Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

زرتشت ازم کے شعائر، رسوم اور روایات: اسلامی تناظر میں اجمالی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

زرتشت ازم کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے ۔جسکے دور کا حقیقی تعین کرنا اہل تحقیق کیلئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں رہا۔بعض مذاہب کے سکالرز تو زرتشت کو ایک افسانوی کردار سے زیادہ نہیں سمجھتے رہے اور بعض کے خیال میں زرتشت اللہ کےبرگزیدہ انبیا ء میں سے ایک تھےجو وسط ایشیا کے علاقہ توران مین میڈیا[1] سے تعلق رکھتے تھے۔اگرچہ اس مذہب کے متبعین کا کہنا ہے کہ یہودیت عیسایئت اور اسلام نے زرتشت مت کا ہی اثر قبول کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مجوسیت کے کئی رسوم ورواج اورنظریات الہامی مذاہب سے ملتے جلتے ہیں مثلا احوال جنت، جہنم، پل صراط، تصور نماز اور طریقہ نمازوغیرہ۔اس مذہب کا نمایاں ترین وصف ا خلاقیات کی تعمیر و تشکیل پر زور اور فعالیت و عملیت تھا جس کو بعد میں اسکے پیروکاروں نے دیگر انبیا کی تعلیمات کی طرح درست سے غلط میں بدل دیا۔ شاید یہی وجہ ہے اس مذہب کے بارے میں الہامی مذہب ہونے کی رائےاب تک موجود ہےزجبکہ بعض سکالرزاسے اہل کتاب میں شامل کرتے ہیں جو کہ جمہورسکالرزکےنزدیک درست رائے نہیں ہے۔مختصر یہ کہ موجودہ زرتشت ازم فقظ رسوم و رواج کا ہی مذہب معلوم ہوتا ہے جبکہ عملی طور پر یہ اپنی افادیت کھو چکاہے۔کچھ روایات ایسی ہیں جن پرایک زرتشتی کو سختی سے کاربند رہنا پڑتا ہے ذیل میں اسکا حال اس تحقیقی مقالہ میں پیش کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس مذہب کے حقیقی تعلیمات اور ژعائر کو سمجھنے میں آسانی رہے۔

 

==ناوجوتNavjote) ) == ناوجوت کے معنی اتباع مذہب کی ابتدا ہے یہ ایک ایسی تقریب ہے جس میں ایک زرتشتی بچے کو (سدھرے) پہنایا جاتا ہے۔ اس تقریب سے پہلے بچے کو ’’نہان“ کرنا پڑتا ہے جو ایک مقدس غسل ہے اس کا مقصد ظاہری طہارت کا حصول ہے۔ناوجوت کی تقریب سے قبل بچے کو نیرانک (یعنی بیل کا پیشاب) پلایا جاتا ہے اور اس سے مقصود اندرونی طہارت ہے۔ ناوجوت سے قبل بچے کو اناسکا پتہ بھی چبانے کو دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے روح کے لافانی ہونے کا پیغام ملتا ہے۔بچے کو پادری مقدس کمر بند یا چادر پہناتا ہے جس سے اظہار روحانی طاقتوں اور عظمت و نیکی کا بچے میں منتقل کرنا ہے۔ناوجوت یا نَوْجوت کے بعد بچہ اپنی زندگی کے نئے دور میں داخل ہوتا ہے جو اخلاقی و روحانی زینہ کا کام دیتا ہے۔ناوجوت میں بچہ مزدائی مذہب میں داخلے کا اور ایمان و عقائد اپنانے کا کھلا اظہار کرتا ہے[2]۔یعنی یہ عمل زرتشت ازم میں داخلے کا بنیادی ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔

 

==سدھرے Sudreh) ) == یہ سفید کپڑے سے بنایا جاتا ہے جو پاکیزگی کی علامت اور مزدائیت کا علامتی نشان ہے۔سدھرے مادیت و روحانیت کے امتزاج کی علامت بھی خیال کیا جاتا ہے۔سدھرے کا اہم ترین حصہ ایک بیگ ہے جو (کیشے کیفرے) کہلاتا ہے یہ اصل میں اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ اس میں نیکیوں کو داخل کرنا اور اگلی زندگی کے لئے کامیابی کا سامان جمع کرنا ہے۔ سدھرے براہ راست جسم سے منسلک کیا جاتا ہے اس لئے کہ جسم دیگر نجاستوں کے ساتھ ساتھ حرارت بھی خارج کرتا ہے اور سدھرے اس کو جذب کرتا ہے۔[3]یہ اسلامی شعائر احرام سے ظاہری طور پر مشابہت رکھتاہے لیکن حقیقی طور پر اس سے بہت مختلف ہے۔

 

== کُستی (Kusti) : == کستی اصل میں اس سمت کا اظہار ہے جس کی طرف زرتشتی کو رخ کرنا چاہئے اور یہ سمت روشنی اور سچائی ہے کستی بھیڑ کے بالوں سے بنائی جاتی ہے جو معصومیت کا علامتی استعارہ ہے۔کستی دستی کھڈی پر 72 دھاگوں سے بنی جاتی ہے یہ جسم کے وسط میں باندھی جاتی ہے جو اعمال کرنے کے لئے جدت کے اصول اپنانے کا اظہار ہے۔کستی کی چار گرہیں چار باتوں کا اظہار ہیں:

 

1: آہورا مزدا (خدا) صرف ایک ہے اور بے مثل ہے۔ 2: زرتشت آہورامزدا کا پیغمبر ہے۔

 

3: مزدا کا مذہب اصل میں آہورا مزدا کا ہی کلام ہے۔

 

4: ہر شخص فکر و عمل اور تکلم میں بہترین اور صالح ہونا چاہئے۔

 

کستی بنیادی طور پر بندگئ خدا کا مستقل استعارہ ہے۔ زرتشت ازم میں کستی کو پہننا لازم ہے یہ اس لئے

 

ہے کہ یہ شخصیت کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔یہ رسم پشدادی خاندان کے بادشاہ جمشید کے دور حکومت میں شروع ہوئی جس کو زرتشت نے برقرار رکھا۔ ایک زرتشتی کیلئےیہ گناہ تصورکیاجاتاہےکہ وہ اس کے بغیر زندگی گزارے۔کستی کو اتارنے سے پہلے زرتشتی کو اپنے بدنی اعضاء دھونا لازم ہے جسے پادیاب کہتے ہیں۔[4]اس عمل کو ظاہری طور غسل احرام سے تشبہ دے جا سکتی ہے۔

 

==آگ (Fire) : == زرتشت ازم میں تخلیقات خداوندی میں سے سب سے زیادہ شاندار اور مفید اظہارآگ ہے۔ اوستہ میں آگ کو آہورا مزدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔ ایک زرتشتی صبح اٹھتے ہی کپڑے پہن کر ہاتھ دھو کر ایندھن کسی جلانے والی چیزیں ڈال کر آگ جلاتا ہے۔ مخصوص عبادات سرانجام دینے کے بعد آگ کو ایک مخصوص مقام پر نصب کردیا جاتا ہے۔آگ کے تین درجات شمار کیے جاتے ہیں:

 

1: آتش بہرام۔2: آتش ادران۔3: آتش دادغہ۔

 

