Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 1 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

نظریہ فوقیت یا نسلی برتری: مذاہب عالم اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

دىن ومذہب ہر انسان كى اہم ترىن، اوّلىن اورفطرى ضرورت ہے۔ىہ ہر انسان كى مادى اور روحانى تقاضوں كى تكمىل كاراستہ ہے ۔مخلوق اور خالق كے تعلق كى بنىاد مذہب ہے۔اسی طرح اس رشتے اورتعلق كى مضبوطى اور گہرائى كا انحصارمذہب ہى پر منحصر ہے۔ فردسے قوم اور معاشرے بننے كے سفر مىں جتنے قوانىن، حقوق وفرائض اور ذمہ دارىوں كى ضرورت پڑتى ہے ،اُسكے لئے رہنمائى اورہداىت كاسبب مذہب ہے۔

"آثارِ قدىمہ ،علم الانسان اور جغرافىائى تحقىقات نے ىہ واضح كردىاہے كہ اب تك انسانوں كى كوئى مستقل جماعتى ،قومى ىا تہذىبى زندگى اىسى نہىں رہى ہے جو مذہب كى كسى نہ كسى شكل سے ىكسر عارى رہى ہو‘‘[1]

اس بات كى تائىد قرآن مجىد كى اس آىت مباركہ سے بھى ہوتى ہے ارشاد بارى تعالىٰ ہے:

’’ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ ‘‘[2]

’’اور ہم نے اُٹھائے ہىں ہر اُمت مىں رسول كہ بندگى كرو اللہ كى‘‘

مندرجہ بالا آىت كرىمہ سے ىہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ ہرقوم كو اىك رہنما اور رہبر اُن كى رہنمائى كے لئے بھىجاگىاہے۔

ادىان ومذاہب كى تقسىم بنىادى طورپر دوطرح ہے:الہامی اور غیر الہامی۔ نسلى بنىادوں پر مذاہب كى تقسىم ایک اور حوالے سے بھی کی گئی ہے:

  1. سامى مذہب
  2. آرىائى مذہب
  3. منگولى مذہب[3]

’’سامى مذہب مىں ىہودىت ، عىسائىت اور اسلام شامل ہىں۔جبكہ آرىائى مذاہب مىں ہندومت ،جىن مت ،زرتشى مذہب اور سكھ مت كو شامل سمجھا جاتاہے ۔منگولى مذاہب سے مراد كنفىوشى مت ، تاؤمت ،اسلاف پرستى،شنٹومت اورغالبًا بدھ مت بھى شامل ہىں۔‘‘[4]

مذاہب كے مطالعہ مىں دىگر مذاہب كى تارىخ، عقائد واعمال اور تعلىمات كا مشاہدہ كىا جاتاہے جس مىں ان کے مختلف نظرىات وتصوّرات بھى سامنے آجاتے ہىں اور ان نظرىات وتصوّرات كے ان مذاہب كے پىروكاروں پر ان كے اثرات بالخصوص اور دىگر افراد، اقوام اور معاشروں پر بالعموم واضح ہوتے ہىں۔

زىرِ بحث موضوع اس حوالے سے ہے كہ مختلف ادىان ومذاہب مىں نظرىات وتصوّرات برتری كس حدتك پائے جاتے ہىں ىا ان کےبرعكس ان میں کون سی تعلیمات ہىں جو ان کے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کر چکی ہیں؟

اس بحث مىں مذاہب كى تارىخ، عقائد اور عمومى تعلىمات كى بجائے ان خصوصى نظرىات كا ہى ذكر كىا جا رہا ہے۔

یہودیت اور نظریہ برتری:

’’لفظ ىہود ہوادة سے ماخوذہے جس كے معنى مودة اوردوستى كے ہىں ىا ىہ ماخوذ ہے تہود سے جس كے معنى توبہ كے ہىں ۔جىسے قرآن كرىم مىں ’’اناھدنااليك‘‘[5] حضرت موسىٰ علىہ السلام فرماتے ہىں ہم اے اللہ تىرى طرف توبہ كرتے ہىں۔پس انہىں انہى دووجوہات كى بناء پر ىہود كىاگىاہے توبہ كى وجہ سے اور آپس كى دوستى كى وجہ سے ‘‘[6]

سامى اور الہامى مذاہب مىں قدىم ترىن مذہب ىہودىت ہے جو كم وبىش چارہزارسال پرانا مذہب ہے ۔ىہودى اپنا جدّامجد حضرت ابراہىم علىہ السلام كومانتےہیں جن كا علاقہ عراق تھا۔ ىہود كااىك اورنام اسرائىل بھى ہے جو کہ حضرت ىعقوب علىہ السلام كا لقب ہے اورىہودى ان كى اولاد ہونے كى نسبت سے بنى اسرائىل كہلاتے ہىں۔ان كا وطن كنعان رہاہے۔

واقعہ ىوسف علىہ السلام سے بنى اسرائىل كے مصر ہجرت كرنے كا علم ہوتاہے جہاں پر وہ حضرت موسىٰ علىہ السلام كى سربراہى مىں فرعون كى غلامى سے چھڑالئے گئے ۔وادى ٔ سىنا مىں چالىس سال بھٹكتے رہنے كے بعد بنى اسرائىل حضرت ىوشع بن نون(علیہ السلام) كى سركردگى مىں واپس سرزمىنِ فلسطىن مىں داخل ہوئے۔

اپنى اس پورى تارىخ مىں بنى اسرائىل كواللہ تعالىٰ نے مختلف انعامات سے نوازا جس كا ذكر قرآن مجىد مىں ملتاہے ۔ارشاد بارى تعالىٰ ہے:

’’ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ۔[7]

’’اے بنى اسرائىل ىادكرومىرے احسان جو مىں نے تم پر كئے اور اُس كوكہ مىں نے تم كو بڑائى دى تمام عالم پر۔‘‘

بنى اسرائىل كے پاس خدائى شرىعت تورات كے نام سے آئى ۔تورات كى مختلف آىات سے بنى اسرائىل کی مخصوص حیثیت کا تعین ہوتا ہے:

’’اور مىں اپنے اورتىرے درمىان (ابرہىم علىہ السلام) اورتىرے بعد تىرى نسل كے درمىان اُن كى سب پشتوں كے لئے اپنا عہد جوابدى عہد ہوگا ىا باندھوں گا تاكہ مىں تىرااورتىرے بعد تىرى نسل كاخداہوں اور مىں تجھ كو اورتىرے بعد تىرى نسل كو كنعان كا تمام ملك جس مىں توپردىسى ہے اىسادوں گا كہ وہ دائمى ملكىت ہوجائے اور مىں اُن كا خداہوں گا‘‘[8]

مذكورہ بالا عبارت مختلف نقاط كوواضح كرتى ہےیہ كہ ىہودکا خدا اىك نسلى خداہے،آبائى سرزمىن شام وفلسطىن كے علاقے اُن ہی كى ملكىت ہیں اورخداكى مدد صرف ان ہی کے لئے مخصوص ہے۔

بنى اسرائىل دنىا پر اپنے اقتداراورمكمل حكومت كے انتظار مىں ہیں ۔ىہى اُن كا وہ اہم عقىدہ ہے جو كہ ’’مسىحِ موعود‘‘ كا عقىدہ کہلاتاہے جوكہ اُن پر سے غىر ىہود كے تسلط كا خاتمہ كركے پورى دنىا پر صرف اُن كى حكومت قائم كردے گا،ان کے ان تصورات کا سبب ان کی مذہبی تعلیمات ہیں جیسا کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے:

’’مىں تجھے بركت پر بركت دوں گا اورتىرى نسل كوبڑھاتے بڑھاتے آسمان كے تاروں اورسمندر كے كناروں كى رىت كى مانند كردوں گااورتىرى اولاد اپنى دشمنوں كے پھاٹك كى مالك ہوگى اور تىرى نسل كے وسىلہ سے زمىن كى سب قومىں بركت پائىں گى كىونكہ تو نے مىرى بات مانى‘‘[9]

ىہود كے مذہبى ادب كے مطابق خدائے ىہودنے اپنے آپ پر اپنى قوم ىہود/بنى اسرائىل كى مدد كولازم كىاہواہے:

’’اوردىكھ مىں تىرے ساتھ ہوں اور ہرجگہ جہاں كہىں تو جائے تىرى حفاظت كروں گا اور تجھ كو اس ملك مىں پھر لاونگا اورجومىں نے تجھ سے كہا ہے جب تك اُسے پورنہ كرلوں تجھے نہىں چھوڑوں گا‘‘[10]

ىہود كے بنىادى عقائد مىں اپنى نسل كى عظمت اور برترى كا عقىدہ شامل ہے جس كى بناپر وہ خود كو الشعب المختار(Chosen People) ىعنى خداكے منتخب شدہ كہتے ہىں ۔ اسی حوالے سے ىہودىت كى تعرىف كرتے ہوئے اىك مصنف لكھتے ہىں:

’’ىہودىت وہ مذہب ہے جس مىں اىك خدا پر اىمان كے ساتھ ساتھ اىك نسل كى برترى وعظمت كاعقىدہ بھى داخلِ دىن ہے اس طرح ان کےمذہب كى بنىاد دواصولوں پر ہے(۱)خداكى وحدانىت(۲)بنى اسرائىل كى فضىلت ىعنى بنى اسرائىل ىا ىہودكا خداكى محبوب اورپسندىدہ امت ہونا‘‘[11]

ىہى تصوّر اورنظرىہ ىہود كے لئے نجات كاراستہ فراہم كرتاہے كہ چنىدہ قوم ہونے كى حىثىت سے وہ خداكے محبوب ہىں اور نجات ىافتہ ہىں جىساكہ قرآن مجىد مىں ان كا ذكرہے:

’’وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‘‘[12]

’’یہ لوگ کہتےہیں ہم توچندروزجہنم میں رہیں گے،ان سےکہوکہ تمہارےپاس اللہ کاکوئی پروانہ ہے۔اگرہےتویقیناًاللہ تعالىٰ اپنےوعدےکےخلاف نہیں کرےگابلکہ تم اللہ کےذمےوہ باتیں لگاتےہو۔جنہیں تم نہیں جانتے‘‘

بنى اسرائىل مصر مىں اىك طوىل عرصے تك خاندانِ فراعنہ كے غلام رہے ہىں۔ حضرت موسىٰ علىہ السلام كے ذرىعے اُن كو اس غلامى سے نجات دلائى گئى جىسا كہ تورات مىں ہے:

’’اورتوفرعون سے كہنا كہ خداوند ىوں فرماتاہےكہ اسرائىل مىراپہلوٹھاہے اور مىں تجھے كہہ چكاہوں كہ مىرے بىٹے كو جانے دے تاكہ وہ مىرى عبادت كرے اور تونے اب تك اُسے جانے دىنے سے انكاركىا ہے سودىكھ مىں تىرے بىٹے كو بلكہ تىرے پہلوٹھے كو مارڈالوں گا‘‘[13]

ىہ عبارت بنى اسرائىل كے خداكی محبوب ہونے كى تائىد كرتى ہے جس كو آج تك بنى اسرائىل اپنى برترى كا سبب بنائے ہوئے ہىں ۔ اُن كے كہنے كے مطابق ىہ نسبى عظمت اُن مىں نسل درنسل منتقل ہوتى چلى آرہى ہے۔

’’تب موسٰى علىہ السلام نے لوگوں سے كہا ڈرومت ۔ چپ چاپ كھڑے ہوكر خداوند كى نجات كے كام كو دىكھوجو وہ آج تمہارے لئے كرے گا كىونكہ جن مصرىوں كو تم آج دىكھتے ہو اُن كو پھر كبھى ابد تك نہ دىكھو گے ۔خداوند تمہارى طرف سے جنگ كرے گا اور تم خاموش رہوگے‘‘[14]

ىہود نسلى آمىزش سے شدىد اجتناب كرتے ہىں ، اشد ضرورت كے وقت بھى غىر ىہود سے اعضاء اور خون كى مددلىنے كے قائل نہىں ىہ نظرىات بالخصوص بنىاد پرست ىہودى ربىوں كے ہىں ۔ وہ یہودی خون كو ہر حال مىں خالص ركھنا چاہتے ہىں ۔اسى طرح حقوق وفرائض كے معاملے مىں بھى وہ غىر ىہود كے بارے مىں امتىازى سلوك كے قائل ہىں۔

