Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

دینی پروگرامز میں موسیقی کا حکم اور اس کا جائز متبادل |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060029185_802

Pages

75-88

DOI

10.51411/rahat.3.2.2019.76

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/76/373

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/76

Subjects

Music audio video alternate of music Shari’ah Music audio video alternate of music Shari’ah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت ِگویائی دے کر تمام مخلوقات پر اسے برتری دی۔اسی قوتِ گویائی کی وجہ سے وہ اپنی بات اور اپنا اظہار مافی الضمیر اور وں تک بآسانی پہنچا لیتا ہے۔اس آواز میں اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے اثرات پوشیدہ رکھی ہیں ۔لہجے کے اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں بات میں ایک خاص وزن اور تائژ پیدا ہوتا ہے ۔ مختلف الفاظ اور آوازوں کو ایک خاص وزن سے ڈھالنے اور اسے ترنم سے ادا کرنے کے نتیجے میں جادو کی سی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔اسی سوچ نے انسان کو رفتہ رفتہ نغمےگانے اور سننے کی طرف مائل کیا ۔مزید ترقی کے نتیجے میں پیشہ ور مغنیات(گاناگانے والیاں) وجود میں آئی ۔ رفتہ رفتہ آوازوں کے سُروں میں موسیقی کے مختلف آلات شامل ہوئے۔جن میں روز بروز ترقی آتی گئی۔لہولعب، موسیقی اورگانے بجانے کیلئے آج سیکڑوں آلات و اوزار وجود میں آچکے ہیں۔

 

موسیقی کی تعریف:

موسیقی یونانی زبان کا لفظ ہےجس کا اطلاق گانےبجانے کی آواز سےمتعلق فن پر ہوتا ہے[1]۔ یہ اصطلاح میں اس فن کو کہتے

 

ہیں جس سے گانا گانے کےاحوال ،اُس کی کیفیت ،لہجہ اور اس کے آلات کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہے: "علم یعرف منہ احوال النغم والایقاعات وکیفیۃ تالیف اللحون وایجاد الالات۔"[2]

 

غناء(گانا)کی تعریف:

غِنا موزون اور ہم وزن کلام کو خوش آوازی کے ساتھ پڑھنے کو کہتے ہیں ۔یہ موسیقی کے آلات کیساتھ ہوتا ہے ۔[3] غناء کی تعریف کرتے ہوئے علامہ ابن ِجلدون فرماتے ہیں کہ اشعار کو سُر اور لحن کیساتھ پڑھنے کو گانا کہتے ہیں اس میں ہر جھٹکے سے ایک خاص آواز اور لہر پیدا ہوتی ہے اور مختلف لہریں مل کر ایسی کیفیت کا سما پیدا کر دیتے ہیں کہ جس سے سامعین وجد میں آجاتے ہیں اور انہیں مزہ آنے لگتا ہے۔[4]

 

موسیقی کیلئے رائج اشیاء کی ساخت:

علامہ ابنِ خلدون نے موسیقی کیلئے رائج اشیاء کی ساخت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان میں سے بعض چیزوں کو اس طریقے سے بنایا گیا ہے جن میں سانس پھونکنے سے ایک خوبصورت آواز پیداہوتی ہے۔یہ اندر سے کھوکھلی ہوتی ہیں اورباہر سے اس میں تین چار سوراخیں ہوتی ہیں۔جن میں سانس پھونکنے اور ایک خاص ترتیب سے ان پر انگلیاں رکھنے اور اٹھانے سے ایک خاص اور سُریلی آواز پیداہوتی ہے۔ "اس کی مثال نفیر اور بانسری ہے"بعض آلات انسری سے بڑے ہوتے ہیں ،جیسے بوق ۔اسے اردو میں بگل کہا جاتا ہے ۔جس کا ایک سرا چھوٹا اور دوسر اکافی پڑا ہوتا ہے۔چھوٹی جانب کو منہ میں رکھا جاتا ہے اور اس میں پھونک ماری جاتی ہے جس سے ایک گونج دار اور خوبصورت صوتی لہر پیدا ہوجاتی ہے۔بعض آلات میں تار فٹ کئے گئے ہوتے ہیں جن کے ساتھ مختلف گھنٹیاں بھی بندھی رہتی ہیں ان تاروں کو ایک خاص تناسب اور ترتیب سے چھیڑنے سے ایک نرم اور مُترنُم آواز پیدا ہوتی ہے۔مثال باجے وغیرہ۔[5]

 

موسیقی کے بارے میں قرآنی آیات:

موسیقی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذ ھا ھُذواً۔اُلٰئک لھم عذاب مھین[6]

 

ترجمہ: اور لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو ایسی باتیں خریدتے ہیں جو اُنہیں اللہ سے غافل کرنے والی ہیں تاکہ بغیر جانے اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں اور اس کی ہنسی اُڑائیں ۔ایسے لوگوں کیلئے ذلّت کی سزا ہے۔

 

واستفززمن استطعت منھم بصوتک[7]

 

ترجمہ: ان میں سے جس پر آپ کا بس چلے اپنی آواز کے ذریعے حق راہ سے ہٹادے۔

 

افمن ھذاالحدیث تعجبون وتضحکون ولا تبکون وانتم سامدون۔[8]

 

ترجمہ:کیا تمہیں اس بات سے تعجب ہوتا ہے اس سے ہنستے ہو اور روتے نہیں اور تم گانا گاتے ہو۔

 

اس آیت میں لفظ سمود آیاہے ۔جس کے بارے میں لسان العرب میں ہے کہ اس سے گانا مراد ہے ۔یہ خمیری لُغت میں گانے کو کہتے ہیں۔امام ترمذی ؒ ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:

 

عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من ھذہ الامۃ خسف ومسخ وقذف فقال رجل من المسلمین یارسول اللہ ومتیٰ ذالک؟ قال اذاظھرت القِیان ولمعازف وشرِبتِ الخمور۔[9]

 

ترجمہ:حضرت عمران بن حصین سے روایت ہےکہ حضورﷺنےارشادفرمایاکہ اس امت میں بھی زمین دھنسنے، صورتیں مسخ ہونے اور پتھروں کی بارش کے واقعات ہوں گے۔مسلمانوںمیں سے ایک شخص نے پوچھا یارسول اللہﷺایسا کیوں ہوگا؟ حضورﷺنے فرمایاکہ جب گانے والی عورتوں اور باجوں کا روا ج عام ہوجائے گااو ر شرابیں کثرت سے پی جانے لگے۔

