Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 1 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

سائنس اور روحانیت کی تمثیل: ایک تحقیقی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029185_869

Pages

03-20

DOI

10.51411/rahat.1.2.2017.11

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/11/307

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/11

Subjects

Science Spirituality reality Religion Islam

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مذہب اِسلام اور سائنس کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہیں ہے۔ جدیدسائنسی اِنکشافات و تحقیقات کلی طور پر اِسلام کی بنیادی صداقتوں کی آئینہ دار ہیں۔ جدید ترقی یافتہ اِنسان کے پاس ’’حقیقت‘‘ کے اِدراک کے لئے سائنسی طریقِ کار ایک ایسا معتبر و مستند ذریعہ ہے جو عقلی اِستدلال اور مشاہدۂ حقائق کی بنیاد پر کوئی نظریہ قائم کرتا اور نتائج اَخذ کرتا ہے، جنہیں مسلسل تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ سائنس کا مطالعہ معروضی حالات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ سائنس اور مذہب کی حدود اور دائرۂ کار بالکل جدا جدا ہیں۔ سائنس صرف عالمِ اَسباب کا اِحاطہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اُسے عالمِ اَسباب کے علاوہ کسی اور شئے سے سروکار نہیں، جبکہ مذہب مابعد الطبیعاتی حقائق اور اُخروی زندگی جیسے اُمور کو زیر بحث لاتا ہے۔ چونکہ اِن دونوں کا دائرۂ کار قطعی مختلف ہے لہٰذا سائنس اور مذہب میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی باہمی ٹکراؤ اور تضاد ممکن نہیں۔ دوسری طرف جدید سائنس کے بارے میں نہایت وُثوق سےکہاجاسکتاہے کہ سائنس کے میدان میں ہونے والی ہر پیش رفت اِس حقیقت کو بے نقاب کرتی نظر آتی ہے کہ اِس کائنات کی بنیاد مادّی نہیں بلکہ رُوحانی ہے۔ جدید سائنس ایٹمی توانائی کی دریافت کے بعد ایک بہت بڑے سربستہ راز سے پردہ اُٹھا چکی ہے۔ وہ یہ کہ کائنات کے ہر ننھے ذرّے کے اندر توانائی کا ایک بیش بہا خزانہ چھپا ہوا ہے، جس سے کائنات میں محیر العقول کارنامے سراِنجام دیئے جاسکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی مساوات E = mc2 کی گتھیاں سلجھانے کے بعد اب سائنس پر فطرت کا یہ راز بے نقاب ہوچکا ہے کہ مادّے کو پوری طرح توانائی میں بدلناممکن ہے۔البرٹ آئن سٹائن نے 1905ء میں اپنےمقالہ"متحرک اجسام کی برقی حرکیات پر"(‏On the ‎‎Electro-dynamics of Moving Bodies‏) میں خصوصی نظریۂ اضافیت کو متعارف ‏کروایا۔آئن سٹائن نے مادے کی کمیت (mass) یعنی m کی تباہی سے پیدا ہونے والی توانائی E کو ریاضیاتی مساوات E=mc2  کے مطابق بتایا ہے۔ چنانچہ کمیت m اگر گراموں میں لی جائے تو توانائی E ارگ (Erg) میں اور روشنی c 300000 کلومیٹر فی سیکنڈ لی جائے تو ایک گرام مادے کے فنا ہونے سے حاصل ہونے والی توانائی کی مقدار حسب ذیل ہوگی[1]۔

30000000000 X 30000000000 = 9x1020 Erg = 9X1013 J
= 25000000 Kw-hr

توانائی کی یہ مقدار اس قدر کثیر ہےکہ اگر آپ کے گھر کا بجلی کا ماہانہ بل 100 یونٹ ہو تو بجلی کہ یہ مقدار آپ کے لیے 20 ہزار سالوں کے لیے کافی ہو گی!۔ذرا سوچئے ! کی اس قدر کثیر مقدار کو اگر ایک لمحہ یا اس سے بھی کم مدت میں خارج کر دیا جائے تو وہ بے قابو ہو کر کس قدر تباہی مچا سکتی ہے۔ ایٹم بم میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ ایٹم بم کی بجائے ہائیڈروجن بم کی صورت میں چونکہ تباہ ہونے والے مادے کی کمیت mass زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس سے خارج ہونے والی توانائی اور نتیجے میں تباہ کاری بھی کئی گناہ زیادہ ہوتی ہے۔

