Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

غرر، سلم اور استصناع کی حقیقت |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

غرر کی لغوی معنیٰ ہیں دھوکا دینا یاغلط امید دلانا۔الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے :غره غراً وغرة فهو مغرور وغریر خدعه و اطعمه بالباطل[1]۔لسان العرب میں ہے: غرر،غره ،یغره ،غراً ،وغروراً ،وغره الاخیرة عن اللحینی فهو مغرور وغریر خدعه واطعمه بالباطل قال ان امرا غره منکن واحدة بعدی وبعدک فی النار ومغرور[2]۔القاموس المحیط میں ہے :غرراً وغروراً بالکسرِ فهو مغروراً وغریر کاميه خدعه واطعمه بالباطلِ[3]۔علامہ ابنِ اثیر کے نزدیک غرر کچھ اس طرح ہے : الغرر ماله ظاهر توثره وباطن تکره فظاهره یغر المشتری وباطنه مجهول[4]۔جس کو تو اپنی طرف راغب کرے اور اس کا باطن ناپسندیدہ ہو اس کے ظاہر کی وجہ سے خریدار کو دھوکا ہوجائے ،کیونکہ اس کا باطن اس کو معلوم نہیں۔

 

قرآن پاک میں بھی غرر کو دھوکہ کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے : یايها الانسان ما غرک بربک الکریم[5]

 

ترجمہ:اے بنی آ دم تجھے کس چیز نے دھو کے میں ڈالا اپنے ربِ کریم سے ۔

 

فقہی اصطلاح میں غرر اس کو کہا جاتا ہے جس مں کسی ایک فریق کا معاوضہ غیر معلوم ہو۔ فقہاءِکرام اس کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے :علامہ کاسانی ؒ لکھتے ہیں :الغرر هو الخطر الذی استویٰ فيه طرف الوجود والعدمِ بمنزلة الشک[6]۔یعنی غرر ایسے خطرہ پر مشتمل ہے جس میں وجود اور عدم دونوں طرف مساوی ہوں یعنی بیع کے ہونے نہ ہونے کا شک ساہو۔

 

علامہ سرخسی لکھتے ہیں :الغرر مایکون مستور العاقبة[7]۔ غرر ایسے معاملہ کو کہا جاتا ہے جس کا انجام پوشیدہ ہو۔

 

علامہ قرافی مالکیؒ لکھتے ہیں:اصل الغرر هو الذی لا یدری هل یحصل ام لا کالطیر فی الهواء والسمک فی الماء[8]۔یعنی

 

 

غرر کا اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ معلوم نہ ہو کہ بیع حاصل ہوگی یا نہیں، جیسے ہوامیں موجود پرندہ اور پانی کے اندر مچھلی۔

 

علامہ ابنِ ہمام لکھتے ہیں : الغررماطویٰ عنک علمه[9]۔ غرر ایسے معاملہ کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد تم سے پوشیدہ ہو۔

 

علامہ دسوقی لکھتے ہیں: الغرر تردد بین امرین احدهما علی الغرض والثانی علیٰ خلافه[10]۔ غرر دو چیزوں کے درمیان تردد کا نام ہے ایک چیز مقصد کا حاصل ہونا، اور دوسری چیز اس کے الٹ کا معاملہ ہو ۔

 

علامہ رملیؒ لکھتے ہیں : الغرر ما احتمل امرین اغلبها اخوفها۔۔۔وقیل ما انطوت عنا عاقبته[11]۔ غرر ایسے معاملہ کو کہا جاتا ہے جو دو پہلوں کا احتمال رکھتا ہو ان میں سے ایک کا احتمال زیادہ تر ہو ۔اور ی بھی کہا گیا ہے کہ جس کا انجام پوشیدہ ہووہ غررہے۔

 

علامہ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں : الغرر هو المجهول العاقبة[12]۔ غرر وہ معاملہ ہے جس کا انجام مجہول ہو۔

 

غرر کے متعلق قرآنی آیات:

قرآن مجید میں غرر کا تذکرہ نہیں ملتا ،بلکہ ایسا ضابطہ بیان کیا گیا ہے ،جس کے ماتحت غرر کی تمام اقسام داخل ہوجاتی ہیں ۔وہ ضابطہ یہ ہے کہ مال کو ناجائز طریقہ سے استعمال کرنا۔ارشادِ باری تعالیٰ:

 

یايها الذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم باباطل الا ان تکون تجارة عن تراض منکم[13]

 

ترجمہ:اے ایمان والو ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاو مگر یہ کہ آپس میں رضامندی کےساتھ تجارتی لین دَین ہوتو جائز ہے۔

 

ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطلِ[14]

 

ترجمہ: ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاو۔

 

یايها الذین آمنوا ان کثیراً من الاحبارِ والرهبانِ لیاکلون اموال الناسِ بالباطل[15]

