Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

خواجہ محمد خلیل رحمۃ اللہ علیہ حیات، علمی، ادبی و تصنیفی خدمات |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029185_773

Pages

190-215

DOI

10.51411/rahat.2.2.2018.42

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/42/339

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/42

Subjects

Reformation Jurisprudence Services Commentary Reformation Jurisprudence Services Commentary

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

یہ ایک مسلم حقیقت ہےکہ پاکستان کےعلماءوصوفیاءنےعلمی میدان میں جوکارنامے انجام دیے وہ ناقابل فراموش ہیں، علماء کرام کی کثیر تعداد نے اسلامی علوم و فنون کے جن میں علوم قرآن و حدیث، فقہ و منطق، تفسیر و اصول تفسیر، تصوف، علم کلام و عقائد، تصنیف و تحقیق کا کام بڑی تندہی سےکیاہےجس کی بدولت وہ علمی حلقے میں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ان کی فہرست میں شہر حیدرآباد صوبہ سندھ کی ایک مشہور شخصیت خواجہ مفتی محمد خلیل ؒ کا نام بھی سامنے آتا ہے کہ جنہوں نے بہت ہی قلیل وقت میں بے شمار علمی تصانیف تحریر فرمائی جو ایک طرف دنیا بھر میں اصلاح کا ذریعہ بن رہی ہیں اور دوسری طرف یہ تاثر بھی دیتی ہیں کہ اشاعت اسلام اور علمی و قلمی میدان میں پاکستان کے علماء کرام بھی کسی عرب اسلامی ملک کے علماء کرام سے پیچھے نہیں ہیں ۔

 

خواجہ مفتی محمد خلیل خان کا شجرہ:

محمد خلیل خاں بن عبدالجلیل خان بن اسماعیل خان بن سردار خان بن فیض اﷲ خاں، آپ کا تعلق لودھی خاندان سے ہے۔ تاریخ کے مطابق لودھی خاندان میں تین بادشاہ گزرے ہیں، جنہوں نے ہندوستان پر حکومت کی ہے، جن میں بہلول لودھی، سکندر لودھی، اور ابراھیم لودھی۔ 1

 

خاندانی پس منظر و ابتدائی احوال:

آپ کے والد عبد الجلیل خاں لودھی قبیلے سے تعلق رکھتے تھےآپ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا، آپ کے دو صاحبزادے عبد القدیر خاں اور دوسرے خلیل خاں، علامہ خلیل خاں ضلع علی گڑھ (انڈیا) کی ایک ریاست دادوں میں ملحقہ موضع کھریری میں جولائی1920ءمیں پیداہوئے۔ابھی آپ چھ دن کےتھےکہ والدماجدکاانتقال ہوگیا۔کچھ عرصہ بعدآپکی والدہ ماجدہ آپ کولیکرمارہرہ شریف آگئیں جوکہ آپ کاننہیال بھی ہےابھی آپ سن شعورتک بھی نہ پہنچے تھے کہ والدہ ماجدہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ چنانچہ آپ کے چچا محمد یعقوب خان نے آپ کی اور آپ کے بھائی عبدالقدیر خاں کی پرورش کی۔2مارہرہ شریف انڈیا کے صوبہ یوپی ضلع میں واقع ایک قصبہ ہے۔ سید محمد صغریٰ واسطی علیہ الرحمتہ نے سلطان التمش کے دور میں جب بلگرام کو فتح کیا اور اس کو آباد کیا، اور ان کی اولاد سے بعد مشائخ مارہرہ شریف آگئے بعد ازاں صاحب البرکات سید شاہ برکت اﷲ مارہرویؒ نے یہاں خانقاہ برکاتیہ کی بنیاد رکھی ۔

 

آباؤاجداد میں اہل علم:

علامہ صاحب کا ننہیال کا شمار اہل علم اور علماء گھرانے میں ہوتا ہے، چنانچہ آپ کے ناناکرم خاں صاحب کے برادر محترم علامہ عبدالرحمن عرف الف خاں صاحب اپنے وقت کے جید علماء کرام میں شمار ہوتے تھے، علامہ عبد الرحمٰن ؒ، مولانا لطف اﷲ علی گڑھی ؒکے شاگرد رشید اور حضرت علامہ سید شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں صاحبؒ کے خلیفہ ارشد تھے۔ گویا علم دین سے شنا سائی و رغبت علامہ صاحب کو اپنے گھر سے ملی۔

 

ابتدائی تعلیم:

مروجہ دستور کے مطابق ابتداء میں آپ نے اسکول کی تعلیم مارہرہ شریف میں ہی حاصل کی اور 1934ءتک مڈل پاس کرلیا۔اسکےبعدعلم دین کاآغازہوااورریاست مینڈوکےمدرسہ یوسفیہ میں چھ ماہ تک گلستان، بوستان تک تعلیم حاصل کی۔ اسکےبعددادوںضلع علیگڑھ چلےگئے۔ دادوں میں نواب ابوبکر خاں شروانی کا مدرسہ حافظیہ سعیدیہ بہت مشہور تھا۔ جب آپ یہاں آئے تو ذو الحجہ 1353ھ کاوقت تھا۔دینی مدارس میں عموماًداخلےشوال میں ہوتےہیں۔داخلہ کی تاریخ تو نکل گئی تھی، علامہ اپنےایک، بزرگ مولاناعبدالحفیظؒ کوساتھ لیکرنواب صاحب کے پاس گئے، نواب صاحب نے داخلہ دینے سے انکار کردیا۔لیکن آپ سے چند سوالات کے بعد آپ کو داخلہ دینے پر رضا مند ہوگئے اور پھر آپ نے اسی مدرسہ میں دورہ حدیث تک تعلیم مکمل کی۔3

 

اساتذہ کرام:

آپ نے اس مدرسہ میں جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ان میں مشہور علماء کرام علامہ مولانا محمد شریف خاں صاحبؒ، علامہ مولانا امین الدین چھرّویؒ، علامہ مولانا نور محمد ؒ اورعلامہ امجد علی اعظمی ؒ المعروف صدر الشریعہ شامل ہیں۔

 

نواب ابوبکرخان کےانتقال کےبعدنواب حاجی غلام محمدعرف حاجی میاں جنہیں دوسرے علاقے والے راجہ صاحب کہتے تھے، مدرسہ کے متولی بنے، مدرسہ کی کارکردگی بڑھانے کیلئے خصوصی طور پر اہلسنت کےمعروف عالم علامہ محمد امجد علی اعظمی کو منظر الاسلام بریلی شریف سے بلایا گیا اور آپ یہاں کے صدر مدرس کی حیثیت سے تشریف لائے۔آپ کی آمد سے مدرسہ میں علوم و فنون کی نئی بہار آگئی اور علم و فیض کے دریا بہنے لگے۔علامہ صاحب نے صدر الشریعہ امجد علی اعظمی ؒ کی سرپرستی میں ابتداء تا اانتہاء اپنی تعلیم مکمل کی اور 1363ھ میں یہیں صدر الشریعۃ سے دورہ حدیث کیا۔علامہ صاحب کے رفقاء درس کے نام خودامجد علی اعظمی نے بہار شریعت کے آخر میں عرض حال میں بیان کیے ہیں اور آپ کا شمار اپنے بہترین شاگردوں میں کرکے آپ کو خراج محبت پیش کیا ہے جو صدرالشریعہ کا اپنے شاگرد علامہ خلیل خاں صاحب ؒ سے محبت اظہار ہے ۔

 

دستار بندی:

علامہ ؒنے جب 1362ھ کےآخرمیں سال ہفتم کی تعلیم مکمل کرچکےتوعلامہ امجد علی اعظمیؒ صاحب بہار شریعت المعروف صدر الشریعہ نےدورہ حدیث میں شریک ہونےکاحکم فرمادیااور باالآخرآپ نے1945ءمیں درس نظامی مکمل کرلی۔4

 

فراغت تعلیم کے بعد تبلیغی خدمات:

تحصیل علم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ مختلف علاقوں میں دین اسلام کی تبلیغ کی، یہ وہ

