Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

حضور اکرمﷺ بطور پیمبر امن و سلامتی |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029185_749

Pages

02-25

DOI

10.51411/rahat.2.1.2018.20

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/20/316

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/20

Subjects

Seerah Peace Security mercy Equality Seerah Peace Security mercy Equality

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

یہ امر کسی دلیل اور وضاحت کا محتاج نہیں کہ اندرونی و خارجی سطح پر امن و امان، ذہنی سکون، قلبی اطمینان اور جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ و سلامتی کا احساس انسان کی انفرادی اور اجتماعی ضرورت ہے کیونکہ اس کی تمام معاشرتی، تعلیمی، کاروباری، سیاسی، اقتصادی، قومی اور بین الاقوامی سرگرمیاں اور بھاگ دوڑ پُر امن حالات اور پُرسکون ماحول سے مشروط ہیں۔ دنیوی اور کاروباری مساعی کے علاوہ عبادات اور مذہبی و روحانی مراسم بھی امن و امان کے بغیر ادا نہیں کیے جاسکتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ باری تعالیٰ نے بیت اللہ/ خانہ کعبہ کو مرجع الخلائق ہونے کا اعزاز بخشا تو انسانی اجتماع میں بعض شرپسند اور فسادی طبائع کی وجہ سے متوقّع دنگافساد سے زائرین بیت اللہ کو بچانے کے لیے صرف کعبہ کی چاردیواری ہی نہیں بلکہ میلوں تک پورے حرم کعبہ کو بھی امن کا گہوارہ بنا دیا۔ اب یہاں خون ریزی کی اجازت ہے نہ شکارکی نہ درخت کاٹا جاسکتا ہے نہ سبزہ و گیاہ اکھاڑا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

 

’’وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا ‘‘ ۔[1]

 

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (کعبہ مکرمہ) کو لوگوں کے جمع ہونے کا مرکز اور امن کی جگہ بنایا‘‘۔

 

اسی طرح حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کے بعد اپنے اہل خانہ کو وہاں بسایا تو بارگاہ الٰہی میں یوں دعا کی:

 

’’وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ‘‘۔ [2]

 

’’اور جب (حضرت) ابراہیم ؑنے عرض کی اے میرے رب! اس شہر (مکہ مکرمہ) کو امن والا بنا دے اور اس کے رہنے والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے رزق عطا فرما‘‘۔

 

قرآن مجید کی اس آیت اور بعض دیگر آیات سے مترشح ہوتا ہے کہ انسان کا رزق یا سامان معیشت کا حصول اور فراوانی بطورِ خاص معاشرتی امن کے مرہونِ منت ہیں[3]۔ امن و امان نہ ہو تو انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو ہی نہیں روزی اور معیشت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

 

امن۔ ایک نعمتِ الٰہی:

امن و امان کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ کریم نے معاشرتی امن اور معاشرے کے دنگا فساد، خون خرابہ اور بدامنی سے سلامتی و بے خوفی کو اپنی نعمت عُظمیٰ قرار دیا ہے۔ چنانچہ بعض مفسرّین کے نزدیک اہل مکّہ کو ہی اس نعمت کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:

 

’’وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَءِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَُوْنَ‘‘۔ [4]

 

’’اور اللہ نے (ناشکرے لوگوں کے لیے) ایک بستی (مکہ) کی مثال بیان فرمائی جو امن و اطمینان سے تھی، اس کا رزق اس کے پاس ہر جگہ سے بے روک ٹوک کھلا چلا آتا تھا پھر وہ (بستی والی قوم) اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگی (کہ اللہ کے نبی کو جھٹلایا) تو اللہ نے اس بستی (کے رہنے والوں) کو یہ سزا چکھائی کہ (ان پر سات سال قحط مسلّط کرکے) بھوک اور ڈر کو اس (کے بسنے والوں) کا اوڑھنا بچھونا بنا دیا اس (کفر) کے بدلے جو وہ (ہمارے نبی کے ساتھ) کرتے تھے‘‘۔[5]

 

اسی مفہوم کی ایک دوسری آیت میں ارشادِ الٰہی ہوا:

 

’’وَ قَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا اَوَ لَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘ ۔[6]

 

’’اور انہوں (کفّار مکّہ) نے کہا (اے محمدؐ!) اگر ہم (تم پر ایمان لاکر) تمہارے ساتھ ہدایت (دین اسلام) کی پیروی کریں تو تو (ہمیں ڈر ہے کہ) ہم اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے (ایسا کہنے والے یہ نہیں سوچتے کہ) کیا ہم نے انہیں (مکّہ کی) امن والی محترم جگہ میں جگہ نہیں دی۔ جس کی طرف ہماری طرف سے (ان کی) روزی کے لیے بہت سی چیزوں کے پھل لائے جاتے ہیں؟ لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے‘‘ ۔[7]

 

سورۃ قریش میں بھی رب تعالیٰ نے قریش مکّہ کو اسی مذکورہ نعمت عظمیٰ کی یاددہانی کراتے ہوئے انہیں اپنی بندگی کی طرف متوجّہ کیا ہے۔[8]

 

زندگی میں امن و عافیت اور اطمینان و سکون کی مذکورہ ضرورت و اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کو اگر امن و امان حاصل نہیں، اس کی ذات ہر وقت خوف اور ڈر سے دوچار ہے اور دہشت گردی کا خطرہ ہمہ وقت لاحق ہے تو دنیا بھر کی نعمتیں، مراعات، سامان تعیش حتیٰ کہ اقتدار و اختیارات بھی اس کے لیے بیکار ہیں اس کے برعکس اگر وہ مال و دولت اور تعیشاتِ دنیا سے تہی دامن سہی مگر اسے امن و عافیت اور قوت لایموت حاصل ہے تو یہ چیز دنیا بھر کے خزانوں کے مترادف ہے۔ اسی لیے نبی رحمتﷺ نے فرمایا:

 

’’من اصبح منکم آمنًا فی سِرْبہ معافًی فی جسدہ عندہٗ قوت (طعام) یومہٖ فکأنّما حیزت لہ الدنیا‘‘ ۔[9]

 

’’تم میں سے جو آدمی اس حال میں صبح کرے کہ اسے اپنے گھر میں امن و امان حاصل ہو، اس کا جسم تمام بیماریوں سے محفوظ ہو، اس کے پاس اس دن کی روزی موجود ہو تو گویا ساری دنیا اس کے لیے جمع کردی گئی‘‘۔

 

معاشرے میں اگر امن و امان اور باہمی محبت و اُلفت کی بجائے جنگ و جدال اور عداوت و نفرت کی فضا قائم ہے تو ازروئے قرآن یہ بھی ایک قسم کا عذابِ الٰہی ہے۔[10]

 

بعثتِ نبویؐ کے وقت عالمی فتنہ و فساد:

انسانیت اور انسانی معاشرے کے لیے امن و امان کے انعامِ الٰہی ہونے اور ہر جہت و حوالے سے حددرجہ ضروری ہونے کے باوجود شرپسند عناصر، فتنہ پرداز، انسان دشمن، اپنی طاقت اور اختیارات و وسائل کے بل بوتے پر ظلم و زیادتی کے خوگر، جرائم پیشہ اور فسادی قسم کے لوگوں کے کرتوتوں کے باعث دنیا نبی رحمتﷺکی بعثت سے قبل جس طرح فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی اس کی طرف قرآن مجید نے اپنے معجزانہ ایجاز کے اسلوب میں یوں اشارہ کیا ہے:

 

’’ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ‘‘[11]

 

’’فساد پھیل پڑا ہے خشکی اور تری میں بوجہ ان کرتوتوں کے جو لوگوں کے ہاتھوں نے سرانجام دیے تاکہ وہ (اللہ) انہیں کچھ اس کا مزہ (دنیا کی زندگی میں بھی) چکھائے جو انہوں نے (کفر و نافرمانی کا) کام کیا تاکہ وہ (نافرمانی کی روش سے) باز آجائیں‘‘۔

 

آیت میں الفسا د، البرّ، البحر کے تینوں کلمات میں الف، لام (ا ل) جنس کا ہے کوئی متعیّن برّ و بحر اور کوئی خاص صورت

 

فساد کی مراد نہیں[12]۔ بلکہ عام بیان ہے کسی ملک کسی زمانے کے ساتھ مقیّد نہیں تاہم اس عموم کو اس زمانہ کے ساتھ ایک خصوص بھی حاصل ہے جب یہ آیت کریم نازل ہوئی تھی۔ چنانچہ حبر الامۃ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

 

’’و کان ظھر الفساد برًّا و بحراً وقت بعثۃ رسول اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم، وکان الظلم عمّ الارض، فاظھر اللّٰہ بہ الدین، و ازال الفساد، و اخمدہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ۔[13]

 

’’ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت خشکی اور تری (ساری دنیا) میں فتنہ و فساد غالب اور ظلم و زیادتی دنیا بھر میں عام ہوچکے تھے کہ اللہ نے حضور اکرم ﷺ کے ذریعے دینِ اسلام کو غالب فرمایا، آپ ﷺ نے فساد کو دنیا سے دور فرمایا اور اس کی پھیلائی آگ بجھائی۔ صلّی اللہ علیہ وسلّم‘‘

 

بعثت نبوی کے وقت دنیا بھر میں بپا ہمہ جہتی فتنہ و فساد اور ہر سو پھیلی خرابی اور جرائم کی تفصیل کا یہ موقع ہے نہ گنجائش۔ اردو سیرت نگاروں میں پیر محمد کرم شاہ الازھری نے اس موضوع پر بطورِ خاص بڑی مدلّل اور تفصیلی بحث کی ہے[14]۔ تاہم عرب میں پھیلی طوائف الملوکی، انارکی، بدامنی، قتل و غات اور دہشت گردی کا جو نقشہ علامہ شبلی نعمانی نے کھینچا ہے اس کا درج ذیل اقتباس آیت میں مذکورہ فساد کی وضاحت کے لیے کافی ہوگا۔ چنانچہ علامہ شبلی نے تمام جزیرۂ عرب میں پھیلے مختلف قبائل اور ان کی غارت گری اور مظالم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عمومی صورتِ حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

 

