Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

چائنہ نمک کی حلت و حرمت کا تجزیاتی مطالعہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Monosodium Glutamate is the scientific name of Chinese salt, which also called Ajinomoto. Monosodium Glutamate was first discovered by the Japanese chemist Ikeda Kibunae in 1908. The MSG was firstly derived from seaweed. Later on MSG was got from meat, gluten, and vegetables etc. It can be derived from Najas ul ‘ain and Gher Najas ul ‘ain things. If it was got from Najas ul ‘ain, then there is a question about MSG that is it halal (permissible/ lawful) or haram (non-permissible/unlawful). This research in this article is concluded that if the culture of MSG is halal or the proper Istihalah has been done in Najas; MSG will be halal (permissible/ lawful). However, where no such details are available about the culture of MSG, it should be avoid, although it cannot be declared haram as per Islamic Jurisprudence rules.

تمہید

اللہ جل شانہ کی اپنے بندوں کے ساتھ بے مثال محبت کا تقاضاہے کہ اللہ جل شانہ اپنے بندوں کو ان کاموں کےکرنے کا حکم فرمائیں جوان کی اخروی زندگی کے لئے مفید ہوں اور ان کاموں سے منع کریں جن کے کرنے سے ان کی عاقبت خراب ہو۔ اس لئے اللہ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کےذریعے حلال وحرام کے واضح احکامات اپنے بندوں کو بتلائے ہیں۔

حلال وحرام اشیاء میں اشیائے خورد ونوش بھی شامل ہیں۔ موجودہ دورکی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خورد ونوش کی جدید مصنوعات عام طور پربازاروں میں دستیاب ہیں ۔ جن کے متعلق عام آدمی کو علم نہیں کہ ان کے بنانے میں کون کون سے اجزائے ترکیبی شامل ہیں اور کیا یہ حلال ہیں یا حرام ؟ان مصنوعات میں چائنہ نمک قابل ذکر ہے۔ اگرچہ چائنہ نمک بذات خود کوئی غذا نہیں لیکن کھانے کا ذائقہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

چاِئنہ نمک کیا ہے؟

چائنہ نمک کا سائنسی نام مونوسوڈیم گلوٹامیٹ(Monosodium Glutamate) ہے۔اس کا فارمولہ C5H8N04NA ہے۔ یہ مختلف سبزیوں ، گوشت،اجناس اور سمندری پودوں میں موجود قدرتی پروٹین امینوایسڈ سے بنایا جاتا ہے۔

گلوٹامیٹ قدرتی اشیاء میں عام طور پر پایا جانے والا امینوایسڈ ہے۔ یہ پروٹین کا خاص بنیادی جز ہوتا ہے ۔جواشیاء کے ریشوں میں پایا جاتا ہے۔ گلوٹامیٹ انسانی جسم میں بھی پیدا ہوتا ہے۔جو انسانی جسم کے خلیوں میں کیمیائی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قدرتی طور پر ہر غذا میں گلوٹامیٹ ہوتا ہے۔ یہ گوشت، مچھلی ، دودھ اور کچھ سبزیوں میں قدرتی طور پر پائے جانے والے پروٹین کا اہم جزءہے۔چائنہ نمک گلوٹامیٹ کا سوڈیم سالٹ ہوتا ہے۔ گلوٹامیٹ کو بیسویں صدی کے اوائل میں سائنسدانوں نے سمندری اور دوسرے پودوں سے الگ کیا، جو خوراک میں ذائقہ بڑھانے والےایک اہم جز کے طور پر جانا جانے لگا۔آج کل مونوسوڈیم گلوٹامیٹ دنیا کے بہت سے ملکوں میں گنے ،چقندر ، نشاستہ وغیرہ کے گاڑھے شربت سےعمل تخمیر کے ذریعے بنایا جاتا ہے۔[1]

چائنہ نمک کیسے بنایا جاتا ہے؟

چائنہ نمک کے بنانے کے تین طریقے عموماً استعمال ہوتے ہیں:

۱- سبزیوں کی پروٹین کی آب پاشیدگی ) یعنی کسی چیز کا پانی کے ذریعے کیمیائی تجزیہ کرنا(

