Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

اقتصادی بحران اور ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کیلئے سیدنا عمر کے اقدامات کا تحقیقی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

اللہ رب العزت کی ذات عظیم الشان ہے۔ وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ کسی کا محتاج نہیں اور ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ اسے مخلوقات کی تسبیحات کی کوئی حاجت نہیں ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا مرہون منت ہے اور جن و انس اس کی رضا کے حصول کیلئے اس کی حمدوثنا کرنے کے محتاج ہیں۔ البتہ اللہ رب العزت نے اپنی صفات جمال و جلال کے ظہور کیلئے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے اس میں بسانے کیلئےجن و انس پیدا کیے ۔ارشاد باری ہے:

 

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ لْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ [1]

 

ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔

 

اس کیلئے رب العزت نے اصول و قوانین عطا فرمائے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے رب کی رضا حاصل کرسکتا ہے اور

 

اس کے دربار میں سرخرو ہو سکتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ اور ناٰئب بنایا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

 

اِنِّی جَاعِل فِی الْاَ ضِ خَلَیْفۃ[2]۔ضرور میں بنا ؤں گا زمین میں ایک نائب ۔

 

علامہ آلوسی مذ کورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 

ومعنی کونہ (خلفۃ) انہ خلیفۃ اللہ فی ارضہ وکذا کل نبی استخلفھم فی عمارۃ الارض وسیاسۃ الناس وتکمیل نفوسھم و تنفیذ امرہ فیھم لالحاجۃ بہ تعالیٰ ۔[3]

 

ترجمہ:خلیفہ کا معانی یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ تعالی کا خلیفہ و نائب ہوتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالی نے ہر نبی کو زمین کی آبادی ، انسانوں کی سیا ست (نظم و نسق) کرنے ان کی نفوس کی تکمیل کرنےاور ان کے اندر اللہ تعالی کے حکم کو نافذ کرنے کے لیے اپنا نائب بنایا ہے ، نہ یہ کہ اللہ اس کا محتاج ہے۔

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا فرمایا ہے وہ ان اصول و قوانین پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کیلئےامربا لمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں لیکن چونکہ اللہ تعالی نے انسان کو فطرتاً ظلوما و جہول پیدا کیا ہے اس لیے وہ اس فانی دنیا اور مظاہر زندگی سے متاثر ہو کر اپنے مقصد زندگی کو بھلا دیتا ہے اور اخروی ابدی حیات سے غافل ہو جاتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے اس کی یاددہانی اور انزار و تبشیر کیلئےانبیاء و رسول کو مبعوث فرمایا۔رسول اکرمﷺ کی بعثت کے وقت وحی پر مبنی نظام حیات مٹا دیا گیا تھااور انسان کے بنائے ہوئے غیر فطری نظام مروج تھے ۔ اس لیے خاتم الانبیاءکو پوری انسانیت کی ہدایت و رہنمائی اور قیامت تک آنے والے جن و انس کیلئےایک کامل و مکمل نظام حیات عطا فرما کر مبعوث کیا۔ متمدن دنیاپر توحیدپر مبنی نظام کے بجائے آتش پرستی کے عقیدےپر مبنی فارس اور عقیدہ تثلیت پر مبنی روم کے ظالمانہ نظاموں کی حکومت تھی اور آسما نی تعلیمات فراموش کی جا چکی تھیں رب واحد کی جگہ پتھر کے بنے ہوئے بے جان بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ یعنی ارکان دعوت کو تعلیم و تربیت کے مرحلہ سے گذارنے کے بعد انصار کی دعوت پر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی مدینہ میں آپ نے قرآنی تعلیمات و احکامات کو عملی جامہ پہنایا پھر دعوت و جہاد کو و سعت دیتے ہوئے جزیرہ عرب کے مرکز کو فتح کر لیا اس طرح اِنَّا فَتَحْنَا لک فَتْحا مُّبِیْنا[4]کی عملی تصویر سامنے آئی

 

اسلامی نظامِ خلافت کی برکات:

رسول ﷺکے بعد حضرت ابو بکر ؓ کو آپ کا جا نشین مقرر کیا گیا حضرت ابو بکر ؓ کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے۔ آپ کا دور خلافت ہر لحاظ سے تاریخی اور مثالی ہے ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اپنے دور خلافت میں آپ کی صلاحیتوں کو اچھی طرح جانچ لیا تھا۔ کیونکہ آپ کے زمانے میں حضرت عمر ؓ مشیر خاص تھے یہی وجہ تھی کی جب حضرت عمر ؓ کو حضرت ابوبکر صدیق کی طرف اپنے لئے نامزدگی کا اعلان ہوا اور انہوں نے معزرت کرنا چاہی اور عرض کیا کہ مجھے خلافت کی حاجت نہیں تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا:اگر تمہیں اس (خلافت ) کی ضرورت نہیں ہے تو اس (خلافت) کو تمہاری ضرورت ہے [5]آپﷺنے آئندہ فتوحات اسلام کے غلبہ اور امن و امان کے قیام کی پیشن گوئی فرمائی تھی۔ صادق و مصدوق کی پیشن گوئی حضرات خلفاء خصوصاً دور فاروقی میں پوری ہوئی۔ چونکہ آپﷺکی بعثت کے مقاصد میں سے اس وقت کی دوبڑی طاقتوں روم و فارس کو فتح کرنا بھی شامل تھا جیسا کہ امام ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’یعنی پس این ہمہ نعم الہٰی است ووجود این امور معجزت آنحضرتﷺ و بعثت منضمن است فتح فارس‘‘[6]۔یعنی یہ سب (روم و فارس کی فتوحات) اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور ان امور کا وجود آنحضرتﷺ کا معجزہ ہے اور انحضرتﷺ کی بعثت فارس کی فتح کو متضمن ہے۔

 

حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں فارس،عراق، جزیرہ خراسان، بلوچستان، شام، مصر وغیرہ کے علاقے فتح ہوئے اور دنیا کی دوبڑی طاقتوں روم وفارس پر اسلامی پرچم لہرا دیا گیا ۔حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں جس طرح ملکی نظم و نسق کو مدبرانہ انداز سے چلایا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، جدید مغربی دنیا کے متعصب مستشرقین بھی ان کی انتظامی صلاحیتوں اور ان کے کارناموں کے اعتراف پر مجبور ہیں ۔ دنیا کے سارے نظام بظاہر یہ کوشش کرتے ہیں کہ حکومت اور عوام کو قریب لایا جائے اور حاکم و محکوم کی تمیزیں ختم کی جائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام ہو یا غیر جمہوری یہ تمیزیں آج تک نہیں ختم ہو سکیں انسانی تاریخ میں صرف خلافت کا زمانہ ہے جس میں یہ تمیزیں ختم کر دی گئیں اور خلیفہ ہر اعتبار سے عوام کا نمائندہ تھا ۔ آج صدیاں گذر جانے کے باوجود انسانی تاریخ زمانہ خلافت (عمر فاروق ؓ ) کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

