Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

سیاسی اضطرابی صورتحال کا جائزہ اور اس کا حل: سیرۃ نبویﷺ کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد دوقومی نظریہ پر ہے۔مسلمانان پاک وہند ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ ایک ایسی مملکت معرض وجود میں آئے جہاں مسلمان اسلام کی تہذیب وثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں ۔پاک دھرتی سرسید کے خوابوں کی پھلواڑی، پاک اجالوں کی وارث، قائد اعظم کے درد کی امین، اقبال کا وطن، خوشحال خان کی زمین، بولانیوں کی دھن اور مہرانیوں کے فن کی آئینہ دار ہے۔پاکستان اسلام کا قلعہ ہے[1]۔

 

عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلا م نےاے مسلمان آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ[2]

 

اسلامی نظریاتی مملکت:

مملکت مدینہ کا قیام جو ابتدائی طور پر صرف ایک منظم سوسایٹی کی تشکیل تک محدود تھا دراصل مکہ کے تیرہ سالہ تربیتی انقلاب کا منطقی نتیجہ اور مرہون منت تھا اس لیے ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک منظم اور مہذب سوسائٹی اور اسٹیٹ کے لیے افراد کی اخلاقی تعلیم و تربیت اور روحانی پاکیزگی (تزکیہ نفس) بنیادی ضرورت (Pre-requisite) ہیں۔

 

اخلاقی تعلیم و تربیت اور روحانی پاکیزگی کا لازمی نتیجہ افراد ریاست کی اخوت اور مساوات ہے سے ایک بلند نصب العین کے ذریعے ریاست کے استحکام کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ وہ بلند نصب العین اپنے رب کی رضا ہے۔ جو دل میں پیدا ہو جائے تو دشمن کی بھی دوست بنانے میں دیر نہیں لگتی۔ یاد کیجئے اس وقت کو۔۔۔’’جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے‘‘[3]۔

 

جب یہ جماعت ِمؤمنین پے درپے تکالیف و مصائب سے گزر کر ہجرت کے کٹھن مرحلے سے بھی سرخرو ہو کر مدینہ میں قیام پذیر ہوئی تو انہوں نے اپنے کچھ رہنما اصول بھی متعین کر لیے۔ انہی اصولوں پر کاربند ہونے کا نتیجہ تھا کہ وہ ریاست جو صرف مدینہ منورہ کے کچھ حصے تک محدود تھی ایک قلیل مدت میں جزیرہ نمائے عرب سے بڑھ کر عراق، ایران، اور دشام و مصر تک وسیع ہوگئی اور مدینہ منورہ اس ریاست کا در الخلافہ قرار پایا۔استحکام ریاست کے لیے وضع کیے گئے اصولوں کا خاکہ حسب ذیل تھا۔

 

۱۔ کتاب و سنت کی برتری، ۲۔ امن و امان کا قیام، ۳۔ بلالحاظ عدل و انصاف کی فراہمی، ۴۔ بنیادی انسانی حقوق کی یکساں فراہمی، ۵۔ عمال حکومت کا ذمہ دارانہ رویہ، ۶۔ شورائی جمہوریت، ۷۔ اطاعت امیر، ۸۔ اقتدار کی طلب رکھنے والا خائن ہے، ۹۔ ریاست کا بلند نصب العین، ۱۰۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر۔[4]

 

یہاں ان اصولوں کی وضاحت اور تشریح کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی گنجائش ہے ۔تاہم ہر عنوان اپنی تشریح خود کر رہا ہے۔ یہی وہ اصول عشرہ تھے جو استحکام ریاست کی ضمانت تھے۔ معاہدہ مواخات، میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ، سلسلہ غزوات و سرایا اور بالآخر فتح مکہ کو درج بالااصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی طور پر استحکام ریاست کا بنیادی سبب یہی دس اصول تھے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہی اصول اپنا لینے سے استحکام پاکستان ممکن ہے۔ اس کا جواب اگرچہ نفی میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم صرف انہی اصولوں پر ہی کاربند ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ استحکام اور خوشحالی کا خواب پورانہ ہوسکے۔ البتہ چند عصری مسائل بھی توجہ طلب ہیں جن کے بغیر شاید یہ خواب شرمندہ تعبیرنہ درسکے۔[5]

 

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہےاسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے[6]

 

بحیثیت سربراہ مملکت و عظیم سیاسی مدبر و منتظم آپ ﷺ کے اجتماعی کارنامے:

رسول اللہ ﷺ نے اول درجہ کے عامل حکومت کی حیثیت سے انسانی سوسائٹی کی تشکیل جامعہ اسلامیہ کی تنظیم اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جو کارنام انجام دیئے وہ مختصراً اور مستند سے مستند الفاظ میں یہ ہیں ۔ 

 

۱۔حکومت کی ہستی کو متام بے فائدہ نمائشوں، تباہ کن جعلسازیوں اور سرمایہ دارانہ آرائشوں اور آلائشوں سے پاک و صاف کیا ۔ دنیا کے دائرہ میں حکومت کو عوام کی چیز بنایا اور عوام کے اختیار کو اس کے سیاسی مزاج میں داخل کیا۔[7]

 

۲۔حکومت کو ریاست عامہ قرار دیا اور اس کی فطرت میں اس درجہ سادگی کو داخل کیا، جس کی وجہ سے تاج و تخت، قصور و محلات، حاجب و دربان، حشم و خدم، بڑی بڑی تنخواہوں والے حکاّم اور رشوت خور عمال سب ختم ہوگئے ۔ [8]

 

۳۔انصاف کی حقیقت کو نافذ کیا جس سے انصاف کا حصول آسان اور خود انصاف سستا ہوگیا، انصاف

 

کا مقصد کمزور کی حمایت اور فریقینِ مقدمہ کی باہمی صلح اور اصلاح ٹھہرا ناکہ دونوں کے مفاد کی تباہی اور گھروں کی ویرانی۔

 

۴۔آپ نے انسانی حقوق کی مساوات کا اعلان کیا، مناسب محصول عائد کیے اور اس کام کے لیے مالیات کے افسر مقرر اور دفتر مالیات قائم کیے۔

 

۵۔سرکاری روپے کے لیے قانون مقرر کیا کہ امیروں پر ٹیکس لگایا جائے اور غریبوں پر خرچ کردیا جائے ۔

 

۶۔انتظامی حلقے قائم کیے ۔ مدینے کو دارالسلطنت بنایا اطراف کے لیے حکام مقرر کیے، تقرر کا معیار کردار، کام کی اہلیت، علم سے بہرہ مند ہو اور حاکم رائے عامہ کے مطابق مفاد عامہ کے لیے کام کرے

 

۷۔آپ ﷺ نے شوریٰ کو سلطنت کے کاموں کی روح قرار دیا، حکومت کے مزاج میں مرکزیت، قوت اور استحکام پیدا کرنے کے بعد حکم دیا کہ حکومت کے کام شوریٰ سے طے کیے جائیں ۔[9]

 

۸۔آپ ﷺ نے فوجوں کی تنظیم کی اور نو جنگوں اور اٹھارہ دفاعی و اکتشافی حربی مہموں میں حصہ لیا۔ انتالیس عسکری مہموں کو اپنے حکم سے محاذ پر بھیجا اور فوج کے کمانڈر مقرر کیے ۔ جنگ میں انسانیت کے طریقوں کو جاری کیا ۔ فتح میں انسانی خون کی قدروقیمت کی حفاظت کی اور صلح کے وقت معاہدوں کے لیے نیا معیار مقرر کیا۔[10]

 

۹۔بین الاقوامی معاملات کی درستی کے لیے سلاطین، امراء، والیان ریاست کو فرمان لکھے اور سب کو ایک خداکے نام پر جمع ہونے کی دعوت دی ۔ مختصر یہ کہ پیغمبری، سیاست اور حکومت کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس کے لیے آپ ﷺ نے کوئی اصول اور قانون نہ پیش کیا ہو۔ [11]

 

کیااسلام سیاسی ہی ہوتا ہے ؟

علامہ یوسف قرضاوی فرماتے ہیں کہ: ’’ اسلام ہوتا ہی سیاسی ہے، اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اسلام کا سیاست کے بغیر تصور ہی ممکن نہیں ۔ اگر آپ اسلام کو سیاست سے الگ کردیں گے تو آپ اسے کوئی اور مذہب بنادیں گے، بدھ مت یا عیسائیت جیسا ۔ مگر یہ اسلام نہیں ہوگا[12]۔اسلام اور سیاست ایک ایساعنوان ہے جیسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔اگر اسلام سے سیاست کونکال دیاجائے تو اس کا مطلب اسلام کو بے روح کردیاجائے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھاکہ فردکی بنیادتین چیزوں پرہے۔معاشرت، معیشت اور سیاست، فلسفہ سیاست کابنیادی تصور ریاست ہے۔تمام سیاسی خیالات وکردار بلاواسطہ یابالواسطہ اسی سے وابستہ ہیں۔اسلام کا تصور سیاست اس امر کا متقاضی ہے کہ:

 

  • طبقاتِ معاشرہ اور مختلف مذہبی اکائیاں مل کر ایک آئینی ریاست تشکیل دیں۔ یعنی تشکیلِ ریاست اور تدوینِ آئین بنیادی اسلامی احکامات و تصورات میں سے ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حضور اکرم ﷺ کا ریاست مدینہ کی تشکیل اور میثاق مدینہ کی صورت میں ایک آئینی دستاویز کی تیاری ایک قوی ترین اور ناقابل تردید دلیل اور حجت ہے۔

 

  • اسلام نے ریاست کے سربراہ کے تقرر کیلئے اْس ریاست کے شہریوں کی اتفاق یا کثرت رائے کا اصول مقرر کیا ہے۔

 

  • امورِ ریاست آمریت یا شخصی حکومت کے بجائے مشاورت سے چلانے کا ضابطہ مقرر کیا ہے جیسا کہ’’ وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ‘‘[13]کا قرآنی حکم اس باب میں واضح ہے۔

 

  • اسلام نے حکمرانوں اور اہل شوری (ممبران پارلیمنٹ) کے لیے عدل، صدق، امانت، دیانت، علمی و ذہنی قابلیت اور جسمانی صحت کے معیارات مقرر کیے ہیں۔

 

  • طرزِ حکومت اور نظامِ انتخابات کو اسلام نے اجتہادی امور کے طور پرآزادچھوڑ دیا تاکہ ہر دور کے تقاضوں اور معاشرتی رجحانات و میلانات اور معاشرتی صورت کے مطابق اس کی شکل بنائی جاسکے۔

 

  • اسی طرح اسلامی نظام میں حکمران کو اقتدار سے الگ کرنے کا اصل اختیار بھی عوام اور شہریوں کو دیا گیا جس کی بنیاد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مسند خلافت سنبھالنے کے فوراً بعد پہلے خطبے کے یہ الفاظ ہیں: ’اے لوگو مجھے تم پر حکمران مقرر کر دیا گیا ہے حالانکہ میں تم سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھائی کی راہ پر چلوں تو میری مدد کرنا اور اگر برائی کی راہ پر چلوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کر دینا۔ تم میری اس وقت تک اطاعت کرتے رہنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتا رہوں۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نافرمان ہوجاؤں تو تم پر میرے فرمان کی اطاعت قطعاً واجب نہیں۔‘‘[14]

 

  • اسلام میں ریاست کے پارلیمان / مجلس شوریٰ کو آئین سازی و قانون سازی کا مکمل اختیار ہے مگر وہ اِسلام کے بنیادی اصولوں و تصورات سے ہم آہنگ قانون و آئین سازی ہی کرسکتی ہیں یہ اختیار مطلق نہیں بلکہ مشروط ہے۔لہٰذا یہ کہنا کے حکومت کے قیام اور اس کے آئینی قوانین کے حوالے سے دین اسلام کی طرف سے کوئی واضح رہنمائی نہیں یا اس بارے میں مسلمانوں کے کوئی فرائض و وا جبات نہیں، یہ درست مؤقف نہیں۔[15]

 