 

ایک جگہ اللہ رب العزت نے ان اشیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاہے جو اشیاٗ یہودیوں پر جا ئز تھے مگر ان پر حرام کردیئے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

 

واخذهم الربوا وقد نهوا عنه واکلهم اموال الناس بالباطل[16]

 

ترجمہ: اور اس وجہ سے کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اور وہ لوگوں کامال نا حق کھاتے تھے۔

 

غرر کے متعلق احادیثِ مبارکہ:

غرر کے متعلق بہت ساری احادیث مروی ہیں : ۱۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے:

 

عن ابي هریرة رضی الله عنه قال نهیٰ رسول الله صلی الله عليه وسلم عن بیعِ الحصاۃ وعن بیع الغرر[17]

 

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے بیع الحصاۃ اور بیع الغرر سے منع فرمایا ہے۔

 

ابو داود نے یہ روایت نقل کی ہے:

 

عن علیقال سیاتی علی الناس زمان عضوض یغض الموسر علی مافی یديه ولم یومر بذالک قال الله تعالیٰ ولاتنسوالفضل بینکم ویباع المضطرون وقدنهیٰ النبیﷺعن بیع المضطر وبیع الغرر وبیع الثمرقبل ان تدارک[18]

 

ترجمہ:حضرت علی فرماتے ہیں کہ عنقریب لوگوں پر کاٹنے والا زمانہ آئیگا مالدار اپنے غلام کو کاٹے گا ،حالانکہ اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ آپس میں بھلائی کرنے والے کو بھلا نہ دینا اور چار لوگوں کی بیع کی جائیگی ،حالانکہ رسول اللہ ﷺنے مضطر کی بیع اور دھوکہ کی بیع اورپھل پکنے سے پہلے کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔

 

ابنِ ماجہ نے روایت بیان کی ہے کہ: عن ابن عباس رضی الله عنه نهیٰ رسول الله ﷺ عن بیع الغرر[19]

 

ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے بیع الغرر سے منع فرمایاہے۔

 

غرر کا شرعی حکم:

مندرجہ بالا عبا رات سے معلوم ہو تا ہے کہ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاءکے نزدیک بیع الغرر نا جائز ہے اور استدلال کرتے ہیں بیع بالباطل سے،لیکن قاضی شریح اور ابنِ سیرین کے نزدیک بیع الغرر ناجائز نہیں ہے تو علامہ ابنِ بطال نے اس کا جواب دیا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ روایات ابنِ سیرین اور قاضی شریح تک نہ پہنچ سکی ہوں ۔علامہ ابنِ بطال لکھتے ہیں :

 

وقد یکون ابن سیرین ومن اجاز البیع لم یبلغهم نهیٰ النبیﷺعن ذٰلک ولا صحة خائف السنة[20]

 

ترجمہ:ممکن ہے کہ یہ خبر ابنِ سیرین یا ان لوگوں تک نہ پہنچ سکی ہو جو بیع الغرر کی اجازت دیتے ہوں ان تک ممانعت کی روایات نہ پہنچی ہوں اور جس کا قول حدیث سے ٹکرائیگا اس کا قول معتبر نہیں ہوگا۔

 

غرر کے ناجائز ہونے کی شرائط:

 

غرر کے موثر ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں: غررِ مؤثر ،غررِغیرمؤثر

 

غررِ مؤثر ہونےکا مطلب یہ ہےکہ اس کے پائے جانے کی وجہ سے عقد فاسد وباطل ہوجاتاہے،لیکن غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے عقد صحیح رہتاہے۔بیع کے اندر غرر کے مؤثر ہونے کی چار شرائط ہیں:غرر عقدِ مالیہ میں سے ہو،غرر عقد کے اندر اصالۃً ہو تبعاً نہ ہو،غرر کثیر ہو، اس وقت کرنے کی ضرورت وحاجت نہ ہو۔

 

پہلی شرط:

امام مالکؒ کے نزدیک غرر عقودِ تبرع کے اندر پایا جائے تو وہ مضر نہیں اگر غرر مالی معاوضات کے اندر پایاجائے تو وہ مضر ہے جیسے اجارہ،شرکت اور مضاربہ۔اگر عقودِ مالیہ میں سے بھی نہ ہو جیسے نکاح اس میں زوجین کے مابین مودت اور محبت کا رشتہ قائم کرنا مقصد ہے اس میں مال کا تبادلہ مقصود نہیں ہوتا ہے۔شوہر کی طرف سے دیا گیا مہر احسان کے طور پر نہیں ہوتا،بلکہ استمتاعِ بضعہ کا

 

عوض ہوتا ہے جو بیوی سے حاصل ہو تا ہے۔ایسے معاملات میں غررِ فاحشہ تو جائز نہیں ،البتہ غررِ قلیل جائز ہے۔علامہ قرافی لکھتے ہیں :