 

دور فاروقی میں خوشحالی وفارغ البالی :

 

مدینہ اور جزیرہ نما عرب کے مختلف گوشوں میں مسلمان فتح نصرت کی خبروں سے مسرت اندوز ہو رہے تھے جو عراق و شام میں ان کی فوجوں سے پیمان وفا باندہ چکی تھی ۔ مال غنیمت کا خمس بارگاہ خلافت میں پہنچتا اور خلیفہ المسلیمن اسے مسلمانوں میں تقسیم فرما دیتے جس سے ان کی زندگی میں آسودگی اور ان کی بد ویانہ تنگی و خشکی میں تمدنی فراخی و تازگی سرسرانے لگی، وظیفوں اور روزینوں کے اس سلسلے نے ان میں اتنی سکت پیدا کر دی کہ وہ یمن اور شام کی تجارتی اشیاء میں سے من بھائی چیزیں خرید سکیں اور جہازوں کے ذریعے مصر سے آنے والی نعمتوں کا زخیرہ فراہم کر سکیں۔ جو اس سے پہلے انہیں کبھی نصیب نہ ہوئی تھیں ۔ اس فراخ دستی و فارغ البالی نے انہیں زندگی سے زیادہ قریب کر دیا ۔ شوق جہادان کے دلوں میں تیز ہو گیا اور وہ اس دین قیم سے چمٹ گئے جس نے دنیا اور آخرت کی نعمتیں ان پر عام کر دیں۔[7]

 

اقتصادی بحران (قحط سالی) اور اس کے اسباب :

 

سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی مدت خلافت میں عوام عیش و فراغت کی یہی زندگی بسر کر رہے تھے کہ اچانک اسلامی سلطنت ابتلا و آزمائش سے دوچار ہوئی اور اس میں کوئی تعجب نہیں کیونکہ ابتلاء و آزمائش کے دور سے تمام اقوام ، ممالک ، جماعتوں ، اور افراد کو ہمیشہ گذرنا پڑتا ہے ، یہ ایک قدیم سنت رہی ہے۔ امت مسلمہ بھی دیگر اقوام کی طرح ایک امت ہے ۔ اس میں بھی اللہ کی سنت عادلہ قائم وجاری ہوئی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

 

بہر حال دور فاروقی کی سب سے عظیم آزمائش ’’عام الرمادہ ‘‘ (یعنی) اقتصادی بحران یا قحط سالی کی شکل میں منظر عام پر آئی ہم اس مقام پر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان بحرانی و ہنگامی حالات (Emergency) میں عمر ؓ کا کیا تعامل رہا۔ اور کس طرح آپ نے جائز اسباب و سائل اور تدابیر کو اختیار کرکے اور اللہ تعالیٰ سے دعا وگریہ وزاری کر کے ان آزمائشوں سے سرخرو ہوئے؟ چنانچہ 18 ہجری میں جزیرہ عرب میں سخت قحط پڑا، لوگ خوراک کے لئے ترس گئے ۔ بھوک کی شدت اورخوراک کے فقدان کایہ عالم تھا کہ درندے بھاگ بھاگ کر انسانوں کے پاس پناہ لیتے تھے ۔ آدمی بکری ذبح کرتا تھا لیکن کھانہ پاتا کیونکہ وہ اس قابل نہ ہوتی۔ خشک سالی کی وجہ سے بہت سے مویشی بھوک کی تاب نہ لاسکے اور مرگئے ۔ اس سال کا نام ’’عام الرمادہ ‘‘ رکھا گیا ۔ اس لئے کہ ہوا مٹی دھول کو راکھ کی طرح خوب اڑاتی تھی ، سخت قحط پڑا ، ایک لقمہ کھانا بھی ملنا مشکل ہو گیا تھا ۔ دور دراز کے لوگ دیہی علاقوں سے بھاگ بھاگ کر شہروں میں جاتے یا ان کے قریب قیام کرتے اور اس عظیم مصیبت سے نجات پانے کیلئےامیر المومنین کی طرف سے کسی حل اور پیش قدمی کے منتظر تھے جبکہ حضرت عمر ؓ اس مصیبت کو سب سے زیادہ محسوس کرنے والے اس کے خطرناک نتائج سے سب سے زیادہ آ گاہ تھے ۔[8]

 

بہر حال حضرت عمر ؓ نے اس اقتصادی بحران اور ہنگامی حالت وکیفیت سے نمٹنے میں جو حکم عملی اختیار کی ہم اس کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔

 

دار الخلافہ مدینہ میں پناہ گزینوں کا کیمپ :

’’عام الرمادہ ‘‘(قحط سالی) میں اہل عرب چار جانب سے مدینہ پہنچنے لگے ، اور حضرت عمر ؓ نے اپنے امرأ کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ وفود کی ضروریات و مفادات کو پیش نظر رکھیں ، میں نے ایک رات آپ کو فرماتے ہوئے سنا ’’شام کا کھانا ہمارے پاس کتنے لوگ کھاتے ہیں ، ان کو شمار کرو‘‘اگلی رات شمار کیا گیا تو کھانے والوں کی تعداد سات ہزار تھی ، اور جب بیمار مردوں نیز عورتوں و بچوں کو بھی شمار کیا گیا تو ان کی تعداد چالیس ہزار تھی پھر تھوڑے ہی دنوں بعد یہ تعداد بڑھ کر ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔

 

اس مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ عمر فاروق ؓ اپنے امرا کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں اور پناہ گزینوں کا کیمپ تیار کرے ہیں، اور انتظامی عملہ پوری تندہی سے اپنی ذمہ داریوں کو بلا کم وبیش نبھاتا ہے ، دوسرے کی ذمہ داری و عمل میں دخل اندازی بلکل ہی نہیں کرگا مدینہ کے قرب وجوار آپ نے اپنے افسران کو یہ ذمہ داری دے کر بھیجا کہ جو لوگ دور دور سے خشک سالی اور شدت بھوک سے متاثر ہو کر حکومتی تعاون اور عطیات لینے آئے ہیں ان کے حالات کا جائزہ لیں ، چانچہ وہ لوگ ان میں کھانا اور سالن وغیرہ تقسیم کرتے اور جب شام ہوئی تو سید نا عمر ؓ کے پاس سب لوگ اکھٹے ہوتے اور ان کے حالات سے واقف کراتے ، اور آپ ان کی دوسرے دن کی رہنمائی کرتے ۔[9]

 

انتظامات اور فاروقی کردار :