’’ ثقیف اور قریش وغیرہ کی الگ الگ ٹولیاں تھیں جو دن رات خانہ جنگیوں میں مبتلا رہتی تھیں۔ بکرو تغلب کی چہل سالہ جنگ کا ابھی ابھی خاتمہ ہوا تھا۔ کندہ اور حضر موت کے قبائل کٹ کٹ کر فنا ہوچکے تھے، اوس اور خزرج لڑ لڑ کر اپنے ایک ایک سردار کو کھو چکے تھے۔ خاص حرم اورشہرحرم میں بنوقیس اور قریش کے درمیان حرب فجار کا سلسلہ جاری تھا اور اس طرح تمام ملک معرکہ کارزار بنا ہوا تھا۔ پہاڑوں صحراؤں میں جرائم پیشہ قبائل آباد تھے تمام ملک قتل و غارت گری، سفاکی، خونریزی کے خطرات میں گھِرا تھا۔ تمام قبائل غیرمختتم سلسلۂ جنگ کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ انتقام، ثأر اور خون بہا کی پیاس سینکڑوں اور ہزاروں اشخاص کے قتل کے بعد بھی نہیں بجھتی تھی۔ ملک کا ذریعہ معاش غارت گری کے بعد فقط تجارت تھی لیکن تجارت کے قافلوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک گزرنا محال تھا. . . . شہورِ حج عملاً عرب کے مقدّس مہینے تھے بایں ہمہ لڑائیوں کے جواز کیلئےوہ کبھی بڑھا اور کبھی گٹھا دیے جاتے تھے. . . . بہت سے جرائم پیشہ قبائل کے ذریعہ معاش کیلئے یہی موسم بہار تھا مکّہ کے آس پاس اسلم و غفار وغیرہ قبائل آباد تھے جو حاجیوں کا اسباب چرانے میں بدنام تھے طے نہایت ممتاز اور نامور قبیلہ تھا لیکن دزدان طے بھی اپنی شہرت میں ان سے کم نہ تھے الخ‘‘[15]۔

 

حضورﷺکے نظام کا مقصد۔ عالمی امن کا قیام:

حضور اکرم ﷺ ازروئے قرآن چونکہ آفاقی اور دائمی نبی اور رحمۃ للعالمین بھی ہیں اس لیے آپ نے دنیا کو جو پیغام،

 

پروگرام اور حکومتی سیاسی سماجی معاشی اور معاشرتی نظام دیا اس کا ایک بڑا مقصد دنیا بھر سے ظلم و ناانصافی کا خاتمہ، انسانیت کی تعظیم و تکریم، انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت، تمام اسباب فتنہ کا قلع قمع اور جرائم کی بیخ کنی کے ذریعے عالمی سطح پر امن و امان کا قیام اور ہر انسان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے تحفظ و سلامتی کا سامان کرنا بھی تھا۔ چنانچہ ابتدائے اسلام میں اہل اسلام پر کفار مکّہ کے حددرجہ مظالم اور واقعات کی شکایت کرتے ہوئے حضرت خباب بن الارت نے اللہ کے رسول معظم ﷺ سے جب یہ عرض کیا کہ ’’اَلَا تستنصرلنا؟ الا تدعو اللّٰہ لنا؟‘‘ (کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں چاہیں گے اور کیا آپ ہمارے لیے دُعا نہیں فرمائیں گے؟) تو آنجناب ﷺنے دین کی راہ میں پچھلی امتوں کے بعض لوگوں پر ہونے والے مظالم بیان کرکے انہیں حوصلہ دلایا اور اپنے نورِ نبوّت سے پیش گوئی بھی فرمائی کہ:

 

’’واللہ لیتمّنّ ھذالامر حتی یسیراکب من صنعاء الی حضر موت لایخاف الّا اللّہ اوالذئب علی غنمہ ولکنّکم تستعجلون‘‘۔[16]

 

’’اللہ کی قسم یہ معاملہ (دین اسلام) غالب ہوکر رہے گا حتیٰ کہ ایک اکیلا سوار شخص صنعاء (یمن کے ایک شہر کا نام) سے حضرت موت[17]تک اس حال میں سفر کرے گا کہ اسے اللہ کے سوا کسی (لٹیرے) کا ڈر نہ ہوگا یا اپنی بھیڑ بکریوں پر بھیڑیے کا ڈر ہوگا مگر تم جلد بازی سے کام لے رہے ہو (حوصلہ رکھو یہ وقت بھی آئے گا) ‘‘۔

 

اسی طرح مشہور صحابی حضرت عدیؓ بن حاتم کہتے ہیں:

 

’’میں ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور آپ سے (اپنی) تنگدستی کی شکایت کی پھر آپ کے پاس ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے رہزنی (راستوں کے محفوظ نہ ہونے) کی شکایت کی تو آنجناب ﷺنے (مجھے مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا: اے عدی! کیا تونے حیرہ شہر دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اسے نہیں دیکھا البتہ اس کے متعلق سن رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم ضرور (یہ حالات بھی) دیکھو گے کہ ایک اکیلی اونٹ سوار عورت حیرہ (شام) سے روانہ ہوگی یہاں تک کہ (اکیلے پہنچ کر) خانہ کعبہ کا طواف کرے گی مگر اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ قبیلہ طے کے شرپسندوں کا کیا بنے گا جنہوں نے پورے علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے۔ (آپ ﷺنے مزید فرمایا) اور اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم ضرور بر ضرور کسریٰ (شاہ ایران) کے خزانوں کو فتح کرو گے۔ میں نے (حیران ہوکر) عرض کیا: کیا کسریٰ بن ہرمز (موجودہ شہنشاہ ایران کے خزانے) ؟ فرمایا: (ہاں) کسریٰ بن ھرمز (آپ نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا) اور اگر تمہاری زندگی نے مہلت دی تو تم دیکھو گے کہ ایک آدمی مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اس سے وہ قبول کرلے مگر وہ کوئی ایسا ضرورتمند آدمی نہ پائے گا جو اس سے اس مال (صدقہ) کو قبول کرلے الخ‘‘۔[18]

 

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام یا نظامِ مصطفی ﷺکا بڑا مقصد دنیا بھر میں امن و امان کا قیام معاشی خوشحالی اور بلاتفریق ہر آدمی کیلئےایسے پُرامن حالات و ماحول مہیا کرنا ہے کسی بھی آدمی کو اپنی جان و مال یا عزت و آبرو لٹنے کا اندیشہ نہ رہے۔

 

حضور اکرمﷺ کی دعوت میں امن و سلامتی مُضمر:

نبی رحمت ﷺ اپنے پروردگار کی طرف سے جس پیغام اور دعوت کو لے کر مبعوث ہوئے اس کا اصطلاحی نام ’’اسلام‘‘اور ’’ایمان‘‘ہے۔ ان اصطلاحات کی کلامی مباحث اور تفصیل کا یہ محل نہیں۔ تاہم زیربحث موضوع کے حوالے سے ان الفاظ کے لغوی معنی و اشتقاق کو دیکھا جائے تو اسلام کے لفظ سے ہی سلامتی ٹپکتی اور ایمان کے مادہ ہی سے امن و امان کا تصوّر رستا ہے۔ گویا حضور اکرم ﷺ کی دعوت کے الفاظ میں ہی امن و سلامتی کا پیغام مضمر ہے۔ یہاں اس اجمال کی تفصیل پر انتہائی اختصار کے ساتھ ایک نظر ڈالنا بے جا نہ ہوگا۔

 

چنانچہ ایمان کا مادہ اشتقاق ’’اَمْنٌ‘‘ہے۔ جس کا معنی ہے ہر قسم کے خوف خطرہ اور ڈر سے مامون، محفوظ اور مطمئن ہونا۔ اسی طرح اسلام کا مادہ ہے ’’سِلْم‘‘ یعنی ہر قسم کے عیب یا نقصان سے سلامت اور حفاظت میں ہونا۔ اب جو شخص اصطلاحی ایمان اور اسلام کو قبول کرتا ہے اسے اصطلاحی و لغوی اور صرفی اعتبار سے مُؤمن ومُسلم کہیں گے۔ تو مؤمن وہ آدمی کہلائے گا جو اپنے اور دوسروں کے لیے امن چاہے اور مسلم یا مسلمان وہ ہے جو خود اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہے۔ اس معنی و مفہوم کی تائید درج ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

 

1۔ معروف صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ الخ ‘‘ ۔[19]

 

’’کامل درجے میں مسلم / مسلمان وہ آدمی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے تمام مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

 

2۔ حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیں میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا:

 

’’ای الاسلام افضل؟ قال من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ‘‘ ۔[20]

 

’’کون سا (یا کس آدمی کا) اسلام سب سے فضیلت والا (بہتر) ہے۔ آپﷺنے فرمایا: وہ آدمی جس کی زبان (درازی) اور ہاتھ (کے ظلم) سے دوسرے جملہ مسلمان سلامت رہیں‘‘۔

 

مذکورہ احادیث میں کمالِ اسلام کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ تمام مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے محفوظ رہیں جبکہ درج ذیل احادیث میں یہ بتایا کہ اس کے صرف ہم مذہب ہی نہیں بلکہ تمام لوگ اس کے مذکورہ شر سے محفوظ رہیں۔ چنانچہ:

 

3۔ حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا:

 

’’ایّ المسلمین خیر؟ قال من سلم الناسُ من لسانہٖ ویدہٖ ‘‘ ۔[21]

 

’’سارے مسلمانوں میں کونسا آدمی سب سے بہتر ہے؟ فرمایا جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے (بلاتفریق) تمام لوگ سلامت رہیں‘‘۔

 

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے کمالِ اسلام کا معیار (Criteria) اس کی نماز روزہ عبادات اور ظاہری دینداری نہیں بلکہ یہ ہے کہ کسی قسم کی مذہبی لسانی نسلی گروہی نظریاتی اور مسلکی تفریق کے بغیر تمام لوگ اس کی زبان اور ہاتھ کے شر اور ظلم و زیادتی سے محفوظ رہیں۔

 

4۔ حضرت ابوہریرہؓ کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے ایک کامل مؤمن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

 

’’والمؤمن من اَمنہ الناس علی دماء ھم واموالہم‘‘ ۔[22]

 

’’کامل مؤمن وہ ایمان دار ہے جس سے تمام لوگ اپنے خون/ جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں‘‘۔

 

5۔ حضور اکرم ﷺ نے اہل ایمان پر واضح فرمایا کہ:

 

’’المؤمن من امنہ الناس علی اموالہم و انفسہم الخ ‘‘ ۔[23]

 

’’اور کامل درجے میں مؤمن وہ آدمی ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ تصوّر کریں‘‘۔

 

یہاں بھی کمال ایمان کامدار کسی کی کثرتِ عبادت، ذکر و اذکار اور ظاہری تدیّن نہیں بلکہ تمام لوگوں کا اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں اس سے محفوظ و مامون ہونا ہے۔

 

حضور اکرمﷺ کی سرشت میں امن پسندی:

حضور اکرم ﷺ کی ویسے تو ساری زندگی اور اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد کا طرز عمل اور متعدّد اقدامات (جیسا کہ آگے آرہا ہے) امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہیں ہم آنجناب ﷺ کی حد درجہ دوراندیشی، زیرکی، باطنی بصیرت، انتہاء درجے کی عقلمندی، معاملہ فہمی اور صبر و برداشت جیسے اوصاف حمیدہ یا نورِ نبوّت کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔ تاہم ایّام شیرخوارگی اور بالکل بچپن سے ہی آپ کے طور اطوار اور بعض عادات سے مترشح ہوتا ہے کہ امن پسندی اور صلح جوئی آپ کی سرشت اور جبلّت و فطرت میں داخل تھی۔ جس کی طرف قاضی سلیمان منصورپوری نے یوں اشارہ کیا ہے:

 

’’نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کے والدین کے اسماء پر نظر کرو، اس زمانہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے ہر ایک مؤرّخ تعجّب کرے گا کہ ایسے پاک نام کیوں کررکھے گئے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بھی ارہاصِ نبوّت تھا، جس بچے کو باپ کے خون سے عبودیت الٰہی اور ماں کے دودھ سے امن عامہ کی گھٹی ملی ہو، کچھ تعجب نہ کرنا چاہیے کہ وہ محمود الافعال حمید الصفات ہو اور تمام دنیا کی زبان سے محمد کہلائے[24] ‘‘۔اس چیز کو اگر ہم ان الفاظ سے تعبیر کریں تو شاید بے ادبی نہ ہوگی کہ جس بچے کے نُطفے میں عبودیت الٰہی کا عنصر شامل ہو جس نے نو ماہ تک سیدہ آمنہؓ کے شکم مبارک میں امن کی تربیت پائی ہو پھر اس نے دو سال تک سیدہ حلیمہؓ کی چھاتی مبارک سے حِلْم کا دودھ پیا ہو تو اس کی سرشت اور جبلّت میں بندگی، امن پسندی اور حوصلہ و برداشت کی صفات نہ ہوں گی تو اور کیا ہوگا۔ پھر آپ ﷺ کی بعض عادات اور معمولات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں مثلاً آپ کی رضاعی ماں سیدہ حلیمہؓ آپ کو پہلی دفعہ جناب کی والدہ ماجدہ سے لے کر اپنی گود میں لینے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’میں آپﷺکو لے کر اپنی منزل (رہائش) کی طرف آگئی، اپنی گود میں بٹھایا تو میری (خشک) چھاتی دودھ سے لبریز ہوگئی[25] میں نے چھاتی کی دائیں جانب پیش کی تو حسبِ منشا دودھ نوش فرماکر منہ ہٹالیا۔ میں نے بائیں طرف سے دودھ پلانے کی کوشش کی تو دودھ نہ پیا اور یہ عادت (بائیں طرف سے دودھ نہ پینا) بعد میں بھی جاری رہی‘‘۔[26]

 

اس عادتِ محمدیہ پر علّامہ سہیلی کا تجزیہ و تبصرہ یہ ہے کہ:  

 

’’گویا آپﷺ کو معلوم ہوچکا تھا کہ ماں کے دودھ میں آپﷺ کا ایک شریک بھائی بھی ہے اور عدل کرنا آپ ﷺکی فطرت میں داخل تھا‘‘۔ [27]

 

اسی طرح ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ نے ابن سعدؒ کے حوالے سے بچپن کی ایک اَور عادت کریمہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لڑنا جھگڑنا اور بدامنی کا محرک کوئی کام کرنا آپ کی فطرت میں ہی شامل نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

 

’’ابن سعد کے مطابق ابوطالب کے گھر میں بچوں کا ناشتہ جب آتا تو سب مل کر ’’لوٹ لیتے‘‘لیکن جب چند مرتبہ دیکھا کہ یتیم بھتیجا اس لوٹ میں شریک نہیں رہتا تو پھر آپ کا ناشتہ الگ اور مستقل دیا جانے لگا‘‘۔[28]

 

علیٰ ہٰذا القیاس حضور اکرم ﷺ نے بچپن میں ایک مرتبہ حضرت جابر بن سمرہ کے ساتھ مل کر سیدہ خدیجہ کی ایک بہن کے اونٹ اجرت پر چرائے۔ مدت اجارہ ختم ہوگئی تو ان کا کچھ پیسہ مالکہ کے ذمہ رہ گیا۔ آپ کا مذکورہ ساتھی اس خاتون کے پاس جاتا اور مزدوری کا تقاضا کرتا۔ ایک دن اس نے آپ سے کہا: آپ بھی میرے ساتھ چلیں اور اس خاتون سے اپنی مزدوری کا مطالبہ کریں۔ فرمایا تم ہی جاؤ مجھے تو اس سے پیسے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ پھر جب وہ ساتھی گیا تو اس خاتون نے پوچھا: ’’این محمد‘‘ (محمد کہاں ہیں؟) اس نے اوپر والی بات کہہ سنائی تو وہ کہنے لگی:

 

’’مارأیت رجلاً اشدّ حیاءً ولا اعفّ منہ‘‘۔ [29]

 

’’میں نے ان (محمد) سے بڑھ کر کوئی آدمی حیادار اور پاکدامن نہیں دیکھا ‘‘۔

 

امن و سلامتی کے لیے اقدامات:

نبی رحمت ﷺ آج کل کی بعض بڑی طاقتوں اور سیاستدانوں کی طرح امن و سلامتی کے زبانی کلامی دعویدار نہیں تھے بلکہ

 

آپ ﷺ نے امن و سلامتی کا ایک اعلیٰ نمونہ بن کر دکھایا۔ امن و سلامتی کی تعلیمات و ہدایات اور بد امنی کے تمام اسباب و محرّکات کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے زندگی بھر اعلان نبوت سے پہلے اور بعد امن و سلامتی اور صلح و آشتی کے لیے جو اقدامات فرمائے ان تمام کے احاطہ کی یہاں گنجائش نہیں ہوسکتی اس لیے ہم ثبوتِ دعوٰی کے طور پر چند ایک کے ہی مختصر ذکر پر اکتفا کریں گے۔

 

قیامِ امن اور خاتمۂ ظلم کی انجمن میں شرکت:

پیچھے گزر چکا ہے کہ عرب کا معاشرہ لڑاکا اور جنگجو قسم کا تھا۔ علاوہ ازیں غریب لوگوں پر ظلم و زیادتی بڑے لوگوں کا عام وطیرہ تھا۔ ملک بھر میں بدامنی، راستوں کا محفوظ نہ ہونا، مسافروں کا لٹ جانا ایک معمول بن چکا تھا۔ ایسے حالات میں مکّہ ایک رئیس اور بااثر آدمی عاص بن وائل سہمی نے جب قبیلہ زبیر کے ایک اجنبی مسافر کا حق مار کر حرم کعبہ کا بھی پاس نہ کیا تو حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک اور ایما پر قبیلہ تیم کے بزرگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں چند قبائل کے معزّزین اور سرکردہ حضرات اس مقصد میں غور کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ حضور اکرم ﷺاگرچہ اس وقت بیس سال کے نوجوان تھے[30] اور یہ عمر عام طور پر مذکورہ قسم کے قومی اور معاشرتی سنجیدہ مسائل و معاملات میں شرکت کی نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود امن و آتشی، صلح و مصالحت، انسانی ہمدردی و خیرخواہی اور مظلوموں کی حمایت و نصرت کے فطری جذبہ کے تحت جو آپﷺ کے اندر انگڑائیاں لے رہا تھا، آپﷺبھی اس میں شامل ہوئے ۔ معاشرتی امن و امان اور اطمینان و سکون کی تباہی کا بڑا سبب چونکہ کسی بھی آدمی پر ظلم و زیادتی اور حق تلفی ہوا کرتا ہے۔ اس لیے اس مجلس مشاورت نے یہ پختہ عہد کیا کہ:

 

1۔ اہل مکّہ یا باہر سے آنے والے کسی بھی آدمی پر ظلم ہوگا تو ہم ہمیشہ اس کی حمایت میں ایک ہاتھ اور طاقت بن جائیں گے۔

 

2۔ ظالم کے خلاف یہ ہاتھ اس وقت تک اٹھا رہے گا جب تک کہ وہ مظلوم کا حق واپس نہ کردے۔[31]

 

3۔ ہر اجنبی اور مسافر کے جان ومال کی حفاظت کریں گے۔[32]

 

اس معاہدہ کو ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ عہد قدیم میں بنو جرھم نے بھی اس قسم کا ایک معاہدہ کیا تھا اور جن تین آدمیوں نے اس معاہدہ کی تحریک کی تھی اور اسے پروان چڑھایا تھا ان تینوں کا نام فضل تھا۔ کیونکہ اس معاہدہ کے بھی وہی مقاصد تھے اس لیے اس کو بھی ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ جب یہ معاہدہ طے پاگیا تو سب مل کر عاص مذکور کے گھر گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس تاجر کا مال واپس کردے۔ اب اسے مجالِ انکار نہ رہی اور اس نے مجبوراً اس کا مال واپس کردیا۔ اس موقع پر حضرت زبیر بن عبدالمطلب نے یہ اعلان یا عہد کیا کہ:

 

ان الفضول تعاقدوا و تحالفوا

 

الایقیم ببطن مکّۃ ظالم

 

’’بیشک فضل نامی معاہدہ کرنے والوں نے قسم اٹھائی کہ سرزمین مکّہ میں کوئی ظالم نہیں ٹھہر سکے گا۔‘‘

 

امر علیہ تعاقدوا وتوافقوا

 

فالجار والمعتر فیھم سالم

 

’’یہ ایسی بات ہے جس پر ان سب نے متفقہ معاہدہ کیا پس پڑوسی اور فقیر جو ان کے ہاں ہوگا ہر قسم کے جور و ستم سے محفوظ ہوگا‘‘۔[33]

 

یہ معاہدہ چونکہ رحمت عالمﷺکی فطرت سلیمہ، امن پسند طبیعت اور انصاف پسند مزاج کے عین مطابق اور آنجنابﷺ کے غمخوار دل کی آواز تھا اس لیے بعثت کے بعد بھی حضورﷺاس معاہدہ میں شرکت پر بڑے فخر کے ساتھ اظہارِ مسرّت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ فرمایا:

 

’’لقد شھدت فی دار عبداللہ بن جدعان حلفا ما احب ان لی بہ حمر النعم ولو دعی بہ فی الاسلام لاجبت‘‘یعنی ’’کہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حاضر تھا جب حلف فضول طے پایا۔ اس کے بدلے میں اگر مجھے کوئی سرخ اونٹ دے تب بھی میں لینے کیلئے تیار نہیں۔ اور اس قسم کے معاہدہ کی دعوت اسلام میں بھی اگر کوئی مجھے دے تو اسے قبول کروں گا۔‘‘

 

