Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 1 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں اجزائے حیوانات کے احکام کا تقابلی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060030498_1292

Pages

37-51

DOI

10.36476/JIRS.1:1.06.2016.04

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/86/23

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/86

Subjects

Islam Judaism Christianity Halal Haram Islam Judaism Christianity Halal Haram

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلامی احکام

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے ہر طرح کے نفع اور نقصان کو بیان فرمایا ہے اور جو جانور اس کے لئے موزوں اور صحت بخش تھے ان کو تو حلال کیا لیکن جوجانور نقصان دہ تھے ان کو حرام کردیا لیکن اس کے ساتھ ان جانوروں کے جسم پراور جسم کے اندر جو مختلف فوائد اور منافع سے بھرپور کھالیں اور ہڈیاںموجود ہیں تو شریعت اسلامیۃ کا اس بارےمیں کیا حکم ہے؟ کون سے جانوروں کی کھال اور ہڈیاں استعمال کرنا جائز ہے اور کون سی حرام ہے؟ ان کھالوں اور ہڈیوں کو زیر استعمال لانے سے قبل انہیں محفوظ اور ان کی بدبو زائل کرنے کے لئے کون سے طریقے اختیار کرنا جائز ہیں؟ اسلام کے علاوہ یہودیت اور عیسائیت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟ سب سے پہلے جانوروں کی کھال کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ ادیان ثلثہ اس بارے میں کیا احکام صادر کرتی ہیں۔

جانوروں کی کھال سے نفع حاصل کرنے سے پہلے اس کو رنگ دیا جاتا ہے جس کو عربی میں دباغت کہتے ہیں ۔

دباغت کا لغوی معنی

الدباغة هي إزالة النتن والرطوبات النجسة من الجلد[1]۔

"دباغت کھال سےبدبو اور نمی کے زائل کرنےکو کہتے ہیں"۔

دباغت کی اصطلاحی تعریف

الدِّبَاغُ هو ما يمنع عَوْدُ الْفَسَادِ إلَى الْجِلْدِ عِنْدَ حُصُولِ الْمَاءِ فيه[2]۔

"دباغت ایسے طریقہ کار کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کھال پانی لگنے کی وجہ سے دوبارہ خراب نہیں ہوتی"۔

دباغت کی اقسام

شرعی اعتبار سے دباغت کی دو اقسام ہیں۔

1: حقیقی 2: حکمی

1: دباغت حقیقی کی تعریف

فَالْحَقِيقِيُّ هو أَنْ يُدْبَغَ بِشَيْءٍ له قِيمَةٌ كَالشَّبِّ وَالْقَرَظِ وَالْعَفْصِ وَقُشُورِ الرُّمَّانِ ولحي الشَّجَرِ وَالْمِلْحِ وما أَشْبَهَ ذلك[3]۔

"دباغت حقیقی کہتے ہیں کہ کھال کو ایسی چیز سے رنگنا جس کی قیمت ہو مثلاً شب(پھنکری)قرظ(درخت سلم کے پتے)عفص(درخت مازویا درخت بلوط)قشور الرمان(انار کے چھلکے)لحی الشجر(درخت کی چھال)وغیرہ سے رنگنا"۔

2: دباغت حکمی کی تعریف

وَالْحُكْمِيُّ أَنْ يُدْبَغَ بِالتَّشْمِيسِ والترتيب وَالْإِلْقَاءِ في الرِّيحِ لَا بِمُجَرَّدِ التَّجْفِيفِ[4]۔

"دباغت حکمی کہتے ہیں کہ دھوپ، مٹی یا ہوا میں ڈال کر کھال کی نمی اور رطوبت کو ختم کرنالیکن بغیر کچھ کئے محض خشک ہونےپر کھال دباغت شدہ شمار نہیں ہوگی"۔

دباغت سے متعلق احادیث نبویہ

اگرچہ دباغت کے متعلق تو احادیث بہت زیادہ ہیں لیکن چند ایک کو یہاں پر ذکر کیا جاتا ہے۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: وجد النبي صلى الله عليه و سلم شاة ميتة أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة قال النبي صلى الله عليه و سلم: هلا انتفعتم بجلدها؟ قالوا إنها ميتة۔قال: إنما حرم أكلها[5]۔

