Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

خرید و فروخت کے شرعی احکامات، عصرِ حاضر میں اطلاق کی صورتیں: سیرت طیبہ کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خرید و فروخت کے معاملات پر معاشرتی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہر انسان اشیائے ضروریہ کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ یہ سلسلہ بہت قدیم ہے۔ تہذیب و تمدن کے ارتقاءکے ساتھ لین دین کے تمام طریقوں میں جہاں جدت آئی وہاں اُس نے کچھ جدید اور نئے مسائل کو بھی جنم دیا۔ لین دین کی ابتداءبارٹر سسٹم کے تحت ہوئی تھی ۔ ابتداءمیں انسان وہی اشیاءبناتا جسں میں اس کو مہارت حاصل تھی، پھر وہ اپنی اشیاءاس شخص کو دے کر اپنی ضرورت کی مطلوبہ شے اس سے حاصل کر لیتا تھا۔

 

تہذیب و تمدن کے ارتقاءکے ساتھ ساتھ جہاں دوسرے شعبوں میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی، نت نئی ایجادات ہوئیں، تولین دین کے طور طریقوں میں بھی تبدیلی آئی، انسانی روپوں کے عوض ضرورت کی ہر شے خرید لیتا۔ بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق آج کل منڈی کی بے شمار قسمیں وجود میں آ گئیں، جہاں اشیاءکی خرید و فروخت ہوتی ہے، جس میں ایک شے کے خریدنے والے اور بیچنے والے شے کا سودا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ انسانوں کے مابین معاملات کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور اقدسﷺ نے خرید فروخت کی اقسام سے متعلق احکامات کو تفصیلاً بیان کیا تاکہ یہ معاملات بغیر کسی تنازعے کے عوام الناس کے مابین طے پائیں۔

 

==معنی و مفہوم==:

 

لغت کی رو سے ایک شے کو دوسری شے سے تبادلہ کرنے کو بیع کہتے ہیں اس طرح نقدی روپے پیسے سے بھی کسی شے کا تبادلہ بیع ہے۔ اس مبادلہ میں ایک شے کو بیع (مال) اور دوسری شے کو ثمن (قیمت) کہا جا تاہے۔ اصطلاح شرع میں بیع کے معنی ہیں کہ دو اشخاص کا ایک دوسرے کے مال کو مخصوص صورت کے ساتھ تبادلہ کرنا، بیع کبھی قول سے ہوتی ہے کبھی فعل سے۔ اگر قول سے ہو تو اس معاملے کے ارکان ایجاب و قبول ہیں۔مثلاً سودا طے کرنے والے فریقین ایک دوسرے سے یہ کہیں ”میں نے بیچا، دوسرا کہے میں نے خریدا بعض اوقات یہ سودا الفاظ سے نہیں بلکہ ان کے فعل سے انجام پائے جیسے چیزوں کا تبادلہ وغیرہ۔“ [1]

 

خرید و فروخت کی شرعی حیثیت:

معاملہ خرید و فروخت مباح ہے، قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اس کا تذکرہ آیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا[2]۔

 

ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے مت کھاﺅ، ہاں اگر باہمی رضا مندی سے تجارت ہو تو حرج نہیں ۔

 

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ۔[3]

 

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کہو ار اور حد سے تجاوز نہ کروحدسے گزرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا اور اللہ نے جو تمھیں روزی دی ان میں سے حلال طیب کو کھاو اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان لائے ہو۔

 

بیع سلم (Sale on advance payment) :

سلم شریعت میں ” بیع آجل بعاجل[4]“ یعنی نقد دے کر کوئی چیز ادھار خریدنے کو بیع سلم کہتے ہیں۔

 

خرید و فروخت کی اس قسم میں بیچنے والا خریدار سے پیشگی رقم وصول کر لیتا ہے اور شے کو مستقبل میں خریدار کے حوالے کر ناطے پاتا ہے یہ قسم ”سلم“ کہلاتی ہے۔[5]

 

بیع سلم قرآن کریم سے ثابت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 

یاایھا الذین آمنوا اذا تداینتم بدین الیٰ اجل مسمی فاکتبوہ[6]۔

 

عہد نبوی ﷺمیں سلم کے کئی معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں صحیح بخاری میں ہے کہ:

 

قدم النبیﷺ المدینۃ وھم یسلفون باالتمر السنتین والثلاث فقال من اسلف فی شئ ففی کیل

 