اس قیام انجمن میں نبی رحمتﷺکی شرکت محض خانہ پری اور برکت کے لیے نہیں تھی بلکہ آپﷺنے اس میں بھرپور کردار ادا کرکے اور نوجوانوں کا ایک مسلّح دستہ ساتھ ملا کر اس میں جان ڈال دی تھی۔ چنانچہ مکّہ کے ایک دولت مند تاجر نے ایک حاجی کی بیٹی اغوا کرلی تو نوجوان دستہ کی مدد سے بچی کو برآمد کرایا، اسی طرح ابو جہل نے مکّہ میں آنے والے ایک تاجر سے سامان خرید کر قیمت ادا کرنے میں لیت و لعلّ سے کام لیا تو آپﷺنے اکیلے جاکر اس تاجر کو ابوجہل سے قیمت دلوائی۔[34]

 

حجرِ اسود کی تنصیب اور خونریزی کا سدّباب:

امن و امان کے حوالے سے حضور اکرمﷺکی زندگی کا دوسرا اہم واقعہ یا حیران کن اقدام جس سے آپ کی انتہائی اور خداداد ذہانت و فطانت، فہم و بصیرت اور عقلمندی کا اظہار ہوا اور جس نے اہل مکّہ کو ایک بہت بڑی متوقع خونریزی، تصادُم، دنگافساد اور لڑائی جھگڑے سے بچا لیا وہ حجرِ اسود کی تنصیب کا محیر العقول فیصلہ ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب آنجنابﷺکی عمر 35سال تھی تو اس وقت اہلِ مکّہ نے معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے بیت اللہ کی عمارت منہدم ہو جانے کے باعث اسے نئے سرے سے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ تعمیر کی تفصیل میں جائے بغیر جب عمارت مکمل ہوگئی تو حجر اسود کی تنصیب میں تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ یہ اعزاز اس کے حصّے میں آئے، تلواریں بے نیام ہوگئیں، چار دن تک یہی جھگڑا چلتا رہا، آخر ایک بزرگ اور عمر رسیدہ ابوامیہ بن مغیرہ کے مشورہ پر یہ فیصلہ ہوا کہ جو بھی آدمی ابھی حرم شریف میں باب الاسلام سے پہلے داخل ہو اسے اپنا حَکَم تسلیم کرلو وہ جو بھی فیصلہ

 

کرے سب کے لیے قابل قبول ہو۔

 

حُسنِ اتفاق ہی نہیں بلکہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مذکورہ باب سے سب سے پہلے داخل ہونے والے آدمی حضور اکرمﷺتھے۔ آپﷺکو دیکھ کر سب بیک زبان کہنے لگے: یہ محمد امین ہیں جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہوگا۔ حضور اکرمﷺکو قطعاً اس صورتِ حال کا علم نہ تھا۔ جب سارا معاملہ سامنے آیا تو آپ نے ایسا معتدل، منصفانہ اور حیرت انگیز فیصلہ فرمایا جس نے سب کو مطمئن کردیا۔ حضورﷺچاہتے تو یہ اعزاز خود ہی حاصل کرسکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا بلکہ ایک بڑی چادر میں حجر اسود رکھ کر تمام قبائل کے نمائندوں/ سرداروں کے ہاتھوں میں چادر کے کنارے پکڑا کر اوپر اٹھانے کو کہا، سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور حجر اسود کو مقررہ جگہ کے سامنے لائے تو حضورﷺنے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا۔ یوں حضورﷺنے کمال عقلمندی اور حسن تدبیر سے ایک خونخوار جنگ کا سدّباب کردیا ورنہ یہ وہی لوگ تھے جو ذرا ذرا سی باتوں پر جنگ آزمائی سے باز نہ آتے تھے۔[35]

 

قریشِ مکّہ کی ایذارسانی پر صبر:

قریشِ مکّہ کی مسلسل ایذاء رسانی اور استہزاء پر حضورﷺکا صبر اور اہل اسلام کو ان کی اذیت رسانی پر صبر و برداشت کی تلقین بھی امن پسندی کی دلیل ہے۔ علّامہ حلبی کی صراحت کے مطابق حضورﷺکے اعلان نبوت کے بعد قریش مکّہ میں ابوجہل، ابولہب، عقبہ بن ابی معیط، حکم بن ابی العاص، عاص بن وائل، ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث اور حارث بن قیس وغیرہ جیسے بدبخت حضور اکرمﷺکے ساتھ استہزاء اور اذیت پہنچانے میں پیش پیش تھے۔ یہ بدنصیب لوگ کس طرح حضورﷺکا مذاق اُڑاتے، بدتمیزیاں کرتے، کیسے تنگ کرتے، کیسے ستاتے، کیسے منہ چڑاتے؟ یہ دلگداز اور جگر پاش داستان سیرۃ ابن ھشام، سیرۃ حلبیہ کے علاوہ متعدّد عربی اردو کتبِ سیرت میں موجود ہے۔ جس کی تفصیل یہاں مقصود ہے نہ ممکن[36]۔اسی طرح حضرت بلال، یاسر، عمار بن یاسر، ابوفکیہ، صہیب رومی اور حضرت خباب بن الات اور دوسرے آزاد مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کے ریکارڈ توڑے گئے اور جسمانی اذیتوں کی حدیں عبور کی گئیں ان کی تفصیل کی بھی یہاں گنجائش نہیں[37]۔ اس اشتعال انگیز صورتِ حال میں حضورﷺکا اپنے معتقدین، اپنے ماننے والوں کی جماعت اور قبائلی عصبیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی جتھا بنا کر مزاحمت کی بجائے ہمیشہ صبر سے کام لینا اور ان تمام مصائب کا سہتے رہنا بھی آنجنابﷺ کی امن پسندی کی دلیل ہے۔

 

ہجرت حبشہ و مدینہ ۔ امن پسندی کا ثبوت:

نبوت کے پانچویں سال جب کفّار مکّہ نے مسلمانوں کو ستانے میں حد کردی اور وہاں اپنا مذہب بچانا اور اپنے عقیدہ و نظریہ کے مطابق زندگی گزارنا ہی نہیں جان بچانا بھی مشکل ہوگیا تو نبئ رحمتﷺنے مسلمانوں کو قریبی عیسائی ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت فرمادی اور فرمایا: وہاں کا بادشاہ رعایا پر ظلم نہیں کرتا چنانچہ نبی کریمﷺکی اجازت سے اولاً 12 مردوں 4 خواتین پر مشتمل ایک چھوٹا قافلہ حبشہ چلا گیا۔ اس قافلہ میں حضورﷺکے داماد حضرت عثمانؓ بن عفان اور آپ کی لخت جگر سیدہ رقیہؓ بھی تھیں۔ بعدازاں کوئی 83 مردوں اور 18عورتوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک بڑا قافلہ اپنا دین اور جان بچانے کی خاطر اپنا گھر بار، کاروبار اور وطن چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرگیا۔[38]

 

اسی طرح اہل مدینہ کی طرف سے بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد مدینہ منوّرہ میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے حالات سازگار ہونے پر نبی رحمتﷺنے پہلے ان مسلمانوں کو جو ابھی مکّہ سے باہر نہیں گئے تھے لیکن ان پر مصائب کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے یثرب (مدینہ منوّرہ) چلے جانے کی اجازت فرمادی۔ بعدازاں خود بھی مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت فرمائی جس کی تفصیل یہاں مطلوب نہیں[39]

 

یہ دونوں ہجرتیں خصوصاً ہجرت مدینہ بھی حضور اکرمﷺکی امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب تو مسلمانوں میں حضورﷺکے چچا حضرت امیر حمزہؓ اور حضرت عمرؓ بن خطاب جیسے رعب داب والے اور معاشرتی اثر و رسوخ کے حامل لوگوں سمیت ایک معقول تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوچکی تھی۔ حضور چاہتے تو ہجرت کی رات اپنے گھر کے محاصرہ کے وقت حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ جیسے جان نثاروں اور دلیروں کو مقابلے میں لاسکتے تھے۔ حضور اکرمﷺنے بادل نخواستہ اپنا گھر، وطن اور مکّہ مکرمہ جیسا پاکیزہ اور محبوب آبائی شہر خاموشی سے چھوڑنا قبول کرلیا مگر مکّہ مکّرمہ کے پُرامن شہر اور پُرامن ماحول میں کسی قسم کی بدامنی اور فتنہ و فساد کھڑا نہ کیا۔

 

میثاقِ مدینہ ۔قیامِ امن کی زبردست تدبیر:

مدینہ منوّرہ ہجرت کے بعد حضور اکرمﷺنے وہاں قیام امن کے لیے جو بہت بڑا قدم اٹھایا اور تدبیر فرمائی وہ مدینہ منوّرہ کے اندر قیام پذیر مسلمانوں (مہاجرین وانصار) ، یہودیوں، مختلف النسل لوگوں اور مختلف قبائل کے درمیان ایک تحریری معاہدہ تھا جو سیرت کی کتابوں میں ’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے معروف ہے جس کا بنیادی مقصد باہمی حقوق کی پاسداری، ایک دوسرے کی اعانت، آپس میں جنگ کی ممانعت، ظلم و زیادتی کا استیصال، بیرونی حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع، ظالم آدمی سے کسی بھی قسم کے تعاون سے گریز اور صرف مدینہ منورہ میں ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے تمام علاقوں میں امن کا قیام تھا۔ گویا یہ ایک پُرامن بقائے باہمی (Coexistence) کا معاہدہ تھا، جس سے امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرنے میں بڑی مدد ملی۔ سیرت کی دیگر متعدد کتابوں کے علاوہ نامور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اپنی کتاب ’’مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ ‘‘اور ’’عہد نبوی کا نظامِ حکمرانی‘‘میں اس کی تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔ اس کی 48 دفعات میں سے درج ذیل چند دفعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کس طرح امن و امان قائم رکھنے کے لیے تدابیر کی گئیں اور کتنی دفعات رکھی گئی تھیں۔

 

دفعہ 22: جو مسلمان اس تحریری دستاویز کو تسلیم کرے، اللہ اور آخرت پر ایمان رکھے اس کے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ وہ کسی فسادی اور قانون شکن شخص کی مدد کرے یا اسے پناہ دے۔

 

دفعہ 45 (الف) : اگر ان لوگوں کو کہیں سے صلح کی دعوت دی جائے یا صلح میں شمولیت کا کہا جائے تو وہ اسے قبول کریں

 

گے اور اس میں شامل ہوں گے۔

 

دفعہ 48: یہ دستاویز کسی ظالم اور مجرم کے آڑے نہیں آئے گی۔ جو شخص مدینہ سے باہر نکلے گا وہ بھی محفوظ رہے گا اور جو مدینہ میں رہے گا وہ بھی محفوظ، سوائے اس کے جو زیادتی یا جرم کرے۔