 

حضرت عبدالرحمٰن بن غنم ؒ سے روایت ہے کی مجھے زید ابوعامر یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے حضور اکرمﷺکو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو زنا ،ریشم ،شراب اور باجوں کو جائز اور حلال قرار دیں گے۔ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ شراب پییں گے اور اس کا نام بدل دیں گے۔ان کے سروں پر ناچ گانے ہوں گے۔اللہ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دیں گے ۔اور ان میں سے بعض بندر اور خنازیر بن جائیں گے[10]۔اس حدیث میں معازف ( آلات موسیقی ) کو شراب ،زنااور ریشم کےساتھ ذکرکرکےمعلوم ہوا کہ یہ سب حرمت میں برابرہیں۔جس طرح شراب اور زناحرام ہے اس طرح تمام اقسام کے آلات ِموسیقی حرام ہیں۔اور جس طرح شراب اور زنا کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتااسی طرح موسیقی کو بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔

 

موسیقی کا متبادل:

دعوت کی غرض سے مستقل ٹی وی چینل کھولنے ایک بڑا مسئلہ موسیقی کا پیش آتا ہے عام طور پر آج تک ٹی وی کے اسلامی استعما ل پرجس قدر بحث ومباحثہ اور علمی مجادلے ہوئے ہیں وہ سب ڈیجیٹل تصویر سے متعلق ہیں ۔ٹی وی اور موسیقی کے متبادل پر کم از کم میرے علم کے مطابق اب تک اس طرح کا کوئی علمی مباحثہ یا مناقشہ نہیں ہوا ہے ۔ظاہر ی لحاظ سے ہمارے علماء موسیقی کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور اسے غلط اور گناہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس میں حدِ فاصل کی وضاحت بہت مشکل ہے کیونکہ ایک طرف ترنم سے اشعار پڑھنے کی اسلام میں اجازت ہے۔ شادی اور خوشی کے موقع پر دف بجانے تک کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسری طرف گانا گانے اور کسی آلے کے ذریعے آواز میں خوبصورتی پیدا کرنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔اس حدِفاصل کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے آج امت کا ایک بڑا طبقہ اس موسیقی اور گانے کے گناہ میں شامل ہورہا ہے۔کمپیوٹر کی آمد کے بعد مزید پیچیدگی پیدا ہوئی کیونکہ اس کے ذریعے آواز کو نرم و ملائم بھی بنایا جاسکتا ہے اس میں مختلف صوتی اثرات کے ذریعےآواز کو اس قدر خوش الحان بنایاجاتاہے کہ اس کے سننے سے معلوم کر نا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ آلات موسیقی کے ذریعے گایا گیا ہے یا بغیر آلاتِ موسیقی ۔

 

ٹی وی کے باب میں موسیقی کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت:

ٹی وی کے باب میں تصویر پر بحث کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن موسیقی کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت کیا ہے۔کیونکہ موسیقی کے بغیر بھی تو چینل چل سکتا ہے۔اس میں ہم مختلف علماء ِکرام کے بیانات بھی نشر کر سکتے ہیں اورموسیقی سے پاک دیگر خالص پروگرامات بھی پیش کرسکتے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ موسیقی کا بنیا دی مقصد دلچسپی پیدا کرنا ، سامعین کی توجہ اپنی طرف مرکوز رکھنااور اپنی بات میں اثر پیدا کرناہے۔اگر موسیقی کو ہم یکسر نظر انداز کردے تو اسلامی چینل ایک خشک چینل بنے گا اور لوگ اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیں گے۔اس لئے اس کا متبادل تلاش کرنا ضروری ہے۔کیونکہ اسلامی چینل دیگر تفریحی چینل کے مقابلہ میں ایک سنجیدہ چینل ہوتا ہے۔ساتھ ساتھ اگر اس پر پیش کیے جانے والے پروگرامات سادہ انسانی آوازوں پر مشتمل ہو تو ان کا حلقہ نہایت محدود ہوگا۔ان میں سامعین اور ناظرین دلچسپی نہیں لیں گےاور یوں دعوت دینے کا بنیادی مقصد (زیادہ لوگوں تک اس کی رسائی)بہت دیر سے حاصل ہو سکے گا۔ دوسری طرف اگر موسیقی کی جائز صورتوں سے ہم استفادہ کریں اور انہیں اپنے پروگرامات اور بیانات کے بیک گراؤنڈ میں چلائیں تو ہمارا حلقہ وسیع ہوگا۔ہماری آواز زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے گی،اور لوگ ہماری بات خوشی اور دلچسپی سے سُنیں گے۔نتیجۃًجو کام ہم سالوں میں کر سکتے ہیں وہ مہینوں میں سمیٹ لیں گےاور مہینوں کا کا م چند دنوں میں مکمل ہوگا۔اس سے دعوت کے کام میں تیزی آئے گی۔اور لو گ ہماری بات کا اثر جلدی قبول کریں گے۔

 

موسیقی کی صورتیں:

اسلامی چینل کے قیام میں ہم موسیقی کی صرف ان صورتوں کو لیں گے جو شرعاً جائز ہو ۔ان صورتوں کو استعمال کرنے سے گریز کریں گےجو ناجائز ہو ۔

 

آلاتِ موسیقی سےپیدا ہو نے والی موسیقی:

مختلف ٹی وی پروگرامز میں دلچسپی اور کشش پیدا کرنے کے لئے مختلف آلاتِ موسیقی سے موسیقی کی مختلف دُھنیں ملائی جاتی ہیں۔اس طرح کے پروگرمز پروڈیوس کرنا، اِنہیں براڈکاسٹ کرنا اور اِنہیں دیکھنا ناجائز اور حرام ہے ۔کیونکہ آلاتِ موسیقی سے پیدا ہونے والی موسیقی کی حرمت پر اجماع مُنعقد ہے۔ آلات ِ موسیقی میں صرف دِف کی اجازت ہے۔امام قرطبی،ابو طیب ،ابنِ صلاح،ابنِ رجب حنبلی،ابنِ قیم،ابنِ ہیثمی سب اس کو اجماعی مسئلہ بتاتے ہیں۔[11]

 

ٹی وی کے دینی اور اصلاحی پروگرامز میں شامل موسیقی:

آج موسیقی کی کثر ت اس قدر ہوچکی ہے کہ بے شمار دینی اور اصلاحی پروگرامز موسیقی کی آمیزش سے بھرے رہتے ہیں۔ ان پروگرامز کو بنانے والے حرام کام کا ارتکاب کرتےہیں اور گناہ گار ہوتے ہیں البتہ ان پروگرامزکے دیکھنے اور سننے کا حکم مختلف ہے۔

 

دیکھنے اور سننے کا حکم :

 

تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ ان پروگرامز سے بھی دور رہے۔تاکہ گناہ کے قریب بھی نہ بھٹکےلیکن ضرورت کے تحت اِس میں اس قدر گنجائش موجود ہےکہ اس پروگرام کی آواز کواس قدر آہستہ کر دیا جائے کہ بولنے والے کی آواز تو سنائی دے لیکن بیک گراؤنڈ میوزک کی دُھنیں سنائی نہ دےیا سنائی تو دے لیکن ان میں آہستگی کی وجہ سے موسیقی والی لذت باقی نہ رہے۔یہ حکم بھی اُس وقت ہے جب پروگرام کی آواز کو آہستہ کرنے سے موسیقی کی آواز سنائی نہ دے سکے۔تاہم اگر بیک گراؤنڈ میوزک اس قدر قوی اور پروگرام میں مکس ہو کہ موسیقی کو بلکل ختم کرنا مشکل ہو تو اس پروگرام کو دیکھنااور سننا بھی جائز نہیں۔کیونکہ پروگرام اگرچہ دینی اور اصلاحی ہےلیکن کسی امر میں حلت اور حرمت دونوں پہلو جمع ہوجائے تو تو حرمت کو ترجیح دی جاتی ہے۔اس لئے پروگرام کو دیکھنا اورسننا جائز نہیں ہےمزید یہ کہ اس ایک نفع کے چھوڑنے کی صورت میں کوئی دینی ضرر بھی نہیں ہےکیونکہ اِس پروگرام میں ہونے والی گفتگو کو آپ کسی اور ذرائع ابلاغ سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔[12]

 

صوتی اثرات Sound effects کا شرعی حکم :

موسیقی کی جگہ آج کل مختلف اسٹوڈیوز میں "صوتی اثرات "سے کام لیاجاتا ہے ۔ٹی وی کا دینی پروگرام کسی باجے وغیرہ کی جگہ اگر ان صوتی اثرات سے مُزین ہوتو کیا جائز ہوگا ؟جواب سے پہلے اِس بات کو نوٹ کر نا ضروری ہے کہ نفس ِ موسیقی کے شرعی حکم پر بہت سارا کام ہو چکا ہے لیکن ان ساؤنڈ ایفکٹس، جنہیں عربی میں ( المئوثرات الصوتیۃ یا الایقاعات الصوتیۃ ) کہتے ہیں،پر کام تقریباًموجود نہیں ہے۔

 

ساؤنڈ ایفیکٹس کی تعریف:

کمپیوٹر کے ذریعے مختلف ہلکی آوازوں سے بیک گراؤنڈ میوزک تیار کرنے کو ساؤنڈ ایفیکٹس کہتے ہیں ۔ ان آوازوں کے ذریعے کسی آواز کو نرم اور بھاری بھی کیا جاتا ہے۔آج کل اس ٹیکنالوجی میں اس قدر جدت آچکی ہے کہ ساؤنڈ ایفیکٹس سے پیدا ہونے والی آوازوں کو آلات موسیقی کی دھنوں سے الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔بادی النظر میں ساؤنڈ ایفیکٹس موسیقی ہی نظر آتی ہےان کو عربی میں ایقاعات کہتے ہیں۔جوایفکٹ کے ہم معنی ہے۔ علماء میں ایک طبقہ ہر قسم کے صوتی آلات کو ناجائز قرار دیتا ہے ان کے نزدیک چونکہ کمپیوٹر بھی ایک آلہ ہے اس لے اس سے موسیقی پیدا کرنا یا موسیقی کی طر ح صوتی اثرات پیدا کرنا ناجائزہے جبکہ اکثر علماء ان صوتی اثرات میں فرق کے قائل ہیں اُن کے مُطابق اسکی کئی قسمیں ہیں ۔ ذیل میں ان اثرات کی مختلف قسمیں اور ان کے شرعی احکام ذکر کئےجاتے ہیں۔

 

آلاتِ موسیقی کی طرح آواز والے ایفیکٹس:

بعض صوتی اثرات بلکل موسیقی کی طرح ہوتے ہیں ان میں اور ڈھول باجے وغیرہ سے نکلنے والی آوازوں میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

 

شرعی حکم:

 

کسی پروگرام یا نظم و نعت وغیرہ پر اِن جیسے اثرات کا ڈالنا شرعاًجائز نہیں ہے۔ایسی صورت میں کمپیوٹر کو ہم آلہ موسیقی قرار دیں گے۔اور اس سے پیدا ہونے والی آواز کو موسیقی قرار دیں گے۔کیونکہ آلات ِ موسیقی کا اطلاق صرف ان مخصوص آلات و آواز پر نہیں ہو تا تھاجو آپﷺکے زمانے میں رائج تھے کہ ان کے غیر کو ہم آلات ِموسیقی ہی قرار نہ دیں جبکہ دنیا جس قدر جدت اور آگے کی طرف جارہی ہےنت نئی ٹیکنالوجی سے لوگ واقف ہورہے ہیں ۔آج آلات ِموسیقی میں بھی کافی جدت اور ترقی آچکی ہے۔ جو موسیقی آج سے کچھ دھائیاں قبل کسی مستقل باجے یا ڈھول سے پیدا کی جاتی تھی آج کمپیوٹر کے ذریعے ہم سن سکتے ہیں ۔اس لئے کمپیوٹر کو بھی ہم آلہ ِ موسیقی قرار دیں گے۔اور اس سے پیداکئے جانے والے صوتی اثرات کو حرام اور ناجائز قرار دیں گے۔

 

آواز کو صاف کرنے والے ساؤنڈ ایفیکٹس :

آج کل مختلف ٹی وی یا ریڈیو پروگرامات میں آواز کو صاف کرنے کیلئے مختلف ساؤنڈ ایفکٹس کو استعمال کیا جاتا ہے۔اسکے ذریعے بیک گراؤنڈ میں موجو دشور شرابہ ختم ہو جاتاہے اور آواز صاف ہوجاتی ہے ۔یہ ٹیکنالوجی تقریباً ہر چینل کے پاس موجود ہے چاہے اسلامی ہو یا غیر اسلامی۔