معلوم ووزن معلوم الیٰ اجل معلوم۔[7]

 

ترجمہ: رسول اللہﷺجب مدینہ تشریف لائے تو اس وقت اہل مدینہ ایک سال، دو سال، تین سال تک پھلوں میں سلم کرتے تھے۔ نبیﷺ نے فرمایا جو بیع سلم کرے وہ کیل معلوم اور وزن معلوم میں مدت معلوم تک کے لیے سلم کرے-

 

اس حدیث مبارکہ میں عقد سلم کے حوالے سے تین باتیں معلوم ہوتیں ہیںیعنی سلم کیل معلوم (معلوم ماپ کے ساتھ اور وزن معلوم کے ساتھ ایک مدت معلوم کے ساتھ ہو یہ تین باتیں اس عقد کی درستگی کے لیے لازمی ہیں فقہا کرام کی کتب میں عقد سلم کی شرائط میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ نے 7 شرائط لازمی قرار دیں اور کچھ نے 12شرائط کا تذکرہ کیا۔

 

عہد حاضر میں اسلامی بنکنگ کے اندر عقد سلم کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسلامی بنک دو طرح سے اس معاہدے کو طے کرتا ہے۔ بنک اپنے ایک کلائنٹ کے ساتھ خریدار کی حیثیت سے معاہدہ کرتا ہے۔ پھر کسی دوسرے کلائنٹ کے ساتھ فروخت کنندہ کی حیثیت سے، کلائنٹ رقم کی ادائیگی معاہدے کے وقت ہی ادا کر دیتا ہے۔بنک اپنے کلائنٹ کے ساتھ خریدار کی حیثیت سے جو معاہدہ کرتا ہے اس میں کلائنٹ مستقبل میں وہ شےبنک کے حوالے کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ مقررہ وقت آنے پر (مسلم فیہ) بنک کے سپرد کرتا ہے۔دوسری صورت میں بنک جس میں فروخت کنندہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں بنک اپنے کلائنٹ سے پوری رقم پیشگی لیتا ہے اور کسی دوسرے کلائنٹ کے ساتھ ایک اور سلم کا معاہدہ کرتا ہے اس کلائنٹ سے شے کے حصول کے بعد بنک معاہدے کے تحت ایک اور سلم کا معاہدہ کرتا ہے اس کلائنٹ سے شے کے حصول کے بعد بنک معاہدے کے تحت دوسرے کلائنٹ کو ادا کر دیتا ہے ـ== ==

 

بیع استصناع (Sale by order to manufacture) :

استصناع لغت میں کام طلب کرنے اور شریعت میں”طلب العمل منہ فی شیئ خاص علیٰ وجہ مخصوص[8]“یعنی کسی سے کوئی خاص چیزمخصوص طریقہ پر طلب کرنے کو کہتے ہیں۔بالفاظ دیگرآرڈر پر شے تیار کروانے کو استصناع کہتے ہیں۔ کتب فقہ میں اس بیع کے حوالے سے تفصیل موجود ہے۔شرعی اعتبار سے استصناع میں قیمت کی مکمل یا جزوی ادائیگی معاہدے کے وقت لازمی نہیں لیکن خریدار کو رقم بیعانہ کے طور پر ادا کر دیتا ہے ۔ عہد حاضر میں عقد استصناع کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔عموماً اشیا آرڈر پر تیار کیں جاتیں ہیں، کاریگر اشیاءکے کئی نمونے خریدار کے سامنے پیش کرتا ہے، خریدار اپنی پسند کے مطابق کسی ایک شے کو منتخب کر تاہے اور کاریگر سے اُسی قسم کی شے تیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

 

اس شے کی قیمت، وقت، مقدار اور صفات سے متعلق دونوں فریقین تفصیل سے معاملہ طے کرتے ہیں اور کل قیمت کا کچھ حصہ بطور ایڈوانس کے طور پر ادا کیا جاتا ہے اور باقی رقم شے کی تیاری کے بعد ادا کی جاتی ہے۔ عقد استصناع میں اشیاءکی تیاری کے لیے ایک خاص وقت درکار ہوتا ہے، کاریگر اشیاءکی تیار ی کی مکمل ذمہ داری لیتا ہے۔ بعض دفعہ شئے کی قیمت کو کئی اقساط میں ادا کیا جاتا ہے ۔

 

اس عقد میں خریدار کی سہولت کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔

 

