Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

نبی کریم ﷺ کے "نسب مطہرہ" سے متعلق مارگولیتھ کے خیالات کا تنقیدی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں نہایت اکھڑ ، جاہل اور گنوار تھےنہ ان میں علم ادب تھا اور نہ ہی تہذیب و شائستگی تھی تاہم ان میں دو خصوصیات پائی جاتی تھیں ،اول ان کے کلام میں فصاحت و بلاغت تھی جس سے کلام پُرتاثیر بن جاتا تھا ۔دوم ، قوی حافظہ کےبدولت وہ اپنی قوم کی نسلوں کو یاد رکھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے جو رفتہ رفتہ ایک علم ہو گیا اور علم الانساب کے نام سے پکارا جانے لگا ۔ اہل عرب کی ایک عادت تھی کہ اپنے نسب پر بہت فخر کرتے تھے اور ہر موقع پر اس کا ذکر کرنے اور اس پرشیخی بگھارنے سے نہ چوکتے تھے اور اس سبب سے ان کو صرف اپنا ہی نسب نامہ یاد رکھنا کافی نہ تھا بلکہ اپنے مخالفوں ، رقیبوں اور ہمسایوں کا نسب نامہ بھی یاد رکھنا ضروری تھا تاکہ اپنی شیخی کے سامنے دوسرے کی شیخی نہ چلنے دیں ۔

قریش ایک معتبر قبیلہ اور معتبر نسل ہے جس پر اس وقت بھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور نہ ہی بعد کے زمانے میں کسی نے اس پر نکتہ چینی کی۔ آنحضرتﷺاسی قبیلے کی ایک شاخ بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے ۔ جب آپﷺ پیغمبر منتخب ہوئے تو نہ نسب نامہ جاننے کی ضرورت تھی اور نہ ہی ان سے اس بابت پوچھا گیا ۔

مستشرقین نے جس طرح سیرت مبارکہ کے دیگر موضوعات کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے ،اسی طرح انہوں نے نسب مطہرہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مسلمہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نسب مطہرہ کے حوالے سےجن مستشرقین نے قلم اٹھایا ان میں سے ایک برٹش مستشرق مارگولیتھ ہے ۔

ڈی ۔ایس۔ مارگولیتھ : D.S. Margoliouth

انگلستان کا مشہور مستشرق تھا جس نے نصف صدی تک Oxford University (1889ء سے 1937ء تک)میں تدریس کا کام کیا ۔ اس کا سن ولادت 1858ء اور سن وفات 1940ء ہے ۔ اس کے آباؤاجداد پولینڈ کے یہودی تھے لیکن اس کے والد نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی اور مارگولیتھ اس لحاظ سے پیدائشی عیسائی تھے۔ مارگولیتھ نے اسلام پر جو کتابیں لکھیں ان میں مشہور کتب درج ذیل ہیں:

)Muhammad And The Rise Of Islam, Mohammedanism , Early development Of Mohammedanism(

اس میں شبہ نہیں کہ ان کتابوں سے مارگولیتھ کے علم و فضل کا ثبوت ملتا ہے لیکن ان میں اسلام دشمنی اور تعصبات کا بڑا حصہ ہے۔ [1]ذیل میں ان کےخیالات کا ایک تحقیقی اور ناقدانہ جائزہ پیش خدمت ہے ۔

پہلا شبہ

دیگر متعصب مستشرقین کی طرح نسب مطہرہ کے بارے میں مارگولیتھ نے بھی کچھ شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بہت سے صحیح روایات موجود ہیں ، جن میں صحیحین کی روایات بھی شامل ہیں ۔ ان تمام صحیح روایات کو نظر انداز کر کے بعض مجروح اور ضعیف روایات سے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً

"to a palm springing out of dung –hill" [2]

یہاں پر مارگولیتھ نے پوری حدیث نقل نہیں کی ہے۔یہ مسند احمد کی روایت ہے کہ مشرکین مکہ آنحضرت ﷺ کو کوڑا کرکٹ میں اگنے والا پودا سمجھتے تھے۔یہ ایک ضعیف روایت ہے مارگولیتھ اس ضعیف روایت سے استدلال کر کے دوسری صحیح روایات سے اعراض کرتے ہیں ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت اور اس جیسے دیگر روایات کو جرح و تعدیل کے مراحل سے گزارا جائے تاکہ صحیح صورت حال واضح ہو جائے ۔

حدیث کی سند کچھ یوں ہیں:

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ يَزِيدَ، عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: أَتَى نَاسٌ مِنَ الْأَنْصَارِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا...الحديث[3]

