Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 1 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

اسلام اور کلی معاشیات کے منتخب نظریات کا مطالعہ: صرف، بچت، سرمایہ کاری اور حکومتی نگرانی |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029185_584

Pages

52-68

DOI

10.51411/rahat.1.2.2017.14

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/14/310

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/14

Subjects

Macroeconomics savings finance prices Islamic Teachings

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

کلی معاشیات میں کسی بھی ملک کی معیشت کامجموعی لحاظ سے تجزیہ ومطالعہ کیاجاتاہے۔ اسکےلیے انگریزی میں میکرو(Macro)کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کے معنی ”بڑے“کے ہیں۔معاشیات کے اس موضوع میں معاشی نظام پراثراندازہونے والے عوامل کاجائزہ لیاجاتاہے یعنی اس امر کا جائزہ کہ بحیثیت مجموعی صارفین اورآجرین کاانفرادی طرزعمل کس طرح ملکی معیشت پراثر اندازہوتاہے۔ لہٰذاکلی معاشیات میں پوری معیشت کی پیداوار، آمدنی، صرف،بچت،سرمایہ کاری، مجموعی طلب اوررسد،قیمتوں کی سطح،حکومتی آمدنی کا تفصیلی مطالعہ شامل ہے۔

کلی معاشیات کےموضوعات کواسلام کی تعلیم اوراصول وضوابط کےمطابق جانچااور پرکھاجاسکتاہے۔فقہاءکرام نے اپنی کتب میں شریعت مطہرہ کے اصولوں کو سامنے رکھ کر مختلف معاشی معاملات سے متعلق جائز اورنا جائزصورتوں کو مدلل انداز میں پیش کیا۔قومی آمدنی کی پیمائش کےتعین میں جن عوامل کاکردارنمایاں ہےان میں صرف،بچت،سرمایہ کاری اورسودشامل ہیں۔

صرف اور بچت Consumption and Savings:

قومی آمدنی کاتعین اس ملک کے صرفی اخراجات سے لگایاجاتاہے۔ہرملک ایک متعینہ مدت کےاندراشیاء، خدمات پیداکرتاہےان پرتمام آمدنی کواس طرح صرف کرتاہے جس میں مجموعی خرچ مجموعی آمدنی کے برابر ہوتواسے قومی آمدنی کی متوازن صورت حال کہاجاتاہے۔ صارفین اپنی اشیاء ضروریات کے حصول کے لیے ان پر رقوم خرچ کرتے ہیں اوران پرجواخراجات برداشت کئے جاتے ہیں ان کو صرف کہا جاتا ہے۔

لہذاکسی ملک میں صرفی خرچ پورے ملک کے افراداوران کے کنبوں کے اخراجات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کاانسان کی آمدنی سے گہراتعلق ہے۔ آمدنی اوراخراجات سے متعلق ماہرین کے اپنے نقطہ نظرمیں جن میں پہلانظریہ ارونگ فشر (Irving Fisher)نے 1930ء میں دیا۔اس کے مطابق انسانی زندگی دو ادوار میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس کے بعد 1936ء میں لارڈ کینز کانظریہ منظرعام پرآیاجس کےمطابق ایک ملک میں بسنے والے افراد کے اخراجات کاانحصاران کی آمدنیوں پرہوتا ہے لہٰذاآمدنی میں اضافے سے صرف اوربچت دونوں ہی بڑھ جاتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل توجہ ہےکہ معاشی ماہرفرانسو(Franco Modigliani)جس نےLife Cycle Theory نظریہ پیش کیاجس پراسے نوبل انعام ملا۔ ملٹن فریڈمین(Milton Friedman) جس نے آمدنی کاتصور پیش کیا اس کوبھی نوبل انعام ملا۔Sanjy, Rکے مطابق: ”لوگ صرف کرنے کافیصلہ زندگی میں اپنے مقام اوردستیاب وسائل کے مطابق کرتے ہیں اِس پرفریڈمین نے 1956ء میں نہ صِرف تنقید کی بلکہ اِس کے مقابلے میں ایک نیا طریقہ مستقل آمدنی کامتعارف کرایااِس کے مطابق ایک صارف عارضی آمدنی کی بجائے مستقل آمدنی کومدنظررکھ کراشیاء پراپناروپیہ صرف کرتاہے جتنی آمدنی ہوگی اتناہی خرچ ہوگا“[1]

ان نظریوں کوصَرف(Consumption)کے جدید نظریات سے جاناجاتاہے البتہ لارڈکینزکے خیال میں انسان اپنی آمدنی کاساراحصہ خرچ نہیں کرتابلکہ ایک صارف ان میں توازن رکھتاہے۔ اس کے خیال میں آمدنی کاکچھ حصہ بچت کے طورپربھی محفوظ رکھتاہے۔اس کے مطابق بچت آمدنی پرمنحصرہوتی ہے جتنی کسی کی آمدنی خرچ کے مقابلہ میں زیادہ ہوگی اتنی ہی اس کی بچت زیادہ ہوگی۔