"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مال زکوٰۃ میں سے جو بکر ی حضرت میمونۃ رضی اللہ عنہا کی باندی کو دی گئی تھی ، نبی کریم ﷺ نے اسے راستے میں مرا ہوا دیکھاتو فرمایا کہ تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ تو عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے۔ تو فرمایا: صرف اسے کھانا حرام ہے"۔

نسائی کی ایک روایت میں ہے: عن ابن عباس عن سودة زوج النبي صلى الله عليه و سلم قالت : ماتت شاة لنا فدبغنا مسكها فما زلنا ننبذ فيها حتى صارت شنا[6]۔"ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت سودۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہماری بکری مرگئی تو ہم نے اس کی کھال کو رنگا اور اس میں نبیذ (کھجور کا شربت)بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی ہوکر سوکھ اور سکڑ گئی"۔

نسائی ہی کی ایک اور روایت میں ہے:

عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أيما إهاب دبغ فقد طهر[7]۔

"ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس کھال کو دباغت دی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے"۔

نسائی کی ایک اور روایت اس طرح ہے:

عن ابن وعلة أنه سأل بن عباس فقال: إنا نغزو هذا المغرب وإنهم أهل وثن ولهم قرب يكون فيها اللبن والماء فقال بن عباس الدباغ طهور قال بن وعلة عن رأيك أو شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه و سلم قال بل عن رسول الله صلى الله عليه و سلم[8]۔

"ابن وعلہ نامی ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھاکہ ہم لوگ مغربی لوگوں سے جہاد کرتے ہیں ، وہ چونکہ بت پرست ہیں اور ان کے پاس مشکیزوں میں دودھ اور پانی ہوتا ہے(اس لئے ہم متحیر ہوتے ہیں کہ ان کا یہ مشکیزہ پاک ہوگا یا نہیں؟) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دباغت سب سے بڑی پاکی ہے۔ابن وعلہ کہنے لگے کہ حضرت یہ آپ کی اپنی رائےہے یا اس کا مدار کسی فرمان نبوی پر ہے؟تو فرمایا کہ فرمان نبوی پر"۔

ایک اور روایت میں ہے :

عن سلمة بن المحبق: أن نبي الله صلى الله عليه و سلم في غزوة تبوك دعا بماء من عند امرأة قالت ما عندي إلا في قربة لي ميتة قال أليس قد دبغتها قالت بلى قال فإن دباغها ذكاتها[9]۔

"حضرت سلمۃ بن المحبق الہذلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر ایک عورت سے پانی منگوایا۔ عورت نے کہا میرے پاس تو صرف ایک مردار (کی کھال)کے مشکیزہ میں پانی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تو نے اسے دباغت نہیں دی تھی؟ اس نے کہا کہ دی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا: کھال کو دباغت دینا اسے پاک کرنا ہی تو ہے"۔

ایک اور روایت میں ہے:

عن عائشة قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم عن جلود الميتة فقال دباغها ذكاتها[10]۔

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ سے مردار کی کھالوں کے بارے میں سوال کیا گیا توآپﷺ نے فرمایا: انہیں دباغت دینا ہی اسے پاک کرنا ہے"۔

نسائی کی ایک اور روایت ہے:

عن عبد الله بن عكيم قال : قرئ علينا كتاب رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا غلام شاب أن لا تنتفعوا من الميتة بإهاب ولا عصب[11]۔

"عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں لکھا کہ مردار کے کچے چمڑے (بغیر دباغت)سےفائدہ نہ اٹھاؤ اور نہ اس کے پٹھے سے"۔

درندوں کے چمڑے کا حکم

درندوں کے چمڑے کا حکم اس حدیث میں آیا ہے:

عن أبي المليح عن أبيه : أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى عن جلود السباع[12]۔"

ابو الملیح اپنے والد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے درندوں کی کھال استعمال کرنے سے منع فرمایا"۔

نسائی کی ایک اور روایت میں ہے:

عن خالد قال: وفد المقدام بن معدي كرب على معاوية فقال له أنشدك بالله هل تعلم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن لبوس جلود السباع والركوب عليها قال نعم[13]۔