اس عظیم اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لئے سیدنا عمر ؓ نے کیا طریقہ اختیار کیا، کیسے انتظام کیا اور کونسے اقدامات اٹھائے ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بعض اقدامات تو خالصۃ انتظامی نوعیت کے تھے اور بعض امیر المومنین کے ذاتی کردار سے متعلق تھے لیکن جو چیزان میں مشترک ہے وہ ہے امیر المؤمنین کی حیرت انگریز اور عدیم لمثال انتظامی صلاحیت ، اپنی رعیت کے ساتھ پر خلوص محبت اور خیر خواہی تو آئیے ان کے اقدامات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

 

آٹا گھر ایک مالی ادارے کا قیام :

سیدنا عمر ؓ بدویوں ، اور دیہات کے باشندوں کو آٹا گھر سے خوراک تقسیم کرتے آٹا گھر ایک مالی ادارہ تھا جس کے سامان کو دور فاروقی میں ایام قحط میں وفود مدینہ میں تقسیم کیا جاتا تھا ، اس میں آٹا ، ستو، کجھور اور کشمس وغیرہ کھانے کی چیزیں تھیں ، مصر شام اور عراق سے پہنچنے سے پہلے یہ چیزیں ان میں تقسیم ہوتی تھیں، یہ آٹا گھر بحرانی حالت میں کافی بڑا بنا دیا گیا ، تاکہ دسیوں ہزار لوگ جو تقریباً نو مہینے تک مدینہ آتے رہے اور بارش سے محروم رہے وہ سب اس کی خوراک سے مستفید ہو سکیں ۔ ’’سید نا عمر ؓ کی یہ حکمت عملی حکومتی اداروں کی تعمیر و ترقی کے بارے میں دور اندیشی کی بہت بڑی دلیل ہے،خواہ یہ ادارے مالیاتی ہوں یا اور کوئی‘‘[10]

 

سیدنا عمر ؓ بذات خود پناہ گزینوں کی خدمت کرتے تھے :

سیدنا عمر ؓ کی یہ متواضح شان کہ آپ بذات خود پناہ گذینوں کے کیمپوں میں ان کی خدمت کرتے تھے،حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ابن صنتمہ (عمر ؓ) پر رحم فرمائے ! میں عام الرمادہ میں دیکھا کہ اپنی پیٹھ پر اناج سے بھری ہوئی دوبوریاں اور ہاتھوں میں تیل سے بھرا ہوا ایک ڈبہ اٹھائے ہوئے تھے، وہ اور اسلم باری باری اسے اٹھاتے اور چلتے، جب آپ نے مجھے دیکھ لیا تو کہا : اے ابو ہریرہ کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے کہا : قریب ہی سے ، پھر میں نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا اور اسے لیکر ہم سب ’’ضرار‘‘پہنچے ، وہاں ہماری ملاقات بیس گھرانوں پر مشتمل ایک جماعت سے ہوئی۔ سیدنا عمر نے ان سے پوچھا: تم لوگوں کا یہاں کیسے آنا ہوا انہوں نے کہاؒ مشقت وتنگ دستی کھینچ لائی ہے اور اس کے بعد انہوں نے مردار جانور کا چمڑا جسے وہ کھاتے تھے اور بوسیدہ ہڈیوں کا سفوف جسے وہ پھانکتے تھے ، اسے ہمین دکھایا یہ دیکھ کر عمر ؓ نے اپنی چادر پھینک دی اور ان کے لئے کھانا پکانے اور کھلانے میں مشغول ہوگئے یہان تک کہ سب سیراب ہوگئے ۔ بھر اونٹوں کو لانے کیلئےاسلم کو مدینہ بھیجا، ، وہ اونٹوں کو لاتے، آپ نے ان کو اونٹوں پر سوار کیا اور ’’حبانہ‘‘لے کر ٹھہرایا، پھر انہیں کپڑا دیا جسے انہوں نے زیب تن کیا ۔ اس طرح آپ برابران کے پاس اور دوسرے مصیبت زدہ لوگوں کے پاس جاتے رہے اور خبر گیری کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مصیبت کو ہٹالیا آپ عشاء کی نماز پڑھتے پھر اپنے گھر واپس ہوتے اور برابر نماز پڑھتے، رات کا آخر وقت آجاتا تو گلیوں میں گشت کے لئے نکلتے عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد عمر ؓ سے ایک رات بوقت سحر کہتے ہوئے سنا ، اے اللہ ! میرے ہاتھوں امت محمدیہ کو ہلاک نہ کر اور کہتے :اے اللہ قحط زندگی سے ہمیں ہلاک نہ کر اور ہم سے اس مصیبت و آزمائش کو دور کردے ، اور آپ ان کلمات کو بار بار کہ کر دعا مانگتے۔ [11]

 

بیت المال پبلک کیلئے کھول دیا گیا:

جیسے جیسے قحط میں شدت پیدا ہوئی گئی لوگوں کی قوت جواب دیتی گئی جو کچھ ان کے پاس محفوظ تھا اسے کھا گئے حتیٰ کہ کچھ بھی

 

باقی نہ رہا۔ چنانچہ آس پاس کے لوگوں امیر االمومینین کے پاس دارالخلافہ ’’مدینہ منورہ‘‘آنے لگے ۔ مدینہ منورہ میں بیت المال میں جو کچھ موجود تھا امیر المومنین نے وہ سب کچھ تقسیم کر دیا ۔ حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

 

فَاَ نْفَقَ فِیھم مِنْ حَوَا صل ِ بَیْتِ الما لِ مِما فِیہ مِنَ الاَ طْعمۃ وَ الاموالِ حَتّٰی اَنْفَدَہ۔[12]

 

ترجمہ:امیر المومنین کے پاس بیت المال میں جو کچھ غذائی مواد یا مال موجود تھا وہ ان میں خرچ کیا حتیٰ کہ اسے ختم کر ڈالا ۔

 

اور بظاہر یہ معمول کا ایک اقدام نظر آتا ہے کہ سرکاری خزانے سے مفلوک الحال لوگوں کی مدد کی جائے لیکن ایسی مدد کہ بیت المال ہی خالی رہ جائے یہ مثال شاید کہیں اور نہ ملے ایسے فراخ دلانہ امداد کی توقع امیرالمؤمنین سے ہی کی جا سکتی ہے ۔ قدرتی آفات، حادثات اور مصائب تو آ ج بھی آتے رہتےہیں۔ لیکن حکومتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ خزانہ پر بوجھ نہ پڑے ۔ سیدنا عمر ؓ کا تصور یہ نظر آتا ہے خزانہ رعایا کے لئے ہوتا ہے اگر رعایا نہ رہی تو خزانہ کس کام کا ۔ اگر ہمارے مقتدر حضرات اس اصول کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں تو غریب عوام کے لئے بے شمار مسائل کا ازالہ ہو سکتا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ ’’خزانہ عوام کے لئے ہے عوام خزانہ کے لئے نہیں‘‘۔

 

صوبوں کے گورنروں سے تعاون کا مطالبہ:

سیدنا عمر ؓ نے خوشحال گورنروں کو امدادی اسباب و وسائل ارسال کرنے کے لئے فوراً خط لکھا، آپ نے مصر پر مقرر کردہ اپنے گورنر عمر بن عاص ؓ کو لکھا: ’’اللہ کے بندے عمر بن خطاب امیر المؤمنین کی طرف سے ابن العاص کے نام سلام علیکم ، امابعد ! کیا تو مجھے اور جو میرے پاس ہیں سب کو ہلاک ہوتے ہوئے دیکھتا رہے گا۔ اور تو اور جو تیرے پاس ہیں سب کو لے کر عیش کی زندگی گزارے گا، مدد و تعاون کی ضرورت ہے ، مدد و تعاون بھیجنے میں جلدی کرو۔ چنانچہ عمر بن عاص ؓ کو یہ خط ملاتو جواب میں آپ نے یہ تحریر کیا:

 

’’عمر بن عاص کی طرف سے اللہ کے بندے امیر المومنین کے نام اسلام علیکم، میں سب سے پہلے اللہ رب العزت کی تعریف کرتاہوں جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، حمد صلوٰۃ کے بعد آپ ہمیں تھوڑی سی مہلت دیں اور تھوڑا انتظار کریں آپ کے پاس امداد ضرور پہنچے گی ، میں آپ کے پاس غلے سے لداہوا اتنا عظیم قافلا روانا کرنے والا ہوں، جس کا پہلا سرا آپ کے پاس ، آخری سرا میرے پاس ہوگا، ساتھ ہی میں اس کی تلاش میں ہوں کہ سمندری راستے سے بھی کچھ امداد بھیج سکوں۔ چنانچہ عمر بن عاص ؓ نے خشکی کے راستے آٹے سے لدا ہوا یک ہزاراونٹوں کا قافلہ اور سمندری راستے سے تیل، اور آٹے سے لدی ہوئی بیس کشتیاں روانہ کیں، اس طرح سامان تعاون میں پانچ ہزار چادریں اور کپڑے بھی ارسال کیے‘‘۔ [13]

 

سیدنا عمر ؓ نے شام پر مقرر اپنے تمام عمال و افسران کے نام خط لکھا کہ :’’ہمارے پاس وہ غلہ و خوراک بھیجو جو ہمارے لئے قابل استعمال ہوں، لوگ مر رہے ہیں، مگر وہی جس پر اللہ رحم فرمائے‘‘آپ نے عراق اور فارس کے اپنے گورنروں کو بھی اس طرح خط لکھا، اور سب نے امدادی سامان بھیجا۔ [14]

 

طبری نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے ابو عبیدہ بن جراح ؓ چار ہزار اونٹوں پر غذا و خوراک لے کر آپ کے پاس پہنچے، عمر ؓ نے انہی

 

کو یہ ذمہ داری دے دی کہ جو لوگ مدینہ کے ارد گرد پڑاؤ ڈالےہوئے ہیں ان میں یہ خوراک تقسیم کر دو۔ چنانچہ جب حضرت ابو عبیدہ ؓ تقسیم کر کے واپس ہوئے تو عمر بن خطاب ؓانہیں چار ہزار درہم دینے کا حکم دیا ۔ ابو عبیدہ ؓ نے کہا: اے امیر المومنین ! مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، میں نے صرف اللہ کی رضا مندی اور آخرت کی تیاری کے لئے یہ سب کیا ہے ، دنیا کو مجھ پر مسلط نہ کیجئے ۔

 

عمر ؓ نے فرمایا : اسے لے لو اگر بغیر مطالبہ کےملے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن آپ نے لینے سے انکار کر دیا ۔ عمرؓ نے پھر کہااسے لے لو میں بھی رسول ﷺکی طرف سے اسی طرح ذمہ دار بنایا گیا تھا، آپ نے مجھ سے اسی طرح کہا تھا جس طرح آج میں تم سے کہہ رہاں ہوں، اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا تھا جس طرح تم جواب دے رہے ہو، پھر بھی آپ نے مجھے دیا ۔ یہ سن کر ابو عبیدہ جراح ؓ نے وہ چار ہزار درہم قبول کر لیے اور اپنے افسران کے ساتھ واپس لوٹ گئے ۔ پھر امداد تعاون کا سلسلہ جاری رہا ۔[15]

 

معاویہ بن ابی سفیان ؓ نے خوراک سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹوں کا قافلہ بھیجا نیز آٹے سے لدے ہوئے ایک ہزار اونٹوں کا قافلہ عراق سے آ پہنچا خوراک اور غلہ جب مہیا ہوگیا تو سید نا عمر ؓ نے انہیں مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں دور دراز دیہاتوں سے بھاگ بھاگ کر آنے والے وفود پر تقسیم کرنا شروع کیا، کچھ امدادی غلہ جات اور خوراک کو بادیہ نشیوں تک بھیجا، اور یہ حکم دیا کہ اسے تمام عرب قبائل پر تقسیم کیا جائے ۔[16]

 

امدادی سامان کی تقسیم کیلئے منتظمین کا تقرر:

امدادی سامان مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد ایک مشکل کام باقی رہ گیا تھا اور وہ تھا امدادی سامان کی تقسیم جن حضرات کواس قسم کا کوئی تجربہ ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ تقسیم انتہائی مشکل کام ہے ۔ کم سامان اگر ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ تقسیم ہو تو بڑی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن نظم و ضبط کے فقدان کی صورت میں زیادہ وسائل کے باوجود مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے امیر المؤمنین حضرت عمر ؓ نے ایک لائحہ عمل (Working Plan)تیا رکیا، جس کے دو حصے تھے ، ایک حصہ دارالخلافہ (Capital) یعنی مدینہ منورہ کے لئے تھا جبکہ دوسرا حصہ دیگر علاقوں کے لئے تھا۔

 

دار الخلافہ مدینہ میں امدادی سامان کی تقسیم :

مدینہ منورہ مسلمانوں کا روحانی مرکز تو ہے یہ البتہ اس کے ساتھ ساتھ دارالخلافہ بھی تھا جب قحط شروع ہوا اور اس میں شدت پیدا ہوئی ، تو لوگ ہر طرف سے چل کر مدینہ منورہ آنے لگے چنانچہ امیر المونین نے چند منتظمین(Administrators) کا تقرر کیا ، جو لوگوں کی خبر گیری کر سکیں اورغذائی سامان تقسیم کر سکیں ۔ابن سعد ؓ کی روایت کے مطابق :

 