’’اور تىرے جو غلام اور جو لونڈىاں ہو وہ ان قوموں مىں سے ہوجو تمہارے جو گردرہتى ہى اُن ہى مىں سے تم غلام اورلونڈىاں خرىداكرنا ۔ ماسوااُن كے اُن پردىسىوں كے لڑكے بالوں مىں سے بھى جو تم مىں بودوباش كرتے ہىں اور اُن كے گھرانوں مىں سے جو تمہارے ملك مىں پىداہوئے اورتمہارے ساتھ ہىں تم ان كو خرىداكرنا اور وہ تمہارى ہى ملكىت ہوں گے۔ اور تم اُن كو مىراث كے طورپر اپنى اولادكے نام كردىنا كہ وہ اُن كى موروثى ملكىت ہوں۔ان مىں سے تم ہمىشہ اپنے لئے غلام لىا كرنا لىكن بنى اسرائىل جو تمہارے بھائى ہىں اُن مىں سے كسى پر تم سختى سے حكمرانى نہ كرنا‘‘[15]

گوىاغىر اسرائىلى غلام بھى بنائے جاسكتے ہىں اور وراثتى ملكىت مىں بھى دىے جاسكتے ہىں اور ان كے برعكس صرف اسرائىلىوں كے ساتھ نرمى كا معاملہ كىا جاسكتاہے۔اس كى تائىد قرآن پاك كى اس آىتِ مباركہ سے بھى ہوتى ہے:

’’ وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘[16]

’’اوربعضے اہل كتاب مىں وہ ہىں كہ اگر توان كے پاس امانت ركھے توڈھىرمال كا تواداكردىں تجھ كو اوربعضے اُن مىں سے وہ ہىں كہ اگر تو اُن كے پاس امانت ركھے اىك اشرفى توادانہ كرىں تجھ كو مگر جب تك كہ تورہے اُس كے سر پر كھڑاىہ اس واسطے كہ انہوں نے كہہ ركھا ہے كہ نہىں ہے ہم پر اُمى لوگوں كے حق لىنے مىں كچھ گناہ اورجھوٹ بولتے ہىں اللہ پر اوروہ جانتے ہىں ‘‘

نصرانیت/مسىحىت:

سامى مذاہب مىں ىہودىت كے بعد عىسائىت ہے جو كہ حضرت عىسىٰ علىہ السلام كے طرف منسوب ہے ۔قرآن مجىد مىں اس كے لئے نصرانىت اور اس كے پىروكاروں كو نصرانى ىا نصارىٰ [17]كہاگىاہے۔

حضرت عىسىٰ علىہ السلام كوقومِ ىہود/بنى اسرائىل ہى كے نبى بناكربھىجا گىا تھا ۔اُن كو دى جانے والى شرىعت انجىل ہے۔

ىہودىوں كے مقابلے مىں نصرانىوں کا رویہ، برترى كى بجائے عاجزى اور انكسارى پر مبنى ہے جىساكہ انجىل كى مختلف عبارات سے واضح ہوتاہے:

’’تم سن چكے ہوكہ كہاگىا تھا كہ آنكھ كے بدلے آنكھ، اور دانت كے بدلے دانت ۔لىكن مىں تم سے ىہ كہتاہوں كہ شرىركامقابلہ نہ كرنا جو كوئى تىرے داہنے گال پر طمانچے مارے ، دوسرابھى اُس كى طرف پھىردے۔ اور اگركوئى تجھ پر نالش كركے تىراكرتالىنا چاہے تو چوغہ بھى اُسے لىنے دے۔ اورجوكوئى تجھے اىك كوس بىگار مىں لے جائے اُس كے ساتھ دوكوس چلا جا‘‘[18]

عىسائىت كى تعلىمات ہرشخص كے لئے خىرخواہى پر مبنى ہىں چاہے وہ دشمن ہى كىوں نہ ہو:

’’تم سن چكے ہوكہ كہاگىاتھا كہ اپنے پڑوسى سے محبت ركھ،اپنے دشمن سے عداوت،لىكن مىں تم سے ىہ كہتاہوں كہ اپنے دشمنوں سے محبت ركھ اور اپنے ستانے والوں كے لئے دعا كرو۔تاكہ تم اپنے باپ كے جو آسمانوں پر ہے بىٹے ٹھہروكىونكہ وہ اپنے سورج كو بدوں اور نىكوں دونوں پر چمكاتاہے

’’كىونكہ جو كوئى مىرے آسمانى باپ كى مرضى پر چلے وہى مىرابھائى اورمىرى بہن اورماں ہے‘‘[19]

عىسائىوں كى كتاب ِمقدّس كے مطابق انسانوں كے درمىان رشتے كى بنىاد حسب ونسب كى بجائے صرفِ خداكى فرمان بردارى ہے نہ كہ نسلى ہم آہنگى جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہے۔اس میں غىر اقوام كے ساتھ نرمى اور عادلانہ برتاؤكاحكم ہے۔

عىسائىت كى ىہ تعلىمات بىن الاقوامى رواداری كى سوچ كى عكاسى كرتى ہىں ۔

اسى طرح نجات كادارومداربھى عمل پر ہى ہے نہ كہ نسبی عظمت اورنسلى برترى ۔جىساكہ مذكورہے:

’’اچھے بىج كا بونے والا ابن آدم ہے۔ اوركھىت دنىا ہے اور اچھا بىج بادشاہى كے فرزند اور كڑوے دانے اُس شرىر كے فرزندہىں ۔ جس دشمن نے اُن كو بوىاوہ ابلىس ہے اوركٹائى دنىا كاآخرہے اوركاٹنے والے فرشتے ہىں پس جىسے كڑوے دانے جمع كئے جاتے اور آگ مىں جلائے جاتے ہىں وىسے ہى دنىا كے آخر مىں ہوگا‘‘[20]