۲- بیکٹیریا کے ذریعے عمل تخمیر

۳- نامیاتی ترکیب ۔

سبزیوں کی پروٹین کی آب پاشیدگی کے ذریعے چائنیز نمک کی پیداوار پرانا طریقہ ہے۔ اس طریقہ سے سبزیوں کی زائد پروٹین جیسے نشاستہ اور چقندر کی چینی کے گاڑھے شربت کو پانی میں تیزاب کے ساتھ گرم کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں پیپٹائڈ بونڈز اور کیمیکل بونڈز پروٹین میں امینو ایسڈ کو توڑتی ہے۔ انفرادی طور پر ہر امینو ایسڈ کرسٹلائزیشن یعنی عمل قلماؤکے ذریعے الگ ہوجاتی ہے۔ گلوٹامک ایسڈکے دانے کاسٹک سوڈا کے ذریعے مونو سوڈیم گلوٹامیٹ میں تبدیل کئے جاتے ہیں۔[2].

چائنہ نمک کی تاریخ

مونوسوڈیم گلوٹامیٹ قدرتی طور پر پائے جانے والے گلوٹامک ایسڈ کا سوڈیم سالٹ ہوتا ہے ۔گلوٹامک ایسڈ پہلی دفعہ ۱۸۸۶ء میں الگ کیا گیا۔ جب اس سوڈیم نمک کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ کھانے کی ذائقہ کو بڑھاتاہے تو یہ بہت اہم انڈسٹریل کیمیکل بن گیا۔ وہ عنصر جو مونو سوڈیم گلوٹامیٹ کامالیکول بناتا ہے وہ دو مختلف قسم کاہوتا ہے۔ ان میں سے صرف ایک قسم میں ذائقہ بڑھانے والی خصوصیت ہوتی۔

سن ۱۹۶۸ء میں چائنیز نمک کی صحت مندانہ حیثیت پر سوال اُٹھنے لگا اور اس بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ چائنیز نمک "Chinese restaurant syndrome" نامی بیماری کی وجہ ہے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں ہونے والے مطالعے نے یہ ثابت کیا کہ چائنیز نمک اور مذکورہ بیماری کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ مونو سوڈیم گلوٹامیٹ کی پہچان اس وقت ہوتی ہے جب نشاستہ سے گلوٹامک ایسڈ الگ ہوجائے۔

گلوٹامک ایسڈ کی کیمیائی شکل قدرتی طور پر پائی جانے والی امینو ایسڈ کی ہوتی ہے۔ جو بعد میں ۱۸۹۰ میں دریافت ہوئی۔ مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کی ذائقہ بڑھانے والی خصوصیت ایک جاپانی کیمسٹIkeda Kibunae (1864-1936) نے دریافت کی۔ اس نے ۱۹۰۸ء میں مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کو ایک سمندری پودا "kelplike" جو روایتی طور پر جاپانی خوراک میں ذائقہ بڑھانے کے لئے استعمال ہو تا ہےسے الگ کیا اور اس کے بنانے کا طریقہ رائج کیا ۔ پھر بہت جلد اس ذائقہ بڑھانے والے عنصر کی تجارتی سطح پر پیداوار شروع ہوئی اور جاپان کی پہلی بڑی کیمیکل انڈسٹری بن گئی[3]۔

مندرجہ بالا سطور میں" Chinese restaurant syndrome" نامی بیماری کا ذکر ہوا لہٰذا مناسب ہے کہ اس مذکورہ بیماری کا تھوڑا سا تعارف کیا جائے:

"چائنیز ریسٹورنٹ سائنڈروم نامی بیماری پہلی دفعہ ۱۹۶۰کے دہائی میں تشخیص ہوئی۔ اس بیماری کی مختلف علامات ہیں، جو مختلف لوگوں میں چائنیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد ظاہر ہوئیں۔ عموماً ان علامات میں سردرد،جلد کا سرخ ہونا اور حد سے زیادہ پسینہ آنا شامل ہیں۔عموما ًکھانے میں ذائقہ بڑھانے والے ایک جزء "مونوسوڈیم گلوٹامیٹ" (MSG)نامی کیمیکل کو اس بیماری کا ذمہ دار گردانا گیا۔ البتہ انسانوں میں ظاہر ہونے والی اس بیماری ا ورمونوسوڈیم گلوٹامیٹ کا تعلق ظاہر کرنے کے لئے بہت معمولی اور نظر انداز ہونے والی سائنسی شہادت موجود ہے۔ امریکہ کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے ایم ایس جی کوبالکل محفوظ خیال کیا اور بتایا کہ بہت سے لوگ ایسے کھانے کو جس میں ایم ایس جی شامل ہو بغیر کسی مسئلے کے استعمال کرسکتے ہیں۔ البتہ اس ذائقہ بڑھانے والے جز ء سے بہت کم لوگ معمولی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ اس تنازع کی وجہ سے بہت سے ریسٹورنٹس نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ کھانوں میں ایم ایس جی استعمال نہیں کرتے"[4]