لما کان عام الرمادۃ تجلبت العرب من کل ناحیہ فقدھو المدینہ فکان عمر بن الخطاب قد امر رجالا یقومون علیھم اطعمتھم و ا دامھم فکان یزید بن اخت النمر وکان المسور بن مخرمہ وکان عبدالرحمن بن عبدالقاری وکان عبداللہ بن عتبۃ بن مسعود فکانو اذا امسو اجتمعو عند عمر فیحبرونہ بکل ما کانو فیہ وکان کل رجل منھم علی نا حیہ من المدینہ وکان الاعراب حلولا فیما بین رأس الثنیۃ الی رائح بنی حاثہ الی بنی عبدالاشھل الی البقیع الی بنی قریظۃ ومنھم طائفہ بناحتۃ بنی سلمۃ ھم محدقون باا لمدینہ ۔[17]

 

یعنی رمادہ کے سال میری قوم کے سو گھرانے عمر ؓ کے پاس مدینہ آئے اور جبانہ کے مقام پر ٹھرے چنانچہ جو لوگ عمر ؓ کے پاس حاضر ہوئے وہ ان کو کھلاتے اور جو نہیں آسکتے ان کے لئے آٹا، کھجور اور سالن ان کے گھروں میں بھجواتے چنانچہ آپ میری قوم کے لوگوں کے پاس ان کی ضروت کا سامان ماہ بہ ماہ بھجواتے رہتے تھے ۔

 

دارالخلافہ مدینہ میں ریاستی دسترخوان:

 

مدینہ میں جو لوگ پہلے سے رہائش پزیر تھے اور جو پناہ گزیں بن کے آئے ان میں مرد خواتین بوڑھے اور بچے کمزور بیمار ہر قسم اور ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ ہر ایک کے پاس نہ تو پکانے کا سامان تھانہ ہی ہر شخص پکانے کے قابل تھا۔ اس لیے حضرت عمر ؓ مدینہ منورہ میں بیت المال کی طرف سے خلافتی دسترخوان کی رووایت قائم کی وہ روٹی کو روغن زیتون میں بھگو کر ثرید بناتے تھے اور ایک دن چھوڑ کر جانور ذبح کر کے اس کا گوشت ثرید پر ڈالتے تھے ۔ حضرت عمر ؓ نے بڑی بڑی دیگر چڑھا رکھی تھیں جن پر کام کرنے والے لوگ صبح سویرے اٹھتے’’کرکور‘‘تیار کرتےاور جب صبح ہوتی تو مریضوں کو کھانا کھلانے عصیدۃ (ایک قسم کا کھانا جو آٹا اور گھی ملاکر بنایا جاتا ہے ) تیار کرتے حضرت عمر ؓ کے حکم سے ان دیگوں میں تیل ڈال کر گرم کیا جاتا جب اس کی تیزی اور گرمی ختم ہو جاتی تو روٹی کی چوری تیار کی جاتی اور اس پر یہی تیل ڈالا جاتا۔ [18]

 

حجاز میں غذائی سامان کی تقسیم :

 

حضرت عمر ؓ کے لائحہ عمل کے دو حصے تھے ، ایک مدینہ منورہ کیلئےدوسرا مدنہ منورہ سے باہر کے علائقوں کیلئےجس میں پورا حجاز شامل ہے ۔ حضرت عمر ؓ کے پیش نظر مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں قیام رکھیں ، اور وہ اس بات پر اطمینان محسوس کریں کہ خلیفہ ان سے غافل نہیں اور یہ کہ طعام ان کے پاس ان کی قیام گاہ پر یہ پہنچے گا ۔ دراصل حضرت عمر ؓ اس طرح لوگوں میں پلے ہوئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے تھے۔ جس کے تحت لوگ مدینے کی طرف ہجرت کر کے آرہے تھے اور دارا الخلافہ کی طرف بھاگ رہے تھے ، اگر سب لوگ مدینے چلے آئے تو مدینہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی اور مصیبت دو چند ہو جاتی۔ پہلے تو صرف غذائی سامان کی غیر موجودگی کا سامنا تھا اب رہائش اور پناہ گا ہ کی فراہمی بھی مسئلہ بن جاتی ۔ شاید اس اقدام سے خلیفہ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو لوگ پہلے ہی دارالخلافہ میں پناہ لے چکے ہیں ان کو واپس اپنے اصل مقامات پر واپس بھجوا دیا جائے ۔ جب مسلمان دیکھیں گے کہ خلیفہ باہر کے علاقوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور ان علائقوں کو دارالخلافہ کے مقابلے میں اولیت دی جا رہی ہے ، اور ان کے آبائی علاقے مدینہ کے مقابلے میں مقدم ہیں تو وہ خوشی خوشی ان علاقوں میں واپس جائیں گے جہاں سے بھاگ کر انہوں نے ہجرت کی تھی۔[19]

 

اس لائحہ عمل کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگ خصوصاً کاماز اور بوڑھے صبر آزما سفر کی تکلیفوں اور اخراجات سے بچ گئے،

 

اور جو کچھ انہیں ملنا تھا ، بغیر کسی اضافی خرچہ اور سفر کے انہیں اپنے گھروں میں ہی مل گیا ۔

 

حزام بن ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر ؓ کے نمائندے جار کی بندرگاہ سے غذائی سامان وصول کر کے ، لوگون کو کھلاتے رہے ۔ اسی طرح معاویہ ؓ نے شام سے سامان بھیجا حضرت عمر ؓ نے اس کی وصولی کے لیے۔ شام کی سرحدوں تک آدمی بھیجے، جو حضرت عمر ؓ کے دوسرے نمائندوں کی طرف لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے ۔ اونٹ ذبح کرتے رہے ، اور چوغے لوگوں کو پہناتے رہے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے ایسا ہی سامان عراق سے بھیجا ، تو حضرت عمر ؓ نے اس کی وصولی کے لئے ، اپنے آدمیوں کو عراق کی سرحدوں کے قریب بھیجا ، وہ انہی علاقوں میں اونٹ ذبح کرتے، اور لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے ، اور چوغے پہناتے رہے یہ سلسلہ یوہی جاری رہا حتٰی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ مصیبت رفع فرمادی۔[20]

 

تقسیم غذا کا جدید نظام (راشن بندی) :

زمانہ قحط میں جو لوگ خود حاضر ہونے کے قابل ہوتے ، وہ بذات خود آکر دسترخوان خلافت پر کھانا کھالیتے اور جو حاضری سے معذور تھے جیسے خواتین، بچے بوڑھے وغیرہ ان کے لیے کھانا گھر پر بھجوا دیا جاتا تھ اور بعض صورتوں میں ، تو ہر مہینہ یک مشت ان کا راشن بھجوا دیاجاتا[21]۔یہ سامان لوگوں میں اس طرح تقسیم کیا جاتا تھا کہ اسے زمانہ جنگ کی تقیسم غذا کے جدید نظام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔ زیادہ ہوا تو زیادہ تقسیم کر دیا اور کم ہوا تو کم [22]۔راشن کی تقسیم اور لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کیلئےحضرت عمر فاروق ؓ کے ذہن میں ایک تجویز اور بھی تھی ، جس کا اظہار انہوں نے رمادہ (قحط) کے دوران بھی فرمایا اور رمادہ کے بعد بھی، یہ تجویز در اصل مواخات کے اصول پر تیار کی گئی تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کا موقع ہی نہیں آیا، اور اللہ تعالیٰ نے باران رحمت کے ذریعے مصیبت ٹال دی ۔ رمادہ کے زمانے میں راشن تقسیم کرتے ہوئے حضرت عمر ؓ نے فرمایا:

 

نعطعم ما وجد نا ان نطعم فان اعوز نا جعلنا مع اھل کل بیت مِمّن یجد عدتھم ممن لایجد الیٰ ان یا تی اللہ بالحیا[23]

 

ترجمہ:جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے وہ تو ہم کھلا دیں گے پھر اگر ہم نے کمی محسوس کی تو کچھ رکھنے والے ہر گھرانے کے ساتھ ان کی تعداد کے برابر ایسے لوگ شامل کر دیں گے، جو کچھ نہیں رکھتے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بارش نازل کر دے۔

 

مطلب یہ کہ اگر کسی گھرانے میں چار افراد ہیں اور ان کے پاس گزاوہ چلانے کے لئے غذائی مواد موجود ہو، جبکہ حکومت کے پاس کچھ باقی نہ ہو تو اسے گھرانے کے ساتھ پناہ گزینوں میں سے چار افراد شامل کر دیں گے اور وہ آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیں گے اور دونوں بچ جائیں گے کیونکہ آدھا پیٹ کھانے سے کوئی بھی ہلاک نہ ہوگا۔

 

ابن الجوزی کی روایت کے مطابق انہوں نے بارش کے نزول کے بعد فرمایا کہ شکر ہے بارش ہوئی اگر اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور نہ فرماتے تو میں وسعت رکھنے والے ہر گھرانے کے افراد کی تعداد کے مطابق فقرأ ان کے ساتھ شامل کر دیتا کیوں کہ جس غذا پر ایک آدمی زندہ رہ سکتا ہے اگر وہ دو آدمیوں میں تقسیم کر دی جائے تو دونوں ہلاک نہ ہوں گے۔[24]

 

اقتصادی بحران (قحط) میں ادائیگی زکواۃ میں تاخیر کا جواز :

سیدنا عمر ؓ نے عام الرمادہ (قحط) میں لوگوں کے لئے زکوٰۃ کی واجبی وفوری ادائیگی موقوف کردی اور جب قحط سالی ختم ہوئی زمین ہری بھری ہو گئی تب آپ نے عام الرمادہ کی زکوٰۃ لوگوں سے وصول کی ، گویا آپ نے اسے مالداروں پر قرض شمار کیا اور ایسا اس لیے کیا تاکہ ضروت مند افراد کی ضرورت پوری ہو جائے اور ایسے وقت میں ایک محفوظ سرمایہ بنے ، جب کہ بیت المال کا خزانہ خرچ کرنے کے بعد خالی ہو چکا ہوگا ۔

 

یحیٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے قحط سالی کے موقع پر صدقات کی وصولی کو مؤخر کر دیا ، اور عاملین صدقات کو نہیں بھیجا، لیکن جب دوسرا سال آیا اور اللہ نے قحط سالی ختم کر دی تو سید نا عمر ؓ نے حکم دیا کہ جائیں اور مالداروں سے دو سال کی زکوٰۃ وصول کریں ، ایک سال کی زکوٰۃ کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں اور ایک سال کی زکوٰۃ لے کر میرے پاس آئیں[25]

 

ان اقدامات کے دوفوائد حاصل ہوئے :

 

1:قحط کے ایام میں لوگوں کو سہولت ، مہلت اور رعایت حاصل ہوئی اور حکومتی عملداروں کی توجہ امدادی کاموں پر مرکوز رہی

 

2:چونکہ بیت المال بلکل خالی ہو چکا تھا اور ایک بڑے اقتصادی بحران کا خطرہ موجود تھا اس لیے حضرت عمر ؓ نے زکوٰۃ کی وصولی ساقط نہیں کی بلکہ موخر کر دی اور اگلے سال مکمل وصولی کی وجہ سے عوام کی داد رسی بھی ہوئی اور بیت المال بھی آئندہ کسی اور بحران سے نمٹنے کے قابل ہوا۔

 

قحط سالی کے موقع پر شرعی حد کے نفا ذپر پابندی:

 

قحط سالی کے موقع پر عمر ؓ نے چوری کی شرعی حد کے نفاذ پر پابندی لگا دی ۔ آپ نے یہ اقدام شرعی حد کو موقوف و معطل کرنے کی نیت سے نہیں کیا تھا جیسا کہ بعض لوگ لکھتے ہیں ، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ چوری کے جرم میں شرعی حد کی تنفیذ کے لئے مطلوبہ شرائط موجود نہ تھیں ، آپ کےپیش نظر بات یہ تھی کہ جو شخص قحط اور کھانا نہ ملنے کی حالت میں دوسرے کی ملکیت سے کچھ کھاپی لیتا ہے تو اس کی نیت چوری نہیں ہوتی اور وہ غیر ارادی طورپر یہ عمل انجام دیتا ہے اور اسی وجہ سے آپ نے ان غلاموں کا ہاتھ نہیں کاٹا جنہوں نے اونٹنی کو چوری کر کے ذبح کر لیا تھا ۔ بلکہ آپ نے ان کے مالک حاطب کو حکم دیا کہ اونٹنی کی قیمت ادا کریں ۔ آپ نے فرمایا : کھجور کے گوشے کی چوری اور قحط سالی کے موقع پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ [26]

 

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فقہی مذاہب بھی سیدنا عمر ؓ کی فقہ و اجتہاد سے کافی حد تک متاثر ہیں ، اسی فاروقی اجتہاد کے پیش نظر امام احمد بن حنبل ؓ کا قول ہے کہ قحط سالی اور بھوک کے موقع پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ یعنی محتاج اگر ایک لقمہ کھانے کیلئےمر رہا ہو اور ایسی حالت میں اپنی خوراک کی مقدار میں کھانا چوری کرلے تو اس پر ہاتھ کاٹنے کی شرعی حد نہیں نا فذ ہوگی ۔ اس لیے کہ وہ اضطراری یعنی مجبوری ولا چاری کی حالت میں ہے ۔ علامہ جوزجانی نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا قحط سالی کے ایام میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔ میں نے اس مسئلے میں امام احمد سے پوچھا کہ کیا آپ بھی اس کے قائل ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم اگر ایک لقمہ کھانے کی ضرورت نے اسے چوری پر مجبور کیااس حالت میں کہ لوگ قحط و بھوک کی زندگی گذار رہے ہوں تو میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹوں گا۔[27]

 