 

دور تھا جبکہ عیسائی مشینری، مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کررہی تھی، دوسری طرف ہندوؤں کی شدھی تحریک مسلمانوں کو ہندو بنانے کے چکّر میں لگی ہوئی تھی اور تیسری طرف سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ کچھ اندرونی غدار دین اسلام کو اندر سے کھوکھلا کرنے میں مصرف تھے۔ دیگر علماء کی طرح علامہ نے بھی ہر محاذ پر کام کیااور تبلیغ کی غرض سے کانپور، فتح پور، ہسوہ، بنارس وغیرہ شہروں کے دورے کئے۔ بنارس میں صدرالشریعۃ امجد علی اعظمی ؒسے آپ کی آخری ملاقات ہوئی۔

 

مفتی صاحب کا تحریک پاکستان میں کردار:

آپ نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصّہ لیا۔ تحریک پاکستان کا دور حضرت مفتی صاحب کے شباب و جوانی کا دور تھا۔ آپ مارہرہ شریف اوراس کے گردو و نواح میں ہونے والے مسلم لیگ کے جلسے جلوس میں بڑی دلچسپی سے حصّہ لیتے رہے۔ آپ مسلم لیگ کا پرچم اٹھائے ہوئے جلوسوں کے آگے آگے چلتے تھے، کانگریس اور کانگریسیوں کا اپنی تقاریر میں ہمیشہ رد فرماتے اور یوں حصول پاکستان کی تحریک میں بھر پور حصّہ لیتے رہے۔5

 

تحریک خاکسار کو روکنے کے لئے کردار:

زمانہ طالب علمی میں جب کہ (کانگریسی بیلچہ) خاکسار تحریک زوروں پر تھی اور اس کا ہر

 

سو چرچا کیا جارہا تھا جگہ جگہ شہر شہر اس تحریک کے کنونیئر اور اراکین گشت کررہے تھے، اکابر علماء کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا۔ گمراہ کن لٹریچر کی بھر مار تھی، اس دور میں مفتی صاحب نے اس تحریک کے چوبیس نکات کی شدید گرفت کی اور ان کے رد میں رسالہ خنجر آبدار بر فرقہ خاکسار (غیر مطبوعہ) تحریر فرماکر قوم کو خبردار کیا اور ان سے ہوشیار ہنے کی ہدایت کی۔

 

==ہندوستان میں تدریسی خدمات: ==آ پ کے علم و تبلیغ کا غلغلہ بلند ہوا تو مختلف مدارس سے تدریس کی پیشکش ہوئی، اس وقت آپ کی توجہ تبلیغ کی طرف زیادہ تھی لہٰذا تدریس قبول نہ کی۔ جب مارہرہ واپس آئے تو یہاں مدرسہ قاسم البرکات سرکار کلاں میں مدرس ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ سال یہاں پڑھایا۔ ساتھ ہی ساتھ معاش کیلئےتجارت بھی کی۔ 1366ھ میں میرٹھ چھاؤنی میں اسکول ماسٹر مقرر ہوئے، چھ ماہ بعد صدرالعلماء علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی ؒکے کہنے پر استعفاءدیا اور مدرسہ قمر الاسلام میرٹھ میں صدر مدرس کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔ اسی اثنا میں تاج العلماء محمد میاں مارہروی نے طلب فرمایا تو 1367ھ میں مارہرہ شریف واپس آگئے اور مدرسہ میں 1367ھ تا 1370ھ بحیثیت صدر مدرس اور جامع مسجد شیشگراں میں بحیثیت خطیب و امام خدمات سر انجام دیں۔6

 

پاکستان آمد:

یہ وہ دور تھا جب تحریک پاکستان عروج پر تھی اور ہندوستان میں حالات بگڑتے جارہے تھے، اسی اثناء پاکستان بن گیا اور 16 فروری 1948ء کو مفتی محمد خلیل خاں ؒ کی شادی بھی ہوگئی۔ مفتی محمد خلیل خاں ؒ کے سسرال والے کچھ عرصہ بعد پاکستان ہجرت کرگئے، اسی دوران مفتی محمد خلیل خاں ؒ کے ہاں ایک بچی کی ولادت بھی ہوئی۔ حالات سازگار نہ ہوئے تو مفتی محمد خلیل ؒ بھی 1370ھ/1950ء میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آگئے۔ کچھ عرصہ میر پور خاص (ضلع تھر پارکر) میں، پھر کراچی میں قیام کیا، بالآخر حیدرآباد سندھ میں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔7

 

معاصرین:

پاکستان میں جن علماءسےوقتاًفوقتاًخط وکتابت یاملاقات رہی ان میں مذکورہ بالابزرگوں کےعلاوہ شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفٰے ازھری ؒ، حضرت علامہ مفتی وقار الدین قادری ؒ، علامہ مفتی محمد ظفر علی نعمانی ؒ، خطیب پاکستان علامہ محمد شفیع اوکاڑوی، حضرت علامہ محمد حسن حقانی، حضرت علامہ شاہ احمدنورانی، علامہ سردار احمد چشتی رضوی ؒ، علامہ عبدالحکیم شرف قادری، علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی، علامہ سید مرغوب احمد اخترالحامدی ؒ، علامہ محمد حسین قادری ؒ، علامہ سیداحمدسعید کاظمی ؒ،

 

علامہ فیض احمداویسی رضوی مدظلہ، محامد العلماء ابو حماد مفتی احمد میاں برکاتی (خلف اکبر) 8شامل ہیں۔

 

خواجہ مفتی محمد خلیل خاں ؒ کی علمی و تصنیفی خدمات پر ایک جائزہ:

’’ام المدارس، دارالعلوم احسن البرکات ‘‘کا قیام: جس وقت علامہ مفتی محمد خلیل خاںؒ حیدرآباد تشریف لائے اس وقت ایسا باقائدہ کوئی دینی ادارہ موجود نہیں تھا جہاں قرآن و حدیث فقہ کےمسائل پڑھے اور پڑھائے جاتے ہوں اور عوام میں اکثریت ہندوانہ رسم و رواج کے اثرات موجود تھے، اس وقت لوگوں کو دینی مسائل سکھانے والے یہاں بہت کم تھے اور لوگوں کا رجحان دین کی طرف بہت کم تھا۔ چنانچہ آپ نے تقریر و تصنیف کے ذریعہ لوگوں میں تبلیغ کی اور تدریس کے ذریعہ دینی علوم پھیلائے اور اس وقت کے مشہور علمائے حیدرآباد کے ساتھ ملکر لوگوں کو دین کی طرف راغب کیا اور ایک دینی ادارہ قائم کیاجس کانام احسن البرکات تجویزکیاگیا۔شوال 1371ھ، 1952ءمیں دارالعلوم احسن البرکات کی بنیاد رکھی، جو سندھ اور بلوچستان میں ممتاز حیثیت کا حامل ادارہ ہے، حیدرآباد میں قائم یہ پہلا مدرسہ تھا جس کی وجہ سے اس کو’’ام المدارس ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ دارالعلوم احسن البرکات میں درس نظامی کا آغاز 1955ء میں ہوا اور 1965ء میں دورۂ حدیث کا پروگرام طے ہوا، جو آج تک جاری و ساری ہے۔ آپ کی حیات مبارک میں تقریباً ایک سو فضلاء دورہ حدیث سے فارغ ہوئے، ان کے علاوہ سینکڑوں علماء نے آپ سے سند حدیث حاصل کی۔9

 

شہر حیدرآباد کا پہلا فتویٰ:

حیدرآباد شہر میں باقاعدہ پہلا فتویٰ دارالعلوم احسن البرکات نے 1955ء میں شائع کیا، یہ

 

اعزاز بھی دارالعلوم احسن البرکات کو حاصل ہے ۔ 10

 

دارالعلوم کی سندکی امتیازی خصوصیات:

سندھ یونیورسٹی جامشورو میں دارالعلوم احسن البرکات کی سند شہادۃ العالیہ، بی اے کے

 