چائنہ نمک حلال یا حرام؟

چائنہ نمک کے ڈبے یا ساشے پر موجود اجزاء ترکیبی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ حلال ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں چائنہ نمک کو حلال سرٹیفیکیٹ حاصل ہے۔مونوسوڈیم گلوٹامیٹ عمل تخمیر سے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر خنزیر کے اجزاء کے ذریعے خمیر کو اٹھایا گیا ہے تو یہ نمک حرام ہے"[5]

کسی چیزکا خمیر اٹھانے کے لئے بیکٹیریا کی ضرورت ہوتی ہے لہذاچائنہ نمک کی حلت و حرمت کا انحصار بیکٹریا کی پیداوار پر ہے۔اگر یہ بیکٹیریا کسی حرام چیز کے ذریعے پیدا کئے جاتے ہیں تو یہ نمک حرام ہے اور اگر یہ بیکٹیریا حلال چیز کے ذریعے پیدا کئے جاتے ہیں تو چائنیز نمک حلال ہے"[6]۔

چونکہ چائنہ نمک کے بنانے میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ خنزیرکے اجزاء کےاستعمال ہونے کا بھی احتمال ہے ۔اس لئے پہلے خنزیر کی تبدیلی ماہیت کے متعلق فقہاء کی رائے معلوم کرتے ہیں:

خنزیر کی تبدیلی ماہیت میں حنفی فقہاء میں امام محمد اور امام ابویوسف رحمہمااللہ کے درمیان اختلاف ہے۔ امام محمد،خنزیر کی تبدیلی ماہیت کے جوازکے قائل ہیں۔ جبکہ امام ابویوسف کی رائے ہے کہ خنزیر کی ماہیت تبدیل نہیں ہوتی۔جیسا کہ علامہ ابن ہمام نے فرمایا ہے:

"بانقلاب العين في غير الخمر كالخنزير والميتة تقع في المملحة فتصير ملحا تؤكل، والسرقين والعذرة تحترق فتصير رمادا تطهر عند محمد خلافا لأبي يوسف"[7]

" امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے برعکس امام محمد رحمہ اللہ علیہ کے ہاں شراب کے علاوہ انقلاب عین کے ذریعے خنزیر اور میتۃ اگر نمک کی کان میں گر نے کی وجہ سے نمک بن جائے تو کھایا جاسکتا ہے اور پاخانہ اور گوبر وغیرہ جل کر راکھ بن جائے توپاک ہوجاتا ہے۔"

حلت و حرمت کے بارے میں اصولی موقف

چائنہ نمک کی حلت و حرمت کے بارے میں حتمی رائے دینے سے پہلے اس ضمن میں ایک اصول کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں حلت و حرمت کا مدار اس بات پر ہے کہ یہ کس چیز سے اور کس طریقہ سے بنائی گئی ہے؟

اگر اس کو حلال چیزوں جیسے سبزیوں وغیرہ سے بنایا گیا ہو تو اس کی حلت میں کوئی شبہ نہیں۔ اور اگر اس کو حرام یا نجس چیزوں سے بنایا گیا ہو تو پھر اس کے طریقہ کار کو دیکھا جائے گا ، اگر شرعی اصولوں کے مطابق اس میں استحالہ ہو چکا ہو تو حلال ہوگا اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس طریقہ سے استحالہ نہیں ہوا تو یہ حرام ہوگا۔[8]

البتہ جب حلت و حرمت کے بارے میں حتمی رائے قائم نہ ہو سکے تو پھر بھی اس کو "حلال" قرار دیا جا سکتا ہے، جیسے فتاوی ہندیہ میں مذکورہ ہے:

"وبه نأخذ ما لم نعرف شيئا حراما بعينه، وهو قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى – وأصحابه"[9]

"ہم اسی کو لیتے ہیں جب تک معین چیزکے حرام ہونے کو نہ پہچانے اور یہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے۔"

اس کے علاوہ اس سلسلے میں ردالمختار میں علامہ ابن عابد ین شامی کے اس قول کو بھی بنیاد بنایا جا سکتا ہے کہ کسی چیز کی حقیقت جانے بغیر اس کی نجاست کا حکم نہیں لگایا جاسکتا:

"لا يحكم بنجاستها قبل العلم بحقيقتها"[10]

علامہ ابن نجیم کی رائے بھی یہ معلوم ہوتی ہے، وہ فرماتے ہیں:

"ويظهر أثر هذا الاختلاف في المسكوت عنه ويتخرج عليها ما أشكل حاله فمنها الحيوان المشكل أمره والنبات المجهول اسمه"[11]

"اور اس اختلاف کا اثر ان چیزوں کے بارے میں ظاہر ہوگاجن کےحلال و حرام ہونے کے بارے میں سکوت ہے اور یہی حکم ایسے حیوان اور پودے کے بارے میں بھی ہے جس کی حقیقت حلال و حرام ہونے کے اعتبار سے مجہول ہو۔"

چائنہ نمک کے بارے معاصر فتاوی

ذیل میں چند معاصر فتاوی کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے، جس میں گذشتہ اصولی موقف کے مطابق چائنہ نمک کی حلت و حرمت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔

چنانچہ چائنہ نمک کی حلت و حرمت کے بارے میں دارالافتاءوالقضاء جامعہ بنوریہ العالمیہ کے فتوی میں یہ تفصیل دی گئی ہے کہ اگر یقینی و تحقیقی طور پر یہ ثابت نہ ہو کہ اس کی تیاری میں حرام یا ناپاک اجزاء شامل ہیں ، تو یہ "حلال" ہو گا:

" جب تک یہ تحقیق نہ ہوکہ مذکورہ نمک میں کوئی حرام ، ناپاک یا مردار چیز شامل ہےاس وقت تک چائنیز نمک کا کھانا درست ہے اور اس کو دوسری کھانے پینے کی چیزوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ورنہ نہیں"[12]۔

اس تفصیل کے ساتھ آن لائن فتوی کی ویب سائٹ پر چائنہ نمک کی حلت و حرمت پر بحث کی گئی ہے، جس میں مذکورہ اصول کے مطابق چائنہ نمک کی حلت کے بارے میں بحث کی گئی ہے:

"فلا يمكننا الحكم القطعي على المادة المذكورة بتحريم أو تحليل لعدم اطلاعنا على حقيقتها، والكلمة الفصل فيها لمن يطلع على حقيقتها من أهل العلم في بلدكم، ومع ذلك نقول: إذا علم أن هذا الملح أو غيره قد خلط بنجس أو استعملت في تصنيعه مادة محرمة من الخنزير أو غيره فإنه لا يجوز استعماله لأنه بامتزاج تلك المادة النجسة به صار نجساً.أما إذا كان ما خلط به من النجاسة من الخنزير أو غيره قد استحال من عين النجاسة بالتصنيع.. وانتقل إلى حقيقة أخرى مغايرة للأصل النجس انتقالا تاماً، فإنه يصبح حلالا جائز الاستعمال على ما ذهب إليه أكثر أهل العلم"[13]

" پس مذکورہ مادہ کی حلت و حرمت کا قطعی حکم اس کی حقیقت کےبارےمیں عدم معلومات کی وجہ سے نہیں لگایا جاسکتا ۔اس سلسلے میں اہل علم سے رائے لی جائے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب یہ معلوم ہو جائے کہ اس نمک وغیرہ میں نجس چیز کا اختلاط ہوا یا اس میں خنزیر وغیرہ کا کوئی مادہ استعمال ہوا ہے تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔اس لئے کہ اس نجس مادے کی ملاوٹ کی وجہ سے یہ نمک وغیرہ نجس ہوگیا۔ اگر خنزیر یا کسی اور نجاست کا اختلاط ہو اور اس کی عین نجاست کی حقیقت استحالہ کی وجہ سے تبدیل ہو کر کوئی دوسری حقیقت بن گئی ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگیا اور اس پر اکثر اہل علم کااتفاق ہے۔"