 

وانقسمت التصرفات عنده علیٰ ثلاثة اقسام طرفان وواسطه فالطرفان احدهما معاوضة صرفة فیجتنب فيها ذالک الامادعت الضرورة اليه عادتاً وثانيهما هو احسان صرف لا یقتصد به تنمية المال کالصدقة والهبة والابرارِ فان هذه التصرفات لایقصد بها تنمية المالِ بل ان فاتت علیٰ من احسن اليه بها لاضررعليه فانه لا یبذل شیئاً بخلاف القسم الاولِ اذا فات بالغرر والجهالات ضاع المال المبذول فی مقابلته فاقتضت حکمه الشرع منع الجهالة فيه اما الاحسان الصرف فلا ضرر فيه فاقتضت حکمه الشرع وحثه علی الانسان التوسعة فيه بکل طریق بالمعلوم والمجهول۔۔۔اما الواسطة بین الطرفین فهو النکاح فهو من جهة ان المال فيه لیس مقصوداً وانما مقصده المودة والالفة والسکون یقتضی ان یجوز فيه الجهالة والغرر مطلقاً ومن جهة ان صاحب الشرع اشترط فيه المال بقوله تعالیٰ ان تبتغوا باموالکم یقتضی امتناع الجهالة والغرر فيه لوجود الشبهين توسط مالک فجوز فيه الغرر القلیل دون الکثیر۔[21]

 

ترجمہ: امام مالکؒ کے نزدیک تصرفات کی تین قسمیں ہیں ؛ دوطرفین اور درمیان مین پہلی طرف محض مالی معاملہ ہے اس میں غرر سے بچنا ضروری ہےسوائے یہ ہے کہ جہاں اس کی حاجت ہو ۔دوسری طرف محض احسان کا معاملہ ہوتاہے اس میں مال مقصود نہیں ہو تا،جیسے ہبہ،صدقہ اور ابرار کہ ان معاملات میں مال مقصود نہیں ہوتا۔اگر یہ عقد نہ کیا جائے تو محض احسان کا نہ کرنا لازم آتا ہےتو اس میں غرر کا ہونا مضر نہیں اس لئے کہ اس میں دوسری پارٹی کو کوئی نقصان کا اندیشہ نہیں بخلاف پہلی قسم کے کہ اس میں غرر اور جہالت کی وجہ سے مالی عوض ضائع ہوجاتا ہے اس لئے شریعت نے اس میں جہالت کو ممنوع قرار دیا ہے یہاں انسانوں کو ابھارنے کے لئے وسعت بتایا گیا ہے،تاکہ اس میں غرر کا پایاجانانقصان دہ نہ ہو۔

 

اور وہ معاملہ جو دونوں اطراف کے درمیان ہے وہ نکاح ہے اس وجہ سے کہ اس میں مال مطمع نظر نہیں ہوتا بلکہ زوجین کے مابین محبت اور تسکین کو پیدا کرنا مقصود ہوتا ہےاس میں غرر اور جہالت کی وجہ معلوم نہیں ہوتی ،کیونکہ نبی کریم ﷺنے اس میں مال کی کوئی شرط نہیں لگائی ہے۔جیساکہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم اپنے مالوں کے بدلہ طلب کرو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اس میں غرر، جہالت مضر ہو تو دونوں اطراف کی شبہ کی وجہ سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان رکھا ہے۔اس میں غررِ فاحشہ کو ناجائز قرار دیا ہے ،البتہ غررِ یسیر کی اجازت ہے۔

 

دوسری شرط:

دوسری شرط یہ ہے کہ غرر ضمناً ہو تو اس کو برداشت کیا جاتا ہے ،کیونکہ شریعت کا تقاضہ ہے کہ بعض دفعہ کسی چیز کے ضمن میں ہونے کی وجہ سے اسے برداشت کیا جاتا ہے ،لیکن اگر وہ اصالۃً ہے تو اس صورت میں غرر کو برداشت نہیں کیا جاتا شریعتِ مطہرہ میں اسکی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔علامہ ابنِ نجیم نے یہ ضابطہ یوں بیان کیا ہے : یغتفر فی الشیئ ضمناً ما لا یغتفر قصداً۔[22]

 

علامہ نووی لکھتے ہیں:

 

واذا باع حاملاً بیعاً مطلقاً دخل الحمل فی بیع علی الصحیح وجوباً الاحملها لم یصح البیع علی الصحیح [23]

 

ترجمہ:جب کوئی شخص حاملہ جانور کی مطلقاً بیع کرتا ہے اور اس نے حمل کا استثناء کرکے بیع کی تو صحیح قول کے مطابق اس کی بیع صحیح نہیں ۔

 