مزید برآں زرتشت ازم میں آتش بہرام کو نصب کرنے کے 16 مختلف طریقے ہیں جبکہ ادران کے چار اور دادغہ کا صرف ایک طریقہ ہے۔اونچے اور نمایاں مقام پر ایک ایسا پادری (زرتشت ازم کا مذہبی رہنما) آتش بہرام کو نصب کرتا ہے جس نے تمام تقریب کی نگرانی کی ہو یا پھر شریک تقریب کوئی بھی ایسا کرسکتا ہے۔آگ نصب کرنے سے پہلے ایک زرتشتی آہورامزدا کی عبادت کرتا ہے جو آہورا مزدا کی علامت ہے۔آگ میں مردوں کو جلانا گناہ شمار ہوتا ہے۔زرتشتی روایات اور رسومات کی ادائیگی، بالخصوص آگ، سے مقصود ماحول کو پاک کرنا دوسرا مقصود مقدس ارواح کی رحمتوں کو سمیٹنا اور تیسرا مقصودآہورا مزدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا جو اس نے انسانیت پر کی ہیں۔بنیادی ترین رسومات یازشنی، وسپرڈ، اور وینداداد ہیں۔

 

یہ تقریبات جسم و روح کے اعتبار سے پاکیزہ ترین سمجھے جانے والے پیشوا سرانجام دیتے ہیں۔ اس کےمتعلق مشہور سکالر ارواد موتافرم رتن شاہRatansha, Motafram Ervad لکھتے ہیں: [5] "یہ تقریبات مندر (معبد) کےایک مخصوص کردہ مقام پرسرانجام دی جاتی ہیں جنہیں’’اُرْو“ کہا جاتا ہے ان کا ایک دوسرا نام ’’پاوْمحل“ بھی ہے ۔پاو سے مراد پاکیزہ ہے۔ ان تقریبات کے لوازمات میں سے کھانے پینے کی معدنی چیزیں، سبزیاں اور جانوروں کی مختلف اشیاء رکھی جاتی ہیں جن سے مقصود آہورا مزدا کی مختلف تخلیقات کا اظہار ہے"۔[6] مزید بتایا گیا ہے کہ؛ آگ کا وجود بطور ایک زندہ نوع کے سمجھاجاتا ہے جبکہ موبد یا مذہبی پیشوا اسے آتش پادشاہ (بادشاہ) کہتے ہیں یاسنا میں مذکور ہے کہ زرتشت اسے آہورا مزدا کا ہاتھ، ایجنسی، معاون، مددگار اور خدا کا ہاتھ جیسے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔

 

یازاشنی، وسپرڈ اورویندیداد (Yazashne, Vispered and Vandidad) :

یازاشنی نامی اس تقریب کو ’’ہوما“کے جوس اور پتوں سے سرانجام دیا جاتا ہے۔جبکہ وسپرڈ نامی رسم تقریب موسمی تہوار ’’گا ہمبر“ کے موقعہ پر ہوتی ہے۔اورویندیدادرات بارہ بجے کے بعد سر انجام دی جاتی ہے کیونکہ بدروحیں تاریک اندھیروں میں ہی اثر انداز ہوتی ہیں۔

 

باج: : (Bāj)

باج ایسی مذہبی دعا ہے جو مقدس روحوں کے اکرام میں پڑھی جاتی ہے جنہیں ’’ امیشا سپنٹاز“ اور ’’ یازاتاز“ (یعنی محافظ روحیں) کہا جاتا ہے انہی کو فراوا شیش بھی کہتے ہیں۔یہ دعا زرتشتیوںکو بد روحوں سے بچاتی ہے۔

 

افرنگان: (Afringaan)

افرنگان دعائے رحمت کی تقریب ہے جسے دو یا بعض اوقات ایک پیشوا بھی سر انجام دیتا ہے۔ اس موقعہ پر پھل، پھول، پانی، دودھ اور صندل کی لکڑی رکھی جاتی ہے۔اس کا مقصد روحوں کو دعا اور ایصال ثواب پہچانا ہے۔

 

فروکھشی: (Farokhshi)

فروکھشی بھی افرنگان کی ہی مانند ایک سادہ تقریب ہے۔جس میں پیشوایان مذہب کھانے پینے کی مختلف اشیا کے ساتھ دعا کے لیے بیٹھتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد بھی روحوں کو دعا اور ایصال ثواب پہچانے کے لیے کوشش کرنا ہے۔

 

سَٹَم (Stum)

سٹم ایک ایسی دعا ہے جو مقدس روحوں کی تعریف و توصیف پر مبنی ہے۔ زرتشت ازم میں روحوں کی زندگی کا تصور موجود ہے لہذا اس کا بنیادی مقصد روحو ں کے بندے درجات کے لیے دعا کرنا ہے۔

 

جشن: (Jashan)

اس اہم ترین دعا کو ایک یا دو پیشوا مل کر اس دعائیہ تقریب کو دیگر زرتشتیوں کے ساتھ ملکر سرانجام دیتے ہیں۔[7]مردہ کی روح کو شرانگریز اور برے اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے موت کے بعد کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے زرتشتی تعلیمات کے مطابق مردہ کی روح 3 روز تک گردو نواح میں بھٹکتی رہتی ہے، سروش (فرشتہ، روح) جو مردوں کا دنیا و آخرت میں محافظ ہے وہ اسکی روح کو ایک لطیف و نورانی پوشاک میں لپیٹ لیتا ہے جو چوتھے دن اگلے جہاں تک سفر کیلئے اسکا رہنما ہوتا ہے، جبکہ فر اوردگان یا ایام مکتاد وہ دس دن ہیں جو زرتشتی کیلنڈر کے اختتامی دس دن ہوتے ہیں ان دس ایام میں محافظ روحیں (فراورش، فرشتے) زمین پر گھومتے پھرتے ہیں اور لوگوں کے اعمال کو شرف قبولیت بخشتے ہیں۔زر تشتیت میں آہور امزدا جسکے معنی خدائے قادر مطلق ہے۔ زرتشتی صنمیات میں اسے مجسم خیر کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔جبکہ آہورامزدا کا تصور روشنی میں منسلک ظاہر کیا جاتا ہے جو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا اور جو تمام تر تخلیقات کا خالق ہے۔[8]

 

امیشا سپنٹاز (Amesha Spentas)

: زرتشت ازم کی معروف سکالر ڈاکٹر میری بوائس امیشا سپنٹا کی سات خدائی صفات کا تزکرہ یوں کرتی ہیں۔ امیشا سپنٹاز کاتصور زرتشیت میں بڑا ہی بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔جسکے معنی لافانی رحیم و کریم صفات ہیں جو کہ سات ہیں۔

 

1: آہورا مزدا2: واہو مانا3: آشاواہستہ4: کھشتر اورایا

 

5: سپنٹا آرمائتی 6: ہورواتات 7: امریتات

 

زرتشت ازم پرسب سے پہلا ضخیم ترین کام کرنے والی مصنفہ میری بوائس[9] اس حوالے

 

