Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 1 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

پاکستان میں رائج جبری شادیوں کا تعارف اور شرعی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

شریعتِ اسلامی نے خاندانی نظام کے بقا کو بڑی اہمیت دی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں عبادت کے مقابلے میں عائلی قوانین زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئےہیں۔خاندانی نظام میں نکاح کو مرکزی ستون کی حیثیت حاصل ہے لیکن نکاح محض دو انسانوں کے مابین ایک معاہدے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عبادت کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقصد نسلِ انسانی کی بقا کے ساتھ ساتھ ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جو حیا و عفت اور عدل وانصاف کی مضبوط بنیادوں پر استوارہو ۔یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب خاندانی نظام دیرپا اصولوں پر قائم ہو ۔یہی وجہ ہے کہ شریعت نے خاندانی نظام کے مرکزی ستون یعنی نکاح کے قیام میں تمام متعلقہ افراد کو برابر کا شریک بنایا ہے۔ یہ بات تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہے کہ جس نکاح میں عاقدین اور ان کے خاندانوں کی رضا شامل ہوتی ہے وہ پائیدار رہتاہے ۔اس نکاح سے وہ ثمرات بآسانی حاصل ہوتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نےنکاح کو مشروع بنایا ۔اس کے برعکس جس نکاح میں عاقدین میں سے کسی ایک بھی رضا شامل نہیں ہوتی ،وہ ناپائیدار اور عارضی ثابت ہوتا ہے۔

نکاح میں لڑکی ایک فریق ہے اور شریعت نے اس کی رضا کوبڑی اہمیت دی ہے پشتون معاشرے میں بعض ایسی شادیاں کی جاتی ہے جس میں لڑکی کی رضا شامل نہیں ہوتی بلکہ اس کو رشتے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے ۔عرف عام میں ایسی شادیوں کو جبری شادیاں کہا جاتا ہے ۔ زیرِ نظر آرٹیکل میں پاکستان میں رائج جبری شادیوں کی مختلف اقسام کی تعریف کرکے اس کے شرعی حیثیت معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پاکستان میں جبری شادیوں کی چارصورتیں یعنی سَورہ ، غگ ، وٹہ سٹہ اور ولور بہت عام ہیں۔سب سے پہلے ان کی تعریف ذکر کی جاتی ہے۔

سورہ(ونی)

"سَورہ" پشتو میں اس عورت کو کہا جاتا ہے ،جو اونٹ یا دوسرے جانور پر سوار ہو۔اس دور میں جب سواری کے دیگر ذرائع نہیں تھے اور اونٹ اور گھوڑے پر سواری کی جاتی تھی ،تو دلہن کو اونٹ پر سوار کرکےلے جایا جاتا۔اسی طرح جب دو متحارب فریقوں میں صلح کرتے وقت بدل ِ صلح کے طور پر دی جانے والی لڑکی کو بھی اونٹ پر سوار کرکے مخالف فریق کے گھر بھیجا جاتا ،اس وجہ سے متاثرہ لڑکی کو سورہ کہا جانے لگا اور پھر اسی مناسبت سے اس رسم کو بھی سَورہ کہا گیا[1]۔

سورہ کی رسم کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ یہ رسم پاکستان کے تمام صوبوں ،افغانستان اور عرب ممالک تک پھیلا ہوا ہے ۔ خیبر پختونخواہ میں اس رسم کو سَورہ ، پنجاب میں ونی ، بلوچستان میں ارجائی ، سندھ میں سنگ چٹی، افغانستان میں بدکہا جاتا ہے ۔

سورہ سے ملتا جلتا ایک رسم گھانا ،ٹوگو اور بینن میں پایا جاتا ہے جسے Trokosiکہا جاتا ہے۔ان ممالک میں جب کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس گناہ کو بخشوانے کے لئے اپنی بیٹی مذہبی مجاوروں کو دے دیتا ہے ۔یہ لڑکیاں خداؤں کی بیویا ں(Wives of the gods) کہلاتی ہےاور مجاور ان سے جنسی ضروریات پوری کرتے ہیں[2]۔

غگ

"غگ" پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ٰ کسی کو بلانے یا خبر دینے کے ہیں۔پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں کسی طاقتور خاندان کا شخص کسی لڑکی سے نکاح کا خواہش مند ہوتا ہے تو اس لڑکی کے گھر کے باہر فائرنگ کرکے مٹھائی تقسیم کردیتا ہے اور یہ اعلان کا کردیتا ہے کہ اس لڑکی پر صرف میرا حق ہے ۔پھر لڑکی کا خاندان اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اس لڑکی کا نکاح اس شخص سے کرا دے ۔اس شخص کے نکاح کے اعلان اور خبر دینے کو پشتو میں غگ کہا جاتا ہے[3]۔غگ کے ذریعے نکاح کا طریقہ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ افغانستان میں بھی یہ طریقہ رائج ہے۔