اسى طرح تواضع اور انكسارى كے برتاؤكو اپنانے كى تعلىمات دى گئى ہىں:

’’لىكن جو تم مىں بڑاہے وہ تمہاراخادم بنے اورجوكوئى اپنے آپ كو بڑابنائے گا وہ چھوٹاكىاجائے گا اور جوكوئى اپنے آپ كو چھوٹا بنائے گا وہ بڑاكىا جائے گا ‘‘[21]

عىسائىت كى دىگر تعلىمات کے مطابق شرىعت سے منہ موڑنے والاجو اگرچہ نسلی لحاظ سےىہودى ہى ہو ،اُس كے لئے اُس كاىہودىوں مىں سے ہونا كوئى فائدہ نہىں دىتا:

’’تو جو شرىعت پر فخركرتاہے شرىعت كے عدول سے خداكى كىوں بے عزتى كرتاہے؟ كىونكہ تمہارے سبب سے غىرقوموں مىں خداكے نام پركفربكاجاتاہے ۔چنانچہ ىہ لكھا بھى ہے ۔ختنہ سے فائدہ تو ہے بشرطىكہ توشرىعت پرعمل كرے لىكن جب تونے شرىعت سےعدول كىا تو تىراختنہ نامختونى ٹھہرا۔پس اگر نامختون شخص شرىعت كے حكموں پر عمل كرے تو كىا اُس كى نامختونى ختنہ كے برابر نہ گنى جائے گى؟اور جو شخص قومىت كے سبب سے نامختون رہا اگر وہ شرىعت كو پوراكرے تو كىا تجھے جو باوجود كلام اور ختنہ كے شرىعت سے عدول كرتاہے قصوروارنہ ٹھہرائے گا؟ كىونكہ وہ ىہودى نہىں جو ظاہر كرہے اور نہ وہ ختنہ ہے ظاہرى اورجسمانى ہے۔بلكہ ىہودى وہى ہے جو باطن مىں ہے اور ختنہ وہى ہے جودل كا اورروحانى ہےنہ كہ لفظى ۔اىسے كى طرف آدمىوں كى طرف سے نہىں بلكہ خداكى طرف سے ہوتى ہے‘‘[22]

اىك اور عبارت مىں برتری اورفوقىت كے نظرىے كو عبث اور بے فائدہ قراردىاگىاہے:

’’پس ىہودى كو كىا فوقىت ہے ؟ اورختنہ سے كىافائدہ؟ہرطرح سے بہت خاص كر ىہ كہ خداكاكلام ہے اُن كے سپرد ہوا۔اگربعض بے وفا نكلے تو كىا ہوا؟ كىا اُن كى بے وفائى خداكى وفادارى كو باطل كرسكتى ہے ؟ہرگز نہىں ۔بلكہ خداكاسچاٹھہرےاور ہراىك آدمى جھوٹا‘‘[23]

ىہ واضح ہوا كہ فوقىت كا معىارصرف ىہودى ہونا اور حاملِ شرىعت ہونانہىں بلكہ خداتعالىٰ سے وفادارى ہے اور اسی کونجات كا سبب اور خداكى رضامندى كے حصول كا ذرىعہ عمل بتاىاگىاہے۔

حضرت عىسىٰ علىہ السلام كے بعد جب عىسائىت پر بگاڑكازمانہ آىا تو عىسائىوں كے كچھ گروہوں مىں بھى خداكے محبوب اورچہىتے ہونے كے دعوىدارپىداہوئے جس كى طرف قرآن مجىد نے اشارہ كىاہے:

’’ وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ‘‘[24]

’’اوركہتے ہىں ىہود اورنصارىٰ ہم بىٹے ہىں اللہ كے اور اس كے پىارے‘‘

ہندومت:

ہندومت کی ایک جامع تعریف ممکن نہیں کیونکہ اس کی کوئی مستند اور منظم تاریخ موجود نہیں ہے:

’’اصطلاحى اور علمى زبان مىں مذہب كى جو تعرىف ہے اس كو مدّنظر ركھتے ہوئے ىہ كہنا بہت مشكل ہے كہ ہندومذہب كىا ہے اور كن بنىادى عقائد پر ىقىن ركھنا اس كے ماننے والے كے لئے لازم ہے كىونكہ نصرانىت اور اسلام كى طرح نہ تو اس كے كسى پىغمبر كا وجود ہے نہ كسى الہامى كتاب كا اور نہ كسى معىن عقىدے كا ‘‘[25]

آرىائى مذہب مىں سے قدامت كے اعتبارسے ہندومت كا نمبر پہلے آتاہے ۔ مختلف تہذىبىں سرزمىن ہندوستان مىں پىداہوئىں۔ہندومت كى ابتدائى اورقدىم تارىخ كے بارے مىں زىادہ مستند معلومات موجود نہىں۔ آرىائى قوم جن كے بارے مىں كہاجاتاہے كہ وہ وسطى اىشىاء سے ہجرت كركے اس علاقے مىں آئی تھی، ان سے ہى ہندومت كى مذہبى اورسماجى رواىات كاآغاز ہواہے۔ىہ زمانہ ۱۵۰۰ ق۔م كا زمانہ بتاىا جاتاہے۔

آرىائى قوم ہندوستان كى سرزمىن پر فاتح كى حىثىت سے واردہوئى۔ جس كے نتىجے مىں وہاں كے باشندے ان كے مفتوح بن گئے۔

ان كى آمد سے پہلے ہندوستان مىں مختلف گروہوں كے ذمّے حقوق وفرائض كى مذہبى اور سماجى تقسىم موجود تھى جس كوان كى آمد كے ساتھ اىك مضبوط ،موروثى اور نسلى نظام کی حیثیت دے دی گئی۔

’’وىدك عہد مىں ورن كانظام موجودتھااوروىدوں نے اس طبقاتى تقسىم كواىك مذہبى بنىاد بھى فراہم كردى تھى۔جىساكہ وىد مىں ذكرہے:

اس كے منہ سے برہمن (جاتى) پىداہوئى، ہاتھوں سے چھترى راجا،اس كى ٹانگو ں سے ،عام آدمى (وىش) پىداہواجوكاروبارمىں مشغول رہتاہے ،كم حىثىت غلام نے اس كے پىرو سے جنم لىا‘‘[26]