 

دفعہ 47: مدینہ ایک مکمل پرامن اور محفوظ شہر رہے گا اور مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کو آزادی ہوگی کہ چاہیں تو شہر میں رہیں اور چاہیں تو شہر سے باہر منتقل ہو جائیں۔

 

دفعہ 13: اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا جبراً کوئی چیز حاصل کرنا چاہے یا گناہ یا ظلم کا ارتکاب کرے یا کوئی شخص ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے تو ایسے شخص کے خلاف بھی ان کے ہاتھ اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔[40]

 

صلح حدیبیہ ۔امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت:

حضور اکرمﷺکی امن پسندی، لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد سے گریز، امن و امان کی خاطر اپنی اَنا کو آڑے نہ آنے دینے اور صلح جوئی کا سب سے بڑا ثبوت حدیبیہ کے مقام پر اہلِ مکّہ کے ساتھ دس سال کے لئے جنگ بند ی اور صلح کا تاریخی معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ کے پس منظر اور پیش آمدہ واقعات کی تفصیل حدیث و سیرت کی تمام کتابوں میں موجود ہے ۔ اہل علم سے یہ امر مخفی نہیں کہ اس موقعہ پر چودہ سو جان نثار صحابہ حضورﷺکے ہمراہ تھے جنہوں نے مرمٹنے پر دست نبوی پر بیعت بھی کرلی تھی اور جن میں وہ 313 جانباز بھی موجود تھے جنہوں نے میدانِ بدر میں اہل مکّہ کے ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل مسلح لشکر کو شکست دی تھی۔ یہ مسلمان یقیناًاس پوزیشن میں تھے کہ اگر نبی اکرمﷺاشارہ فرمادیتے تو قریش کے نہ چاہنے کے باوجود وہ زبردستی مکّہ میں داخل ہوجاتے اور عمرہ کرکے ہی واپس ہوتے مگر آپﷺنے شہرِ حرم کی حرمت، بعض بڑے مقاصد اور امن کی خاطر اہلِ مکّہ کی من مانی شرائط پر ہی جنگ کی بجائے صلح کو ترجیح دی۔

 

ان شرائط میں بڑی کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا جن سے شکست خوردگی کا تأثر مل رہا تھا چنانچہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر قریش کا کوئی آدمی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آپ کے پاس چلا آئے گا تو آپﷺاسے واپس لوٹائیں گے اور اگر آپﷺکا کوئی آدمی قریش کے پاس چلا آیا تو وہ اسے واپس نہیں بھیجیں گے۔ مسلمانوں کو یہ شرائط اور اتنا دب کر اور مرعوب ہوکر صلح کرنا ہضم نہیں ہورہا تھا۔ ان میں شدید بے چینی کی فضا پیدا ہوگئی تھی حتیٰ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ دیر ضبط نہ ہوسکا اور انھوں نے ایمانی حمیت و غیرت میں حضور اکرمﷺکے سامنے جسارت کرتے ہوئے اپنے تحفّظات اور اشکالات کا اظہار بھی کر ڈالا جس کا انہیں زندگی بھر افسوس رہا اور اس کی تلافی کے لیے نفلی عبادات اور صدقہ خیرات بھی کرتے رہے۔ حضور اکرمﷺاپنے نورِ نبوّت سے اس صلح میں متعدد قسم کی فتوحات پر مشتمل جو ’’فتح مُبین‘‘ اور جنگ بندی اور امن و امان کے نتیجے میں اسلام کا فروغ اور اللہ کی منشا دیکھ رہے تھے وہ حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کو نظر نہیں آرہی تھی۔ اس لیے آپﷺنے ان کی تسکین اور ہر قیمت پر معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پورے وثوق اور اللہ پر بھرپور اعتما د سے صحابہؓ پر واضح فرمایا:

 

’’انا عبداللّٰہ ورسولُہ لن اخالف امرہ ولن یضیعنی‘‘۔ [41]

 

’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں ہرگز اس کے حکم کے خلاف نہیں کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں ہونے گا‘‘

 

سلام کہنے کی تعلیم و تلقین:

نبی رحمتﷺنے امن و سلامتی کے فروغ کے لئے جو متعدد اقدامات اٹھائے ان میں سے ایک بالکل آسان اور منفرد قدم جسے عمل کے ساتھ تعلیمی و تربیتی بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور جس نے معاشرے میں امن و سلامتی کے ساتھ باہمی محبت اور پیار کو فروغ دیا اور لوگوں کو امن و سلامتی کی اہمیت بھی ذہن نشین کرائی، وہ ہے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر ملاقات کے وقت سلام (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ) کہنے کی تعلیم و تلقین اور ترغیب۔ یہ سلام اپنے لغوی اور مرادی معنی کے اعتبار سے مخاطب یا ملاقاتی کے لئے صرف زبان سے سلامتی کی دعاء ہی نہیں بلکہ متکلم کی طرف سے اس بات کا اعلان اور اقرار بھی ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مامون اور محفوظ ہو۔ میری ذات سے تمہیں کسی طرح کا ڈر اور خوف نہیں رہنا چاہیے۔ تم ہر طرح سے تسلی اور اطمینان رکھو۔ 

 

یہاں سلام کے شرعی فضائل اور فقہی آداب اور احکام و مسائل کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں بلکہ معنوی اعتبار سے اس کی ضرورت و افادیت اور اثرات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ:

 

’’اَنّ رجلًا سأل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: ای الاسلام خیرٌ؟ قال: تطعلم الطعام وتقرء السلام علی من عرفت و من لم تعرف‘‘ ۔[42]

 

’’بیشک ایک آدمی نے رسول اللہﷺسے پوچھا کونسا اسلام (کا عمل) سب سے بہتر ہے؟ آپﷺنے فرمایا: یہ کہ تو (خلق خدا) کو کھانا کھلائے اور ہر اس آدمی کو سلام کہے جسے تو جانتا ہو اور جسے نہ جانتا ہو‘‘۔

 

حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا اور دیگر نصوص سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ کھانا کھلانا مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اسی طرح سلام کے حوالے سے بھی ’’مَن‘‘ کے اندر عموم ہے اور مخاطب کا مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ شاید اسی لیے بعض فقہاء نے غیر مسلموں کو بھی ممانعت کی بعض روایات کے باوجود سلام کی اجازت دی ہے۔[43]

 

دیگر مذاہب کی تصدیق و تصویب نہ کہ تکذیب:

معاشرے میں امن و سلامتی کے فروغ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات نبوی میں سے ایک انتہائی مؤثر قدم دوسرے مذاہب کی تصدیق و تصویب بھی ہے۔ بدامنی، لڑائی جھگڑا، باہمی عداوت و نفرت اور عدم تحفظ و سلامتی کا ایک بہت بڑا سبب مذہبی تعصّب یا دوسرے مذاہب و ادیان کی تکذیب اور ان مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ بعثت نبوی کے وقت یہود و نصاریٰ میں مذہبی تعصب اس حد تک موجود تھا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے سوا باقی تمام مذاہب کو جھوٹا اور نجات کے لئے کافی نہیں سمجھتا تھا۔ قرآن مجید نے ان کی اس ذہنیت اور سوچ سے اپنی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 113 (وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْ ءٍ الخ) اور آیت نمبر 135 (وَ قَالُوْا کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَھْتَدُوْا الخ) میں پردہ اٹھایا ہے۔

 

اس کے برعکس نبی رحمتﷺنے پیمبر امن و سلامتی ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں کہا کہ دنیا کے دیگر تمام مذاہب جھوٹے اور ان کی ماننے والے جہنمی ہیں۔ بلکہ اعلان فرمایا کہ دنیا کا ہر مذہب اپنی اصل میں سچا اور خدا کی طرف لے جانے والا ہے بشرطیکہ اس میں کوئی تحریف اور حذف و اضافہ نہ ہوا ہو۔ چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت 62 اور پھر سورۃ المائدہ کی آیت 69 میں معمولی سے لفظی فرق کے ساتھ یہ بات دہرائی گئی ہے کہ:

 

’’بے شک جو لوگ ایمان لائے (پیغمبر اسلام پر) اور جو لوگ یہودی ہیں نیز عیسائی اور صابی مذہب والے غرض جو بھی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک کام کرے تو ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے ہاں اور نہ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

 

اسی طرح 7ھ میں آپ نے قیصر روم اور شاہ حبشہ وغیرہ عیسائی حکمرانوں کے نام جو دعوتی خطوط ارسال فرمائے ان میں یہ درج نہ تھا کہ عیسائیت جھوٹا مذہب ہے اسے ترک کردو بلکہ ان میں آل عمران کی آیت 64 کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں دعوت دی گئی کہ:

 

’’اے اہلِ کتاب (الہامی کتاب کے ماننے والو) ! آؤ ایک ایسے کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے بعض کو رب نہ بنالیں‘‘۔[44]

 

اس سے بڑھ کر صلح کل، رواداری، وسعت قلبی اور فراخ نظری کا مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں’’ایک یہودی کے لیے حضرت موسٰیؑ کے سوا کسی اَور پیغمبر کو ماننا ضروری نہیں، ایک عیسائی تمام دوسرے پیغمبروں کا انکار کرکے بھی عیسائی رہ سکتا ہے، ایک ہندو تمام دنیا کو ملیچھ شودر اور چنڈال کہہ کر بھی پکا ہندو رہ سکتا ہے، ایک زرتشتی تمام عالم کو بحرظلمات کہہ کر بھی نورانی ہوسکتا ہے اور وہ حضرت ابراہیم و موسی علیہم السلام کو نعوذ باللہ جھوٹا کہہ کر بھی دینداری کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن محمد رسول اللہﷺنے یہ ناممکن کردیا ہے کہ کوئی ان کی پیروی کا دعویٰ کرکے ان سے پہلے کسی پیغمبر کا انکار کرسکے‘‘۔[45]

 

ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے زیر بحث موضوع کے حوالے سے نبی رحمتﷺکی امن و آشتی کی تعلیمات اور صلح کل کی پالیسی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

 