ادلہ بدلہ (وٹہ سٹہ)

"ادلہ بدلہ" پشتو زبان کا لفظ ہے جو متعاقدین کے ایک دوسرے سے اشیاء کے تبادلے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پشتون روایات کے مطابق جب ایک شخص دوسرے شخص کو اس شرط پر اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ دیتا ہے کہ بدلے میں وہ بھی اس کو اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ دے گا تو اس کو ادلہ بدلہ یا وٹہ سٹہ کہا جاتا ہے[4]۔

ادلہ بدلہ کسی ایک علاقے کی روایات کا حصہ نہیں بلکہ پاکستان کے مخٹلف علاقوں اور عرب ممالک میں بھی مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہے جیسے پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں اسے وٹہ سٹہ اور عرب ممالک میں نکاح الشغار کہا جاتا ہے[5]۔

ولور

ولور اس رسم کو کہا جاتا ہے کہ جس میں لڑکی کا باپ اس کی نکاح کے بدلے اپنے داماد سے مخصوص رقم لیتا ہے ۔ اس رقم کی مقدار لڑکی شکل وصورت اور خاندان دیکھ کر طے کی جاتی ہے[6]۔

ولور کی رسم خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع اورشمالی علاقہ جات میں موجود ہے۔یہ رسم دیگر ممالک میں رائج ہے جیسا کہ بلغاریہ کے شہر Stara Zagora میں ہر سال چار مرتبہ ایسا میلہ منعقد ہوتا ہے جس میں دلہنوں کی خرید وفروخت ہوتی ہے[7]۔

جبری شادیوں کی مذکورہ صورتوں کی شرعی حیثیت

مشترکہ مفاسد

جبری شادیوں کی مذکورہ صورتوں میں کئی ایسی مشترکہ وجوہات ہیں جو ان نکاحوں کی شرعی حیثیت کو مشکوک بناتی ہیں۔

نمبر ۱:صغیرہ کے نکاح میں سوء اختیار

شریعت اسلامی نے نابالغ کے نکاح کی صورت میں اس کو خیار بلوغ دیا ہے ۔لیکن اگر نکاح کرانے والا باپ یا باپ کی عدم موجودگی میں دادا ہو تو پھر ان کو خیار بلوغ حاصل نہیں ہوگا جیسے امام ابو حنیفہؒ [8]کا قول ہے:

إِذا زوج الصَّغِيرَة وَالصَّغِيروالدهما اَوْ الْجد أَب الْأَب إِذا كَانَ الْوَالِد مَيتا فَالنِّكَاح جَائِز وَلَا خِيَار لَهما[9]

ترجمہ: جب نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح باپ کرائے یا باپ کے مرنے کی صورت میں دادا نکاح کرائے ،تو نکاح جائز ہوگا اور ان کے لئے خیارِ بلوغ نہیں ہوگا۔

باپ اور دادا کی طرف سے کی ہوئی نکاح میں صغیر وصغیرہ کے لئے خیارِ بلوغ نہ ہونے کی وجہ باپ اور دادا کا کامل شفقت ہے، جیسے ہدایہ میں آیا ہے:

فلا خيار لهما بعد بلوغهما لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة [10]

ترجمہ:تو ان دونوں کو باب ودادا کے کامل شفقت کی وجہ سے خیار بلوغ حاصل نہ ہوگا ۔

لیکن فقہا کے نزدیک اگر باپ یا دادا اس اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں تو ان کے لئے نکاح کرانا جائز نہ ہوگا اور ان کا کیا ہوا نکاح باطل ہوگا۔چنانچہ علامہ ابن عابدین[11] فرماتے ہیں:

لو عرف من الأب سوءالاختيار لسفهه أو لطمعه لا يجوز عقده إجماعا [12]

ترجمہ: اگر باپ بے وقوفی یا لالچ کے سبب سوء اختیار میں معروف ہو ،تو نکاح جائز نہیں ہوگا۔