 

شرعی حکم:

 

ان آلات کو استعمال کرنا شرعاً جائز ہے کیونکہ ان میں کو ئی شرعی قباحت اور بُرائی نہیں پائی جاتی ان کے ذریعے صرف شور شرابے سے پیدا ہونے والی بے ہنگم آوازوں کو ختم کیا جاتا ہے۔جس سے اصل پروگرام کی آوازیں صاف کی جاتی ہے۔قَاعِدَۃ أَصْل فِي الْاَشْيَاء الابَاحَۃ (رد)[13]۔اس قاعدےکے تحت اسکو جائز قرا ر دیں گے کیونکہ جب تک اس میں کوئی شرعی خرابی پیدا نہ ہو اس وقت تک یہ جائز اور مباح ہی رہے گا۔

 

ایک شبہ:

 

ماقبل میں لکھا گیا ہے کہ کمپیوٹر سے جو آوازیں ڈھول باجے کی طرح پیدا ہو رہی ہے وہ ناجائز ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹرایک آلہِ موسیقی ہے اور آلہِ موسیقی سے پیدا ہونے والی جُملہ آوازیں ناجائز ہوتی ہے۔تو کمپیوٹر سے نکلنے والے ساؤنڈ ایفکیٹس کی مذکورا قسم جائز کیوں ہے؟

 

جواب:

 

کمپیوٹر کو آلہِ موسیقی قرار دینے کے بجائے اگر صرف آلہ قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔کیونکہ کمپیوٹر کے کئی اعتبارات ہیں۔ایک اعتبار سے یہ آلہِ موسیقی ہے اور دوسرے اعتبار سےیہ خود مُدرس اور اُستاد ہے اور تیسر ے اعتبار سے یہ لائبریری ہے وغیرہ وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ کمپیوٹر پر شرعی حکم لگانے کا دارومدار اس کام پر ہے جو آپ کمپیوٹر سے لے رہے ہیں ۔اگر تو وہ کا م جائز ہو تو کمپیوٹر کا اس طرح استعمال بھی جائز ہے اور اگر وہ کا م جائز نہیں تو کمپیوٹر کا اس کیلئے استعمال بھی جائز نہیں ہے ۔ماقبل میں اس کی ان آوازوں کو ناجائز قرار دیاگیا تھا جو بلکل موسیقی کی طرح تھی ۔اسکی وجہ یہی تھی کہ موسیقی کی آوازوں کو عام حالات میں سننا ناجائز ہے اِس لئے کمپیوٹر کے ذریعے ان کو پیدا کرنا اور سننا بھی ناجائز ہے ۔اس وقت کمپیوٹر کو ہم آلہ موسیقی ِقرار دیں گے ۔ جبکہ آوازوں کی صفائی کیلئے جن ساؤنڈ ایفکٹس کو استعمال کیا جاتاہے وہ جائز ہے کیونکہ عا م زندگی میں شور کو ختم کرنا اور آواز کو صاف کرنا جائز ہے۔اس لئے اس کام کیلئے کمپیوٹر کو استعمال کرنا بھی جائزہوگا۔اس وقت کمپیوٹر کو ہم آلہِ موسیقی قرارنہیں دیں گے بلکہ آوازصاف کرنے کاایک آلہ سمجھیں گے۔ آواز کو نرم یا بھاری کرنے کیلئے صوتی اثرات کا استعمال آج کل عام طور پر آوازوں کو ایک خاص حد تک نرم و ملائم کر نے یا اس میں قدرے بھاری پَن ڈالنے کیلئے مختلف ساؤنڈایفکٹس کو استعمال کیاجاتا ہے۔ان کے ذریعے آواز اس قدر نرم و مُلائم بن جاتی ہے کہ کان میں فوراًگل جاتی ہے یا آواز میں اس قدر بھا ری پن ڈالا جا تا ہے کہ اس میں ایک رُعب پیدا ہوجا تا ہے اور آواز جاندار ہوجاتی ہے۔یہ براہ راست دل پراثرانداز ہونے لگتی ہے۔

 

شرعی حکم:

 

شرعاًیہ جائز ہے کیونکہ نرم و مُلائم لہجے میں بات کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس طرح بھاری اور ٹھوس لہجے کو بھی لوگ پسند نہیں کرتے ہیں اور اس بارے میں شرعاً نہی واردنہیں ہے اور ماقبل میں مذکورہ قاعدےالاصل فی الاشیاء الاباحۃکے تحت جائز ہے۔

 

نوٹ: یہاں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ اگرچہ جمہورِ اہلِ علم کے مطابق عورت کی آواز ستر میں شامل نہیں ہے تاہم یہ ضرورت کی حد تک محدوود ہے ساتھ ساتھ اس سے فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اُمہات المؤمنین کیلئے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا کہ غیر محرم سے سخت لہجے میں بات کریں ،انداز ِمخاطب آپ کا نرم نہ ہو ۔اس لئے پہلے تو ٹی وی پروگرام میں نِسوانی آوازکو شامل ہی نہ کیا جائے اور اگر بامر مجبوری اس کی ضرورت پڑے تو اِس میں نرمی پیداکرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس میں کشش موجود نہ ہو ۔

 

آواز کو مُترنم بنانے کیلئے ان اثرات کا استعمال :

ان ساؤنڈ ایفکٹس کو عام مُترنم اشعار یا حمد و نعت پر ڈال کر ان میں مزید چاشنی پیدا کی جا تی ہے اس سے اِس نظم یا نعت میں مزید کشش اور تازگی پیدا ہو جاتی ہے ۔الیکٹرانک میڈیا پر پیش کیے جا نے والے نعت یا حمد میں ان ایفکیٹس کو عموماً استعمال کیا جاتا ہے۔

 

شرعی حکم:

 

ان صوتی اثرات کا استعمال اس حد تک جا ئز ہے کہ یہ موسیقی سے مُمتاز اور الگ رہے تا ہم اس کثرت سے ان ایفکیٹس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے جس سے نعت موسیقی دار گانے کی طرح بن جائے۔

 

آبشاروں اور بارش کی آوازوں پر مشتمل ساؤنڈ ایفیکٹس:

بیک گراؤنڈمیوزک کے طور پر ہم بے شمار قسم کی قدرتی آوازیں استعمال کرسکتے ہیں جیسے آبشاروں اور بارش کی آواز ،ندی

 