سے رقم راز ہیں: "انہیں آہورا مزدا کی صفات کہا جاتا ہے۔یہ امیشا سپنٹاز تمام تر انسانیت، جانور، آگ، دھاتیں، زمین، پانی اور نباتات پر حکمرانی کرتی ہیں۔ زرتشتی عقیدہ میں ان صفات یا ارواح کو الگ سے خدا نہیں خیال کیا جاتا بلکہ یہ آہورا مزدا کی فکر، الفاظ اور اعمال کا اظہار ہیں اور اہورا مزدا کو ان کا باپ اور خالق کے طور پر جانا جاسکتا ہے"۔[10]پروفیسر مظہر الدین صدیقی نے اوستائے آخر کی روشنی میں زرتشت مت میں خدا کی وحدانیت اور اسکی صفات کے بگڑے ہوئے تصور پرنقدکرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "اسمیں کوئی شک نہیں کہ منشی عہد میں جن دیوتاوں کا زور تھا یاشت کی نظمیں انہی کے نام سے معنون کر دی گیئں، نہ صرف امیشا سپنٹاز بلکہ خود آہورا مزدا کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئ۔ زردشت کی وحدانیت اب اس حد تک بگڑ گئی کہ خود آہورا مزدا فرشتوں کی عبادت کرتا"۔[11]


یزاتا (Yazata) : اسی طرح زرتشیت میں یزاتاؤں کا تصور پایا جاتا ہے جسکے معنی ہیں مقدس و محترم۔ یزاتاؤں کو گنا نہیں جاسکتا، یہ لامحدود ہیں اور درجہ بندی میں یہ امیشا سپنٹاز کے بعد سب سے زیادہ مقدس و محترم خیال کی جاتی ہیں۔ یزاتائیں بھی بالترتیب روحانی اور مادی ہیں۔ روحانی کو خیر و نیکی سے مجسم خیال کیا جاتا ہے جبکہ مادی تمام مادی کائنات و تخلیقات پر نگران و ذمہ دار بنائی گئی ہیں"۔[12]


فراواشی (فرشتے) : : (Fravashi) اس سےمحافظ روحیں مراد ہیں جو امیشا سپنٹاز اور یزاتاؤں سے الگ و منفرد صفات کی حامل ہیں اور یہ تمام تر تخلیقات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ہر شخص یا نفس کے ساتھ ایک فراوشی منسلک ہےمگر روح و فراورشی کا تصور الگ الگ ہے۔زرتشی تعلیمات کے مطابق موت کے بعد روح اپنے اعمال کے لیے قابل مؤاخذہ ہوگی جو کچھ اس نے دنیا میں کئے۔جبکہ فراوشی کا تعلق روح کے ساتھ نگران و محافظ کا ہے جو زندگی کے پر خطر سمندر میں ساتھ ساتھ ہے۔ فراوشی کی درجہ بندی دو طرح سے کی جاسکتی ہے:

 

1: ایک وہ جو زندگی کے اختتام کے ساتھ ہی روانہ ہوگئیں۔2: جو ابھی پیدا نہیں ہوئیں۔

 

فراوشیوں کا کام آسمان کو قائم رکھنا، پانی، زمین، مویشی، رحم مادر میں بچہ کے اعضاء کی تشکیل و تعمیر، زندگی میں تحریک کے بنیادی عوامل کار فرما کرنا انہیں بالعموم ایام فر اور دگان کے دوران یا زرتشتی کیلنڈر کے آخری دس ایام میں پکارا جاتاہے (مدد طلب کی جاتی ہے) ۔[13] مزید یہ کہ فراوشی کا عقیدہ تصور آخرت سے منسلک ہے۔مظہر الدین صدیقی مزید لکھتے ہیں۔: اس عقیدہ کے معنی ہیں کہ ہر انسان کی روح ابد سے موجود ہے۔مرنے کے بعد یہ روح باقی رہتی ہے اور ارضی روح سے مل جاتی ہے۔زندگی کے دوران یہ روح نگہبانی کرتی ہے۔مرنے کے بعد روح کو جزا و سزا دی جاتی ہے اور انسان کو بہشت یا دوزخ مین بھیج دیا جاتا ہے۔[14] اس طرح گویا معلوم ہوتا ہے کہ زرتشت تناسخ ارواح کے قائل نہ تھے۔کیونکہ گاتھائیں اس تصور سے خالی ہیں۔اور ویسے بھی جزا اور سزا کا نظریہ فطری طور پر دوبارہ حیات ارضی کی طرف واپسی کا رد کرتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ جو اصل میں ہندو عقیدہ تھا اب کسی نہ کسے طرح زرتشت ازم میں بھی شامل ہو چکا ہے۔

 

ارواح بد۔ دیوا، دروج: : (Daeva, Daruj) دیویا اور دروج ارواح شر ہیں جو انسانیت کو راہ راست سے بھٹکاتی ہیں۔یہ تین معنوں میں مستعمل ہیں:

 

1۔غیر مرئی ارواح جو امیشا سپنٹاز اور یزاتاؤں کے خلاف عمل درآمد کرتی ہیں۔

 

2۔ چور ڈاکو، گناہگار، قاتل سب کو دیوا یا دروج سے نسبت دی جاتی ہے۔

 

3۔آدمی میں پائی جانے والی صفات بد جیسے کہ غصہ، حسد، لالچ وغیرہ بھی۔

 

دروج نسوش جدید زرتشیت میں بیماریاں اور ان کے نہ ختم ہونے والے جراثیموں کے لیے بولا جاتا

 

ہے۔ اسی طرح دیویانسی کی اصطلاح کئی خداؤں اور بتوں کی پرستش کے حوالے سے بولی جاتی ہے۔دیویانسی بنیادی طور پر عقائد باطلہ اور توہمات پر مشتمل ہے جو عقائد صحیحہ اور تقدیس و تعظیم کے حقیقی تصور کے برعکس ہو۔

دیویانسیاں کئی اقسام کی ہیں۔

1۔ مظاہر فطرت مثلاً گرج، چمک، طوفان، پتھر، درخت اور جانوروں کی بوجہ خوف پوجا۔فرضی خداؤں کی پوجا، اس تصور کے ساتھ کہ وہ آسمان، سورج، چاند، ہوا، آگ، پانی، انکی تصاویر بنانا اور معبدوں میں نصب کرنا[15]ڈاکٹر ڈرسٹیٹر[16]زرتشت مت کےمشہورناقداوراوستہ و ویندیداد کے مشہور مفسر گزرے ہیں دروج کے تصور پر ویندیداد کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔"ناپاکی یا دروج کے انسان میں داخلہ کا بنیادی سبب موت ہے۔کیونکہ موت شر کی فتح سمجھا جاتا ہے آدمی مرتا ہے تو روح فورا جسم سے نکل جاتی ہے اب دروج ناسو یعنی ناپاک روح فورا جہنم سے نکل کر مردہ جسم میں آداخل ہوتی ہے اور جو کوئی بھی اس جسم کو چھوئے گا ناپاک ہو جائے گا۔دروج مردہ جسم سے سگ دید کے زریعے نکالی جاتی ہے۔یعنی ایک ایسے کتے کی روئیت سے جو چار آنکھوں والا یا پھر سفید کتا ہو اور پیلے کانوں والا ہو۔جونہی یہ کتا میت کے قریب آتا ہے تو دروج اڑتی ہوئی واپس جہنم میں جا داخل ہوتی ہے۔ اس عقیدہ کی رو سے دروج مکھی کی شکل میں اہرمن کے نام پر لا کر میت کے قریب چھوڑی جاتی ہے تاکہ وہ اس پر قابض ہو جائے"۔[17]

 

تصور مزدیانسی: : (Mazdayansi)

