Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

عصر حاضر میں مسلمانوں کی سیاسی ابتری اور اس کا تدارک: سیرتِ طیبہﷺ کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

تمہید وتعارف:

یہ بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام میں رہبانیت اور دنیا سے لاتعلقی کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اسلام ایک ہمہ گیر نظام کا حامل مذہب اورقانونِ حیات ہے، جس کا تعلق زندگی کے ہر انفرادی اور اجتماعی شعبے سے ہے، اور زندگی کے کسی بھی شعبے کا کوئی گوشہ اسلامی تعلیمات کے حدود سے باہر نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اقوال و افعال سے زندگی کے ہر شعبے کے لئے راہنمائی کا بھرپور سامان فراہم کیا ہے۔ جنہیں سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارنا دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی جامع تعلیمات جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے لئے بہترین لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں وہاں ملکی نظام چلانے، حکمرانی اور سیاست کے حوالے سے بھی ابدی ہدایات فراہم کرتی ہیں، جن پر عمل کرنے سے نہ صرف امتِ مسلمہ مسائل کے دلدل سے نکل سکتی ہے، بلکہ ترقی کے اعلیٰ منازل طے کرکے دنیا کے سامنے ایک مثالی حیثیت حاصل کر سکتی ہے۔

 

جب سے مسلمان سیاسی طور پر زوال پذیر ہو چکے ہیں تب سے مسلمانوں نے معاملات اور ملکی و قومی مسائل جیسے اہم شعبوں میں قرآن وسنت کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور بہت سارے لوگوں نے اسلام کو عقائد و عبادات تک محدود کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان بحیثیتِ قوم مزید پستی اور زوال کے شکار ہیں۔

 

زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست و حکمرانی کے اہم ترین مسئلے میں بھی ہم اسلامی تعلیمات سے پہلو تہی کئے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا ہی میں ذلت و ناکامی ہماری مقدر بن چکی ہے، عالمی سطح پر مسلمانوں کی حیثیت روز بروز کم ہوتی جارہی ہے، یہاں تک کہ ان کے کسی مطالبے کو درخورِ اعتناء بھی نہیں سمجھا جاتا۔ جس کی اصل وجہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور تعلیمات سے روگردانی، ملکی و ملی مسائل میں دینی احکام سے بے اعتنائی اور باہمی اختلاف و افتراق ہے۔ زیرِ نظر مقالہ میں مسلمانوں کی موجودہ ابتر سیاسی صورتحال کے اسباب و محرکات اور اس کے تدارک کا سیرتِ طیبہ کی روشنی میں جائزہ لینا مقصود ہے، تاکہ مسلمانوں کی موجودہ سیاسی ابتری کےتدارک میں ممد و معاون ہو اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی ترقی و کامیابی کے اسباب کی نشاندہی کی جا سکے۔

 

رسول اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور تعلیمات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی برتری اور ترقی کا اصل دارومدار حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کارکردگی اور اعلیٰ اخلاق و صفات سے مزین ہونے پر ہے، جب تک مسلمان حکمران سیرتِ طیبہ کو اپنانے سے پہلو تہی کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ نہ دنیا میں ترقی پا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے ملک امن و امان اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جب بھی کسی کا انتخاب فرمایا تو اس کی صفات و کارکردگی کو بنیاد بنا کر اس کو مسلمانوں کے امور و معاملات کی قیادت سونپی۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آج اکثر مسلم ممالک کے اربابِ سیاست ان صفات و اخلاق سے تہی دامن نظر آتے ہیں، اور رسول اللہ ﷺ نے ملکی سیاست اور قیادت کے ذمہ داران کے جو فرائض بیان فرمائے ہیں ان سے بھی پہلو تہی کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے امتِ مسلمہ روزبروز روبہ زوال اور تنزل کا شکار ہے۔ ذیل میں مسلمان کی سیاسی ابتری کے چند اہم اسباب کو سیرتِ طیبہ کی روشنی میں مختصراً پیش کیا جاتا ہے:

 

1: بزدلی اور مرعوبیت

آج مسلمان حکمرانوں اور سیاستدانوں کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت غیروں سے مرعوب ہے، چنانچہ ان کے اکثر فیصلے اور اقدامات آزادانہ نہیں ہوتے بلکہ غیروں کے دباو یا لالچ میں آکر ملکی و قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ملکی و قومی فیصلے ہوتے ہیں۔ غیرمسلموں سے مرعوبیت اور ذہنی غلامی کا نتیجہ ہے کہ مسلم ممالک کی اکثر پالیسیاں غیروں کے اشاروں کی تابع ہوتی ہیں۔ نصاب و نظامِ تعلیم جو کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی اکثر اسلامی ممالک اپنی مرضی سے طے نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے منشاء اور مطالبے کے مطابق نصابِ تعلیم تشکیل پاتا ہے، جس کا خمیازہ قوموں کو سالہا سال تک بھگتنا پڑتا ہے۔

 

سیرتِ طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے لئے بزدلی اور مرعوبیت زہرِ قاتل ہے اور شجاعت و بہادری بنیادی صفت اور لازمی امر ہے۔ بزدل شخص کبھی بھی مسلمانوں کی حکمرانی اور قیادت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے اس کی وضاحت ملتی ہے چنانچہ آپ ﷺ نے دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہنے اور بہادری کے جوہر دکھانے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشادفرمایا ہے:

 

لا تتمنوا لقاء العدو فإذا لقيتموهم فاصبروا[1]

 

ترجمہ: دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو، لیکن جب آمنا سامنا ہو جائے تو ثابت قدمی اختیار کرو۔

 

رسول اکرم ﷺ بذاتِ خود مسلمانوں کے حکمران اور قائد تھے اور آپؒ نے ہر موقع پر شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات اہلِ مدینہ کسی خطرے کی آواز سے گھبرا کر اس آواز کی طرف نکلے تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر سوار گلے میں تلوار لٹکائے خطرے کا جائزہ لیکر واپس تشریف لا رہے ہیں، اور فرما رہے ہیں: گھبراو مت، گھبراو مت۔[2]

 

علامہ ماوردیؒ نے بھی مسلمانوں کی قیادت و حکمرانی کی شرائط کے ضمن میں بہادری کو بطورِ خاص ذکر کیا ہے آپؒ فرماتے ہیں:

 

الشجاعة والنجدة المؤدية إلى حماية البيضة وجهاد العدو[3].

 

ترجمہ: حکمرانی کے لئے لازمی امر شجاعت اور بہادری ہے جو ملک کی حفاظت اور دشمن کے خلاف جہاد کا باعث ہے۔

 

اس شرط کی اہمیت ہر زمانے میں رہی ہے مگر عصرِ حاضر میں اس کے فقدان کے خطرناک اثرات کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک کے سربراہان غیروں کی مرعوبیت کی وجہ سے راتوں رات اپنی پالیسیاں تبدیل کرتے ہیں، جن کے منفی اثرات سے برسہا برس ملک و ملت چٹکارا نہیں پاتے۔ اللہ تعالیٰ مسلم امت اور حکمرانوں و قائدین کے دلوں میں دینی حمیت و غیرت اور شجاعت و بہادری پیدا فرمائے۔ اور دشمنانِ ملک و ملت کے شرور سے امتِ مسلمہ کو محفوظ فرمائے۔

 

2: افتراق و انتشار

عصرِ حاضر میں مسلمان باہمی افتراق و انتشار کے شکار ہیں، ملکی، مسلکی اور طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں مسلمانوں کا شیرازہ بکھر چکا ہے، کئی ممالک میں مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اجتماعی قوت و طاقت کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ حالانکہ مسلمان حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کے لئے کردار ادا کریں اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے ہر ممکن کاوشیں کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے امتِ مسلمہ کو جسدِ واحد قرار دیتے ہوئے ان کی خوشی و غمی کو ایک قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

 