اسلامی بنک اور مالیاتی ادارے استصناع مختلف منصوبوں کی تمویل کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ رہائش، عمارتوں کی تعمیر، پلانٹ، سڑکیں وغیرہ اور مشینیں بنانے کے لیے اس کو در آمدات کی تمویل اور زیرِ استعمال سرمائے کے لیے اُن صنعتوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 

اسلامی بنکوں میں استصناع کے ذریعے تحویل کا طریقہ کار اس طرح سے ہے کہ معاہدہ اسلامی بنک کسٹمرCustomer اور کاریگر کے مابین ہوتا ہے ۔خریدار اور فروخت کار اور اسلامی بنک معاہدے پر دستخط کرتے ہیں بنک کاریگر سے اس شے کی تیاری کا مطالبہ کرتا ہے، بنک معاہدے کی بناءپر وہ مطلوبہ شے کسٹمر کے حوالے کرتا ہے، کاریگر اشیاءتیار کرنے والی کمپنی شے تیار کرنے کے بعد بینک کے حوالے کر دیتا ہے، کسٹمر شے کی رقم بنک کو فراہم کرتا ہے بنک شے تیار کرنے والی کمپنی کو وہ رقم ادا کر دیتا ہے، کمپنی بنک کو وہ شے دے دیتی ہے اور بنک کسٹمر کو وہ شے حوالے کر دیتا ہے۔== ==

 

مرابحہ:

مرابحہ اس بیع کو کہتے ہیں جس میں اپنی قیمت خریدپر نفع لیکر فروخت کیا جائے جیسا کہ درمختار میں ہے کہ:

 

”بیع ماملکہ بماقام علیہ وبفضل[9]“۔

 

عقد مرابحہ سے مراد ہے کہ ایک شخص کوئی شے خریدتا ہے۔ اس شے پر کچھ اخراجات کرتا ہے اس کے بعد وہ قیمت اور اخراجات دونوں ملا کر فروخت کرتا ہے اور نفع مقدار خریدار سے وصول کرتا ہے۔فقہا کرام عقد مرابحہ کی مشروعیت پر قرآن مجید کی اُن ہی آیات کریمہ کو بطور دلیل کے خود پر پیش کرتے ہیں جو عقد بیع کے حوالے سے ہیں۔

 

”یایھاالذین آمنوہ تاکلوا اموالکم“۔[10]

 

عہد حاضر میں اسلامی بنکنگ میں مرابحہ کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے جس میں ادھار فروخت کے معاہدوں کاروباری اثاثوں کی ادھار خریداریا ور در آمدات میں تحویل کے لیے استعمال ہو رہا ہے ادھار فروخت اور مرابحہ کے ذریعے اسلامی بنکوں نے تمویل کے مقصد کے لیے مختلف پروڈکٹس (Products) تیار کیں تمویل ایک شرعی طریقہ ہے جس میں نفع کی مقدار تعین کر کے مرابحہ کے طور پر ادھار بیچا جاتا ہے چونکہ رقم پر شرح طے کرنے کی صورت میں وہ سود ہے مگر شے کی قیمت خرید پر مرابحہ ادھار پر بیچنا درست ہے۔

 

بیع فضولی:

بیع فضولی کے متعلق علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں کہ:

 

من یتصرف لغیرہ بغیرولایۃوکالۃ او لنفسہ ولیس اھلا۔[11]

 

ترجمہ: کسی سے وکالت ملے بغیر اس کے حق میں تصرف کرنا یا اپنے حق میں تصرف کرنا جبکہ وہ خود تصرف کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔

 

بیع فضولی سے مراد ہے کہ دوسرےکی ملکیت میں بغیر اجازت فروخت کرنا، یا اس کی ملکیت کے بارے میں فیصلے کرنا، یہ تمام فیصلے شے کے مالک کی اجازت پر موقوف رہتے ہیں احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

 

رسول اللہ ﷺ اعطی حکیم بن حزام دیناراً وامرہ ان یشتری بہ اضحیۃ فاشتری فجائہ من اربحہ فباع ثم اشتری ثم جاء الی النبیﷺ بدینار وشاۃ فقال ما ھذا فقال یارسول اللہﷺ اشتریت وبعت اربحت فقال لہ النبیﷺ بارک اللہ فی تجارتک واخذ الدینار وتصوق بہ واخذ الشاۃ فضحیٰ بھا۔[12]

 