جدیدمعاشیات کے نظریات کے مطابق آجرصارف کی طلب کے مطابق اشیاء کوفروخت کے لیے مارکیٹ میں لاتاہے۔ خریدارمتعلقہ شئے کی جومقدارخریدناچاہتے ہیں فروخت کاربھی اتنی ہی مقدارفروخت کےلیے پیش کرتےہیں۔مجموعی طورپرتمام افراداپنی آمدنیوں کواشیاء کی خریدپر صرف کرتے ہیں لہٰذاکسی ملک کے اندرایک سال میں اشیاء وخدمات کے حصول میں صارفین جو آمدنیاں خرچ کرتے ہیں اس کاتعلق انسان کی ضرورت اورطلب سے ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کی بنیادی ضروریات کوتسلیم کیاگیاہے اورانہیں حاصل کرنافرض ہے ۔اسلام انسانی زندگی کی بنیادی حاجات وضروریات کی اہمیت کوتسلیم کرتاہے اوران کی تکمیل کادرس دیتاہے۔ لیکن ساتھ ہی اخراجات میں میانہ روی اختیارکرنے کاحکم دیتاہے

اور حد سے زیادہ خرچ کوفضول خرچی اور اسراف میں شمار کرتاہے جس کی قرآن اورحدیث میں ممانعت ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَ لَا تُسرِفُوااِنَّہٗ لَا یُحِبُّ المُسرِفِینَ۔[2]

”بیہودہ صرف نہ کروبیشک خداتعالیٰ بیہودہ صرف کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا“۔

اس آیت مبارکہ کی روسے اسراف بلاشبہ ممنوع وناجائز ہے اہل لغت نے بھی اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ ”التعریفات“میں ہےکہ:

الاسراف تجاوزالحدفی النفقة[3] ”اسراف خرچ میں حدسے آگے بڑھناہے“

علماء نےتبذیراوراسراف دونوں کے معنی ناحق صرف کرناکے بتائے ہیں۔اسی حوالے سے” تاج العروس“ میں ہے کہ:

وضع الشئی فی غیرموضعہ[4] ” یعنی بے جاخرچ کرنا“

اس کی تائیدمیں ابن جریر”جامع البیان“ میں لکھتے ہیں کہ:

کنااصحاب محمدﷺنتحدث ان التبذیرالنفقة فی غیرحق[5]۔

”ہم سےاصحاب محمدﷺبیان کرتےتھےکہ تبذیرغیرحق میں خرچ کرنے کانام ہے“

مجمع بحار الانوارمیں ہےکہ:

الاسراف والتبذیرالنفقة بغیرحاجة اوفی غیرطاعة اللہ[6]۔

”اسراف وتبذیربغیرحاجت یاغیرطاعت الہی میں خرچ کرناہے“

ان عبارات سے یہ ثابت ہواکہ ضرورت سے زائدخرچ اسراف اورفضول خرچی میں شمارہوتاہے۔فقہانےانسانی حاجات وضروریات کابغورمشاہدہ کیااورلوگوں کی معاشی معاملات میں راہنمائی کی۔ اس سلسلے میں حنفی فقیہ الشیخ احمد بن الحموی مکی کا نام سرفہرست ہے۔آپ مدرس اورفقیہ تھے۔قاہرہ میں مدتوں تک مدرسہ سلیمانیہ اور رحمانیہ میں مسند درس پر متمکن رہے۔ آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمای ہیں جن میں علامہ ابن نجیم مصری کی کتاب ’’لاشباوالنظائر‘‘ کا حاشیہ معروف ہے۔ اسی کتاب میں آپ نے انسانی ضرویات و حاجات کی درجہ بندی کی ہے اور لوگوں کو اسراف سےبچایاہے۔الشیخ حموی نےاسلامی تعلیمات کومدنظررکھتے ہوئےانسانی حاجات و ضروریات کوپانچ حصوںمیں تقسیم کیاہے۔

خمسۃ مراتب ضرورۃ وحاجۃ ومنفعۃ وزینۃ وفضول فالضرورۃ بلوغۃ حدان لم یتناول الممنوع ھلک اوقارب وھذا یبیح تناول الحرامِ والحاجۃ کالجائع الذی لولم یجد مایا کلہ لم یھلک غیر انہ یکون فی جہد و مشقۃ وھذا الا یبیح الرام یبیح الفطر فی الصوم والمنفعۃ کالذی یشتھی خبز البرولحم الغنم والطعام الدسم،والزینۃ کالمشتھی الحلوی والسکر، والفضول التوسع باکل الحرام والشبھۃ۔[7]