انبیاء علیہم السلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام مرتب کیا اس کا مرکز و محور، اس کی روح اور اس کا جوہر یہی عقیدہ ہے کہ اور اسی پر اسلام کے نظریہ سیاسی کی بنیاد بھی قائم ہے ۔ اسلامی سیاست کا سنگ بنیاد یہ قاعدہ ہے کہ حکم دینے اور قانون بنانے کے اختیارات تمام انسانوں سے فرداً فرداً اور مجتمعا سلب کرلیے جائیں، کسی شخص کا یہ حق تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ حکم دے اور دوسرے اس کی اطاعت کریں، وہ قانون بنائے اور دوسرے اس کی پابندی کریں ۔ یہ اختیار صرف اللہ کو ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:

 

إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۔[16]

 

ترجمہ: ’’حکم سوائے اللہ کے کسی اور کا نہیں، اس ک فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو، یہ صحیح دین ہے‘‘

 

یَقُولُونَ ہَل لَّنَا مِنَ الأَمْرِ مِن شَیْْءٍ قُلْ إِنَّ الأَمْرَ کُلَّہُ لِلَّہِ ۔[17]

 

ترجمہ: ’’وہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے ؟ کہوکہ اختیارات تو سارے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ‘‘

 

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَلٌ وَہَذَا حَرَامٌ ۔[18]

 

ترجمہ ’’ اپنی زبانوں سے یونہی غلط سلط نہ کہہ دیا کرو، کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ‘‘

 

’’وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ ‘‘ [19]

 

ترجمہ’’: جو اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی دراصل کافر ہیں‘‘

 

اس نظریہ کے مطابق حاکمیت (Sovereignty) صرف اللہ کی ہے ۔ قانون ساز (Law Giver) صرف اللہ ہے ۔ کوئی انسان خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، بذات خود حکم دینے اور منع کرنے کا حق دار نہیں ۔ نبی خود بھی اللہ کے حکم کا پیرو ہے ۔’’ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ ‘‘[20]میں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ عام انسان نبی کی اطاعت پر صرف اس لیے مامور ہے کہ وہ اپنا حکم نہیں بلکہ اللہ کا حکم بیان کرتا ہے ۔

 

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہِ [21]

 

ترجمہ’’: ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن کے تحت اس کی اطاعت کی جائے ۔ ‘‘

 

أُوْلَئکَ الَّذِیْنَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوّ َۃَ [22]

 

ترجمہ’’: یہ نبی وہ ہیں جن کو ہم نے اپنی کتاب دی، حکم سے سرفراز کیا اور نبوت عطا کی ‘‘

 

مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللّہِ وَلَکِن کُونُواْ رَبَّانِیِّیْنَ۔[23]

 

ترجمہ’’: کسی بشر کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکم اور نبوت سے سرفراز کرے اور وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کے بجائے میرے بند ے بن جاؤ، بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ تم ربانی بنو۔ ‘‘

 

پس اسلامی اسٹیٹ کی ابتدائی خصوصیات جو قرآن کی مذکورہ بالا تصریحات سے نکلتی ہیں وہ یہ ہیں ۔

 

1۔ کوئی شخص، خاندان، طبقہ یا گروہ بلکہ اسٹیٹ کی ساری آبادی مل کر بھی حاکمیت کی مالک نہیں ہے، حاکم اصلی صرف اللہ ہے اور باقی سب محض رعیت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

 

2۔ قانون سازی کے اختیارات اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہیں۔سارے مسلمان ملکر بھی نہ اپنےلیے کوئی قانون بناسکتے ہیں اور نہ اللہ کے بنائے ہوئے کسی قانون میں ترمیم کرسکتے ہیں ۔

 

3۔ اسلامی اسٹیٹ بہرحال، اس قانون پر قائم ہوگا جو اللہ کی طرف سے اس کے نبی نے دیا ہے اور اس اسٹیٹ کو چلانے والی گورنمنٹ صرف اس حال میں اور اس حیثیت سے اطاعت کی مستحق ہوگی کہ وہ اللہ کے قانون کو نافذ کرنے والی ہو[24]۔ اسلام کا سیاسی

 

نظام توان روحانی لوگوں کے ذریعے چلایا جائے گا۔

 

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندےجنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

 

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریاسمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

 

شہادت ہے مقصود و مطلوب مومننہ مال غنیمت نہ کشور کشائی[25]

 

دنیا میں حکمت و سلطنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ حتی کہ کتاب اللہ اور نبوت و رسالت کے بعد اسی کا درجہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

 

’’فَقَدْ آتَیْنَا آلَ إِبْرَاہِیْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْْنَاہُم مُّلْکاً عَظِیْماً‘‘[26]

 

ترجمہ’’: سو بے شک ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کو کتاب اور حکمت نبوت بھی دی اور ہم نے ان کو عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی۔‘‘

 

اس آیت میں کتاب اور حکمت (احکام شرعیہ، نبوت اور رسالت وغیرہ) کے بعد حکومت و سلطنت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام کو بڑی بڑی سلطنتیں عطا فرمائی تھیں اسی طرح کچھ بعید نہیں کہ محمد ﷺ اور انکے ساتھیوں کو ان جیسی یا ان سے بھی بڑھ کر سلطنت عطا فرما دے[27]۔ایک اور مقام پر فرمایا:

 

’’ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ ‘‘[28]

 

ترجمہ’’: بلاشبہ زمین کے مالک میرے نیک بندے ہیں۔‘‘

 

لیکن دوسرے مقام پر اس امر کی بھی وضاحت فرمادی کہ یہ سلطنت اور حکومت اگرچہ انسان کو عطا ضرور کی گئی ہے مگر یہ کسی کی ملکیت نہیں، اس کے پاس صرف امانت ہے۔ اس کا مالک حقیقی اور اس کا وارث اصلی صرف اور صرف ایک ذات ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ۔ ارشاد باری ہے:

 

’’إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَیْْہَا وَإِلَیْْنَا یُرْجَعُونَ ‘‘[29]

 

ترجمہ’’: بلاشبہ ہم ہی زمین اور اس پر بسنے والوں کے وارث ہیں اور ہماری ہی جانب ان کو مال کار لوٹنا ہے۔‘‘

 

بعض روایات میں ہے کہ’’ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی۔ ‘‘آج جہاں نظام حکومت کی ابتری نظر آتی ہے۔ وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلقات اور سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظام حکومت برباد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’ جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو ’’اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں‘‘ قیامت کا انتظار کرو‘‘[30]ارشادباری تعالیٰ ہے کہ:

 

’’ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلآی اَھْلِھَا‘‘[31]

 

ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچا دیا کرو‘‘

 

اس حکم کا مخاطب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عام مسلمان ہوں اور یہ بھی احتمال ہے۔ کہ خاص امراء مخاطب ہوں اور زیادہ ظاہر یہ ہے۔ کہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو کسی امانت کا امین ہے۔ اس میں عوام بھی داخل ہیں اور حکام بھی۔حاصل اس ارشاد کا یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو پہنچا دے۔ رسول کریم ﷺ نے ادائے امانت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ بہت ک ایسا ہوگا۔ کہ رسول اکرم ﷺ نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو: ’’جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں‘‘۔[32]

 

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی:

یہ امر واضح کرنا مقصود ہے کہ دین اسلام کا مذہبی پہلو، ریاستی و سیاسی معاملات سے آزاد ایک الگ subject ہے۔ اہل مذہب کی اْمورِ سیاست میں شرکت پر نہ پابندی ہے اور نہ ہی یہ لازمی ہے۔ چودہ سو سالہ تاریخ اسلام سے واضح ہوتا ہے کہ کبار اَئمہ و اَسلاف نے عموماً سیاسی و ریاستی معاملات سے الگ تھلگ رہ کر ہی مذہب کی خدمت کی اور اہل مذہب کے لیے یہی اسوہ بہترین راستہ ہے، لیکن اس کا یہ معنی لے لینا کہ دین اسلام ریاستی و سیاسی معاملات میں کوئی رہنمائی نہیں دیتا یا ریاست و سیاست کے باب میں اسلام کا کوئی تعلق و واسطہ نہیں، یہ دوسری انتہا اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت ہے۔[33]

 

پیغمبر اسلام ﷺ نے باقاعدہ ریاست قائم کر کے اور خلفاء راشدین نے اس ریاست کے استحکام و توسیع کے ذریعے اسلام کے ریاستی و سیاسی احکام بڑی صراحت کے ساتھ واضح کیے ہیں۔ اسلام کے سیاسی و ریاستی احکام ہی اسلام کو دین بناتے ہیں اور اسے دیگر مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ ان کو دین اسلام سے الگ کرنا یا ریاست و سیاست کو دین سے کلیتاً آزاد کردینا دین اسلام کے حقیقی تصور میں تحویل کے مترادف ہے۔ دین و سیاست کا دو الگ الگ خانوں میں بٹوارہ کرنے والے اِسی مکتبِ فکر کا رد حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے بھی فرمایا تھا:

 

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیز[34]

 

 

اقوام عالم میں پائے جانے والے مختلف نظام ہائے سیاست:

اس وقت تک دنیا میں جو نظا ہائے سیاست معروف رہے ہیں، ان کو تین بڑے خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ بادشاہت، اشرافیہ اور جمہوریت ۔ انہی تینوں نظاموں کی مختلف شاخیں بنی ہیں ۔ ان کی مختصراً ذکر ضروری ہے ۔ 

 

==بادشاہت: == شاید تاریخ عالم میں سب سے زیادہ جاری اور نافذ رہنے والا سیاسی نظام بادشاہت کا نظام ہے جو اپنی مختلف صورتوں میں شروع سے لے کر آج تک نافذ چلا آتا ہے اور تاریخ کے بیشتر حصوں میں اس کا عمل دخل زیادہ رہا ہے ۔ کہنے کو بادشاہت ایک لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سربراہ حکومت بادشاہ کہلاتا ہے، وہ شخصی طور پر حکومت کرتا ہے اور اس کی شخصی حکومت ہوتی ہے. لیکن اس کی شکلیں مختلف ادوار میں مختلف ممالک میں مختلف رہی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں بادشاہت کی بہت سی قسمیں ہیں:

 

==۱۔مطلق العنان بادشاہت: ==اس کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بادشاہ کسی دستور یا قانون کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اس کی زبان قانون ہوتی ہے، جو وہ کہے وہی قانون بن جاتا ہے اور وہ اپنے احکام جاری کرنے میں کسی کا پابند نہیں ۔[35]

 

==۲۔شورائی بادشاہت: ==بادشاہت کی دوسری قسم وہ ہے جس کو شورائی بادشاہت (Counciling Monarchy) کہا جاتا ہے ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ بادشاہ اگرچہ خود قانون بناتا ہے اور انتظامی فیصلے بھی کرات ہے، لیکن وہ اپنے ساتھ ایک شوریٰ بھی رکھتا ہے اور قوانین کے اجراء میں بھی اور احکام کے اجرا میں بھی اور انتظامی معاملات میں بھی ان سے مشورے کرتا ہے ۔ یہ شورائیں بھی مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں کسی کانام کونسل، کسی کا نام سینیٹ، کسی کا کچھ اور رکھ دیا ۔ [36]

 

==۳۔مذہبی بادشاہت==بادشاہت کی تیسری قسم مذہبی بادشاہت (Religious Monarchy) یعنی ایسی بادشاہت جس میں بادشاہ کے اقتدار اور اختیار کا سرچشمہ مذہب ہوتا تھا ۔ یعنی مذہبی طور پر اس کو نامزد کیا جاتا تھا اور مذہبی پیشوا ہی اس کی نامزدگی کی توثیق کرتے تھے ۔ تاہم یہ بادشاہ اپنے نظام حکومت میں ان مذہبی پیشواؤں کا فی الجملہ تابع فرمان ہوتا تھا۔ اسی مذہبی بادشاہت کی طویل رواج عیسائیوں میں رہا ہے اور اس کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے تقریباً ۳۰۰ سال بعد ہوا ۔[37]

 