درج ذیل فتوی میں بھی چائنہ نمک کی حلت کی طرف رجحان ظاہر کیا گیا ہے، البتہ غیر حتمی صورت ِ حال کیی وجہ سے اس سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے:

"اجینو موتو‘‘ ایک برانڈ کا نام ہے اور اس نام سے مختلف ملکوں میں نمک بنایا جا رہا ہے۔  ساؤتھ افریقہ میں اس نام سے پروڈکٹ بنائی جا رہی ہے۔اسے وہاں کے ایک معتمد تصدیقاتی ادارے سنحا (SANHA) نے حلال قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک اور ادارے ’’مسلم کنزیومر گروپ‘‘ نے امریکا اور کینیڈا میں تیار ہونے والے اجینو موتو کو بھی حلال قرار دیا ہے۔ملائشیا کے حلال بورڈ نے بھی اسے حلال قرار دیا ہے۔ تاہم اس نام کی جو پروڈکٹ چین سے ہمارے ملک میں آ رہی ہے، اس کے اجزا کی ہمیں تحقیق نہیں ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں اصولی جواب یہ ہے کہ اگر اس بات کا غالب گمان ہو جائے کہ مذکورہ کھانے میں خنزیر کی چربی یا کوئی دوسرے حرام اجزا شامل ہیں اور پروڈکٹ کی تیاری کے عمل کے دوران انقلاب ماہیت بھی نہیں ہوا تو ایسے اجینو موتو کا استعمال جائز نہیں۔ البتہ اگر اس درجے کا گمان نہ ہو بلکہ صرف شبہ ہو تو ایسی شبہ والی مصنوعات سے بھی عملی طور پر بچنا چاہیے۔ تاہم اعتقادی طور پر ان کو حرام سمجھنے یا کہنے سے گریز کیا جائے۔کیونکہ اس طرح کے محض شبہے کی بنیاد پر کسی چیز کے حرام ہونے کا حکم لگانا جائز نہیں۔ نیز اگرچہ اس کے متعدد نقصانات بتائے جاتے ہیں لیکن ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق کسی بھی مستند ادارے کی جانب سے تحقیق کے نتیجے میں ایسے شدید نقصانات سامنے نہیں آئے کہ ان کی وجہ سے اس کے استعمال سے سب لوگوں کو عمومی طور پرروک دیا جائے،۔نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے، بعض کو معمولی نقصان ہو اور بعض کو بالکل نہ ہو۔ لہذا اگر کسی شخص کے لیے اس کے اتنا نقصان دہ ہونے کا غالب گمان ہو کہ اس سے کوئی جان لیوا یا کسی منفعت سے دائمی طور پر محروم کرنے والا مرض لاحق ہو جائے گا تو اس کے لیے اس کا استعمال درست نہیں ہو گا۔ باقی لوگ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہاں! اگر کوئی شخص اپنے طورپر احتیاط کرے تو بہت اچھی بات ہے"[14]۔ 

چائنہ نمک کی حرمت اور اس پر پابندی

گذشتہ بحث سے یہ واضح ہوا کہ مسلم دنیا کہ علماء اور مفتیان ِ کرام چائنہ نمک کے بارے میں حلت و حرمت کے بارے میں تفصیلی جواب دیتے ہیں، جس میں عمومی رجحان"حلال" ہونے کی طرف ہ۔

البتہ انڈونیشیا میں ماضی میں اس پر حتمی طور پر حرام کا فتوی لگایا گیا ، اس کی حرمت کے بارے BBC کی ایک رپورٹ ہفتہ ۶ جنوری ۲۰۰۱ ملاحظہ ہو:

"انڈونیشیا میں چائنیز سالٹ بنانے والی ایک جاپانی فیکٹری PT Ajinomoto Indonesia factory at Mojokarto کی مصنوعات پر اس وقت پابندی لگائی گئی ،جب یہ معلوم ہوا کہ یہاں خنزیر کے اجزاء ذائقہ بڑھانے والی مصنوعات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ پولیس نے فیکٹری کے کرتا دھرتا کو گرفتار کیا تفتیش کے دوران فیکٹری مالکان نے تسلیم کیا کہ واقعی خنزیر کے اجزاء استعمال ہوئے ہیں"[15]۔