المؤمنون كرجل واحد إن اشتكى رأسه تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر[4]

 

ترجمہ: سارے مسلمان ایک جسد کی طرح ہیں جب اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کا پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

 

ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا[5]

 

ترجمہ: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت (کی اینٹ) کی طرح ہے جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں۔

 

رسول اکرم ﷺ نے خود اپنی سیرت اور عمل سے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے ہیں۔ اور ہر اس عمل سے مسلمانوں کو دور رہنے کی تلقین فرمائی جو مسلمانوں کے اتفاق میں مُخل ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

لولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت الكعبة، ولجعلتها على أساس إبراهيم، فإن قريشا حين بنت البيت استقصرت، ولجعلت لها خلفا[6]

 

ترجمہ: اگر آپ کی قوم (قریش) کا کفر چھوڑنے کا عرصہ قریب نہ ہوتا (یعنی وہ اب قریب ہی اسلام لائے ہیں) تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر بنا لیتا، کیونکہ قریش نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اخراجات کی کمی کے باعث اس کو پورا نہ بنا سکے، اور میں پچھلی جانب سے اس کا دروازہ بنا لیتا۔

 

بیت اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بناء کے مطابق اپنی اصل حالت پر تعمیر کتنا ہی اہم کام اور بڑی عبادت ہے، مگر رسول اللہ ﷺ نے صرف اس وجہ سے اس عمل کو ترک کیا کہ کہیں نو مسلموں میں افتراق و انتشار پیدا نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلم حکمرانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کی وحدت اور باہمی اتفاق و اتحاد کے لئے کاوشیں کریں، رسول اللہ ﷺ نے جس طرح ساری دنیا کے مسلمانوں کو جسدِ واحد قرار دیا ہے اس کے مطابق حقیقی معنوں میں اس امت کو یک جان بنانے کی کوشش کریں، اور اس کے لئے کسی بھی ممکنہ اقدام اور قربانی سے دریغ نہ کریں۔

 

اسلامی نقطۂ نظر سے اصل تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی دارالاسلام اور ایک ہی اسلامی ریاست ہو تاکہ مسلمانوں کی جمعیت اور قوت برقرار رہے، لیکن اس وقت دنیا میں پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک موجود ہیں، اور موجودہ حالات میں ان سب کو ایک ہی ریاست بنانے میں باہمی جنگ و جدال اور خونریزی کا شدید اندیشہ ہے، اس لئے ہر اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ عالمِ اسلام کے اتحاد کو اولین ترجیحات میں شامل کرے، مسلمان ممالک کے ساتھ بہترین اور خوشگوار برادرانہ تعلقات کو اولیت دے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا حقیقی بھائی بنانے کی کوشش کرے، اس مقصد کے لئے ذاتی اور انفرادی مفادات سے بالاتر ہو کوشش کرے، اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے مطابق عالمِ اسلام کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے بھرپور اقدامات کرے۔

 

3: عوام و رعایا کی خیرخواہی کا فقدان

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے سیاسی مسائل اور المیوں میں سے ایک بنیادی مسئلہ عوام اور رعایا کی خیرخواہی کے فقدان کا ہے۔ اکثر مسلم حکمرانوں کے دلوں میں رعایا کی خیرخواہی کے جذبات ناپید ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی روشنی میں سیاسی قائدین اور حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں اس امر کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں اور عوام کے ساتھ خیرخواہی اور بھلائی کا معاملہ کریں گے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک، نرمی اور اچھائی کا معاملہ کریں گے، ان سے ہر قسم کے مصائب دور کرنے اور ہر ممکنہ آرام و راحت پہنچانے کے لئے اقدامات کریں گے۔

 

سیرتِ طیبہ کی روشنی میں حکمرانوں کے ذمے لازم ہے کہ کمزور طبقات، خواتین، معذورین، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مناسب انتظامات کریں۔

 