مساوی اور شہادۃ العالمیہ ایم اے کے مساوی منظور ہےجس کے تحت دارالعلوم کے فاضلین کے لئے ایم اے اور ایم فل میں داخلہ آسان ہے، نیز دارالعلوم ملک کے فوقانی مدارس میں شامل ہے اور تنظیم المدارس کاممبرہےجسکی سندیونیورسٹی گرانٹس کمیشن کےفیصلہ کےتحت ملک کی تمام یونیورسٹیاں، ایم اے عربی اسلامیات کے مساوی تسلیم کرتی ہیں۔یہ کاوش آپ کے خلف اکبر مفتی احمد میاں برکاتی مدظلہ کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے ۔

 

دارالعلوم کے قیام کے لئے جن حضرات نے اپنی خدمات پیش کیں ان میں:

علامہ سیدریاض الحسن قادری جیلانؒی جومحمدحامدرضاخاںبریلویؒ کےتلمیذوخلیفہ تھے۔ علامہ سید محمد علی رضویؒ (سابقہ ایم این اے حیدرآباد) مدظلہ، تلمیذ مفتی اعظم پاکستان محمد احمد قادری رضوی ؒ، نمایاں تھے۔علاوہ ازیں مفتی محمد محمود الوری صاحبؒ بانی رکن الاسلام مجددیہ، علامہ قاری عبد الرزاق نقشبندی ؒ خطیب جامع مسجد مائی خیری، فقیر کا پڑ حیدرآباد (مائی خیری مسجد سندھ کے مشہور حکمران سید غلام علی کلہوڑو کی ہمشیرہ مائی خیر النساء نے تعمیر کروائی، یہ مسجد سندھ کی تاریخ کی قدیم مسجد ہے جسے 300سال کا عرصہ گزر چکا ہے) ، سید جعفر حسین شاہ ؒ 11

 

آپ کے تلامذہ:

مفتی محمد خلیل خاں ؒ سے ایک زمانہ نے فیض حاصل کیا اور ہزاروں کی تعداد میں آپ کے شاگرد ہوئے اور آپ کی بدولت علم دین ان علاقوں میں پہنچا جہاں لوگ مسلمان ہونے کے باوجود دین کے احکام سے ناواقف تھے۔ آپ کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے جن میں چند مشہور تلامذہ

 

کے نام درج ذیل ہیں۔

 

حضرت علامہ سید حسن میاں برکاتی ؒ، سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف، صاحبزادہ مولانا مفتی ابو حماد احمد میاں برکاتی مہتمم دارالعلوم احسن البرکات، حیدرآباد، مفتی غلام محمد قاسمی مہتمم دارالعلوم غوثیہ رضویہ انوارباہو کوئٹہ، مفتی محمد وارث قاسمی مہتمم دارالعلوم قاسمیہ قادریہ خضدار، مولانا صوفی رضا محمد عباسی سابق شیخ الفقہ دارالعلوم احسن البرکات ڈسٹرکٹ خطیب حیدرآباد، حافظ محمد سعید احمد قادری ؒ دارالعلوم مدرسہ غوثیہ رضویہ سعیدیہ بکرا منڈی حیدرآباد، مولانا قاری خیر محمد قاسمی خطیب جامع مسجد شیخ زید لاڑکانہ، مولانامفتی عبدالرحمن قاسمی صدرمدرس مدرسہ جیلانیہ لاڑکانہ، مولانا محمد حسن قلندرانی قاسمی خطیب صدیق اکبر مسجد تلک چاڑی حیدرآباد، علامہ ہدایت اﷲ آریجوی ؒ، مفتی محمد عبد الحفیظ قادری استاذ الحدیث و نائب مفتی دارالعلوم احسن البرکات، مولانا محمد حسین قلندرانی، مولاناخیرمحمدجمعہ خان گوٹھ لاڑکانہ، مولانا صوفی نثار احمد لاڑکانہ، مولانا محمد الیاس قادری امیر دعوت اسلامی، مولاناحکیم غلام محمدسما لانی، قاضی محمدعلیم اشرفی، مولانا محمد بشیر چشتی (انگلینڈ) ، حافظ محمد شریف برکاتی مارھرہ شریف، مولانا پیر سید تاج محمد شاہ جیلانی ٹنڈو آدم، پیر سید عبدالعلیم شاہ جیلانی ٹنڈوآدم، حضرت پیرسیدغلام جیلانی (ٹھٹھہ) ، سیدمخدوم حسین شاہ جعفری، سیدمحمدحسین شاہ جعفری، ڈاکٹر شمیم احمد (امریکن اسپتال لطیف آباد) ، پروفیسر فضل الرحمن مرحوم سندھ یونیورسٹی، پروفیسر رضی الدین احمد جماعتی سراج الدولہ کالج کراچی، مفتی سید عظمت علی شاہ نوری ریسرچ اینڈ رجسٹریشن آفیسرمحکمہ اوقاف سندھ، مفتی عبدالرشید نوری آرائیں نوری قادری12 ان کےعلاوہ پاکستان بھر میں آپ کے تلامذہ جو کہ اب دنیا بھر میں تبلیغ اسلام میں مصروف عمل ہیں۔

 

شہر حیدرآباد کا پہلا اوقات نماز کا نقشہ اور ریڈیو پاکستان (حیدرآباد) سے وابستگی:

حیدرآباد تشریف لانے کے بعد حیدرآباد میں کوئی مستند نقشہ نماز موجود نہ تھا آپ نے اس کمی کو پورا کیا اور نقشہ نماز اوقات تحریر کیا، ریڈیو سے دارالعلوم کی وابستگی اس وقت عروج پر پہنچی جب ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے رمضان المبارک کے مہینے میں سحری و افطار کے اوقات نشر کرنے حضرت مولانا مفتی محمد خلیل خاں البرکاتی القادری کے ترتیب دیئے ہوئے نقشہ سے اوقات نماز کو منسلک کردیا اور خلیل ملّت ؒ کے مشورے سے سحری و افطاری کے اوقات احتیاطی منٹ کے ساتھ نشر ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ریڈیو پاکستان حیدآباد کے ذمہ دار افراد اس شرعی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے احسن البرکات میں تشریف لاکر ہی اپنے اطمینان کی تکمیل کرتے ہیں۔13

 

امامت و خطابت:

آپ کی علم و وجاہت کا جب حیدر آباد میں چرچا ہوا تو دور دراز سے حضرت کے پاس لوگ آتے اور اپنے علاقے کی مساجد میں امامت و خطابت کی پیشکش کرتے آپ نے اپنی زندگی میں جہاں باقاعدہ امامت و خطابت فرمائی ان میں جامع مسجد خضراء گاڑی کھاتہ حیدرآباد، گول مسجد لطیف آباد نمبر 6 حیدرآباد اور مسجد اقصیٰ لطیف آباد نمبر 6حیدرآباد شامل ہیں۔ اس کے ساتھ تبلیغ کے لئے حیدرآباد کے علاوہ دوسرے کئی شہروں میں بھی تشریف لے جاتے رہے۔

 

وصال با کمال:

علم و فضل کا یہ چمکتا ہوا آفتاب 28/ رمضان المبارک 1405ھ/ 18 جون 1985ء کو افطار سے چند منٹ بیشتر غروب ہوگیا۔ آپ کے انتقال کی خبر بڑی تیزی سے پھیلی اور علماءوعوام کی بڑی تعداد نے بحالت روزہ آپ کے جنازہ میں شرکت کی۔ درگاہ حضرت سیدنا سخی عبدالوہاب شاہ جیلانی رحمتہ اﷲعلیہ میں آپ کو دفن کیا گیا۔ 14

 

علامہ مفتی خلیل خان کی علمی و ادبی خدمات:

==بحیثیت مصنف: ==حضرت مولانا مفتی محمد خلیل خاں ؒ، قیام پاکستان کے بعد پاکستان تشریف لے آئے ۔ تقریباً اٹھارہ ہزار فتاویٰ جاری کئے جو بارہ جلدوں پر مشتمل ہیں، اس کے علاوہ تقریباً ساٹھ کتابیں تصنیف کیں جن میں اکثر تصانیف طبع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں اور کچھ تصانیف زیر طبع ہیں اور کچھ رسائل کو کتابی صورت میں جمع کردیا گیا ہے ۔

 

تفسیر ی خدمات:

(1) خلاصۃ التفاسیر، قرآن کریم کے سترہ پاروں کی تفسیر ہے، جو کہ زیر طبع ہے ۔

 

(2) تفسیر سورۃ النور، جو کہ کتابی شکل میں چادر اور چار دیواری کے نام سے مشہور ہے، اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ (The Vill) موجود ہے ۔ 

 

(3) نشری تفسیر (ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے آپ پروگرام ’’صراط مستقیم‘‘میں قرآن کریم کی تفسیر فرماتے تھے، آپ کی تفسیر کا صوتی ریکارڈ آج بھی ریڈیو پاکستان میں موجود ہے، علامہ برکاتی صاحب نے ریکارڈ کے حصول کے بعد اسے کتابی شکل اختیار دے چکے ہیں جو کہ جلد منظر عام پر آئے گی) ۔

 

حدیث میں خدمات:

(1) چہل احادیث 

 

فقہی خدمات:

(1) احسن الفتاویٰ المعروف فتاویٰ خلیلیہ، جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔

 

(2) ہماری نماز (مسائل نماز پر مشتمل ہے) 

 

(3) الصلوٰۃ (نماز کے مسائل پر مشتمل ہے) 

 

(4) سنی بہشتی زیور (مردوں، عورتوں کے مسائل پر مشتمل ہے) دور حاضر میں شادی بیاہ میں

 

دیے جانے والا ایک بہترین تحفہ ہے ۔ اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ انگریزی، ھندی، سندھی اور فرنچ زبان میں موجود ہے ۔

 

(5) ہمارا اسلام (بچوں، بڑوں کے لئے بنیادی عقائد پر مشتمل ایک عمدہ کتاب ہے) اس کتاب کا انگریزی زبان میں (Glorius Relegion) اور سندھی میں (اسان جو اسلام) ، ہندی اور فرنچ زبان میں ترجمے موجود ہیں ۔

 

(6) معراج المومنین (نماز کی فضیلت اور اس کے مسائل پر مشتمل ہے) 

 

(7) احکام الزکوٰۃ (زکوٰ ۃ کے مصارف و مسائل پر مشتمل ہے) 

 

(8) شرح کتاب الحج

 

علامہ صاحب ؒکی تصوف میں خدمات:

(1) نور علیٰ نور، ترجمہ سراج العوارف از وارث الاکابر سید شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں ؒ۔

 

(2) سبع سنابل، ترجمہ میر سید عبدالواحد بلگرامی ؒ کی تصوف پر جامع کتاب ہے۔

 

(3) فیصلہ ہفت مسئلہ مع توضیح و تشریح حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کی تصنیف کی شرح ۔

 

علامہ صاحب ؒ کی علم عقائد میں خدمات:

عقائد الاسلام (علم عقائد پر مشتمل ہے) شاہ ولی اﷲکے عربی رسالے العقیدۃ الحسنہ کا اردو ترجمہ و شرح۔اس کے علاوہ دس عقیدےجوامام احمد رضاخاں ؒ کی کتاب کی شرح ہے۔

 

علامہ صاحب ؒ کی معاشرتی مسائل پر مشتمل کتب:

(1) اسلامی گفتگو، چھوٹے بچوں، بچیوں کو حکایات اور نصیحت کے حوالےسے ہے۔

 

(2) دعائیں، ترجمہ و شرح قرآن و حدیث میں آنے والی دعاؤں کا مجموعہ۔

 

(3) روشنی کی طرف، ترجمہ و شرح امام غزالی کی کتب المنقذ من الضلال ۔

 

(4) موت کا سفر، ابن حجر کی کتاب المنبہات کا اردو ترجمہ۔

 

(5) حکایات رضویہ، امام احمد رضا خاں ؒ کی کتب سے انتخاب ۔

 

(6) خنجر آبدار برفرقہ خاکسار۔

 

(7) حقوق الاولاد، اولاد کے حقوق و مسائل پر مشتمل ۔

 

(8) آئینہ حق نما (9) درود و سلام (10) تحفہ عید قربان 

 

(11) تحفہ رمضان، رمضان کی اہمیت و فضیلت، و مسائل کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔

 

(12) تحفہ محرم، محرم الحرام کی فضیلت اہمیت اور مسائل ۔

 

(13) تحفہ عید الفطر، عیدین کے مسائل ۔

 

علامہ صاحب کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کے بعد جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ کہ علامہ صاحب کا انداز مناظرانہ نہیں بلکہ معلمانہ ہے۔آ پ نے اپنی زندگی میں کل18350صفحات تصنیف فرمائےاوریہ اتفاق ہےکہ شعورکےبعدآپ کی زندگی کےکل ایام بھی (51سال) اٹھارہ ہزارتین سوپچاس بنتے ہیں۔ فتاویٰ خلیلیہ کے علاوہ اٹھارہ ہزار فتاویٰ کا عظیم الشان ذخیرہ اس کے علاوہ ہے، جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ خلیل ملّت ؒ کی تمام تصانیف عوام و خواص کیلئے مفید اور قبولیت عامہ کی حامل ہیں۔ خاص طور پر’’ہمارا اسلام‘‘اور ’’سنّی بہشتی زیور‘‘کو حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوئی، ہمارا اسلام کا ترجمہ سندھی، ڈچ ہندی اور انگریزی میں شائع ہوچکا ہے۔

 

تصنیفی خدمات پر ایک جائزہ:

علامہ نے مختلف موضوعات پر کتب بھی تحریر فرمائیں، آپ کا شمار اس دور کے مصنّفین میں ہوتا ہے جب اہلسنت میں مصنّفین کا قحط الرجال تھا۔ مفتی محمد خلیل خاں ؒ نے اس دور میں بہترین کتب تصنیف فرمائیں۔ جنکی آج بھی اہمیت ہے اور بہت سے لوگوں نے انہیں کتب کی بدولت معاشی ترقی حاصل کی بلکہ یوں کہا جائے کہ بعض کتب خانوں کی ترقی کا راز مفتی محمد خلیل خاں ؒ کی کتب کی اشاعت ہے، تو بیجا نہ ہوگا۔ آپ کی کتب میں سے سنّی بہشتی زیور اور ہمارا اسلام کو بین الاقوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور ملکی و غیر ملکی زبانوں میں ان کے تراجم ہوئے۔

 

خواجہ محمد خلیل خاں کا سیرت و کردار

==قدولباس: ==حضرت علامہؒ درمیانہ قد، گندمی رنگ، گول اورپروقارچہرہ، لمبی وگھنی ریش

 

مبارک کے حامل اور تصنع و نمود و نمائش سے بالکل مبرا تھے نہایت صاف ستھرا وضع کا لباس زیب تن فرماتے ۔ آپ کی چال ڈھال باوقار تھی چلتے وقت چست اور تیز رفتاری سے سیدھے چلتے تھے۔15

 

گفتگو و کلام:

آپ کے اخلاق کی خوبی یہ تھی جو کوئی شخص آپ سے ملاقات کرتا اسے اجنبیت کا بالکل احساس نہیں ہونے دیتے، اور آپ کے کلام کی یہ خوبی تھی ہر شخص اس بات کا دعویٰ دار ہوتا کہ حضرت سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے ہیں، آپ کی گفتگو میں کم گوئی و حلاوت، کبھی کبھی ہلکے پھلکے لطائف، و خوش طبع و مزاح ضرب الامثال کی آمیزش ہوتی تھی کہ آپ کی عادت شریفہ و صفت تھی کہ خواہ مخواہ کی باتوں سے اجتناب فرماتے تھے، ہاں درس و تدریس میں اور ضرورت کے وقت اپنی بات بلاکم وکاست اوربغیر کسی رعایت کےصاف صاف اظہارفرماتےتھے۔آپ اپنے شاگردوں اور متعلقین و معتقدین کو غلط بات پر ٹوکتے ان کی اصلاح فرماتے تھے لیکن غلطیوں پر تنبیہ کرنے کا بڑا پیارا انداز تھا آپ اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں سنت مصطفوی کے عامل تھے کسی سے کلام فرماتے تو نہایت شائستگی اور نرمی و عمدہ اخلاق سے کلام فرماتے۔ آپ ایسا کوئی کلام منہ سے نہیں نکالتے تھے کہ جس سے کسی کی دل شکنی ہو۔ ہاں حق بات بے جھجک کہہ دیتے کسی کی رعایت نہ کرتے تھے۔16