یوں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں اور یہ کہنا کہ دونوں میں نباہ نہیں ہوسکتا خود دقیانوسی سوچ اور خام خیالی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جہاں سائنس کلی طور پر مادّی زندگی کے مظاہر سےمتعلق ہے اور اُسے رُوحانی زِندگی سے کوئی سروکار نہیں، وہاں مذہب اوّل تا آخر رُوحانی زِندگی سے بحث کرتا ہے اور اس کا اِطلاق مادّی زندگی پر کر کے اِنسان کی دُنیوی و اُخروی زِندگی کو بہتر بنانے کی کامل صلاحیت رکھتا ہے۔

دورِ حاضر کا معیارِ علم:

موجودہ دور مادّی ترقی کے عروج کا دور ہے۔ سائنس اِس مادّی دُنیا کا سب سے بڑا علمی معیار ہے۔ اِس دور میں ہر بات کو سائنسی پیمانے پر پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ فقط اُسی چیز کو حق مانا جاتا ہے جو سائنسی پیمانوں پر کماحقہ پورا اُتر رہی ہو اور جو چیز سائنسی کسوٹی پر پورا نہ اُترے اُسے محض تصوّر و تخیل اور توہمات پرستی تصوّر کرتے ہوئے ردّ کر دیا جاتا ہے، جبکہ جدید سائنسی تحقیقات کی بدولت اِسلامی تعلیمات کی روز اَفزوں تائید و توثیق میسر آ رہی ہے۔بدقسمتی سے اُمتِ مسلمہ بالعموم مادّہ پرستی کے چُنگل میں پھنس کر رُوحانی زِندگی سے دُور ہٹتی چلی جا رہی ہے۔ اِسلام کو بھی مادّہ پرستی کا لِبادہ پہنایا جارہا ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بالعموم مادّیت زدگی، فکری اِفلاس، اِبہام اور تشکیک کا شکار ہے۔ اُس کی نظر میں وہی چیز درُست اور مبنی برحق ہے جسے سائنس تسلیم کرے۔ کم علمی اور بنیادی اِسلامی تعلیمات سے نا واقفیت کی بناء پر وہ مذہبی عقائد کو بھی ڈھکوسلا سمجھتا ہےجبکہ درحقیقت یہ خود دورِ جدید کے علم سے کلیتاً نابلد ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس خود رفتہ رفتہ حضور ﷺکے معجزات کو سچا ثابت کرتی چلی جارہی ہے۔

مِقناطیسیت سے تمثیل روحانیت:

جدیدمادّی ترقی کے اِس دور میں مقناطیس پر بہت کام ہورہا ہے اِس ضمن میں Super

Electro Magnetismکے حوالے سے سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ مقناطیسیت وہ قوت ہے جس سے کوئی مقناطیس اپنے دائرۂ اثر کے اندر واقع چیزوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہر مقناطیس میں ایک خاص مقناطیسی قوت (Magnetic Force) ہوتی ہے، جس کا اثر ایک خاص فاصلے (Range) تک ہوتا ہے۔ جتنا طاقتور کوئی مقناطیس ہوگا اتنا زیادہ فاصلے تک اُس کا دائرۂ اثر ہوگا۔ اِسے اُس مقناطیس کا حلقۂ اثر (Magnetic Field) کہتے ہیں۔ ہماری زمین فی نفسہ ایک بڑا مقناطیس ہے، جس کی مقناطیسی قوت کا دائرۂ کار 80,000 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس کے مقابلے میں مشتری (Jupiter) جو نظامِ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت زمین سے بھی اڑھائی لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ جو جِرمِ فلکی (ستارہ یا سیارہ) جتنی زیادہ کمیّت پر مشتمل ہوگا، اُس کا دائرۂ کشش بھی اُسی قدر وسیع ہوگا۔ ہر صاحبِ علم پر یہ حقیقت واضح ہے کہ زمین جوایک بڑامقناطیس ہے،اُسکی مقناطیسی قوّت اُسکےقطبین (Poles)سے پیدا ہوتی ہے، جو شمالی اور جنوبی پول (North & South Poles) کہلاتے ہیں۔ کششِ ثقل کے اِن اثرات کو قطب نما (Compass) کی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اُسے جونہی زمین پر رکھا جاتا ہے، اُس کی سوئیوں کا رُخ شمالاً جنوباً گھوم جاتا ہے۔جب Compassکے مقابلے میں عام سوئیاں زمین پر رکھیں تو وہ جوں کی توں پڑی رہتی ہیں اور اُن کا رُخ شمالاً جنوباً نہیں پھرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Compass کی سوئی کو شمالاً جنوباً کس قوّت نے پھیرا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ مقناطیسی سوئی جس کی نسبت زمینی قطب (Pole) کے ساتھ ہوگئی وہ عام سوئی نہیں رہی بلکہ قطب نما بن گئی اِسی نسبت کے اثر نے اُس کی سمت قطبین کی طرف پھیر دی. ==