مذکورہ روایت سند اور متن دونوں لحاظ سے ضعیف ہے ۔ اگر چہ مذکورہ روایت کومسند احمد کے فاضل محققین ، شعیب الارنوؤط اور شیخ احمد شاکر نے حسن لغیرہ قرار دیا ہے ۔ لیکن ان معاصر دو محققین کا اس روایت کو حسن قرار دینا ان کی انفرادی رائے ہو سکتی ہے انہوں نے اس روایت کو کئی طرق سے مروی ہونے کی بنا پر یہ حکم لگا یا ہے حالانکہ یہاں صرف اسناد کو دیکھ کر حکم لگانا کافی نہیں سند کے علاوہ متن کو بھی دیکھنا چاہیے ۔ اس کا متن دیگر ثقہ راویوں سے منقول روایتوں کے متون سے مخالف ہیں جس پر آگے ہم گفتگو کریں گے۔

سند پر تبصرہ :

مذکورہ حدیث کی سند میں ایک راوی یزید بن عطاء ہے جو ضعیف ہے۔احمد بن یحیی ٰ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یزید بن عطاء ليس بقوي في الحديثہے حدیث میں مضبوط نہیں ہیں ۔یحییٰ بن معین نے کہا: ليس بشئ ۔عباس الدوروسؒ نے یحییٰ بن معینؒ سے روایت کیا کہ یزید بن عطاء ضعیف راوی ہے۔ اور دوسری جگہ کہا : ليس بشئ ۔ امام نسائی ؒ نے کہاہے:ضعیف ہے اور دوسری جگہ کہا: ليس بالقوی ۔اور ابن حبان نے کہا: ساء حفظه یعنی ان کا حافظہ خراب ہوا تھا حتیٰ کہ وہ اسانید خلط ملط کرتے تھے اور ثقہ راویوں سے ایسی روایات نقل کرتے تھے جن کا احادیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا ( جیسا کہ مذکورہ روایت ) ان کی احادیث سے استدلال جائز نہیں ۔ [4]ابو حاتم نے ان کو مجہول کہا ہےاور دوسری جگہ کہا : لا باس به ، اور یعقوب بن سفیان نے بھی کہا : لا باس به ۔[5] الکتانی نے اس پر نقد کر کے ضعیف کہا ہے ۔اسی طرح البانی نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے۔[6]

متن پر تبصرہ :

متن کے لحاظ سے بھی اس روایت میں سُقم ہے ۔ اس روایت میں ذکر ہے کہ دور نبویﷺ میں بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے حسب و نسب پر طعن کیا تھا۔ یہ روایت دیگر صحیح روایتوں سے متصادم ہے، جن میں ذکر ہے کہ آنحضرتﷺ کا خاندان ،نسب و حسب تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ کے بد ترین دشمن بھی کبھی اس کا انکار نہ کر سکے۔ [7]

اس پر تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا تعلق ایک معتبر قبیلہ سے تھا جس پر اس وقت بھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور نہ بعد میں کسی نے اس پر نکتہ چینی کی ۔ دوست اور پیروکار تو درکنار سخت ترین مخالفین نے بھی آپﷺ کے خاندانی سیادت کو تسلیم کیا تھا۔[8]

اس حوالے سے مسند احمد کی دوسری روایت کی سند کچھ یوں ہے :

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، قَالَ: قَالَ الْعَبَّاس...الحديث[9]

اس حدیث میں ایک راوی ابو عبداللہ یزید بن ابی زیاد الہاشمی ہے جو ضعیف ہے۔ شعبہ نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اقوال صحابہؓ کو مرفوع ذکر کرتے تھے۔ ابن فضیل نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ شیعہ کے بڑے اماموں میں سے تھے۔ امام احمد بن حنبل نے ان کے بارے میں کہا کہ ان کا حافظہ قوی نہیں تھا ۔ عباس نے یحییٰ سے نقل کیا ہے کہ ان کی حدیث قابل حجت نہیں ہے۔ عثمان الدارومی نے یحیی ٰسے نقل کیا ہے کہ وہ قوی نہیں تھے۔ ابو یعلیٰ نے یحییٰ سے نقل کیا ہے کہ وہ ضعیف الحدیث تھے۔ ابو زرعۃ نے کہا : لین الحدیث ہے۔الجوزجانی کہتے ہیں کہ میں نے (محدثین ) سے یہ بات سنی تھی کہ وہ سب ان کی حدیث کو ضعیف کہتے تھے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ وہ کوفہ کے شیعوں میں سے تھے۔[10]البانی ؒنے بھی اس حدیث کو یزید بن ابی زیاد کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔[11]

مسند احمد کی تیسری حدیث کی سند درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم...الحديث[12]

لیکن اس حدیث کی سند میں یزید بن ابی زیاد راوی ہے۔ جو کہ ضعیف ہے۔[13]

اس حوالے سے امام حاکم نے درج ذیل سند سے ایک روایت نقل کی ہے:

حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه ثنا الحسن بن علي بن شبيب المعمري ثنا أبو الربيع الزهراني ثنا حماد بن واقد الصفار ثنا محمد بن ذكوان خال ولد حماد بن زيد عن محمد بن المنكدر عن عبد الله بن عمر رضى الله تعالى عنهما قال بينا نحن جلوس بفناء رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ مرت امرأة فقال...الحديث[14]

