مصاحف تھے جو ایک دوسرے سے بہرحال ترتیب میں مختلف ہی تھے۔ لہٰذا اختلافِ سور کا اعتراض اور اسے بطور دلیل پیش کرنا غیرمحققانہ ہے۔

جہاں تک ابن ورّاق کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ مصحف ابن مسعود میں سورتوں کے نام بھی مختلف تھے یہ بھی مبنی برکذب یا پھر مبنی برجہالت ہے[27]۔ سورتوں کے اسماء پر ذرا سا غور و خوض یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کے ہاں ناموں کا فرق یا تضاد نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیش تر سورتوں کا نام لکھنے کی بجائے ان کی اولین آیت کا ابتدائی ٹکڑا بطور نام پیش کردیا گیا ہے مثلاً فہرستِ اول میں سورہ فتح کا نام الفتح کی بجائے انا فتحنالک ہے۔ سورۂ منافقون کو المنٰفقون کا نام دینے کی بجائے اذا جاء ک المنٰفقون کا نام دے دیا گیا ہے۔ اگر ہم ان فہارس میں دیے گئے ان مختلف اسما کو درست تسلیم کرلیں تب بھی بآسانی فہم و ادراک کی گرفت میں آنے والی بات ہے کہ وہ مصحف ان کی ذاتی ڈائری تھا۔ اپنی سہولت و آسانی کے لیے انھوں نے بعض سورتوں کو ان کی ابتدائی آیت ہی سے تعبیر کردیا۔ اس میں حیرت و استعجاب چہ معنی دارد؟

بقول ابن ورّاق مصحف ابن مسعود میں الفاتحہ اور معوذتین نہیں تھیں۔[28]

یہ رائے بھی ابن ورّاق نے آرتھر جیفری کے تتبّع میں اور اسی سے روایت کرتے ہوئے دی ہے۔ اس کے لیے بطور دلیل ابن ندیم کا قول پیش کیا ہے کہ ’’میں نے مصحف ابن مسعود دیکھا اس میں فاتحہ اور معوذتین نہیں تھیں۔‘‘ اس قسم کی آرا کو بطور دلیل و مصدر پیش کرتے وقت یہ نکتہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ چوتھی صدی ہجری میں کتب کی حفاظت کے لیے وہ وسائل میسر نہیں تھے جو آج موجود ہیں ایسے میں کسی کتاب کے اولین یا آخری صفحات کا ضائع ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ جو مصحف ابن ورّاق نے دیکھا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔

طرفہ تماشا ہے کہ ابن ورّاق کے استاد یعنی جیفری نے اپنی کتاب The Materials میں سورۂ فاتحہ کی اختلافی قراء ات پیش کی ہیں۔ اگر حضرت ابن مسعودؓ فاتحہ کو جزو قرآن کی بجائے محض ایک دعا تصور کرتے تھے تو پھر جیفری نے الفاتحہ کے عنوان سے قراء ات مختلفہ کو کیوں نقل کیا؟ اور اس کے شاگرد رشید، اعلیٰ پائے کی تحقیقات کو من و عَن نقل کرنے والے ابن ورّاق نے اس امر پر کوئی توجہ نہیں دی۔

حضرت ابن مسعودؓ کی قراء ت مصحف عثمانی کی قراء ت کے مخالف تھی اور یہ محض قراء ات نہیں تھیں بلکہ ایک پورا مکتبِ فکر انھی قراء ات کی بنا پر وجود پذیر ہوا۔ مثلاً سورۃ المائدہ آیت ۸۹ میں حضرت ابن مسعود نے معروف قراء ت ثلاثۃ ایام کے بجائے اس میں متتابعات کا اضافہ کیا اور اسے ثلاثۃ ایام متتابعات پڑھا۔ تفاسیر میں بلاشبہ حضرت ابن مسعودؓ کی جانب منسوب یہ قراء ت ملتی ہے لیکن محض بطور قراء تِ ابن مسعود۔[29]

