Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا سے متعلق تاریخی روایات کا تحقیقی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آخری پیغمبر بنا کر بھیجا اور اس بات کو قرآن میں یوں بیان فرمایا:

 

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا۔[1]

 

ترجمہ:محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز پر عالم ہیں۔

 

نبی کریم ﷺ کی شریعت کو بھی اللہ نے آخری بنا دیا اور آپ ﷺ کو دی ہوئی کتاب کو بھی آخری کتاب بنا دیا اور آپﷺ کے ساتھیوں کو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْه والا ایسا سند دیا جو اس سے پہلے کسی پیغمبر کے ساتھیوں کو نہیں ملا ۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام کے مؤرخین نے سہواً یا عمداً ان صحابہ سے متعلق اپنی کتب میں ایسی روایات کو جگہ دے دی جن سے یہ لوگ کوسوں دور تھے۔ یہ روایات یا تو غلو فی المحبۃ کی وجہ سے فضائل کے باب میں سے ہیں یا غلو فی البغض کی وجہ تنقیص کے باب میں سے ہیں، اور اس قسم کے روایات کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن یہاں پر اس مختصر مقالہ میں حضرت ہند بنت عتبۃ رضی اللہ عنہا سے متعلق تاریخ کی روایات کو موضوع تحقیق بنایا جارہا ہے جو کہ زبان زد عام ہیں۔روایت کچھ یوں ہے:

 

قال أبو جعفر وكان الذي هاج غزوة أحد بين رسول الله ومشركي قريش وقعة بدر وقتل من قتل ببدر من أشراف قريش ورؤسائهم فحدثنا ابن حميد قال حدثنا سلمة عن محمد بن إسحاق قال وحدثني محمد بن مسلم بن عبيدالله بن شهاب الزهري ومحمد بن يحيى بن حبان وعاصم بن عمر بن قتادة والحصين بن عبدالرحمن بن عمرو بن سعد بن معاذ وغيرهم من علمائنا كلهم قد حدث ببعض هذا الحديث عن يوم أحد وقد اجتمع حديثهم كلهم فيما سقت من الحديث عن يوم أحد قالوا لما اصيبت قريش أومن قاله منهم يوم بدر من كفار قريش من أصحاب القليب فرجع فلهم إلى مكة ورجع ابو سفيان بن حرب بعيره مشى عبدالله بن أبي ربيعة وعكرمة بن أبي جهل وصفوان بن أمية في رجال من قريش ممن أصيب آباؤهم وأبناؤهم وإخوانهم ببدر فكلموا ابا سفيان بن حرب ومن كانت له في تلك العير من قريش تجارة فقالوا يا معشر قريش إن محمدا قد وتركم وقتل خياركم فأعينونا بهذا المال على حربه لعلنا أن ندرك منه ثأرا بمن أصيب منا ففعلوا فاجتمعت قريش لحرب رسول الله حين فعل ذلك أبو سفيان وأصحاب العير بأحابيشها ومن أطاعها من قبائل كنانة وأهل تهامة وكل أولئك قد استعووا على حرب رسول اللهﷺ۔[2]الخ

 