اس سند میں دو ضعیف راوی ہیں ایک حماد بن واقد العیثی الصفار ہے ابن معین نے ان کو ضعیف کہا ہے۔ بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے ۔اور ابو زرعۃ نے کہا کہ وہ نرم ہے اور الفلاس کہتے ہیں کہ وہ کثیر الخطاء ہے اور ان کو وہم ہو جاتا ہے۔ [15]

دوسرا ضعیف راوی محمد بن ذکوان ہے ۔ یہ راوی الازدی الطاحی ہے ۔ ان کو جہضمی بھی کہا جاتا ہے ، جو بصرہ یا حلب کا حکمران تھا۔ابو حاتم نے کہا کہ محمد بن ذکوان حماد بن زید کے خالو ، جو منکر الحدیث ، ضعیف الحدیث اور فن حدیث میں خطاء کار ہے۔ نسائی نے کہا ہے کہ محمد بن ذکوان منصور اور مجالد سے روایت کرتا ہے جو نہ ثقہ ہے اور نہ ان سے حدیث لکھی جا سکتی ہے۔حافظ ابن عدی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ روایت محمد بن ذکوان کے علاوہ کسی اور نے نقل کی ہو۔[16]

یہ ان روایات کی اصل حقیقت تھی جو کہ نسب مطہرہ کے حوالے سے مارگولیتھ نے اساس بنا کر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس کے مقابل مستند اور صحیح روایات سے تجاہل عارفانہ اختیار کیا ۔ اس حوالے سے اگر ذخیرہ کتب حدیث و سیرت سے اغماض کرکے صرف صحیح بخاری کی روایات کو وہ سامنے رکھ کر پڑھتے تو ان پر یہ بات عیاں ہوتی کہ بنی کریم ﷺ عرب کے بہترین قبیلے کی بہترین شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے قبیلے کا شمار عرب کی بہترین قبیلوں میں کیا جاتا ہے [17]

مارگولیتھ کی یہ روش مبنی بر تعصب ہے کیونکہ دیگر مستشرقین نے اعتراف کیا ہے کہ آنحضرتﷺ عرب کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جیسا کہ آپﷺکی خاندانی حیثیت کے بارے میں وینسک Wensinck اپنی کتاب کی فہرست میں آنحضرتﷺ کی خاندانی حیثیت کے بارے میں عنوان دیتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کا ہی قول ہے " میں آپ میں خاندان کے لحاظ سے بھی بہترین ہوں اور انسانوں میں انسان بھی بہترین ہوں ۔[18]

دوسرا شبہ

دوسرااعتراض جو مارگولیتھ نے سورۃ الزخرف کے اس ایک آیت مبارکہ سے لیا ہے:

وَقَالُوا لَوْلا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ[19]

اور کہنے لگے کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن کسی ایسے آدمی پر جو ان دو شہروں (مکہ اور طائف)میں بڑا ہے ۔

"Kuraish in the Koran wonder why a prophet should be sent to them who was not of a noble birth".[20]

قریش نزول قرآن کے حوالے سے حیران تھے کہ ایک ایسا پیغمبر کیوں آیا جو ان دو بڑے شہروں کا کوئی بڑا آدمی نہیں ۔

مذکورہ آیت کی تفسیر کی حقیقت یہ ہے کہ معترضین کہنے لگے:

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ [21]

یعنی قرآن کوان کی نظر میں دونوں شہروں ( مکہ یا طائف ) کے کسی عظیم آدمی پر کیوں نہیں اتارا گیا۔مذکورہ آیت مبارکہ کے بارے میں ابن عباسؓ،عکرمہ ؓ محمد بن کعب ؓ قرظی اور بہت سے علماء کی رائے میں(قریتین ) سے مراد مکہ اور طائف ہیں اور عَلَى رَجُلٍ سے مراد مکہ کے سردار ولید بن مغیرہ اور طائف میں ثقیف کے سردار عروہ بن مسعود ثقفی تھے۔

ان کے اعتراض کے جواب میں اللہ فرماتے ہیں : أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ؟

کیا یہ لوگ اللہ کی رحمت (وحی) کو (اپنی اختیار سے ) تقسیم کرتے ہیں۔ یہ ان کا اختیار نہیں یہ تو اللہ کی مرضی ہے۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ منصب رفیع کس کو عطاءکرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اسے نازل نہیں فرماتا مگر اس شخص پر جو قلب و نفس کے اعتبار سے سب سے زیادہ پاکیزہ گھرانے کے اعتبار سے سب سے زیادہ معزز اور نسل کے لحاظ سے سب سے ارفع ہو پھر فرمایا کہ ہم نے مخلوق کے مابین مال و دولت اور عقل و فہم کے لحاظ سے ظاہری و باطنی قوتوں میں تفاوت رکھا ہے۔[22]

اسی طرح کا تعجب مشرکین کی بقول قرآن میں ذ کر ہے : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

ءأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ[23]