==۴۔دستوری بادشاہت: ==دستوری بادشاہت (Constitiutional Monarchy) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی بادشاہت جس میں بادشاہ کسی دستور کا پابند ہوتا ہے یہ ہیں کہ جو زبان سے نکل گیا وہ قانون بن گیا اور جو چاہا وہ حکم جاری کردیا، جو چاہا اقدام کرلیا، بلکہ اس کے اقدامات کسی دستور کے پابند ہوتے ہیں ۔ قرون وسطیٰ کے بعد کے ادوار میں بادشاہت زیادہ تر دستوری رہی ۔ اسی دستوری بادشاہت کی ایک قسم وہ دستوری بادشاہت ہے جوآج کل پارلیمانی نظام کا ایک حصہ ہوتی ہے، جیسے برطانیہ میں ہے ۔ اس وقت برطانیہ میں بادشاہ ملکہ الزیبتھ ہے اور وہاں دستوری بادشاہت کا نظام ہے لیکن وہ بادشاہت برائے نام ہے ۔ اختیارات اس کے کچھ نہیں ہیں ۔ اصل انتظامی اختیارات کابینہ کے پاس ہیں یا پارلیمنٹ کے پاس ہیں ۔ [38]

 

==اشرافیہ کا نظام: == دوسرا سیاسی نظام اشرافیہ کا نظام ہے جسے انگریزی میں Aristocracyکہتے ہیں ۔ اشراف کہتے ہیں شریف لوگوں کو یعنی ایسے لوگ جو معاشرے میں عظمت کا کوئی مقام رکھتے ہیں ان کو اشراف کہا جاتا ہے ۔ اس نظام کا خلاصہ یہ ہے، یا اس نظام کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ حکومت کرنا ہر انسان کے بس کا کام نہیں ہے اور نہ اس کا حق ہر انسان کو پہنچتا ہے، بلکہ حکومت کرنے کا حق کچھ منتخب لوگوں کو حاصل ہوتا جو کچھ مخصوص حسب نسب کے مالک ہوں یا مخصوص اوصاف کے حامل ہوں ۔ جن کو طبقہ اشرافیہ کہتے ہیں ۔ اب اس کے اہل کون ہیں ؟ بعض لوگوں نے کہا جو نسبی اور حسبی اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہوں، بعض لوگوں نے کہا جو مذہبی اعتبار سے ممتاز ہوں، بعض نے کہا جو کچھ مخصوص صلاحیتوں اور اوصاف کے حامل ہوں، زیادہ بہادر ہوں، زیادہ عقل مند ہوں، وہ اشراف ہیں اور ان کی حکومت قائم ہونی چاہیے ۔ لیکن سب کا مجموعی تصور یہ ہے کہ حکومت ہر کہہ و مہہ کا کام نہیں بلکہ مخصوص طبقہ ہے جو حکمران بن سکتا ہے اور تمام لوگوں کو اس کی اطاعت کرنی چاہیے ۔ [39]

 

==نسلی اشرافیہ:==اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک نسل کا تعین کرلیا جائے کہ صرف اس نسل یا قبیلے کے لوگوں حکرمانی کی اہلیت رکھتے ہیں ۔

 

==مذہبی اشرافیہ یا تھیو کریسی: == مذہبی اشرافیہ کو تھیوکریسی بھی کہا جاتا ہے اصل میں یہ لفظ بھی یونانی اصلیت رکھتا ہے ۔ یونانی زبان میں Theoخدا کو کہتے ہیں ۔اور اسی سے تھیولوجی بنا ہے لوجی کہتے ہیں علم کو، تو تھیولوجی کے معنی علم الٰہیات ہیں۔Cracyکے معنی ہیں حاکمیت ۔ اس طرح Theocracyکے معنی ہوئے خدا کی حاکمیت ۔ اس نظام کا اصل تصور تو بڑا مبارک ہے، درحقیقت اس کائنات میں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور یہاں جو بھی حکومت قائم ہو، اسے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرنی چاہیے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا تعین کون کرے ؟ عیسائی دنیا میں اس کا عملی جواب یہ تھا کہ چرچ کا سربراہ جو پوپ کہلاتاتھا، اسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا تعین کرکے بادشاہ کو بتائے، چنانچہ جس بات کو پوپ اللہ کا حکم قرار دے دے، حکومت کا سربراہ اسی پر عمل کرنے پر مجبو ر ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عملاً تھیو کریسی کا مطلب مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت ہوگیا ۔ اب تھیوکریسی کا بکثرت ترجمہ ’’ مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت ‘‘ کے لفظ سے کیا جاتا ہے [40]۔ یہودی تھیوکریسی، ہندوتھیوکریسی اور عیسائی تھیوکریسی اپنے اپنے وقت میں پیش پیش رہیں ۔

 

==جاگیردارانہ نظام سیاست:==اس نظام کو انگریزی میں Feudalismکہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بعض اوقات اسے کاشتکاری کے اس نظام پر بھی چسپاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی اسلام میں اجازت ہے ۔ جب کسی زمانے میں اشتراکیت اور سوشلزم کا بہت شور تھا تو اس وقت یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ علما ء اسلام جاگیردارانہ نظام کے حامی ہیں اور جاگیردارانہ نظام کو تقویت دینے والے ہیں ۔ درحقیقت یہ یورپ کے قرون وسطیٰ کا ایک نظام تھا ۔ حاکم اور محکوم کا رشتہ زمین سے وابستہ ہے ۔ جو شخص زمین کا مالک ہے وہ حاکم ہے اور جو اس زمین کو استعمال کررہا ہے وہ اس کا محکوم ہے ۔ لہذا اس کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ ساری زمین اللہ تعالیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا مالک ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ مالک ہے تو اگر کسی بادشاہ کو زمین دی گئی ہے تو وہ بادشاہ اللہ تعالیٰ کا محکوم ہے ۔ پھر بادشاہ بطور جاگیر جس کو کوئی زمین دے دے تو وہ جاگیر دار یا بادشاہ کا محکوم۔ پھر وہ جاگیردار اپنے کسی کاشتکار کو دے دے تو وہ کاشتکار اس کا محکوم ۔ پھر بڑا کاشتکار کسی چھوٹے کاشتکار کو دے دے تو چھوٹا اس کا محکوم غرض حکومت، حاکمیت اور محکومیت یہ تمام تر زمین کی ملکیت سے وابستہ ہے۔[41]

 

==فسطائیت یا فاشزم: == یہ ایک سیاسی نظام ہے جس کا بانی اور مؤجد اٹلی کا ڈکٹیٹر مسولینی (Mussolini) تھا اور یہ لفظ اسی نے وضع کیا ۔ فاشزم کا لفظ ایک یونانی لفظ فاست سے نکلا ہے اور وہ عربی کے لفظ فأس سے مأخوذ ہے، جو عربی میں کلہاڑی کو کہتے ہیں ۔ اس ڈکٹیڑ نے اپنی حکومت کا قومی نشان کلہاڑی بنایا تھا ۔ جیسے روس کا نشان درانتی ہوتا ہے یا جیسے ہمارے پاکستان کا نشان چاند تارا ہے ۔ مسولینی کی فاشزم کا حاصل یہ ہے کہ درحقیقت کوئی فرد کوئی چیز نہیں ہے جو کچھ ہے وہ قوم ہے جس کی نمائندگی اسٹیٹ کرتی ہے ۔ اقبال کا مشہور شعر ہے:

 

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیںموج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں [42]

 

بنیادی طور پر یہی فلسفہ مسولینی نے پیش کیا تھا کہ فرد اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اصل اہمیت یہ ہے کہ قوم کے مفاد کو سامنے رکھنا چاہیے اور اس کے مفاد کے سامنے رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کرنا چاہئیں جن سے قوم ترقی کرے ۔

 

==پرولتاری حکومت: == درحقیقت کمیونسٹ اسٹیٹ کی حکومت کا دوسرا نام پرولتاری (Prolatriat) حکومت ہے اور اس کا فلسفہ درحقیقت کارل مارکس کے نظریات پر مبنی ہے ۔ اس حکومت کا فلسفہ یہ تھا کہ معیشت کے عوامل پیداوار مثلاً زمینوں اور کارخانوں پر کسی شخص کی انفرادی ملکیت قائم نہیں ہوسکتی ۔ یہ ساری چیزیں ریاست کی ملکیت ہیں اور ریاست کو چلانے کا تمام تر حق محنت کشوں کی پرولتاری حکومت کو حاصل ہے ۔ روس میں ۷۴ سال تک یہ نظام نافذ رہا لیکن رفتہ رفتہ اس کی معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی خرابیاں اتنی بڑھیں کہ سب نے چیخ چلا کر اس نظام کو ختم کردیا ۔

 

==جمہوریت== مغربی دنیا میں جمہوریت کی صورت گری جن مفکرین نے کی اور جن کو جدید آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ تین فلسفی ہیں جنہوں نے Liberal Democracyکی داغ بیل ڈالی ایک وولٹائر (Voltire) دوسرا مونٹیسکو (Montesuiue) ، تیسرا روسو (Rousseau) یہ تین افراد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے نظریات اور فلسفے کی بنیاد پر ایسے افکار دنیا میں پھیلا ئے جس کے نتیجے میں جمہوریت وجود میں آئی۔ ان تینوں کا تعلق فرانس سے ہے۔قانون سازی کا اختیار جس ادارے کو حاصل ہوتا ہے، اس کا نام مقننہ (Legislature) ہے اور جمہوریت میں یہ اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہوتے ہیں ۔ ملک کا انتظام چلانے کا اختیار جس ادارے کو حاصل ہوتا ہے اسے انتظامیہ (Exectuive) کہا جاتا ہے جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے ۔ تیسرا اختیار یعنی قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ جو ادارہ کرتا ہے اسے عدلیہ یا جوڈیشری (Judiciary) کہا جاتا ہے ۔[43] جمہوریت کی دواقسام ہیں ۔

 

==مرکزی جمہوریت: == عوام کے منتخب نمائندوں اور جمہوری پارلیمنٹ کے ارکان کی حکومت جو ایک طاقتور مرکز سے ان تمام صوبوں کی مجموعی ہیئت پر حکومت کرے، جو پوری طرح مرکزی اقتدار کے ماتحت ہوں ۔

 

==لامرکزی حکومت: == یہ طرز حکومت آزاد حکومتوں کی تنظیم سے ایک خاص قسم کی حکومت کو وجود میں لاتا ہے ۔ اس کے آزاد عناصر عجیب و غریب قانونی مسلمات کے ماتحت ایک عجیب و غریب مرکز کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں جو درحقیقت عام مفہوم میں مرکزی اقتدار اور طاقت کا مالک نہیں ہوتا ۔ آزاد عناصر یا آزاد حکومتیں محض اپنے مفاد کے لیے ایک تنظیم کی صورت اختیار کرتی ہیں ۔ وہ خاص خاص نمائشی اختیارات مرکز کو دے دیتی ہیں اور باقی تمام اختیارات اپنے مضبوط ہاتھ میں رکھتی ہیں ۔ امریکن جمہوریت اس طرز حکومت کی حیرت انگیز مثال ہے ۔[44]

 

جمہوریت کے معنی و مفہوم اور تعریفات:

جمہوریت کو دنیا تہذیب وتمدن کی علامت اور ایک فطری طرز حکومت کے طورپر تسلیم کرچکی ہے۔ بیشتر ممالک میں جمہوری نظام سیاست قائم ہوچکا ہے اور جہاں اب تک جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکا ہے، وہاں جد وجہد جاری ہے۔ لیکن ایک صدی قبل دنیا کو جمہوریت سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ آج تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں:

 

۱: ۔ جمہوریت کے علمبرداروں اور اس کا خیر مقدم کرنے والوں نے درحقیقت اس کے مفہوم کو خود ہی نہیں سمجھا تھا۔ وہ لوگ اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں رہ گئے کہ جمہوریت قائم ہوتے ہی بس ہر طرف عدل وانصاف اور آزادی ومساوات کا دور دورہ ہوگا، مگر یہ ایک خواب تھا جو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

 

۲: ۔ دوسری وجہ یہ کہ اس نظام کو قائم کرنے والوں نے صحیح معنیٰ میں جمہوری نظام قائم ہی نہیں کیا۔

 