قرآن کریم، تفسیر اور فقہ سے شناسائی نہ ہونے کے سبب ابن ورّاق نے یہ رائے پیش کردی۔ آیت مذکورہ میں قَسم کے کفارے کا بیان ہے۔ کفّاروں میں مساکین کو اولاً لباس دینا، ثانیاً کھانا کھلانا اور ثالثاً تین ایام کے روزے رکھنا ہے۔ قرآن میں صرف ثلاثۃ ایام کہہ کر اسے مطلق رکھا گیا۔ یعنی یہ قید نہیں لگائی گئی کہ پیہم تین روزے رکھے یا وقفے سے بھی رکھ سکتا ہے۔ بدیں سبب فقہا کے مابین اس پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

مثلاً امام شافعی کے دو قول ہیں جدید اور راجح یہ ہے کہ تسلسل صیام مستحب ہے واجب نہیں۔ امام ابوحنیفہ و امام احمد کے مطابق تسلسل واجب ہے اور امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ کیونکہ قتل اور ظِہار کے کفارے میں تسلسل کی قید نص میں آئی ہے۔ اس لیے اس مطلق میں بھی اس شرط کو ضروری قرار دیا جائے گا۔ امام شافعی کے قول راجح کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ میں دو قاعدوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ ایک تو قول اور ظہار کے کفارے کے قاعدے کو وہاں تسلسلِ صیام منصوص ہے۔ دوسرا صوم تمتع کو کہ وہاں روزوں میں تفریق ضروری ہے۔ امام شافعی صوم تمتع کو حج میں جبر قرار دیتے ہیں[30]۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی حدیث کے مطابق جب آیت کفارہ نازل ہوئی تو حضرت حذیفہ نے رسولﷺ اللہ سے پوچھا کہ یارسول اللہ کیا (تعیین کا) ہم کو اختیار ہے؟ فرمایا ہاں چاہو تو کپڑا دے دو، چاہو تو کھانا دے دو اور جس کو کچھ نہ ملے توپیہم تین روزے ہیں[31]۔

امام ابو حنیفہؓ کے قول کی دلیل بلاشبہ حضرت ابن مسعودؓ کی جانب منسوب یہ قراء ۃ یعنی ثلاثہ ایام متتابعات ہی ہے۔ لیکن بہ نظرغائر دیکھا جائے تو یہ فقہی اختلاف ہے اور اس معاملے میں امام احمد بھی اسی رائے کے حامل ہیں۔ اس صورتحال میں یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ یہ محض ابن مسعودؓ کی رائے تھی جس کی بنا پر ایک مکتب فکر بنا اور اسی کے نتیجے میں امام اعظمؓ نے یہ رائے لی۔ امام غزالی المستصفی میں اسی مسئلہ پر یوں رقمطراز ہیں:

’’فی الحقیقت یہ مسئلہ ان بہت سے مسائل میں سے ہے جن میں اللہ کریم نے مسلمانوں کی سہولت کے لیے نرمی سے کام لیتے ہوئے گنجائش رکھ دی اختیارِ تعیین دے دیا۔ اس کا عقائد و ایمانیات سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ بدیں سبب اس یا اس جیسی اور مثالوں (قراء ات ابن مسعودؓ) کی بنا پر یہ دعویٰ کہ مصحف ابن مسعودؓ مصحف عثمانی سے متضاد مسائل و احکام کا حامل تھا جن کی بنا پر کوئی خاص مکتب فکر وجود پذیر ہوا، بجز کج بحثی اور خبث باطنی یا پھر کم از کم تخمینی قیاسات کے مظہر کے اور کچھ نہیں[32]۔‘‘

ابن ورّاق نے مسلمہ تاریخ کی اہم شہادتوں سے اغماض برتا ہے مثلاً:

۱-حضرت ابن مسعودؓ اپنے مصحف سے دستبردار ہوگئے تھے اور مصحف عثمانی پر صحابہ کرامؓ کے اجماع میں شامل تھے[33]۔ چنانچہ سورہ اسماے سور اور تعدادِ سُور کے حوالے سے ان کا مؤقف بھی وہی تھا جو دیگر صحابہ کرام کا اور ساری امت کا تھا۔