مزدیانسی اس عقیدہ کا واشگاف اور برملا اظہار ہے کہ خدائے مطلق، قادر مطلق آہورامزدا واحد خالق کائنات، مدبرکائنات اور محافظ کائنات ہے جو ابدی قوانین اس کائنات میں جاری کیے ہوئے ہے۔آہورا مزدا کی تعلیمات کی سب سے اول سماعت کرنے والاگیومرد (Gayomard) تھا، جوپشدادی نظم حکومت کا پہلا خود مختار حکمران تھا جو قدیم ایران کا حاکم تھا۔اس نے آہورا مزدا کے احکامات کو سماعت کیا اور مزدا یانسی مذہب کوقبول کیا۔گیومرد کے بعد مزدیانسی مذہب کو قبول کرنے والے حکمرانوں میں ہوسانگ، طہورث، جمشید، فریدون، منوچہر، کیقباد، کیکاؤس، کیل ہوراسپ اور مقدس روحانی پیشوا ہوم اس عقیدہ پر ایمان لاکر تبلیغ و اشاعت کرتے رہے اور دیویانسیوں کی مزاحمتی قوتوں کا سامنا کرتے رہے۔آخری و حتمی پیشوا جس نے مزدیانسیت کو تقویت فراہم کی وہ زرتشت ہے جنہوں نے مزدیانسیت کے قدم مضبوط کیے اور انکی تعلیمات دیویانسیت (باطل نظریات) کے خلاف زور دار دھچکا ثابت ہوئیں۔[18] لہذ یہ کہا جا سکتا ہے کہ زرتشت عقیدہ مزدیانسیت کا بانی نہیں بلکہ اہم ترین پیغمبر شمار کیا جاتا ہے۔

 

آشا (Asha) :

زرتشت مت میں آشا بنیادی طور پر کائنات کے نظام فطرت میں اس نظم و ترتیب کا نام ہے جسکے تحت کائنات کا نظام درست طریقے سے جاری و ساری ہے۔مثلاً سورج کا طلوع و غروب، چاند کا گھٹنا بڑھنا، دن و رات کا آنا جانا اور دیگر موسمیاتی سائیکل۔== ==زرتشت ازم کے معروف ماہر پروفیسر مان جی ڈھلہ [19]نے یاسنا کے حوالے سے آشا کی وضاحت یوں کی ہے: "زرتشت آہورا مزدا کو آشا کا باپ کہتے ہیں جس نے آشا کو اپنی دانشمندی سے تخلیق کیا۔آشا آہورا مزدا کی اکلوتی خواہش و آرزو ہے جو اسکی تنظیم ساز بھی ہے اور وہ آہورا مزدا اور واہو مانا کے ساتھ ایک ہی قالب میں رہتی ہے جسکو ایک صفت اعلی واہشتہ عطا کی گئی ہے جسکے معنی بہترین کے ہیں۔آشا ایک مرکزی کردار ہے جو گاتھا وں میں مرکوز ہےقدیم ایرانی پہلوی زبان میں اسے Arta یا Arita (ارتا، اریتا) کہا جاتا تھاجو کہ ویدوں میں رتا کے طور پر ملتا ہے۔دوسرے لفظوں میں آشا آہورا مزدا کی عظمت و راستی کا نام ہے جس سے نظام زندگی جاری و ساری ہے۔"[20]

 

اسی طرح یاسنا کے باب44 میں یہ بات اس طرح مذکور ہےکہ: "آہورا مزدا سے زرتشت پوچھتے ہیں کہ آشا کا باپ کون ہے ۔؟کائنات پر حکمرانی کرنے والا قالب کہ جس نے سورج چاند ستاروں کا نظام مقرر کر رکھا ہے۔؟زمین کو گرنے سے کون تھا مے ہوئے ہے۔پانی پتوں ہواوں بادلوں کو حسن ترتیب سے کون چلا رہا ہے تو آہورا مزدا بتاتے ہیں کہ یہ سب نظم اس (آہورامزدا) کی عظمت سے بذریعہ آشا جاری و ساری ہے"۔[21]مزید یہ کہ زرتشت بھی بذریعہ آشا مدد کے طلب گار

 

نظر آتے ہیں حتی کہ آہورا مزدا دو جہانوں میں لوگوں کو بذریعہ آشا ہی انعام و اکرام سے نوازے گا۔[22]

 

آشوئی: : (Ashoi

آشوئی بنیادی طور پرآشاکےقوانین کاروزمرہ زندگی میں مرئی اظہار کا نام ہے۔آشوئی نیکی و خیر پر مبنی تمام قوانین کا نام ہے مگر اسے بالخصوص طہارت و پاگیزگی کے تصور سے منسلک کیا جاتا ہے جیسے جسمانی و روحانی طہارت ۔ڈاکٹر جارج فٹ[23] کی فاضلانہ رائے کے مطابق: "زرتشیت بنیادی طور پر طہارت و پاکیزگی پر بہت زور دیتی ہے یہ آدمی کی پیدائش سے ہی لازم ہےبلکہ طہارت کو ہی مزدیانسی مذہب کہا جاتا ہے کیونکہ جسمانی، فکری ماحولیاتی طہارت ہی روح کو بلند وپاکیزہ بناتی ہے، جسم کی ظاہری صفائی کیساتھ غذا کا مکمل وعمدہ ہونا اورعادات وطور طریقوں کا بھی بہت پاک ہونا شامل ہے۔جبکہ روح کی طہارت یہ ہے کہ انسان لالچ، غصہ، جذباتیت، غرور حسد کےجذبات سےمکمل مجتنب رہے، یہ6صفات بالعموم روح کی دشمن خیال کی جاتی ہیں۔طہارت و پاکیزگی کی رسومات میں پادیاب اوربرشنوم حصول طہارت کی اعلیٰ ترین رسومات ہیں"۔[24]

 

یاسنا کے مطالعہ سے آشی یا اشوئی کا ایسا تقدس اور مقدر ہونا مذکور ہے جو اہل ایمان کو انعام کی صورت میں بہشت میں داخل کرتے ہوئے عطا کیا جائیگا، گویا زرتشتی معادیاتEschatology) ) میں آشی اہل جنت کے لیے انعام و اکرام کی ایک صورت بھی ہے۔[25]

 

زرتشت مذہب کی بنیادی ترین تعلیم:

1: ہوماتا (Humata) حسن فکر2: ہوکھاتاHukhta) (حسن کلام

 

3: ہوراشتہ (Hvarashta) حسن اعمال۔ اعمال صالحہ

 

زرتشتی مذہب کے مطابق اہم ترین حسن فکر ہے اس لیے کہ فکر کا اظہار کلام سے اور پھر کلام کا اظہار اعمال سے ہوتاہے۔زرتشت کو خوش کرنے کے لیےبنیادی چیز اعمال صالحہ ہیں۔[26]

 

مذہب زرتشت انسان سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ایک زرتشتی کو ہاتھ پاؤں، ذہن و

 

فکر کو مستعد اور تیار رکھنا چاہیے اعمال صالحہ کی صحیح اور بروقت ادائیگی، نماز کی بہترین قسم یہ ہے کہ جو آدمی کو جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر بالکل ٹھیک رکھے۔اور آدمی اپنی طاقت و بساط کی حد تک اپنے گردوپیش کو بھی اس نہج پر رکھنے کی کوشش کرے۔نماز کی حقیقی صورت یہ ہے کہ انسان اسے پوری لگن، خلوص دل اور گہری روحانی فکر کی تسکین کے ساتھ ادا کرے جسکا حصول دل ودماغ اور نفس کا سکون و اعتماد جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرے۔

 