کیا (یہ بات ) لوگوں کے لئے باعث تعجب ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ایک مرد (کامل) پر جو ان میں سے ہے کہ ڈراؤ لوگوں کو اورخوش خبری دے دو انہیں جو ایمان لائے کہ ان کے لئے مرتبہ بلند ہے۔ان کے رب کے ہاں کفار نے کہا بِلا شبہ یہ جادوگر ہے کھلا ہوا۔

مارگولیتھ نے یہاں قرآنی آیات سے اپنے موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آنحضرتﷺکا تعلق کسی کم تر خاندان سے تھا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے مکی معاشرے کے لوگوں کو سمجھنے میں غلطی کی ہے جس میں وہ لوگ دولت اور اثر روسوخ سےبڑھ کر قبیلے اور خاندانوں کو اہمیت دیتے تھے ۔

تیسرا شبہ

نسب کے حوالے سے مارگولیتھ تیسرا سوال اٹھاتے ہیں :

“that an end had now come to the pagan aristocracy by blood” [24]

سارااعزاز ، کمال یا خون ، میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے ۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺقریش مکہ سے خطاب کررہےتھے:

"اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ۔ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی ۔ سنو! بیت اللہ کی کلیدی برداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے سوا سارااعزاز ، کمال یا خون ، میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں... اے قریش کے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیا سارے لوگ آدم ؑسے ہیں اور آدمؑ مٹی سے "۔[25]

اس کا مطلب تو صاف ہے کہ آنحضرت ﷺ ان لوگوں کو یہ واضح کر رہے تھے کہ جاہلیت کی تمام رسوم و رواج اور اہل عرب کا باپ دادا کی حیثیتوں پرتفاخر اور غرور میں آکر نسل انسانی کی تذلیل ، معمولی معمولی باتوں پر سال ہا سال خون ریزی، یہ تمام رسمیں آج میرے پاؤں تلے کچل کر ختم ہو گئی کیونکہ اللہ کا حکم ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ"۔[26]

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔

مارگولیتھ کی اس پوری عبارت کہ "سارااعزاز ، کمال یا خون ، میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں"سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت ﷺ حقیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے بلکہ اوپر بیان کردہ عبارت سے یہ اچھی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ عرب کے مشہور اور معروف قبیلے سے تعلق رکھنے والے نبی ہیں ۔

چوتھا شبہ

“he himself rejected the title, ‘Master and son of our Master , offered him by some devotee.” [27]

یہاں پر بھی مارگولیتھ نے مسند امام احمد کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنے آپ کو آقا یا آقا کا بیٹا کہلوانے سے منع کیا ۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺکا خاندانی پس منظر حقیر ہے۔

اصل روایت درج ذیل ہے:

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا مؤمل ثنا حماد عن حميد عن أنس أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه و سلم يا سيدنا وبن سيدنا ويا خيرنا وبن خيرنا فقال النبي صلى الله عليه و سلم يا أيها الناس قولوا بقولكم ولا يستهوينكم الشيطان أنا محمد بن عبد الله ورسول الله والله ما أحب ان ترفعوني فوق ما رفعني الله عز و جل [28]

ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی ﷺ کو مخاطب کر کے کہا: اے محمد ﷺ ! اے ہمارے سردار ابن سردار، اے ہمارے خیر ابن خیر! نبی ﷺ نے فرمایا لوگو! تقویٰ کو اپنے اوپر لازم کر لو، شیطان تم پر حملہ نہ کر دے، میں صرف محمد بن عبداللہ ہوں ، اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہوں،بخدا! مجھے یہ چیز پسند نہیں ہے کہ تم مجھے میرے مرتبے " جو اللہ کے ہاں ہے "بڑھا چڑھا کر بیان کرو۔

مار گولیتھ کے مسند احمد سے لئے گئے حدیث کے اس ٹکڑے میں کہیں بھی یہ بیان نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ کہا ہو کہ وہ یا ان کا خاندان حقیر ہیں ۔

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ لوگوں کو اللہ کے پیغمبر سے بات کرنے کاسلیقہ سکھا رہے ہیں مجھے رسول اللہ کہنا زیادہ پسند ہے بہ نسبت کسی اور لقب کے لہٰذا مجھے رسول اللہﷺ کہہ کے پکارو۔ دوسری بات جو اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے کہ آپﷺ سامنے مدح کرنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ کا ارشاد ہے :

احثوا التراب فی وجوه المداحين [29]

مدح کرنے والوں کے چہروں پر مٹی ڈالو ۔

اس وجہ سے مسند احمد کی مذکورہ روایت میں آپ ﷺ نے لوگوں کو سردار ابن سردار وغیرہ پکارنے سے منع کیا (نہ کہ اس وجہ سے کہ گویا آپﷺ نعوذ باللہ حقیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے اسی لئے خود لوگوں کو منع کر رہے ہیں کہ مجھے سردار ابن سردار نہ پکارو جیسا کہ مارگولیتھ کا خیال ہے)۔

کسی کے سامنے ان کی تعریف اور مدح سرائی سے ان کے دل میں بڑائی اور غرور پیدا ہوتا ہے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند باتیں ہیں۔ مذکورہ روایت میں امت کو تعلیم دے رہے ہیں تاکہ اس قبیح صفت سے اپنے آپ کو بچائے۔