اسی طرح درختوں پرموجود پھلوں کوپکنےاورآفت سےمحفوظ ہونےسےپہلےفروخت کرناناجائزہے۔اگرپھلوں کو درختوں کے ساتھ فروخت کرے تو بالاتفاق جا ئز ہے۔مذکورہ مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ غرر کے موثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عقد میں اصالۃً پایا جائے اور اگر ضمناً پایاجاتا ہو تو اسکی وجہ سے عقد فاسد نہ ہوگا۔علامہ ابنَ قدامہ لکھتے ہیں : یجوز فی التابع من الغرر ما لا یجوز فی المتبوع[24]۔ تابع کے اندر وہ غرر بھی جائز ہوتا ہے ،جو متبوع کے اندر جائز نہیں ہوتا ۔

 

تیسری شرط:

تیسری شرط یہ ہے کہ غرر کثیر ہو اگر معمولی درجہ کا غرر پایا جائے تو اس صورت میں بیع فاسد نہیں ہوگی ۔علامہ قرافی لکھتے ہیں:الغرر ثلاثة اقسام کثیرممتنع اجماعا کالطیر فی الهواء وقلیل جائز اجماعاً کاساس الدار وقطن الجبة ومتوسط اختلف فيه هل یلحق بالاول او الثانی[25]

 

ترجمہ:غرر کی تین اقسام ہیں غرر کثیر جو بالاتفاق ناجائز ہے ،جیسے ہوا میں پرندہ کی بیع ۔غرر قلیل بالاتفاق جا ئز ہے، جیسے گھر کی بنیاد ، جبہ کی روئی میں پایا جانے والا غرراور غرر متوسط کے بارے میں اختلاف ہے کہ اسے پہلی قسم کے ساتھ ملایاجائے یا دوسری قسم کے ساتھ علامہ ابنِ رشد لکھتے ہیں :

 

الفقهاء متفقون علیٰ ان الغرر الکثیر فی المبیعاتِ لا یجوز وان القلیل یجوز[26]

 

ترجمہ:فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مبیع میں پائے جانے والا غررکثیر ہوتو جائز نہیں اگر قلیل ہوتو جائز ہے۔

 

غرر کثیر کا ضابطہ

 

غررِ کثیر اور غررِ یسیر کی پہچان کس طرح ہو یہ بہت زیادہ مشکل ہے ،کیونکہ عرف اور علاقے کے بدلنے سے یہ بدلتے رہتے ہیں ۔فقہائے کرام نے اس کے لئے ایک قاعدہ مقرر کیا ہے ۔علامہ عبد الولید باجی لکھتے ہیں :

 

الغرر الکثیر غلب علی العقدِ یوصف به ۔۔۔۔۔۔ والغرر الیسیر مالا یکاد یخلو عقد منه[27]

 

ترجمہ:غرر کثیر وہ ہے جو عقد پر غالب آجائے یہاں تک عقد اس غرر کے ساتھ موصوف ہو اور غررِ قلیل وہ ہے کہ جس سے کوئی عقد خالی نہ ہو ۔

 

علامہ دسوقی لکھتے ہیں : غرر یسیر هو ما شأن الناس التسامح فيه[28]۔غرریسیر وہ ہے جس میں عام طور پر لوگ تسامح

 

سے کام لیتے ہیں۔علامہ ابنِ رشد لکھتے ہیں : الغرر الیسیر الذی لاتنفک البیوع منه[29]۔ غررِ یسیر وہ ہے کہ جس سے عام طور پر معاملات خالی نہیں ہوتے ۔

 

مندرجہ بالا عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہائے کرام نے غررِکثیر اور غررِ قلیل کو متعین کرنے کے لئے ضوابط بنائے تو ضرو ر ہیں ،لیکن حتمی فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہےاور علامہ دسوقی نے جو قاعدہ بیان کیا ہے وہ زیادہ سہل ہے اسی کی روشنی میں اگر اس معاملہ میں لوگ تسامح سے کام نہیں لیتےجوکہ باہمی نزاع کا ذریعہ بنتی ہے تو اس صورت میں غررِ کثیر ہے ۔اگر لوگ اس میں تسامح سے کام لیتے ہیں تو اس صورت میں باہمی نزاع کا ذریعہ بھی نہیں بنتی ہے تو اس صورت میں غررِ قلیل ہے۔

 

چوتھی شرط:

شرطِ رابع میں اگر عقد کو کرنے کی واقعی ضرورت اور حاجت نہ ہو ۔اگر ضرورت کی وجہ سے عقد کو جائز قراردیاجائے تو اس میں غرر مؤثر نہیں ہوگا ، جیسے بیع سلم میں غرر اس وجہ سے ہے کہ یہ معدوم کی بیع ہے ،لیکن ضرورت وحاجت کی وجہ سے اس کی اجازت دی گئی ہے۔علامہ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں :

 

مفسدۃ الغرراقل من الربوٰفلذلک رخص فیماتدعوااليه الحاجة منه فان تحریمه اشد ضرر کونه غرر[30]