==طریقت: (Tariqat) ==اسی طرح طریقت ایک اصطلاح ہےجوعربوں سےزرتشتیوں نے مستعار لی جس سے مراد روز مرہ زندگی کا مذہبی تعلیمات سے باہم جڑا ہوا ہونا۔طریقت انسان کو جسم و دماغ پر کنٹرول کرنے اور زندگی منظم بنانے اور اپنے اعلیٰ ترین تصورات کو ذہن و دماغ پر اسی طرح منقش کرنے پر معاون ہوتی ہے۔ جیسے لوہار کی ہتھوڑی لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ زرتشتیوں اہم طریقتیں یہ ہیں:

 

1: آشم واہو کی تلاوت کرنا صبح اٹھنے کے بعد۔2: جسم کے کھلے حصوں کو دھونا۔

 

3: کستی باندھتے یا کھولتے وقت دعا پڑھنا۔4: کھانا کھانے اوقات میں خاموش رہنا۔

 

5: حوائج ضروریہ کے وقت مختصر دعاؤں کا ورد۔6: خدا کے لیے اضافی وقت کھانا۔

 

طریقت کے انداز و اطوار حقیقی مذہبی اور اخلاقی زندگی کیلئےمشعل راہ کا کام دیتے ہیں۔[27] زرتشیت میں انسان خدا کی معجزانہ اور بے مثل مخلوق قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ وہ سوچ، سمجھ کی صلاحیتوں اور اپنی اعلیٰ مہارتوں کے باعث اسکی تمام مخلوقات پر حکمرانی کا اہل ہے۔

 

موت و بہشت کے مراحل: (Dyana)

زرتشتیت کے عقیدہ کے مطابق نیک آدمی کی روح چوتھے روز ایک خوبصورت اور کنواری لڑکی کی صورت کا سامنا کرتی ہے جس کو اوستہ میں ڈاینا یا ڈیانا کہا گیا ہےجس کی سانسوں سے بھی مہک کی لپٹیں آرہی ہوں گی اور اس شخص کو پل انتخاب کی طرف

 

رہنمائی کرے گی اور پار کرائے گی۔جبکہ ایک گناہگار وبدکار کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہو گا۔[28]

 

چنیواٹ کا پل (Chin vat bridge

: چنیواٹ کا پل ہی اصل میں انتخاب کا پل ہے جو کسی لوہے یا لکڑی سے تعمیر نہیں کیا گیا بلکہ اس سے گزرتے ہوے جنت تک پہنچنا ہے یا پھر جہنم میں گرنا ہے۔بہشت کے چار مراتب بیان کیے گیے ہیں۔ہوماتایعنی ستارے کا گھر۔ہوکھاتایعنی چاند کا مرکز۔ہوراشتہ یعنی سورج کا مقام۔انگراراو چاو یعنی لامحدود روشنی یا نغمات کا گھر۔

 

جس شخص کی نیکیاں برائیوں سےکم ہو گئیں اسکا مقام دوزخ ہے اسکے بھی چار مراتب ہیں: دشمتا (Dushmata) ۔دوزختا (Duzukhta) ۔دزوراشتا (Duzvarashta) ۔ اناگراہ تماہ (Anagra temah) لا محدود تاریکی اور جسکی نیکیاں برائیاں برابر ہوئیں اسے ہمستگاں (Hamistagan) نامی مقا م پر ٹھہرایا جائے گا جہاں نہ خوشی ہو گی نہ غم"۔[29]

 

رستاخیز: (Ristakhez) :

رستاخیر کا معنی مردوں کا جی اٹھنا ہے زرتشت مت کے مطابق ایک وقت آئے گا جب ساوشیانت کی مدد سے بعث اموات ہوگا۔ساوشیانت اس مذہب میں ایک روحانی عظیم پیشوا ہے جسکا ظہور آخری ایام میں ہو گا وہی انسانیت کا آخری نجات دہندہ قرار پائے گا اور نیکو کاروں کو آخری محاسبہ کے بعد لافانیت کی زندگی عطا کی جائے گی۔[30]

 

فراش گاد۔ (Frashgad

فراش گاد کے معنی عمل تجدید کے ہیں زرتشت مت ایک ایسے وقت کی پیشگویئ کرتا ہے جب یہ دنیا مکمل طور پر نئی بنا دی جایگی۔ اس نئی دنیا میں فنا زوال اور تباہی نہ ہو 

 

گی بلکہ اپنی اصل کے اعتبا ر سے بالکل نئی، مسلسل رہنے والی، مائل بہ تجدید ہو گی۔[31]

 

==تن پاسن (Tan-i-Pasan==) : نئی دنیا اور نئی حیات میں تجدید کا آخری عظیم مرحلہ جس پر انسانیت کو موت، بڑھاپے اور بیماری سے بالکل مبرا کر دیا جائگا اسی مرحلہ کو تن پاسن یا آخری جسمانی حالت کہا جاتا ہے۔[32]

 

==محرمات سے نکاح: Next kin Marriage==زرتشت مت کے زوال کے بنیادی اسباب میں سےایک حیران کن اور غیر فطری تصورمحرمات سے نکاح ہے جسے نا صرف مستحسن بلکہ بے حد فائدہ مند اورخیر و پاکیزگی کےحصول کا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔ساسانی ادوار کے اواخر اور اسلام کی آمد کے وقت نکاح کی یہ عمومی صورت مستعمل تھی۔پہلوی زبان میں اس کیلئے دو اصطلاحات عام طور پر استعمال ہوتی ہیں ۔ایک خیوتک داس (khevtuk-das) جبکہ دوسری Xwedodah) ) ہےدونوں کے مفاہیم سے عموما یہی مرادلیا جاتا ہے ۔گویٹے نشاط اپنی شہرت یافتہ تصنیف women in Iran میں اس کی توضیح یوں کرتی ہے: ’’ساسانی مذاہب کے متون میں اسکی تفہیم یوں ملتی ہے کہ والدین یا ورثاءحقیقی سے نکاح۔ڈین کارٹ جو گاتھاوں کی بنیاد پراخروی ساسانی ایام اورابتدائی اسلامی ادوار میں مرتب ہوئی اس میں زرتشت کا عمل یوں مذکور ہے کہ اس نے اپنی بیٹی پوروکاسٹ سے نکاح کر رکھا تھا جس نے زرتشت کی وفات کے بعد گماسپ سے شادی کر لی مگر ابتدائی متون اور گاتھایئں تو صرف اسی قدر بتاتی ہیں کہ زرتشت نے اپنی بیٹی گماسپ سے ہی بیاہی تھی۔مذہبی پیشواؤوں نے اس نکاح کی یہ کہتے ہوئےحوصلہ افزائی کی کہ تخلیق کا عمل اسی سےمستحکم ہوتا ہے۔ جب گیو مرد (Geomard) زرتشتی روایات کے مطابق زمین پر انسان اول اترا اور اسکا مادہ تخلیق جونہی زمین پرگرا تو ایک مرد اور ایک عورت نے جنم لیا جو کہ بہن بھائی تھے جن سے تمام انسانیت نے اب تک جنم لیا ۔پارسی پیشوا خاندان کے اندر ہی شادی پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے نکاح سے بھر پور طاقت و قوت کے حامل مرد اور اعلیٰ صفات کی حامل عورتیں جنم لیتی ہیں اور ایسے جوڑے بکثرت بچے جننے کے اہل ہوتے ہیں اور اسی صورت میں ہی ایک نسل خالص اور پاکیزہ رہ سکتی ہے"۔[33]