۲-ابن ورّاق نے اپنی نگارشات کی بنیاد آرتھر جیفری کی Materials پر رکھی ہے۔ Materials کی بنا جیفری نے ابن ابی داؤد کی کتاب المصاحف پر رکھی ہے۔ اس کتاب کے نہ تو رواۃ متصل ہیں نہ ہی یہ معتبر اسناد کی حامل ہے۔ مزید برآں ابن ابی داؤد کی شخصیت علما کی شدید تنقید کا نشانہ رہی ہے۔ چنانچہ علماے جرح و تعدیل نے انھیں کذّاب وغیرہ قرار دیا ہے[34]۔ نیز ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ کتاب انھوں نے نہیں لکھی بلکہ کسی یہودی یا نصرانی کی تحریر کردہ ہے جسے ان کی جانب اس مقصد سے منسوب کیا گیا کہ متن قرآن کی استنادی حیثیت کی تکذیب اور تشکیک ہوسکے[35]۔ ابن ورّاق نے اس کتاب کے حوالے دیے ہیں لیکن اس کے معتبر و مصدّقہ ہونے پر غور و پرداخت، اس کی جانچ پڑتال کی چنداں ضرورت نہ سمجھی۔

قلقشندی نے صبح الاعشٰی میں ایک روایت نقل کی ہے۔ لکھتے ہیں ’’ایک شخص نے جو مسلکاً شیعہ تھا، حلفاً اقرار کیا کہ اس نے حضرت ابن مسعودؓ کی جانب ایسی متعدد قراء ا ت منسوب کردی ہیں جو مصحف ابن مسعود میں نہیں تھیں[36]۔ ابن ورّاق کے مصدر و مآخذ امام و پیشوا یعنی جیفری نے خود بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ شیعوں نے بہت سی قراء ا ت حضرت ابن مسعودؓ کی جانب منسوب کردیں[37]۔

ان تمام معروضی حقائق کے باوجود ابن ورّاق مصحف ابن مسعود کو مصحف عثمانی، جس پر تمام امت کا اجماع ہے، کے ہم پلّہ قرار دیتا ہے! جبکہ وہ خود اس امر کا اقرار بھی کرتا ہے کہ ہمارے پاس مصحف ابن مسعود کا کوئی نسخہ نہیں ہے۔ کیا صدیوں میں یہ مرتّب کی جانے والی تفاسیر میں موجود بلاسند قراء آت کی بنا پر مرتب کردہ ایک مجموعے کو اس مصحف کے مقابلے میں صحیح تر قرار دیا جاسکتا ہے جو صدیوں سے محض کتابت کے ذریعے ہی نہیں بلکہ حفظ کے ذریعے محفوظ و مامون ہے۔ بالفاظِ مولانا عبدالقدوس ہاشمی ’’جس قوم میں مادر زاد اندھے حافظ رہے ہوں اور جس میں آج تک استاد سے شاگرد کی طرف علم کی منتقلی بذریعۂ صوت و آواز ہو اس میں نقطے کی کیا اہمیت ہے۔ صحابہ رسولﷺ اللہ کی زبان اقدس سے آواز سنتے تھے یا لکھی ہوئی تحریروں سے قرآن مجید یاد کرتے تھے اور آج تک کسی مسجد و مدرسہ میں قرآنِ مجید بغیر معلم کی آواز کے بلیک بورڈ پر لکھ کر پڑھا جاتا ہے؟ قرآن مجید کی آواز مد، سکون، وقف، سکتہ یہ سب کچھ بذریعہ روایت محفوظ ہے‘‘[38]۔