’’ان آیات اسلام نے مذاہب عالم کو دعوت دی اور آج بھی وہ دعوت باقی ہے کہ اپنے ہاں کے اصلی مذہب پر رجوع کرو۔ بعد کے زمانے کے حذف و اضافے سے باز آؤ اور توحید، قیامت اور عمل صالح کے سہ گانہ مابہ الاشتراک کے اوپر انضمام نہیں تو وفاق کرلو۔ ہر مذہب کی اصلی تعلیم کو مانیں تو پھر اصول کی حد تک اختلاف ہے نہیں اور چونکہ بلااستثناء ہر جگہ اور ہر مذہب و ملت میں ایک آخری تسکین دہندے کی بشارت دہی پیشین گوئی موجود ہے اس لئے اپنے مذہب کی تعمیل میں اس کی اطاعت بھی آجاتی ہے. . . . . . . . . . اس طرح مذہبی تعصب کی مصیبت سے انسان کو نجات مل جاتی ہے اور لاکراہ فی الدین (قرآن) یعنی دین میں کسی قسم کا جبر نہیں۔ ایک ایسا سنہری اصول ہے جو اس سے پہلے کہنا چاہیے کہ سنا ہی نہیں گیا تھا۔‘‘[46]

 

غزواتِ نبوی اور نقضِ امن کا شبہ:

حضور اکرمﷺکے غزوات کو دیکھتے ہوئے کسی ظاہر بین اور سطحی آدمی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ گذشتہ تصریحات کے مطابق جب حضور اکرمﷺپیمبر امن و سلامتی تھے تو آپ نے بنفس نفیس کوئی 27-28غزوات کی کمان کیوں فرمائی؟ علاوہ ازیں متعدد جنگی دستے یا مہمّیں (سرایا) کیوں بھیجی گئیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غزوات اور سرایا بھی محض اپنی جان و مال، ریاست اور دین کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے تھے۔ چنانچہ یہ بات پیچھے گزر چکی ہے کہ محض دعوت و تبلیغ دین کے ’’جرم‘‘ میں تیرہ سال تک اہل مکّہ کے مظالم برداشت کئے، شعبِ ابی طالب میں محصور حتیٰ کہ اپنے آبائی اور محبوب وطن اور گھربار چھوڑنا قبول کرلیا مگر بلد امین کے امن و امان میں کسی قسم کا خلل ڈالنا پسند نہ فرمایا۔ لیکن اہل مکّہ نے خداواسطے کے بغض اور اپنی رعونت و بڑائی کے بے بنیاد زغم میں اہل ایمان کو جب مدینہ منورہ میں بھی امن و امان سے نہ رہنے دیا، ان کے جان و مال کی سلامتی کے لئے خطرہ بن گئے تو حضورﷺنے یہ قدم اٹھایا۔ اگر مشرکین مکّہ کی طرف ریاست مدینہ کے امن کو سبوتاژ نہ کیا جاتا، جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑ نہ کی جاتی، حالات خراب کرنے کی کوشش نہ کی جاتی اور مدینہ پر چڑھائی نہ کی جاتی تو شاید جنگ کی کبھی نوبت نہ آتی مگر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘کے مصداق نبی رحمتﷺکو بھی میدانِ جنگ میں آنا پڑا۔ اس اجمال کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ:

 

1۔ حضور اکرمﷺاور اہل ایمان جب مکّہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ میں آگئے تو اہل مکّہ کو اب اطمینان ہو جانا چاہیے تھا کہ ’’دشمن‘‘ بھاگ گیا مگر انہوں نے جس طرح حبشہ میں مہاجرین کا پیچھا کیا اسی طرح یہاں بھی حضورﷺکا پیچھا کیا اور سنن ابی داؤد کے مطابق وہاں کے رئیس عبداللہ بن ابیّ کو یہ دھمکی آمیز خط لکھا کہ:

 

’’تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو (اپنے ہاں) پناہ دی ہے۔ ہم لوگ تمہیں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ تم لوگ ہر قیمت پر اس سے جنگ کرو یا اسے اپنے شہر سے نکال دو ورنہ ہم سب تمہاری طرف کوچ کریں گے حتیٰ کہ تمہارے ساتھ جنگ کریں گے اور تمہاری عورتیں باندیاں بنالیں گے۔ یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مشرکوں کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہﷺسے جنگ کے لیے جمع ہونے لگے۔ یہ صورتِ حال حضورﷺکو معلوم ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا قریش مکہ کی جو وعید/ دھمکی تمہیں موصول ہوئی ہے وہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچائے گی جتنا تم خود اپنے آپ کو پہنچانا چاہتے ہو۔ وہ یہ کہ تم اپنے ہی بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کا ارادہ کررہے ہو ۔ انہوں نے نبی اکرمﷺسے یہ حکمت بھری بات سنی تو منتشر ہوگئے۔‘‘[47]

 

2۔ حضور اکرمﷺکے مدینہ منورہ میں آجانے کے بعد معروف انصاری صحابی حضرت سعدؓ بن معاذ عمرہ کی نیت سے مکّہ پہنچے اور اپنے دیرینہ دوست اور مکّہ کے ایک رئیس امیہ بن خلف کے ہاں قیام کیا۔ تو اسے کہا کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ چلو تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کرلوں۔ دوپہر کے قریب میزبان اپنے مہمان کو لے کر نکلا تو ان دونوں سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی۔ ابوجہل نے امیہ سے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ اس نے بتایایہ سعد (بن معاذ) ہیں تو ابوجہل نے حضرت سعد سے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے اطمینان سے مکّہ میں گھوم رہے ہو حالانکہ تم نے صابیوں (مسلمانوں) کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ سمجھتے ہو کہ ان کی مدد اور اعانت کرو گے۔ قسم بخدا اگر تو ابو صفوان (امیہ) کے ہمراہ نہ ہوتا تو اپنے اہل خانہ کی طرف سلامت نہ لوٹتا۔ حضرت سعد نے گرجدار آواز میں جواب دیا: اللہ کی قسم اگر تو نے مجھے اس (عمرہ) سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ ہوگی یعنی تمہارا شام کا تجارتی راستہ بند کردوں گا جو مدینہ سے گزرتا ہے۔[48]

 

3۔ غزوہ بدر سے قبل مسلمانوں اور اہل مکّہ کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں جن کا سبب قریش کی غارت گری تھا۔ وہ مدینہ منورہ کے اردگرد آکر مسلمان چرواہوں کو قتل کردیتے اور ان کے جانور لوٹ کر لے جاتے جیسا کہ کرزین جابر فہری نے اس طرح کی غارت گری کی تھی۔ [49]

 

4۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر اہلِ مکّہ ایک ہزار کے مسلّح لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کرنا چاہتے تھے جنہیں حضور اکرمﷺنے بدر کے مقام پر روکا اور تائید ایزدی سے انہیں شکست دی۔

 

5۔ غزوہ احد کے موقعہ پر بھی اہلِ مکّہ تین ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ حضورﷺْنے اپنے دفاع میں ان سے جنگ لڑی۔

 

6۔ غزوہ خندق / احزاب میں بھی اہلِ مکّہ نے دیگر قبائل کو ساتھ مل کر چوبیس ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ منوّرہ کا گھیراؤ کیا اور حضورﷺنے خندق کھود کر شہر کا دفاع ممکن بنایا۔

 

غرض یہ ابتدائی غزوات نبوی خالصتاً اپنے دفاع میں تھے جبکہ بعد کے غزوات مثلاً غزوہ خیبر، غزوہ حنین، فتح مکّہ اور غزوہ تبوک وغیرہ میں اگرچہ پیش قدمی کی گئی مگر وہ اس لیے کہ سر پر منڈلاتے خطرات اور سازشیں مزید شدّت اختیار نہ کرجائیں اور مخالف قوتیں اس نظام یا دین کو سرے سے ختم کردینے کی پوزیشن میں نہ آجائیں جس کی تبلیغ و نفاذ اور غلبہ کے لئے آپ تشریف لائے تھے۔ دشمن کی سازش کو ناکام بنانا اور اس کا زور توڑنا مخالف طاقت پر ظلم اور بدامنی پیدا کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ڈاکٹر محمود احمد غازی نے جہاد کے بنیادی مقاصد اور غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے:

 

’’رسول اللہﷺنے مقصد جنگ پر بار بار زور دیا اور یہ ذہن نشین کرایا کہ مقصد جنگ نہ توسیع پسندی ہے نہ مقصد جنگ کسی فرد کی ذاتی خواہش کی تکمیل ہے۔ جہاد کا اوّلین و آخرین مقصد صرف اور صرف اسلامی دعوت کی تکمیل اور اس کے لیے اسباب فراہم کرنا ہے۔ اگر دعوت کے اسباب موجود ہیں اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، مسلمانوں پر کہیں بھی مظالم نہیں ہورہے اور وہ دنیا میں ہر جگہ اپنے دین کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہیں تو اس صورت میں تلوار اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: تم دشمن سے مڈبھیڑ کی ازخود تمنّا اور خواہش نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت ہی کی دعا کرو، [50] یعنی’’لاتتمنّوا لقاء العدّو و اسئلوا اللّٰہ العافیۃ‘‘۔[51]

 

نقص امن کے اسباب کی ممانعت و مذمّت:

نبی رحمتﷺنے ہر ایسے امر سے منع فرمایا اور اس کی مذمت و شدّت بیان فرمائی جو معاشرے کے امن و امان میں خلل انداز یا اشتعال انگیزی اور لڑائی جھگڑے کا باعث و سبب بن سکتا ہے اور ایسے تمام امور کی حوصلہ افزائی، فضیلت اور تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے جو معاشرے میں باہمی محبت رواداری اور صلح و آشتی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان تمام امور کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ ذیل میں زیربحث موضوع کی وضاحت کے لیے چند امور کی طرف اشارہ کافی ہوگا۔

 

تنگ نظری کی ممانعت:

معاشرے میں فتنہ و فساد، خونریزی، زیادتی اور پھر بدامنی کا ایک بڑا سبب تنگ نظری ہے۔ تنگ نظری کا معنی رنگ نسل وطن اور عقیدہ مذہب میں اختلاف کی بنیاد پر اپنے مخالف کو برداشت نہ کرنا۔ اسے قبول نہ کرنا، اسے دیکھ نہ سکنا اور اس سے زندگی کا حق بھی چھین لینے کی کوشش کرنا ہے۔ نبی رحمتﷺنے ایک مملکت کا سربراہ ہوتے اور تمام وسائل واختیارات اور طاقت ہوتے ہوئے بھی جس طرح اپنے مخالفین اور ان کی شرارتوں اور بدتمیزیوں کو برداشت فرمایا اور ان کے ساتھ وسعت قلبی، رواداری، درگزر اور صلح و آشتی کا معاملہ فرمایا اس کی نظیر آسمان کی آنکھ نے نہ کبھی پہلے دیکھی تھی اور نہ آج تک دیکھ سکی ہے۔ قاضی عیاضؒ اور دوسرے محدّثین و سیرت نگاروں نے آنجنابﷺکی ’’صفت حلم‘‘ کی وضاحت و تفصیل میں متعدّد مثالیں بیان کی ہیں۔ یہاں صرف ایک بے نظیر مثال کا ذکر کافی ہوگا۔