 

ترجمہ:غرر کے مفاسد سود سے کم ہیں اس لئے ضرورت کے وقت اس کی اجازت دی گئی ہے ،تو ایسی صورت میں اسے حرام قرار دینا اس کے غرر ہونے کیلئے ضرر سے زیادہ سخت ہے۔

 

سلم
عقدِ سلم ایسی بیع ہو تی ہے کہ جس میں بائع اپنے ذمہ مستقبل کی تاریخ میں صفات کے اعتبارسے متعین چیز مشتری کو مہیا کریگا اور بائع مشتری سے مکمل قیمت پہلے وصول کرلیتا ہے ۔

 

'سلم میں غرر:

عقدِ سلم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مبیع دست بدست حوالے کیا جاتا ہے ،بلکہ مستقبل کی تا ریخ پر عمل میں آرہی ہے اور یہ معلوم نہیں کہ آئندہ وہ چیز سپرد کرنے پر قادر ہوگا یا نہیں۔

 

شرعی حکم:

اس عقد میں مشتری کورب السلم،بائع کومسلم اليه ،مبیع کومسلم فيه اور قیمت کورأس المال کہاجاتاہے۔

 

عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ بیع ناجائز ہونی چاہئے ،لیکن شریعتِ مطہرہ نے اس بیع کو کرنے کی اجازت دی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد:

 

یايها الذین آمنوا اذا تداینتم بدین الیٰ اجل مسمی فاکتبوه[31]

 

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم کسی میعاد کے لئے قرض کا معاملہ کروتو اسے لکھ لیا کرو۔

 

حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں :اشهد ان الله تعالیٰ احل السلف المضمون وانزل فيهااطول آية فی کتابه[32]۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بیعِ سلم کو حلال قرار دیا ہے اور اس کے بارے میں سب سے لمبی آیت نازل کی ہے۔یہ فرماتے ہیں کہ آپ نے سورۃ البقر کی مذکورہ آیت پڑھی ۔اس روایت سے بیع سلم کا جواز ثابت ہوتا ہے تاہم شریعت نے کسان ،مزارع اور دوسرے لوگوں کی ضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی اجازت دی ہے ،کیونکہ شریعت لوگوں کی ضرورتوں کالحاظ کرتی ہے ۔شریعت کا حاصل یہی ہے کہ اس میں انسانوں کے لئے دینی ودنیوی فلاح کا طریقہ موجود ہے۔حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے :

 

قدم رسول اللهﷺالمدینة والناس یسلفون فی الثمر العام والعامین او قال عامین او ثلاثة شک اسماعیل فقال من سلف فلیسلف فی کیل معلوم ووزن معلوم [33]

 

ترجمہ:جب رسول اللہﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ ایک دو سال یافرمایا دوتین سال کیلئےپھلوں میں بیعِ سلم کیا کرتے تھے پس آپﷺنے فرمایاجو شخص کھجوروں میں سلم کرے اسے چاہئے کہ متعین وزن اور مدت کیلئےکرے ۔

 

مذکورہ بالا دلائل کی وجہ سے ائمہ اربعہ اس بیع کو استحساناً جائز قرار دیتے ہیں ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے:

 

واسلف قد یکون بیع مالیس عند البائع فلما نهیٰ رسول اللهﷺحکیماً عن بیع مالیس عنده واذن فی السلف استدلناعلیٰ انه لاینهیٰ عما امر به وعلمنا انه نهیٰ حکیماً عن بیعِ مالیس عنده اذا لم یکن مضموناً عليه وذالک بیع الاعیانِ[34]

 

ترجمہ:بیع سلم میں بائع ایسی چیز فروخت کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی،لیکن رسول اللہﷺنے حضرت حکیم کو مالیس عند الانسان کی بیع سے منع فرمایا تو اس سے ہم نے استد لال کیا کہ آپﷺنے جس چیز کا حکم دیا ہےاس سے منع نہیں کیا اور ہم نے یہ جا نا کہ آ پﷺنے حکیم کو مالیس عند الانسان کی صورت سے منع کیا جب وہ مضمون نہ اور وہ بیع الاعیان ہے۔

 

علامہ مرغنیانی لکھتے ہیں :والقیاس ان کان یأباه ولکنا ترکناہ بما روینا وجه القیاس انه بیع المعدوم[35]

 

اس عقد کی اجازت مزارعت اور کسانوں کی ضرورت کی وجہ سے دی گئی ہے ۔اور آجکل عرب تاجر درآمدات اور بر آمدات کا کا روبا ر کرتےہیں تو ان کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے سود کی حرمت کے بعد انہیں یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ پیشگی اور نقد قیمت پر بیع کرکے اپنا کاروبا ر جا ری رکھیں۔مولانا تقی عثمانی لکھتے ہیں :

 