۴۔اسی طرح ابن ورّاق کا یہ دعویٰ کہ اگر ہم صحابہ کی جانب منسوب قراء آت کو غیرمعتبر قرار دیتے ہیں تو ہمیں ان سے مروی احادیث کو بھی غیر معتبر گرداننا ہوگا، بالکل طفلانہ ہے۔ علوم اسلامیہ کا مبتدی طالب علم بھی اس حقیقت کا اعتراف کیے بنا نہیں رہ سکتا کہ ذخیرہ احادیث بہت چھان بین، بہت حزم و احتیاط سے جمع و مرتّب کیا گیا ہے۔ اس کے لیے علم جرح و تعدیل جیسا عظیم فن ایجاد ہوا جو صرف اہل اسلام کا تخصّص ہے۔ کیا چھٹی، ساتویں، آٹھویں یا متأخر صدیوں میں لکھی جانے والی تفاسیر میں ’’وفی قراء ۃ ابن مسعود کذا و کذا۔۔۔۔‘‘ کو ، جس کی کوئی سند نقل نہیں کی گئی، ان احادیث کے مساوی درجے پر رکھنا مبنی برانصاف ہوگا جن کی سند نبیﷺ تک بغیر کسی انقطاع کے، معتبر و مصدقہ رواۃ کے ذریعے پہنچتی ہے؟ ==

اختتامیہ ونتائج

معتبر مصادر کی رہنمائی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت ابن مسعودؓ کے پاس ان کا ذاتی نسخہ قرآن بلاشبہ موجود تھا۔ وہ کوفہ میں اسی کے مطابق تدریس و تبلیغ کے عظیم فریضے کی انجام دہی کرتے رہے۔ تاآنکہ مصحف عثمانی کی تدوین عمل میں آئی اور قدرے ناراضی کے بعد، جو نبی اکرمﷺ سے سن کر جمع کیے ہوئے مصحف کو ترک کرنے کے سبب تھی، وہ اپنے مصحف سے دستبردار ہوگئے اور اجماع صحابہ کو قبول کیا۔ اس کے بعد کبھی ان سے اپنے مصحف پر اصرار یا کسی ناراضی کے اظہار کی شنید نہیں۔ مصحف عثمانی کو تسلیم کرکے گویا انھوں نے الفاتحہ سے والناس تک مصحف عثمانی کو اسی ترتیب، اسماے سور وغیرہ کے ساتھ تسلیم کیا۔ چنانچہ چار معروف قرّاء یعنی حمزہ، عاصم، کسائی اور خلف اپنی قراء آت کی سند سیدنا ابن مسعودؓ تک بیان کرتے ہیں اور ان کی قراء آ ت کے مطابق مصحف ابن مسعودؓ اسی ترتیب کے مطابق اور مکمل ۱۱۴ سور پر مشتمل ہے۔

جہاں تک حضرت ابن مسعود کی جانب منسوب قراء آت کا تعلق ہے تو وہ محض تفسیری حواشی ہیں اور تفاسیر یا دیگر بعض کتب میں ایک علمی ورثے کے طور پر محفوظ رکھی گئی ہیں۔ بہت سی موضوع ہیں اس کا اعتراف ابن ورّاق کے امام آرتھر جیفری نے خود کیا ہے۔ اپنی قراء آت کے مصحف عثمانی کے مقابلے میں درست تر یا افضل ہونے کا دعوٰی نہ حضرت ابن مسعودؓ کو تھا اور نہ ہی ایسی کوئی دلیل ابن ورّاق پیش کرسکا ہے۔