نالو ں میں بہتے پانی کی آواز ، ہوا ؤں اور تیز آندھی سے پیدا ہونے والی آوازیں ،درختوں سے پتے گرنے کی آوازیں وغیرہ۔اِن آوازوں کو ایک خاص طرز میں ترتیب دینے سے ایک پُر لطف سی موسیقی پیدا ہوجاتی ہے۔

 

انسانی آوازوں سے بنے ساؤنڈ ایفیکٹس:

دینی پرگرامز کو دلچسپ اور پُر کشش بنانے کیلئے ہم کمپیوٹر کا سہارا بھی لے سکتے ہیں اور مختلف ساؤنڈایفکٹس سے اِستِفادہ بھی کر سکتے ہیں ۔اس میں ہم جائز حدود میں کوئی دینی نظم،حمد و نعت بھی چلا سکتے ہیں اور ماقبل میں مذکورموسیقی کی متبادل کوئی آواز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

 

نتیجہ بحث:

حضوراکرمﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی تھے۔آپﷺکے بعد قیامت تک کوئی پیغمبر اور رسول نہیں آئے گا،اب دعوت الیٰ الاسلام کی ذمہ داری اہل علم کے کندھے پر آتی ہیں۔ٹی وی چینلز کی آفادیت کو دیکھتے ہوئے اسے دنیا بھر میں اسے عوام میں شعور و آگاہی پھیلانے اور اپنے نظریات کی آبیاری کا سب سے بہترین اور مؤثر ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔نظریات کی اس بہتاب میں صرف وہی قومیں کامیاب ٹھہرتیں ہیں ، جو اپنی تہذیب و ثقافت ،رسوم و رواج اور افکار و نظریات کی پرچار کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کریں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی داعیانہ سرگرمیوں کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں طے شدہ ضابطہ اخلاق اور شرعی ہدیات کے مطابق ٹی وی چینلز کا استعمال کریں۔ٹی وی چینلز کے شرعی احکام میں سب سے زیادہ حساس میوزک اور عورت ذات کی عکاسی ہے۔ چینلز کے شرعی احکام کا خیال رکھنے والے ان میں آخر الذکر"عورت کا عکاسی" کا خیال رکھتے ہوئے عموما ً اپنے چینلز میں عورت کی تصویروں کی عدم موجودگی ، یا بوقت ضرورت شرعی پردے میں ملبوس ہونے کو یقینی بناتے ہیں،تاہم موسیقی کے احکام کی پیچیدگی کی وجہ سے ان کے ہاں ایک لگابندا معیار نہیں ہوتا،جس پر وہ پھرک سکے کہ کون سی موسیقی جائز ہے اور کون سی ناجائز؟ گزشتہ بحث میں اس کے شرعی احکام کی تعیین کی گئی ہے۔ ذیل میں بطور نتیجہ کے دعوتی سرگرمیوں کیلئےمختص اسلام چینل کیلئےایک شرعی اصول کی روشنی میں ایک دس نکاتی لائحہ عمل ذکر کیا جاتاہے۔

 

اسلامی چینلز کے لیے شرعی لائحہ عمل

1: حُلیے کا خیال رکھنا

اسلامی چینل کی اسکرین پر ظاہر ہونے والے میزبان اور مہمان دونوں کیلئے حلیے کی پاسداری کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اسکرین پر جوکچھ نظر آتاہے ناظرین فوری اس کا اثر لیتے ہیں۔اگر آپ کا حلیہ غیر اسلامی ہوتو بھلے آپ کی بات میں کتنی تاثیر کیوں نہ ہو، لوگ اسلام کے قریب نہیں آسکیں گے ۔حلیہ کے اسلامی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی غیر اسلامی امر موجود نہ ہونے پائے ۔مثال کے طور پر لباس سنت کے مطابق ہو،اُن کے چہرے پرمسنون داڑھی ہواور سر پر ٹوپی یا پگڑی ہو،کپڑوں میں بھی سفید رنگ کو ترجیح دی جائے ۔ اگر مہمان میزبان اور اس چینل کے دیگر افراد پر اس حلیے ،لباس چال ڈھال کی پابندی ہوتو اس چینل کے ناظرین بھی اس لباس پر فخر محسوس کریں گے۔کیونکہایک عمومی مزاج یہ بنا ہے کہ ٹی وی کی اسکرین پر آنے والے افراد قوم کے ہیرو ہیں۔ لوگ اُن کے رنگ میں رنگنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اُن کی طرح کا لباس زیب تن کرنے میں سکون محسوس کرتے ہیں۔اس لئے حلیے،لباس اوروضع قطع کی پابندی بہت ضروری ہے۔یاد رکھے کہ یہ چیزیں آپ کے ناظرین پر لاشعوری طور پر اثر انداز ہورہی ہوتی ہیں اور آپ کا کام اور گفتار لوگوں کو شعوری طور پر دین کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

 

2:ماحول:

اسلامی چینل میں دوسرے نمبر پر ماحول کا خیال رکھنا چاہیے ۔جو ماحول اسکرین پر دکھایا جارہا ہےاس کا اسلامی ہونا ضروری ہے۔وہ ماحول اگر غیر اسلامی ہو تو اس سے مُثبت کے بجائے مَنفی نتائج برآمد ہوں گے۔ماحول کو اسلامی بنانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا لحاظ رکھنابھی ضروری ہے کہ وہ ماحول پیش کیے جانے والے پروگرام کے بھی موافق ہو۔مثال کےطور پر اگر پروگرام کوئی علمی پروگرام ہوتو بیک گرؤنڈ میں اسلامی کُتُب کی لائبریری نظر آرہی ہو۔اگر پروگرام عبادت سے متعلق ہوتو پسِ منظر میں تسبیح ،مصلٰی اور قرآن شریف نظر آرہا ہو۔اگر پروگرام خواتین کے متعلق ہوتو پسِ منظر میں برقہ پھول وغیرہ لگا سکتے ہیں۔اس طرح ہر پروگرام کے موافق ماحول ترتیب دینا ضروری ہے اس کا اثر ناظرین پر کافی گہرا رہتا ہے۔اگر پروگرام بچوں سے متعلق ہو تواس میں اُن رنگوں کا استعمال کیا جائے جو بچوں کے پسندیدہ ہوں۔نیز ان میں قُمقمیں اور لائٹیں نصب کرنے کا بھی خیال رکھا جائے۔یاد رہے کہ جس اسٹوڈیو میں آپ بیٹھے ہیں اس کا ناظرین پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔اگر وہ پرکشش اور جاذب نظر ہو تو اس پروگرام کے دیکھنے والے زیادہ ہو ں گےلیکن اگر دینی پروگرام کسی ایسی جگہ میں ریکارڈ کیا جائے جوپرُ کشش اور خوبصورت نہ ہو تو ناظرین کم ہوں گے۔