ترجمہ:قریش بڑی شان وشوکت سے جنگ کےلئے نکلے اور قریش کے مختلف قبیلے اور وہ لوگ جو بنو کنانہ اور تہامہ میں سے تھے ، ان کے ساتھ تھے اور یہ لوگ اپنی پردہ نشین عورتوں کو بھی ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہ عورتوں کی نگہبانی کے احساس سے جنگ سے منہ نہ موڑیں۔ پس ابوسفیان بن حرب بھی نکلےاور وہ لوگوں کےقائد تھے ،ا ن کے ساتھ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بھی تھیں اور عکرمہ بن ابی جہل بن ہشام بن المغیرہ بھی نکلے ۔ ان کے ساتھ ام حکیم بنت الحارث بن الہشام بن المغیرہ بھی تھیں۔ حارث بن الہشا م بھی تھے ، ان کے ساتھ فاطمہ بنت الولید بن المغیرہ، (حضرت خالد بن الولید کی بہن)، صفوان بن امیہ بن خلف بھی نکلے اور ان کے ساتھ برزہ تھیں اور ایک روایت میں ہے کہ برّہ بنت مسعود بن عمرو بن عمیر الثقفیہ بھی نکلیں اور یہ عبداللہ بن صفوان کی والدہ ہیں، عمرو بن عاص بن وائل بھی نکلے اور ان کے ساتھ بریطہ بنت منبہ بنت الحجا ج بھی تھی اور یہ حضر ت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی والدہ تھیں اور طلحہ بن ابی طلحہ اور ابو طلحہ عبداللہ بن عبدالعزی بن عثمان بن عبدالدار بھی نکلے اور ان کےساتھ سلافہ بنت سعد تھیں اوروہ طلحہ کےبیٹے سلافہ، الجلاس اور کلاب کی والدہ ہیں اور اس دن یہ تینوں اور ان کے والد قتل ہوئے ۔ خناس بنت مالک بن المغرب نکلی، یہ بنو مالک بن حسل کی عورتوں میں سے ایک ہے ۔ اس کے ساتھ اس کا بیٹا ابو عزیز بن عمیر تھا اور یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی ماں ہے اور عمرہ بنت علقمہ نکلی، یہ بنی حارث بن عبدمناف بن کنانہ کی عورتوں میں سے ایک ہے۔

 

اس کہانی کو ابن اسحاق اور ابن جریر طبری جو کہ ابن اسحاق ہی کی روایت ہے، اور اسی کو علامہ شبلی نعمانی نے بھی سیرۃ النبیؐ

 

میں نقل کیا ہے، کو بڑھاتے ہوئے لکھتےہیں:

 

’’حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ہندرضی اللہ عنہا کے باپ عتبہ کو بدر میں قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم کے چچا بھی حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے ۔ اس بناء پر ہندرضی اللہ عنہا نے وحشی رضی اللہ عنہ کو ، جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا اور حربہ اندازی میں کمال رکھتا تھا ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آمادہ کیا اور یہ اقرار ہوا کہ اس کارگزاری کے صلہ میں اُس کو آزاد کردیا جائے گا۔ قریش کی عورتوں نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کے لاشوں کا مثلہ کیا اور ان کے ناک، کان کاٹے۔ ہند نے ان کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا۔ حمزہ رضی اللہ کے لاش پر گئی اور ان کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکالا اور چبا گئی لیکن گلے سے نہ اتر سکا اس لئے اگل دینا پڑا اور ہند نے اپنا ہار حبشی رضی اللہ عنہ کے گلے میں ڈالا۔ تاریخوں میں ہند کا جو لقب جگر خوارہ لکھا جاتا ہے وہ اسی بناء پر لکھا جاتا ہے ‘‘۔[3]

 

اس روایت پر تبصرہ:

اس روایت پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔

 

1:حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ تھے۔

 

2:حبشی رضی اللہ عنہ جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔

 

3:حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے پر ان کی آزادی موقوف تھی۔

 

4:اس قتل پر بعض مؤرخین کے مطابق ان کو جبیر بن مطعم نے آمادہ کیا اور بعض کے بقول ہندرضی اللہ عنہا نے۔

 

5:بعض مؤرخین کے نزدیک ہند رضی اللہ عنہا نے ان کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا جب کہ وہ اس کا غلام بھی نہ تھا اور بعض کے نزدیک جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب حبشی رضی اللہ عنہ ہند رضی اللہ عنہا کے غلام بھی نہ تھے تو اس کو آزاد کرنے کا اخیتار کہاں سے اس کے پاس آیا؟

 

6: اس جنگ میں قریش کی متعدد عورتیں شریک تھیں۔

 

7: ان تمام عورتوں نے مسلمانوں کے لاشوں کا مثلہ کیا اور ان کے کان وناک کاٹ ڈالے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان عورتوں میں مؤرخین کو صرف ایک ہند رضی اللہ عنہا کا نام نظر آیا باقی کسی بھی عورت کا ذکر نہیں ہے جس نے مثلہ کیا ہو ؟ آخر باقی عورتوں کا حال کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ جن کے اسماء طبری کی روایت میں اوپر مذکور ہوئے۔