ابن ورّاق کے مصادر مسلّمہ تحقیقی اصولوں کے مطلوبہ معیار کی تکمیل نہیں کرتے۔ چنانچہ ابن ورّاق کا یہ دعوٰی کہ مصحف ابن مسعود مصحف عثمانی کے مقابل نسخہ قرآن تھا یا متنِ قرآن کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل تھا، بالکلیّہ بے بنیاد ثابت ہوتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی ومصادر Interview with Ibn Warraq, www.en.qantara.de/content/interview-with-ibn-warraq-many-muslims-react-to-criticism-of-the-quran-with-hysteria, 29-11-2007.
  2. Ibn Warraq, "Which Koran" in New English review (monthly), London, Feb-March, 2008.
  3. ابن الاثیر عزالدین ابی الکرم محمد بن محمد، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۳۷۷ھ، ج:۳، ص:۳۵۶
  4. ابوالفداء عماد الدین اسمٰعیل، المختصر فی اخبار البشر، بیروت، دارالمعرفہ س ن، ج:۱، ص:۱۶۷
  5. القرطبی یوسف بن عبداللہ: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، مکتبہ دارالباز مکہ مکرمہ، ۱۹۹۵ء، ج:۳، ص:۱۱۱
  6. القشیری مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عبداللہ بن مسعود ؛ نیز دیکھیے: احمد بن حنبل الشیبانی، المسند، ج:۵، ص:۶۵۲؛ ابن الجزری شمس الدین ابی الخیر محمد بن محمد: غایۃ النھایۃ فی طبقات القرّا، مصر، مکتبہ الخانجی، ۱۹۳۲ء، ج: ۱، ص:۴۵۸- ۴۵۹؛ زرکلی خیرالدین: الاعلام قاموس اللہ اجم الأشہر الرجال والنساء من العرب، المستعربین والمستشرقین، بیروت ۱۹۹۷؛ ج:۶، ص:۱۳۷؛ نووی ، ابو زکریا محی الدین ابن اشرف: تہذیب الاسماء واللغات، س ن، بیروت، ج: ۱، ص:۲۷۰
  7. ابن الاثیر، اسد الغابہ، ج:۳، ص:۳۵۶
  8. ابن حجر العسقلانی شہاب الدین احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بغداد مکتبہ المثنیٰ، طبع اول ۱۳۲۸ھ،
  9. ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، بیروت، داراحیاء التراث العربی، س ن، ج: ۲، ص: ۵؛ ابن حزم علی بن احمد بن سعید، جوامع السیرۃ، پاکستان س ن، ص:۶۵
  10. اتابکی جمال الدین ابوالمحاسن یوسف بن تغری بردی، مصر، النجوم الزاہرہ فی ملوک مصر و القاہرۃ، ۱۹۶۳ء، ج:۱، ص:۷۵؛ ابن الاثیر، اسد الغابہ، ج: ۳، ص:۳۶۰؛ ابن الجزری، غایۃ النھایۃ، ج:۱، ص:۴۵۹؛ نووی، تہذیب الاسما، ج:۱، ص:۲۸۰؛ ذہبی شمس الدین محمد بن احمد: العبر فی خبر من غیر، بیروت، دارالکتب العلمیہ،۱۳۴۷ھ، ج: ۱، ص:۲۴
  11. أبی الفضل محمد بن علی الحموی، تاریخ المنصوری، ماسکو، ۱۹۶۳ء، ص:۷۲
  12. بخاری، الجامع الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب القرا من اصحاب رسول اللہ، ح: ۵۰۱۴
  13. ایضاً۔
  14. ابن الاثیر، اسد الغابہ، ج:۳، ص:۳۵۹
  15. ابونعیم احمد بن عبداللہ، حلیۃ الاولیا وطبقات الاصفیا، دارالکتب العربی، طبع ثانی، ۱۹۶۷ء، ج:۱، ص:۱۲۴
  16. منّاع خلیل القطان، مباحث فی علوم القرآن، بیروت، مؤسۃ الرسالۃ ، طبع: ۲۲، ۱۹۸۷ء، ص:۱۸۸
  17. بخاری، الجامع، کتاب فضائل القرآن، باب اصحاب القرا من اصحب رسول اللہ، ح: ۵۰۰۱
  18. ابن عبدالبر ابو عمر یوسف، جامع بیان العلم و فضلہ، مصر، المطبعہ المنیریہ، س ن، ج:۱، ص:۷۲
  19. بخاری، الجامع الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب تالیف القرآن، ح: ۴۹۹۶