"خالد کہتے ہیں کہ مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ نبی کریمﷺ نے درندوں کی کھال پہننے اور اس پر سواری کرنے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں"۔

یہ دونوں احادیث اور ان جیسی اور احادیث کو علامہ بدرالدین عینیؒ نے اپنی کتاب میں جمع کئے ہیں اور ان پر جرح ونقد کیا ہے اور اس کی تشریح میں یہ بات کی ہے کہ درندوں کے چمڑے کا یہ حکم اس وقت ہے جب اس کو دباغت نہ دی گئی ہو اگر اس کو دباغت دی جاتی ہے تو یہ بالاتفاق پاک ہے اور اس پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، سعید بن مسیب، امام ابو حنیفہ، امام شافعی وغیرہ سب کا اجماع نقل کیا ہے۔[14]

دباغت کا حکم

حلال جانوروں کو اگر شرعی طریقہ سے ذبح کیا جائے تو ان کی کھال بغیر دباغت کے بھی پاک ہے اور حلال بھی ہے لیکن مردار (وہ حلال جانور جو بغیر ذبح یا شکار کے مرجائے )کی کھال دباغت کے بعد پاک ہوجاتی ہےاور اسی طرح ہر حرام جانور کی کھال بھی دباغت کے بعد پاک ہوجاتی ہے۔[15]

دباغت کے باوجود ناپاک کھال:

خنزیر اور انسان کی کھال دباغت کے باوجود بھی ناپاک رہتی ہے اس لئے کہ خنزیر نجس العین ہے ، اگر اسے ذبح بھی کرلیا جائے تب اس کی کھال ناپاک رہتی ہےاور انسان کی عزت وشرافت کی وجہ سے اس کی کھال دباغت کے باوجود پاک نہیں ہوتی[16]۔

یہودیت اور عیسائیت کے احکام

بائبل کی تعلیمات کے مطابق حلال جانوروں سے ہر قسم کا انتفاع جائز ہے خواہ وہ ان کی کھال سے ہو یا ان کی ہڈیوں سے کیونکہ جب یہ

حلال ہیں تو پھر ان کے اجزاء بھی حلال ہیں لیکن حرام جانوروں کو جس طرح چھونا جائز نہیں بالکل اسی طرح اس کے اجزاء بھی ناپاک ہیں

اور ان کو چھونے سے انسان ناپاک ہوجاتا ہے۔ یعنی حرام جانوروں کی ہڈیاں، کھال اور چربی وغیرہ سب کے سب ناپاک اور نجس ہیں اور اس کے چھونے سے انسان ناپاک ہوجاتا ہے۔ بائبل اس کو کچھ یوں بیان کرتا ہے:

"چوپائے :تم ان کے گوشت میں سے کچھ نہ کھاؤ اور ان کے لاشوں کو نہ چھوؤ کیونکہ وہ تمہارے لئے ناپاک ہیں"[17]۔

ایک اور جگہ پر اس طرح آیا ہے:

"حشرات:رینگنے والوں میں سے یہ تمہارے لئے ناپاک ہیں جو کوئی ان میں سے مرے ہوئے کو چھوئے گا شام تک ناپاک رہے گا"[18]۔

اگرچہ بائبل کی اس آیت میں جانوروں کے اجزاء کے متعلق کوئی حکم تو نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہےکہ مرا ہوا خواہ وہ کوئی جانور ہو یا حشرات میں سے کوئی چیز ہو، اس کو چھونا انسان کو نجس کردیتا ہے اور اس سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

ادیان ثلثہ میں حیوانات کے ہڈیوں کے احکام

اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جس طرح حلال حیوانات کے گوشت اور کھال کو فائدے کا بنایا ہے اسی طرح ان کی ہڈیوں کو بے کار نہیں چھوڑا بلکہ اس میں بھی بے شمار فائدے رکھے اور اس میں انسانوں کے لئے معاش کی ایک صورت پیدا فرمائی۔ ہڈی کو عربی میں عظم کہتے ہیں اور اس کی جمع عظام آتی ہے۔[19]

قرآن پاک میں عظام کا ذکر

سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری ہے:

وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا۔"

اور دیکھ ہڈیوں کی طرف کہ ہم ان کو کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر پہنا دیتے ہیں گوشت"[20]

دوسری جگہ ارشاد ہے:

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا۔"

پھر بنایا اس بوندے سے لہو جما ہواپھر بنائی اس لہو جمے ہوئے سے گوشت کی بوٹی پھر بنائی اس بوٹی سے ہڈیاں، پھر پہنایا ہڈیوں پر گوشت"[21]

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ۔"

اور بیان کرتا ہے ہمارے واسطے ایک مثل اور بھول گیا اپنی پیدائش کو ۔کہنے لگا کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو جب کھوکھری ہوگئیں"[22]

سورۃ مریم میں ارشاد ہے:

قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا۔

"بولا اے میرے رب! بوڑھی ہوگئی میری ہڈیاں اور شعلا نکلا سر سے بڑھاپے کااور تجھ سے مانگ کر اے رب میں کبھی محروم نہیں رہا"[23]

احادیث میں ہڈیوں کا تذکرہ

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ كُنْتُ آكُلُ مَعَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَآخُذُ اللَّحْمَ بِيَدِى مِنَ الْعَظْمِ فَقَالَ: أَدْنِ الْعَظْمَ مِنْ فِيكَ فَإِنَّهُ أَهْنَأُ وَأَمْرَأُ۔

"صفوان بن امیۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے ساتھ کھانا کھارہا تھا تو ہڈی سے گوشت کو اپنے ہاتھ سے جدا کررہا تھا تو نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ ہڈی کو اپنے منہ کے قریب کرلو(دانتوں سے جدا کرو)کیونکہ یہ بہت مزیدا ر اور لذیذ ہوتا ہے"[24]

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَتَعَرَّقُ الْعَظْمَ وَأَنَا حَائِضٌ فَيَأْخُذُهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ فَيَضَعُ فَمَهُ حَيْثُ كَانَ فَمِي وَأَشْرَبُ مِنَ الإِنَاءِ فَيَأْخُذُهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ فَيَضَعُ فَمَهُ حَيْثُ كَانَ فَمِي وَأَنَا حَائِضٌ۔

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں ہڈی سے گوشت کھاتی تھی اور پھر نبی کریمﷺ کو دیتی تو وہ اسی جگہ پر منہ رکھتے جہاں میں نے رکھا ہوتااور میں برتن سے پانی پیتی اور پھر نبی کریم ﷺ وہ برتن لیتے اور اسی جگہ منہ لگاتے جہاں میں نے لگایا ہوتا حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی"[25]۔

ایک اور جگہ پر فرمایا:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْعَظْمِ عَنِ الطَّرِيقِ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ۔

"ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ایمان کے ستّر سے زیادہ شعبے ہیں اور اس میں افضل لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ کہنا اور ادنیٰ شعبہ ہڈی کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے"[26]۔

حلال جانوروں کی ہڈیاں

جو جانور شریعت نے حلال قرار دئیے ہیں ان جانوروں کی کھال اور ہڈیاں بھی بالاتفاق حلال ہیں یعنی ان ہڈیوں سے ہر طرح کافائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور ان کو تداوی اور اور دیگر اشیاء میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور ان کی تجارت بھی جائز ہے۔

حرام جانوروں کی ہڈیاں

جمہور علماء کا یہ مسلک ہے کہ انسان کی ہڈی پاک ہے خواہ وہ زندہ ہو یامردہ، مسلمان ہو یا کافرکیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَم[27]۔

اور اسی تکریم کی وجہ سے انسان کی موت کی وجہ سے اس پر نجاست کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔جمہور فقہاء کا یہ بھی مسلک ہے کہ مچھلی کی ہڈی موت کے بعد بھی پاک ہوتی ہےکیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ الْجَرَادُ وَالْحِيتَانُ وَالْكَبِدُ وَالطِّحَال۔

"نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہمارے لئے دو مردے اور دو خون حلا ل کردئیے گئے ہیں۔ٹڈی اور مچھلی اور جگر اور تلی"[28]۔اور اسی طرح ماکول اللحم جانور جس کو شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو اس کی ہڈی سے بھی فائدہ حاصل کرنا جائز ہے۔ لیکن اختلاف مردار اور غیر ماکول اللحم جانور جس کو ذبح کیا گیا ہو ، میں ہے کہ آیا ان کی ہڈیاں قابل انتفاع ہیں یا نہیں؟

جمہور میں سے مالکیۃ، شافعیۃ، حنابلۃ اور اسحاق کا مسلک یہ ہے کہ مردار کی ہڈیاں نجس ہیں خواہ وہ مردار ماکول اللحم میں سے ہو یاغیر ماکول اللحم میں سے ہو، اور غیر ماکول اللحم کو ذبح کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، ہر حال میں ان کی ہڈیاں نجس ہیں اور کسی بھی حال میں یہ پاک نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ۔"

تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت"[29]۔

اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ہاتھی کی ہڈی میں تیل ڈالنا بُرا سمجھتے تھےکیونکہ ہاتھی مردار ہوتا ہے۔لیکن ان کے مقابل احناف مردار کی ہڈیوں کو پاک گردانتے ہیں۔ احناف کی پہلی دلیل یہ ہے کہ ہڈیاں مردا ر نہیں ہوتی کیونکہ شرع کی اصطلاح میں مردار جانور وہ ہوتا ہے جو بغیر کسی بندہ کے فعل کے اس کی روح نکل جائے یا غیر مشروع طریقہ سے اس کی روح نکل جائے اور ہڈیوں میں چونکہ حیاۃ نہیں ہے لہٰذا یہ مردار نہیں ہوگی۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ مردار میں نجاست اس کی ذات میں نہیں ہوتی بلکہ اس میں جو بہتا ہوا خون اور مرطوب نجاست ہوتی ہے اس کی وجہ سے اس میں نجاست آجاتی ہے اور ہڈیوں میں تو خون اور مرطوب نجاست نہیں ہوتی اس لئے یہ مردار نہیں بلکہ پاک ہوگی۔

اور سورۃ مائدۃ کی آیت حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ۔ کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں انتفاع کی نفی ہو بلکہ اس میں حرمت سے مراد حرمت اکل ہے نہ کہ انتفاع۔لیکن یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب یہ ہڈیاں بالکل خشک ہو، اگر اس میں تھوڑی بھی رطوبت ہو تو پھر احناف کے ہاں بھی اس سے انتفاع جائز نہیں۔[30]

یہودیت اور عیسائیت میں ہڈیوں سے انتفاع کے احکام

بائبل کی رو سے حرام جانوروں کی ہڈیوں سے کسی بھی طرح کافائدہ نہیں حاصل کیا جاسکتا کیونکہ حرام کے چھونے سے انسان ناپاک ہوجاتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے:

"کہ جو کوئی ان کی لاشوں کو چھوئے گا وہ ناپاک ہوجائے گا"[31]

ادیان ثلثہ میں اجزائے حیوانات سے معالجہ کے احکام

علاج کرنا ہر انسان کی ضرورت بھی ہے اور نفس اور شریعت کا مطالبہ بھی۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے:

ثنا حرب قال سمعت عمران العمي قال سمعت أنسا يقول ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : ان الله عز و جل حيث خلق الداء خلق الدواء فتداووا۔

"حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس طرح بیماری کو پیدا کیا ہے اسی طرح دوائی کو بھی پیدا فرمایا ہے پس تم دوائی سے علاج کرو"[32]

جو جانور اللہ تعالیٰ نے حلال فرمائے ہیں ان کے تمام اجزاء سے فائدہ حاصل کرنا تو بالاتفاق جائز ہے بلکہ مستحسن ہے لیکن جو جانور حرام ہیں تو کیا گوشت کے علاوہ ان کے باقی اجزاء سے بھی فائدہ حاصل نہیں کیا جائے گا یا تداوی وغیرہ میں ان کے استعمال میں رخصت ہے؟ اس بارے میں فقہاء کے ہاں تفصیل ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔

حلال اور حرام جانوروں کے پیشاب کا حکم

جن جانوروں کوشریعت مطہرہ نے حرام قراردیا ہے تو ان کے ابوال وغیرہ بھی حرا م ہیں لیکن حلال جانوروں کے پیشاب کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ پاک ہیں یا ناپاک اور آیا اس کو بطور تداوی استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ امام محمدؒ حلال جانور وں کے پیشاب کی طہارت کے قائل ہیں جب کہ شیخین اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ امام محمدؒ کی دلیل حدیث عرنیین کا واقعہ ہے:

عن أنس رضي الله عنه : أن ناسا اجتووا في المدينة فأمرهم النبي صلى الله عليه و سلم أن يلحقوا براعيه يعني الإبل فيشربوا من ألبانها وأبوالها فلحقوا براعيه فشربوا من ألبانها وأبوالها حتى صلحت أبدانهم فقتلوا الراعي وساقوا الإبل فبلغ النبي صلى الله عليه و سلم فبعث في طلبهم فجيء بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم۔

"انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں کچھ لوگوں پر خارش کا مرض آیا تو نبی کریم ﷺ نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے دودھ اور پیشاب کے پینے کا حکم دیا، ان لوگوں نے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا توان کے بدن ٹھیک ہوگئے اور پھر اونٹوں کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ چرا کر لے گئے ۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس کا پتہ چلا تو لوگوں کو ان کے پیچھے دوڑایا ، ان کو جب لایا گیا تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھیں نکال دی گیئں"۔[33]

شیخین کی دلیل بھی ایک حدیث ہے جس میں ہر قسم کے پیشاب سے پچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْه۔

"ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: پیشاب سےبچو کیونکہ عام عذاب قبر اس کی وجہ سے ہوتا ہے"۔[34]

اور امام محمدؒ کی دلیل سے یہ جواب کرتے ہیں کہ واقعہ عرنیین کا تعلق وحی سے ہے یعنی نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے بتا دیا تھا کہ ان کا علاج اونٹوں کے پیشاب میں ہے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اس حدیث سے جس کو شیخین ذکر کررہے ہیں کیونکہ اس واقعہ کے بعد مثلہ سے بھی منع آیا ہے اور اس واقعہ میں ان لوگوں کا مثلہ بھی کیا گیا تھا۔[35]

ابن نجیم المصریؒ نے البحرا لرائق شرح کنز الدقائق میں ذکر کیا ہے کہ ابو یوسف بن محمد اور حسن بن علی سے اُس مریض کے متعلق پوچھا گیا جس کو طبیب یہ کہے کہ اگر تم خنزیر کا گوشت کھاؤ تو تمہاری بیماری ٹھیک ہوجائے گی اور یہ تمہارے لئے بہت ضروری ہے۔ تو ان دونوں اصحاب نے کہا کہ اس مریض کے لئے خنزیر کا گوشت کھانا حلال نہیں ہے۔اسی طرح حسن بن علیؒ سے اس دوائی کے بارے میں پوچھا گیا جس میں سانپ ملایا گیا ہو تو اس نے جواب میں کہا کہ ایسی دوائی کا استعمال کرنا حلال نہیں ہے[36]۔

اور حدیث میں بھی ایسی دوائی کے استعمال سے منع آیا ہے جو کی خبیث ہو۔ جیسے کہ ارشاد ہے:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: عَنِ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ۔

"ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے خبیث (چیز سے بنی ہوئی) دوا سے منع فرمایا"[37]۔

اسی طرح نبی کریمﷺ نے اس دوائی سے بھی منع فرمایا ہے جس میں مینڈک ملایا گیا ہو۔ ارشاد ہے:

عن سعيد بن المسيب عن عبد الرحمن بن عثمان : قال ذكر طبيب الدواء عند رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكر الضفدع تكون في الدواء فنهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن قتلها۔

"عبد الرحمن بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک دوائی کا ذکر کیا جس میں مینڈک ملایا گیا تھا تو نبی کریم ﷺ نے مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا"[38]