 

چنانچہ نجران کے عیسائی وفد کے ساتھ مذاکرات اور گفتگو کے دوران ان کی عبادت کا وقت ہوگیا تو آپﷺنے کھلے دل سے انہیں مسجد نبوی میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ کرام نے انہیں روکنا چاہا تو فرمایا۔ ’’دعوھم‘‘ انہیں چھوڑ دو اور اپنے طریقے کے مطابق نماز پڑھنے دو اور پھر اسلام سے ان کے انکار کے باوجود انہیں امان نامہ بھی عنایت فرمایا۔[52]

 

عصبیت کی نفی:

انسانی معاشرے میں نقص امن کے اسباب و وجوہات میں سے ایک بڑا سبب عصبیت بھی ہے۔ عصبیت یہ ہے کہ آدمی کسی کی محض اس بنیاد پر حمایت کرے کہ وہ اس کی قوم اور برادری سے تعلق رکھتا ہے چاہے وہ ناحق غلط اور دوسرے پر ظلم کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ حضور اکرمﷺسے پوچھا گیا کہ:

 

’’امن العصبیۃ ان یحبّ الرجل قومہ؟‘‘

 

’’کیا یہ بات عصبیت میں داخل ہے کہ آدمی اپنی قوم کے ساتھ محبت رکھے‘‘۔

 

فرمایا: ’’لا ولکن العصبیۃ ان ینصر الرجل قومہ علی الظلم رواہ احمد و ابن ماجہ‘‘۔ [53]

 

نہیں: ’’ بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم وزیادتی کے معاملے میں بھی اپنی قوم کی مدد کرے‘‘۔

 

نبی رحمتﷺنے عصبیت کے جذبہ کے قلعے قمعے کے لئے بطور وعید ارشاد فرمایا:

 

’’لیس منّا من دعا الی عصبیۃ ولیس منّا من قاتل عصبیۃ ولیس منّامن مات علی عصبیۃ‘‘ ۔[54]

 

’’وہ شخص ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جس نے (دوسرے لوگوں کو) عصبیت کی طرف بلایا اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جس نے محض عصبیت کی بنا پر (کسی دوسرے سے) جنگ کی اور وہ آدمی بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے جذبہ پر مر گیا‘‘۔

 

احادیث میں ’’مامنّا‘‘اور ’’لیس منّا‘‘یا ’’لیس منّی‘‘کے الفاظ حد درجہ زجر، توبیخ اور تنبیہ کے لئے آتے ہیں۔ یہ جملہ عموماً آپ کی زبان پر اس وقت آتا جب کوئی کام کفر سے قریب اور ایمان کے منافی ہوتا پھر ایک مسلمان کے لئے نبی رحمتﷺکی طرف سے لاتعلقی کے اعلان سے بڑھ کر بڑی بدنصیبی اور بدبختی یا سزا کیا ہوگی۔

 

ہتھیار کے اشارہ سے ممانعت:

کسی آدمی کی طرف اسلحہ سے اشارہ کرنے میں چاہے وہ مذاق میں ہی ہو ایک تو اس بات کا خدشہ ہے کہ مشارٌالیہ آدمی خوف زدہ ہوگا اور اچانک خوف زدہ ہونے میں انسان کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرے اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اسلحہ غیرارادی طور پر چل جائے اور سامنے والا آدمی جان سے جائے اور یہ چیز باہمی خونریزی اور پھر معاشرے میں بدامنی کا ذریعہ بن جائے۔ اس لیے ’’سدّذریعہ‘‘کے طور پر نبی رحمتﷺنے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:

 

’’لایشیر احد کم الیٰ اخیہ بالسلاح فانّہ لایدری احدکم لعلّ الشیطان ینزع فی یدہ فیقع فی حفرۃ من النّار‘‘۔ [55]

 

’’تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ شاید شیطان (اسے غصہ دلادے اور) اس کے ہاتھ میں کپکپی طاری کردے پھر وہ (بے گناہ قتل کی سزا میں) جہنم کی آگ میں جاگرے‘‘۔

 

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

 

’’من اشار الیٰ اخیہ بحد یدۃ فان الملئکۃ تلعنہ حتی یدعہ و ان کان اخاہ لابیہ وامّہ‘‘۔ [56]

 

’’جس آدمی نے اپنے بھائی کی طرف کسی آہنی ہتھیار سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت (رحمت الٰہی سے دوری کی بددعا) بھیجتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس اشارہ کو ترک کردے چاہے وہ اس کا حقیقی بھائی بھی کیوں نہ ہو‘‘۔

 

اب بھائی مسلمان کے علاوہ غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے۔ گویا غیر مسلم کو بھی اس انداز میں ڈرانا دھمکانا جائز نہیں۔

 

ڈرانے اور خوف زدہ کرنے سے ممانعت:

کسی کو ڈرانا اور خوف زدہ کرنا بھی چونکہ انسان کے ذہنی اطمینان و سکون اور امن و امان میں خلل انداز ہوتا ہے چاہے وہ ہنسی مزاح میں ہی کیوں نہ ہو اس لیے نبئ رحمتﷺنے ایسا کرنے سے منع فرمایا:

 

’’لایحلّ لمسلم ان یروّع مسلما‘‘ ۔[57]

 

’’کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائےکسی آدمی کا مال چھپانا بھی چونکہ اس کے لیے پریشانی اور ڈر کا سبب ہوتا ہے‘‘۔ اس لیے حضورﷺنے ایسا کرنے سے بھی منع فرمایا۔ ارشاد ہوا:

 

’’لایأخذن احد کم متاع اخیہ لاعباً ولاجادًّا‘‘۔[58]

 

’’تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کا سامان ہرگز نہ چھپائے نہ مذاق میں نہ جان بوجھ کر‘‘ ۔

 

یہ تو معمولی قسم کے خوف اور ڈر پیدا کرنے سے ممانعت ہے۔ بڑے پیمانے پر خلق خدا کو خوف زدہ اور ہر اساں کرنا، دہشت پھیلانا، بے گناہ انسانوں کا قتل کرنا، ان پر تشدد کرنا، خود کش حملے کرنا، لوگوں کے املاک اور جائیدادیں تباہ کرنا، ان کی عزت و آبرو سے کھیلنا، ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلانا جسے آج کی اصطلاح میں دہشت گردی (Terrorism) کہا جاتا ہے۔ اس کا دین مصطفوی میں کہاں جواز ہوسکتا ہے۔

 

خلاصۂ بحث:

حضور اکرمﷺدنیا میں ایک عالمی اور دائمی نبی کی حیثیت سے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بن کر تشریف لائے۔ اس رحمۃ للعالمینی کا لازمی تقاضا تھا کہ آپ دنیا کو امن و سلامتی کو گہوارہ بھی بنائیں۔ اس کے لئے ایک تو آنجنابﷺکی جبلت و فطرت میں امن و سلامتی کا جذبہ ودیعت کیا گیا۔ پھر آپﷺ نے خلق خدا کو اللہ کا جو پیغام پہنچایا وہ اپنے معنیٰ اور تعلیمات کے اعتبار سے سراسر امن و سلامتی کا پیغام تھا۔ چونکہ آپﷺ کسی مسلکی و نظریاتی، رنگ و نسل اور علاقہ کی تفریق کے بغیر ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے تھے اس لیے آپ نے معاشرے میں امن وسلامتی کے فروغ اور ہر انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ و سلامتی کے لئے ایسے متعدد اور دوررس اقدامات فرمائے جنہوں نے کم از کم جزیرۃ العرب کو امن کا گہوارہ بنادیا۔ بعثتِ نبوی کے وقت دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ کسی کی جان محفوظ تھی نہ مال نہ عزت اور نہ راستے محفوظ تھے۔ حضورﷺ نے ایسا ذہنی و عملی انقلاب پیدا کردیا کہ اب اکیلی خاتون صنعاء (یمن) سے بیت اللہ کا سفر کرتی تھی اور اسے کسی رہزن کا ڈر نہ تھا۔ امن و سلامتی کے حوالے سے حضور اکرمﷺکی تعلیمات اور ہدایات پر آج بھی عمل کیا جائے تو ساری دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہ محض عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے کہ حضور اکرمﷺاپنی تعلیمات اور اسوہ و عملی اقدامات کی رو سے بلاشبہ اور بلامبالغہ ساری انسانیت کے لیے رحمت اور امن و سلامتی ہیں۔ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم۔

 