رُوحانی کائنات کا مِقناطیسی نظام:

رُوحانیت کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والے مادّیت زدہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ایک ولی ہزاروں میل کی مسافت سے اپنے مرید کو اپنی توجہ سے فیضاب کردے؟ اِتنی دور سے ایسا کیونکر ممکن ہے؟ کم علمی کے باعث پیدا ہونے والے اِن شکوک و شبہات کا جواب بالکل سادہ ہے کہ وہ قدیر و علیم ذات جس نے زمین اور مشتری جیسے سیارگانِ فلک کو وہ مقناطیسی قوّت عطا کر رکھی ہے، جو ہزاروں لاکھوں میلوں کے فاصلے پر خلاء میں اُڑتے ہوئے کسی شہابیئے (Meteorite) پر اثر انداز ہو کر اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اُوپر گرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیا وہ قادرِ مطلق ذات مادّی حقیقتوں کو رُوحانی حقیقتوں سے بدلنے پر قادِر نہیں؟ اِس حقیقت کا اِدراک وُہی کرسکتا ہے جس کا دِل بصیرتِ قلبی اور نورِ باطنی سے بہرہ ور ہو۔مادّیت زدہ لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ اُن کے دِل عام سوئی کی طرح ہیں جو کسی رُوحانی قطب سے منسلک نہ ہونے کے باعث اُس ایزد اَفروز نور سے محروم ہیں، جس کے بارے میں قرآن نے : لَا شَرَقِيَّةَ وَ لَا غَرَبِيَّةَ[2]  کہا، کیونکہ اُس کے نور کی حدیں شرق و غرب سے ماوراء ہیں۔ رُوحانی کائنات کا قطبِ اعظم صرف ایک ہے اور وہ گنبدِ خضرا میں مقیم ہے۔ زمین کے شمالی اور جنوبی دو پول ہیں، جن کی نسبت سے قطب نما کی سوئی شمالاً و جنوباً رُخ اِختیار کرلیتی ہے، جبکہ فرش سے عرش تک رُوحانی کائنات کا قطب گنبدِ خضرا کا مکین ہے۔ جس طرح عام سوئیوں کی نسبت زمین کے قطبین سے ہوجائے تو وہ عام سوئیاں نہیں رہتیں بلکہ خاص ہوجاتی ہیں، جو ظاہری واسطہ کے بغیر جہاں بھی ہوں خود بخود اپنی سمتیں شمالاً جنوباً درُست کرلیتی ہیں، بالکل اِسی طرح ایک مؤمن کا دِل بھی ہر آن مکینِ گنبدِ خضراء کی توجہاتِ کرم کی طرف مائل رہتا ہے۔ جن دلوں کی نسبت گنبدِ خضراء سے ہوجائے وہ عام نہیں رہتے بلکہ خاص دل بن جاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلۂ فیض منقطع ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے دِل کی سوئی خراب ہے اور اُس کا رابطہ اپنے رُوحانی قطب سے کٹ گیا ہے، کیونکہ یہ فیضان تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اِس وسیع و عریض مادّی کائنات میں اپنے اپنے مداروں میں تیرنے والے تمام تر سیاروں اور ستاروں کے ہمیشہ دو دو پول ہوتے ہیں، جن سے اُ ن کی مِقناطیسی لہریں نکل کر اُن کی فضا میں بکھرتی اور بیرونی عناصرکے لئے اپنی طرف کشش پیدا کرتی ہیں جبکہ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پھیلی ہوئی اِس ساری رُوحانی کائنات کا پول فقط ایک ہی ہے اور وہ ہماری ہی زمین پر واقع سرزمینِ مدینہ منورہ میں ہے۔ یہ نظامِ وحدت کی کارفرمائی ہے کہ جس دِل کی سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہوگئی وہ کبھی بھی بے سمت و بے ربط نہ رہے گا۔ آج بھی تاجدارِ کائنات ﷺکی مقناطیسی توجہ ہر صاحبِ ایمان کو اُسی طرح سمت (Direction) دے رہی ہے جیسے زمینی مقناطیس کے دونوں پول کسی قطب نما کی سوئی کو شمال و جنوب کی مخصوص سمت دیتے ہیں۔

شیخ اور مرید میں فرق کی تمثیل:

مِقناطیس بنانے کے دو طریقے ہیں، جن سے عام طور پر لوہے کو مِقنایا جاتا ہے :