 

8: علامہ شبلیؒ نے اس کو جگر خوارہ کا لقب دیا اور یہ کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام جگر خوارہ نام اس وجہ سے لکھا جاتا ہے لیکن کسی بھی عربی لغت کی کتاب کو اٹھا یا جائے تو جگر خوارہ کا لفظ نہیں ملے گا بلکہ جگرخوارہ کا لفظ فارسی کا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ بنو امیۃ خاندان کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے فارسی زبان لوگوں نے رکھ دیا ہو۔

 

9: اس روایت کو ابن اسحاق کے علاوہ کوئی اور روایت ہی نہیں کرتا ۔

 

10: ایک اہم اور سوال کہ جب حبشی رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم ﷺ کے پاس گئے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تو مجھ سے اپنا چہرہ نہیں چھپا سکتا؟ اور اس کی وجہ صرف حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قتل تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ قتل جس کے ایماء پر ہوا ہے اور کس نے حبشی کے ساتھ آزادی اور انعام کا وعدہ کیا ہے ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے یہ برتاؤ کیوں نہیں کیا؟ یعنی جبیربن مطعم اور ہند رضی اللہ عنہما کےساتھ۔ ان دونوں کے ساتھ تو حبشی رضی اللہ عنہ سے بھی سخت برتاؤ کرنا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کے ساتھ بہت ہی اچھا رویہ تھا۔

 

11: اس جنگ میں جتنے بھی صحابہ شریک تھے کسی سے بھی اس طرح کی کوئی روایت نہیں نقل کی گئی اور کفار کی طرف سے اس جنگ میں جتنے مرد اور عورتیں شریک تھیں (جن کے نام اوپر کی روایت میں مذکور ہیں)جو کہ اس جنگ کے چشم دید گواہ تھے، ان میں سے کسی نے بھی حضرت ہند رضی اللہ عنہا کا یہ قصہ بیان نہیں کیا کہ اُس نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا۔ہاں البتہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ جنگ کے اختتام پر ایک اعلان خود کرتے ہیں:’’ہمارے کچھ افراد نے لاشوں کا مثلہ کیا ہے لیکن میں نے نہ تو اس کا حکم دیا تھا اور نہ مجھے یہ بات بری معلوم ہوئی‘‘[4]۔

 

اب ابو سفیان کے یہ الفاظ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ کام صرف عورتوں نے نہیں کیا تھا بلکہ اس میں مرد بھی شامل تھے۔ اب یہ کام کس کس نے کیا تھا اور کون سے مرد نے کیاتھا اور کون سی عورت نے کیا تھا؟ اس جنگ کے چشم دید گواہوں میں سے کوئی بھی بیان نہیں کرتا لیکن ابن اسحاق کو حضرت ہند کی ذات ضرور نظر آئی کہ یہ کا م صرف اسی نے کیا ہے۔ ضروری ہے کہ تاریخ کی کتابوں پر کسی فیصلہ سے پہلے حدیث کی کتابوں کا ایک بار ضرور ورق گردانی کرنی چاہئے تاکہ ان قصہ گو تاریخ دانوں کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ حضرت حمزہ کی شہادت خود اس کے قاتل حضرت حبشیکے زبانی اگر دیکھ لیا جائے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ذات پر کبھی بھی کوئی کیچڑ نہیں اُچال سکے گا۔ صحیح بخاری میں حبشی کی زبانی واقعہ وہاں تفصیل کےساتھ بیان ہوا ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے:

 

قَالَ لِى عُبَيْدُ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِى وَحْشِىٍّ نَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَةَ قُلْتُ نَعَمْ . وَكَانَ وَحْشِىٌّ يَسْكُنُ حِمْصَ فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَقِيلَ لَنَا هُوَ ذَاكَ فِى ظِلِّ قَصْرِهِ ، كَأَنَّهُ حَمِيتٌ۔۔۔۔۔الخ۔[5]