حوالہ جات

  1. البقرۃ 125: 2
  2. البقرۃ 126: 2
  3. دیکھیے: سورۃ النحل 112: 16؛ سورۃ القصص 57: 28؛ سورۃ قریش 4: 106
  4. النحل 112: 16
  5. مفتی غلام سرور قادری: عمدۃ البیان فی ترجمۃ القرآن، عمدۃ البیان پبلشرز لاہور 1428ھ/ 2007ء ص441
  6. القصص 57: 28
  7. مفتی غلام سرور قادری، ترجمہ مذکور ص640
  8. القریش 4: 106
  9. بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل (م256ھ) الادب المفرد باب من اصبح اٰمنًا فی سربہ، دارالبشائرالاسلامیہ بیروت، 1409ھ/ 1989ء ص۱12 رقم 300؛ ترمذی، محمد بن عیسیٰ (م 279ھ) الجامع (ابواب الزہد باب فی الوصف من حیزت لہ الدنیا) دارالسلام، ریاض، رقم الحدیث 2346، ص1887؛ ابن ماجہ ابو عبداللہ محمد بن یزید (م 273ھ) السنن (ابواب الزہد باب القناعۃ، دارلسلام ریاض، ص2729، رقم الحدیث 4141
  10. دیکھیے: سورۃ آل عمران 103: 3؛ سورۃ الانعام 65: 6
  11. الروم 41: 30
  12. دیکھیے علامہ آلوسی، ابوالفضل شہاب الدین السید محمود البغدادی (م127ھ) : روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، مکتبہ امدادیہ ملتان، جلد 11، جزء 21، ص48
  13. ابوحیان اندلسی الغرناطی: تفسیر البحرالمحیط (تحت آیت) ، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1423ھ، ج7، ص228
  14. تفصیل کے لیے دیکھیے: پیر محمد کرم شاہ الازہری: ضیاء النبی، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور 1420ھ، 35 تا 374؛ سید سلیمان ندوی: سیرۃ النبی (زیر عنوان شب ظلمت) الفیصل لاہور، 1991ء، ج4، ص118 تا 133
  15. شبلی نعمانی: سیرۃ النبی، الفیصل لاہور، 1991ء، ج2، ص8
  16. بخاری، الجامع الصحیح (کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام) دارالسلام، ریاض، ص294، (رقم 3612)
  17. حضر موت: یہ بڑی وادیوں میں سے ہے۔ کئی سو میل لمبی ہے۔ یمن کی طرف سے نکل کر جبال حضرت موت کے درمیان ایک بڑے حصے کو طے کرتی ہوئی جنوب مشرق کی طرف چلی جاتی ہے۔. . . حضرت موت اور صنعاء کے درمیان بہتر فرسخ کا فاصلہ ہے (سید فضل الرحمن: فرہنگِ سیرت، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی، اشاعت اوّل، 1424ھ/ 2003ء، ص103، زیر مادہ حضر موت)
  18. صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، طبع دارالسلام، ریاض، ص293، رقم 3595
  19. بخاری: الصحیح (کتاب الایمان باب من سلم المسلمون من لّسانہ ویدہ طبع مذکور ص 3، رقم 10؛ مسلم بن حجاج, الجامع الصحیح, کتاب الایمان باب بیان تفاضل الاسلام وایّ امورہ افضل، دارالسلام, ص 687، رقم 65؛ ترمذی محمد بن عیسی: الجامع (ابواب الایمان عن رسول اللہ باب ماجاء فی ان المسلم من مسلم المسلمون من لسانہ ویدہ) دارالسلام، ص1916، رقم 2627؛ نسائی: السنن کتاب الایمان باب صفۃ المؤمن، دارالسلام ریاض، ص2410، رقم 4998
  20. حوالہ مذکور
  21. الطبرانی، المعجم الاوسط، ج3، ص287، رقم 3170
  22. نسائی، احمد بن شعیب: السنن (کتاب الایمان و شرائعہ باب صفۃ المؤمن) دارالسلام ریاض، ص2410، رقم 4998؛ ترمذی: ابواب الایمان، باب مذکور، رقم 2627
  23. ابن ماجہ ابوعبداللہ محمد بن یزید: السنن (کتاب الفتن باب حرمۃ دم المؤمن دمالہ) دارالسلام, ریاض، ص2712، رقم 3934
  24. رحمۃ للعالمین، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، س. ن، ج2، ص93
  25. لبی کے بیان کے مطابق سیدہ حلیمہ کی چھاتی کی ایک طرف تو (بھوک کے باعث) بالکل خشک ہوچکی تھی۔ حضورؐ نے اپنا بابرکت منہ لگایا تو دودھ کے فوارے بہنے لگے (سیرت حلبیہ مصر، 1384ھ/ 1964ء، ج1، ص147)
  26. قسطلانی، احمد بن محمد (م 923ھ) : المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، طبع بیروت، 1991ء، ج1، ص152؛ سیرت حلبیہ حوالہ مذکور
  27. السہیلی ابو القاسم عبدالرحمن بن عبداللہ (م581ھ) : الروض الانف، جامعہ ازھر ت۔ن، ج1، ص187
  28. رسول اللہؐ کی سیاسی زندگی، نگارشات پبلشرز، لاہور، 2008ء، ص50
  29. دیکھیے: ہیثمی، حافظ نورالدین (م807ھ) : مجمع الزوائد و منبع الفوائد، مکتبہ قدسی قاہرہ، 1353ھ، ج9، ص221
  30. ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل (م 774ھ) : البدایہ والنہایہ، مصر، 1351ھ/ 1932ء، ج2، ص291؛ ابن جوزی، ابوالفرج عبد الرحمن (م 597ھ) : المنتظم فی تاریخ الامم والملوک، بیروت، 1412ھ/ 1992ء، ج2، ص309
  31. ابن ہشام، ابومحمد عبدالمالک (م213ھ) : سیرۃ النبی، قاہرہ مصر، 1352ھ/ 1937ء، ج1، ص145
  32. السہیل، الروض الانف، جامعہ ازھر، ت. ن، ج1، ص157
  33. ایضاً، ج1، ص156و دیگر کتب سیرت
  34. تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: پیر محمد کرم شاہ الازھری: ضیاء النبی، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، 1993ء، ج2، ص123تا126
  35. تفصیل کے لیے دیکھیے: ابن اسحاق، محمد بن اسحاق (م151ھ) : السیرۃ النبویۃ، دارالنفائس، لاہور، ت. ن، ج1، ص150تا 155؛ ابن کثیر: سیرۃ النبی (اردو ترجمہ از مولانا ہدایت اللہ ندوی) مکتبہ قدوسیہ لاہور، 1996ء، ج1، ص183 ۔ 184؛ شبلی نعمانی: سیرۃ النبی، ج1، ص121-122
  36. مزید تفصیل کے لئے: ابن اثیر: الکامل فی التاریخ، بیروت، 1385ھ/ 1962ء، ج2، ص70-76؛ ابن اسحاق: سیرۃ النبی، ج1، ص261-262؛ مولانا ادریس کاندھلوی: سیرۃ المصطفیٰ، الطاف اینڈ سنز، کراچی، ت۔ن، ج1، ص213-218
  37. ابن اسحاق: سیرۃ النبی، ج1، ص226-233
  38. دیکھیے: ابن ھشام: سیرۃ النبی، قاہرہ، 1356ھ/ 1937ء، ج1، ص358-359 ۹؛ ابن اثیر: الکامل فی التاریخ، ج2، ص80؛ ابن قیم: زادالمعاد (اردو ترجمہ) نفیس اکیڈمی کراچی، طبع اوّل، 1962ء، ج1، ص84
  39. ہجرت مدینہ کی تفصیل کے لئے دیکھیے: بخاری: الصحیح (کتاب المناقب باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) قدیمی کتب خانہ کراچی، ج1، ص551-557؛ مسلم: الصحیح، ج2، ص419 (کتاب الزہد باب فی حدیث الہجرہ الخ) قدیمی کتب خانہ کراچی، ج2، ص419؛ الشامی، محمد بن یوسف (م943ھ) : سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1414ھ/ 1993ء، ج3، ص386-390؛ ابن کثیر: السیرۃ النبویہ (عربی) داراحیاء التراث العربی بیروت، لبنان، ت۔ ن، ج2، ص268
  40. دکتور وھبۃ الزحیلی: العلاقات الدولیۃ فی الاسلام) (اردو ترجمہ بنام بین الاقوامی تعلقات مترجم مولانا حکیم اللہ) شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، 2010ء، ص218 تا 222؛ مولانا مجیب اللہ ندوی: اسلام کے بین الاقوامی اصول و تصورات، مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، 1990ء، ص89-95
  41. تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، بخاری: الجامع الصحیح (کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ) ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، ت۔ن، ج1، ص380؛ مسلم: الجامع الصحیح (کتاب الجہاد والسیر باب صلح الحدیبیہ) قدیمی کتب خانہ، کراچی، ت۔ن، ج2، ص26؛ ابوداوٗد، سلیمان بن اشعث (م275) السنن (کتاب الجہاد باب فی صلح العدو) ، نور محمد کراچی، ت۔ن، ج2، ص381؛ ابن قیم الجوزیہ (م751ھ) : زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 1405/ 1985ء، ج3، ص293؛ حلبی (م1044ھ) سیرت حلبیہ (اردو ترجمہ: غزوات النبیؐ) دارالاشاعت، کراچی، 2001ء، ص411
  42. بخاری: الصحیح (کتاب الادب باب السلام للمعرفۃ وغیر المعرفۃ) دارالسلام ریاض، ص 525، رقم 6236؛ ابوداؤد: السنن (کتاب الادب باب افشاء السلام) دارالسلام ریاض، ص۱603، رقم 5194
  43. ملاحظہ ہو: نودی، شرف الدین یحییٰ: شرح صحیح مسلم (بمع صحیح مسلم) قدیمی کتب خانہ کراچی، ج2، ص213-214؛ فتاویٰ عالمگیری، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ 1403ھ/ 1983ء، ج5، ص325: ابن قیم: احکام اہل الذمہ، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1423ھ، ص157
  44. دیکھیے: بخاری: الصحیح (کتاب الجہاد باب دعاء النبیؐ الی الاسلام و النبوۃ الخ) قدیمی کتب خانہ، کراچی، ج1، ص412-413؛ ابن قیم: زادالمعاد (اردو ترجمہ) ، نفیس اکیڈمی کراچی، طبع اوّل 1962ء، ج1، ص100-101
  45. سیرۃ النبی طبع مذکور، ج4، ص311
  46. رسول اللہؐ کی سیاسی زندگی، نگارشات پبلشرز لاہور، 2008ء، ص287
  47. ابوداؤد، سلیمان بن اشعث: السنن (کتاب الخراج والفی ء و الامارۃ باب فی خبرالنضیر) دارالسلام، ریاض، ص ۱449، رقم الحدیث 3004
  48. بخاری: الجامع الصحیح (کتاب المغازی باب ذکر النبی من یقتل بیدر) طبع مذکور، ص322، رقم 3950
  49. شبلی نعمانی: سیرۃ النبی، طبع مذکور، ج1، ص193
  50. دیکھیے: بخاری: الصحیح (کتاب الجہاد والسیر باب کان النبی اذا لم یقاتل اوّل النہار اخّرالقتال حتی تزول الشمس) دارالسلام، ص238، رقم 2966؛ مسلم: الصحیح (کتاب الجہاد والسیر باب کراھۃ تمنی لقاء العدو و الامر بالصبر عنداللقاء) دارالسلام، ص986، رقم 4542
  51. خطبات بہاولپور (2) ، اسلام کا قانون بین الممالک، شریعۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، 2007ء، ص330
  52. تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: ابن قیم الجوزیہ: زادالمعاد فی ہری خیرالعباد، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، 1401ھ/ 1981ء، ج3، ص629؛ ابن کثیر: سیرۃ النبی (اردو ترجمہ) مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار، لاہور، ج2، ص562؛ البدایہ والنہایہ، دارالمعرفۃ، بیروت، ج5، ص60-61
  53. ولی الدین خطیب تبریزی: مشکوٰۃ المصابیح (کتاب الآداب باب المفاخترۃ والعصبیۃ) المصباح لاہور، ت۔ن، ص418
  54. ابوداؤد: السنن (کتاب الادب باب۱۱۳ فی العصبیۃ) مکتبہ رحمانیہ، لاہور، ج2، ص357، رقم الحدیث 5121
  55. مسلم: الصحیح (کتاب البروالصلۃ والادب باب النہی عن الاشارۃ بالسلاح الی مسلم) دارلسلام ریاض، ص۱135، رقم: 2617
  56. حوالہ مذکور رقم: 2616
  57. ابوداؤد: السنن (کتاب الادب باب من یأخذ الشئ من مزاح) مکتبہ رحمانیہ، لاہور، ج2، ص341، رقم الحدیث: 501
  58. حوالہ مذکور، رقم الحدیث: 500
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...