سنداً یہ روایت قوی نہیں کیونکہ اس روایت میں ایک راوی مومل بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں۔ امام بخاری نے تاريخ الكبير میں ان کو منکر الحدیث کہا ہے۔[30] ابو حاتم نے ان کو کثیر الخطاء کہاہے دارقطنی کہتےہیں کہ وہ ثقہ کثیر الخطاء ہے۔ ابو داؤود نے بھی ان کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کیا۔ محمد بن نصر المروزي کہتے ہیں کہ اگر وہ خبر واحد ذکر کریں تو اس میں توقف لازمی ہے کیونکہ ان کا حافظہ کمزور تھا اور وہ زیادہ غلطیاں کرتے تھے۔[31]

تاہم محقق شعیب الارنووط نے سند میں ضعف کے باوجود اس روایت کو صحیح کہا ہے۔مارگولیتھ کے اعتراض کے مناسب جوابات وہ ہیں جو اس سے قبل ہم نے ذکر کیے۔[32]

پانچواں شبہ

مارگولیتھ لکھتے ہیں :

“the son of Abu Kabshah”. . .“but what the nature of the insult was we cannot define with certainty”.[33]

" ابو کَبشہ کا بیٹا "۔۔۔۔۔" لیکن اس توہین کی نوعیت کیا تھی ہم اس کی یقینی وضاحت نہیں کر سکتے ۔ لیکن مارگولیتھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کنیت یا آبائی لقب عرب میں ایک عام بات ہے۔[34]

مارگولیتھ کا پانچواں اعتراض ابو کبشہ کے الفاظ آنحضرتﷺ کے بارے میں وارد ہونے سے متعلق ہے۔

رسول اللہ کو ابو کبشہ کہنے کی وجہ :

اس حوالے سے محققین نے دو طرح کی وضاحتیں کی ہیں:

1۔یہ ایک توہین آمیز اصطلاح ہےجو عام طور پر عرب اپنے دشمنوں کے لئے غصے ، بغض اور سخت ناپسندیدگی میں استعمال کرتے ہیں ۔ یہ یقیناً ابو سفیان (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور رسول اکرم ﷺ کے بڑے دشمنوں میں سے تھے) شاہ روم کے دربار میں بادشاہ کی باتوں سے جو انہوں نے آنحضرتﷺکے بارے میں کہی تھیں،پر غصے کا اظہار کیا تھا اور یہ الفاظ کہے تھے ۔مارگولیتھ، ابو سفیان کے اس ذاتی خیال کو لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک کم تر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ [35]

2۔ دلائل النبوۃ میں ذکر ہے کہ پہلا شخص جس نے شَعریٰ (ستارے ) کی عبادت کی تھی وہ ابو کبشہ کہلائے ۔ اس نے اپنی قوم کے دین کی خلاف ورزی کی تھی لہٰذا جب آنحضرتﷺ نے قریش کے دین کی خلاف ورزی کی اور آپ دین حنیف کو لائے تو انہوں نے آنحضرتﷺ کو بھی ابو کبشہ کے ساتھ تشبیہ دی۔ [36]

ابن بطال کہتے ہیں جہاں تک ابوکبشہ کی بات ہے تو وہ بی بی آمنہ کے باپ کو کہتے تھے اور عبدالمطلب کی ماں سلمہ کے باپ کا نام عمرو بن زید بن اسد تھا۔ وہ عرب میں ابو کبشہ کے نام سے مشہور تھے اور حارث بن عبد العزیٰ بن رفاعہ السعدی بھی آنحضرت ﷺکے رضاعی باپ تھے، وہ بھی ابو کبشہ کے نام سے مشہور تھے۔ [37]

ابن قتیبہ کہتے ہیں ابو کبشہ ، آنحضرت ﷺ کے ماں کی طرف کے ایک نانا کا نام تھا ان کی کنیت ابو کبشہ تھی انہوں نے عرب کے لوگوں کے آبائی مذہب سے منحرف کیا تھا اور "الشعری" کی عبادت کی تھی چونکہ اس عبادت سے عرب نا آشنا تھے اس وجہ سے جب آنحضرتﷺ نے مشرکین مکہ کے سامنے دین اسلام پیش کیا تو ان کو بھی ابو کبشہ کا بیٹا کہا گیا ۔ [38]

بدرالدین عینی لکھتے ہیں ابو کبشہ بنو خزاع کا ایک آدمی تھا اس نے الشعری کی عبادت کی تھی ۔ [39]

خلاصہ بحث :

مذکورہ بحث سے یہ نتائج سامنےآئے ہیں کہ مارگولیتھ نے آنحضرت ﷺ کے خاندان کےحوالے سے جو شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ سراسر بے بنیاد ہیں ۔

1۔ مارگولیتھ کا نسب مطہرہ کے حوالے سے مطالعہ معکوس طریقہ پر مبنی ہے۔جو کہ مستند اور صحیح روایات کو نظر انداز کر کے ضعیف اور مرجوح روایات کا سہارا لیتے ہیں۔