 

انسایکلوپیڈیا ایرانیکا کا مقالہ نگار اس موضوع پربحث کرتے ہوئے اس تصور نکاح کی تمام ممکنہ تعبیرات بیان کرتاہے، زرتشت مت میں وسطی ایران کےپہلوی متون میں موجودXwedodah) ) کی اصطلاح ایسے ازدواجی جوڑوں کیلئےمستعمل تھی جس سے مراد باپ اور بیٹی کا نکاح، ماں کابیٹے سے، بھائی کابہن سے، اسی کوNext kin marriageاورClose kin marriageکہا جاتا ہے اور اسے اعلیٰ پاکیزگی کےحصول کےاعمال میں سےایک گردانا جاتاہےجبکہ اوستہ میں موجود اصطلاح میں اسکا یہی حتمی مفہوم ہر گز واضح نہیں جہاں تکXwedodah کی روایت کا تعلق ہے تو اسکا وجود ساسانی دور ایران میں یا اس سے پہلے شاہی خاندانوں یا شرفاء میں بالعموم پایا جاتا تھا جبکہ ساسانی ادوار کے بعد اس سے مراد اندرون خاندان نکاح مراد لیا جاتا تھا یعنی کزن میرج ۔ جیسا کہ زرتشت مت کے مشہور عالم اور مصنف ڈرمسٹیٹرنے لکھا ہے کہ ایک پارسی کے لیے یہ بہت ہی دشوار تھا کہ وہ خاندان سے باہر نکاح کرے وہ مزید لکھتا ہے کہ 1800 اور 1900 کے درمیان لکھی جانے والی معروف اور مستند کتب کے تاریخی حوالہ جات ایسے کسی بھی صریح نکاح کی خبر زیادہ تر نہیں دیتے بلکہ بہت قلیل مستند مصنفین نے اس سے محرمات سے نکاح مراد لیا ہےجہاں تک محرمات سے نکاح کی اس صورت کو زرتشت مت کی مذہبی روایات کے تناظرمیں دیکھا جائے تواسکے کئی صریحا شواہد ملتے ہیں۔

 

زروان ازم (Zarwanism) پارسیوں میں ایک پایا جانے والا ایک مسلک ہے جو تخلیق کے نظریات عموما پیش کرتا ہے جس کے مطابق آہورا مزدا کااپنی ماں سے ازدواجی تعلق قائم کرنا ملتا ہے جس سے سورج، کتے، سور گدھے اور دیگر کئی جانوروں نے جنم لیا عرب روایات میں ایک شامی

 

مسیحی عرب ابو قرۃ کا تذکرہ ملتا ہے جس نے اپنی ایک تصنیف مجوس میں یوں لکھا ہے:

 

"کہ کہا جاتا ہے کہ زروان (تخلیق کائنات کا اصلی اور حقیقی ذمہ دار و وجود مختار) جو ایک بیوی رکھتا تھا نے شیطان کے کہنے پر آہورا مزدا نے اپنی ماں سے نکاح کاحکم دیا جس نےسورج کو جنم دیا اور پھر چاند کو اپنی بہن سے ازدواجی تعلق کے بعد جنم دیا جس سے انسانیت کے لیے وہ اسے شاندار رول ماڈل بنانا چاہتا تھا۔ پہلوی روایات کے مطابق نکاح کے تین انداز یہ تھے۔باپ اور بیٹی کا ۔جیسے کہ آہورا مزدا اور سپینڈر میڈا نے گیومرد کا جنم دیا اور دوسرا بیٹے اور ماں کا جس سے بہن اور بھائی پیدا ہوں جیسا کہ سپینڈر میڈا اور گیومرد نے ماسی اور ماسیانی کو جنم دیا اور تیسرا بہن اور بھائی کا تعلق جن سے کئی بہنوں اور بھائیوں نے جنم لیا۔آہورا مزدا نے یہ تینوں انداز زرتشت کو وضاحت کرتے ہوئے بتلائےاور اس کے کثیر فوائد زکر کئےاور یہ بھی کہ یہ عمل مذہب کے تمام اعمال میں افضل ہےلہذا جب خود زرتشت پیدا ہوا اس نے ان تمام احوال کی وضاحت خود اپنے فعل اور عمل سے پیش کر کے بتائی ا ور انسانیت کے لیے عمدہ نمونہ پیش کیا"۔[34]

 

زرتشت مت کی رسومات اور اعتقادات کے طائرانہ جائزہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دیگر انبیا ءسابقین کی مبنی بر حقیقت روشن تعلیمات کی مانند زرتشت کی تعلیمات و رسومات مرور زمانہ کے ساتھ گہنا گئیں مجوسیت کے گرد دیو مالائی، عجیب وغریب اور مافوق الفطرت عناصر کا ایک طومار ہے تعلیمات زرتشت اور مقدس کتب کا معاملہ بھی اس حد تک خلط ملط ہوا کہ ایک محقق کے لئے یہ معلوم کرنا سخت ترین اور دشوار امر ہے کہ آیا زند اوستہ کوئی الگ مقدس مصحف ہے یا اوستہ کی تفسیر۔پروہتوں اور دستور جیوں کی تفاسیر کامتون سے اسقدر اختلاط ہوا کہ کہ کچھ بھی بالتصریح کہنا بعید از قیاس ہے۔زرتشت کے نام کے تلفظ، زمانہ وعرصہ تبلیغ مقام پیدایش اور زمانہ پیدایش سب اسقدر مختلف فیہ ہے کہ کئی محققین اسی وجہ سے زرتشت کو کوئی واہمہ ہی قرار دیتے ہیں اور معاملات نکاح میں زرتشت مت کے کئی پیروکاراسکی تاویلات اور تشریحات کرتے ہوئے اس سے کزن میرج مراد لیتے ہیں نہ کہ محرمات سے نکاح۔مگر زرتشت آہورا مزدا اور زروان کے اعمال کے سامنے بے بس ہیں اورکوئی بھی ٹھوس جواب دینے سے قاصر ہیں۔

 

محرمات ابدیہ سے نکاح اسلامی اور دیگر الہامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے اور اللہ کی حدود کو صریحا پامال کرنے مترادف ہے۔ قرٓن مجید نے اسے پوری صراحت سے بیان فرمایاہے:

 

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا[35]

 

"تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور جن ماؤں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جنہوں نے تمہاری گود میں پرورش پائی ہے ان بیویو ں کی لڑکیاں جن سے تمہار تعلق زن و شو ہو چکاہے اور اگر تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو تم پر اس نکاح میں کچھ گناہ نہیں اور تمہارے بیٹو ں کی عورتیں جو تمہاری پشت سے ہیں یہ سب عورتیں تم پر حرام ہیں اور دو بہنوں کو (ایک نکاح میں) اکھٹا کرنا حرام ہے مگر جو پہلے ہو چکا بے شک الله بخشنے والا مہربان ہے۔"

 