ہندوستانى معاشرہ مىں ىہ تقسىم ىہاں كے باشندوں كے درمىان اونچ نىچ، برترى اوركم ترى كو ظاہركرتى ہے، اس طبقاتى نظام كوباقاعدہ تحفظ مذہبى ادب نے دىا ہے جىسا كہ مذكورہ عبارت سےواضح ہوا ۔

آرىاؤں نے اپنے نسلى تحفظ كے لئے ہندوستان كے اصلى باشندوں كو غلاموں كا درجہ دىاجنہىں شودركا نام دىاگىا جبكہ اپنے آپ كو اعلىٰ طبقات جن مىں برہمن، كھشترى اوروىش شامل ہیں،مىں تقسىم كركے اپنى اپنى ذمہ دارىاں سونپ دىں۔اسی کی تائید منو دھرم شاستر سے بھی ہوتی ہے:

’’برہمانے اپنے منہ سے برہمن كو، ہاتھ كو كھشترى كو ، ران سے وىش كو اور پاؤں سے شودر كو پىداكىاہے"[27]

سب سےاعلىٰ طبقہ برہمن تھا جو مذہبى پروہتوں كى حىثىت ركھتے تھے ۔ىہ برہمنى مت كا دورتھا كہ جس مىں مذہب تك رسائى اور مذہب كادائرہ عمل صرف برہمن تك محدودتھا۔

’’رہ گىا سماج كادوسرا اعلىٰ طبقہ ىعنى چھترىوں ىاحكمرانوں كاطبقہ تو وہ اس مذہب سے بالواسطہ ]برہمنوں كے ذرىعہ [كسى حدتك مستفىد ہوسكتاتھا البتہ ملك كى اكثرىت –(غرىب چھترى،وىش،شودراوراچھوت) اس مذہبى رواىت سے ناآشنا ہى رہتے تھے‘‘[28]

ہندوستانى معاشرہ مىں اس طبقاتى نظام ىعنى نظامِ ذات پات (Caste System) كاآغازتقرىبًا تىن ہزارسال پہلے ہوا جو كہ جدىددور مىں بھى قائم ہے۔

فرائض وحقوق كى تقسىم كى بنىاد ركھنے والا ىہ نظام ’’ورن‘‘ كہلاتاہے۔ جس مىں سب سے زىادہ حقىر برتاؤ شودر كے ساتھ كىا جاتاہے۔

ہندؤوں كى قانونى اور مذہبى كتاب ’’منودھرم شاستر‘‘ كے مطابق برہمن كى حىثىت مندرجہ ذىل ہے:

  1. ’’عدم سے وجود مىں آنے والے برہمن سے عظىم كوئى مخلوق اس دنىا مىں نہىں۔ وہ تمام مخلوقات كا آقا اور زمىن پر مقدّس قانون كا محافظ ہے۔
  2. اس عالم مىں جو كچھ موجود ہے ،سب برہمن كى ملكىت ہے ۔اپنے مبداء تخلىق كے باعث وہ اس مرتبے كا حق داربھى ہے۔
  3. برہمن جو كچھ كھاتا، پہنتااور دان كرتاہے سب اسى كا ہے۔دوسرے تمام فانى انسان اسى كے طفىل چىزوں سے استفادہ كرتے ہىں‘‘[29]

اسى طرح آگے اس كى برترى اور عظمت كے بارے مىں آتاہے:

’’اپنى فضىلت ، اپنے اصل كى برترى ،مخصوص قواعد اور ودىعت شدہ تقدىس كے باعث برہمن تمام ذاتوں كا آقا ومالك ہے‘‘[30]

ورن کے نظام مىں چوتھا نمبر شودركا ہے جن کو صرف اور صرف خدمت كے لئے پىداكىا گىاہے۔

’’شودر كے لئے برہمن كى خدمت ہى بہترىن پىشہ قراردىاگىاہے اس لئے كہ كوئى بھى دوسراكام اس كے لئے لاحاصل رہے گا۔برہمنوں كاپس خوردہ شودركوملناچاہىئے۔اس كے علاوہ پرانے كپڑے ،اىك طرف ڈال دىاگىا اناج اورگھر كاسازوسامان بھى شودركوملے‘‘[31]

منوكے قانون مىں برہمن كے ساتھ سزاؤں كے معاملے مىں بھی امتىازى سلوك كىاجائے گا۔

’’لىكن بادشاہ تىن (نىچ) ذات والوںكوجرمانے كے ساتھ ملك بدركردے گا لىكن (جھوٹى گواہى دىنے پر) برہمن كو صرف ملك بدركىاجائے گا۔قائم بالذات (ورنوں) كوسزادى جاسكتى ہے لىكن برہمن كوبغىر كسى ضرركے ملك بدركردىاجائے گا‘‘[32]

ذات پات كانظام ہندوؤں مىں نسل درنسل منتقل ہوتاچلا آرہاہے۔ ان ذاتوں(ورنا/ورن) كے علاوہ كئى ہزارجاتىاں بھى ہىں جو مختلف پىشوں سے منسلك ہىں اور مختلف درجات اورحىثىتیں ركھتى ہىں۔ان مىں تكلىف دہ حالات سے گزرنے والے اچھوت اور دلت(Dalits)بھى ہىں جن كا شمار كسى ذات مىں نہىں ہوتا اورنہ معاشرے مىں اُن كے لئے كوئى مرتبہ اور مقام ہے۔ ىہ ساراتذكرہ ہندؤوں كے اپنے ہم مذہب لوگوں كے درمىان تفاوت اورتفرىق كے حوالے سے تھا۔

ہندوبحىثىت قوم بھى خودكو باقى اقوام كے مقابلے مىں برتر،پاك اور اپنى سرزمىن كوپاك سرزمىن سمجھتے ہىں۔

’’جو شخص بھارت كواپنى عقىدت كا محوربنالىتاہے وہ ہندوكہلانے كابدرجہ اولىٰ مستحق ہے چنانچہ بھارت ورش سے اندھى عقىدت كاىہى جذبہ ان كے قومى ترانے ’’بندے ماترم‘‘ اے ماں! مىں تىرى پوجاكرتاہوں‘‘ سے صاف عىاں ہے‘‘[33]