2۔ نسب مطہرہ کے بارے میں مارگولیتھ نے زیادہ تر ضعیف روایات یا بعض روایات سے بغیر موقع و محل کے استدلال کرتے ہیں۔

3۔مارگولیتھ نے اپنی کج فہمی کی وجہ سے نسب مطہرہ پر اعتراضات کئے ہیں حالانکہ ان کے مطالعہ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبداری سے حقیقت بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

4۔ Oxford University میں عربی کے پروفیسر کو عربی سمجھنے میں اتنی دقت کیسے ہو سکتی تھی کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھنے میں غلطی کریں۔ اس سے مارگولیتھ کی اسلام دشمنی کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔ [40]

 

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. References اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، دانش گاہ پنجاب، لاہور 1405ھ/ 1985ء ج18، ص 316-317 Urdu Encyclopedia of Islam,(Lahore, University of Punjab, 1985), 18:316-317
  2. D.S. Margoliouth, Muḥammad and The Rise Of Islam, (G.P. Putnam Son’s New York 1905), 45
  3. امام احمد،محمد بن حنبل ، مسند امام احمد بن حنبلؒ، موسستہ الرسالہ ، بیروت ،1995ء، ج29،ص، 58 رقم 17517 ۔ Aḥmad bin ḥanbal, al Al Musnad, (Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 1995), 29: 58, ḥadith No: 17517
  4. المزی، جمال الدین ابو الحجاج یوسف، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ، موسستہ الرسالہ ، بیروت، 1983ء ج32، ص210. Jamal al Din Yousaf, Tahdhib al kamal fi asm’ al Rijal, (Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 1983), 32: 210 و ابن عدی ،احمد بن عبداللہ ، الکامل فی ضعفاء الرجال ، دارلفکر بیروت، طبع دوم ، 1985ء، ج7،ص272،رقم 2167 Ibn e ‘Adi, al Kamil fi ḍu‘fa’ al Rijal, (Beirut: Dār al Fikar, 2nd Edition, 1985), 7: 272, No.: 2167 و ابن حبان، المجروحین ، دارالصمیعی للنشرو التوزیع ، ریاض،2000ء، ج2،ص454، رقم 1179۔ Ibn e ḥibban, al Majroḥyn, (Riyaḍ: Dār al ṣumae’y, 2000), 2:454, No.: 1179
  5. ابن حجر ، أحمد بن علي ، تہذیب التہذیب ، دارالفکر بیروت ،1984ء، ج9، ص 135و 144۔ Ibn e ḥajar, Tahdhib al Tahdhib, (Beirut: Dār al Fikar, 1984), 9:135-144
  6. البانی، محمدناصرالدین ، ضعيف سنن الترمذي،مکتبہ العلمیہ ،1420ء ، ج1،ص481۔ Muḥammad Naṣer al Din, ḍ‘eyf Sunan al Tirmidhy, (Beirut: al ‘ilmiyyah,1420), 1:481
  7. آپ کے خاندانی سیادت کے حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں : وعن وائلة بن الأصقع رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ( امام مسلم ، مسلم بن حجاج ، الجامع صحيح، ج7، ص 58، رقم 6077) ۔، وَعَنِ الْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ  قَالَ: قَالَ النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الله خلق الخلق فجعلني من خيرهم، ومن خَيْرِ قَرْنِهِمْ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْقَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيلَةٍ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْبُيُوتَ، فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوتِهِمْ. فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا، وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا (ابو عيسیٰ ترمذی ، محمد بن عيسیٰ ، الجامع صحيح الترمذی ، ج5، ص584، رقم 3607)- يعدّ نسبه صلى الله عليه وسلم في الناس من خيرِ أهلِ الأرضِ نَسَبَاً على الإطلاقِ، فنسبُهُ من الشَّرفِ في أعلى ذروةٍ، وأعداؤه كانوا يشهدون له بذلك، ولهذا شهد له به عدوه إذْ ذاك أبو سفيان بين يدي ملكِ الروم ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ....فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا- (بخاری ، محمد بن اسماعیل ، صحيح البخاري ، كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ ،ج1،ص8،رقم 7) Muḥammad bin ‘Iysaʼ , Al Jam‘ al ṣaḥiḥ al Tirmidhy, 5:584, No.:3607Muḥammad bin Isma‘il al bukhary, ṣaḥiḥ al bukhary, 1:8, No.:7