1۔ مِقناطیس بنانے کا پہلا اور دیرپا طریقہ الیکٹرک چارج میتھڈ (Electric Charge Method) کہلاتا ہےاِس طریقے کی رُو سے لوہے کے ایک ٹکڑے میں سے برقی رَو (Electric Current) گزاری جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں جو مقناطیس بنتے ہیں اُنہیں[3] Electric Charged Magnetsیعنی برقی چارج کئے گئے مقناطیس کہتے ہیں۔یہ مقناطیس اس آیۂ کریمہ کا مِصداق ہیں جس میں اللہ تعالی کا اِرشاد ہے:

الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه[4]۔

ترجمہ: جو لوگ صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔

اﷲتعالیٰ نے اُن بندوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ صبح و شام اپنے مولا کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ اُن میں محنت، مجاہدہ اور تزکیہ کی بجلی گزاری جاتی ہے تو رُوحانی طور پر چارج ہوجاتے ہیں۔

2۔ مِقناطیس بنانے کا دُوسرا طریقہ سٹروک میتھڈ (Stroke Method) کہلاتا ہے۔ اِس کےمطابق لوہےکےٹکڑےکوکسی مقناطیس کےساتھ رگڑاجاتاہےتواُس میں مقناطیسیت (Magnetism) منتقل ہوجاتی ہے اور لوہے کا وہ ٹکڑا بھی اِس رگڑ اور معیت سے مِقناطیس بن کر لوہے کی عام اشیاء کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتا ہے۔رُوحانی مقناطیسیت کی دُنیا میں دُوسرے طریقے کے ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو مجاہدۂ نفس، محنت اور تزکیہ و تصفیہ کے اِعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ اِس قدر ریاضت نہیں کرسکتے مگر اُن کے اندر یہ تڑپ ضرور ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے قلب و باطن کو کثافت اور رذائل سے پاک و صاف کر کے رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں۔اسی سلسلے میں ارشاد خداوندی ہے کہ:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ[5].

ترجمہ:تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھ۔

اِس آیتِ مبارکہ میں اُن طالبانِ حق کا ذِکر کیا گیا ہے جو اللہ والوں کی محبت اور معیت اختیار کر کے اپنے اندر للہیت، حق پرستی اور خدا پرستی کا جوہر پیدا کرلیتے ہیں۔ سٹروک میتھڈ والے وَاصْبِرْ نَفْسَکَ [6]کےمِصداق ہوتےہیں۔مُریددوسرےطریقے (Stroke Method) سے رُوحانی مقناطیسیت لیتا ہےاورشیخ پہلےطریقے (Electric Charge Method) سے مقناطیس بنتا ہے۔

اِیصالِ حرارت و رُوحانیت:

سٹروک میتھڈ کی مثال اِیصالِ مقناطیسیت کے ضمن میں اِیصالِ حرارت کی سی ہے۔ جیسے کسی مُوصِل شے کو آگ میں تپایا جائے تو وہ خود بھی گرم ہو جاتی ہے اور اپنی حرارت کو آگے بھی منتقل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لوہا ایک اچھا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت کے اِیصال کی خاصیّت رکھتا ہے جبکہ لکڑی غیرمُوصِل ہے جو آگ میں جل کر راکھ تو ہوجاتی ہے مگر اِیصالِ حرارت کی صفت ہے محروم ہے۔جس طرح لوہا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت منتقل کرنے کی خاصیت سے بہرہ ور ہے اور جب تک اُسے حرارت ملتی رہے اِیصال کا عمل جاری رکھتا ہے، بالکل اُسی طرح وہ اَولیائے کرام جو فیضانِ نبوت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، وہ اِس فیضان کو آگے عامۃ الناس تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ فیضانِ نبوت کے منتقل کرنے والے اِس طریقِ کار کو رُوحانی دنیا میں سلسلہ کہتے ہیں اور یہ سلسلہ اُن اَولیائے کرام سے چلتا ہے جو گنبدِ خضراء کے مکیں سے رُوحانیت کا Magnetism لیتے اور آگے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اُن سے جاری ہونے والا چشمۂ فیض کبھی خشک نہیں ہوتا۔

جدید سائنسی دریافت اور نظام برقیات سے ایک تمثیل:

موجودہ سائنسی دنیا میں بہت سی چیزیں سپر الیکٹرو میتھڈ(Super Electro Method) کے نظام کے تحت چل رہی ہیں، جس کے تحت ایک کوائل (Coil) پر اِتنی توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک اُس کی ساری برقی مزاحمت (Electrical Resistance) ختم کردی جاتی ہے۔ صوفیاء کی زبان میں اِسے تزکیہ کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا :قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔[7]

"بے شک وہی بامُراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہوں کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیا".