 

زہد اور احکام شریعہ کی پابندی:

استاذ العلماء قبلہ مفتی صاحب جامع شریعت و طریقت عالم اور مفتی شرع متین تھے احکام شریعت کی بہت سخت پابندی فرماتے تھے اور حلال و حرام کا امتیاز تو تھا ہی مگر آپ شبہ کی چیزوں سے بھی بہت سخت اجتناب فرماتے تھے مجھ سے عاجز کو اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ حجام بال بنانے کیلئے حاضر ہوگیا۔ مگر مدرسہ میں پانی موجود نہ تھا، حجام نے کہا کہ مسجد سے ایک چلو پانی لے آتا ہوں آپ نے منع فرمایا اور فرمایا مسجد کا پانی مسجد ہی میں استعمال کرنا چاہئے اس لئے تم کل آجانا۔ دارالعلوم میں دارالاقامہ کے طلبہ کیلئے شہر کے لوگ پورا بکرا ذبح کرکے لے آتے تھے بعض شاگردوں نے ارادہ کیا کہ بہت گوشت پڑا ہوا ہے خواہ مخواہ نقصان ہوگا کچھ گوشت قبلہ استاذ کے گھر بھیج دی، آپ کو پتہ چلا منع فرمایا اور فرمایا ہمارے گھر ایک ٹکڑا گوشت کوئی نہ بھیجے کچھ شاگردوں نے عرض کیا حضرت دیگر مدارس میں بعض اساتذہ کرام گوشت لے جاتے ہیں اور شرع میں یہ رخصت بھی ہے کہ طلبہ اب آپ کو ھدیہ کریں فرمایا وہ ہم سے اچھے مگر ہم اس کو پسند نہیں کرتے ہیں۔17 خیال رہے صدقہ واجبہ سادات اور غنی پر ناجائز ہے یہ گوشت نہ صدقہ واجبہ ہوتا اور نہ ہی آپ سادات اور غنی میں سے تھے مگر کمال تقویٰ ہے کہ ادنیٰ شاگردوں اور متعلقین کیلئےمشعل راہ ہوجائے۔

 

==تواضع و تقویٰ: ==

 

ایک دعوت کا ذکر ہے کہ مدرسہ کے ایک طالب علم کے گھر پر دعوت ولیمہ تھی (نزد مسجد نورالاسلام یونٹ نمبر 8) اس دعوت میں جناب مفتی صاحب تھے۔ صوفی رضا محمد صاحب تھے اور طلباء حضرات اور یہ حقیر طالب علم بھی تھا۔ مفتی صاحب نے پرہیز کی وجہ سے کھانا مطلق نہ کھایا مگر ایک مسئلہ معلوم ہوا وہ یہ کہ ایک صاحب نے جو کہ خود مہمان تھے کھانا کھاتے ہوئے مفتی صاحب کو کھانے کے لئے کہا تو آپ نے بروقت فرمایا کہ آپ کسی اور کو کھانے کے لیے نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ مدعو کئے ہوئے مہمان ہیں میزبان جو آپ کو کھلائے وہ آپ کھا سکتے ہیں مگر از خود کسی کو کھلا نہیں سکتے مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جب تک عملی طور پر واسطہ نہ پڑے مسائل کی واقفیت نہیں ہوتی۔ حج کے دوران اس کا تجربہ ہوا۔18

 

علامہ صاحب بحثیت مفسر قرآن:

آپ کا شمار اس کے وقت بہترین مفسرین میں ہوتا، درس نظامی کی کتب تفسیر پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ ہر طالب علم کی خواہش ہوتی کہ مفتی صاحب سے تفسیر کو پڑھا جائے، آپ کے درس قرآن میں نہ صرف طلباء بلکہ دور دراز کے علماء کرام بھی تشریف لاتے ۔آپ کے ایک شاگرد مفتی سید عظمت علی شاہ صاحب نے بتایا کہ مفتی صاحب کا درس میں کبھی ہمارے ذہنوں میں سوال ہوتے اور طلباء استاد کے ادب کو مدنظر رکھتے ہوئے پوچھنے میں جھجک محسوس کرتے لیکن علامہ صاحب اپنے درس میں ہی ان کا جواب ارشاد فرمادیا کرتے ۔

 

آپ نے اپنی زندگی میں قرآن کریم کی تفسیر (خلاصۃ التفاسیر) کے نام سے تحریر کی ۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان پر درس قرآن کے نام پر مختلف موضوعات پر تقریر فرمائی ۔ جس کا صوتی ریکارڈ مفتی احمد میاں برکاتی نے حاصل کرکے اسے نشری تفسیر کے نام سے کتابی شکل میں کر دیا ہے۔

 

علامہ صاحب بحثیت فقیہ و مفتی

تعلیم سے فراغت پاتے ہی تدریس و تبلیغ کے میدان میں قدم رکھا۔ چنانچہ آپ نے تنہا اور مرشد گرامی محمد میاں مارہروی (تاج العلماء) کی معیت میں ہندوستان کے مختلف صوبوںاور کئی شہروں کے تبلیغی دورے کئے، فراغت کے چار سال کے بعد 29 سال کی عمر میں مرشد گرامی نے خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے دارالافتاء میں اہم ذمہ داری دے کر منصب افتاء پر بٹھادیا جہاں سے آپ نے فتویٰ نویسی کا آغاز فرمایا۔19

 

فتویٰ:

مفتی احمد میاں برکاتی نے بتایا آپ بڑے غور و خوض اور کتب بینی کے بعد استفتاء کا جواب مرحمت فرماتے ملک بھر سے اکثر استفتاء آپ کے پاس آتے، آپ اس کا ایسا مکمل اور مدلل جواب رقم فرماتے کہ بڑے بڑے جید علماء و مفتیان گرامی آپ کے فتاویٰ کو تسلیم فرماتے ایک بار کشمیر میں ضلع باغ کے ایک مقرر نے جوش خطابت میں آکر محفل میں کہہ دیا کہ (معاذ اﷲ) اﷲتعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ اس پر میرے والدگرامی الحاج صوفی شیر احمدنے اﷲتعالیٰ کے گستاخ کی سرکوبی کیلئےملک بھر کے علماء سے فتوے منگوائے تو سب سے مدلل فتویٰ مفتی اعظم سندھ کا تھا جس پر پورے سندھ کے بڑے بڑے علماء و مفتیان کرام نے تصدیقات رقم فرمائیں جب وہ فتویٰ آزاد کشمیر پہنچا وہاں کی عدالت نے گستاخ باری تعالیٰ کو گرفتار کروا کرتوبہ کرائی۔20

 

فتویٰ نویسی میں احتیاط:

فتویٰ نویسی میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آسان سے آسان مسئلہ بھی کتاب میں دیکھ کر فتویٰ لکھتے، مسائل کا صرف جواب ہی نہ دیتے بلکہ اس کے ساتھ عقلی و نقلی دلائل بھی ضرور دیتے تھے۔ ایک بار فرمایا کہ نظافت کے ایک مسئلہ کی تلاش تھی جو25سال کےبعدکتاب میں ملا۔21بعض اوقات سائلین سوالات میں ہیر پھیر کرکے اپنے مطلب کا فتویٰ چاہتے تو ان سے وضاحت کراتے اور فرماتے کہ فرضی اور خیالی سوالوں کے بجائے فتویٰ لینے کیلئےاصل واقعہ اور اصل سوال لکھنا چاہئے۔ اسی طرح آپ کبھی شرطیہ یا فرضی جواب نہ دیتے اور نہ کبھی سوال سے غیر متعلق جواب لکھتے، بعض اوقات سوالات چار صفحات پر ہوتے مگر آپ ان کے جواباتِ مُدلَّل، صرف چند سطور میں لکھ دیتے کہ یہی کافی ہوتا۔ بعض وکلاء کا بیان ہے کہ دینی معاملات میں عدالتیں اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتی تھیں جب تک دارالعلوم احسن البرکات سے مفتی محمد خلیل خاں علیہ الرحمۃ کا فتویٰ نہ آجاتا۔22

 

مفتی صاحب بحیثیت مدرس:

آپ کے ایک شاگرد رشید حضرت علامہ مولانا محمد حسن قلندرانی، لکھتے ہیں:

 

’’استاذی المحترم استاذ العلماء سیدی حضرت مفتی اعظم محمد خلیل خاں قادری برکاتیؒ پاکستان کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام اور عظیم و مائیہ ناز مدرسین و مصنفین میں سے تھے۔یوں تو حضرت قبلہ مفتی اعظم تمام علوم عقلیہ و نقلیہ میں مہارت کاملہ رکھتے تھے مگر بالخصوص فن تدریس و افتاء اور تصنیف و تالیف میں آپ ایک بے بدل اور عظیم مفتی مصنف تھے۔حضرت کے پاس اگر غبی سبق پڑھتا تو ذہین بن جاتا آپ کی پڑھائی کا انداز ایسا پیارا تھا کہ غبی سے غبی اور کند ذہن شاگرد فوراً سبق، مقام کتاب سمجھ جاتا یہ بات راقم الحروف عاجز اور دیگر بے مثال تلامذہ کے تجربات سے ہے، اسی وجہ سے دارالعلوم میں دوسرے مایہ ناز اور اعلیٰ قابل ترین اساتذہ ہونے کے باوجود ہر طالب علم چاہتا کہ میرے اسباق حضرت مفتی صاحب کے پاس ہوجائیں اور میں حضرت سے پڑھوں‘‘۔23

 

علامہ صاحب بحیثیت شاعر ذکر شاعری:

عموما سمجھا جاتا ہے کہ علم دین سے شغف رکھنے والے حضرات کے نزدیک شاعری اور احساسات کوئی معنی نہیں رکھتے، لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ علامہ خلیل خاں جہاں ایک عالم دین تھے وہاں ایک بہترین شاعر بھی تھے ۔ مفتی صاحب کے کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے ایک باکمال شاعر تھے، ان کی شاعری ان کی زندگی میں منظرِ عام پر نہ آسکی مگر وصال کے بعد چھپ کر منصّہ شہود پر چھاگئی۔آپ کی شاعری کے حوالے سے پروفیسر رضی الدین لکھتے ہیں:

 

’’مفتی محمد خلیل خاں برکاتی طبقہ علماء میں ممتاز تھے، وہ سخن گو اور سخن سنج بھی تھے اور شعر گوئی میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔انہوں نے مختلف اصناف سخن میں شاعری کی مثلاًؔ، نعتؔ، منقبتؔ، غزلؔ، قصیدہؔ، سہراؔ، قطعہؔ، مسدسؔ، مربعؔ، وغیرہ۔ ان کی بعض غزلیں اور نعتیں تو مرصّع ہیں اور یہ بات اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب شاعر زبان و بیان پر قدرت رکھتا ہو اور اس کے خیالات میں روانی اور جذبات میں جولانی ہو۔ ان کے بعض مطلع اور مقطع بھی خوب ہیں۔ان کی شاعری بڑی وقیع ہے، اس میں تمام وہ خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھی شاعری میں ہونی چاہئیں۔ان کی شاعری میں معنی آفرینیؔ، بیساؔختگی، محاکاتؔ آفرینی، موسیقیتؔ و ترنم، حسنِؔ تراکیب، رعایتؔ لفظی، روز مرّہ محاورہؔ، معانیؔ و بیان، صنائعؔ بدائع سب ہی کچھ ہے۔ان کے ہاں غم جاناںؔ، بھی ہے، اور خمریاتؔ بھی۔عرفانؔ و معرفت اور قرآن و حدیث کی جھلکیاں بھی ہیں۔سچا شاعر نہ اپنے ماحول سے آنکھیں بند رکھتا ہے، نہ اپنے وجود سے، اس

 

کی شاعری میں زمانہ کا سایہ اور اس کے وجود کا عکس صاف نظر آتا ہے‘‘۔24

 

علامہ صاحب بحیثیت خطیب و مقرر:

آپ کےخطاب اصلاحی عنوانات پرمشتمل ہوتےجن سےسامعین بہت مستفیدہوتے کیونکہ آپ آج کل کےواعظین و مقررین کی طرح خطاب میں غیرضروری الفاظ استعمال نہیں کرتے، الفاظ و جملوں کا انتخاب بہت سادہ اور کلام مختصرو جامع ہوتا، قرآن و حدیث پر مشتمل تقریر فرماتے، جو بات دوسرے مقررین ایک گھنٹہ میں سمجھاتےوہ علامہ صاحبؒ مختصر وقت میں بیان فرمادیتے تھے ۔

 

تعلیمات خلیل خاں ؒ:

ہماری مشکلات اور ان کا حل: اسلام سچے مسلمان کو دین، اور اولیٰ و آخرت میں سچی کامیابی، اور حقیقی کامرانی کا راستہ بتاتا او رپھر اس راستے پر چلنے والوں کے اہل و عیال، املاک و اموال، جاہ و جمال، عزت و آبرو، جان و ایمان سب کو اپنی پناہ میں لیتا اور پھر اپنی پناہ میں آنے والوں کو ہرغم سے نیاز اور ہر مصیبت سے بے پرواہ بنادیتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت مطہرہ مصطفویہ اور ملت محمدیہ کے فرامین و احکام سے بیگانگی یا احکامِ اسلام کی جانب سے لاپرواہی اور اﷲتعالیٰ و رسول اللہﷺ کی نافرمانی کانتیجہ ذلت و نکبت، بیچارگی و نحوست و گمراہی و ہلاکت ہے۔سوال صرف یہ ہے کہ ہجوم آفات و مصائب کا مقابلہ کس طور پر کیا جائے اور وہ کون سی تدابیر ہیں جن کے ماتحت ہم اپنی عزت و ناموس اور جان و مال، دین و ایمان کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، اس کے متعلق کچھ ہدایات لکھی جاتی ہیں، ان پر عمل کرنا ان شاء اﷲتعالیٰ سچے دین دار مسلمانوں کی طمانیت اور تسلی و دلجمعی کا موجب ہے ۔

 

اطاعت رسول

اپنے ظاہر و باطن، قول و فعل اور عقیدہ و عمل کو، اسلامی احکام کے موافق بنائیے اور آج جھوٹےکھوٹےمدعیان اسلام اوران کےخودغرض لیڈروں سےقطعاًالگ ہوکراﷲتعالی اوررسول اللہﷺ کے سچے مطیع و فرمانبردار، شریعت اسلامیہ کے حتی الوسع پورے اطاعت گذار اور سچے دل سے رحمت الٰہیہ کے طلبگار، بن جائیے اور یقین رکھیے کہ ہم کو کوئی رنج و راحت ہر گز نہیں پہنچ سکتی مگر وہی جواﷲتبارک وتعالیٰ نےہمارےلیےلکھ دی ہے’’قل لن یصیبناالاما کتب اﷲ لناھو مولیٰنا الایۃ‘‘25یعنی تم فرماؤ ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اﷲنے ہمارے لیے لکھ دیا ۔ وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اﷲہی پر بھروسہ چاہیے۔ 26

 

رجوع الی اﷲ:

دنیاوی خطروں اور آفات سے نجات کا طریقہ، کفار و مشرکین، مرتدین و مبتدعین، اغیار و اشرار سے شکوہ و شکایت اور ان سے فریاد اور ان کے رو برو گریہ و زاری نہیں، کہ اولاً خود داری بلکہ دینداری کےخلاف، ثانیاًبےسودہے، فرمایا رب عزوجل نے ’’اَیبتغون عندہم العزۃ فان العزۃ ﷲ جمیعا‘‘27 کیا ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو عزت تو ساری ا ﷲ کیلئے ہے ۔ بلکہ اس کا طریقہ تو وہ ہے جو فرمایا رب عزوجل نے، ’’ففرو الی اﷲ‘‘28تو اﷲکی طرف بھاگو، اُس کے ہوجاؤ، اپنے رب کریم کی رحمت و کرم کی پناہ لو اور یقین رکھو کہ اﷲتعالیٰ اوررسول اللہﷺ کے سوا نہ کوئی ہمارا حامی ہے نہ مددگار، ’’وما لکم من دون اﷲمن ولی ولا نصیر‘‘29اور نہ اللہ کے مقابل تمہارا کوئی دوست نہ مددگار ۔

 

توبہ:

تنگی و فراخی، بسط و قبض، عزت و ذلت، راحت و مصیبت، سب اﷲ عزوجل کی جانب سے ہیں ۔ اﷲ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ و یقدر لہ 30، اﷲرزق کشادہ کرتا ہے اپنے بندوں میں جس کیلئے چاہے اورتنگی فرماتا ہے جس کیلئے چاہے، ہاں تنگی و ذلت، برائی اور پریشانی ہماری شامتِ نفس اور شامتِ اعمال پر مترتب ہے ۔ برائیوں سے توبہ کرکے اسی باسط و وہاب و منعم حقیقی عم نوالہ کی جانب لو لگائیےاور یقین رکھیے کہ جس نے تنگی اور ذلت میں مبتلا کیا وہی اپنے کرم سے اس سے نجات دے گا ۔ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب31اور جو اﷲسے ڈرے اﷲاس کیلئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو ۔ اور جو اﷲ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے، بے شک اﷲکام پورا کرنے والا ہے، بے شک اﷲ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے ۔32

 

صبر و تقویٰ:

سختی و تنگی اور مصائب و آفات میں ابتلاء کے وقت اپنے سے اونچوں پر نظر نہ دوڑائیے کہ فلاں کس فراخی اور آرام میں ہے اور ہم کیسی مصیبت اور پریشانی میں، بلکہ ہمیشہ اپنے سے نیچے اور نادار و مفلس کی جانب دیکھئے کہ ہزاروں لاکھوں آپ کے ایسے آپ سے بدرجہا زائد مصیبت میں ہیں اور اب آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ اپنے ایسے کتنوں سے کس قدر زائد راحت میں ہیں ۔ ان شاء اﷲتعالیٰ یہ صورت آپ کیلئے بڑی حد تک تسلی و تشفی کی باعث اور فراخی و آسانی اور طمانیت قلب کی موجب ہوگی۔الغرض مسلمانوں کااس دورپُرفتن میں چارۂ کارصبروتقویٰ ہےاوراُسی میں رضاو خوشنودی، قادر مختار ہے ۔ احکام اسلام کی حتی الوسع کامل اطاعت و فرمانبرداری کیجئے اور انہیں کے دامان کرم میں پناہ لیجئے جو پناہ عالم و عالمیاں ہیں ۔ یعنی اﷲکےمحبوب محمد رسول اﷲﷺ تو ان کا رب کریم توّاب و رحیم اپنی رحمت و مغفرت کے دروازے آپ کیلئے کھول دے گا ۔ قرآن فرماتا ہے، ’’ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک 33‘‘اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں، پھر اﷲسے معافی چاہیں اور رسول اُن کی شفاعت فرمائے تو ضرور اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔ اسی اتباع و فرمانبرداری نے اگلوں کو اُن مدارج عالیہ پر پہنچایا کہ چار دانگ عالم میں ان کی ہیبت کا سکہ بیٹھا ۔ اور اسی کے چھوڑنے سے پچھلوں کو یوں چاہِ ذلت میں گرایا کہ نانِ شبینہ کا محتاج بنایا ۔ مسلمان اب بھی اگر ان ہدایات پر عمل کریں تو ان شاء اﷲتعالیٰ آج کی حالت سنبھل جائے۔ہماری مصیبتیں، تکلیفیں اور ہمارے دین و دنیا کے دشمنوں کی دراز دستیاں روز افزوں ہیں ۔ قرآن عظیم ہمیں دعوت عام دے رہا ہے، ’’الم یان للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبہم لذکر اﷲ ومانزل من الحق34‘‘کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ اُن کے دل جھک جائیں اﷲ کی یاد اور اُس کے حق کیلئے جو اترا اور یقین (یعنی قرآن مجید) ، مبارک ہیں وہ خدا کے بندے جو اپنے رب کریم کی اس دعوت رحمت پر سچے دل سے قولاً و عملاً خود اپنی ہی دنیا و عقبیٰ کی فلاح و صلاح کیلئے لبیک کہیں اور سمعنا و اطعنا35 (ہم نے سنا اور فرمانبرداری کی) کہتے ہوئے اس دعوت کو بہ جان و دل قبول کریں تو قرآن عظیم ہی ان کو یہ مژدہ دیتا ہے کہ ’’من یطع اﷲ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما36‘‘جس نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺکی فرمانبرداری کی وہ بے شک بڑی کامیابی کو پہنچا ۔

 

علامہ خلیل خاں ؒ کی حیات میں اور آپ کےوصال کےبعد اکثر علماء کرام آپ کی خدمات دین پر آپ کو خراج تحسین پیش فرماتے، وصال کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے مفتی احمد میاں برکاتی مدظلہ کوبیشمارعلماء کرام کی طرف سے تعزیاتی پیغامات موصول ہوئے اور آپ کے وصال کو صدی کا سانحہ قرار دیا ۔ علماء کرام کی طویل فہرست ہے جن میں چند ایک کے پیغامات درج ذیل ہیں ۔

 

حضرت پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب، سابق ایڈیشنل سیکریڑی تعلیم حکومت سندھ:

’’اس میں شک نہیں مثالی شخصیتوں کا اٹھ جانا ملت اسلامیہ کے لئے بڑا المیہ ہے ہے نہایت کربناک اور غمناک انہیں مثالی شخصیتوں میں حضرت مفتی محمد خلیل خاں قادری برکاتی علیہ الرحمۃ بھی تھے، وہ مفتی بھی تھے، مدرس بھی، مصنف بھی اور مترجم بھی، وہ مبلغ بھی تھے اور مقرر بھی اور شاعر بھی تھے ۔ ‘‘37

 

حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ ازھری اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں:

’’حضرت مفتی اعظم سندھ (خلیل ملّت) قدس سرہ العزیز کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر ازحد دکھ ہوا۔ ہم اہلسنت پہلے ہی رجال کار کی قلت کا شکار ہیں پھر ایسے مرد مجاہد کا داغ مفارقت دینا صرف آپ کا خاندانی ہی نہیں بلکہ ملی المیہ ہے معلوم نہیں چشم امید کب تک اشکبار رہے گی پھر بھی اسے ایسی ہستی کی صحبت اور فیضان نگاہ! نصیب ہوگا یا نہیں اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ حضرت کے علمی، تحقیقی اور تصنیفی کارنامے زندہ جاوید ہیں اہلسنت کے لئے انہوں نے ایسا قیمتی لٹریچر چھوڑا ہے جس کی روشنی ہماری راہ عمل کو ہمیشہ متعین اور روشن کرتی رہے گی۔ 38

 

علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی آپ کے فرزند اکبر مفتی احمد میاں برکاتی کو تعزیتی پیغام میں لکھتے ہیں