  8. بطور مثال چند سیرت نگاروں کے آراء ذیل میں ذکر کیےجاتے ہیں : امام بیہقی نے باب قائم کر کے (باب ذکر شرف اصل رسول الله و نسبه )صحیح مسلم کی واثلۃ ابن الاسقع ؓ کے حوالے سے روایت نقل کی ہیں اس کے ذیل میں امام بیہقی کی دلائل النبوۃ کے محقق ڈاکٹر عبدالمعطی قلعجی لکھتے ہیں : و معرفة النسب النبوي الشرف عنصر مهم في اثبات دلائل النبوۃ : ومن علاماتهم ايضاً ان يکونوا ذوي احساب في قومهم وذالک لا يحتاج الي اقامة دليل عليه، فالنبي نخبة بني هاشم ، و سلا لة قريش ، واشرف العرب ، واعزم نفر من قبل ابيه و امه ، واعداؤہ کانوا يشهدون له بذالک ، ففي مسئله هرقل لابي سفيان ، کما هو في الصحيح۔ (امام بیہقی ، دلائل النبوۃ ، تحقیق: ڈاکٹر عبدالمعطی قلعجی ، دارالکتب العلمیہ بیروت، طبع اول 1988ء ، ج1، ص 165)۔ Byḥaqy, Dala‘yl al nubowwah, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1988), 1:165 وذالک لا يحتاج الی اقامة دليل عليه... واعداؤه ﷺ کانوا يشهدون له بذالك. (الصالحي، محمد یوسف الشامی ، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ،دار احیاء التراث الاسلامی ، 1997 ء، ج1 ، ص 276) ۔ Muḥammad Yousaf al shamy, Subol al huda wa al Rashad fi sirat e khyr al ‘ebad, (Dār ʼeḥya al turath al islamy, 1997), 1:276 وقد عد د بعض العلماء جملاً منها؛ قال القاضي عياض في الشفا بتعريف حقوق المصطفى:وأما شرف نسبه، وكرم بلده، ومنشئه فمما لَا يَحْتَاجُ إِلَى إِقَامَةِ دَلِيلٍ عَلَيْهِ، وَلَا بَيَانِ مُشْكِلٍ، وَلَا خَفِيٍّ مِنْهُ، فَإِنَّهُ نُخْبَةُ بَنِي هَاشِمٍ، وَسُلَالَةُ قُرَيْشٍ وَصَمِيمُهَا، وَأَشْرَفُ الْعَرَبِ، وَأَعَزُّهُمْ نَفَرًا مِنْ قِبَلِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، وَمِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، مِنْ أَكْرَمِ بِلَادِ اللَّهِ عَلَى الله، وعلى عباده۔ (قاضی عياض ، الشفاء بتعريف حقوق مصطفیٰ ، دار کتاب العربی ، 1984ء، ج1، ص 81) ‘iyadh, al shifa be t‘aryf e ḥqooq e Muṣtafa,(Dār kitab al ‘arabi,1984), 1:81 ۔ يعدّ نسبه صلى الله عليه وسلم في الناس من خيرِ أهلِ الأرضِ نَسَبَاً على الإطلاقِ، فنسبُهُ من الشَّرفِ في أعلى ذروةٍ، وأعداؤه كانوا يشهدون له بذلك، ولهذا شهد له به عدوه إذْ ذاك أبو سفيان بين يدي ملكِ الروم ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ۔۔۔۔۔۔۔ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا-(ابن بطال ، ابو الحسن علی بن خلف بن عبد الملک،شرح صحيح البخاري ، باب بداء الوحی، تحقيق: ابو تميم ياسر بن ابراهيم ، مکتبه الرشد ، رياض، 2003ء ج1، ص41) ‘Ali bin Khalf, Sharah ṣaḥyḥ al bukhary, (Riyaḍ: Maktabah al rushd, 2003), 1:41
  9. ۔ مسنداحمد بن حنبل، ج3 ، ص 307، رقم 1788 Aḥamad bin ḥanbal, Al Musnad, 3:307, No.: 1788
  10. الذہبی ، ابو عبداللہ محمد بن احمد ، سیر اعلام النبلاء ،مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت لبنان،1993ء ، ج6، ص130 Muḥammad bin Aḥamad al Dhahbi, seeyar a‘lam al nubalaʼ, (Beirut: Muassissat al risalah, 1993), 6:130
  11. البانیؒ،محمد ناصر الدین ، ضعيف سنن الترمذي ، مکتبہ المعارف ، 1998ء، ج8،ص108 Muḥammad Nasir al Din, ḍa‘yf sunan al tirmizy, (Maktabah al ma‘rif, 1998), 8:108
  12. مسندامام احمد بن حنبل ، ج3، ص298، رقم 1777 Aḥamad bin ḥanbal, al Musnad, 3:3298, No.: 1777
  13. مسندامام احمد بن حنبل ج4، ص165 رقم17550 Aḥamad bin ḥanbal, al Musnad, 4:165, No.: 17550
  14. حاکم، عبداللہ محمد بن عبداللہ نیشاپوری ، المستدرك علی الصحیحین ، ذكر فضائل القبائل ،رقم 7032 ،ج 4 ،ص 168 Muḥammad bin Abdu llah ḥakim, almustadrak ‘ala al ṣaḥyḥain, 4:168 , No.: 7032