(1)ضرورت (2)حاجت (3)منفعت (4)زینت (5)فضول

یعنی ’’ضرورت اس حدکوپہنچ جائے کہ اگرممنوع شئے نہ کھائے توہلاک ہوجائے یاہلاکت کےقریب پہنچ جا ئےکہ انسانی زندگی خطرے میں پڑجائے توامام کے نزدیک حرام اورممنوع اشیاء کو کھاناجائزہوجاتاہے۔حاجات میں وہ ضروریات زندگی شامل ہیں جن کے بغیرانسانی زندگی کا گزارہ توممکن ہولیکن دقت اوردشواری سےجیسے اتنابھوکاہوکہ اگرکھانے کی چیزنہ پائے توہلاک تونہ ہو مگرتکلیف اورمشقت میں پڑجائے۔منفعت جیسے وہ شخص جوگہیوں کی روٹی، بکری کاگوشت اور چکنائی والے حلوے کے کھانے کی خواہش رکھتاہو اور زینت جیسے حلوے اور شکر کی خواہش رکھنے والا اور فضول یہ کہ حرام اور مشتبہ چیز کھانے کی وسعت اختیار کرنا۔‘‘

الشیخ حموی نے انسانی ضرورتوں اور خرچ کی تفصیل بیان کی۔اسی تحقیق پر ماضی قریب میں الشیخ احمد رضا نے اپنی کتاب ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘میں مزید بحث کی ہے اور ضروریات کی درجہ بندی کے ساتھ ہی شرعی احکام کی وضاحت بھی بیان کر دی ہیں:

’’ضرورت یہ ہے کہ اس کے بغیر گزارہ نہ ہو سکے جیسے مکان میں (جحریتہ خللہ) وہ سوراخ جس میں آدمی سما سکے ،کھانے میں (لقیمات یقمن صلبہ) کہ چھو ٹے چھوٹے لقمے سد رمق کریں اور اداے فرائض کی طاقت دیں ان کا پورا کرنا فرض کے درجے میں ہے ،حاجت میں وہ ضروریات شامل ہیں جن کے بغیر انسانی زندگی تکلیف سے گزرتی ہے ان کا پورا کرنا واجب و سنن موکدہ ہے ،منفعت یہ ہے کہ بغیر اس ضرر تو موجود نہیں مگر اس کا موجود ہونا اصل مقصود میں نافع اور مفید ہے ان کا پورا کرنا سنن غیر موکدہ ہے ،زینت یہ کہ مقصود سے بالائی زائد بات ہے شرعا ًان کا حکم مستحب ہے ،فضول جو کسی شے میں زیادہ ہو جائےاس کا حکم اسراف اور فضول خرچی میں آتا ہے یہ ازروے شرع حرام ہے ‘‘[8]

ان دونوں فقہا کرام کی عبارتوں سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان اپنی آمدنی مختلف اشیائے ضروریہ پر صرف کرتا ہے لیکن اس معاملے میں بھی انسان کو کلیتا اختیار نہیں کہ وہ اسراف کی حد کو پہنچ جائے۔ انسانی حاجات و ضروریات کی درجہ بندی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔

جدید معاشی نظریات میں صرف(Consumption)کے بارے میں معاشی ماہرین کی اپنی آراء ہیں جن میں انسانی آمدنی اور خرچ سے متعلق مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں خرچ کے بعد جو آمدنی بچ جاتی ہے اسے سرمایہ کاری میں لگا کر مزید منافع حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

سرمایہ کاری(Investment):

بچت کے طورپرمحفوظ کی گئی رقوم کوسرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاتاہے جواقتصادی

لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ دوسرے لفظوںمیں بچتوں کاسرمایہ کاری سے گہراتعلق ہے۔ کینزکی مساوات:بچت=سرمایہ کاری

اس کے مطابق بچتیں زیادہ ہوں گی توسرمایہ کاری بڑھےگی جس کاملکی معیشت پربراہ راست اثر پڑتاہے۔لوگ بچت کے طورپرمحفوظ کی گئی رقوم کوسرمایہ کاری میں اس لیے لگاتے ہیں کہ و ہ مزیدمنافع حاصل کریں بسا اوقات منافع کی رقوم کوکاروبارکووسعت دینے کی خاطرخرچ کیاجاتاہے جس سے کاروباری سرگرمیوںمیں ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔[9]

اسلام مشترکہ طورپرسرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ افزائی کرتاہے جس میں سے متعدد صورتیں دورنبویﷺمیں بھی رائج تھیں جن میں شراکت ومضاربت سر فہرست ہیں۔ان کا مقصدہی نوع انسانی کے لیے آسانی اورسہولت پیداکرناتھا۔