تزکیہ کیا ہے؟

برقیات کی اِصطلاح میں :

یہ بجلی چارج کرنے کے خلاف تمام تر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔

صوفیاء کی اِصطلاح میں :

یہ نفس کی کدُورتوں، رذائل اور اُس مزاحمت کو دور کرنا ہے جو قربِ الٰہی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔

برقیات کے حوالے سے ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت میں کسی بھی کوائل (Coil) کو اِس قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ اُس کا درجۂ حرارت 269o سینٹی گریڈ پر چلا جاتا ہے۔ اِس طرح جو الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) حاصل ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ کرنٹ اپنےاندر سما سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا اَوسط درجۂ حرارت محض 15o سینٹی گریڈ جبکہ پوری کائنات کا درجۂ حرارت 270o سینٹی گریڈ ہے۔

اِسی تمثیل پر صوفیائے کرام مجاہدہ و محاسبۂ نفس کے ذریعے اپنے اندر سے غصہ، حسد، بغض، غرور، تکبر اور نفس کی دیگر جملہ کثافتوں کو جو حصولِ فیض کی راہ میں مانع ہوتی ہیں، اپنے نفس کو خوب ٹھنڈا کر کے بالکل نکال دیتے ہیں تآنکہ وہ سراپا یوں نظر آنے لگتے ہیں :

وَ الْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ.[8]

ترجمہ:اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے.

جس طرح Super Electro Magnet مادّ ی کثافتوں کے دُور ہونے سے چارج ہوتا ہے اور اُس سے مادّی دُنیا میں کرامتیں صادِر ہونے لگتی ہیں، بالکل اِسی طرح اولیاء کا نفس کثافتوں اور رذائل و کدُورت سے پاک ہوکر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رسالت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے قابل بن جاتا ہے اور پھر وہ جدھر نگاہ اُٹھاتے ہیں کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ اِس قلبِ ماہیت سے اولیاء کے دل مُوصِل مِقناطیس (Conducting Magnet) بن جاتے ہیں۔جب اُس الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) کو ایک خاص پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو وہ Super Conducting Magnet بن جاتا ہے۔ اِسے این ایم آر یعنی Nuclear Magnetic Resonant کے پروسیس سے گزارتے ہیں۔ مریض کو جب اُس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اُس کے بدن کے اندر کی تمام چیزوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ گویا جسم کا پردہ تو قائم رہتا ہے مگر مِقناطیسیت کی وجہ سے Scanner کے ذریعے وہ چیزیں جو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی سب آشکار کردی جاتی ہیں۔سو وہ لوگ جنہوں نے تزکیہ و تصفیہ کی راہ اِختیار کی، اُن پر سے بصورتِ کشف پردے اُٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ کشف سے توجہ کرتے ہیں تو ہزارہا میل تک اُن کی نگاہ کام کرتی ہے اور وہ چیزیں جو مغیبات میں سے ہیں اور عام طور پر ننگی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوتیں، اُن پراللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور ارادہ سے آشکار کردی جاتی ہیں۔

رُوحانی مِقناطیسیت کے کمالات:

یہ تزکیہ و تصفیہ کے طریق سے حاصل ہونے والی اُسی رُوحانی مِقناطیسیت کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ اُس وقت مسلمانوں کے دُوسرے خلیفہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے :يَا سَارِیَ الْجَبَل) [9]اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے(۔

یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ نہ آپ کے پاس راڈار تھا اور نہ ہی ٹی وی کا کوئی ڈائریکٹ چینل، ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس وائرلیس سیٹ تھا، نہ موبائل فون،کہ جس سے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ رُوحانی مِقناطیسی قوّت تھی، اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔فیضانِ نبوی اور فیضانِ صحابہ ہی کی خوشہ چینی کی بدولت اولیاء اللہ عبادت، زُہد و ورع، اِتباعِ سنت، تقویٰ و طہارت، پابندئ شریعت، اَحکامِ طریقت کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کے ذریعے اپنے قلب و باطن کا تزکیہ و تصفیہ کر کے زِندگی سرورِ انبیاء ﷺکے عشق و محبت اور اِتباع میں گزار کر اپنے اندر ’’رُوحانی مقناطیسیت‘‘پیدا کرلیتے ہیں۔

مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل ویلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں، اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہ مادّی ترقی کا اعزاز ہے، جس نے ہمیں آلات کی مدد سے اِس اَوجِ ثریا تک لا پہنچایا ہے، لیکن قربان جائیں سرورِ دوعالم ﷺکے غلاموں کے تصرّفات پر جو فقط اپنی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل کو پا چکے تھے۔