 

نوٹ: آج کل کئی چینلز کے پاس قیمتی اسٹوڈیو موجود نہیں ہوتےوہ مختلف وڈیو ایفکٹس کے ذریعے بیک گراؤنڈ میں خوبصورت وڈیو اسٹوڈیو بنادیتے ہیں اور سکرین پر ناظرین کو لگتا ہے کہ یہ حقیقتاً اس اسٹوڈیو میں بیٹھا ہے ۔اس لئے اس طرح کی اسٹوڈیو سے بھی کا م لیا جاسکتا ہے۔

 

3:منکرات سے بچنا:

چونکہ چینل ایک دینی اور دعوتی چینل ہےاس لئے اسے ہر قسم کے الزامات اور بُہتانوں سے محفوظ رکھنانہایت ضروری ہے۔خصوصاًدینِ اسلام کے حوالے سے نہایت باریک چیزوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ اسلامی حلقے میں آپ ایک بار بد نام ہوجائیں گے تو کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ آسانی سے حاصل کرنا بہت مُشکل بن جاتاہے۔اس لئے ابتداء سے ہر طرح کے شرعی منکرات و نواہی سے بچنا ضروری ہے۔چینل میں کا م کرنے والے جُملہ افراد کیلئے ایک خاص شرعی ضابطہِ اخلاق ترتیب دینا ضروری ہےجس کے مُطابق وہ چینل کوچلاسکیں۔ جس طرح چینل کے افراد کے لئے ہر قسم کے گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اس چینل پر آنے والے مہمانانِ گرامی کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ کسی گناہ میں ملوث نہ ہو اور یوں چینل کا امیج متاثر نہ ہو۔اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ اسلامی چینل کو جب ہی عوامی پزیرائی ملتی ہے اگر عوام کو اس کے اسلامی ہونے پر اعتماد اور یقین آئے۔

 

4:لب و لہجہ کا استعمال:

الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینل کے ذریعے دعوت دینے میں جو چیز سب سے زیادہ کار گر ثابت ہوگی وہ آپ کا لب و لہجہ ہے۔ اگر آپ اِس کو درست استعمال کریں گے تو اس سے منطقی نتائج حاصل کر سکتے ہیں ۔اس لئے اسکرین پر آنے والے افراد کا لہجہ نرم اور شائستہ ہونا چاہئےاس میں مِٹھاس ہو تاکہ لوگوں کے قریب کرنے کا ذریعہ بن سکےنہ کہ لوگوں کو اپنے سے متنفرکرے۔ کہا جا تا ہے کہ اصول ہمیشہ سخت رکھو لیکن لہجہ نرم ہو۔نرم لب ولہجے سے سخت بات بھی جگہ بنالیتی ہے۔اور سخت لہجے میں ادا ہونے والی اچھی بات کو بھی لوگ نفرت امیز نظروں سے دیکھتے ہیں۔

 

5:انداز ِ بیان

بات بیا ن کرنے کا انداز دل میں اُترنے والا ہو اندازِ بیان کی چند نمایاں خوبیوں کو ذیل میں ذکر کیا جا تا ہے ۔

 

عالمانہ: آپ چونکہ لوگوں کے رہبر اور پیشوا ء کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں اس لئے آپ کا انداز عالمانہ ہونا چاہیئے۔بات مدلّل ٹھوس اور دوٹوک ہو۔

 

عامیانہ:اندازِ بیان میں دوسری بڑی خوبی اس کا عامیانہ ہونا ہے، کہ بیان کرنے کیلئے خالص عوامی زبان استعمال کی جائے ۔ ہمارے ہاں عموماًدو طرح کے اسلوب پائے جاتے ہیں۔

 

علمی اسلوب: یہ خالص علمیت پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس میں عموماً فلسفیانہ رنگ غالب رہتاہے۔اس میں حد درجہ خشکی پائی جاتی ہے۔مضبوط اہلِ علم کی تحریرات اور تقریرات ملاحظہ کی جائے تو اسلوب بکثرت ملے گا ۔ ان کی تحریر و تقریر مُشکل ،اس قدر گاڑھی اور پیچیدہ ہو تی ہے کہ آسانی سے سمجھ نہیں آتی۔

 

عوامی اسلوب:ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو خالص عوامی لب و لہجہ میں بات کرتا اور سُنتا ہے۔یہ حضرات تحقیق اور تدقیق کی باریک بینی میں نہیں جاتے۔ان پر عوامی اسلوب اس قدر غالب رہتاہے کہ بجائے کسی مدلل اور مستند بات کو ذکر کرنے کے یہ فرضی حکایات ،قصے کہانیاں اور سچ اور جھوٹ کے ملعوبوں سے اپنی تحریروں اور تقریروں کو بھر دیتے ہیں۔یہ لوگ عموماً تحقیق اور علمیت سے واقف نہیں ہوتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل علم اور محققین عوامی زبان استعمال کرنا شروع کردے تاکہ ان کی مستند باتوں سے لوگ استفادہ کرسکے۔

 

3:دوستانہ:انداز بیان کی تیسری خوبی اس کادوستانہ ہوتا ہے ۔ آپ کا انداز بیان اس قدر دوستانہ ہو کہ لوگوں کے دلوں کو بھا جائے۔انہیں گرویدہ بنائے اور وہ پہلی ملاقات ہی میں آپ کے دوست بن جائیں۔ طرز تکلم اور انداز تخاطب میں جارحانہ انداز اپنانے

 

سے گریز کیا جائے کہ اس سے دور تو دوراپنے بھی دور ہو جاتے ہیں ۔

 

4:مخلصانہ:آپ جس کو دعوت دے رہے ہیں ان سے مخلص ہو نا بھی ضروری ہے۔ ٹی وی چینل کی سکرین پر نظر آنے والے داعیوں کیلئے ناظرین سے مخلص ہونا ضروری ہے۔ انکا انداز اس قدر مخلصانہ ہو کہ انکی باتوں سے انکا اخلاص ٹپک رہا ہو۔

 