مضاربہ میں سرمایہ ایک فریق(رب المال)کا ہوتاہے اوردوسرافریق(مضارب) اپنی محنت سے اس کے ساتھ شریک ہوتاہے۔مضاربہ کی بنیادپرکیاجانے والاکاروبارشرع مطہرہ کی روسے جائزہے۔ احادیث مبارکہ سے اس کاجوازثابت ہے۔ نبیﷺخودحضرت خدیجہ کامال بطور مضاربت ملک شام لے کرگئے تھے۔’’التعریفات‘‘ میں مضاربہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :

”مضاربت کامادہ ض۔ ر۔ ب ضرب بمعنی سفرکرناہے جس کے معنی زمین کے طول و عرض میں سفرکرنامرادلیاجاتاہے“[10]

’’فتاوی ٰعالمگیریہ‘‘ جو کہ فقہ حنفی کی معروف تصنیف ہے اس میں مضاربہ کے معاملات پر بحث کی گئی ہے۔ اس میں ہے :

مضاربہ ایساعقد ہے جس میں دونوں فریقین کے منافع کا تعین ہونا لازمی ہے۔ ایک نے بھی اپنے لیے منافع کی شرط لگا دی تو یہ عقد باطل ہو جائے گا۔ فتاویٰ عالمگری میں ہے:

فان قال علی ان لک من الربح مائۃ درھم اوشرط مع النصف او الثلث عشرۃ دراھم لاتصح المضاربۃ ۔[11]

ترجمہ:اگر ایک نے دوسرے کو کہا نفع میں ایک سو درہم تیرے ہوں گے یا نصف یا ثلث کے ساتھ مزید دس درہم کی شرط لگائی تو مضاربت صحیح نہ ہو گی۔

الشیخ علاء الدین حصکفی ؒ مضارب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

المضاربۃ ایداع ابتداء وتوکیل مع العمل لتصرفہ بامرہ و شکرۃ ان ربح وغصب ان خالف وان اجاز رب المال بعدہ واجارۃ فاسدۃ ان فسدت فلا ربح للمضارب جنیئذٍ بل لہ اجر مثل عملہ۔[12]

’’مضارب ابتداءمیں امین ہوتاہے عمل کے بعد وکیل بن جاتاہے مضارب ربُّ المال کےحکم سےاس مال میں تصرف کرتاہے۔مضاربت میں بعض دفعہ رب المال کیجانب سے لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔مضارب کو مال سے متعلق اختیارہوتاہے جس شہرمیں بغرض تجارت جاناچاہے جاسکتاہے۔اس کے علاوہ وہ مضاربہ کے مال میں اپنا یا کسی کامال شامل کرکے دونوں مالوں سے تجارت کرسکتاہے لیکن یہ تمام اختیارات اس وقت حاصل ہوں گے جب مالک کی جانب سے کوئی پابندی عائدنہیں کی جائے گی ورنہ جس بات کی وضاحت مالک نے کی مضارب پراُس حکم کی پیروی کرنالازمی ہوگا۔اس کے علاوہ مضاربت کی غرض سے کیے جانے والے سفرکے تمام اخراجات مالک کے ذمے ہوتے ہیں‘‘

شرکت اجتماعی سرمایہ کاری کاپراناطریقہ ہے۔اس کےتحت دویادوسے زائدافرادعموماً اس اندازسے کاروباری سرگرمیوںمیں شریک ہوتے ہیں کہ نفع ونقصان میں برابری کی بنیادپر حصہ دارہوں گے۔لفظ شرکہ کامادہ ش۔ر۔ک ہے جواپنی مختلف صورتوں کے ساتھ مختلف ملے جلتے معنی میں استعمال ہوتاہے جیساکہ شریک بنانایاکسی کواپنے کام میں شریک کرنا۔قرآن مجیدمیں متعددمقامات پراس کاتذکرہ ملتاہے:

وَ اِن تُخَالِطُوہُم فَاِخوَانُکُم [13]

’’اوراس (نفقہ) کاکاروبارمیں اپنے ساتھ ملالوتووہ تمہارے بھی بھائی ہیں‘‘

اسی طرح ایک اورمقام پرارشادباری تعالیٰ ہے:

ضَرَبَ اللّٰہ ُمَثَلًا رَّجُلًا فِیہ ِشُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُونَ وَ رَجُلًا سَلَمًالِّرَجُلٍ ہَل یَستَوِیٰنِ مَثَلًا اَلحَمدُ لِلّٰہِ بَل اَکثَرُہُم لَا یَعلَمُونَ۔[14]

’’اللہ ایک مثال بیان فرماتاہے ایک غلام میں کئی بدخوآقاشریک اورایک نرے ایک مولی کا،کیاان دونوںکاحال ایک ساہے سب خوبیاں اللہ کوبلکہ ان میں سے اکثرنہیں جانتے‘‘

اسی طرح متعدداحادیث مبارکہ میں بھی اس کی وضاحت بیان کی گئی ہے:

عن أبی ھریرۃ قال ان اللہ یقول أناثالث الشریکین مالم یخن أحدھما

صاحبہ فاذا خانہ خرجت من بینھما۔[15]

”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے کہ میں دوشریکوں میں شریک ہوں جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے خیانت نہ کرے لیکن اگر وہ خیانت کرے گاتووہ ہاتھ ان سے اُٹھ جائے گا“

’’العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ میں ہے:

”شرکت ایساعقدہے جس کامقتضی دونوں شریکوں کااصل ونفع دونوں میں اشتراک ہے ایک شریک کے لیے معین تعداد زرمقررکرنا قاطع شرکت ہے کہ ممکن کہ اس میں اسی قدر نفع ہوتوکلی نفع کایہی مالک ہوگیادوسر ے شریک کوکچھ نہ ملاتونفع میں شرکت نہ ہوئی“[16]

عقدشرکت میں جتنے لوگ باہمی مشترکہ مال سے سرمایہ کاری کریں جتنے شرکاء ہوں گےسب کانفع میں حصہ ہوگا۔ کسی ایک شخص کااپنے لیے منافع کی مقدارمتعین کرلینایاتمام نفع خودوصول کرناشرکت میں جائز نہیں۔

اس ساری بحث سے یہ تفصیل معلوم ہوتی ہے کہ شرکت کامعاہدہ جن فریقین کے مابین ہومشترکہ سرمائے سے کی جانے والی تجارت سے جوبھی منافع وصول ہوتنہاکوئی ایک یادوحصے دارمنافع کے حقدارنہ ہوں گے اورنہ ہی کوئی منافع متعین کرسکتے ہیں یہ اصول عقد شرکت کے خلاف ہے بلکہ اس معاہدے کی اصل روح ہی یہ ہے کاروبارمیں نقصان ہوجائے تو سب مل کر برادشت کریں گے جتنامنافع ہوسب اس میں حصے دارہوں گے۔

درج بالا تفصیل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جدید معاشی نظریات سے بہت قبل اسلام نے سرمایہ کاری کے ایسےطریقے متعارف کرا دیئے جس میں لوگ اجتماعی طور پر سرمایہ کاری کر کے کاروباری سرگرمیوں میں شریک اور جائز منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کےعلاوہ فقہا کرام نے ایسے بہت سے عقودمتعارف کرائے جوموجودہ دور میں جدید اسلامی بنکاری کے تحت تمویل کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور ان بنکوں میں لوگ اپنی بچتو ں کو کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کرتے ہیں۔

سوداور اسلامی بنکاری :

جدیدمعاشی نظام میں سودکوبنیادی اہمیت حاصل ہے۔افراداپنی کی گئی بچتوں کو بنکوں میں جمع کرواتے ہیں اوراس پرمتعین شرع کےحساب سے سودوصول کرتے ہیں۔کاروبارکی غرض سے سودپرقرضے حاصل کئے جاتے ہیں۔سودکے نظریات پرماہرین معاشیات کامتفق ہیں ان کی اپنی الگ الگ آراء ہیں۔اس حوالے سے تین طرح کے مکتب فکرسامنے آئے۔کلاسیکل،نوکلاسیکل اورتیسرانظریہ لارڈکینزکاپیش کردہ ہے۔کلاسیکل مکتب فکرکے نزدیک شرح سود بچت کامعاوضہ ہے۔بچتیں سرمائے کی شکل اختیارکرتی ہیں جن سے اشیائےصرف تیارہوتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتاہے کہ شرح سود کے تعین میں دوبڑی قوتیں سرمائے کی طلب ورسداہم کرداراداکرتیں ہیں یعنی بچتیں سرمائے کی رسدکاذریعہ ہیں۔

نوکلاسیکل مکتب فکرکے خیال میں سودوہ قیمت ہے جومختلف مقاصد کی تکمیل کے لیے قرضوں پروصول کی جاتیں ہیں۔رقوم برائے قرضہ کی رسد اورطلب شرح سودکاتعین کرتے ہیں اس میں قرضے پردی جانے والی رقم بنکوں کے ادھار، انفرادی،کاروباری بچتوں،سرمایہ کاری اورذخیرہ اندوزی پرمشتمل ہوتی ہے۔بنک جن افرادکوقرضہ کی رقم فراہم کرتا ہے اُس پرمتعین شرح کے حساب سے سود وصول کرتاہے جوایک مخصوص مدت کے بعد قرض خواہ کواداکرنی ہوتی ہے۔ انفرادی بچتوںمیں ہرشخص اپنے اخراجات کم کرکے بچت کے طورپررقم جمع کرتاہے۔ دوسری طرف کاروباری لوگ اپنے منافع کی رقوم بچت کے طورپرمحفوظ رکھتے ہیں۔یہ رقوم جتنی