سَورہ ،وٹہ سٹہ ،غگ اور ولور کے ذریعے جو نکاح سر انجام پاتے ہیں اس میں باپ کی طرف سے اکثر سوء اختیار ہوتا ہے۔کیونکہ سورہ کی صورت میں باپ بیٹی کے مفاد کو یکسر نظر انداز کرکے صرف اپنے آپ یا خاندان کے دوسرے فرد کے بچاؤ کے لئے نکاح پر راضی ہوتا ہے ۔ اکثر اوقات تو باپ کو علم بھی نہیں ہوتا کہ میری بیٹی کا نکاح کس سے ہوگا کیونکہ وہ تمام اختیار جرگے کے سپرد کرتا ہے اور جرگہ مخالف خاندان میں جس کو مناسب سمجھے لڑکی کا نکاح اس سے کرادیتے ہیں۔اس لئے یہ باپ کی طرف سے سوء اختیار ہے اور اس صورت میں باپ کا کرایا ہوا نکاح باطل ہوگا۔

غگ کی صورت میں تو لڑکی کا باپ بھی راضی نہیں ہوتا لیکن قبائلی روایات کے ہاتھوں مجبور ہوکر نکاح پر راضی ہوتا ہے۔اس صورت میں بھی باپ اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لئے بیٹی کے مفاد اور کفأت وغیرہ کو نظر انداز کرتا ہے اور یہی سوء اختیار کی دلیل ہے ۔اس لئے غگ کی صورت میں باپ کا کرایا گیا نکاح اختیار کے غلط استعمال کی وجہ سے باطل ہوگا۔

وٹہ سٹہ میں اگر باپ صرف اپنے یا بیٹے کے نکاح کی خاطر کفو وغیرہ کو دیکھے بغیر نکاح کرتا ہے تو یہ سوء اختیار ہوگا اور یہ نکاح باطل ہوگا۔

ولور کی صورت میں اگر باپ صرف پیسوں کی لالچ میں بیٹی کے مفاد اور کفأت کو دیکھےبغیر نکاح کراتا ہے تو یہ سوء اختیار ہوگااو ر یہ نکاح باطل ہوگا۔

لیکن یہ بات مد نظر رہے کہ وٹہ سٹہ اور ولور میں باپ اپنی بیٹی کے مفاد اور کفأت کا مکمل خیال رکھے اور ہر صورت بیٹی کے مستقبل کا تحفظ یقینی بنائے تو نکاح نہ صرف یہ کہ جائز ہوگا بلکہ لڑکی کو خیار بلوغ بھی حاصل نہ ہوگا۔البتہ سَورہ اور غگ کی صورت میں چونکہ باپ یا تو سرے سےاختیار سے محروم ہوتا ہے یا اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتا ہے۔اس لئے سورہ اور غگ میں نکاح کی صحت انتہائی مشکوک ہوتی ہے۔

لہٰذا اس بات کی مکمل کوشش کی جانی چاہئیے کہ جس صورت میں باپ اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کرائے تو اس کے مفاد، بہتر مستقبل اورکفأت کو مدنظر رکھ فیصلہ کرےتب نکاح صحیح ہوگا اور بیٹی کو خیار بلوغ بھی حاصل نہ ہوگا۔

نمبر ۲: بالغہ پر اجبار

شریعت اسلامی نے بالغہ لڑکی اس کے نفس کا اختیار دیا ہے ۔یہ اختیار کئی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے جیسے رسول اللہﷺ نے فرمایا :

الأيم أحق بنفسها من وليها، والبكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها[13]

ترجمہ:ثیبہ کا اپنے نفس کے متعلق اختیار اپنے ولی سے بڑھ کر ہے اور باکرہ سے اس کے نفس کے متعلق پوچھا جائے گااور اس کی اجازت اس کاسکوت اختیار کرنا ہے[14]۔اسی طرح ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ ثیبہ کا اپنے نفس کے متعلق اختیار اپنے ولی سے بڑھ کر ہے۔جب کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے باپ کے کئے ہوئے نکاح کو رد فرمایا،جیسے صحیح البخاری میں ہے:

أنكحها أبوها وهي كارهة فرد النبي صلى الله عليه وسلم ذلك [15]

ترجمہ: ایک لڑکی کا نکاح اس کے باپ نے کرادیا اور وہ اس سے خوش نہیں تھی تو رسول اللہﷺ اس نکاح کو رد فرمایا۔

مذکورہ بالا صورتوں میں اگر لڑکی بالغہ ہو تو باپ اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کرا سکتا اور اگر باپ اس کا نکاح کرائے اور وہ راضی نہ ہو تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