ہندو مت مىں غىر ہندواقوام كے خلاف اىك متعصّب فضا پائى جاتى ہے۔ ہندوستان كى سرزمىن پر مختلف مذاہب كے پىروكارجس مىں مسلمان ، عىسائى ،سكھ اور بدھ مت كے پىروكارشامل ہىں ، بستے ہىں۔ ان سے ہندوؤں كا تقاضاىہ ہے كہ وہ ىہاں رہتے ہوئے ہندومت كے مذہبى امور اورشعائر كى خلاف ورزى نہ كرىں مثلاً ہندوؤں كے لئے گائے انتہائى محترم اور مقدّس ہے ،اس كى وہ پرستش كرتے ہىں ،اس كے ذبح كو وہ اىك ناجائز اورظلم پر مبنى عمل سمجھتے ہىں ۔ ىہ نقطہ ہندوؤں اورمسلمانوں كے مابىن اكثر وجہ ٔ انتشار بنارہتاہے۔

ہندوؤں كے مذہبى ادب مىں بھى غىر ہندوؤں سے سخت برتاؤكرنے كا ذكرآىاہے:

’’سوامى دىانند بانى آرىہ سماج ىجروىد كى تعلىم كى روشنى مىں مخالفىن كے بارے مىں : دھرم كے مخالفوں كو زندہ آگ مىں جلادو،دشمنوں كے كھىتوں كو اجاڑوىعنى گائے ،بىل ،بكرى اورلوگوں كو بھوكا ماركر ہلاك كردو،اپنے مخالفىن بدوں كو درندوں سے پھڑواڈالو،ان كو سمندر مىں غرق كرو جس طرح بلى چوہے كو تڑپاتڑپاكر مارتى ہے اسى طرح ان كو مارو‘‘[34]

ىہاں اس بات كى وضاحت ضرورى ہے كہ ہندوؤں مىں كئى بنىادپرست تنظىمىں ان مقاصد كے لئے كام كررہى ہىں كہ ہندوستان كى سرزمىن مىں صرف ہندومذہب اورہندوتمدّن ہى غالب رہے ۔سارے لوگ ىا تو ان كے حماىتى بنے ىا سرزمىنِ ہندوستان چھوڑدىں۔ اس نظرىہ كو ’’ہندوتا/ہندوتوا‘‘كہاجاتاہے جو بىسوىں صدى مىں ان کاغالب نظرىہ رہاہے ۔

ان ہندوپرست تنظىموں مىں اىك بڑانام راشٹرىہ سوىم سىوك سنگھ كاہے جن كا بنىادى كام ’’ہندوتا‘‘ كى سرپرستى اور اس سلسلے مىں كى جانے والى ہرممكن كوششىں ہىں ۔ان كا كہنا ہے :

’’ہندوستان مىں صرف ہندو قوم كوباقى رہنادىنا چاہىئے اس كے علاوہ اوركچھ بھى نہىں۔ صرف ہندوقوم۔ ۔۔۔۔جب تك مسلمان ىا دوسرے غىر ہندواپنى مذہبى ، ثقافتى اورسماجى شناخت پراصراركرىں گے تب تك انہىں غىر ملكى سمجھا جائے گا۔۔۔غىر ملكىوں كے لئے اب صرف دوہى راہ ہىں ىاتووہ مقامى لوگوں مىں گھل مل جائىں اور ان كى ثقافت اختىاركرلىں ىا پھر ان كى خوشنودى اوررحم وكرم پر زندہ رہىں۔۔۔‘‘[35]

ان كاىہ بھى كہنا ہے كہ تمام اقوام مىں ہندوہى وہ لوگ ہىں جو باقى لوگوں كے لئے رہبر اور رہنما بننے کی صلاحیت رکھتےہىں:

”It is inevitable, therefore ,that in order to be able to contribute our unique knowledge to mankind, in order to be able to live and strive for the unity and welfare of the world, we stand before the world as a self-confident, resurgent and mighty nation”[36]

ہندووں کا یہ کہنا ہے کہ خزانہ علم ان ہی کے پاس ہے جس کی بدولت دنیا کی بہترین قیادت صرف وہی کر سکتے ہیں جیسا کہ کہتے ہیں:

”The knowledge is in the custody of Hindus alone. It is a divine trust, we may say, given to the charge of Hindus by Destiny. And when a person possesses a treasure, a duty is laid upon him to safeguard it and make it available for the welfare of others. If he fails in that supreme duty he ruins not only himself but also others. Hence the sacred duty of preserving the Hindu society in sound condition has developed upon us”.[37]

بدھ مت:

منگولى مذاہب مىں سے اىك مذہب بدھ مت ہے جو كہ كپل وستو(نىپال) كے علاقے كے باشندےگوتم بدھ ،جن كااپنا نام سدارتھ تھا،كى طرف منسوب ہے۔

ىہ مذہب اور جىن مت دراصل ہندوازم كے ردّعمل كے طورپر ابھرے تھے۔ جىن مت جو كہ مہاوىر جىن كى طرف منسوب ہے ،انتہائى عاجزانہ اوررحمدلانہ برتاؤركھنے والا مذہب ہے۔ اسى طرح بدھ مت كى تعلىمات مىں فوقىت اور برترى كے تصوّرات كى نفى كی گئی ہے۔

’’بدھ نے ہندوؤں كے ہاں رائج نظام طبقات كا بھى مقابلہ كىا،وہ كہاكرتاتھا :’’ىادركھو!جس طرح درىابڑے سمندر مىں بہہ جانے كے وقت اپنے ناموں سے محروم ہوجاتے ہىں اسى طرح جب انسان’’نظام‘‘ مىں داخل ہوجاتاہے اور’’شرىعت‘‘ كو قبول كرلىتاہے تو چاروں طبقات ختم ہوجاتے ہىں‘‘[38]

اس كے ساتھ بدھ مت كى تعلىمات مىں نسلى، خاندانى تفاخر كى بجائے عمل كونجات اوركامىابى كى بنىادقراردىاگىاہے۔