ماہرین سیاسیات نے مختلف پہلوؤں سے اس مسئلہ کا تنقیدی جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابتداء سے ہی جمہوریت کا مفہوم واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی اتنی مختلف اور مبہم تعریفات بیان کی گئیں کہ ہر شخص نے اس کا جو مطلب چاہا، سمجھ لیا۔ اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہر فریق اپنے پسندیدہ نظام کو ہی جمہوری نظام بتاتا ہے اور اپنے آپ کو ہی جمہوریت کا حامی اور علمبردار کہتا ہے، جب کہ ان میں سے ہر گروہ کے نظریات واصول بالکل مختلف ہیں اور ہرفریق مخالف فریق کو جمہوریت کا دشمن، ملک کا دشمن، قوم کا دشمن اور آخر میں دہشت گرد قرار دیتاہے۔[45]

 

    • مفتی تقی عثمانی: جمہوریت کا لفظ درحقیقت ایک انگریزی لفظ "Democracy"کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں بھی یہ یونانی زبان سے آیا ہے اور یونانی زبان میں "Demo"عوام کو کہتے ہیں ۔ "Cracy"یونانی زبان میں حاکمیت کو کہتے ہیں ۔ اسی لیے عربی میں جب اس کا ترجمہ کیا گیا تو اسے ’’ دیمقراطیہ ‘‘ کہا گیا ۔ عربی زبان میں جمہوریت نہیں بولتے ۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’ جمہوریت ‘‘ کیا گیا ہے ۔ جمہوریت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ حاکمیت کا حق عوام کو حاصل ہے، لہذا جمہوریت کے معنی ہوئے ایسا نظام حکومت جس میں عوام کو یا عوام کی رائے کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔ ویسے جمہوریت کی جامع و مانع تعریف میں بھی خود علماء سیاست کا اتنا زبردست اختلاف ہے کہ ایک کی تعریف دوسرے سے ملتی نہیں، لیکن بحیثیت مجموعی جو مفہوم ہے وہ یہی ہے کہ اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کی بنیاد بنایا گیا ہوں [46]

 

    • ۔ پروفیسر گیٹل نے جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ’’ یہ ایک ایسی طرز حکومت ہے، جس میں آبادی کا بیشتر حصہ حاکمانہ طاقت کے استعمال میں شرکت کا حق رکھتا ہے۔ ‘‘

 

**۔ چارلس ای میریم نے اس کی تعریف یوں کی ہے ’’ جمہوریت نہ تو اصولوں کا مجموعہ ہے اور نہ ہی کسی تنظیم کا خاکہ بلکہ یہ ایک طرز فکر اور طرز عمل کا نام ہے جس کا مقصد فلاح و بہبود کا حصول ہو۔ ‘‘

 

**۔ ابراہام لنکن کے مطابق: ’’ جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے ہوتی ہے ۔ ‘‘ [47]

 

Democracy is the government of the people, by the people for the people.

 

علامہ اقبال: جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔[48]

 

لیکن بنیادی جمہورتیوں کے حوالے سے افضل توصیف نے اپنی کتاب، الیکشن، جمہوریت اور مارشل لاء میں جمہوریت کی تعریف کچھ یوں کی ہے ’’ جمہوریت عوام کے بغیر حکومت، عوا سے خریدی ہوئی اور عوام سے دور ہوتی ہے ۔

 

"Democracy is a Government off the people, buy the people and far the people. "[49]

 

سیاست اور سیاسی نظام کے معنی و مفہوم اور تعریفات:

    • علامہ ابن خلدون: ان کے مطابق سیاست اس ذمہ داری کا نام ہے جس کی رو سے عام انسانی نگہداشت کا کام پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے، جس کے ذریعے اللہ کی نیابتی حکومت بندگان خدا میں اللہ کے قوانین کو نافذ کرتی ہے اور احکام کا اجراء عمل میں لاتی ہے ۔ اس کام میں انسانی بہتری اور مفاد عامہ کا لحاظ رکھتی ہے اور قانون (شرائع) کو فیصلہ کن قوت تسلیم کرتی ہے [50]۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ سیاست وہ قانونی حکمت عملی ہے جس کی قوت سے اجتماعی کردار اور مصالحِ عامہ کا تحفظ کیا جاتا ہے اور حکومت کا نظم چلایا جاتا ہے [51]۔وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے طرز سیاست، سلطنت اور حکومت کو دنیا سے روشناس کرایا ۔وان کریمر لکھتا ہے کہ ابن خلدون اطالوی سیاستدان میکاولی اور نیکو کے مدرسہ علم و سیاست کا امام اور پیشرو ہے ۔ پروفیسر کلازیو نے زیادہ فیصلہ کن الفاظ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ عصر حاضر کے علماء سیاست کا پیشوا ہے ۔[52]

 

    • علامہ ابو البقاء حنفی: ان کے مطابق وہ کام جس کا مقصد انسان کی بہتری کے لیے ایک ایسا راستہ پیدا کرنا ہے جو حال اور مستقبل کی رہنمائی کے لیے ضمانت کرسکے ۔ سیاست انبیاء کی ذمہ داری ہے جو اپنے عام اور خاص، ظاہری اور باطنی دائرہ میں اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح حکمراں صرف ظاہری حلقہ اثر میں اس ذمہ داری کے مالک ہوتے ہیں ۔[53]

 

    • ڈاکٹر جے ڈبلیو گارنر (Dr. J. W. Garner) کے مطابق ’’سیاسیات وہ علم ہے جو ریاست سے شروع ہوتا ہے اور اسی پرختم ہوتا ہے‘‘۔

 

    • ڈاکٹر سٹیفن لیکاک کے خیال میں ’’علم سیاست حکومت کا علم ہے‘‘۔

 

    • پروفیسرآر این گلکرائسٹ (R. N. Gilchrist) کے مطابق ’’علم سیاست ریاست اور حکومت دونوں سے بحث کرتا ہے‘‘۔[54]

 

    • فرانسیسی مصنف پال جینٹ (Paul Janet) کہتا ہے: ’’سیاسیات عمرانی علوم کا وہ جزو ہے جو ریاست کی بنیادوں اور حکومت کے بنیادی اصولوں سے بحث کرتا ہے ۔ ‘‘

 

    • سوئس مصنف جے کے بلنشلی (J. K. Blunstschli) لکھتا ہے کہ ’’ علم سیاست ریاست کے علم کا نام ہے جو ریاست کے بنیادی حالات اور اس کی نوعیت اور اس کی ظاہری حیثیت کی روشنی میں اس ادارے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ‘‘

 

    • پروفیسر الیاس احمد علم سیاست کے متعلق لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ریاست کے مسائل کے بارےمیں باضابطہ مطالعہ ہے‘‘۔[55]

 

ان تعریفوں کی روشنی میں ہم سیاسیات کی جامع تعریف ان الفاظ میں کرسکتے ہیں:

 

’’سیاسیات عمران علوم کا وہ حصہ ہے جو ریاست کی نوعیت، ابتداء اور ارتقاء اور ریاست و حکومت کی مختلف اشکال اور ان کے اغراض و مقاصد، شہریوں کی آزادی، حقوق و فرائض اور ریاستوں کے مابین تعلقات وغیرہ کا مدلل اور سائنٹیفک مطالعہ کرتا ہے ‘‘

 

**ایم جی اسمتھ (M. G. Smith) سیاسیات کو سیاسی تنظیموں، انکےعناصر، معاونین، اختلافات اور تبدیلی کے طریق کار کا مطالعہ گردانتا ہے۔

 

    • رابرڈھل (Robert Dahl) نے سیاسیات کی تعریف کو مزید وسعت دی ہے[56]۔ ڈھل کے خیال میں سیاسی نظام انسانی تعلقات کا ایک مستقل نمونہ ہے جس میں کنٹرول، غلبہ اور اتھارٹی اہم ہیں ۔ سیاسی تنظیم میں وہ اتنا آگے چلا گیا ہے کہ تمام انسانی تنظیموں کو سیاسی تنظیموں میں شامل کرتا ہے ۔ علم سیاست میں ان تمام انسانی اعمال اور سرگرمیوں کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے جو ریاست کے اندر منظم زندگی سے متعلق ہوں۔[57]

 

پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں اضطرابی صورتحال پر ایک نظر

قیادت کے مفادات:

بدقسمتی یہ ہے کہ نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر گیا، آج تک اسے وہ لیڈر میسر نہیں آئے جو پاکستان کو بلدہ طیبہ بناتے ۔ اس کے برعکس، جس جس کے ہاتھوں میں زمام کار، آئی اس نے پاکستان کے قیمتی انسانی وسائل بے دردی کے ساتھ ضائع کیے ۔ جوانوں کی جوانی، بوڑھوں کی فرزانگی، اہل علم کی دانش، محنت کاروں کی محنت، سب رائیگاں جاتی رہی ۔ جو قدرتی وسائل موجود تھے، ان سے بھی ان کی غفلت کے باعث استفادہ نہیں کیاجاسکا۔ کھیتوں کی پیدوار کم ہوتی گئی، پانی کی فراہمی گھٹتی تھی اور جو نئے وسائل وجود میں آئے بھی، تو ان انہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور ان پر داد عیش دینے میں مصروف رہے ۔[58]

 

لیڈروں سے ہماری مراد ہر شعبہ زندگی کے لیڈروں سے ہے، لیکن ان میں سیاسی لیڈر، جنرل اور بیورو کریٹ یقیناًسر فہرست ہیں ۔ یہ پاکستان بنانے کے دعویدار ہوں یا بعد میں آنے والے ۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ لوگوں کو ویسے ہی لیڈر ملاکرتے ہیں، جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ۔ دودھ زہریلا ہو تو اوپر مکھن بھی زہریلا ہوگا ۔ اس لیے عوام بھی سارا الزام لیڈروں کے سر رکھ کر خود بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ خصوصاً سلطانی جمہور کے دور میں، جب وہ خود انہی لیڈروں کو اپنا ہیرو بناتے ہیں، اور انہی کو ووٹ دینے کے لیے بیلٹ بکس تک چل کر جاتے ہیں ۔

 

۲۵سال نہ گزرے تھے کہ ملک دو ٹکڑے ہوگیا، مزید۲۵ سال گزرنےکےبعد دوسری مارشل لاء حکومت کا آکسیجن ماسک جب سے اترا قوم مسلسل ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہے اگرچہ الیکشن بھی ہوئے، لیکن سیاسی استحکام کا دور دور تک پتا نہیں ۔ چنانچہ ملک کی کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اورتختہ تختہ ہل رہا ہے ۔ ان لیڈروں نے ملک کو صرف شکست و ریخت، سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام کے ’’ تحائف ‘‘ ہی ہیں دیئے ہیں، بلکہ جس شعبہ زندگی کو لیجئے اس میں بگاڑ اور انحطاط ہی پیدا کیا ہے ۔ ملک چلانے میں ان سیاسی، سول اور فوجی لیڈروں کی کارکردگی گھٹیا اور ناقص رہی ہے ۔[59]

 

جو لوگ مسائل پیدا کررہے ہیں، وہ انہیں حل کرنا چاہتے ہیں ۔ حکمرانوں کو عدالت کے سامنے جواب دہ بنایا جاسکتا ہے ۔ احتساب کے لیے بااختیار عدالتیں بنائی جاسکتی ہیں ۔ جب تک مقتدر سیاسی قوتیں خود حل تلاش کرنے میں مخلص نہ ہوں، تجاویز سے کچھ نہیں بنے گا ۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہر گروہ اپنے موقف اور روش پر اٹل اور اسی میں مگن ہے ۔ ‘‘

 

’’ً کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ ‘‘[60]

 

ترجمہ’’ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے ۔ ‘‘

 

’’أَفَمَن زُیِّنَ لَہُ سُوءُ عَمَلِہِ فَرَآہُ حَسَناً ‘‘[61]

 

ترجمہ: ’’ ہر ایک اپنے برے اعمال کے پیچھے دل و جان سے لگا ہوا ہے، اس کو وہی اچھے نظر آتے ہیں اور باقی سب غلط ‘‘

 

’’وَاتَّبَعُوا أَھْوَاء ہُم ‘‘[62]

 

ترجمہ: ’’ ان کے سامنے صرف اپنی خواہشات ہیں ۔

 

’’ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ‘‘[63]

 

ترجمہ: ’’ صحیح بات یہ ہے کہ بحرو بر میں فساد لوگوں کے اعمال کی وجہ سے ہے ‘‘

 