دیکھا جائے تو سَورہ کی صورت میں لڑکی دشمن کے گھر جانے پر کیسے راضی ہو سکتی ہے ؟اسی طرح غگ کی صورت میں وہ اپنے ہونے والے شوہر کو جانتی تک نہیں اور زبردستی کرکے اس کو نکاح کے بندھن میں باندھے والے کے ساتھ کیسے وہ خوش رہ سکتی ہے ؟وٹہ سٹہ کی صورت میں بھی لڑکی باپ یا بھائی کے پسند کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے اورولور میں تو اس کی رضا پر چند پیسوں کی ترجیح دے کر اس فروخت کیا جاتا ہے ۔تو ان صورتوں میں وہ کیسے باپ کی رضا پر راضی ہو سکتی ہے ۔اس لئے اگر ان صورتوں میں لڑکی انکار کردے تو نکاح منعقد نہیں ہوگا اوراگر لڑکی برضا وخوشی باپ کے فیصلے کو تسلیم کرے تو پھر نکاح منعقد ہوگا۔

لیکن معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ کو ئی لڑکی انکار نہیں کر سکتی بلکہ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ہر صورت میں خاندان کے فیصلے پر راضی ہو۔لہٰذا اس میں اکراہ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔اکراہ علی النکاح کی صورت میں نکاح کے وقوع اور عدم وقوع میں فقہاء کا اختلاف ہے ۔امام شافعی ؒکے نزدیک اکراہ کی صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔احناف کے نزدیک نکاح منعقد ہوگا [16]۔لیکن لڑکی کو اختیار سے محروم کرنا شریعت کی خلاف ورزی اور حرام ہے۔

نمبر۳:حرام کا مقدمہ

شریعتِ اسلامی نے انسان کو حرام افعال واعمال سے روکنے کے لئے حرام کی طرف لے جانے والے افعال بھی ممنوع قرار دی ہیں علامہ زرکشی [17]فرماتے ہیں:أسباب الحرام حرام[18](حرام کے اسباب بھی حرام ہیں)۔

مذکورہ جبری شادیاں بھی کئی محرمات کا مقدمہ اور سبب بنتی ہیں۔اسلام نے شوہر پر بیوی کے بہت سے حقوق مقرر کئے ہیں اور اس بات کی ترغیب دی کہ بیویوں سے اچھے طریقے سے پیش آیا جائے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا : خيركم خيركم لأهله[19]

ترجمہ:تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل(بیوی)سے اچھی طریقے سےپیش آئے۔

مشاہدے سے ثابت ہے کہ جبری شادیوں کے ذریعے گھر آباد کرنے کی کوشش اکثر کامیاب نہیں ہوتی اور ایسی لڑکیاں نکاح کے باوجود بیوی کا مقام حاصل نہیں کرپاتی اور نہ بیوی کی حیثیت سے مطلوبہ عزت اسے دی جاتی ہے ۔مثال کے طور پر سَورہ(متاثرہ لڑکی) کو دیکھاجائے تو کس طرح وہ اس گھر میں عزت کی حق دار ٹھہرے گی کہ جس گھر کے کسی فرد کو اس کے باپ یا بھائی نے قتل کیا ہوا ہو ۔ولور میں دی جانے والی لڑکی کو جب پیسوں کے عوض خریدی جائے تو کیسے وہ بیوی کی حیثیت سے عزت کی حق دار ٹھہرے گی؟غگ کے ذریعے کئے ہوئے نکاح کی بنیاد ہی زبردستی پر رکھی جاتی ہے تو کیسے وہ لڑکی سسرال میں برابری کی زندگی گزار سکے گی؟۔ان حالات عورت شریعت کی دی ہوئی عزت سے بالکلیہ محروم کی جاتی ہے۔چونکہ عورت کو اس کے حقوق سے محروم کرناحرام ہے اور جبری شادیاں اکثر اس کے لئے مقدمہ اور سبب بنتی ہے ۔لہٰذا جہاں کہیں ان حالات کا غالب گمان ہو وہاں نکاح کرانا جائز نہ ہوگا۔

نمبر۴: عدم کفأت

شریعتِ اسلامی نے میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات کی بقا کے لئے جانبین میں برابری کو لازم قرار دیا ہے۔ایک حدیث مبارک میں ہے:

لَا تَنْكِحُوا النِّسَاءَ إِلَّا الْأَكْفَاءَ[20]

عورتوں کا نکاح صرف کفو (برابری کی جگہوں)میں کراؤں۔

اسی طرح رسول اللہﷺ نے ایک صحابیہ کو صرف اس بنا پر نکاح توڑنے کا اختیار دیا کہ اس کے اور شوہر کے مابین کفأت نہیں تھی[21]۔