دفاعی صورتحال

ان حالات و واقعات کے بیان کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ پورا حجاز اس قحط کی لیپٹ میں تھا ۔ مکہ مدینہ سے لیکر شام، عراق اور یمن کی سرحدوں تک ہر شخص متاثر تھا ۔ لیکن بہتر حکمت عملی کی وجہ سے دشمنان اسلام کو یہ موقع ہی نہ ملا کہ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ ’’جب حضرت عمر ؓ جزیرہ العرب کے قحط زدہ عوام کی امداد میں مصروف تھے ۔ اسی دوران انہوں نے اپنے فوجی کمانڈروں کو سخت احکام جاری کر دیئے تھے کہ جب تک وہ اپنی مدافعت پر مجبور نہ ہو جائیں دشمن سے جنگ نہ کریں‘‘۔[28]

 

اللہ تعالیٰ سے مدد طلبی و فریاد رسی اور نمازاستسقاء :

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عام الرماوہ میں عمر بن خطاب ؓ نے یہ خطبہ دیا: ’’اے لوگو! اپنے ظاہر ی اعمال میں ، نیز تمہارے جو معاملات لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں سب میں اللہ سے ڈرو، میں تمہارے ذریعے سے اور تم میرے ذریعے سے آزمائے گئے ہو، میں نہیں جانتا کہ (الہیٰ) ناراضی تم کو چھوڑ کر مجھ پر نازل ہوئی ہے ، یا مجھ کو چھوڑ کر تم پر نازل ہوئی ہے ، یہ ناراضی ہم سب کو شامل ہے ، آؤ ہم سب مل کر اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح کر دے اور ہم پر رحم فرمائے اور ہم سب سے اس آفت (قحط سالی) کو دور کر دے‘‘۔آپ اس دن اس حالت میں دیکھے گئے کہ اپنے ہاتھ کو اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے اور لوگوں نے بھی دعا کی ، آپ خود گریہ کناں ہوئے ، لوگ بھی گریہ کناں ہوئے ، پھر آپ منبر سے نیچے اتر آئے۔[29]

 

اسلم سے روایت ہے کہ میں نے عمر ؓ کو کہتے ہوئے سنا: ’’اے لوگو! مجھے خوف و خطر لاحق ہے کہ اللہ کی ناراضی ہم سب کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے، لہٰذا اپنے رب کو راضی کر لو، غلط حرکتوں سے باز آجاؤ اور اپنے رب سے توبہ کرو اور نیک اعمال کرو‘‘۔اور عبداللہ بن ساعدہ سے روایت ہے کہ میں نے عمر ؓ کو دیکھا کہ جب انہوں نے مغرب کی نماز پڑھی تو لوگوں کو آواز دیتے ہوئے کہا: اے لوگو ! اپنے ربّ سے استغفار کرو، اور اسی سے توبہ کرو، اس سے اس کے فضل کرم کے طالب بنو، اس سے ایسی بارش کا سوال کرو جو باران رحمت ہو، بارانِ عذاب نہ ہو، یہی عمل مسلسل کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو ہٹا دے۔ [30]

 

امام شعبی رحمت اللہ سے روایت ہے کہ عمر ؓ استسقاءکے لیے نکلے، منبر پر تشریف لائے اور ان آیتوں کی تلاوت فرمائی:

 

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْ ا رَبَّکم اِنَّہُ کانَ غَفَّارًایُّرسل السَّمَآ ءَ عَلَیْکُمْ مِّدرَارً ا ۔[31]

 

ترجمہ: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگ لو، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والاہے ۔ وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔

 

نیرز یہ آیت پڑھی: ’’تم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اسی سے توبہ کرو۔ ‘‘ اتنا کہہ کر آپ منبر سے اتر آئے آپ سے پوچھا گیا

 

کہ استسقا یعنی پانی کا سوال کرنے سے آپ کو کس بات نے روک دیا؟ آپ نے فرمایا : میں نے آسمان جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے بارش طلب کر لی ہے ۔ اور جب آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ فلاں دن استسقا کی نماز پڑھنی ہے اور لوگوں کو لے کر میدان میں نکلنا ہے تو اپنے تمام گورنروں و افسروں کو لکھا کہ فلاں دن وہ سب میدان میں نکلیں اور اپنے رب سے عاجزی و تضرع کریں اور اس سے سوال کریں کہ اس قحط سالی کی مصیبت کو ہم سے ہٹا دے ۔ چنانچہ عمر ؓ مقررہ دن میں نماز استسقاء کے لئے نکلے اور آپ رسول اللہ ﷺ کی چادر زیب تن کیے ہوئے تھے، آپ عیدگاہ آئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا ، اللہ تعالیٰ سے عاجزی وگریہ زاری کی ، لوگ بھی الحاح کے ساتھ اللہ سے بارش کا مطالبہ کرنے لگے، آپ صرف اسغفار میں لگے رہے اور جب لوٹنے کا وقت ہوا تو اپنے دونوں ہاتھ کو پھیلا کر اوپر اٹھایا اور چادر کو اس طرح پلٹا کہ دائیں کنارے کو بائیں اور بائیں کو دائیں کر دیا، پھر دونوں ہاتھ کو دراز کیا اور بڑے الحاح کے ساتھ دعا کرنے لگے، اور کافی دیر تک روتے رہے یہاں تک کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہو گئی۔[32]

 

سیدنا عمر ؓ نے خود کو دوسروں کیلئے نمونہ بنا کر پیش کیا:

’’ عام الرمادہ‘‘ میں قحط کے موقع پر سیدناعمر ؓ کےپاس ان کےکھانے کیلئےگھی سے چپڑی ہوی روٹی لائی گئی،آپ نے ایک بدوی آدمی کوبلایا تاکہ وہ بھی آپ کے کھانے میں شریک ہوجائے،بدوی نے کھانے میں کھانےمیں شریک ہوکر کھانا شروع کیا اورگھی کولقمے سے لپیٹ کے کنارے لا کر شوق سے کھانے لگاسیدنا عمر نےاس سےکہا :ایسا لگتا ہے کہ تم کو گھی کبھی میسر نہیں آیا؟ بدوی نے کہا: جی ہاں ، فلاں فلاں وقت سے آج تک نہ میں نے گھی اور روغن چکھا ہے اور نہ کسی کو یہ کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس کی بات سن کر سید نا عمر ؓ نے قسم کھا لی کہ جب تک میری عوام کو فراخی کی زندگی نہ مل جائے اس وقت تک نہ وہ گوشت کھائیں گے اور نہ گھی کو ہاتھ لگائیں گے ۔ تمام راوی اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عمر ؓ نے اس قسم کو پورا کرنے کا عزم مصمم کر لیا تھا اور اسی وجہ سے جب بازار میں گھی اور دودھ سے بھرے ہوئے ڈبے فروخت ہونےکیلئے آئے، تو عمر ؓ کے غلام نے آپ کیلئے 40 درہم میں ایک ڈبہ گھی اور ایک ڈبہ دودھ خریدا اور لے کر عمر ؓ کے پاس آیا، اور کہا: امیرالمومنین! اللہ نے آپ کی قسم کو پورا کر دیا ، اور آپ کو بہت اجر و ثواب ملا، اب بازار میں دودھ اور گھی کے ڈبے آگئے ہیں اور میں نے انہیں چالیس درہم میں خرید لیا ہے ۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا : تم نے مہنگی قیمت میں خریدا، ان دونوں کو اللہ کے راستے میں صدقہ کردو، میں ناپسند کرتا ہوں کہ اسراف کا لقمہ کھائوں، اور اس کے بعد ہی فرمایا : میں رعایا کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکوں گا جب تک کہ میں بھی ان کی حالت سے نہ گزروں[33]۔حضرت عمر فاروق کی زبان سے نکلا ہوا آخری جملہ ایک تابناک اور زریں قول ہے ، جس میں پوری انسانیت کیلئےسیاست کا عظیم الشان اصولوں میں سے ایک اصول پنہاں ہے ، قابل غور ہے یہ جملہ کہ : ’’میں رعایا کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکوں گا جب تک کہ میں بھی ان کی حالت سے نہ گزروں ‘‘ ۔