حالات سنگین اور تلخ ضرور ہیں، لیکن مایوسی کفر ہے اور لوگ کشتی میں چھید کر رہے ہوں تو پوری تندہی سے کشتی کو بچانے میں لگ جانا سب سے اہم او ر مقدس فریضہ ہے ۔ کچھ بھی نہ کرسکیں تو کم سے کم بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح، مرثیہ پڑھنے، رہنماؤں اور قوم کو جھنجھوڑنے اور جگانے، ان کے کانوں میں صور پھونکنے، اور ان کے سر پر منڈلاتے ہوئے مہیب خطرات سے آگاہ اور خبردار کرنے کا کام تو کرنا ہی چاہیے ۔[64]

 

سیاسی نظام میں اقتدار اور ادار ے:

آج کے حکمران اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ جس طرح حکومت چلا رہے ہیں، اس طرح حکومت کچھ زیادہ عرصہ چل سکتی ہے،

 

تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور اگر وہ حقیقت حال سے آگاہ ہیں توجان بوجھ کر خود کشی کررہے ہیں ۔ سیاسی جمہوری استحکام صرف ملک کے نہیں، خود ان کے مفاد میں بھی ہے ۔ احتساب کے نام پر سیاسی انتقام لیا جاتا ہے، اس طرح جمہوری استحکام کی کوئی راہ کھل بھی سکتی ہے تو وہ مسدود ہوجاتی ہے ۔ سیاسی نظام میں اعلیٰ ترین ادارے قومی اسمبلی اور سینیٹ ہیں، انہیں باہمی جنگ و جدل کا اکھاڑا بنادینے میں اپوزیشن کا کردار بھی کم قابل مذمت نہیں، انہی اداروں کے احترام سے حکومت کا احترام اور انہی کی بقا سے حکومت کی بقا وابستہ ہے، مگر نہ حکومت کے وزرا اجلاس میں آتے ہیں، نہ ممبران اور نہ پالیسیوں اور قانون سازی پر بحثوں پر مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ۔ [65]

 

حکومتیں ناکام کیوں؟

پاکستان اپنے قیام سے اب تک نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزار چکا ہے لیکن اب تک یہاں کوئی بھی مستحکم نظام حکومت رواج نہ پا سکا۔ اس تمام تر عرصہ میں پارلیمانی، صدارتی اور ماشل لا تقریباً سارے ہی نظام حکومت رواج نہ پا سکا۔اس تمام تر عرصہ میں پارلیمانی، صدارتی اور مارشل لاء تقریباً سارے ہی نظام حکومت آزمائے جا چکے ہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم قیام پاکستان سے اب تک تین مکمل اور چار عبوری دساتیر کے تجربے بھی کرچکے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں اب تک کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہوسکی؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جو پاکستان کے ہرذی شعور شہری کے ذہن میں موجود اور وہ اس سوال کا جواب چاہتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی نظام از خود کلیتاً خراب نہیں ہوتا، بلکہ نظام کی کامیابی اور ناکامی کا تمام تر دارومدار اس نظام کے چلانے والوں کی لگن، خلوص، نیت اور دیانت داری پر ہوتا ہے اور اگر نظام کے چلانے والوں میں لگن و خلوص نہ ہو، نیک نیتی نہ ہو، ایمان داری دیانت داری نہ ہو، ذاتی مفاد کو ملکی و قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوں تو نظام خواہ کتنا بھی اچھا ہو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اور ساتھ ہی ساتھ کسی نظام یا حکومت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام یا حکومت کو عوام کی بھر پور تائید و حمایت حاصل ہو۔اگر ہم سیاسی تاریخ کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو ہمیں کسی بھی مستحکم حکومت یا کسی بھی نظام کاملک میں کامیاب نہ ہونے کی درج ذیل وجوہات واضح نظر آئیں گی۔

 

1۔ سیاست دانوں کاغیرمحب وطن اورہوس اقتدار کاحامل ہونا۔

 

2۔ سیاست دانوں میں جمہوری فکرکافقدان۔

 

3۔ ایسی سیاسی جماعت کا فقدان جو عوام کی پیداوار ہوں ہمارے ملک میں زیادہ تر (۹۹فیصد) سیاسی جماعتیں شخصیات کی پیداوار ہیں یا شخصیات کے باہمی تصادم سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر بنی ہیں۔

 

4۔ تقریباً تمام مذہبی جماعتیں جو سیاست میں حصہ لیتی ہیں، فرقہ واریت کی پیداوار ہیں اور یہاں بھی مذہبی شخصیات کی ہی

 

اجارہ داری ہے اور انہیں صرف ان کے مخصوص فرقہ کے افراد کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

 

5۔ ہمارے ملک میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے اندر خود جمہوریت کا فقدان ہے اور اندرون جماعت کوئی جمہوری عمل نہیں ہوتا۔

 

6۔ ملک میں فوج نے جب بھی سیاسی حکومت کو ختم کیا اس کی بنا خود نا اہل، مفاد پرست، غیر محب وطن اور چور سیاست دان رہے ہیں۔

 

7۔ یقیناًفوج کا کام ملک میں سیاست کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے فوج کا کردار مشکوک اور کمزور ہو رہا ہے لیکن ملک کے سیاست دانوں کو بھی صراط مستقیم اختیار کرنی چاہیے اور انہیں چاہیے کہ وہ فوج کو کسی صورت بھی یہ موقع نہ دیں کہ وہ اقتدار پر قابض ہو جائے۔

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایک پاک اور صاف سیاسی کلچر ہو۔ ایسا سیاسی نظام ہو جس میں آسانی سے عوام کی رسائی ہو۔ پرانے اور روایتی سیاسی رہنماؤں سے جنہوں نے ملک کو کچھ نہیں دیا جان چھڑا لی جائے اور اچھے اچھے کردار کے حامل، دیانت دار، ملک اور قوم کے مخلص افراد کو آگے لایا جائے تو ملک کسی نظام پر قائم رہ سکتا ہے یا کوئی مستحکم حکومت قائم ہو سکتی ہے. . . . . . . لیکن

 

  • ایسے افراد کہاں سے اور کس طرح مہیا ہوں گے؟ یہ سب سے اہم اورغورطلب مسئلہ ہے۔[66]

 

جمہوری سیاسی نظام میں بدعنوانی:

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مشیرنے خبردار کیا ہے کہ کرپشن میں ملوث افراد کو سزا نہ دینے کے باعث پاکستان میں کرپشن کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2برس کے دوران سب سے زیادہ کرپشن لینڈ سروسز میں کی گئی، یہ شرح 75فیصد رہی، پولیس کا محکمہ65فیصد کرپشن کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں بھی کرپشن کا شکار ہیں، دیگر ملکی ادارے بھی کرپشن کی زد پر ہیں، کرپشن میں عدلیہ چھٹے نمبر پر رہی، دنیا بھر کے کرپٹ ممالک میں پاکستان 34 ویں جبکہ بھارت 87 ویں نمبر پر ہے، کرپشن کا خاتمہ پاکستان کی نئی حکومت کیلیے سب بڑا چیلنج ہے، دریں اثنا ایک برطانوی اخبار کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 95 ممالک میں کرپشن کی صورتحال کے جائزے پر مشتمل اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 34 فیصد شہریوں کو رشوت دینی پڑتی ہے، سیرالیو ن میں کرپشن کی شرح سب سے زیادہ یعنی 84فیصد ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد ممالک میں سیاسی جماعتو ں اور پولیس کے علاوہ عدلیہ میں بھی رشوت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ سرکاری افسران اور ارکان پارلیمنٹ میں کرپشن کی شرح عدلیہ اور پولیس کی نسبت بہت کم ہے۔ تجارتی اور مذہبی ادارے بھی کرپشن کا شکار ہیں لیکن ان اداروں میں اس برائی کی شرح کمتر ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری کیلئے 95ممالک کے اعداد و شمار جمع کئے گئے، ان کے مطابق مجموعی طور پر ان ممالک کے کم از کم 25فیصد شہری حکومتی اداروں کو رشوت دینے پر مجبور ہیں، دنیا بھر کے جن 9ممالک میں رشوت کی شرح بہت زیادہ ہے ان میں سیرالیون 84فیصد کے بعد لائبیریا 75فیصد، یمن 74فیصد، کینیا 70فیصد، کیمرون، لیبیا، موزمبیق اور زمبابوے 62فیصداور یوگنڈا 61فیصدشامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیر جائزہ ممالک میں سیاسی جماعتوں میں رشوت کی شرح 51فیصد، پولیس 36فیصد، عدلیہ 20فیصد، ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری افسران 7فیصد، میڈیکل اور ہیلتھ سروسز کے اداروں میں 6فیصد، ذرائع ابلاغ میں 4فیصد، مذہبی اور تجارتی اداروں میں یہ شرح 3فیصد ہے، رپورٹ کے مطابق کرپشن میں سرفہرست 9ممالک کے علاوہ دیگر ممالک میں افغانستان 46فیصد، الجیریا 41فیصد، بنگلہ دیش 39فیصد، مصر 36فیصد، بھارت اور گھانا 54فیصد، انڈونیشیا 36فیصد، عراق 29فیصد، کرغیزستان 45فیصد، نائیجیریا 44فیصد، ملائیشیا اور مالدیپ میں یہ شرح 3فیصدہے اور فلسطین میں 12فیصدجبکہ امریکا میں 7فیصداور برطانیہ میں 5فیصدہے۔[67]

 

پاکستان میں منصب کا غیر ذمہ دارانہ استعمال بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے پچھلے پانچ سالوں کے دوران 12600ارب روپے کی بدعنوانی کی گئی ۔ سابق چیئرمین نیب فصیح بخاری کے مطابق ملک میں روزانہ 7 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے ۔ سابق وزیر اعظم کے دور حکومت کے دوران پاکستان کو ناقابل حد تک مالی نقصان ہوا ہے اور کرپشن ‘ ٹیکس چوری‘ اور خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے ملک کو ۸۵۰۰ ارب روپے (۵ء۸ کھرب روپے یا ۹۴ ارب امریکی ڈالرز) کا نقصان ہوا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بدعنوانی پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جائے اور اچھی طرز حکمرانی کو یقینی بنایا جائے ۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ملکی تاریخ میں سابق حکومت کے چار سال کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کے لحاظ سے بدترگزرے ہیں ۔ کرپشن کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور ملک دنیا کے انتہائی کرپٹ ممالک کی فہرست میں اونچا ہوتا گیا۔سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ خود اس بات کا اعتراف کرچکے تھے کہ ایف بی آر میں سالانہ ۵۰۰ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جو دراصل ۲۰۰۰ ارب روپے بنتی ہے ۔ سابق حکومت نے کرپشن کو کنٹرول کرنے کی بجائے جمہوریت کے نام پر اس کا دفاع کرنا شروع کیاتھا۔ نیب اور ایف آئی اے نے کرپشن روکنے کی بجائے کرپٹ لوگوں کا ساتھ دیا، جس کی وجہ سے عوام کا ان سے اعتماد ختم ہوچکا ہے ۔ [68]

 

سیرت نبوی ﷺ کے روشنی میں سیاسی اضطرابی صورتحال کا حل

جرات مند اور مخلص قیادت کی ضرورت:

کسی بھی ملک کی داخلی وخارجی سلامتی کے لئے چند لازمی عناصر ہوتے ہیں جن کا گراف جس قدر اونچا ہوتا ہے ملک اسی قدر مستحکم و مضبوط ہوتا ہے اور جتنا گراف نیچے آتا ہے ملک اتنا ہی کمزور ہوتا ہے۔ان میں سب سے پہلی چیز یا راس العناصر جرات مند، نڈر اور مخلص قیادت ہے جو نا مساعد حالات میں بھی قوم میں مایوسی پیدا نہ ہونے دے۔قوم کے سامنے ایسا نصب العین پیش کرے جو اتنا واضح ہو کہ قوم اس کی حقانیت میں کسی قسمکا شبی نہ ہو۔پھر قیادت اس نصب العین کے ساتھ اتنی مخلص ہو کہ قم کا کوئی فرد اس کے اخلاص پر انگلی نہ رکھ سکے۔قیادت میں اگریہ چیزیں موجود ہوں تو قوم کی طرف سے وفا ہمیشہ غیر مشروط ہوتی ہے اور قوم و قیادت کے درمیان اس طرح کا وفادارانہ تعلق ملکی استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