مذکورہ جبری شادیوں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی کے کفو وغیرہ کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔جیسے سَورہ اور غگ میں باپ بے اختیار ہوتا ہے اور صرف اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لئے لڑکے کا حسب و نسب ،دین وتقویٰ وغیرہ دیکھے بغیر اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیتا ہے ۔وٹہ سٹہ میں اپنا یا بیٹے کا نکاح مطلوب ہوتا ہے ، اس کے لئے وہ خاندان جس میں بیٹی کا نکاح کرا رہا ہے اور لڑکے کا کردار و معاشرتی حیثیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔جب کہ ولور کی صورت میں تو اکثر پیسوں کو دیکھا جاتا ہے کفأت وغیرہ کا کچھ خیال نہیں رکھا جاتا ۔

لہٰذا بغیر کفو بیٹی کا نکاح کرانا شریعتِ اسلامی کی نظر میں ناپسندیدہ اور حرام ہے،جیسے کشاف القناع میں ہے:

وَيَحْرُمُ عَلَى وَلِيِّ الْمَرْأَةِ تَزْوِيجُهَا بِغَيْرِ كُفُءٍ بِغَيْرِ رِضَاهَا[22]۔

ترجمہ:ولی کے لئے عورت کا بغیراس کی رضا کے غیر کفو میں کرانا حرام ہے۔

اس لئے نکاح کے وقت اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے کہ لڑکا اور اس کا خاندان لڑکی کی برابری کا ہے کہ نہیں اور غیر کفو میں لڑکی کی مرضی کے بغیر کسی صورت نکاح نہ کیا جائے۔

نمبر۵: آزاد کو مال بنانا

شریعتِ اسلامی نے اس بات کو حرام قراردیا ہے کہ آزاد انسان کو غلام بنا کر بیچا جائے ۔رسول اللہﷺ نے ایک موقع پرتین اعمال کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بتایا ۔یہاں تک کہ ایک حدیث میں آیا ہے:

قال الله ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه[23]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں تین افراد سے جھگڑا کروں گا۔ان تین افراد میں ایک آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھانے والاہے۔

سَورہ اورولور کی صورت میں آزاد لڑکی کو مال بنا کر بیچا جاتا ہے ۔ولور میں براہ راست آزاد لڑکی کو فروخت کیا جاتا ہے ۔ جبکہ سَورہ کی صورت میں لڑکی کو بدل ِصلح کی صورت مال بنایا جاتا ہے۔حالانکہ شریعت کے واضح احکامات ہیں کہ بدل صلح وہی چیز بن سکتی ہے جس کو نکاح میں مہر مقرر کرنا صحیح ہوجیسے مبسوط میں آیا ہے:

كُلُّ مَا يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ صَدَاقًا فِي النِّكَاحِ يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ عِوَضًا فِي الصُّلْحِ[24]

ترجمہ:ہر وہ چیز جو نکاح میں مہر بن سکتی ہو ،اس کا بدل صلح کے طور پر دینا جائزہے۔

اور نکاح میں مال متقوم کو مہر بنانا صحیح ہوتا ہے[25]۔چونکہ سَورہ اورولور دونوں میں آزاد کو مال بنایا جاتا ہے ۔اس لئے یہ مکمل حرام ہے ۔

انفرادی مفسدات

مذکورہ بالا جبری شادیوں میں ہر ایک میں کچھ انفرادی وجوہات ہیں جواس کی شرعی حیثیت کو مشکوک بناتی ہیں ۔

سورہ میں مفاسد

نمبرا:غیر مجرم کو سزا دینا

رسم سَورہ میں متاثرہ لڑکی کو خاندان کے کسی مرد کے جرم کی سزا دی جاتی ہے۔زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ مجرم کی بجائے اس کے بیٹے یا کسی اور رشتہ دار کو سزا دی جاتی تھی۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس عمل کی مذمت بیان کرکے اس کو حرام قرار دیا گیا ۔ذیل میں قرآن وحدیث سے چند مثالیں ذکر کی جاتی ہے:۔

۱۔سورۃ الانعام کی آیت وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى[26]( کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) کی تفسیر میں علامہ قرطبی[27] فرماتے ہیں:

إنهَا نُزِلَت رَداً عَلى العَرَبِ فِي الجَاهَليَةِ مِن مؤاخذَةِ الرَجلِ بِأبِيهِ وبِابنِه وَبجريرةِ حَلِيفهِ[28]

ترجمہ: جاہلیت میں انسان کو اس کے باپ ،بیٹے یا دوست کے جرم میں سزا دی جاتی،جس کی تردید کے لئے یہ آیت کریمہ نازل کی گئی۔

اسی طرح ابن العربی [29]فرماتے ہیں:

هَذَا إنَّمَا بَيَّنَّهُ لَهُمْ رَدًّا عَلَى اعْتِقَادِهِمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ مُؤَاخَذَةِ الرَّجُلِ بِابْنِهِ وَبِأَبِيهِ وَبِجَرِيرَةِ حَلِيفِهِ[30]