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور سیرت اس سلسلے میں مسلم قائدین کی بہترین راہنمائی کرتے ہیں، اور انہیں بہترین لائحہ عمل اور طرزِ حکمرانی فراہم کرتے ہیں، اگر آپ ﷺ کی ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ہمارے حکمران غیروں کے طرزِ عمل اور طریقوں سے بے نیاز ہو جائیں گے بلکہ پوری دنیا کے لئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل بھی بن جائیں گے۔ آپ ﷺ کی عادتِ مبارکہ بیان کرتے ہوئے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 

كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إذا بعث أميرا على جيش أوصاه في خاصة نفسه بتقوى الله ومن معه من المسملين خيرا[7]

 

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو کسی جماعت کا امیر (سربراہ) بنا کر بھیجتے تو اسے اپنی ذات کے متعلق تقویٰ کی وصیت فرماتے اور دیگر مسلمانوں کے متعلق خیر خواہی اور بھلائی کی وصیت فرماتے۔

 

رسول اللہ ﷺ کی اس مبارک عادت میں مسلمان سربراہوں کے لئے بہترین اسوہ اور ہدایت کا سامان ہے کہ انہیں خود تقویٰ اور خوفِ خدا اپنانے کے ساتھ اپنے ماتحتوں کے ساتھ خیرخواہی اور بھلائی کا معاملہ کرنا چاہئے۔ ابو مریم ازدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر ان سے کہا کہ میں آپ کو ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

 

من ولاه الله عز وجل شيئا من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب الله عنه دون حاجته وخلته وفقره ». قال فجعل رجلا على حوائج الناس[8].

 

ترجمہ: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے امور کا نگران بنا لیا (حکمران اور سربراہ بن گیا) اور اس نے ان کی حاجت پوری کرنے اور فقر و فاقہ دور کرنے سے منہ موڑ لیا تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کی حاجت روائی اور فقر دور کرنے سے منہ موڑ لیں گے۔ یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی حاجات کے لئے ایک شخص کو مقرر کیا۔

 

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:

 

ما من رجل يسترعى رعية يموت حين يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة[9].

 

ترجمہ: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگہبان مقرر کیا اور اس کو اس حالت میں موت آ گئی کہ وہ اپنی رعایا کو دھوکہ دینے والا ہوتو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیں گے۔

 

اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے ظالمانہ ٹیکسوں اور عوام پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا ہے جو اس امر کی واضح دلیل ہے کہ حکمرانوں کے ذمے لازم ہے کہ اپنی رعایا کے ساتھ حسنِ سلوک اور خیرخواہی کا معاملہ کریں اور انہیں ہر ممکن آرام اور راحت پہنچانے کی کوشش کریں۔

 

4: احتساب کا فقدان:

انفرادی اور اجتماعی ترقی اور کامیابی کے لئے احتساب لازمی اور ضروری امر ہے، احتساب خواہ افراد میں ہو یا اقوام اور جماعتوں میں، ہر دو کے لئے ترقی کا زینہ ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ آج کے دور میں نہ افراد کی توجہ خوداحتسابی کی طرف ہے اور نہ ہی حکمران اور سیاستدان احتساب کے لئے تیار ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرے میں رشوت، کرپشن، دغابازی اور دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے، بلکہ جو ادارے ان جرائم کی روک تھام کے لئے وجود میں آتے ہیں وہ خود ان گھناونے جرائم میں مبتلا ہوتے ہیں۔

 

رسول اکرم ﷺ کی سیرت سے اس معاملے میں بھی واضح راہنمائی ملتی ہے کہ احتساب ملک و ملت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے خود بھی اس اصول پر عمل فرمایا ہے اور مختلف گورنروں اور عاملین کا احتساب فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ خود بازار میں تشریف لے جا کر وہاں کے احوال دریافت فرما یا کرتے تھے، اور لوگوں کا احتساب فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرتے ہوئے اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈال دیا تو ہاتھ کے ساتھ کچھ نمی سی لگ گئی، آپ ﷺ نے غلے کے مالک سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ) یہ بارش سے بھیگ گیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس من غش فليس مني[10].