 

خلاصہ کلام :

اس مقالے میں انتظامی حوالے سے سیدنا عمر ؓ کےاہم اقدامات یہ ہیں کہ اسلامی ریاست نے اقتصادی بحران وہنگامی حالات

 

ہونےکےباوجودعوام کےبنیادی حقوق معطل نہیں کئے،بلکہ ریاستی سزاؤں کومعطل کیا،اعلیٰ حکمرانی Governance Goodکی ایسی مثالی دنیا میں نہیں ملتی۔ اصل بات یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، بنیادی ضروریات کی فراہمی، اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر ریاست شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم نہیں کر سکتی تو اسے شہریوں کو اضطراری حالت میں قانون شکنی پر سزا دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ غرض سیدنا عمر ؓ کی Crisis Managementوہ روشن اور معجزانہ مثال ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے ۔

 

ہمارے ملک میں اس وقت بے شمار و سائل ہونے کے باوجود ملک عزیز کو سنجیدہ بحران درپیش ہیں۔ مگر ہمارے حکومتی ادارے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے گیس ، بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے اشیا خورد نوش مہنگی ہو جاتی ہیں ۔ در اصل عصر حاضر میں مہنگائی ، بیروزگاری، تعلیم ، صحت اور امن عامہ جیسے مسائل حکومتی توجہ اور ٹھوس اقدامات کے متقاضی ہیں۔ ریاست اور عام شہری کا باہمی تعلق آج کی انتظامیہ کے لیے اہم ہے۔ حال ہی میں ساہیوال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مظلوم خاندان کا دکھ اور درد اپنی جگہ ، مگر وطن عزیز کے ایسے سینکڑوں بد قسمت شہریوں کے بارے میں کیا کہا جائے، جو کچھ اس طرح ریاستی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں کہ ان کے حق میں آواز بھی نہیں اٹھائی جا سکتی۔

 

اس مقالے میں سب سے اہم بات جو نمایاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ عام الرمادہ (قحط) میں حکمران و عوام کی تمیزیں ختم کر دی گئیں تھیں ۔ اور حاکم ہر اعتبار سے عوام کا نمائندہ تھا۔ اتنی بڑی سلطنت کا حکمران ہر سطح پر عوام کے ساتھ تھا ۔ نہ کسی Protocolکا خیال تھا اور نہ Security کا، خدشات و خطرات اس زمانے میں بھی تھے ، لیکن سیدنا عمر ؓ نے اپنے اور عوام کے درمیان کسی چیز کو حائل نہ ہونے دیا۔

حوالہ جات

  1. القرآن 56:51
  2. البقرہ 30:2
  3. البغدادی،علامہ آلوسی ،روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع مثانی،داراحیاء التراث العربی ،بیروت،ج1،ص220
  4. القرآن 1:48
  5. دہلوی،شاہ ولی اللہ،ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، نور محمد کارخانہ تجارت کتب،کراچی،ج 3،ص151
  6. ایضاً ،ج3،ص192
  7. ھیکل، محمد حسین ، عمر فاروق اعظم ؓ ،مکتبہ جدید،لاہور،س 1960ء،ص401
  8. الصلابی ،ڈاکٹر علی محمد ، سیدنا عمر بن خطاب ؓ شخصیت اور کارنامے ، مکتبہ الفرقان، خان گڑہ ۔ ص 377
  9. ایضاً ،ص380
  10. ایضاً ،ص381
  11. ایضاً
  12. ابوالفدا ء اسماعیل بن کشیر،تفسیرقرآن العظیم، بیروت،دارا حیالتراث العربی ،ج 7،ص103
  13. طنطاوی علی ، اخبار عمر ، بیروت ، طبع ہشتم ،1983ء، ص 115
  14. طنطاوی علی ، الفاروق عمر ، بیروت،س ن، ص 262-263
  15. ابو جعفر،محمد بن جریر،تاریخ طبری (تاریخ لامم والملوک )،دارسویدان،بیروت، ج 5،ص80
  16. طنطاوی علی، الفاروق عمر ، ص262
  17. ابوعبداللہ محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،دار صادر،بیروت،ج3،ص317
  18. ایضاً
  19. ڈاکٹرسید الوکیل جولہ،تاریخیۃ فی عصرالخلفاء الراشدین جدہ،دارالمجتمع،طبع اول 1986ء
  20. ابوعبداللہ محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،ج3،ص310-311
  21. ایضاً ،ج3،ص317
  22. ھیکل محمد حسین ، عمر فاروق اعظم ، مکتبہ جدید،لاہور، ص 341
  23. ابوعبداللہ محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،ج3،ص316
  24. طنطاوی علی ، مناقب عمر ، مکتبہ اسلامی ،بیروت، ص 71
  25. الصلابی ،ڈاکٹر علی محمد ، سیدنا عمر بن خطاب ؓ شخصیت اور کارنامے ، ص390
  26. ایضاً ،ص388
  27. ایضاً ،ص389
  28. ھیکل محمد حسین ، عمر فاروق اعظم ، ص343
  29. ابوعبداللہ محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،ج3،ص322
  30. الصلابی ،ڈاکٹر علی محمد ، سیدنا عمر بن خطاب ؓ شخصیت اور کارنامے ، ص385-386
  31. النوح10:11
  32. ابوعبداللہ محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،ج3،ص320-321
  33. ابوجعفر محمد بن جریر طبری،تاریخ طبری(تاریخ الا مم واملوک ) ،ج5،ص78
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...