ترجمہ: اس آیتِ کریمہ میں ان کے جاہلیت کے اس برے طریقے کو بیان کیاگیا جس میں کسی شخص کو باپ ،بیٹے یا دوست کے جرم کی سزا دی جاتی تھی۔

۲۔سورۃ البقرۃ کی آیت لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت[31](اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا)کی تفسیر میں ابوبکر جصاص ؒ [32]فرماتے ہیں:

فِيهِ الدَّلَالَةُ عَلَى أَنَّ كُلَّ أَحَدٍ مِنْ الْمُكَلَّفِينَ فَأَحْكَامُ أَفْعَالِهِ مُتَعَلِّقَةٌ بِهِ دُونَ غَيْرِهِ، وَأَنَّ أَحَدًا لَا يَجُوزُ تَصَرُّفُهُ عَلَى غَيْرِهِ وَلَا يُؤَاخَذُ بِجَرِيرَةِ سِوَاهُ[33]

ترجمہ: یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مکلفین کے افعال کے احکام کسی اور کے ساتھ نہیں ،بلکہ خود ان کے ساتھ متعلق ہوں گے اور یہ کہ اپنے علاوہ کسی اورپر تصرف حاصل نہیں ہوگا اور نہ کسی اور کے سزا میں اس کو پکڑاجائےگا۔

۳۔سنن ترمذی میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان منقول ہے:

ألا لا يجني جان إلا على نفسه ألا لا يجني جان على ولده ولا مولود على والده[34]

سن لو جنایت والے کا بدلہ اس کے کرنے والے پر ہوگانہ کہ اس کے باپ یا بیٹے پر۔

۴۔ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا :

لا يؤخذ الرجل بجريرة أبيه، ولا بجريرة أخيه[35]

ترجمہ:کسی انسان کو اس کے باپ اور بھائی کے جرم کی سزا نہیں ملے گی۔

مذکورہ بالا آیات و احادیث میں واضح طور پر غیر مجرم کوسزا دینے کی حرمت بیان ہوئی ہے جبکہ سَورہ اور اس کی تمام دیگر صورتوں میں متاثرہ لڑکی کو خاندان کے کسی مرد کے جرم کی سزا دی جاتی ہے۔

نمبر۲: حدود اللہ سے بعد الثبوت صلح کرنا

بعض اوقات خاندان کا کوئی لڑکا دوسرے خاندان کی لڑکی سے بدکاری کا مرتکب ہوتا ہے تو لڑکے کے خاندان والے متاثرہ خاندان کو بدل صلح کے طور پر سورہ دیتے ہیں۔حالانکہ حدود اللہ کے ثبوت کے اس سے صلح کرنا جائز نہیں ۔خود رسول اللہﷺ کے روبرو حدود اللہ سے صلح کا مقدمہ پیش کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے صلح کو رد فرماتے ہوئے حد جاری کرنے کا حکم فرمایا تھا[36]۔اس حدیث مبارک میں بدکاری کے ثبوت کے بعد صلح کرنے کے عدم جواز پر دلالت موجود ہے ۔لہٰذا حدود اللہ سے صلح میں سورہ دینا شریعتِ اسلامی کی خلاف ورزی اور بدترین ظلم ہے۔

وٹہ سٹہ میں مفاسد

نمبر۱: مہر مقرر نہ کرنا

وٹہ سٹہ کی شادی میں بعض اوقات مہر طے نہیں کی جاتی۔حدیث مبارک میں ایسے نکاح کو شغار کہا گیا ہے۔رسول اللہﷺنے شغار سے منع فرمایا ہے جیسے صحیح البخاری میں روایت کیا گیا ہے :

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار[37]

"رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا"

نکاح الشغار کی صحت کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔احناف کے نزدیک نکاح صحیح اور مہر مقرر نہ کرنے کی شرط فاسد ہے لہٰذا دونوں طرف مہر مثل لازم ہوگا[38]۔جبکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہوگا[39]۔اگر مہر مقرر کیاجائے تو امام شافعیؒ بھی نکاح کی صحت کے قائل ہے[40]۔

نمبر۲:نکاح کو دوسرے نکاح سے مشروط کرنا

وٹہ سٹہ کی شادی میں اگر مہر مقرر کیا جائے تو احناف وشوافع کے نزدیک نکاح صحیح ہوجاتا ہے لیکن امام مالک ؒ کے نزدیک مہر مقرر کرنے کے بعد بھی نکاح قابل فسخ ہے کیونکہ ان میں ہر ایک نکاح دوسرے پر موقوف ہے[41]۔اگرچہ شغار یا وٹہ سٹہ کی شادی مہر مقرر کرنے کی صورت میں ائمہ کے نزدیک صحیح ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی احتیاط اس میں ہے کہ امام مالک ؒ کے قول پر عمل کیا جائے اور ایک نکاح کودوسرے سے مشروط کئے بغیر اور مہر مقرر کرکےنکاح کیا جائے۔