تزکیہ و ریاضت سے حیات بخشی تک:

مِقناطیس (Magnet) ایک پروسیس کے ذریعے اِس قابل بن جاتے ہیں کہ اُن سے بجلی پیدا ہونے لگتی ہے، جو حرارت اور روشنی پیدا کرنے کا مُوجب ہے۔ اور جب یہ بجلی حرکی توانائی (Mechanical Energy) میں منتقل ہوتی ہے تو چیزوں کی ہیئت بدلنے لگتی ہے اور مُردہ جسم حرکت کرنے لگتے ہیں۔ اِس کی مثال وہ کھلونے ہیں، جن کو بیٹری سے چارج کیے جائیں تو وہ متحرّک ہوجاتی ہیں اور مختلف ریکارڈ شدہ آوازیں بھی نکالتی ہیں۔ ایسا کھلونا اُس وقت تک متحرّک رہتا ہے جب تک اُسے بیٹری سیل سے چارج ملتا رہتا ہے اور یوں مادّی کائنات میں بیٹری سیل کا نظام مُردہ اَجسام کو زندگی اور حرکت دیتا ہے۔ اِسی طرح رُوحانی دُنیا میں بھی جب اولیائے کرام کی رُوحانیت اپنے تکمیلی پروسیس سے گزرتی ہے تو جس مُردہ دِل پر اُن کی نظر پڑتی ہے وہ زِندہ ہو جاتا ہے۔ وہ مُردہ لوگ جو صحبتِ اولیاء سے فیضیاب ہو کر زِندہ ہوجاتے ہیں، اُن کے دل اور روحیں حیاتِ نو سے مستفیض ہوجاتی ہیں۔ اِس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے، جب’’مجمع البحرین‘‘پرجو حضرت خضرعلیہ السلام کی قیام گاہ تھی،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ناشتہ دان میں سے مُردہ مچھلی زِندہ ہوکر پانی میں کود جاتی ہے۔ یہ واقعہ اِس اَمر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضر علیہ السلام کا مسکن تھا، اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مُردہ اَجسام کو اُس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ قرآنِ مجید میں اِس واقعہ کا ذِکر یوں آیا ہے :

فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنَهُمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَه‘ فِی الْبَحْرِ سَرَباً۔[10]

ترجمہ:سو جب وہ دونوں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی (وہیں) بھول گئے، پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زِندہ ہو کر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔

یوں اَولیاء اللہ کا وُجودِ مسعود حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے اور وہ مُردوں میں زِندگیاں بانٹنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش ؒکے لئے فرمایا :

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خداناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما[11]

بجلی کا نظام ترسیل اور اَولیاء اللہ کے سلاسل:

اولیاء اﷲ کے سلاسل دُنیا بھر میں موجود بجلی کے نظامِ ترسیل ہی کی مِثل ہوتے ہیں۔ اَب یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ کوئی کس حد تک فیض لے سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں بجلی ڈائریکٹ ڈیم سے لوں گا تو کیا ایسا ممکن ہے! دُنیا میں بجلی کی ترسیل کا ایک نظام ہے، اُس کے لئے اپنے سلاسل ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ ایک طے شدہ نظام کے مطابق بجلی ڈیم سے پاور ہاؤس ، پاور ہاؤس سے پاورسٹیشن اور ٹرانسفارمر تک اور وہاں سے مقررہ اندازے کے مطابق گھر میں آتی ہے۔ ٹرانسفارمر سے کنکشن لینے کے بعد ہم گھروں میں سٹیبلائزر (Stabilizer)اور فیوز (Fuse)بھی لگاتے ہیں تاکہ ہمارے گھریلو حساس برقی آلات کہیں جل نہ جائیں۔ ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں کا برقی سسٹم اِتنا مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا کہ زیادہ وولٹیج کا متحمل ہوسکے۔ اِسی نظام کو سلسلہ کہتے ہیں۔