’’حضرت خلیل العلماء حضرت العلامہ مولانا مفتی محمد خلیل خاں صاحب قادری برکاتی نور اﷲمرقدہ کا وصال مبارک اہلسنت کا بہت بڑا علمی نقصان ہے۔ مدتوں یہ پورا نہ ہوسکے گا۔ حضرت مولانا نور اﷲمرقدہ کا فیض انشاء اﷲجاری رہے گا۔حضرت کی تصنیفات سے آج افریقہ و یورپ کے مسلمان بھی برصغیر کی طرح مستفید ہورہے ہیں‘‘39

 

مولاناسید محمد علی حسنی رضوی قادری ؒسابق رکن قومی اسمبلی، حیدرآباد:

’’مفتی صاحب (خلیل ملّت) میرے کرم فرما تھے، بس ان کی ذرّہ نوازی تھی، ان کی اپنی

 

عظمت تھی، جس سے وہ نوازتے تھے اور کیوں نہ ہو کہ وہ ان ہستیوں میں ہیں، جن کا تذکرہ خود ان کے استاذ مکرم صدرالشریعۃ مولانا حکیم محمد امجد علی اعظمی قادری برکاتی ؒ نے اپنی کتاب بہار شریعت میں فرمایا۔حضرت مفتی صاحب، ان کے نہایت قابل اور لائق تلامذہ میں تھے۔جب وہ پاکستان تشریف لائے تو حیدرآباد کو یہ نعمت ملی اور وہ یہاں بس گئے، چونکہ یہاں شہر میں وہ موجود تھے جن کا فیض صدیوں سے جاری ہے، جن کا پورا شہر ہے، اور جو یہاں کے شہنشاہ ہیں یعنی حضرت عبدالوہاب شاہ جیلانی ؒ، انہوں نے اس شہر میں کسی ایسے شخص کو آباد نہ ہونے دیا، جس کے مزاج میں اچھائی نہ ہو، ان کی یہ زندہ کرامت ہے کہ مفتی صاحب اس شہر میں تشریف لائے۔خلیل ملّت کی تصانیف کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے۔ کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور علوم دینیہ پر نظر بہت گہری تھی۔ آپ کی تعلیم و تدریس کا طریقہ بھی نہایت سادہ تھا۔ مشکل سے مشکل کتاب بہت کم وقت میں پڑھا دیتے۔ فتویٰ نویسی میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آسان سے آسان مسئلہ بھی کتاب میں دیکھ کر فتویٰ لکھتے۔سائل کا صرف جواب ہی نہ دیتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عقلی و نقلی دلائل بھی ضرور دیتے۔ آپ تصنیف و تالیف کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے پوری طرح باخبر تھے۔ اس لیے انہوں نے اس طرف خصوصی توجہ فرمائی اور اس میدان میں خاصا کام کیا، قدرت نے انہیں قوت استدلال اور عام فہم اندازِ تحریر کا ملکہ عطا فرمایا تھا، اس دعوے پر آپ کی تمام تصانیف شاہد ہیں۔ 40

 

مدیحہ خانم سلمہا لکھتی ہیں:

’’بڑوں کی طرح بچوں میں بھی آپ کی کتابیں بے حد مقبول ہیں۔انہوں نے اپنی کتابوں میں مسائل کے بارے میں اور اسلامی عقائد کے بارے میں لکھا۔ بڑی کتابوں کے علاوہ انہوں نے اور کتابیں لکھیں جس میں اسلامی گفتگو بہت اہم ہے۔ جو مجھ جیسے بچوں اور بچیوں کے لئے ہے۔ ان کتابوں کو پڑھ کر ہماری اصلاح ہوتی ہے اور کئی مفید معلومات ہمیں حاصل ہوتی ہیں‘‘۔ 41

 

خلاصہ یہ کہ علامہ صاحب نے اپنی تمام تر زندگی اصلاح معاشرےکیلئےوقف کردی اور زندگی کے آخری لمحات تک انبیاء و مرسلین آئمہ مجتہدین کی تعلیمات پر دنیا کےکونے کونے میں پھیلانے میں بھر پور کردار ادا کیا ۔ علامہ صاحب کی تصانیف و مقالات آج دنیا بھر میں لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ علامہ صاحب فقط ایک عالم دین ہی نہیں تھےبلکہ معاشرے میں ایک بہترین مصلحین کی حیثیت سے کردار ادا کرتے رہے ۔ آپ نے لوگوں کو ہمیشہ اچھے اخلاق اور حسن سلوک کا درس دیا ۔

 

حوالہ جات

1ماہنامہ عقیدت، حیدرآباد سندھ، شمارہ جون 1988ء، ص 14

 

2برکاتی، مفتی احمد میاں، مفتی اعظم سندھ، حیدرآباد، سال طباعت 1985ء، ص 3

 

3سالانہ مجلہ خلیل علم، حیدرآباد، اشاعت 2003ء، ص 94

 

4ماہنامہ الاشرف، ڈاکٹر سید اشرف جیلانی، اگست 2014ء، ص39

 

5انوار علمائے اہلسنت، کراچی، ص 860

 

6مارہروی، مفتی محمد خلیل خاں، فتاویٰ خلیلیہ، ضیاء القرآن پبلشرز، 2011ء، ج3، ص 31

 

7ماہنامہ عقیدت حیدرآباد سندھ، شمارہ جون 1988ء، ص 14

 

8ماہنامہ الاشرف، ڈاکٹر سید اشرف جیلانی، اگست 2014ء، ص39

 

9برکاتی، مفتی احمد میاں، مفتی اعظم سندھ، 1985ء، ص 3

 

10 برکاتی، مفتی احمد میاں، تذکرہ مشائخ برکاتیہ، زاویہ پبلشرز، 2017ء، ص 376

 

11سالانہ مجلہ خلیل علم، حیدرآباد، 2003ء، ص 94

 

12ماہنامہ الاشرف، ڈاکٹر سید اشرف جیلانی، اگست 2014ء، ص 45

 

13سالانہ مجلہ خلیل علم، حیدرآباد، 2003ء، ص 94

 

14مارہروی، مفتی محمد خلیل خاں، جمال خلیل، زاویہ پبلشرز، 2013ء، ص 23

 

15مارہروی، مفتی محمد خلیل خاں، فتاویٰ خلیلیہ، ج 3، ص 47

 

16ایضاً

 

17ایضاً

 

18سالانہ مجلہ خلیل علم، ص 92

 

19برکاتی، مفتی احمد میاں، رسول اور نائبین رسول، ضیاء القرآن پبلشرز، 2006ء، ص 208

 

20مارہروی، مفتی محمد خلیل خاں، فتاویٰ خلیلیہ، ج 1، ص 50

 

21ایضاً

 

22برکاتی، مفتی احمد میاں، رسول اور نائبین رسول، ص 211

 

23سالانہ مجلہ خلیل علم، ص 94

 

24مارہروی، مفتی محمد خلیل خاں، جمال خلیل، ، زاویہ پبلشرز، 2013ء، ص 24

 

25التوبہ51: 9

 

26برکاتی، مفتی احمد میاں، ملفوظات مشائخ مارہرہ، زاویہ پبلشرز، 2017ء، ص 143

 

27النساء138: 4

 

28 الذاریات50: 51

 

29 البقرہ107: 2

 

30العنکبوت62: 29

 

31الطلاق2: 65-3

 

32 برکاتی، مفتی احمد میاں، ملفوظات مشائخ مارہرہ، زاویہ پبلشرز، 2017ء، ص 145

 

33النساء64: 4

 

34الحدید16: 57

 

35البقرہ285: 2

 

36الاحزاب71: 33

 

37 ماہنامہ الاشرف، ڈاکٹر سید اشرف جیلانی، اگست 2014ء، ص 15

 

38سالانہ مجلہ خلیل علم، حیدرآباد، اشاعت 2003ء، ص 28

 

39ماہنامہ الاشرف، ڈاکٹر سید اشرف جیلانی، اگست 2014ء، ص 14

 

40مارہروی، مفتی محمد خلیل خاں، فتاویٰ خلیلیہ، ج 1، ص 33

 

41 ایضا

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...