The trades of Arabia used to export goods other places and to import some other goods to their homeland they needed money to undertake this type of business they could not borrow from the users after the prohibition of Riba it was therefore allowed for them that they sell the goods in advance after receiving their cash price they could easily undertake the aforesaid business(36)[36]

 

ترجمہ:عرب تاجر دوسرے ملکوں کی طرف کچھ اشیاء برآمد کرتے تھے اور وہاں سے اپنے ملک میں کچھ چیزیں درآمد کرتے تھے ، اس مقصد کے لئے انہیں رقم کی ضرورت ہوتی تھی ۔ربواکی حرمت کے بعد یہ لوگ سودی قرضے نہیں لے سکتے تھے اس لئے انہیں اجازت دی گئی کہ وہ پیشگی قیمت پر یہ اشیاء فروخت کردیں ۔نقد قیمت وصول کرکے یہ لوگ اپنا مذکورہ کاروبار بآسانی جاری رکھ سکتے تھے۔

 

بیع سلم کی شرائط:

پہلی شرط:سلم کے جائز ہونے کے لئے ضروری یہ ہے کہ مشتری پوری قیمت اداکردےاگر پوری قیمت نہیں دیگا تو دَین کی بیع دَین کے ساتھ ہوگی شریعتِ مطہرہ نے جس کی اجازت نہیں دی ہے ۔علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

 

منها ان یکون مقبوضاً فی مجلس السلم لان السلم فيه دَین والافتراق عن قبض رأس المال افتراقاً عن دَ ین بدَ ین وانه منهي عنه لما روی ان رسول الله ﷺ نهیٰ عن بیع الکالی بالکالی أی النسيئة بالنسیئة ولان ماخذ هذا العقد دلیل علیٰ هٰذا الشرط فانه سلماً وسلفاً لغةً وشرعاً تقول العرب اسلمت واسلفت بمعنیٰ واحد۔۔۔۔۔والسلم ینبیء عن التسلیم والسلف عن التقدیم فیقتضی لزوم تسلیم رأ س المال ویقدم قبضه علیٰ قبض المسلم فيه[37]

 

ترجمہ:بیع ِ سلم کے جائز ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ رأس المال پر مجلسِ سلم ہی میں قبضہ کیا جائے ،اس لئے کہ مسلم فیہ تو پہلے ہی دَین ہے اگر رأس المال پر قبضہ کئے بغیر عاقدین کی جدائی ہوگئی تو دَین کے بدلے دَین ہونے پر جدائی ہوگی ،جبکہ رسول اللہﷺنے بیع الکالی بالکالی سے منع فرمایا ہے۔ دوسری وجہ اس لفظ کا مأ خذ یہ بےلاتا ہے کہ رأ س المال پر قبضہ ضروری ہے ،کیونکہ یہاں پر تسلیم کرنے اور مقدم کرنے کے معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ اہلِ عرب سلم سلف دونوں کو ایک معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں۔سلم کا لفظ سپرد کرنے ،جبکہ سلف کالفظ مقدم کرنے کامعنیٰ دیتا ہے،لہٰذا اس کا تقاضہ یہ ہے کہ رأ س المال کی سپردگی کو لازمی اور مسلم فیہ کے قبضہ مقدم کیا جائے ۔

 

دوسری شرط:عقد سلم کی دوسری شرط قبضے کی مدت کم ازکم ایک مہینے کا ہو، اگر اس سے کم ہوگا تو سلم صحیح نہیں ہوگابدائع الصنائع میں ہے:وروی عن محمد انه قدر بالشهر وهو الصحیح لأ ن الأجل انما شرط فی السلم تر فيها وتیسراً علی المسلم اليه لیتمکن من الاکتساب فیتحقق معنی الترفية ما دونه ففی حد القلة فکان له حکم الحلول[38]

 

علامہ ابنِ قدامہ لکھتے ہیں: ومن شرط الأجل أن یکون مدة لها وقع فی الثمن وما قاربه ۔۔۔۔۔ ان الأ جل انما اعتبر لیتحقق المرفق الذی شرع من اجله السلم ولا یحصل ذلک بالمرۃ الرأی وقع لها فی الثمنِ[39]

 

ترجمہ:ایسی مدت کا ہونا ضروری ہے جس کا اثر قیمت پر ظاہر ہونے سے ایک مہینے یا اس کے قریب مدت میں اس کا اعتباراس لئے کیا گیا ہے تاکہ وہ نرمی حاصل کرسکے اس لئے بیع سلم کو شروع کیا گیا ہے یہ نرمی اس مدت میں حاصل نہیں ہو گی جس کا قیمت پر کوئی اثر نہ ہو۔فقہائے حنفیہ میں سے بعض کاقول یہ ہے کہ مدت متعین نہیں کی کسی بھی وقت فریقین کی رضامندی سے مدت متعین کیا جا سکتا ہے۔