اس آیت مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے معروف سکالر جاوید احمد غامدے لکھتے ہیں۔"ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھانجی اور بھتیجی، یہی وہ سات رشتے ہیں جن کی قرابت اپنے اندر فی الواقع اس نوعیت کا تقدس رکھتی ہے کہ اس میں جنسی رغبت کا شائبہ بھی ہو تو اسے فطرت صالحہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتی ۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ تقدس ہی درحقیقت تمدن کی بنیاد، تہذیب کی روح اور خاندان کی تشکیل کے لیے رأفت و رحمت کے بے لوث جذبات کا منبع ہے ۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ماں کے لیے بیٹے، بیٹی کے لیے باپ، بہن کے لیے بھائی، پھوپھی کے لیے بھتیجے، خالہ کے لیے بھانجے، بھانجی کے لیے ماموں اور بھتیجی کے لیے چچا کی نگاہ جنس و شہوت کی ہر آلائش سے پاک رہے اور عقل شہادت دیتی ہے کہ ان رشتوں میں اس نوعیت کا علاقہ شرف انسانی کا ہادم اور شرم و حیا کے اس پاکیزہ

 

احساس کے بالکل منافی ہے جو انسانوں اور جانوروں میں وجہ امتیاز ہے "[36]

 

اسلام اس مسئلے میں اتنا حساس ہے کہ جس طرح نسب سے نکاح کو حرام قرار دیا اسی طرح رضاعت سے بھی نکاح کو حرام قرار دیاہے۔ اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے؛

 

یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ== ==[37]

 

ہر وہ رشتہ جو ولادت کے تعلق سے حرام ہے، رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے ۔

 

زرتشت کا خدا آہورا مزدا اولا ایک بڑے محور اور دائرہ میں مضبوط ومجسم صورت میں آسمانوں پرظاہر ہوا۔جسکا جسم روشنی و عظمت آنکھیں چاند وسورج ہیں۔ جونہی یہ مذہب پیغمبروں سے نکل کر سیاستدانوں کے ہاتھوں آیا تو یہی عظیم المرتبت خداخدائے واحد کی بجائے کئی معاون دیوئیوں اور دیوتاوں کے ساتھ ظاہر ہوا جو قوت کے مختلف مظاہر سے منسوب ہوئیں۔ مثلا پانی سورج ہوا بارش آگ اور چاند وغیرہ مگر یہ زرتشت کی زبردست کامیابی تھی کی اس نے ان تمام مظاہر پر خدا کو واحد حاکم اور مختار کل قوت کے طور پر لوگوں میں متعارف کروایا جسکا تزکرہ وہ خود اپنی گاتھاوں میں کرتا ہے۔ زرتشت مت میں اسقدر اختلاف، روایات میں تنوع اور تغیر پر نقد اور تبصرہ ول ڈیورانٹ نے کیا ہے جو کہ علم الملل اور تہذیب کے مشہور عالم ہیں۔لکھتے ہیں۔

 

“This I ask thee, tell me truly, O. Ahura Mazda. Who determined the paths of moon and sun and stars? Who is it by whom moon wakes and wane………………… who, from below, sustained the earth and firmament from falling-who sustained the waters and plants-who yoked swiftness with the winds and clouds-who, Ahura Mazda, called forth the Good Mind”. [38]

 

’’تو یہی وہ حقیقت ہے جسکے آشکار کئے جانے کا میں تم سے سوال کرتا ہوں اے آہورا مزدا۔ وہ کون ہے کہ جس نے سورج چاند ستاروں کےمدارومحورمقررکیے؟ کس کے امروحکم سے چاند روشن و منور ہوتا ہے اور زائل ہوتا ہے؟کون ہے جس نے زمین کو مستحکم کیا اور گرنے سے روکے رکھا ہے ؟پانی اور نباتات کو استحکام و دوام کون بخشتا ہے ؟تیز و تند بادلوں اور ہواوں کو کون کھینچ لاتا ہے؟کون ہے وہ آہورا مزدا کون ہے؟۔۔۔وہی تو ہے جو دانش کل ہے۔‘‘

 

زرتشت نے تو گویا صفات خدا سات متعین کیں جو کہ روشنی۔ذہن کل، کامل، مختار کل، رحیم و کریم، اعلیٰ ذات اور لافانیت ہیں۔اسکے پیروکاروں نے ان سات صفات کو سات ارواح قرار دے دیا جو اسکے ساتھ ملکر نظام فطرت چلاتی تھیں اور اس طرح یہ لوگ شرک کے مرتکب ہوئے۔اس طرح گویا زرتشت مت کئی ان گنت خرابیوں کا مرقع بن گیا ۔صحیح، خالص اور حقیقی تعلیمات کو انسانی آویزشوں سے محفوظ نہ رکھا جا سکا بالکل اسی طرح کی جیسے دیگر انبیا کی تعلیمات کو اپنی زاتی مقاصد اور فوائد کی خاطر مذہبی اجارہ دار ہر دور میں تبدیل کرتے آئے۔ لہذا اللہ کی آخریالہامی اور سچی کتاب قرآن مجید نے زرتشت ازم کے تصور ثنویت (دو خداوں کا تصور) پر یوں نقد کیا ہے۔

 

لوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ [39]

 

"اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں الله کے سوا اور معبود ہوتے تو دونوں خراب ہو جاتے سو الله عرش کا مالک ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔"

 

جبکہ رسول اللہﷺ نے دین اسلام کو ہی دین فطرت قرار دیا کہ بچہ پیدا ہوتے وقت مسلمان پیدا ہوتا اس کے والدین ان اور ماحول اسے کسی دوسرے مذہب پر ڈال دیتا ہے۔

 

مَامِنْ مَوْلُودٍ إِلَّايُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ[40]

 

"رسول اللہﷺ نےفرمایا؛ ہر بچہ اپنی فطرت (توحید) پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین (بیرونی عوامل) اسے یہودی، نصرانی اور مجوسے (زرتشت) بنا دیتا ہے"۔

 

بے شک اسلام ہی دین فطرت ہے. تھوڑی سی تحقیق کریں تو پتا چلتا ہے کہ فطرت کا لفظ

 

سب سے پہلے قرآن نے ہی استعمال کیا ہے۔فطرت کے ایک بنیادی تقاضا تربیت بھی ہے کہ انسانوں کی تربیت اس طور پر کی جائے کہ انسانی تخلیق کا جومقصدہ یعنی خالق کی مکمل اطاعت وہ پوراہوجائےاس کیلئےانبیاء ورسل آتےرہےاورانسانوں کواصل یعنی فطرت کی طرف بلاتے رہے۔تمام خدائی مذاہب میں توحید، رسالت، آخرت، عبادات، اخلاقیات، معاملات کےساتھ ساتھ حیا، باوقار لباس اور محرمات کا احترام ہمیشہ مسلم رہا ہے۔

 

نتائج البحث:

زرتشت مت کے جائزہ ومطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے مذہب زرتشت کی بہت سی باتیں اسلامی اصول و ضوابط سے مماثل ہیں جیسا کہ عمل و کردار کی طہارت و پاکیزگی پر اصرار ۔پندار گفتار اورکردار کی نیکی کا خوبصورت اصول بلاشبہ اسلام کےاعلی اصول اخلاقیات سے شاندار موافقت رکھتا ہے اگرچہ ان اصولوں کے اطلاق کی کئی غیر مناسب اور ناقابل عمل صورتوںکا معاملہ بھی اسی طرح ہے جیسا کہ دیگر انبیا کی تعلیمات میں تبدیلی اور تحریف کا ہے ۔جیسا کہ اوپر مذکور ہے کہ پاکیزہ اور صالح اولاد کا حصول ان کے ہاں نکاح سے ممکن ہے پاکیزگی کا مقرر کردہ یہ معیار خود ساختہ اور دنیا کے کسی بھی اصول اخلاقیات سے متصادم ہے۔زرتشت مت کی تعلیمات میں اس قدر اضطراب کا باعث بلاشبہ اس مذہب کے قرون اخریٰ کے متبعین ہی ہیں جو بدلتے ہوئے حالات کے باعث مذ ہب میں ترامیم کے مرتکب ہوتے رہے۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب ذرتشت اپنے اندر بے شمار خوبیاں سموئے ہوے ہیں مگر اس کے ماننے والوں نے مرور زمانہ کے ساتھ اس میں بے شمار تحریفات کر لئے ہیں جس سے اس کا اصل حسن اور اخلاق ماند پڑھ گیا ہے۔لہذا انسانیت کے اخلاقی اصلاح و تربیت کے لئے اسلام کے اعلی اخلاقی اقدار کو اپنانا ہو گا جو کہ الہامی اور نا قابل تبدیل ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. توران مین میڈیا: ماضی کا ماوراء النہر جو صدیوں وسیع تر ’’خراسان‘‘ یا ’’توران‘‘ میں شامل رہا۔ ان دنوں ازبکستان، تاجکستان، قازاقستان، کرغیزستان وغیرہ میں بٹا ہوا ہے جبکہ آمو دریا کے ساتھ ساتھ ماوراء النہر کا کچھ علاقہ ترکمانستان میں شامل ہے۔ یہ تقسیم روسیوں نے یہاں اپنے استعماری دور (1864ء تا 1991 ء) میں کی تھی۔
  2. William Jackson (ed.) J. Jāmāspāsa, A Short Treatise on the Navjot Ceremony: Compiled into English from the Original Zoroastrian Scriptures) Columbia University Press: 1928) , 27.
  3. Modi, Jivanji Jamshedji, The Religious Ceremonies and Customs of the Parsees (Bombay: British India Press, 2nd ed. , 1937) , 33.
  4. J. K. Choksy and F. M. Kotwal, "KUSTĪG, "  Encyclopedia Iranica, online edition, 2014, available at http: //www. iranicaonline. org/articles/kustig (accessed; 10/3/2018.
  5. ارواد موتافرم رتن شاہ (Ervad Ratansha, Motafram) ایک مشہور سکالر ہیں جو زرتشیت پر کئی کتب اور آرٹیکلز کے مصنف ہیں انکی مشہور زمانہ کتاب (A History of Ancient Iran) ممبئی سے شائع ہو چکی ہے.
  6. Ervad Ratansha, Motafram, 200 Short question and answer on Zoroastrianism (Bombay: Trustees of Pārsi Punchāyet Funds, 1984) , 54.
  7. S. A. Nigosian, The Zoroastrian faith. Tradition and Modern research) Montreal: McGill queens University Press, 1993) , 77, 79.
  8. Rose Jenny, Zoroastrianism: An introduction. (London: IB Tauris Publication, 2010) , 251.
  9. میری بوائس: اس کی کتاب تین جلدیں لندن سے شائع ہو چکی ہے۔زرتشت مت پرسب سے پہلا ضخیم ترین کام کرنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ہیں، زرتشت مت میں معتبر سمجھی جاتی ہیں ۔یونیورسٹی آف لندن میں ایرانیئن سٹڈیز کی پروفیسر ہیں۔
  10. M. Boyce, A History of Zoroastrianism, Vol. I, 2nd ed. (London: Leiden University Press, 1989) ,
  11. صدیقی، مظہرالدین، اسلام اور مذاہب عالم، تقابلی مطالعہ، ادارہ ثقافت اسلامیہ، 2کلب روڈ، لاہور، 1999ء، ص44
  12. H. W. Bailey, Zoroastrian Problems in the Ninth-Century Books) Oxford University Press, 1971) , 67.
  13. Motafram, 200 Short question and answer on Zoroastrianism,. 61.
  14. صدیقی، اسلام اور مذاہب عالم، تقابلی مطالعہ، ص41
  15. Motafram, 200Short question and answer on Zoroastrianism, 54۔
  16. ڈرمسٹیٹر ادیان کے معروف سکالر ہیں، بہت سے کتابوں کے مصنف اور زرتشت کے مشہور ناقد، اوستہ و ویندیداد کےفسر ہیں
  17. The Zand Avesta: Vandidad, (Trans. James Dermastater. Ed. Max Muller) (New York: The Christian literary society, 1898) ,. Part. 1, xxii.
  18. Palsetia, Jess. S. , The Parses of India, Preservation of Identity in Mumbai City (Leiden: J B Brill publishers, 2001) , 338.
  19. ڈاکٹر مان جی ڈھلہ: Higher Priest of Parsies== == (HPP) . نامی انجمن کے صدر رہےاسکے مرکزی دفاتر انڈیا و کراچی میں رہے ہیں۔ وہ زرتشتیوں کے نامور سکالر اور کئی کتب کے مصنف بھی ہیں۔
  20. Dhallah, Mān Jee, History of Zoroastrianism (London: Oxford University Press, 1938) , 68.
  21. Joseph. H Peterson (ed.) , Yasna: Sacred Liturgy and Gathas/Hymns of Zarathustra. (Trans, L. H. Mills) , Chapter. 44. 3; http//avesta. org/yasna/yasna. htm/retrieved; 18/3/18
  22. Ibid. Chapter. 28: 6.
  23. ڈاکٹر جارج فٹ مور، ہاورڈ یونیورسٹی میں ہسٹری آف ریلیجن کے پروفیسر رہے ہیں اسکے علاوہ کئی اہم کتب کے مصنف بھی ہیں
  24. Moor. G. foot. History of Religions (N Y: Scribner’s son, 1922) , 364.
  25. Yasna: Sacred Liturgy and Gathas/Hymns of Zarathustra. Chapter. 44: 3.
  26. Eastburn, Gerardo. The Esoteric codex; https: //books. google. com. pk/books?id=NqJs/19/3/18
  27. Motafram, 200Short question and answer on Zoroastrianism, 89.
  28. Doshabha, Frāmjī, History of Parsis (London: MacMillan، 1884) ,: 179.
  29. The Zend Avesta (The Vendidad) , Part I, p. 93.
  30. https: //www. britannica. com/biography/Zoroaster-Iranian-prophet/; 20/3/18.
  31. Parvin Nasiruddin, Rastakhiz; http: //www. iranicaonline. org/articles/rastakhiz. feb. 4, 2011/21/3/18.
  32. [http: //www. iranicaonline. org/articles/frasokrti. jan, 31 http: //www. iranicaonline. org/articles/frasokrti. jan, 31], 2012/ 21/3/18.
  33. Guity, Nashat, Women in Iran from the Rise of Islam to 1800 AD (Chicago: University of Illinois Press, 2003) , 31, 32.
  34. http: //www. iranicaonline. org/articles/marriage-next-of-kin/; 22/3/18.
  35. النسا 24: 4
  36. http: //www. almawrid. org/index. php/articles_urdu/view/qanoon/15/5/18
  37. مالک ابن انس، مؤطا امام مالک، مکتبہ الحدیث، اٹک، 2009ء، رقم الحدیث1291
  38. Durant, will, The story of civilization, Our Oriental Heritage (New York: Simon and Schuster, 1942) , Part: 1: 366.
  39. 21: 22 الانبیا
  40. القشيری، مسلم بن الحجاج، صحيح مسلم، باب معنى كل مولود يولد على الفطرة، 1 (/219) ، إحياء التراث، بيروت، رقم 2658
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...