’’نظرىۂ عمل(كرم) بدھ مت مىں خاص اہمىت كا حامل ہے ،جو ىوں ہے:’’عمل ہى ہمارى بنىادہے۔ہم عمل كا(عمل كے نتىجے كا)پھل ہىں۔عمل ہى ہمارے جنم لىنے كاسبب ہے،عمل ہى ہمارادوست ہے ،عمل ہى ہمارى پناہ ہے ۔نىكى ىابدى،ہم جوعمل كرىں گے ، اسى كاپھل پائىں گے‘‘[39]

اسلام اور نظریہ برتری:

سامى مذاہب مىں تىسرابڑامذہب اسلام ہے جو كہ آج دنىا مىں عىسائىت كے بعد اكثرىت كامذہب ہے۔ اس كى الہامى كتاب قرآن مجىد ہے جس مىں نظرىات برترى اورتصوّراتِ فوقىت كو كلىتہً مبغوض قراردىاگىاہے۔

دنىا مىں اوّل دفعہ كبر اوربڑائى كا دعوىٰ كرنے والاابلىس تھا جس كوقىامت تك كےلئے مردودقراردىاگىا۔

اس سے برترى اورتفاخر كى كراہت كاعلم ہوتاہے كہ اسلام مىں اس كوآغازہى سے بُراعمل قراردىا جاچكاہے۔

"اسلام نسل پرستى كے خلاف اىك زندہ رواىت ہے ،نسل كے حىاتىاتى نظرىے كو ردكرتاہے ،ثقافتى اور نفسىاتى عوامل كونسلى اختلاف كے عارضى اسباب مانتاہے لىكن ان كى بنىاد پر نسل پرستى كے مستقل اصول كو تسلىم نہىں كرتا"۔[40]

اسلام انسانوں كومختلف گروہوں مىں تقسىم كرنے كے سلسلے كو شناخت اور پہچان كاذرىعہ قراردىتاہے جبكہ برترى كا معىارصرف اور صرف اللہ كى فرمانبردارى اور شرىعت پر عمل كوقراردىتاہے۔ جىساكہ قرآن ِپاك كى ىہ آىت اس بات پردلالت كرتى ہے:

’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‘‘[41]

’’اے آدمىو!ہم نے تم كو بناىا اىك مرد اور اىك عورت سے اورركھىں تمہارى ذاتىں اورقبىلے تاكہ آپس كى پہچان ہوتحقىق عزت اللہ كے ىہاں اُسى كو بڑى جس كو ادب بڑا۔اللہ سب كچھ جانتاہے خبردار‘‘

اسلام وطن ،قوم،علاقہ كى حدودكى بجائے اىك آفاقى اور عالمگىر تصوّر پىش كرتاہے۔قوم پرستى ،وطن پرستى كے جذبات اور اس كے لئے كى جانے والى كوششوں كو جاہلانہ عمل اور ’’عصبىت‘‘كہتاہے جىساكہ حضرت محمد ﷺ كاارشادِ مباركہ ہے:

’’لَيْسَ مِنَّا من دعاالی عصبيّة، ولَيْسَ مِنّا من قاتل عَلٰي عَصْبِيّة وَلَيْسَ مِنَّا من مَاتَ عَلٰي عَصْبِيّة‘‘[42]

’’وہ شخص ہم مىں سے نہىں ہے جو كسى جتھ بندى كى دعوت دے،وہ شخص ہم مىں سے نہىں ہے جو كسى جتھ بندى اور پاسدارى كے لئے جنگ كرے ، وہ شخص ہم مىں سے نہىں ہے جو جتھ بندى كى حالت پر مرے‘‘

اسى طرح اسلا م مىں كوئى نسلى، لونى اور لسانى تخصىص نہىں ہے ۔ مساوات كو اہم قراردىاگىاہے اور تقوىٰ كو فوقىت كا معىار۔ جىساكہ خطبہ حجتہ الوداع كے موقع پر رسول اللہ ﷺ كا ارشادِ مباركہ ہے۔ ابن عمررضى اللہ عنہ سے رواىت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مكہ كے دن لوگوں سے خطاب كىااور فرماىا :

’’لوگو!اللہ نے تم سے جاہلىت كے غرور اور آباء واجدادپر فخر كرنے كودوركردىاہے ۔انسان كى دوقسمىں ہىں ۔ اىك نىك اور متقى ،وہ اللہ كے ہاں معززہے اور دوسرافاجر اور بدبخت جو اللہ كے ہاں بے وزن ہے ۔انسان آدم علىہ السلام كى اولاد ہىں اور اللہ تعالىٰ نے آدم علىہ السلام كو مٹّى سے پىداكىاہے‘‘[43]

اسى طرح دىگراخلاقى تعلىمات مىں بھی اسلام نے كسى قسم كے تفرىق اور امتىاز كى گنجائش نہىں ركھى كہ جس سے معاشرہ مىں تعصّبات كى فضاپىداہو۔مساوات اور عدل كو خوبى جبكہ تكبر اورامتىازكوخامى قراردىاگىاہے۔

اسى نقطے كے حوالے سے شاعر كہتے ہىں:

اپنى ملت پر قىاس اقوام ِمغرب سے نہ كر

خاص ہے تركىب مىں قوم ِرسول ﷺہاشمى

ان كى جمعىت كاہے ملك ونسب پرانحصار

قوت مذہب سے مستحكم ہے جمعىت تىرى[44]

اسی حوالے سے یہاں اس نقطے کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت محمد ﷺ كے خاندان (سادات)كو بزرگى اور شرف كادرجہ بے شك حاصل ہے مگر ان كواس بناء پر كوئى تخصىص اور امتىاز حاصل نہىں اور نہ ہی وہ شریعت سے مبرا ہیں۔معىارِبزرگى اورقرب ِخداوندى كاذرىعہ سب كے لئے نىك اور صالح عمل ہى ہے۔

خلاصہ بحث :