 

علامہ ابن الھمام لکھتے ہیں :

 

روی عن الکرخی انه مقدار ما یمکن تحصیل المسلم فيه وهو جدیرٌ لن یصح لأنه لا ضابطه محقق فيه وکذا ما روی عن الکرخی من رواية اخری انه ینظر الی المقدار المسلم فيه والیٰ عرف الناس فی تأجیل مثله[40]

 

ترجمہ:امام کرخی ؒسے مروی ہے کہ اتنی مدت کا ہونا ضروری ہے جس میں مسلم فیہ حوالہ کیا جاسکتاہو اور یہ بات صحیح ہے اس میں کوئی قاعدہ مقرر نہیں اور یہ بھی مروی ہے کہ مسلم فیہ کی مقدار کو دیکھاجا ئیگا کہ عرف میں اسکی مہلت دی جا سکتی ہے۔

 

مالکیہ کے نزدیک:مالکیہ کے ہاں اس کی کم ازکم مدت پندرہ دن کاہے،کیونکہ پندرہ دن میں ریٹ تبدیل ہوتے رہتے ہیں،علامہ سرخسی لکھتے ہیں : وانما حد اقل الأ جل خمسة عشر یوماً لأنه مظنة اختلاف السوق[41]

 

ترجمہ: بیع سلم کی کم از کم مدت پندرہ دن ہےیہ اس لئے متعین کی گئی ہے کہ اس میں مارکیٹ تبدیل ہونے کا امکان ہے۔

 

شافعیہ : کوئی وقت متعین نہیں ہے مسلم فیہ کو فوری حوالے کیا جا سکتا ہے اس صورت میں غرر کا پایا جا نا کم ہو گا اور تأخیر سے بھی مسلم فیہ حوالے کیا جا سکتا ہے۔علامہ سلیمان الجہل لکھتے ہیں :

 

وصح السلم حالاً ومؤجلاً بأن یصرح بها أماالمؤجل فبالنص ولإجماع أماالحال فبالأولی لبعدہ عن الغرر[42]

 

ترجمہ:عقدِ سلم وری اور کچھ عرصہ کے ساتھ دونوں طرح صحیح ہے اس کی شرط یہ ہے کہ ہر ایک کی تشریح کردی جا ئے مؤجل ہے اس لئے کہ نص اور اجماع سے ثابت ہے فوری بدرجہ اولیٰ صحیح ہے ،کیونکہ یہ صورت غرر سے زیادہ دور ہے۔مندرجہ بالا عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے تمام فقہاء مدت کے متعین ہونے میں متفق ہیں اگر مدت متعین نہیں کی جائیگی تو یہ بیع فاسد ہوجا ئیگی۔ہاں البتہ باہمی رضامندی سے بائع اور مشتری تاریخ متعین کریں تو اس صورت میں اس کو ناجئز کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

 

تیسر ی شرط :تیسری شرط یہ ہے کہ جگہ کا متعین کرنا ۔اس میں بی کافی اختلاف ہے ۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اگر وزن والی چیز ہے تو اس کی جگہ متعین کرنا ضروری ہے ،کیونکہ اس کے منتقل کرنے میں کافی مشقت درپیش ہوسکتی ہے۔صاحبین اور امام شافعی کے ہاں جگہ کا تعین ضروری نہیں ۔

 

علتِ فساد:

 

عقدِ سلم کو شریعتِ مطہرہ کی وجہ سے جائز قرار دیا گیا ہے ورنہ یہ عقد صحیح نہ ہو تا ،کیونکہ اس عقد میں غرر پایا جاتا ہے، جیساکہ نیل الأوطار میں ہے: واختلفوا هل عقد غرر جوز للحاجة أم لا[43]

 

ترجمہ:اختلاف اس بات میں واقع ہوا کہ عقد سلم میں غرر پایا جاتا ہے ،لیکن ضرورت کی وجہ سے اجازت دی گئی ہے۔

 

حالاتِ حاضرہ میں بیع سلم کا کردار:

 

عصرِ حاضر میں ایک طریقہ رائج ہواہے اس کو متوازی سلم کہاجاتا ہے۔ اس کی صورت کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص یا

 

ادارہ بیک وقت دو افراد یا اداروں سے سلم کرتا ہے ۔ایک عقد سلم میں وہ مشتری (رب السلم ) ہوتا ہے ،جبکہ دوسرے عقد میں وہ بائع (مسلم الیہ) ہوتا ہے اسی طرح خریدار ہونے کی حیثیت سے سامان خرید کر وہی سامان بائع ہونے کی حیثیت سے دوسرے کو فروخت کردیتا ہے۔اس کے جواز کے وہی شرائط ہیں جو عقدِ سلم کے ہیں اس میں مزید دوشرطوں کا ہونا ضروری ہے۔

 