  20. بخاری، الجامع الصحیح؛ نیز دیکھیے اسی حدیث کی شرح از العینی بدرالدین، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، دارالفکر، س ن، ج:۱۰، جزو:۲۰، ص:۲۳
  21. آرتھر جیفری(۱۸۹۲- ۱۹۵۲ء) آسٹریلوی نژاد امریکی مستشرق، قاہرہ میں امریکن ریسرچ سنٹر کا ڈائریکٹر رہا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں سامی زبانوں کا پروفیسر رہا۔ مدراس کے کالج میں پروفیسر بھی رہا۔ قرآنیات اس کی خاص دلچسپی کا مرکز و محور ہے چنانچہ اس نے قرآنیات پر متعدد مقالات لکھے جو The Muslim World اور دیگر رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ قرآن پر اس کی تصانیف درج ذیل ہیں: The Materials forth the History of the Text of Quran; The Koran as Scripture; The Koran-selected Suras;
  22. Arthur Jeffery, The Materials for the History of the Text of the Qur'an, E.J. Brill, Leiden, 1936, p: 22
  23. ابن ندیم محمد بن اسحق، الفہرست، بیروت، دارالمعرفۃ ، س ن۔ ص:۳۹
  24. محمد بن عبداللہ بن اشتہ (م۳۶۰ھ)۔ روایت ہے کہ اس نے اختلافی قراء ات پر مشتمل ایک کتاب بنام کتاب المصاحف لکھی تھی۔ امام سیوطی کے مطابق انہوں نے اس کتاب سے استفادہ کیا اور الاتقان میں کچھ اقوال نقل بھی کیے۔ دیکھیے: بغدادی اسمٰعیل پاشا، ہدیۃ العارفین اسماء المولفین و آثار المصنفین، منشورات مکتبہ المثنیٰ، ۱۹۵۵ء، ج: ۲، ص: ۴۷؛ سیوطی، بغیۃ الوعاۃ و طبقات اللغویین والنحاۃ، مکتبہ المصریہ، س ن، ج:۲، ص:۱۴۲
  25. السیوطی، جلال الدین ابی بکر بن عبدالرحمن، الاتقان فی علوم القرآن، سہیل اکیڈمی، لاہور، ۱۹۸۷ء، ج:۱، ص:۶۴
  26. Jeffery: The Materials, p:23
  27. Ibn Warraq, "Which Koran" in New English Review (monthly) London Feb. March, 2008
  28. Ibid
  29. رازی محمد بن حسین، مفاتیح الغیب، بیروت، دارالفکر ، ۱۹۹۳ء، ج:۶، ص:۵۵
  30. مثلاً دیکھیے: الجزیری عبدالرحمن، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، دارالکتب العلمیہ، بیروت، طبع ثانی، ۲۰۰۳، ج: ۴، ص ۶۲۳
  31. احمد بن حنبل، المسند، دارالحدیث، قاہرہ، طبع اول ۱۹۹۵ء، ۷:۲؛ الطبرانی ابو القاسم سلیمان بن احمد، معجم الکبیر، عراق ۱۹۸۶ء، ۳: ۱۷۲
  32. ابو حامد محمد بن الغزالی، المستصفی من علم الاصول، تحقیق حمزہ بن زھیر، مدینۃ منورہ، جامعۃ الاسلامیہ، کلیۃ شریعۃ، ج: ۲، ص:۱۱
  33. عبدالعظیم الزرقانی، مناھل العرفان فی علوم القرآن، داراحیاء التراث العربی، س ن، ج:۱، ص:۲۴۵
  34. مثلاً دیکھیے: ذہبی، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، بیروت، دارالکتب العلمیہ ، طبع اول ۱۹۹۵ء، ج:۹، ص: ۴۶۸
  35. مولانا عبدالقدوس ہاشمی،’’ مستشرقین اور اسلامی تحقیقات‘‘ مشمولہ مقالات ہاشمی، مرتبہ ثناء الحق صدیقی، لاہور، دارالتذکیر ۱۹۹۳ء، ص:۲۰۴
  36. القلقشندی شہاب الدین ابوالعباس احمد بن یحیی، صبح الاعشٰی فی کتابۃ، الانشا، قاہرہ، دارالکتب مصریۃ ، ۱۹۲۰ء، ج: ۳، ص: ۳۲۴۔
  37. Arthur Jeffery: Materials, p:24
  38. مولانا عبدالقدوس ہاشمی: ’’مستشرقین اور اسلامی تحقیقات‘‘ مشمولہ مقالات ہاشمی، مرتبہ ثناء الحق صدیقی، لاہور، دارالتذکیر، ۱۹۹۳ء، ص:۲۰۴
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...