بعض جانور (جن کا کھانا حرام ہے)یا کیڑے مکوڑے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی چربی یا کسی اور چیز کا روغن اور مرہم وغیرہ بنا کر استعمال کیا جاتا ہےتو اس میں اصول یہ ہے کہ جو اشیاء نجس بعینہ(پورے وجود سمیت ناپاک)ہیں، نہ ان کا کھانا جائز ہے اور نہ ان کا خارجی استعمال، یعنی جسم پر لگانا بھی جائز نہیں۔ جیسے خون، مردار کا گوشت جس میں بہتا ہوا خون بھی پایا جاتا ہو، سور ، پیشاب اور پائخانہ وغیرہ۔لیکن بعض اشیاء وہ ہیں جن کو فقہاء نے نجس لغیرہ قرار دیا ہےجیسے سور کے علاوہ وہ جانور جن کا کھانا حلال نہیں ہے اور ایسے کیڑے مکوڑے جن میں دم مسفوح(بہتا ہوا خون )نہ ہوتو ان کا خارجی استعمال جائز ہے۔لہٰذا اب ایسے تیلوں اور مرہموں کے احکام حسب ذیل ہوں گے۔

ایسے حشرات الارض جن میں بہتا ہوا خون نہ ہو ان کو تیل وغیرہ میں پکا کر اس کا روغن یا مرہم بنایا جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔[39]

سور اور کتے کے علاوہ جن جانوروں کا کھانا جائز نہیں ان کو شرعی طور پر ذبح کردیا جائے تو گوشت پاک ہوجائے گااور اس سے مرہم یا روغن وغیرہ بنا کر لگایا جاسکتا ہے۔[40]

حشرات الارض یا ذبح کئے ہوئے جانوروں کے گوشت جلا کر راکھ کر دیئے جائیں تو حقیقت بدل جانے کی صورت میں اب وہ پاک ہوگئے لہٰذا اب اس سے مرہم اور تیل بنانا جائز ہے۔

سور، کتا، مردار اور بہتے ہوئے خون والے حشرات الارض کو تیل میں پکا کر اگر روغن بنا یا جائے تو یہ ناپاک رہیں گے اور ان کا استعمال جائز نہ ہوگا۔لیکن یہ احکام عام حالات کےہیں اس سے اضطرار اور مجبوری کی صورت مستثنیٰ ہے کیونکہ ایسی حالت میں تو شریعت ضرورت کے مطابق ناجائز چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دیتی ہے۔[41]

یہودیت اور عیسائیت میں جانوروں کی ہڈیوں اور اجزاء سے انتفاع کے احکام

بائبل کی رو سے حرام جانوروں کی ہڈیوں سے کسی بھی طرح کافائدہ نہیں حاصل کیا جاسکتا کیونکہ حرام کے چھونے سے انسان ناپاک ہوجاتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے:

"کہ جو کوئی ان کی لاشوں کو چھوئے گا وہ ناپاک ہوجائے گا"[42]۔

خلاصہ بحث

مندرجہ بالا بحث میں یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ حلال وحرام کے متعلق جتنا اہتمام اسلام نے کیا ہے وہ کسی دوسرے دین ومذہب نے نہیں کیا ہے۔ جانور جو کہ ایک مستقل اور بڑی غذا ہے اس کی حلت وحرمت اور اس کے اجزاء کے متعلق یہودیت اور عیسائیت میں کچھ خاطر خواہ احکام بیان نہیں ہوئے ہیں ماسوائے اس کے کہ جو حلال ہیں تو ان کے اجزاء تو استعمال کرنا جائز ہے لیکن جو مرجائے یا مردار ہیں تو ان کے اجزاء حرام ہیں اور یوں آسانی مفقود ہے۔ اسلام چونکہ ایک متوسط دین ہے اور افراط وتٖفریط سے خالی ہے اور اس میں ہر ایک کی ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے اس لئے اس کے بتائے ہوئے احکام میں بھی بہت زیادہ وسعت ہے۔