 

ترجمہ:عبیداللہ بن عدی نے (حضرت حبشی )سے کہا کہ تم ہمیں حضرت حمزہکی شہادت کا واقعہ بتا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حضرت حمزہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم  نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کردیا تو تم آزاد ہوجاؤگے۔ انہوں نے پھر بتا یا کہ جب قریش عینین کی جنگ کیلئے نکلے( عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے)تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادے سے ہولیا۔ جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے)لڑنے کیلئے صف آراء ہوگئیں تو( قریش کے صف میں) سباع بن عبدالعزی نکلا اور اس نے آواز دی: ہے کوئی لڑنے والا؟ (اس کی دعوت مبارزت پر )حمزہ بن عبدالمطلب نکل کر آئے اور فرمایا: اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی۔ تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لڑنے آیا ہے؟پھر حمزہ نے اس پر حملہ کیا اور اس کو گزرے ہوئے کل کی طرح بنا دیا۔ ادھر میں ایک چٹان کے نیچے حمزہ کی تاک میں تھااور جوں ہی وہ مجھ سے قریب ہوئے ، میں نے ان پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ ان کی ناف کے نیچے جا کرلگااور ان کی سرین کے پار ہوگیا اور یہی ان کی شہادت کا سبب بنا، پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس ہوگیا اور مکہ میں مقیم رہا لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آگیا تو میں طائف چلا گیا ۔ طائف والوں نے بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک خادم بھیجاتو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاء کسی پر زیادتی نہیں کرتے۔ چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا: کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ پھر فرمایا کہ تم ہی نے حمزہ کو شہید کیا تھا؟ میں نے عرض کیا جو آپ ﷺ کو اس معاملے میں معلوم ہے، وہی صحیح ہے۔نبیﷺ نے فرمایا: کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ اپنی صورت کبھی مجھے نہ دکھاؤ؟ اور پھر میں وہاں سے نکل گیا۔(اس سے آگے مسلمہ کذاب کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو اختصار کی وجہ سے چھوڑا جارہا ہے۔تفصیل کیلئے حوالہ بالا دیکھے)۔

 

بخاری کی روایت میں جس کو حبشی خود بیان کرتےہیں، کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ ہند نے مجھ سے آزادی کا وعدہ کیا بلکہ اپنے آقا جبیر بن مطعم کا کہہ رہے ہیں کہ اس نے اپنے چچا کے بدلے میں آزادی کا وعدہ کیا۔نہ ہندکے کسی انعام دینے کا اعلان کیا اور نہ ہی کلیجہ چبانے کا کوئی تذکرہ کیا اور نہ ہی اس کو ہار پہنانے کا کوئی تذکرہ۔ تو پھر ابن اسحاق کو ان ساری باتوں کا حال کس نے سنایا؟ اگر وہ صالح بن کیسان (جو ایک ثقہ راوی ہے) کا نام لیتا ہے تو صالح بن کیسان سے کس صحابی نے یہ واقعہ بیان کیا ؟ یہ بتانے سے تاریخ کی کتابیں قاصر ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابن اسحاق کی اختراع ہے اور اپنی اس اختراع کو صالح بن کیسان کی جانب منسوب کرتاہے۔

 

12: حضرت ہند رضی اللہ عنہا جب بیعت علی الاسلام کرتی ہے تو نبی کریم ﷺ سے فرماتی ہیں:

 

وَقَالَ عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ ثُمَّ مَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ قَالَ وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ۔[6]

 

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا آئی اور کہا: اے رسول اللہ ﷺ روئے زمین پر جتنے خیمے والے بستے ہیں ان میں سے آپ سے زیادہ میری نظروں میں کوئی ذلیل نہ تھا لیکن اب روئے زمین کے تمام بسنے والوں میں مجھے آپ

 

سے زیادہ کوئی عزیز نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، میرا بھی یہی حال ہے۔

 