مذاہب عالم کی روشنی میں برتری اور تفاخر کے تصورات کا جائزہ لینے کےبعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض مذاہب مىں یہ تصورات بالخصوص پائے جاتے ہىں جن مىں ىہودىت اورہندومت کے نام نمایاں ہىں۔ اكثر مذاہب ان نظرىات اورتصوّرات كى نفى كرتے ہىں جیسا کہ ذکر کیا گیا۔ان سب میں نمایاں تعلیمات اسلام کی ہیں جس میں کھلے الفاظ میں ان نظریات و تصورات کی نفی کی گئی جو نسل اورحسب نسب کو ہی سب کچھ سمجھ کر اسی کو تفریقات اور امتیازات کی بنیاد بنائے ہوئے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے ہندووں کا نظریہ فوقیت اور یہود کا تصور نسلی برتری اور تفاخر باطل ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی کا مقرب بننے کے لیے تقاضا صرف اس کی خالص بندگی اختیا ر کرنے کا ہے،اس ایک اہم نقطے کو اپنانے سے اس دنیا میں عالمی امن و رواداری قائم ہونا یقینی ہے۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی و مصادر (References) فاروقى ،عمادالحسن،دنىا كے بڑے مذاہب، مطبع العربىہ، لاہور سالِ اشاعت نامعلوم ، ص ۶۔
  2. النحل : ۳۶۔
  3. نائىك، ذاكر، ڈاكٹر،دنىا كے بڑے مذاہب حقىقت كے آئىنے مىں ،(مترجمہ) مصباح اکرم،اسد نئیر پرنٹرز،لاہور 2009ء،ص ۱۸۔
  4. اىضًا،ص ۱۸تا ۲۰۔
  5. الاعراف:۱۵۶۔
  6. ابن كثىر، عمادالدىن ،مترجم محمد جوناگڑھى،مكتبہ اسلامىہ ، لاہور ۲۰۰۵ء، ج۱،ص ۱۲۷۔
  7. البقرة: ۴۷۔
  8. پىدائش: ۱۷/۷تا۹۔
  9. پىدائش: ۲۲/۷و۸۔
  10. خروج: ۳/۷تا۱۰۔
  11. نائىك ، ذاكر،ڈاكٹر، دنىا كے بڑے مذاہب حقىقت كے آئىنے مىں ،ص ۳۰۰ و ۳۰۱۔
  12. البقرة : ۸۰۔
  13. خروج: ۴/۲۲و۲۳۔
  14. خروج: ۱۴/۱۳و ۱۴۔
  15. اخبار:۲۵/۴۴تا۴۶۔
  16. آل عمران: ۷۵۔
  17. المائدہ: ۱۸۔
  18. متى: ۵/۳۸تا۴۱۔
  19. متى : ۱۲/۵۰۔
  20. متى : ۱۳/۳۷تا۴۰۔
  21. متى: ۲۳/۱۱و۱۲۔
  22. رومىوں: ۲/۲۳تا۲۹۔
  23. رومىوں:۳/۱تا۴۔
  24. المائدة، آىت ۱۸۔
  25. المسدوسى ، احمد عبداللہ ، ترتیب ابوحمزہ قاسمى، مذاہب عالم ، ط نامعلوم ، مكى دارالكتب ، لاہور۲۰۰۴ ء، ص۲۳۷۔
  26. رگ وىد ، دسواں منڈل،سکت نمبر ۹۰،ص۳۸ ۔
  27. منو: ۱/۳۱۔
  28. فاروقى ، عمادالحسن، دنىا كے بڑے مذہب، ص۴۱۔
  29. منو :۹۹-۱۰۱/1۔
  30. منو:۱۰/3۔
  31. اىضًا: ۱۲۳- ۱۲5-۔
  32. اىضًا: ۱۲3 و۱۲۴/8۔
  33. نائىك، ذاكر،ڈاكٹر ،دنىا كے بڑے مذاہب حقىقت كے آئىنے مىں، ص ۳۸۵و۳۸۶۔
  34. بىگ،ظفراللہ ،ڈاكٹر’’ہندومذہب قبل از اسلام‘‘، ہندومذہب مطالعہ اور جائزہ، مرتبہ ڈاكٹر محسن عثمانى ندوى، ص ۳۷و۳۸۔
  35. شاذ، راشد ،ہندوستانى مسلمان، اىام گم گشتہ كے پچاس برس،ترتىب: كوثرفاطمہ، انسٹى ٹىوٹ آف مسلم امہ افىئرز،على گڑھ،۱۹۹۹ء،ص ۱۸۱۔
  36. http://www.rss.org/Encyc/2015/4/7/334_03_46_30_Bunch_of_Thoughts.pdf. Accessed on 21st November,2016
  37. اىضًا۔
  38. الحمد، شىبہ ،عبدالقادر، اقوامِ عالم كے ادىان ومذاہب، (مترجم) ابوعبداللہ محمد شعىب ،مسلم پبلى كىشنز،سوہدرہ (گوجرانوالہ) ۲۰۰۷ء،ص ۹۷۔
  39. لىوس مور،مذاہب ِعالم كاانسائىكلوپىڈىا،سعدىہ جواد وىاسرجواد (مترجمىن) ،نگارشات پبلشرز،لاہور۲۰۱۳ء،ص ۲۲۶۔
  40. علوى،خالد،اسلام اورنسلى امتىاز، دعوة اكىڈىمى ،اسلام آباد۲۰۰۶ء ،ص۳۸۔
  41. الحجرات: ۱۳۔
  42. ابوداؤد، سلىمان بن اشعث السجستانى ،سنن ابى داؤد،تحقىق: محمد محى الدىن ،دارالفكر،بىروت سن اشاعت نامعلوم ،كتاب الأدب ،باب فى العصبىتہ،رقم۵۱۲۱۔
  43. ترمذى،ابوعىسىٰ،محمد بن عىسىٰ ،الجامع الصحىح السنن ترمذى، تحقىق: احمد محمد شاكر ،داراحىاء التراث العربى ،بىروت،تارىخ طبع نامعلوم ،كتاب تفسىرالقرآن، باب سورةالحجرات ،رقم ۳۲۷۰۔
  44. محمداقبال،بانگ درا،مطبع نامعلوم،۱۹۰۸ء، ص۱۹۸۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...