حوالہ جات

  1. حواشی ومتعلقات(Refrencess)
    الجرجانی، علی بن محمدبن علی ، کتاب التعریفات: ص، 75، مادۃ: الدال، مکتبہ فاروقیۃ۔ محلہ جنگی۔پشاور۔
  2. : ابن نجیم المصری، زین الدین بن ابراہیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق: 1/105، کتاب فبدت الطہارۃ عقود۔دارالمعرفۃ۔ بیروت۔سطن۔
  3. : ایضاً۔
  4. : ایضاً۔
  5. : بخاری، محمد بن اسماعیل، جامع الصحیح: 2/543، رقم، 1421، باب: الصدقة علی موالی ازواج النبی ﷺ۔دار الشعب ۔ القاہرہ، طبع 1407ھ۔ 1987م۔
  6. : ابو عبدا لرحمن النسائی، احمد بن شعیب، سنن: 7/173، رقم، 4240، باب: جلود المیتۃ، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ۔ حلب، طبع،1406ھ۔1986م۔
  7. : ایضاً، رقم4241۔
  8. : ایضاً، رقم، 4242۔
  9. : ایضاً، رقم، 4243۔
  10. : ایضاً، رقم، 4245۔
  11. : ایضاً، رقم، 4249۔
  12. : ایضاً، رقم، 4253۔
  13. : ایضاً، رقم، 4255۔
  14. : عینی، بدرالدین، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: 31/67،68، باب: جلود المیتۃ۔ملتقی اھل الحدیث، 1427ھ۔
  15. : ابن نجیم المصری، زین الدین بن ابراہیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق:1/105۔107، کتاب فبدت الطہارۃ عقود۔
  16. : ایضاً۔
  17. : کتاب مقدس، احبار: 11/8۔
  18. :ایضاً: 11/31۔
  19. :ابو نصر الجوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح فی اللغۃ: 1/480، مادہ: عفر۔طبع نامعلوم۔
  20. : سورۃ البقرۃ:259۔
  21. : سورۃ المؤمنون: 14۔
  22. : سورۃ یٰس: 78۔
  23. : سورۃ مریم: 4۔
  24. : ابوداؤد السجستانی، سلیمان بن الاشعث، سنن: 3/411، رقم، 3781، باب فی اکل اللحم۔دار الکتاب العربی۔ بیروت۔سطن۔
  25. : ابو عبد اللہ ابن ماجۃ، محمد بن یزید القزوینی، سنن: 1/410، رقم، 643، کتاب الطہارۃ۔مکتبہ ابی المعاطی۔ مصر، سطن۔
  26. : ابوداؤد، سنن: 4/353، رقم، 4678، باب فی ردالارجاء۔
  27. : سورۃ الاسراء: 70۔
  28. : ابن ماجۃ، سنن: 4/372، رقم، 3218، کتاب الصید۔
  29. : سورۃالمائدۃ:3۔
  30. : ابن نجیم المصری، زین الدین بن ابراہیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق: 1/113۔115، باب: فبدت الطہارۃ عقود۔
  31. :کتاب مقدس، احبار: 11/24۔
  32. : ابو عبداللہ الشیبانی، احمدبن حنبل، مسند احمد: 3/156، 12618، مسند انس بن مالک۔مؤسسۃ قرطبہ۔ القاہرہ۔
  33. : بخاری، جامع الصحیح: 5/2153، رقم، 5362، باب: الدواء بابوال الابل۔
  34. : ابو الحسن الدارقطنی، علی بن عمر، سنن الدارقطنی: 1/232، رقم، 464، باب: نجاسة البول والامر بالتنزه منه۔مؤسسۃ الرسالۃ۔ بیروت، سطن۔
  35. : ابو الحسن المرغینانی، علی بن ابی بکر، الہدایۃ شر ح بدایۃ المبتدی: 1/21، فصل فی البئر۔مکتبہ رحمانیہ۔ لاہور۔
  36. : ابن نجیم المصری، زین الدین بن ابراہیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق: 8/210، فصل فی الاکل والشرب۔
  37. : ابوداود، سنن: 4/6، 3872، باب فی الادویۃ المکروھۃ۔
  38. : مسند احمد: 3/499،رقم، 16113، حدیث عبدالرحمن بن عثمان۔
  39. : رحمانی، سیف اللہ، مولانا، جدید فقہی مسائل: 1/224، 225، زمزم پبلشرز، نزد مقدس مسجد، اردو بازار۔ کراچی۔
  40. : ایضاً۔
  41. : ایضاً۔
  42. :کتاب مقدس، احبار: 11/24۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...