 

اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے موجود ہے اعلان نبوت کے بعد کون سی ایسی اذیت اور مصیبت ہے جو

 

مکہ مکرمہ میں آپ ﷺ کو پیش نہیں آئی۔مگر آنجناب ﷺ نے اس کٹھن حالات میں بھی نہ خود ہمت ہاری نہ پستی دکھائی نہ اپنے مشن سے پیچھے ہٹے[69]۔نہ اپنے ماننے والو ں کا حوصلہ پست ہونے دیا بلکہ کلمہ طیبہ کی برکت سے انہیں عرب و عجم کے باج گزار ہونے کا مژدہ سنایا[70] ۔لوگوں کے ساتھ مخلصانہ ہمدردی، خیر خواہی اور غمخواری کی چشم دید گواہی آ پ ﷺ کی قریب ترین شخصیت سیدہ خدیجۃ الکبری نے دی (صحیح بخاری: ۱: ۳طبع کرزنی پریس دہلی) اپنی قوم کے ساتھ اخلا ص اور خیرخواہی کا بے مثال طرز عمل آپ نے اس وقت بھی نہ چھوڑا جب آپ ﷺ دس لاکھ مربع میل کے واحد حکمران تھے[71]۔اور جب رب کریم نے آپ کے واسطے زمین کے خزانے کھول دیے بلکہ زمین کے خزانوں کی چابیاں عنایت فرمادی تھیں [72]۔جب آپ کے سامنے ہدایا، خمس، جزیہ اور مال غنیمت کا ڈھیر لاگ جاتا تھا[73]۔اور جب آپ ﷺ کے سامنے پہاڑوں کو سونا بنادینے کی پیش کش کی گئی تھی[74]۔اپنی لیڈری چمکانے کے لیے عوام کی ہمدردی، خیرخواہی اور خدمت کے نعرے لگانے والے تو بہت مل سکتے ہیں چشم فلک نے آج تک ایسا قائد نہیں جس پر ہن برس رہاہو، اقتدار قدم چوم رہا ہو عیش و آرام کے تما م مواقع میسر ہوں مگر یہ دعا کر رہا ہوں اللھم احینی مسکینا وامتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المساکین[75]۔ شاعرِ مشرق علاّمہ ڈاکٹر محمد اقبال کے بقول:

 

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشریں، نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں [76]

 

دیانت دار، اہل اور خادم انتظامیہ کا تقرر:

ٍملکی استحکام کے لئے عہدوں پر حکومت کے تمام چھوٹے بڑے عہدوں پر انتہائی دیانت دار، اہل علم، باصلاحیت اور خادم بن کر قوم کی خدمت کرنے والے افراد کا تقرر ضروری ہیبد دیانت، کرپٹ اور نااہل لوگ نہ صرف ملک کا وقار بلند نہیں کرسکتے بلکہ ملکی سا لمیت و بقاکو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔اسلام میں کوئی حکومتی عہدہ ایک امانت اور انتہائی ذمہ داری کی چیز ہے، دوسرے لفظوں میں کانٹوں کی سیج نہ کہ پھولوں کی[77]۔کوئی حکومت اگر کسی نا اہل آدمی کو کسی منصب پر فائز کرتی ہے توقرآن مجید اسے خیانت قرار دیتا ہے[78]۔ابن تیمیہؒ نے زیادہ اہل اور مستحق شخص کے مقابلے میں کسی بھی ووجہ سے دوسرے آدمی کے تقرر کو اللہ و رسول اور مومنوں کے غداری اور بے وفائی قرار دیا ہے۔[79]

 

عہد نبوی ﷺ میں عمال اور حکومتی کارندوں کا تقرر ہمیشہ ان کی ذاتی اہلیت اور تقوی کی بنیاد پر کیا گیا۔حضور ﷺ کی تقرری سے قبل ان کا امتحان لیا کرتے ۔چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ جب یمن کا گو رنر بناکے روانہ فرمانے لگے تو کس طرح تم لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کروگے؟انہوں نے حسب منشا جواب دیا تو انہیں شاباش دی[80]۔آگے چل کر خلیفہ راشد سیدنا فاروق اعظمؓ نے تو عمال کو تقرری سے قبل کئی چیزوں کا پابند بنایا۔[81]

 

حقدار کو حق کی ادائیگی:

جس قوم کو بنیادی حقوق حاصل نہ ہوں اور ان کے فرائض کا صحیح تعین نہ کیا گیا ہووہ قوم کسی میدان میں مستحکم نہیں ہوسکتی۔بنیادی ضروریات زندگی، جان، مال اور عزت کی حفاظت اور دیگر سیاسی و سماجی حقوق فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔عہد نبوی ﷺ کی اسلامی ریاست میں اس قسم کے تمام حقوق مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کو بھی حاصل تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ایک وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی حکومت میں بہت کم احتجاج تحریکیں اٹھیں۔ معاشرے کے اکثر افراد کو حقوق بلا امتیاز مہیا کیے گئے تھے چنانچہ معاشرے میں امن و سکون کا دور دورہ تھا[82]۔حکومت کو چاہیے کہ حقوق کی فراہمی میں امتیازی سلوک کا خاتمہ کرے تاکہ معاشرے کے کمزور افراد محروم نہ رہیں اور کسی طبقے کا استحصال نہ ہونے پائے۔ اجرتوں کا صحیح تعین کیا جائے تاکہ مزدور اور عام طبقہ متاثر نہ ہو کیونکہ اس طرح کی صورتحال میں طبقاتی کشمکش پروان چڑھتی ہے اور لوگ اپنی جملہ صلاحیتوں کو بطریق حسن استعمال نہیں کرسکتا۔بعض حقوق و فرائض ایسے ہوتے ہیں جو قومی یا علاقائی نوعیت اختیار کرلیتے ہیں اگر ان کی طرف صحیح توجہ نہ دی گئی تو بھی ملک میں داخلی عدم استحکام کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اور ملک ملکی ترقی کی راہیں مسدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔اس ضمن میں نبی کریم ﷺ نے ابتداء ہی سے خصوصی توجہ فرمائی چنانچہ اسلامی ریاست کی بنیاد رکھتے ہی مختلف قبائل کے درمیان حقوق و فرائض کا صحیح تعین فرمایا۔[83]

 

لہذا پاکستان میں موجود بعض سرحدی قبائل کے درمیان بعض تنازعات صر ف اس وجہ سے ہیں کہ ان کی حدود کا تعین موجود نہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ صحیح علاقائی تقسیم کرے اور ظالمانہ قضے ختم کرائے۔ آپ ﷺ نے قبائل کے درمیان علاقائی تنازعات کو ختم کیا اور ظالمانہ قبضوں کے خاتمہ کے لیے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں بسنے والے تمام قبائل و اقوام کے حقوق کا صحیح اور عادلانہ تعین کیا جائے۔ مثلاً ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم اور دیگر حقوق کے صحیح تعین نہ ہونے کی وجہ سے سندھی، پنجابی، اور مہاجر عصبیتوں کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور داخلی امن واستحکام بھی متاثر ہو رہا ہے۔بین الصوبائی انتظامی محکموں کے اختیارات و فرائض کا صحیح تعین کیا جائے، صوبوں کے حقوق کی عادلانہ تقسیم کی جائے۔

 

مساویانہ عدل کی فراہمی:

مساویانہ انصاف کی فراہمی کےسلسلہ میں اسلام نہایت تاکیدکیساتھ تلقین کرتاہے[84]۔ حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کو ایمان باللہ کے بعد سب سے زیادہ قوی فرض قرار دیا گیا[85]۔

 

رسول اللہ ﷺ نے انصاف رسانی کا انتہائی مستحکم ادارہ قائم فرمایاجس کے تحت ہر چھوٹے بڑے، امیر و غریب اور شاہ گدا کو برابری کی بنیاد پر انصاف مہیا کیا جاتاتھا ۔ سب کے لیے ایک قانون رکھا گیا تھا۔ قاضی کی عدالت میں بادشاہ پر بھی مقدمہ دائر ہوسکتا تھا۔

 

اس کی مثال خود نبی کریم ﷺ نے قائم فرمائی چنانچہ ایک مرتبہ اپنی آخری عمر میں آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ مجھ پر کسی کا حق ہو تو وہ طلب کر لے اور جس کسی کو مجھ سے تکلیف پہنچی ہو وہ مجھ سے انتقام لے۔[86]

 

یہی وہ مساویانہ عدل و انصاف تھا جس کے تحت آگے چل کر خلفائے راشدین اپنے گورنروں اور عمال کا بلا جھجک احتساب کرتے اور عام لوگ بھی عدالت کے ذریعے ان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتے تھے۔[87] آپ ﷺ نے انصاف رسانی کو ایک مرکزی ادارے کا درجہ عنایت فرمایا جس میں بلاتفریق انصاف مہیا کیا جاتا تھا۔چنانچہ لوگوں نے قبیلوں کا سہارا ترک کرکے آپ ﷺ کی طرف رجوع کیا حتی کہ غیر مسلم بھی آپ ﷺ سے بخوشی فیصلے کرانے لگے ۔اس طرح عرب میں معاشرتی امن کا دور دورہ ہوا۔

 

1۔ پاکستان میں بلاامتیاز عدل و انصاف کے حصول کو آسان بنایا جائے تاکہ لوگ اپنی قوموں، قبیلوں اور تنظیموں کا سہارا لینا ترک کر دیں۔

 

2۔ پاکستان میں عدلیہ بعض معاملات میں سیاسی نمائندوں اور انتظامیہ کے دباؤ میں ہوتی ہے۔ اس طرح عدلیہ کا صحیح مقصد یعنی مساویانہ انصاف پورا نہیں ہوتا[88]۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ عدلیہ سیاسی تصرف اور انتظامیہ کے دباؤ سے مکمل طور پر آزاد کرے۔ کسی طاقتور کو قانون سے بالاتر قرار نہ دیا جائے موجودہ پاکستانی قانون میں صدر وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور گورنر وغیرہ پر عام آدمی فواجداری مقدمہ دائر نہیں کرسکتا[89]۔ ایسے قوانین میں درستگی کی جائے۔

 

3۔ ملک میں قرآن و سنت کو سپریم لا کا درجہ دیا جائے۔یہ قانون منظور کیا جائے کہ دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔

 

4۔ ہر سطح کے ججوں کے لیے قرآن و سنت اور پرانے اسلامی فیصلوں کی تدریس کا مناسب بندوبست کیا جائے۔

 

سیاسی نظام کے لیے معاشی استحکام:

انسان کی اولین ضروریات اس کی معیشت سے شروع ہوتی ہیں ۔حضرت آدم علیہ السلام

 

کے وقت سے ہی اللہ تعالی نے ان بنیادی ضرورتوں کے متعلق فرمایا کہ:

 

’’إِنَّ لَکَ أَلَّا تَجُوعَ فِیْہَا وَلَا تَعْرَی۔ وَأَنَّکَ لَا تَظْمَأُ فِیْہَا وَلَا تَضْحَی‘‘[90]

 

ترجمہ: ’’بلاشبہ تمہارا یہ حق ہے کہ تم یہاں نہ بھوکے رہوگے اور نہ ننگے اور یہ کہ تم نہ پیاسے رہواور نہ ہی بھوک کی تپش اٹھاؤ۔‘‘

 

قومی استحکام و عدم استحکام میں ان کی معیشت نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔علمی و سائنسی میدان میں بھی وہی قومیں عروج پر پہنچتی ہیں جن کی معیشت مستحکم اور خوشحال ہو وگرنہ بری معیشت انسان کو اپنے اللہ سے بھی دور کردیتی ہے۔

 

سیاسی نظام کے لیے خارجی امن واستحکام:

ریاست کے داخلی استحکام کو بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات سے مدافعت کا انتظام بھی ضروری ہے۔بیرونی

 