نتائج

  • شریعتِ اسلامی نے نکاح میں تمام متعلقہ افراد کی رضا کو اہمیت دی ہے اور اس کے ثمرات اس وقت صحیح طریقے سے حاصل ہوں گے،جب کہ تمام متعلقہ افراد راضی ہو۔
  • پشتون معاشرے میں شادیوں کی کچھ صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں لڑکی کی رضا کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ ایسی شادیوں کو جبری شادی کہا جاتا ہے۔
  • جبری شادیوں کی تمام صورتیں شریعت کے اصولوں سے متصادم ہے ،جن میں بعض مکمل طور پر ناجائز اور بعض مختلف فیہ ہیں۔
  • جبری شادیوں میں اگر حکمت سے کام لے کر لڑکی کی رضا کا خیال رکھا جائے تو شرعی طور صحیح ہونے کے ساتھ دنیوی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔
  • باپ اور دادا کو اللہ تعالیٰ نے جو اختیار دیا ہےاس کا غلط استعمال ان کو اختیار سے محروم کردیتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی ومصادر (References) M Ibraheem atayee, A Dictionary of the Terminology of Pashtuns Tribal Customary Law and Usages, 92,International Center for Pashto Studies Academy of science of Afghanistan ,Kabul ,1979
  2. https://en.wikipedia.org/wiki/Ritual_servitude
  3. Khyber Pakhtunkhwa Elimination of Custom of Ghag Act, 2013
  4. G.Jacoby & Ghazala Mansur, Watta Satta: Bride Exchange and Women’s Welfare in Rural Pakistan. 1, World Bank Policy Research Working Paper 4126, February 2007
  5. صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب الشغار،رقم الحدیث:۵۱۱۲
  6. A Dictionary of the Terminology of Pashtuns Tribal Customary Law and Usages,103
  7. Lexey Pamporov, Sold like a donkey Bride-price among the Bulgarian Roma, Institute of Sociology at the Bulgarian Academy of Sciences,2016
  8. ٍ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت زوطی (۸۰ھ- ۱۵۰ھ) کوفہ میں پیدا ہوئے۔ حماد بن ابی سلیمان کے حلقہ درس میں ۱۸ سال گزار کر ایک نامورفقیہ بنے۔ فقہ میں آپ کا اپنا ایک مستقل مسلک ہے۔ جسے مصر، شام، پاکستان، اور وسطی ایشیا کے ممالک میں پذیرائی حاصل ہے۔( تاریخ بغداد،احمد بن علی البغدادی،۱۳: ۳۲۳،دارلکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء)
  9. الحجۃ علی اہل المدینۃ،محمد بن الحسن بن فرقدالشیبانی ، ۳: ۱۴۲،عالم الکتب، بیروت،۱۴۰۳ھ
  10. ٍالہدایۃ شرح بدایۃ المبتدی،علی بن ابی بکر المرغینانی، ۳: ۳۴،مکتبۃ البشریٰ، کراچی،۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷ء
  11. ٍ ابن عابدین احمد بن عبد الغنی (۱۲۳۸ھ۔۱۳۰۷ھ)فقۂ حنفی کے ماہر فقیہ اور مفتی تھے۔آپ نے بیس کتابیں تصنیف کی۔آپ کے رسائل بہت مشہور ہوئے۔(الاعلام،خیر الدین بن محمود الزرکلی،۱: ۱۵۲، دار العلم للملایین، بیروت، ۱۴۲۲ھ /۲۰۰۲ء)
  12. ٍ رد المحتارعلی الدر المختار، ابن عابدین محمد امین بن عمر، ۳ : ۶۷،دار الفکر، بیروت،۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء
  13. ٍسنن النسائی،کتاب النکاح،باب استئذان البکر فی نفسہا،رقم الحدیث: ۳۲۶۱
  14. الصحیح المسلم،کتاب الحج،باب استئذان فی النکاح،رقم الحدیث :۱۴۲۱
  15. ٍصحیح البخاری،کتاب الحیل،باب فی النکاح،رقم الحدیث:۶۹۶۹۔
  16. بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،ابوبکر بن مسعود الکاسانی،۲:۳۱۰،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ء