  15. الذہبی ، ابو عبداللہ محمد بن احمد ،میز ان الاعتدال ،تحقیق: ڈاکٹر عبدالفتاح ، مکتبہ رحمانیہ ،لاہورپاکستان ، ج3، ص 371 Muḥammad bin Aḥamad al dhahby, myzan al e‘tidal, (Lahore: Maktabah Rahmaniyah), 3: 371
  16. تهذيب الكمال ،ج 25 ، ص210   Tahdhib al kamal, 25:210
  17. بخاری،محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ، ، ج6، ص129، رقم 4818/ ج4، ص178، رقم 3492/3497 Muahammad bin Isma‘il, al Jam‘ al ṣaḥyḥ , 6:129 , No.: 4818 Ibid,. 4:178, No.: 3492, 3497
  18. اے۔ جے۔ وینسک ، محمد فوائد الباقی ، مفتاح کنوز السنۃ ، فانا خیرکم بینا و خیرکم نفسا،دارالکتب العلمیہ ، 1934ء، ص 436 ۔ Muḥammad Fawʼed al baqy,Miftaḥ al kunooz al sunnah, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1934), 436
  19. سورۃ الزخرف: 31 Surah al Zukhruf, Verse No. 31
  20. D.S. Margoliouth , Muḥammad and The Rise Of Islam, 47
  21. سورۃ الزخرف : 31 Surah al zukhruf, Verse No. 31
  22. ابن کثیر ، ابو الفداء اسماعیل بن عمر ،تفسیر القرآن العظیم ، دارالکتب العلمیہ ، 1999ء، ج 4 ،43:31 Isma‘il bin ‘umar, tafsyr al Qurʼan al ‘aṭym, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1999), 4:31-43
  23. سورہ ص: 8 Surah ṣad, Verse No. 8
  24. D.S.Margoliouth, Muḥammad and The Rise Of Islam, 45.46 .
  25. ابن ہشام ، ابو محمد عبدالملک ،سیرت ابن ہشام،مکتبہ دار العلوم ، کراچی ، 1994ء، ج 2،ص 278-279 Ibn e hisham, Sirat ibn e hisham, (Karachi: Maktabah Dārululoom, 1994), 2:278-279
  26. سورۃ الحجرات: 13 Surah al ḥujrat, Verse No. 13
  27. D.S. Margoliouth, Muḥammad and The Rise Of Islam, 45 46 .
  28. مسنداحمد بن حنبل، ج3، ص241،رقم 13553 Aḥamad bin ḥanbal, al Al Musnad, 3:241, No.: 13553
  29. سیوطی ، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر، جامع الصغیر ، دارالفکر بیروت ، ج1، ص42، رقم 235و علی بن حسام الدین المتقی الہندی، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال ،موسسۃ الرسالۃ ، بیروت ، 1989ء ، ج27، ص 244، رقم 7960 Suooṭy, Jam‘u al ṣaghir, (Beirut: Dār al Fikar), 1:42, No.: 235 ‘Ali bin ḥussam al hindy, kanz al ‘ummal fi sunan al Aqwal wal af‘al, (Beirut: Muassissat al risalah, 1989), 27:244, No.: 7960
  30. بخاری ، محمد بن اسماعیل ،تاریخ الکبیر، ج8، ص 49 و سیر اعلام النبلاء، ج 19، ص92 Muḥammad bin Isma‘il al Bukhari, Tarikh al kabir, 8:49 seeyar a‘lam al nubalaʼ, 19:92
  31. ابن حجر العسقلانی ، تہذیب التہذیب ، ج 9 ،ص 275 Ibn e ḥajar, Tahdhib al Tahdhib, 9:275
  32. مسند امام احمد بن حنبل ، ج20، ص 23، رقم 12551 Aḥamad bin ḥanbal, al Al Musnad, 20:23, No.: 12551
  33. D.S. Margoliouth, Muḥammad and The Rise Of Islam , 50- 51.
  34. Ibid.
  35. صحیح بخاری ، ج 1،ص8، رقم 7 Ṣaḥiḥ al Bukhari, 1:8, No.:7
  36. بیہقی ، احمد بن الحسین ،د لائل النبوۃ ،بیروت ، دارالکتب العلمیہ ، 1988ء، ج1، ص 204- 205 Aḥamad bin al ḥusain al byhaqy, dalʼil al nubowwah, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1988), 1:204-205
  37. ابن بطال ،أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك البكري القرطبي، شرح صحيح البخارى ـ لابن بطال ، دار النشر : مکتبہ الرشد السعودیہ ، الرياض ،2003ء، ج1،ص28 و دلائل النبوۃ ، ج1، ص 204-205 ‘Ali bin khulf, sharaḥ ṣaḥyḥ al Bukhari, (Riyaḍ, Maktabah al rushd, 2003), 1:28 dalʼil al nubowwah, 1:204-205
  38. دلائل النبوۃ ، ج1، ص 204-205 dalʼil al nubowwah, 1:204-205
  39. العینی ، بدرالدین ، عمدة القاري شرح صحيح البخاري،مکتبہ دارکتب العلمیہ ، 2006 ء ، ج1 ص213 Badār al din al‘yny, Umdat al qari, (Dār kutub al ‘ilmiyyah, 2006), 1:213
  40. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn40
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...