 

ترجمہ: آپ نے اس کو غلے کے اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے؟ جس نے ملاوٹ کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔

 

آپ ﷺ کے بعد حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور میں بھی اجتماعی اور انفرادی احتساب کا سلسلہ برقرار تھا جس کی بناء پر معاشرے میں امن و سکون اور محبت و بھائی چارے کی فضاء قائم تھی، جوں جوں یہ سلسلہ کمزور ہوتا گیا معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا، اور معاشرے سے امن و امان رخصت ہونے لگے۔

 

اس لئے آج کے دور میں خود احتسابی کی بھی اشد ضرورت ہے اور حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ یکساں احتساب کے لئے شفاف، منصفانہ اور معیاری نظام بنائے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ ہو سکے اور مثالی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

 

5: قانون کی بالادستی و پاسداری کا نہ ہونا

قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی بھی معاشرہ پائیدار امن اور سکون کا گہوارہ نہیں بن سکتا، جن معاشروں میں قانون کی پاسداری کی جاتی ہے وہاں جرائم اور فسادات انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ اسلام کو اس معاملے میں امتیازی مقام حاصل ہے کہ اسلام نے قانون کے سامنے آقا وغلام، حکمران و رعایا، امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ سب کو مساوی قرار دیتے ہوئے قانون کو سب پر لاگو کیا ہے تاکہ حقیقی انصاف قائم ہو سکے، اور بااثر شخصیات کی بالادستی کا خاتمہ ہو سکے۔

 

موجودہ زمانے میں اکثر ممالک میں امتیازی قوانین پائے جاتے ہیں یا قانون کا استعمال اور اطلاق امتیازی طور پر کیا جاتا ہے، ایسا بہت کم سننے اور دیکھنے میں ملتا ہے کہ حکمران اور عوام قانون کے سامنے یکساں ہوں اور ان کے ساتھ ایک جیسا برتاو کیا جائے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات و ہدایات میں اس بارے میں واضح لائحہ عمل پایا جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں

 

تمام افراد و طبقات مساوی ہیں کسی کو کسی دوسرے پر ادنیٰ فوقیت و برتری بھی حاصل نہیں ہے۔ اسلام نے حقیقی انصاف اور قانون کی نظر

 

میں سب کے برابر ہونے کی تعلیم دی ہے، بارخلافت اٹھانےکےبعدحضرت ابوبکرصدیق ؓ نےاپنےاولین خطبہ خلافت میں فرمایاتھاکہ:

 

ایھا الناس ان اکیس الکیس التقی وان احمق الحمق الفجور، وان اقواکم عندی الضعیف حتی آخذ لہ بحقہ، وان اضعفکم عندی القوی حتی آخذ الحق منہ[11]۔

 

ترجمہ: اےلوگو!سب سےبڑی سمجھداری تقوی ہےاوربڑی نادانی گناہ کاکام ہے۔تم میں جوضعیف ہےوہ میرے نزدیک قوی ہےیہاں تک کہ اس کاحق دلوادوں، اورقوی ضعیف ہےیہاں تک کہ اس سےغریب کاحق لےلوں ۔

 

کیادورحاضرمیں ہمیں ایساقیادت مل سکتاہےجوحضرت صدیق اکبرؓجیسانصب العین اورروشن فکرکاحامل ہو؟یقینامشکل بلکہ ناممکن ہے۔لہذاضرورت اس امرکی ہےکہ قومی قیادت بلاتفریق عوام کی خدمت کواپناشعاربنائیں، امراءکو نوازنےاورغرباءکو مزیدغربت کی چکی میں پیسنے کاجورواج ہمارےہاں عام ہےاسےیکسربدل دیں اورہرایک ذمہ داری کےاحساس کےتحت اپنی خدمت سرانجام دیں۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرت سے قانون کی پاسداری کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 

إنما أهلك الذين قبلكم أنهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وأيم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها[12]

 

ترجمہ: جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں انہیں اس چیز نےہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کردیتے، اللہ تعالیٰ کی قسم اگر محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا۔