خطرات سے نمٹنے اور جنگ کو کم کرنے کا ایک عام طریقہ یہ ہے کہ فنون حرب میں اتنی ترقی کی جائے کہ دشمن کو حملہ کرنے کی ہمت ہے نہ ہو۔ سیرت سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جدید ہتھیار حاصل کیے اور استعمال بھی فرمائے۔آپ نے ﷺ نے مخالفین کی دشمنانہ سرگرمیوں کی اطلاع حاصل کرنے کے لیے جاسوسی کا صحیح انتظام فرمارکھا تھا[91]۔خارجی امن و استحکام کے سلسلے کی ایک اہم کڑی آپ ﷺ کے وہ معاہدے تھے جو آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کے قیام کے فورا بعد کیے[92]۔سیرت کے ذخائر سے ثابت ہے کہ دشمن کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کے میں اہم قبائل سے امن معاہدے کیے یہ معاہدے اسلامی ریاست کے خارجی استحکام میں بہت کارگر ثابت ہوئے[93]۔دفاعی سلامتی کے لیے حکومت کو نہ صرف جدید ہتھیار حاصل کرنے چاہیءں بلکہ ان کا ملک کے اندر بھی تیار کرنا ضروری ہے ۔ملکی سیکرٹ سروس کو سیاسی اثرات سے بچاکر پیشہ ورانہ مقاصد کے لیے فعال بنایا جائے۔[94]

 

علاقائی عصبیت کو ختم کرنا:

ملکی استحکام کے لیے علاقائی اور قبائلی عصبیت سم قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسا معاشرہ مسلسل طبقاتی کشیدگی اور انار کی زد میں رہتا ہے جہاں کسی بھی سطح پر تعصب روا رکھا جاتا ہو، خاص کر جب یہ تعصب باہمی اور ریاستی معاملات میں درانداز ہو جائے تو اس کا نتائج نہایت مہلک اور دور رس ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قبائلی علاقائی تفریق کا رویہ ارشاد فرما کر بند کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت اور شرف کا مدار تقویٰ پر ہے، قوم و قبائل نہیں۔ ارشاد ہے: 

 

’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ‘‘[95]

 

ترجمہ: ’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے، یقیناًاللہ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے۔‘‘

 

اس ارشاد میں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قوم و قبائل کی تقسیم صرف باہم متعارف ہونے کے لیے کی گئی۔ اس کو عصبیت کی

 

بنیاد بنانا درست نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بھیاس کی سنگینی کی پیش نظر اس پر اپنی توجہ مرکوز کی اور مدینہ منورہ میں ہی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد سب سے پہلے انصار و مہاجرین کے مابین رشتہ مواخات قائم کر دیا، جو اپنے بعض احکامات اور ان انصارو مہاجرین کے مابین مثالی تعلقات کی وجہ سے نسبی تعلقات پر بھی فوقیت رکھتا تھا۔ ورنہ انصار ومہاجرین کے قبائلی پس منظر کو دیکھتے ہوئے ان کے مابین کسی بھی موقع پر اختلافات کا خدشہ موجود تھا۔ اس رشتے نے جس کی بنیاد صرف مذہب پر قائم ہوئی، تاریخ انسانیت میں نیابات رقم کیا۔اس کے باوجود جب کبھی کسی جانب سے مغایرت یا تفریق کی آواز بلند ہوئی آپ ﷺ نے اس کو فوراً سدباب کیا۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوۂ میں ایک مہاجر صحابیؓ نے ایک انصاریؓ کو تھپڑ مارا۔ انصاری نے کہا یا للاانصار، اور مہاجر نے اس کے جواب میں یاللمہاجر کی صدا لگائی (قریب تھا کہ دونوں میں تلوار چل جائے) آنحضرتﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجر نے انصاری کو تھپڑ مار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح کی پکار چھوڑ ویہ نہایت ناگوار بات ہے[96]۔یوں ایک بے مقصد مگرنہایت ضرر رساں لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ہمارے وطن پاک کے موجودہ حالات کے حوالے سے اس روایت میں راہنمائی کا بہت سامان موجود ہے۔ اگر ہم اپنے وطن کو ہر قسم کی عصبیت و تعصب سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو اس حدیث شریف کی روشنی میں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ وطن عزیز اس وقت جس آزمائش سے دو چار ہے اس سے نکلنے کے لیے ہم سب کو اپنی ذاتی و شخصی خواہشات اور گروہی مفاد کو ملکی مفاد پر قربان کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے تمام طبقات میں اتفاق و اتحاد کا احساس پیدا ہو اور ایسا کوئی قدم ہر گزنہ اٹھایا جائے جس سے کسی امتیاز یا تعصب کو بو آتی ہو۔

 

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیںکیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

 

مذہبی تفرقہ بازی سے گریز:

دوسری چیز جس سے ملک و ملت کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہے مذہبی فرقہ واریت ہے اور امت آج اسی صورت حال سے دوچار ہے جو دور جاہلیت میں تھی کہ اس وقت ہر مذہبی گروہ وہ اپنے آپ کو حق کا علمبردار اور مخالف گروہ کو حق سے منحرف خیال کرتا تھا [97]۔اور ’’ لیس علینا فی الامیین سبیل‘‘[98]فریق مخالف پر ہر قسم کے ظلم و تشدد، بد دیانتی اور بد اخلاقی کو جائز خیال کرتا تھا ۔ آج بھی مسلمانوں کے مختلف مذہبی گروہ اور جماعتیں اپنے آپ کو حق کا اجارہ دار سمجھ کر مذہب کی حقیقی روح کو فراموش کر کے اپنی تمام تر مساعی اپنے مخصوص نظریات اور فروعی مسلک کی ترویج اور اشاعت میں لگا رہی ہے۔اس سلسلے میں سب و شتم ٗ طعن و تشنیع طنز و وتعریض اور لڑائی جھگڑوں تک سے گریز نہیں کرتیں ۔ اور یہ بھلا بیٹھی ہے کہ یہ ان کا رویہ پیغمبرانہ طرز عمل اور قرآن حکیم کی واضح ہدایات کے سراسر خلاف ہے ۔قرآن حکیم آنحضرت ﷺ کی نرمی اور ملاطفت کی تعریف کرتے ہوئے بتاتا ہے کہاگر آپ سخت دل اور تند خو ہوتے توکفار آپ کے قریب بھی نہ پھٹکتے بھاگ جاتے[99] ۔وہ تو حکمت اور موعظہ حسنہ کا درس دیتا ہے[100]۔ اور کافروں اور مشرکوں کو بھی سب و شتم سے منع کرتا ہے [101]۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کو تقسیم کر کے ان کی توانائیوں کو لڑائی جھگڑوں اور فسادات کی نظر کردیا ہے اور دشمنان اسلام تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ذہنی اور علمی توانیاں ٗ کفر و الحاد کا مقابلہ کرنے اور ملک و ملت کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسلکی اور فروعی مسائل پر جھگڑنے میں صرف ہوجائیں اور وہ اس جھگڑوں کی آڑ میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں مشغول ہیں ۔اس لیے مذہبی جماعتوں کا اپنے اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے مشترکہ اصولوں کی بنیاد پر اتحاد وقت کا اہم تقاضا ہے۔اختلاف رائے اگرچہ ایک طبعی اور فطری امر ہے یہ معیوب نہیں بلکہ امت کی فکری بیداری پر دلالت کرتا ہے مگر اس کی بنیاد پر تفرقہ بازی ٗ تنظیم سازی اور مناظرہ بازی ملک و ملت میں انتشار کا ذریعہ بنتی ہے۔اسی لیے آنحضرت ﷺ کو تفرقہ بازوں سے قطع تعلقی اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔’’ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ ‘‘[102]

 

فرقہ بندی کاتوڑ قرآن مجید کی تعلم کے ذریعے ممکن ہے۔مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کراچی ۱۹۴۳ء میں قائد اعظم نے فرمایا: وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جن پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگڑ ہے جس سے ااس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟وہ رشتہ، وہ چٹان ۔وہ لنگڑ قرآن مجید ہے۔ مملکت پاکستان کو ریاست مدینہ سے ایک خاص تعلق ہے اس لیے اس کی ترقی اور بقاء بھی ریاست مدینہ کے سربراہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہی عبارت ہے۔

 

اقرباء پروری کا خاتمہ:

ظلم و ناانصافی کی ایک صورت اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے اپنے اقارب کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا اور انہیں بے جا مراعات سے نوازنا ہے۔اسلام اسے عدل و مساوات کے منافی سمجھتے ہوئے سختی کے ساتھ اس سے منع کرتا ہے۔حضرت عمرؓ کے صاحبزادے ایک بار مصر گئے تو وہاں کے گورنر عمروبن العاص کو حضرت عمرؓ نے خط لکھا کہ ’’خبردار ! میرے خاندان کا کوئی آدمی اگر تمھارے پاس آئے تو نہ اسے تحفہ دینا نہ سوغات، نہ اس کے ساتھ خصوصی اور امتیازی برتاؤ روا رکھنا[103]۔بعض اوقات تعلقات یا رشتہ داری کی بنیاد پر مستحق کو محروم کر کے غیر مستحق کو نوازا جاتا ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ملک کے اہم انتظامی عہدوں پر جو جماعت بھی برسراقتدار آتی ہے مستحق لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لوگوں کا محض ذاتی تعلقات یا جماعتی وفاداریوں کا لحاظ کر کے تقرری کرتی ہے، اس سے نفرت و تعصبات کو جگہ ملتی ہے، احساس محرومی بڑھتا ہے اور انتقامی جذبات فروغ پاتے ہیں ۔آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: جو کوئی مسلمان کا حاکم مقرر ہو اور وہ کسی کو اہلیت اور استحقاق کے بغیر (دوستی اور تعلق کی بنیاد پر) کسی عہدے پر فائز کردے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔اللہ تعالی اس کا عذر قبول نہ کرے گا حتی کہ اسے جہنم میں داخل کردے گا‘‘[104]

 

 

دھرنوں، احتجاج، محاذ آرائی کی سیاست سے اجتناب:

ایک اسلامی ریاست میں سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف کی بنا پر سیاسی جماعتوں کی گنجائش موجود ہے۔جب وہ شریعت کی حدود میں عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ اور ملکی استحکام پر مبنی منشور رکھتی ہوں اور ان کی جد و جہد اسلامی طرز حکومت کے قیام میں معاون ہو۔لیکن اگر ان کا وجود ذاتی مفادات کی خاطر ہو تو اسلام اس طرح کی بے مقصد گروہ بندی کی سخت مخالفت کرتا ہے کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے انتشار، محاذ آرائی اور باہمی تعصب کے کچھ نہیں نکلتا۔اس قسم کی جماعتیں اقتدار سے محروم ہونے کی صورت میں اقتدار کو ہر صورت میں حاصل کرنے اور جذبہ انتقام سرد کرنے کے لیے بیجا تنقید، احتجاج، ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے انتشار پیدا کرتی ہیں اور ملکی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں یہ طریقہ کار آنحضرت ﷺ کی ہدایت کے سراسر خلاف ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

 

’’لا تسبوا الولاۃ فانھم ان احسنوا کان لھم الاجر وعلیکم الشکر وان اساؤ فعلیھم الوزر وعلیکم الصبر‘‘[105]

 

ترجمہ: ’’ حاکموں نہ کوسو، کیونکہ اگر وہ نیکی کرتے ہیں تو ان کو اجر ہے اور تمہارے لیے موقع شکر اور اگر وہ برائی کریں تو ان کی گردن پر بوجھ اور تمھارے لیے موقع صبر ہے‘‘۔

 

احتجاجی سیاست کا یہ رویہ ان احادیث کے بھی سراسر خلاف ہے جن میں ’’سمع و طاعت‘‘ کی زیادہ سے زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر کوئی ایسا حاکم بنادیا جائے جس کا سر خشک انگور اور کشمش کی طرح ہو‘‘اس لیے موجودہ سیاست کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو منفی کردار کی حامل ہوں ٗ ملک کے اساسی نظریات کی مخالف ہوں، ان کا منشور اور دستور اسلام کے منافی ہو جو اسلام اور ملک دشمن طاقتوں سے سرمایہ وصول کرتی ہوں اور فرقہ وارانہ تعصب پھیلاتی ہوں ان پر پابندی لگائی جائے۔ مثبت سوچ رکھنے والی جماعتوں کے لیے ایسا ضابطہ اخلاق بنایا جائے جس سے سیاسی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو۔[106]