  17. ٍمحمد بن بہادر بن عبد اللہ الزرکشی(۷۴۵ھ۔۷۹۴ھ) فقہ ٔشافعی اور اس کے اصول کے بڑے عالم تھے۔آپ ترکی النسل تھے۔آپ کی تصنیفات میں المحیط،البرہان فی علوم القرآن اور المنثور مشہور ہیں۔(اعلام للزرکلی،۶ :۶۰)
  18. البحر المحیط فی اصول الفقہ،بدر الدین محمد بن عبد اللہ الزرکشی ،۱: ۳۰۰،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴ء
  19. ٍسنن الترمذی،ابواب المناقب،باب فی فضل ازواج النبیﷺ،رقم الحدیث:۳۸۹۵
  20. سنن الکبری،جماع ابواب اجتماع الولاۃواولاہم وتفرقہم،باب اعتبار الکفاءۃ،رقم الحدیث:۱۳۷۶۰
  21. صحیح البخاری،کتاب الطلاق،باب لایکون بیع الامۃ طلاقا،رقم الحدیث:۵۲۷۹
  22. کشاف القناع عن متن الاقناع،منصور بن یونس البہوتی الحنبلی،۵ :۶۸،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، بدون التاریخ
  23. ٍصحیح البخاری،کتاب البیوع،باب فی اثم من باع حرا،رقم الحدیث:۲۲۲۷
  24. المبسوط،ٍمحمد بن احمدالسرخسی، ۲۱ :۱۱،دار المعرفۃ،بیروت،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۳ء
  25. ٍالمبسوط للسرخسی،۲۱ :۱۳
  26. الأنعام،۶ : ۱۶۴
  27. محمد بن احمدبن ابی بکر بن فرح القرطبی(۶۰۰ھ ۔۶۷۱ھ)قرطبہ میں پیدا ہوئے اور پھر مصر ہجرت کی۔آپ زاہد اور متبحرعالم اور اپنے زمانے کے ائمہ میں سے تھے۔آپ کی تصانیف میں تفسیر جامع احکام القرآن مشہور ہے۔( طبقات المفسرین، احمد بن محمد الادنہوی،۱ :۲۴۶ ،مکتبۃ العلوم و الحکم،السعودیۃ ، ۱۴۱۷ /۱۹۹۷ھ)
  28. الجامع لاحکام القرآن ،محمد بن احمدالقراطبی ، ۷: ۱۵۶ ،دار الکتب المصریہ ، القاہرۃ،۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء
  29. محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ العربی(۴۶۸ھ۔۵۴۳ھ) اندلس میں پیدا ہوئ اور اپنے والد کے ہمراہ شام منتقل ہوئے پھر مصر تشریف لے گئے۔مصر وشام میں مختلف اساتذہ سے علام حاصل کئے ۔ آپ کی تصانیف میں احکام القرآن مشہور ہے(طبقات المفسرین للادنہوی،۱: ۱۸۰)
  30. احکام القرآن،محمد بن عبد اللہ ابوبکر ، ۲: ۳۰۰ ،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۲۴ھ/ ۲۰۰۳ء
  31. البقرۃ،۲ :۲۸۶
  32. احمد بن علی ابوبکر الرازی الجصاص(۳۰۵ھ۔۳۷۰ھ) مجتہد ، امام اور زہد وتقویٰ سے مشہور تھے۔۲۵ سال کی عمر میں تحصیل ِ علم کے لئےبغداد آئے۔آپ کی تصانیف میں احکام القرآن مشہور ہے۔( تاریخ بغداد، ۵: ۷۲)
  33. احکام القرآن،احمد بن علی ابوبکر الرازی ،۱ : ۶۵۳، دارالکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء
  34. سنن الترمذی،ابواب الفتن ،باب ما جاء دماء کم واموالکم علیکم حرام،رقم الحدیث:۲۱۵۹
  35. سنن النسائی،کتاب تحریم الدم،باب تحریم القتل،رقم الحدیث:۴۱۲۷
  36. ٍصحیح البخاری،کتاب الحدود،باب الاعتراف بالزنا،رقم الحدیث:۶۸۲۷
  37. صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب الشغار،رقم الحدیث:۵۱۱۲
  38. بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،۲ :۲۷۸
  39. البیان فی مذہب الامام الشافعی،یحیی بن ابی الخیر الشافعی،۹ :۲۷۳،دار المنہاج، جدہ،۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء
  40. الحاوی الکبیر فی فقہ الامام الشافعی،علی بن محمد الماوردی،۹ :۳۲۵،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹ء
  41. بلغۃ السالک لاقرب المسالک،احمد بن محمد الخلوتی الصاوی،۲ :۴۴۶،دار المعارف، مصر، بدون التاریخ
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...