سوچھنے کی بات ہے کہ ایک بندہ دوسرے کے چچا کو قتل بھی کروائے اور پھر اس کا کلیجہ باہر نکال کر اس کو چبائے اور پھر دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا پھرے؟ بہت تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ حبشی رضی اللہ عنہ کو تو دوبارہ اپنے سامنے آنے سےبھی منع کررہے ہیں جنہوں نے چچا کو قتل کیا تھا لیکن جس کے کہنے پر قتل کیا ہو اور جس نے یہ حالت بھی کی ہو تو اس سے ایسا سلوک کیونکر ہو؟ فیاللعجب۔

 

تاریخی روایات پر فیصلہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کتب حدیث کے ذخیرہ کو دیکھنے کی زحمت کی جائے لیکن یہاں پر معاملہ برعکس ہے کہ تاریخ کی روایت کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیاجاتا ہے اور یہی حال خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور کا بھی ہے جنہوں نے جماعت پنجم کے اردو کی کتاب میں ’’ فاتح مکہ(حضرت محمدﷺ)‘‘کے عنوان پر ایک سبق شامل کیاہے ، جس میں آپ ﷺ کا اپنے اور دشمنان اسلام کے ساتھ اعلی اخلاق اور عفودر گزر کا ایک مثالی کردارپیش کیا ہے۔ جن لوگوں نے آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم و جور کے پہاڑ ڈالے تھے اور مسلمانوں پر اپنی طرف سے ایذا رسانیوں اور تکالیف میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنا دین، ایمان بچانے کی خاطرہجر ت پر مجبور ہوگئے ،لیکن ٹھیک 8 سال بعد جب رحمت اللعالمین مکہ میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں تو ہر شخص پناہ کی تلاش میں متحیر و پریشان ہو کر اِدھر اُدھر بھاگتا نظر آتا ہےلیکن انہیں کوئی پناہ گاہ نظر نہیں آتی۔ اتنے میں اعلان ہوتا ہے کہ جو شخص ہتھیار پھینک دے یا خانہ کعبہ کے اندر بیٹھ جائے یا ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے، وہ امان میں ہوگا۔اللہ کے محبوب ﷺ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوکراپنی پیشانی خاک میں رکھ کر اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ خانہ کعبہ سے باہر تشریف لاکر لوگوں کا ہجوم آپ کے فیصلے کا منتظر ہے کہ اب آپ ﷺ دشمنان اسلام کے بارے میں کیا فیصلہ فرمارہےہیں۔اس دوران آپ اہل مکہ سے پوچھتے ہیں۔’’ اے اہل مکہ ! تمہارا کیا خیال ہے ، میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ سب بیک آواز بول اٹھتے ہیں: ’’آپ ہمارے بھائی ، کریم ابن کریم ہیں‘‘۔آپ ﷺ کے یہ کریمانہ الفاظ سن کر کسی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا،کہ کیا واقعی رسول ﷺ نے ہماری خطائیں معاف فرمادی ہیں؟ کیا آپﷺ ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کریں گے؟ کیا آپﷺ نے ہمارے جرم اور زیادیتاں بھلا دی ہیں ؟ آج کا دن عظیم دن ہے، عام معافی کا دن !

 