روزنامہ " اردو ٹائمزUrdu times " ممبئی کے ۶ستمبر۲۰۰۵ ء کے شمارہ میں جو " ایڈوٹیریل" شائع ہواتھا، اس میں "ینگ مسلم ڈایجسٹ"Young Muslim Digest " کے مارچ ۲۰۰۵کی اشاعت میں شائع شدہ ایک مضمون کے حوالہ سے، اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا :

"یورپ اور امریکہ کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں جو دنیا کے تمام بڑے بڑے ملکوں میں اپنا کار وبار چلا رہی ہیں اور اپنی مصنوعات کے ذریعہ ہر جگہ مارکیٹ پر چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں جو یہودیوں کی ملکیت ہیں اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت یہ صیہونی کمپنیاں دنیا کے تمام مسلمانوں کو سور (خنزیر) کی چربی کھلا رہی ہیں"[16]

اسی مضمون میں ایک جگہ یہ بھی لکھا گیا ہے:

"کہ صرف فرانس میں بیالیس ہزار کی تعداد میں PIG Farms ہیں چونکہ خنزیر میں چربی بہت ہوتی ہے اس لئے فرانسیسی کمپنیاں ساٹھ سال پہلے تک اس کو ضائع کردیتی تھیں۔ پھر جب یہ کمپنیاں رفتہ رفتہ یہودیوں کے زیر انتظام یا ان کی ملکیت میں آئیں، تو دولت کے لالچ میں ان یہودیوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد صابن بنانے میں خنزیر کی چربی کا استعمال شروع کردیا۔ اس کے علاوہ دوسری مصنوعات میں بھی اس کا استعمال کرنے لگے۔ چونکہ بین الاقوامی تجارتی قانون کےتحت اشیاء کے ڈبے یا پیکٹ پر یہ لکھنا ضروری ہے کہ ڈبے کے اندر موجود چیز کن کن اجزاء سے بنی ہے اور مسلمان خنزیر کے اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں استعمال نہیں کرتے ، اس لئے یہودیوں نے اشیاء کے ڈبوں پر PIG FAT کی جگہ Animal Fat لکھنا شروع کیا۔ لیکن اس سے بھی بات نہیں بنی تو انہوں نے مسلمانوں کےہاں حرام شدہ چیزوں کے لئے ایک خفیہ لفظ "E-Code" ڈبوں پر لکھنا شروع کیا۔ مذکورہ مضمون 'جو انڈیا کے اخبار " اردو ٹائمز" میں شائع ہوا' کے مطابق مذکورہ "E-Codes" E-100 سے لے کر E-904 تک سب مشکوک اور حرام چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں"[17]

چائنہ نمک کی طبی نقصانات

چائنہ نمک کے بارے میں تحقیق کے دوران اس کے کچھ طبی نقصانات کا تذکرہ انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹ اور سوشل میڈیا فورم پر ملا، اگرچہ یہ کوئی سرکاری اور طبی طور پر مصدقہ رپورٹ تو نہیں ، مگر عمومی فائدہ اور معلومات کے لیے اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

چونکہ یہ کیمیائی عنصر امینوایسڈ ہے اور امینوایسڈ پہلے سے جسم میں مو جود ہوتا ہے اگر جسم میں امینوایسڈ کی مقدار بڑھ جائے تو انسان کو فالج ہو سکتا ہے۔

بعض انسانوں کو چائنہ نمک کھانے سے منہ کا خشک ہونا، سانس کا پھولنا اور تیزابیت کی شکایت ہو تی ہے[18]۔

چائنہ نمک سےسر دردکا ہونا، حد سے زیادہ تھکن ، قے ،متلی جیسی بیماریا ں لگتی ہیں۔ اس کے علاوہ چائنہ نمک کھانے کی وجہ سے انسان کوضرورت سے زیادہ پسینہ آتا ہے۔

اگر چائنہ نمک مسلسل کھایا جائے تو اس سے ہائی بلڈ پریشر، ہارمونزمیں عدم توازن، سبزیوں سے الرجی، دمہ ،لعاب بننے میں کمی، کینسر اور خواتین میں بانجھ پن پیدا ہو سکتا ہے[19]۔