 

یہ وہ مثالی انصاف اور قانون کا یکساں اطلاق ہے جو معاشرے میں امن و سکون اور حکومت پر لوگوں کے اعتماد کا ضامن ہے، جس ملک میں ایسا انصاف ہو گا وہاں ترقی، خوشحالی اور برکتوں و رحمتوں کا دور دورہ ہو گا۔ حضرات خلفاء راشدین اور بعد کے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے اس کی عملی مثالیں پیش کی ہیں، جس میں نہ صرف اسلامی حکومت کے سربراہ کو قاضی کے سامنے پیش ہونا پڑا، بلکہ کئی دفعہ ان کے خلاف فیصلے بھی کئے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت امیر المومنین تھے، اس وقت قاضی شریح نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ایک یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ حضرت علی ؓ کی ایک زرہ گم ہو گئی تھی، آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھی جو اسے بیچنا چاہ رہا تھا، جب حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ یہ زرہ میری ہے تو یہودی نے انکار کیا اور کہا کہ یہ میرے قبضے میں ہے اور میری ملکیت ہے۔ چنانچہ معاملہ قاضی شریحؒ کی عدالت میں پہنچا۔ قاضی شریحؒ نے حضرت علی ؓسے گواہ مانگے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک گواہ قنبر کو پیش کیا اور دوسرے گواہ کے طور پر اپنے بیٹے کو پیش کیا۔ قاضی شریحؒ نے فرمایا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے

 

حق میں قبول نہیں ہے۔ چنانچہ آپؒ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ یہ فیصلہ سن کر وہ یہودی اسی وقت مسلمان ہوا[13]۔

 

6: کرپشن و ذخیرہ اندوزی

آج کے حکمرانوں کاطرزعمل یہ ہے کہ وہ حکمرانی یا کسی عہدے کو غنیمت شمارکرتے ہیں اوریہی سوچتے ہیں کہ انہی دنوں میں کئی سالوں کے لیے دولت جمع کرلیں، مال کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قیادت وحکمرانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئےتحفے وتحائف بھی وصول کرتے ہیں اور اسے اپنا حق تصور کرتے ہیں، جو کسی بھی ریاست کے حکمران کے شایان شان نہیں۔یہاں یہ بات ذہن نشین ہو کہ جہاں بھی غربت اورفقرآجائے نابودی بھی حتمی ہے اورغربت معاشرے میں اس وقت آتی ہے جب قیادت وحکمران دولت جمع کرنے میں لگ جائیں اوراپنی قیادت وکرسی کے جانے کا خوف پیدا ہوجائے ۔اسلامی ریاست کے قیادت کے لئے یہ حکم ہے کہ نہ صرف خود سرمایہ ذخیرہ کرنے سے اپنے آپ کو بچائے رکھے بلکہ قیادت ریاست کے دیگرتمام حکام اورذمہ دارافسران وملازمین کےطرزعمل اورکردارکی کڑی نگرانی کرےاوران کےاثاثوں کاجائزہ لیتےرہنا چاہئے، یہ نہ ہو کہ قیادت سےلیکردربان وچوکیدار تک سب بےلگام رہیں اورجس کاجوجی چاہے کرپشن کرنے لگے، اس کا عملی مثال آج کے دور میں ہمارے سامنے عیاں ہے، جس میں قیادت سے لیکردربان وچوکیدارسب دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں ملوث ہیں۔جس کی بناء پر کوئی "پانامہ" کا شکار ہوتا ہے تو کوئی کرپشن کی بناء پر حکمرانی وکرسی سے ہاتھ دھو بھیٹتا ہے۔حالانکہ اسلامی ہدایات سراسر موجودہ دور کے روش سے مختلف ہیں۔فرائض واحتساب میں آپ ﷺ کاسب سے بڑافرض عمال کامحاسبہ تھا، یعنی جب عمال زکواة اورصدقہ وصول کرکےآتےتھےتو آپ ﷺ اس غرض سےاس کاجائزہ لیتےتھےکہ انہوں نےکوئی ناجائزطریقہ تواختیارنہیں کیاہے۔چنانچہ" ایک بارآپ ﷺ نےابن اللتبیہ کوصدقہ وصول کرنےکےلئے مامورفرمایاوہ اپنی خدمت انجام دیکر واپس آئے اور آپ ﷺ نے ان کاجائزہ لیا تو انہوں نےکہا یہ مال مسلمانوں کاہےاوریہ مجھ کوہدیتاً ملا ہے، آپ ﷺ نےفرمایا کہ گھربیٹھےتم کویہ ہدیہ کیوں نہیں ملا؟اس کے بعدآپ ﷺ نےایک عام خطبہ دیاجس میں اس کی سخت ممانعت فرمائی" ۔[14]