زیادہ ہونے لگیں رقوم برائے قرضہ کی رسدمیں اضافہ ہوتاہے۔

تیسرانظریہ لارڈکینزکاپیش کردہ ہے۔ اس کے خیال میں لوگ اپنی بچائی ہوئی رقوم میں سے کچھ حصہ اپنے پاس زر نقد کی صورت میں محفوظ رکھتے ہیں اورکچھ رقوم اپنے طورپربطورقرضہ فراہم کرتے ہیں۔اگر وہ زرنقدکی طلب زیادہ کریں تو قرض پردینے والی رقوم کم بچتی ہیں اس لیے شرح سودمیں اضافہ ہوتاہے۔[17]

اسلام میں سودی کاروبارکی قطعاًگنجائش نہیں جس کاثبوت ہمیں شرع مطہرہ سے ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سودی کاروبار،سودی قرض،سودی منافع کی جتنی بھی صورتیں سامنے آئیں علماء کرام نے ان کے عدم جوازپراپنی تحریروںمیں جامع و واضح اندازسے دلائل پیش کیے۔مختلف علماءو فقہاء کرام نے اس کی تعریف اپنے اندازسے کی ہے۔ علامہ برہان الدین المرغینانی اپنی کتاب ”الھدایہ “میں بیان کرتے ہیں کہ۔

”سودکوعربی میں ربوا کہتے ہیں جس کامادہ ”رب و “ہے اس کے معنی زیادت،نمو،بڑھوتی نشوونماوغیرہ کے ہیں“[18]

ربوا وہ معاہدہ ہے جوقرض پرزیادتی کوظاہر کرتاہے جس میںویسی زیادتی فریقین معاہدہ میں سے کسی ایک پر لازمی شرط کے طورپرکسی معاوضہ کے بغیرعائد کی جائے۔سود محض سادہ زیادتی کانام نہیں ہے۔یہ ایک خاص قسم کااضافہ ہے لہذاربواوہ معاوضہ ہے جو ادائیگی کی مدت کے عوض اداکیاجاتاہے۔سود قطعی حرام ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لَا تَاکُلُوا الرِّبوا اَضعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۔[19]

” اےایمان والو! دوگناچوگناکرکےسودمت کھایاکرواوراللہ سے ڈراکروتاکہ تم فلاح پاجاؤ

لہٰذا اسلام میں سود کی حرمت کی بناء پر علماء بنکاری سے غیر مطمن رہے اور سودی بنکاری کے عدم جواز کے قائل رہے۔ انہوں نے سود کو ناقابل قبول قرار دینے کے ساتھ ہی بنکاری کی اہمیت کو سمجھا اور سود کے بغیر بنکاری کی راہ ہموار کی ۔

1970ء کی دہائی میں اسلامی بنکاری کے باقاعدہ قیام کے بعد سے اسلامی بنکاری نے مرحلہ وار ترقی کی ہے۔ موجودہ وقت میں اسلامی بنکاری اور مالیات کے اثاثوں کا حجم قریب دو کھرب ڈالر ہے۔ یہ اگرچہ عالمی بنکاری و مالیات جو200 کھرب ڈالر کے اثاثوں پر مشتمل ہے کاصرف ایک فیصد ہے تاہم اسلامی بنکاری کے رحجان اور ترقی کی رفتار تیز ہے۔

جدید اسلامی بنکاری میں بیع کی ایک سے زائد اقسام کو فنانشل پروڈکٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جن میں لین دین کے نقد و ادھار دونوں طرح کے معاملات طے کیےجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں بیع موجل ،استصناع،مرابحہ اور اجارہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ بینک رقوم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا واحد ذریعہ ہیں ۔

جدید بنکاری کا ایک اہم کام رقوم کی منتقلی ہے۔ چند دہائیوں قبل رقوم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا واحد ذریعہ ڈاک خانہ تھا۔ وقت بدلنے کے ساتھ اور سائنسی ترقی کی بدولت اس میں بھی کئی طریقے متعارف ہو چکے ہیں جن میں آن لائن بنکنگ اور بینک ڈرافٹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔

معیشت کی حکومتی نگرانی :

معیشت کو منظم ترقی دینے کیلئے حکومت مارکیٹوں اور فروختکاروں کی نگرانی کرتی ہے تاکہ خریداروں کی حق تلفی نہ ہو اور مارکیٹیں بہتر انداز میں ترقی کریں۔اس مقصد کیلئے حکومت متعدد طریقہ کاراختیار کرتی ہے۔ان طریقہ کاروں میں سے پرائس کنٹرول، ذخیرہ اندوزی پر کنٹرول اور ملاوٹ سےمتعلق اسلامی تعلیمات کو پیش کیا جارہا ہےتاکہ حکومت کے متوقع کردار کی نشاندہی ہو سکے۔

پرائس کنٹرول:

کئی ممالک میں حکومت کی جانب سے اشیاء کی قیمتیں مقررہوتی ہیں۔ پرائس کنٹرول کے حوالے سے معاشی ماہرین نے اعتراضات بھی کیے اس کے باوجودیہ پالیسی کامیابی کے ساتھ مختلف ممالک لاگوکرتے ہیں:

”قیمتوں پرحدودحکومتوں کی طرف سے شئے کی منڈی میں قیمت پرپابندی کوکہتے ہیں اِس حدکامقصداشیائے ضرورت وخوردونوش کی قیمتوں کوقابل خریدسطح پررکھناہوتاہے۔ قیمتوں پرحدودکے قائم کرنے کے دوطریقے ہیں، ایک زیادہ سے زیادہ قیمت کاتقرراور دوسراکم ازکم قیمت جس پرکوئی شئے فروخت کی جاسکے“[20]

اشیاء کی قیمتیں آجراورخریدار متعین کرتے ہیں۔بعض اوقات حکومت وقت کی جانب سے اشیاء کے نرخ مقررہوتے ہیں انہی قیمتوں پراشیاء کوفروخت کیاجاتاہے۔اشیاء کی طلب اور رسد دیکھ کرحکومت مداخلت کرتی ہے۔ الشیخ حصکفی کی کتاب ’’در مختار‘‘ میں ہےکہ:

اذا سعر وخاف البائع ضرب الامام لو نقص لا یحل للمشتری۔[21]

” اگرحاکم نرخ مقرر کر دے اور فروخت کرنے والے کو حاکم کا ڈر ہو اور وہ نرخ میں کمی کر دے تو ایسی صورت میں خریدار کے لیے (کم قیمت پر مال خریدنا) حلال نہیں“

اس عبارت سے ثابت ہواکہ علما ء اشیاء کی فروخت اورنرخ کے معاملے میں حکومتی مداخلت کوبے جااور غیرضروری سمجھتے ہیں۔ان کی آراء میں ہرفروخت کاراپنی شئے کامالک ہے وہ جس قیمت پرچاہے اُسے فروخت کرے۔ حاکمِ وقت اس کومتعین نرخ پرفروخت کے لیے مجبور کرے اورفروخت کارشے اپنی خوشی اوررضامندی سے نہیں بیچےتو قرآنی حکم کے مطابق کسی مسلمان کے لیے اس کی چیزبغیراس کی خوشی اوررضامندی کے لے لیناحلال نہیں ہوگا۔

ذخیرہ اندوزی:

ذخیرہ اندوزی ایک قبیح فعل ہے۔خاص کراشیائے خوردونوش کی ایسی ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے جس سے عوام پریشانی اورتنگی میں مبتلا ہو۔ان حالات میں اس فعل کی مذمت کی گئی ہے۔فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

الاحتکار مکروہ وذالک ان یشتری طعامافی مصر و یمتنع من بیعہ و ذالک یضر بالناس۔[22]

”غلہ کواس نظرسےروکناکہ گرانی کےوقت بیچیں گےبشرطیکہ اس جگہ یااس کے قریب سے خریدااوراس کانہ بیچنا لوگوں کومضرہومکروہ وممنوع ہے، اورغلہ دور سے خریدکرلائے اور بانتظارگرانی نہ بیچے یانہ بیچنااس کاخلق کومضرنہ ہوتوکچھ مضائقہ نہیں“

اس عبارت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روزمرہ کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت محض اس مقصدکےلیے روکناکہ بازاروں میں مصنوعی قلت پیداکی جائے اوراسے من مانی قیمتوں پر فروخت کیاجائے مکروہ ہے۔علامہ شامی اپنی مایہ ناز تصنیف ’’رد المحتار علیٰ درِّ مختار‘‘ میں فرماتے ہیں:

اثم بانتظار الفلاء والقحط لنیۃ السوئ للمسلمین۔[23]

”مہنگائی اورقحط سالی کے انتظارمیں غلہ کوروک رکھنے سے گناہ گارہواکیونکہ اس میں مسلمانوں کے لیے بدخواہی ہے“۔

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ آجرکے کسی عمل سے عوام کوپریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔ اشیاء کی قلت میں ان کومہنگے داموں زیادہ نفع کی غرض سے فروخت کیاجاتاہے جبکہ دوسری جانب خریداراسےمرضی اوررضامندی سےنہیں بلکہ ضرورت کی وجہ سے مجبوری میں خریدتے ہیں چونکہ گندم،غذائی اشیاء وہ ہیں جوانسانی حیات کے لیے لازم ہیں لہٰذاان کی فروخت کوترک بھی نہیں کیاجاسکتالہٰذاان کوزیادہ منافع کی غرض سے ذخیرہ کرناممنوع ہے۔

ملاوٹ:

خریدوفروخت کے معاملات میں خالص اورناقص اشیاء دونوں کوملاکرفروخت کیاجاتا ہے۔بعض دفعہ بیچنے والےفروخت کےوقت اعلی کوالٹی کامال دیکھاکرخریدارکومطمئن کردیتے ہیں اوراسے اس سودے کی خریدپرراضی کرلیتےپھر بعد میں خراب اورناقص اشیاء کی ملاوٹ کردیتے ہیں جس سے خریدارلاعلم رہتاہے۔الشیخ حصکفی ’’درِّ مختار‘‘ میں لکھتے ہیں:

لا باس مبیع المغشوش اذابین غشہ اوکان ظاھرایری۔[24]

”اول توخریدارکوعلم ہواورملاوٹ ظاہرہوخریداردیکھ کراس کولینے پرراضی ہواتویہ اس

کااپنا فعل ہے لیکن جب خریدارسے چھپایاتومت بیچے “

یعنی ملاوٹ والی چیزکوفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں جب اس کی ملاوٹ کو بیان کردے یاملاوٹ ایسی ظاہر ہو کہ دکھائی دیتی ہو۔یعنی بیچنے والے پرلازم ہے کہ ملاوٹ والی اشیاء کو فروخت کرنے سے پہلے خریدارکواس سے متعلق بتادے،مگر اس قسم کی صورت حال عہد حاضر میں دیکھنے کونہیں ملتی بلکہ دکاندار کواپنی شئے فروخت کرنے اورمنافع حاصل کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں اشیاء کی فروخت اسی انداز سے ہورہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات کوشرع مطہرہ کے مطابق قائم کیاجائے۔

خلاصہ یہ کہ درج بالا مباحث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فقہائے کرام نے کلی معاشیات جیسے مخصوص موضوع سے متعلق بھی اسلامی تعلیمات کو واضح انداز میں اپنی کتب میں پیش کیا ہے اور خصوصاً صرف، بچت، سرمایہ کاری اور پرائس کنٹرول، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ سے متعلق حکومتی نگرانی کے کردار کو صراحت سے بیان کیا ہے۔ ان کے یہ مباحث جدید کلی معاشیات کے بنیادی موضوعات سے متوازی ہیں نیز مسلمانوں کو کلی معاشیات کے نظریات کا اطلاق کرتے ہوئے دعوتِ فکر دیتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. Sanjay, R, Advanced Macroeconomics, Ventus Publishing APS,2012, P-48
  2. الانعام: 141
  3. الجرجانی، سید شریف بن علی بن محمد، التعریفات، القاہرہ،دارالکتب العربی، 2003ء،ص5
  4. 4الزبیدی، سید محمد مرتضیٰ، تاج العروس، بیروت: دارالدحیاء التراث العربی، 1205ھ،ص1138
  5. طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القران، بیروت: دارالاحیاء التراث العربی، س ن، ج15،ص86
  6. الفتنی، محمد طاہر، مجمع بہار الانوار، السعودیہ، مکتبہ دارالایمان، س ن،ج3،ص66
  7. الحموی، احمد بن محمد کلی، غمز العیون البصائر، کراچی: ادارۃ القرآن، س ن، ج1،ص119
  8. احمدرضا خان،الشیخ،العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ رضویہ،لاہور،رضا فاؤنڈیشن، 2006ء، ج1،ص843
  9. Hamouda, F.2009, Money Investment and consumption, Edward Elgar, Publishing, USA, P-59
  10. الجرجانی، سید شریف، التعریفات، ص173
  11. شیخ نظام وجماعۃ علماء ہند،فتاویٰ عالمگیریہ (ہندیہ)، پشاور، نورانی کتب خانہ، س ن، ج4،ص287
  12. الحصکفی ، الشیخ علاؤ الدین، در مختارعلیٰ تنویر الابصار، دہلی،مطبع مجتبائی، س ن، ج2،ص146
  13. البقرۃ220:2
  14. الزمر: 29
  15. سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب الشرکۃ، رقم الحدیث: 3383
  16. احمد رضا خاں، فتاویٰ، لاہور،رضا فاؤنڈیشن، 1999ء،ج17،ص371
  17. Zhang, Z, Finance Fundamental Problems Solution, 2013, P-18
  18. المرغینانی، برہان الدین، الھدایۃ، ص304
  19. اٰل عمران130:3
  20. www//:exonlib.org
  21. الحصکفی، درمختار، دہلی، مطبع مجتبائی، 1932ء،ج2،ص248
  22. شیخ نظام وجماعۃ علماء ہند،فتاویٰ عالمگیریہ ، ج3،ص313
  23. شامی، الشیخ ابن عابد بن، ردالمحتارعلیٰ درِ مختار، بیروت، دارالاحیا التراث العربی، ج5،ص256
  24. حصکفی، درمختار، ج2،ص52
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...