ترجمہ: رسول اللہ ﷺنےحکیم بن حزام کو ایک دینار دیا کہ اس سے قربانی کا ایک بکری خرید کر لائیں، انھوں نے خریدلی اور اس میں نفع حاصل کی اور اس کو بیچ ڈالا۔ پھر دوسری بکری خرید لی اور حضور ﷺکی خدمت میں ایک بکری اور ایک دینار لا کر پیش کئے، آپﷺنے فرمایا یہ کیا ہے تو انہوں نے کہا یارسول اللہﷺمیں نے بکری خریدکر بیچ دی اور نفع کمایا۔آپﷺنے انسے کہا کہ اللہ آپ کی تجارت میں برکت ڈالے۔ آپ ﷺنے دینار لیکر صدقہ کیا اور بکری کی قربانی کی۔

 

عہد حاضر میں بولی کے ذریعے خرید و فروخت کی صورت سامنے آتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنی کوئی شئے فروخت کرنا چاہے تو اپنی شئے کو لوگوں کے سامنے رکھتا ہے اس شئےکے مطابق لوگ اس کی قیمت لگاتے ہیں۔ عصر حاضر میں لوگ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بنکوں سے قرضے وصول کرتے ہے جس کے عوض لوگ اپنی مالیاتی شئے گارنٹی کے طور پر رکھواتے ہیں ـ قرضوں کی بر وقت واپسی نہ ہونے کی صورت میں بنک وہ شئے نیلام کر کے اپنا قرضہ وصول کر لیتا ہے ۔

 

بین الاقوامی اسلامی اکیڈ می نے بولی کے بارے میں ایک قرار داد پاس کی ہے جسےمفتی صابر حسین نے اپنی کتاب سرمایہ کاری کے احکامات میں اس طرح بیان کیا ہے کہ:

 

”چیزوں کے لحاظ سے نیلامی کی مختلف صورتیں بیع یا اجارہ جیسی ہوتی ہیں اور نوعیت کے لحاظ سے وہ کبھی اختیاری ہوتی ہیں اور کبھی لازمی۔ اول الذکر کی مثال نیلامی کی عام صورتیں ہیں جن میں لوگ بولی لگاتے ہیں اور موخر الذکر کی مثال وہ نیلامی ہے جو عدالت کی طرف سے لازم کی جائے۔ ضروری ہےکہ نیلامی سے متعلق تمام کاروائیاں شریعت اسلامیہ کے متعارض نہ ہو ں“۔[13]

 

الغرض اس بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی نے بیع کی اقسام سے متعلق تمام احکامات کی وضاحت بیان کی فقہا کرام نے وقت اور حالات کے مطابق ان معاملات کی مزید تفصیل اپنی کتب میں بیان کی۔ عہد حاضر میں بیع کی اقسام کو اسلامی بنکنگ میں کامیابی

 

کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ شریعت کے مطابق معاملات کو قائم کیا جا سکے -

 

حوالہ جات

  1. امجد علی اعظمی، مولانا، بہار شریعت، کراچی، مکتبہ المدینہ، 2009ء، حصہ 11، ص 8
  2. النساء 29: 4
  3. المائدہ 87: 5-88
  4. ابن عابدین، محمد امین بن عمر، حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر، بیروت، 2000ء، باب السلم، ج5، ص209
  5. صابر حسین، مفتی، اصطلاحات اسلامی معیشت و وراثت، شیخ زید اسلامک سنٹر، کراچی، 2009ء، ص37
  6. البقرہ282: 2
  7. البخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، دارطوق النجاۃ، بیروت، 1422ھ، کتاب السلم، باب السلم فی وزن معلوم، ج3، ص85
  8. ابن عابدین، محمد امین بن عمر، حاشیہ ابن عابدین، باب السلم، ج5، ص223
  9. الحصکفی، علاؤالدین، الدرالمختار، دارالفکر، بیروت، 1386ھ، باب المرابحۃ والتولیۃ، ج5، ص132
  10. النساء 29: 4
  11. ابن عابدین، محمد امین بن عمر، حاشیہ ابن عابدین، مطلب فی الوکیل والفضولی فی النکاح، ج3، ص97
  12. الطبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط، دارالحرمین، قاہرہ، 1415ھ، باب من بقیۃ بن اول اسمہ میم من اسمہ موسیٰ، ج8، ص184
  13. صابر حسین، مفتی، سرمایہ کاری کے احکامات، المنیب شریعہ اکیڈمی، کراچی، ص 102
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...