اِس مادّی عالم کی طرح عالمِ رُوحانیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرش سے عرش تک اِس ارضی و سماوی کائنات میں ایک واحد رُوحانی ڈیم بنایا ہے، جس سے رحمت کا فیض ساری کائنات میں مختلف سلاسل کے نظام کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ رحمت و رُوحانیت کا وہ ڈیم آقائے نامدار ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے اور اُس فیضانِ رسالت کو تقسیم کرنے کے لئے اولیاء اللہ کے وسیع و عریض سلاسل ہیں، جنہیں Power Distribution Systems یعنی رُوحانی بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام کہتے ہیں۔ یہی اولیائے کرام مخلوقِ خداوندی میں بقدرِ ظرف فیض تقسیم کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت یونہی جاری و ساری رہے گا۔اولیائے کرام نے چونکہ سخت محنت، ریاضت اور مجاہدے سے نسبتِ محمدی کو مضبوط سے مضبوط تر بنالیا ہے اِس لئے وہ براہِ راست وہیں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ ہر شخص کا ظرف اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ڈائریکٹ اُس ڈیم سے فیض حاصل کر سکے۔ عام افرادِ دُنیا کے لئے وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ [12] کا درس ہے کہ وہ اُن اللہ والوں کی صحبت اِختیار کر لیں اور اپنے آپ کو اُن سے پیوستہ اور وابستہ رکھیں تو اُنہیں بھی فیض نصیب ہوجائے گا۔سلاسلِ طریقت کا یہ نظام ایک سلسلۂ نور ہے، جو تمام عالمِ اِنسانیت کو ربّ لا یزال کی رحمت سے سیراب کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکار، عقل کا اِنکار، شعور کا اِنکار

اور ربّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا اِنکار ہے۔

قلبی سکرین کی تمثیل:

آج کے اِس دورِ فتن میں ہمارے دِلوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور اُن پر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رِسالت کا نزول بند ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مطلقاً وُجودِ فیض ہی کا اِنکار کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو ایک ٹی وی سکرین کی مثل بنایا ہے، جس پر رُوحانی چینل سے نشریات کا آنا بند ہوگیا ہے اور ہم غفلت میں کہتے پھرتے ہیں کہ چینل نے کام کرنا بند کردیا ہے۔ نہیں! چینل پر نشریات تو اُسی طرح جاری ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی سیٹ میں کوئی خرابی آگئی ہے اور جب تک اِس خرابی کو دُور نہیں کیا جائے گا، نشریات سنائی اور دِکھائی نہیں دیں گی۔ جس طرح ٹی وی کے لئے اسٹیشن سے رابطہ بحال ہو تو سکرین پر تصویر بھی دِکھائی دیتی ہے اور آواز بھی سنائی دیتی ہے اور اگر یہ رابطہ کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو پھر آواز سنائی دیتی ہے اور نہ تصویر دِکھائی دیتی ہے۔ اِسی طرح سرورِ کائنات ﷺکی رحمۃ للعالمین اور فیضانِ نبوت کا سلسلہ بلا اِنقطاع جاری و ساری ہے، یہ ہمارے قلب کی سوئی ہے جو رابطہ بحال نہ ہونے کے باعث اُس اسٹیشن کو نہیں پارہی جہاں سے رُوحانی نشریات دِن رات نشر ہو رہی ہیں۔ آج بھی یہ رابطہ بحال ہوجائے تو یہ فیضان ہم تک بلا روک پہنچ سکتا ہے۔اولیائے کرام کا تعلق اپنے آقا و مولا ﷺسے کبھی نہیں ٹوٹتا اور اُن کی قلبی سکرین ہمہ وقت گنبدِ خضراء کی نشریات سے بہرہ یاب رہتی ہے۔ حضرت ابو العباس مرصی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں،وہ فرماتے ہیں :لوحجب عنی رسول اﷲ ﷺطرفة عين ما عددتُ نفسی من  المُسلمين.[13]

ترجمہ:اگر ایک لمحہ کے لیے بھی چہرہ مصطفیٰ ﷺمیرے سامنے نہ رہے تو میں اس

لمحے خود کو مسلمان نہیں سمجھتا۔

اللہ کے بندوں کےقلب کی سوئی گنبدِ خضراء کے چینل (Channel) پر لگی رہتی ہے اور اُن کا رابطہ کسی لمحہ بھی اپنے آقا کی بارگاہ سے نہیں ٹوٹتا، اِس لئے وہ تکتے بھی رہتے ہیں اور سنتے بھی رہتے ہیں۔

ذاتِ مصطفیٰ ﷺ منبعِ فیوضیاتِ اِلٰہیہ:

آقائے دوجہاں ﷺاپنی رحمۃ للعالمینی کی بناء پر اِس کائناتِ آب و گل کے مقناطیسِ اعظم ہیں، جنہیں بارگاہِ اُلوہیت سے بہ مثل ’’الیکٹرک چارج میتھڈ‘‘ اور ’’سٹروک میتھڈ‘‘ دونوں ذرائع سے فیض ملا ہے۔ غارِ حراء کی خلوتوں نے تاجدارِ کائنات ﷺکو پوری نسلِ اِنسانی کا محسن و ہادئ اعظم بنا دیا۔ جن کے دم قدم سے دنیائے شرق و غرب ایک قوم، ایک قرآن اور ایک حکومتِ الٰہیہ کے نظم میں پرو دی گئی۔ اُس فیضانِ اُلوہیت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ ﷺفرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق دیدار عطا کیا اور اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا۔ اُس کی بدولت میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک محسوس کی، پھر اِس کے بعد میرے سامنے سے سارے پردے اُٹھا دیئے گئے اور آسمان و زمین کی ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی۔ فیضِ اُلوہیت کا یہ عالم تو زمین پر تھا، اُس فیض کا عالم کیا ہوگا جو ’’قَابَ قَوْسَيْن‘‘ کے مقا م پر آپ ﷺکے درجات کی بلندی کا باعث بنا اور پھر آپ کو ’’أَوْ أَدْنٰی‘‘ کا قربِ اُلوہیت عطا ہوا۔ جس کے بعد زمان و مکاں اور لا مکاں کے تمام فاصلے مٹ گئے اور محب و محبوب میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی[14] کے الفاظ سے مخلوق کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ دیکھو اپنا عقیدہ درست رکھنا۔ اللہ تعالی کی خالقیت اور معبودیت اپنی جگہ برحق ہے اور محمد ﷺاِتنا قریب ہوکر بھی عبدیت کے مقام پر فائز ہیں۔ یہ فرق روا رکھنا لازم ہے۔فیضِ اُلوہیت کی ساری حدیں اور اِنتہائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوئیں۔ جب تمام فیض آپ ﷺکو عطا کردیئے تو آپ ﷺنے فرمایا :

مَنْ رَأَنِیْ فَقَدْ رَاءَ الْحَق فان الشیطان لا یتکونونی.[15]

ترجمہ:جس نے مجھے دیکھ لیا تحقیق اُس نے برحق مجھے دیکھ لیاکیونکہ شیطان میرے شکل میں نہیں آسکتا۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ حق میں دیدارکی اِلتجاء کی تھی، جس کا جواب اُنہیں جبلِ طور پر تجلیاتِ الٰہیہ کو برداشت نہ کر پانے کی صورت میں ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی اِلتجا کئی بار کی تھی مگر اُن کی یہ دعا اُس وقت تک مؤخر کردی گئی جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کو شبِ معراج پچاس نمازیں دی گئیں اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ ﷺکو بار بار بارگاہِ اُلوہیت میں پلٹ جانے کے لئے عرض کرتے رہے، حتی کہ پانچ نماز رہ گئیں۔ آپ ﷺمحبوبِ حقیقی کے جلوؤں کا مظہرِ اتم ہوکر لوٹتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ ﷺکے دیدارِ فرحت آثار سے شادکام ہوتے۔ یہ عالمِ لاہوتی کا فیض تھا، جبکہ عالمِ ناسوتی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ ارض و سماء کے سب خزانوں کی کنجیاں آپ ﷺکو تھما دی گئیں اور آپ ﷺتمام فیوضاتِ الٰہیہ کے قاسم بن گئے۔ جس طرح آپ ﷺفیضانِ اُلوہیت کے قاسم ہیں اُسی طرح اولیاء اﷲ فیضانِ رسالت کے قاسم ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اِرشاد ہوتا ہے :

أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ.[16]

بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اُسے (ہدایت کی بدولت) زِندہ کیا اور ہم نے اُس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے۔

حوالہ جات

  1. Einstein speaking about the equation E=mc 2   From the soundtrack of the film Atomic Physics Copyright © J. Arthur Rank Organization, Ltd., 1948
  2. النور35:24
  3. James Clerk Maxwell (1891) A Treatise on Electricity and Magnetism, pp. 32–33, Dover Publications Inc.
  4. الکہف 18 : 28
  5. الکہف 18 : 28
  6. ایضاً
  7. الاعلیٰ 87 : 14
  8. آل عمران 3 : 134
  9. البرہانپوری،علاؤالدین علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال،دارالکتب العربی، بیروت، کتاب الفضائل ،باب فضائل عمر الفاروق، ج12،ص571
  10. الکہف 18 : 61
  11. ہجویری،ابوالحسن سیدعلی،مترجم:مفتی غلام معین الدین نعیمی،کشف المحجوب،نوری بک ڈپو،لاہور، 1975ء،ص22
  12. الکہف 18 : 28
  13. آلوسی، ابوالفضل سید محمود، رُوح المعانی ،دار احیاء التراث العربی،بیروت،ج 22 ،ص 36
  14. النجم9:53
  15. البخاری،ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح للبخاری، قدیمی کتب خانہ ، کراچی،کتاب التعبیر، باب من رای النبی فی المنام، ج2،ص1036
  16. الانعام، 6 : 122
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...