(عام معافی میں مؤرخین نے تمام کفارکی ایذارسانیوں اور تکالیف کو چھوڑکر صرف ان تین شخصیات ابو سفیان اور اس کی بیوی ہندہ اورغلام وحشی کو اسلام او ر پیغمبر کی دشمنی پر مشتمل تاریخی روایات پیش کئے ہیں نمونے کے طور پر نصاب کی اس کتاب میں یہاں ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے ):’’معافی پانے والوں میں ابو سفیان بھی شامل ہے ۔ یہ وہی ابو سفیان ہےجس کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور جنگوں میں شریک رہاہے۔ شان رسولﷺ دیکھیے کہ آپﷺ نہ صرف اسے معاف فرمادیتے ہیں بلکہ اس کے گھر کو امان کی جگہ قرار دے دیتے ہیں۔ابو سفیان کی بیوی ہندہ دربار رسالت میں شرمندہ کھڑی ہے اسے جنگ احد کا وہ منظر یاد آ رہا ہے جب اس کے حکم پر وحشی نے رسول اللہ ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ ہندہ نے ان کا جگر نکال کر چبایا۔ ہندہ ہی کے کہنے پر حضرت حمزہ کی لاش کی بے حرمتی کی گئی تھی ۔ آج وہ سوچ رہی ہے کہ کس منہ سے اس عظیم پیغمبر ﷺ کے سامنے جائے۔ بالاآخر وہ خدمت رسول ﷺ میں حاضر ہوتی ہے اور مسلمان ہو جاتی ہے ۔ حضورﷺ اسے بھی معاف فرمادیتے ہیں۔ حضرت حمزہ کے قاتل وحشی کو اپنی معافی کا یقین نہیں آرہا ہے۔ وہ خوف کے مارے مکہ سے بھاگ گیا ۔ کچھ عرصہ چھپتا پھرا اور آخر کار رحمت عالم ﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر اسلام قبول کر لیا‘‘
خیبر پختونخوا ٹیسکٹ بک بورڈ پشاور، اردو (لازمی)، برائے جماعت پنجم،ص12-15
اب قارئین فیصلہ کریں کہ کسی صحابیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہمارے نصاب تعلیم میں بچوں کو جب بچپن سے اس طرح کا درس کیاجائے گا تو کیا وہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے دشمنی نہیں رکھیں گےاور کیا ان کے کچے ذہنوں میں ان کیلئے غبار پیدا نہیں ہوگا اور پھر شرمندہ جیسے الفاظ کا لانا ان ہستیوں پر ظلم ہے اورکیا نبی کریم ﷺ کی صفت رحمۃ للعالمین صرف اسی طرح کے واقعات سے ہی سمجھائی جاسکتی ہے؟ ایسے کئی ایک واقعات ہیں جن سے نبی کریم ﷺ کی رحمۃ للعالمین والی صفت ثابت کی جاسکتی ہے نہ کہ کسی صحابی یا صحابیہ کی تنقیص کرکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ ان چیزوں پر نظرثانی کرکے ان تاریخی روایات کو نکال دیں۔

 

خلاصہ بحث:

تاریخی روایات پر فیصلہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ذخیرہ احادیث کی ورق گردانی کی جائے کیونکہ اسلامی تاریخ ہی کی وجہ سے مختلف فرقے ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار رہتے ہیں۔اس لئے تو کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز کی محبت اور بغض انسان کو اندھا بنادیتی ہے اور اسلامی تاریخ اس طرح کی روایات سے بھری پڑی ہے جس میں کسی ایک کی تعریف ہے تو دوسرے کی تنقیص۔ حضرت ہند رضی اللہ عنہا بھی باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح مؤرخین کی روایات سے بچ نہیں پائی ہیں اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کی ہیں کہ جن کو سن کر ہر مسلمان کا خون گرم ہوتا ہے اور پھر جب اس طرح کی روایات کو ٹیکسٹ بک بورڈ کسی نصاب کا حصہ قرار دیتا ہے تو یہ بڑی تعجب کی بات ہے۔

حوالہ جات

  1. الاحزاب40:33
  2. ابو جعفر الطبری،محمد بن جریر،تاریخ الامم والملوک،باب غزوۃ احد،دارالکتب العلمیۃ،بیروت، 1407ھ،ج2،ص59
  3. محمد بن اسحاق بن یسار، سیرۃ ابن اسحاق(المبتداء والمبعث والمعازی)،بابغزوة ذى أمر الى نجد سنة ثلاث،ج3،ص312
  4. سلیمان بن داؤد بن الجارود، مسند ابی داؤد الطیالسی ، دار ھجر للطباعۃ والنشر، 1419ھ/ 1999م،ج2،ص95 رقم761
  5. البخاری،ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل،الجامع الصحیح،باب قَتْلُ حَمْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،دار ابن کثیر بیروت،1407ھ/1087م، ج4،ص1494، رقم3844
  6. ایضاً، باب ذِكْرُ هِنْدٍ بِنْتِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،ج5،ص49، رقم 3825
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...