 

7: اسلامی تعلیمات سے روگردانی

مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی مکمل کامیابی و کامرانی دینی تعلیمات پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنے میں ہے، جب تک مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں دینی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہوں اس وقت نہ دنیا میں پوری طرح کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں سرخروئی اور نجات کے مستحق بن سکتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں جہاں عوام دینی تعلیمات سے روگردانی کرکے اپنی خواہشات پر عمل پیرا ہیں ان سے کہیں زیادہ حکمران طبقہ دینی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال چکا ہے، بلکہ اکثر اسلامی ممالک کے سربراہان تو اس کو نہ کوئی کام سمجھتے ہیں اور نہ ہی ریاستی معاملات میں اسلامی احکام کی پاسداری کو لازم اور ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بہت سے اسلامی ممالک میں ایسے قوانین رائج ہیں جو اسلامی تعلیمات کے یکسر مخالف ہیں اور مزید اس طرح کی قانون سازی ہوتی رہتی ہے، حالانکہ مسلمان حکمرانوں اور اربابِ اقتدار کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ کوئی قانون بنائیں گے اور نہ ہی لاگو کریں گے، ان کا ہر فیصلہ اور ہر کام شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں ہونا ضروری ہے۔ ریاستی سطح پر دینی تعلیمات سے دوری کے نتیجے میں مسلمان طرح طرح کے مسائل و مصائب سے دوچار ہیں، جن کی پیشن گوئی رسول اکرم ﷺ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

 

لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر، أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم عقابا منه، ثم تدعونه فلا يستجيب لكم[15]

 

ترجمہ: آپ لوگ ضرور نیک کام کا حکم کرو گے اور برے کام سے روکو گے ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی طرف سے عذاب نازل فرمالیں گے، پھر تم اس کو پکارو گے تو وہ آپ کی پکار نہیں سنے گا۔

 

امر بالمعروف و نہی عن المنکر اصلاً حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ آج اسلامی ممالک کے سربراہان بہت سے معاملات میں ایسے احکامات صادر کرتے ہیں جو خود منکر اور ناجائز ہوتے ہیں، دوسروں کو منکرات سے روکنا تو بہت دور کی بات ہے جس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ طرح طرح کے مسائل و مصائب کا شکار ہے، لہٰذا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے اپنے آپ کو بچانے کیلئےکوئی ایسا حکم اور فیصلہ صادر نہ کریں جس میں حکمِ الٰہی کی نافرمانی اور خلاف ورزی ہو۔ یہ چند مسائل مختصراً ذکر کئے گئے ورنہ مسلمانوں کی سیاسی ابتری کے اسباب اور بھی بہت سے ہیں جن کا تذکرہ باعثِ تطویل ہے۔

 

نتائجِ بحث:

1۔رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کو بہترین لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں۔

 

2۔ رسول اللہ ﷺ نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست اور حکمرانی کے لئے بیش قیمت اور زریں ہدایات عطا فرمائی ہیں، جن پر عمل کرنے سے امتِ مسلمہ دوبارہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔

 

3۔قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کے غلبہ اور ترقی کے لئے سب سے بنیادی امر دینی تعلیمات کی پیروی اور مسلمانوں کا باہمی اتحاد و اتفاق ہے جس کے لئے کوشش کرنا اور کردار ادا کرنا مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔

 

4۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہر کس و ناکس کو قومی قیادت کا حق نہیں بلکہ اس کے لئے شریعتِ مطہرہ کی پاسداری، عدل و انصاف، شجاعت و بہادری، قوتِ فیصلہ، علم وفہم جیسی صفات سے مزین ہونا ضروری ہے۔

 

5۔ تعلیماتِ نبوی ﷺ حکمرانوں کو اتحاد و اتفاق، عوام کی حاجت روائی و دستگیری، قانون کی پاسداری و بالادستی، خوداحتسابی اور انفرادی

 

و اجتماعی احتساب جیسے سنہرے اصول فراہم کرتی ہے۔

 

6۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کی حکمرانی کا فریضہ انجام دیا جائے تو بلاشبہ ملک و ملت بہت جلد ترقی و خوشحالی کے منازل طے کر سکتی ہیں۔

حوالہ جات

  1. البخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعيل، الجامع الصحیح للبخاری/ الجامع المسندالمختصر من امور رسول اللهَ ﷺ وسننہ وایامہ، دار طوق النجاۃ، مصر، ط1، 1422ھ، باب کراھیۃ التمنی لقاء العدو، رقم7237، ج9، ص84
  2. بحوالہ بالا، صحيح البخاري، باب الحمائل وتعليق السيف بالعنق، رقم 2908، ج4، ص39
  3. الماوردي، أبو الحسن علي بن محمد بن محمد (المتوفى: 450هـ) ، الاحکام السلطانية، دار الحديث، القاهرة، س ن، ص19
  4. القشیری النیسابوری، ابوالحسین مسلم ابن الحجاج (المتوفى: 261هـ) ، الجامع الصحیح للمسلم/ المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللهَ ﷺ، دار إحياء التراث العربي، بيروت، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، رقم2586، ج4، ص2000
  5. ایضاً، صحيح مسلم، رقم2585، ج4، ص1999
  6. ایضاً، رقم1333، ج 2، ص968
  7. الترمذي السلمي، محمد بن عيسى أبو عيسى، الجامع للترمذی/ الجامع المختصرمن السنن عن رسول اللهَ ﷺومعرفة الصحیح والمعلول وما علیہ العمل، دارالغرب الاسلامی، بیروت، 1998ء، باب ما جاء في النهي عن المثلة، رقم الحديث1408، ج3، ص75
  8. السجستاني، أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبى داود، المکتبۃ العصریۃ، بیروت، س ن، باب فيما يلزم الإمام من أمر الرعية والحجبة عنه، رقم الحديث2948، ج3، ص135
  9. البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي، السنن الكبرى، رائرۃ المعارف النظامیۃ، الھند، ط1، 1344ھ، باب ما على السلطان من القيام فيما ولى بالقسط والنصح للرعية والرحمة بهم والشفقة عليهم والعفو عنهم ما لم يكن حدا، رقم 17082، ج8، ص161
  10. بحوالہ بالا، صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج القشيری، باب قول النبي ﷺ من غشنا فليس منا، رقم الحديث102، ج1، ص99
  11. المتقی، علاوالدین علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، مؤسسہ رسالت، بیروت، 1979ء، باب الاول فی خلافة الخلفاء، ج5، ص633
  12. بحوالہ بالا، صحيح مسلم، کتاب الحدود، رقم4378، ج3، ص1315
  13. أبوبكر محمد بن خلَف الملقَّب بِـ وكيع، أخبار القضاة، المكتبة التجارية الكبرى، مصر، الطبعة الأولى 1366هـ، ج2، ص200
  14. ندوی، سیدسلیمان، سیرت النبیﷺ، ادارہ اسلامیات، لاہور، س ن، حصہ دوئم، ص411
  15. البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين (المتوفى: 458هـ) ، شعب الإيمان، مكتبة الرشد، الرياض، ط1، 1423هـ، ج10، ص54
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...