5:درد مندانہ:انداز بیان کی پانچویں خوبی اس کا دردمندانہ ہونا ہے۔ آپ کے بیان کرنے کا انداز اس قدر دردمندانہ ہو کہ لفظ لفظ فکر امت میں بے چینی پر گواہی دے ۔ اس کیلئے آپ کے دل ودماغ میں دعوت کی فکر موجود رہنی چاہئے۔ یہ فکر آپ کے انداز بیان پر اثر انداز ہوگی۔ اس سے اس میں خود بخود ایک درد پیدا ہوگا جسکے سامعین و ناظرین پر گہرے ،دوررس اور مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔

 

6:بیک گراؤنڈ موسیقی

کسی پروگرام میں اثر ڈالنے کیلئے اس میں بیک گراؤنڈ موسیقی کا بڑا عمل دخل ہے۔اس کی وجہ سے سادہ بیان اور الفاظ بھی جاندار ہوتے ہیں اور سامعین اور ناظرین کی توجہ پروگرام پر مرکوز رہتی ہے اور وہ ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا چاہے ٹی وی ہو،ریڈیو ہو یا انٹرنیٹ ہو، سب میں موسیقی ضرور موجود ہوتی ہے۔اس سے پروگرام کا لُطف دوبالا ہوجاتا ہے ۔ایک اسلامی ٹی وی چینل کے پروگرام میں موسیقی کی حرمت کی وجہ سے اگرچہ اس سے استفادہ نہیں کر سکتے تا ہم اس کے متبادل کے طور پر ہم کئی اور جائز چیزیں بیک گراؤنڈ میوزک کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں ۔جیسے کسی نعت ، نظم ،انسانی با ہنگم آوازیں وغیرہ ۔ان سے ہم جواز کے حدود میں رہتے ہوئے اچھی طرح استفادہ کرسکتے ہیں۔

 

'7:ساؤنڈ ایفیکٹس کا استعمال'

اپنی دعوت دینے میں جان ڈالنے کیلئے ان صوتی اثرات کو استعمال کرنا ضروری ہے ۔ان سے الفاظ صاف ہو جاتے ہیں،بیان میں مِٹھاس آجاتی ہے اور ماحول دلچسپ بن جا تا ہے ۔ان ساؤنڈ ایفیکٹس کے ذریعے ہم سکرین پر نمودار ہونے والے مہمان میزبان اور اینکر پرسن وغیرہ کی گفتگو کو باوزن اور دلچسپ بناسکتے ہیں ۔ ان صوتی اثرات کو بیک گراؤنڈ میوزک کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

 

8:ویڈیو ایفیکٹس کا استعمال

الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دعوت دینے میں اس کا کردار کلیدی رہتا ہے ۔دینی چینل عام طور پر ایک خشک چینل ہوتا ہے جس میں دلچسپی کا سامان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔اس لئے ناظرین اس سے جلد اُکتا جاتے ہیں ۔اور وہ فوراًآپ کا چینل تبدیل کر کے کسی ایسے چینل پر چلے جاتے ہیں ،جہاں ایک رنگین دنیاآبا د ہو اور جہاں دلچسپی نہیں بلکہ دلچسپیوں کا ساماں ہو۔اس لئے لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کی طرف اسلامی ٹی وی چینل مالکان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اس میں سب سے زیادہ کام ہم ویڈیوایفیکٹس سے لے سکتے ہیں ان بصری اثرات کی مدد سےہم ایک سادے سے پروگرام کو نہایت رنگین ، جاذب نظر اور پُر کشش بناسکتے ہیں ۔ ویڈیو ایڈیٹنگ کو نہ صرف ہم پروگرامز کی وڈیوز میں استعمال کرسکتے ہیں بلکہ اس کے ذریعےہم پروگرام کے بیک گراؤنڈ کو اپنی مرضی کے مطابق بنا سکتے ہیں اور اس میں پسند کی ویڈیوز بھی فٹ کر سکتے ہیں۔۔ اس کے ذریعے اپنی مرضی کا اسٹوڈیو بنا سکتے ہیں ۔جیساکہ عموماً معاشی طور پر کمزور چینل والے حضرات کرتےہیں۔ویب چینلز میں عموماً یہ طرز چلتاہے۔

 

9:علم و عمل کے پیکر کا انتخاب

اسلامی چینل کی اسکرین پر نظر آنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ علم و عمل کے پیکر ہو۔ اُن کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو ۔وہ معاشرے میں مقتدیٰ ، رہبر و پیشوا کے طور پر مشہور ہو۔اس کے ساتھ ساتھ وہ علم کی دولت سے بھی مالا مال ہو ۔جس موضوع پر پروگرام کیلئے انہیں منتخب کیا جارہا ہو وہ اس موضوع میں مرجع کی حیثیت رکھتے ہوں ۔ایسے لوگ جب سکرین پر نمودار ہوں گے تو ان کی باتوں میں لوگ وزن محسوس کریں گے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

 

10:صفائی سُتھرائی کا خیال رکھنا

جس اسٹوڈیو اور جس جگہ کوئی پروگرام ریکارڈ کرایا جا رہا ہو اس جگہ کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھناضروری ہے۔صفائی نصف ایمان ہے۔اس لئے اس کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے ۔ناظرین پر بھی اس کا اچھا اثر پڑتا ہے اسی طرح جو حضرات سکرین پر نظر آرہے ہو ان کے لباس اور بدن کی صفائی ستھرائی کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ان دس اُمور کا خیال رکھتے ہوئے اسکرین کے ذریعے جو دعوت دی جائے اس میں جان ہوگی۔بات موثر ہو گی اور زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں گے۔

 

احتیاط: ان دس اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے چند اہم بُرائیوں سے بچنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہماری دعوت میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اور ہم اپنی دعوت میں اثر پیدا کرسکے۔یہ کل پانچ چیزیں ہیں جو ذیل میں ترتیب وار درج ہیں۔

 

1:بے علمی

 

اپنے چینل سے ان لوگوں کودور رکھناجو اپنے ہنر میں مہارت نہ رکھتے ہو، چاہے ان کا تعلق تکنیکی کاموں سے ہو ،یا دعوتی امورسےوابستہ ہو،خصوصاً دعوتی مقاصد کیلئے مُنتخب کیےجانےوالےافرادعلمی لحاظ سےمضبوط ہو۔ان کےانتخاب کا معیار(Criteria) اعلیٰ ہو۔ ان کا علمی مرتبہ اس قدر بلندہوکہ اپنے فن میں مرجع کی حیثیت رکھتا ہو۔