 

خلاصہ کلام:

جب کبھی عوام تنگ آکر گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کرتے ہیں تو پاکستان کا مراعات یافتہ طبقہ انہیں جمہوریت کے نام پر جھوٹی تسلیوں سے اور جمہوریت کے نام پر تھپکی دے کر سلا دیتا ہے۔ حالانکہ ایسی جمہوریت حقیقت میں ’’منتخب آمریت‘‘ کا دوسرا نام ہوتا ہے جس میں ہر دفعہ استحصالی طبقے کی اکثریت حکومت پر قابض ہو جاتی ہے۔ اس افسوس ناک صورت حال کی ذمہ داری پاکستان کے متوسط طبقے پر عائد ہوتی ہے جو نہ خود خواب خرگوش سے جاتنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی عوام کو جگانے کا اپنا روایتی رول ادا کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی صورت حال کی اپنے اس شعر میں تشریح کی ہے۔

 

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہاکارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

 

اگر پاکستانی قوم نے حالات اور واقعات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش نہ کی اور اپنی حالت کو جوں کا توں رہنے دیا تو پھر

 

جمہوریت اور قومی فلاح پہلے کی طرح ایک سراب ہی بنی رہے گی۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی جمہوریت کا نفاذ پاکستا ن کا ہدف قرار پائے اور اس کے لیے ہمیں اس یقین کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کہ اسلامی جمہوریت میں بندوں کو گننے کے ساتھ ساتھ بولنے کی بھی پور گنجائش ہے اور تولنے کا پیمانہ صرف ’’ تقویٰ‘‘ لیکن اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے:

 

ابھی تو حسن ازل کا سنورنا باقی ہے

 

ابھی تو عشق کا جاں سے گزرنا باقی ہے

 

ابھی تو مہرترقی ابھرنا باقی ہے

 

ابھی تو کام بہت ہے جو کرنا باقی ہے

 

آج سے پندرہ سوہ سال پہلے اسلام ہمیں بہترین سیاسیات بہترین نظام حکومت دے چکا ہے ۔نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اْمت کو عدم سے وجود میں لاکر اور اْسے کمال کے درجوں پر پہنچا کر دکھایا۔ پھر اس اْمت کی روشنی پھیل گئی۔ اس کے اصولوں نے دنیا کی قیادت کی اور تین براعظموں پر اس کی حکمرانی کا دور دورہ رہا۔ یہ سب کچھ صرف ۳۰برس سے بھی کم عرصے میں ہوا۔ اس کے بعد اس اْمت کا نور مزید پھیلااور مشرق و مغرب کی تمام تر انسانیت کو منور کرتا رہا۔ یہ نور یورپ پہنچا تاکہ اْسے قرونِ وسطیٰ کے اندھیروں سے نکال کر تہذیب و تمدن کی روشنی میں کھڑا کردے۔ تہذیب و تمدن کی یہ روشنی اسلامی تہذیب کے گہوارے اندلس کے توسط سے بلادِغرب کو نصیب ہوئی۔ اس بات کی شہادت مشرق و مغرب کے تمام انصاف پسندوں نے دی ہے۔ رسول کریم حضرت محمد ﷺ نے روح اور جسم کے درمیان عادلانہ توازن قائم فرمایا، تاکہ انسان کو نفسیاتی سکون مہیا ہوسکے۔

 

اسی بنا پر انگریز مؤرخ ولیم میور نے اپنی کتاب Life of Muhammadمیں کہا ہے: ’’محمد ﷺ اپنی بات کے واضح ہونے اور دین کے آسان ہونے کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے کاموں کو ایسے مکمل کر دکھایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تاریخ نے کوئی ایسا مصلح نہیں دیکھا جس نے اتنے مختصر عرصے میں اس طرز پر دلوں کو بیدار کیا ہو، اخلاق کو زندگی بخشی ہو اور اخلاقی قدروں کو بلندتر کردیا ہو، جس طرح پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ نے کرکے دکھایا‘‘۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردےدھر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کردے

حوالہ جات

  1. طارق وحید بٹ، نیو ورلڈ آرڈر، اسلام اور پاکستان، لاہور، فکشن ہاؤس، 1998ء، ص 34
  2. علامہ محمداقبال، کلیات اقبال، لاہور، علم و عرفان پبلیشرز
  3. ڈاکٹر محمد صدیق شاکر، انصار کا ایثار، لاہور، ادارہ اسلامیات، 2003ء، ص 87
  4. مفتاحی ندوی، محمد ظفیر الدین، اسلام کا نظام کا امن، کراچی، 1991ء، ص 67
  5. شاہین قیصرانی، ڈاکٹر محمد اشرف، استحکام پاکستان کے لیے بہترین رہنمائی، ، اسلام آباد، وزارت مذہبی امور اسلام آباد، 1998ء، ص 207
  6. علامہ محمداقبال، کلیات اقبال، لاہور، علم و عرفان پبلیشرز
  7. مجمع الزوائد، باب حق الرعیتہ و النصح لہا، ج5، ص311
  8. الامیر راع علی الناس و مسؤل عن رعیتہ الخ، مجمع الزوائد و منبع الفوائد عن انس، ج5، ص207
  9. حامدانصاری، اسلام کا نظام حکومت، لاہور، الفیصل ناشران، 1999ء، ص 97
  10. دیکھیں کتاب المغازی و السیر، ج6، ص 214
  11. حامدانصاری، اسلام کا نظام حکومت، ص98
  12. یوسف القرضاوی، سیاسی اور غیر سیاسی اسلام کی بحث، لاہور، ادارہ معارف اسلامی، 2008ء، ص7
  13. الشوریٰ / آیت نمبر 38
  14. ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، ج 6، ص301
  15. محمد وقاص، اسلامی تصور ریاست، لاہور اسلامک پبلی کیشنز، 2000ء، ص 53
  16. الیوسف /آیت نمبر40
  17. آل عمران154: 3
  18. النحل / آیت نمبر 116
  19. المائدہ44: 5
  20. الانعام50: 6
  21. النساء 64: 4
  22. الانعام90: 6
  23. آل عمران79: 3
  24. سید ابو الاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز، 2010ء، ص 118
  25. علامہ محمداقبال، کلیات اقبال، لاہور، علم و عرفان پبلیشرز
  26. النساء 54: 4
  27. تفسیر مظہری، (النساء) ، ج2، ص144
  28. الانبیاء/آیت نمبر105
  29. المریم/آیت نمبر40
  30. یہ ہدایت صحیح بخاری کتاب العلم میں ہے۔
  31. النساء 58: 4
  32. یہ درایت بیہقی نے شعب الاایمان میں نقل کی ہے
  33. http: //www. minhaj. info/mag/index. php?mod=mags&month=2015-03&article=6&read=txt&lang=ur
  34. علامہ محمداقبال، کلیات اقبال، لاہور، علم و عرفان پبلیشرز
  35. مفتی محمد تقی عثمانی، اسلام اور سیاسی نظریات، کراچی، مکتبہ معارف القران، 2010ء، ص25
  36. ایضاً
  37. ایضاً، ص11
  38. ایضاً، ص29
  39. ایضاً، ص31-32
  40. ایضاً، ص33-34
  41. ایضاً، ص64
  42. علامہ محمداقبال، کلیات اقبال، لاہور، علم و عرفان پبلیشرز
  43. مفتی محمد تقی عثمانی، اسلام اور سیاسی نظریات، ص87
  44. حامدانصاری، اسلام کا نظام حکومت، ص43-44
  45. http: //algazali. org/index. php?threads/1314
  46. مفتی محمد تقی عثمانی، اسلام اور سیاسی نظریات، ص81
  47. ڈاکٹر محمد اعظم چوہدری، سیاسیات نظریات اور اصول، کراچی، غضنفر اکیڈمی، 2003ء، ص280
  48. علامہ محمداقبال، کلیات اقبال، لاہور، علم و عرفان پبلیشرز
  49. افضل توصیف، الیکشن، جمہوریت اور مارشل لاء، کراچی، نعمان اکیڈمی، 2011ء، ص 54
  50. ابن خلدون، مقدمہ ابن خلدون، مصر، ص 101
  51. حامدانصاری، اسلام کا نظام حکومت، ص199
  52. ایضاً
  53. کلیات ابو البقاء، ص374
  54. ڈاکٹر محمد اعظم چوہدری، سیاسیات نظریات اور اصول، ص20
  55. ایضاً، ص21
  56. ایضاً، ص21
  57. ایضاً، ص22
  58. پاکستان کے قومی مسائل تجزیہ اور حل، خرم مراد، لاہور، منشورات، 2011ء، ص151
  59. ایضاً، ص152
  60. الروم / آیت نمبر 32
  61. الفاطر/ آیت نمبر 8
  62. محمد / آیت نمبر 14
  63. الروم / آیت نمبر 41
  64. خرم مراد، پاکستان کے قومی مسائل تجزیہ اور حل، ص167
  65. ڈاکٹر سعید احمد صدیقی، پاکستان کے مسائل اور درپیش چیلنجز، اسلام آباد، وزارت مذہبی امور اسلام آباد
  66. سنڈے میگزین، لمحہ فکریہ، روزنامہ جنگ، 14 جنوری 2014ء
  67. www. transparency. org. pk
  68. برائے تفصیل دیکھیے مختلف اردو اخبارات بتاریخ دسمبر 2012
  69. عامۃ کتب سیرت ابن ہشام، ابن کثیر، ابن سعد وغیرہ
  70. ابن سعد: الطبقات الکبری، بیروت1960ء، ج۱، ص202
  71. ڈاکٹر حمیداللہ، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، کراچی، ص244
  72. قد اعطیت مفاتح الخزائن، صحیح بخاری، طبع دہلی، ج2، ص951
  73. الماوردی، اعلام النبوۃ، مصر، ص211
  74. مشکوۃ المصابیح، طبع سعیدکمپنی، کراچی، ص442
  75. جامع ترمذی، نورمحمد اصح المطابع، کراچی، ص340
  76. اقبال، کلیاتِ اقبال، ص271
  77. صحیح مسلم، کراچی، باب کراھۃ الامارۃج2، ص12
  78. الانفال: 27
  79. ابن تیمیہؒ، سیاست الہیہ، لاہور، طبع اول، ص117
  80. جامع ترمذی، کتاب الاحکام ص210
  81. امام ابی یوسف، کتاب الخراج لامام ابی یوسف، ص116
  82. ابن ہشام، سیرت ابن ہشام، ص501-504
  83. ڈاکٹر حمید اللہ، مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ، دستور مدینہ
  84. النساء135: 4
  85. المبسوط للسرخسی، ج6، ص59
  86. مصنف عبدالرزاق، طبع بیروت 1972ء، ج 9، ص469
  87. کنزالعمال، طبع بیروت، ص۶۶۲ /مزید مثالوں کے لیے ملاخطہ ہو ج12، ص659/ج13، ص83
  88. الشوریٰ/آیت نمبر 5 /سورہ ۱ المائدہ42: 5
  89. فاروق اکٹر نجیب، دستور پاکستان، لاہور، س ن، ص453
  90. طہ/آیت نمبر118-119
  91. ڈاکٹر حمید اللہ، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی
  92. سیرت ابن ہشام: ج 2، ص318
  93. ابن سعد، طبقات، ج 1، ص271
  94. سید عزیز الرحمن، استحکام پاکستان کے لیے بہترین رہنمائی، اسلام آباد، وزارت مذہبی امور، 1998ء، ص 89
  95. الحجرات: 13
  96. صحیح بخاری، ج3، ص145
  97. البقرۃ113: 2
  98. آل عمران75: 3
  99. آل عمران159: 3
  100. النحل/آیت نمبر 125
  101. الانعام109: 6
  102. آل عمران103: 3
  103. تاریخ طبری ج4، ص249
  104. مسند احمد بن حنبل، ج1، ص6
  105. ابن طقطقی: ’’الفخری‘‘ اردو ترجمہ جعفر شاہ پھلواری، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، 1981ء ص38
  106. بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...