چائنہ نمک کے مسلسل کھانے سے سینے کے درد کی شکا یت ہوسکتی ہے۔[20]

خلاصہ بحث

مندرجہ بالا بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:

۱۔ چائنہ نمک مختلف قسم کی حلال اور حرام چیزوں سے بن سکتا ہے۔

۲۔ حلال اشیاء جیسے سبزیوں ، مچھلی وغیرہ سے اس کو بنایا گیا ہو تو یہ حلال ہو گا۔

۳۔ حرام یا نجس اشیاء سے بننے کی صورت میں اگر شرعی طور پر اُن میں استحالہ ہو چکا ہو تب حلال ہو گا، اور اگر استحالہ نہ ہوا ہو تو یہ حرام ہو گا۔

۴- قطعی طور پر اس کے اجزاء ترکیبی کے بارے میں کوئی حتمی بات نہ ہو، تو اصولی طور پر اس کو حلال تصور کیا جائے گا، البتہ تقوی ٰ کے طور پر اس سے اجتناب کیا جائے۔

حوالہ جات

  1. حواشی و مصادر Report of IFIC (International Food Information Council Foundation) on “Glutamate and monosodium Glutamate: Examining the Myths”. www.foodinsight.org accessed on 5th January 2016
  2. http://science.jrank.org/pages/4434/Monosodium-Glutamate-MSG.html. accessed on 30th November 2015
  3. ایضاً
  4. http://www.healthline.com/health/chinese-restaurant-syndrome#Overview1, Accessed on 29-11-2016
  5. http://www.muslimconsumergroup.com/e-numbers_list.html?panna=6 Accessed on 10-12-2015
  6. http://www.alahazrat.net/islam/e-numbers-listing-halal-o-haram-ingredients.php Accessed on 10-12-2015
  7. كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: ۸۶۱ھ)، فتح القدیر، ج ۱ ،ص ۲۰۰۔
  8. تصنیف اللہ خان،ڈاکٹر جنید اکبر، نجس العین کے استحالہ کے فقہی احکامات: ایک تجزیاتی مطالعہ، معارف ِ اسلامی، جلد ۱۵، شمارہ:۱، جنوری-جون ۲۰۱۶، ص ۱۶۵-۱۶۶
  9. لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي، الفتاوى الهندية، دار الفكر،طبع دوم، ۱۳۱۰ھ،ج ۵،ص ۳۴۲۔
  10. ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ)،رد المحتار على الدر المختار، دار الفكر-بيروت،طبع دوم ، ۱۴۱۲ھ - ۱۹۹۲م، ج ۱، ص ۳۳۰۔
  11. زين الدين بن ابراهيم بن محمد، المعروف بابن نجیم المصري (المتوفى: ۹۷۰ھ)، الاشباہ والنظائر علی مذہب ابی حنیفۃ النعمان، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ،طبع اول، ۱۴۱۹ھ - ۱۹۹۹ م، ج ۱، ص ۵۶۔
  12. محمد حامد محمود،دار الافتاء والقضاء ،جامعہ بنوریہ العالمیہ، کراچی ،۳ ۲ رجب ۱۴۳۳ ھ ،فتویٰ نمبر ۱۴۸۲۲۔
  13. http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=135655 Accessed on 10-12-2015
  14. www.shariahandbiz.com/index.php/halal-o-haram/981-chinese-salt-halaal-ya-haraam, Accessed on 01-02-2017
  15. http://news.bbc.co.uk/2/hi/asia-pacific/1103450.stm, accessed on 25th November 2015
  16. ھم-کیااستعمال-کررہے-ہیں؟ .8089/ http://algazali.org/index.php?threads/ accessed on 25th November 2015
  17. ایضاً
  18. http://www.urdupoint.com/health/article/ghiza-aur-sehat/ajinomoto---mazzedar-magar-muzzar-728.html Accessed on 12-10-2015
  19. http://www.urdupoint.com/health/article/ghiza-aur-sehat/ajinomoto---mazzedar-magar-muzzar-728.html Accessed on 12-10-2015
  20. http://www.answers.com/Q/What_are_the_disadvantages_of_Monosodium_Glutamate Accessed on 12-10-2015
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...