 

2:بے عملی

 

اسلامی چینل میں کام کر نے والے جملہ افراد علم سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ عمل کے بھی پیکر ہوں۔ہر قسم کے گناہوں اور مُنکرات سے پاک ہو۔ کیونکہ داعی کی بات میں اثر تب ہوتا ہےجب خود اس پر عمل پیرا ہو وہ گفتار کے غازی ہونے کے ساتھ ساتھ کردار کابھی غازی ہو۔

 

3:بے جا تنقید

 

‎دعوت کے میدان میں یہ زہرِقاتل اور داءعضال (لاعلاج۔ بیماری)ہے۔جو لوگ دوسروں پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔لوگ

 

ان سے مُتنفّر ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی باتوں پرلوگ کان نہیں دھرتے۔الٹا اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس دیتے ہیں۔ایک داعی کے لئےضروری ہے کہ وہ تنقید کا لفظ اپنے دل و دماغ سے نکال باہر کرے۔وہ لوگوں کو قریب لانے کیلئے صرف اچھی باتیں پھیلایا کرے۔اگر وہ کسی میں برائی بھی دیکھے تو اس کے ازالے کیلئے وہ تنقیدی زبان استعمال کرنے سے گریز کرے ۔ کیونکہ جولوگ نفرتوں کوعام کرتے ہیں انہیں معاشرے میں بُری نظروں سے دیکھاجاتا ہے۔حضوراکرمﷺکا ارشاد ہے:

 

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِى بَعْضِ أَمْرِهِ قَالَ « بَشِّرُوا وَلاَ تُنَفِّرُوا وَيَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا[14] ۔

 

ترجمہ:رسول اللہﷺجب کسی صحابی کو کہیں روانہ فرماتے تواسے نصیحت کرتے کہ خوشخبریاں پھیلایا کریں نفرت پھیلانے سے گریز کیا کریں۔اور لوگوں کیلئے سہولت پیدا کریں ان کو بے جا تنگی میں مبتلا نہ کریں

 

4:لالچ

 

ایک داعی کیلئےضروری ہے کہ وہ اپنا مزاج مستغنیٰ بنادے اورلالچ کے چکر میں نہ پڑے۔لالچی مزاج انسان کی تمام ترعزت پر پانی پھیر دیتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ لالچ بُری بلا ہے۔ایک اسلامی چینل میں لالچ کئی طریقےسے داخل ہوسکتی ہے۔اس میں کسی شخص سے مالی مفادات حاصل کرنے کیلئے اس کی مرضی کے مطابق دین کی تعبیر بیان کرنا لالچ کے زمرے میں آتا ہے۔اسی طرح حکومتِ وقت کی تائیدوتصویب حاصل کرنے کیلئے اس کے ہر جائزوناجائزحکم پر لبیک کہنالالچ ہے۔اس سے بچنا از حد ضروری ہے۔نیز اشتہارات حاصل کرنے میں کمپنی کے پس منظر کو ملاحظہ کرنا ضروری ہے کہ اس کا کاروبار شریعت کے دائرے کے اندر ہے یا نہیں؟عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اشہارات کے حصول کیلئے چینل مالکان اپنے افکار اور نظریات تک پر سمجھوتا کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔یہ سب کچھ لالچ کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس لئے لالچ سے پور ے چینل اور اس میں کام کرنے والے عملے کو دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ملازمین کی ابتداء سے یہ ذہین سازی کی جائے کہ ہمارا مقصد پیسے کمانا نہیں بلکہ دین کی خدمت کرنا ہے۔اگر ایک بار عملے کا مزاج یہ بن گیا تو چینل کبھی بھی لالچ کا شکار نہیں ہوسکتا۔

 

5:توکل علی الناس :

 

ایک داعی کیلئےیہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس بیماری سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ لوگوں پر اعتماد کرکےکام چلانے سےگریز کرے۔ورنہ ذلّت وخواری اس کا مقدّدر بنے گی۔کوئی اسلامی چینل اس بیماری میں مبتلاءہونے کے بعد اسلام کی دعوت آزادنہ طریقے سے نہیں دے سکتا۔تب وہ کام کرنے میں ان لوگوں کا محتاج اور غلام بنے گاجس کے احسانات کے تلے وہ زندگی گزار رہا ہے۔لوگوں پر توکل کرنے کے بجائےلوگوں کے خالق پر توکّل کرنے کی ضرورت ہے ۔ تب ہمارے سارے کام خودبخود سنور جائیں گے۔ کام کو ترقی ملے گی ۔دعوت میں اثر ہوگا اوراس کا نفع عام ہوگا۔

حوالہ جات

  1. الموسوعۃ الفقھیۃالکویتیۃ،المعازف، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الكويت،38/168
  2. ایضاً
  3. ایضاً
  4. ابوزید عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی،تاریخ ابن ِجلدون،مقدمہ ابن ِجلدون،الباب الخامس من الکتاب الاول فی المعاش ووجوبہ من الکسب و الصنائع ،الفصل الثانی والثلاثون فی صناعۃ الغناء،دارالفکربیروت،1988 ء،ج1،ص534
  5. کشفی،ابوالخیر،اردوترجمہ مقدمہ ابن خلدون، موسیقی کے آلات، دارالاشاعت ،کراچی،س ن،ج1،ص402
  6. لقمان 6:31
  7. بنی اسرائیل 64:17
  8. النجم 53: 59-61
  9. ترمذی ابوعیسی محمد بن عیسی،جامع ترمذی،کتاب الفتن،باب قبیل باب ماجاءنی قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعثت انا الساعۃ کھاتین،ج2،ص44
  10. البخاری،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب الاشربۃ،باب ماجاء فیمن لیتحل الخمرویسمیہ بغیر اسمہ، ج2، ص837
  11. ابو فیصل البدرانی، حکم الغناء و المعازف والآلات الملاھی والموثرات الصوتیۃ، ص 1
  12. ایضاً،ص 3
  13. البركتی،محمد عميم الاحسان المجددي ، قواعد الفقۃ، الصدف ببلشرز ، كراتشی، 1407ھ،ص 59
  14. سجستانی،سلیمان بن الاشعث،سنن ابی داؤد،دارالکتاب العربی،بیروت،باب فی کراھیۃ المراء،رقم الحدیث4837،ج4، ص408
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...