1:ہر عقدِ سلم دوسرے سے الگ اور مستقل ہو کسی ایک عقد کے حقوق اور ذمہ داریاں دوسرے عقد کے ساتھ منسلک کرنا جائزنہیں ،جیساکہ ردالمختارمیں ہے : مطلب ما یوجب اتحاد الصفة وتفريقها[44]

 

ترجمہ :ایک کے حقوق اور ذمہ داریاں دوسرے عقد کے حقوق اور ذمہ داریوں پر موقوف ہے۔

 

2:متوازی سلم کسی تیسرے فریق کے ساتھ کی جائے جو پہلے بائع ہے اسے متوازی سلم میں دوسرے متوازی معاملے میں خریدار بنانا جائز نہیں ہے ،کیونکہ بیعِ عینہ ہے جو کہ ناجائز ہے۔

 

استصناع (Manufacturing Contract)

 

استصناع عربی لفظ ہے جو کسی چیز کے تیار کرنے کے مطالبے کامعنی اداکرتا ہے۔ علامہ زبیدی لکھتے ہیں :

 

استصنع الشیٔ أی دعا الی صنعه[45]۔ کسی چیز کے استصناع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز تیار کرن کا حکم دینا۔

 

اصطلاحی تعریف:

علامہ کاسانی لکھتے ہیں: عقد علی بیع فی الذمة شرط فيه العمل[46]۔کسی ایسی چیز کا عقد کرنا جو ذمہ میں ہو اس پر عمل کرنا ضروری ہو۔استصناع کے لئے ضروری ہے کہ اس کی صفات متعین ہو ۔صفت متعین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خریدار کے لئے بالکل اسی صفات کے مطابق چیز کو تیار کرے۔

 

سلم اور استصناع میں فرق:

 

سلم میں یک طرفہ بیع کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے ،لیکن استصناع کی صورت میں یک طرفہ عقد کو ختم کیا جا سکتا ہے ،لیکن سامان تیا ہونے سے پہلے ،علامہ ابنِ عابدین لکھتے ہیں :

 

انه عقد غیر لازم قبل العمل من الجانبین بلاخلافِ حتی کان لکل واحد منهما خیار الامتناع من العمل کالبیع بالخیار للمتبایعین فان لکل منها الفسخ[47]

 

ترجمہ: کام کرنے سے یہ عقد دونوں سے غیر لازم ہوتا ہے ،یہاں تک کہ ہر فریق کو اپنے عمل سے رکنے کا اختیار ہوتا ہے ،جیساکہ بیع میں ہوتا ہے دونوں فریقوں کو فسخ کرنے کا اختیار ہو،اس طرح یہاں پر بھی اختیار ہے۔

 

1:سلم میں مکمل ادائیگی ضروری ہے ،لیکن استصناع میں ضروری نہیں ۔2:سپردگی کاوقت متعین کرنا، استصناع میں ضروری نہیں ہے۔3:استصناع کو ہمیشہ تیار کرکے دینا ضروری ہے۔

 

بینکاری کی ایک جائز صورت:

 

اسلامی بینکاری میں یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے وہ اس طرح کہ آجکل جو تمولی اور مالیاتی ادارے کام کررہے ہیں لوگ ان کے پاس پیسے لینے آتے ہیں تو ان اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں کسی منصوبے کی تکمیل کرنا مقصود ہوتا ہے تو وہ پیسے ان اداروں سے لیتے ہیں جو سودی کاروبار کرتے ہیں ۔لیکن اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بینک کے پاس آئے اور کہے کہ مجھے فلیٹ تعمیر کروانا ہے تو بینک سے استصناع کرتا ہے کہ مجھے فلیٹ بناکر دیں تو ا س صورت میں بینک خود تو بنانہیں سکتا ،لہٰذا بینک تیسرے آدمی سے بات کرتا ہے تو اس سے استصناع کرلیتا ہے تو بینک اپن جائز نفع رکھ کر جس نے آرڈر دیاتھا اس کو دیتاہے تو یہ جائز صورت ہے، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ بینک نے جو تیسرے سے معاہدہ کیا اگر وہ بنا کر نہیں دیگا تو درمیان میں بینک لازم ہوگا کہ وہ اس کے معاہدہ کو پورا کرے۔

 

الاستصناع المتوازی:

 

آجکل کی اصطلاح میں اس کو الاستصناع المتوازی کہتے ہیں ،یعنی دونوں متوازی ہیں کہ ایک عقد استصناع ابتداء میں اصل مستصنع اور بینک کے درمیان ہو اور دوسرا عقد بینک اور اصل صانع کے درمیان ہوتو اس کو الاستصناع المتوازی کہتے ہیں ۔

 

جواز کی شرائط:

 

دونوں عقد مستقل ہوں ،ایک دوسرے کے مشروط نہ ہوں ۔ایک دوسرے کے ساتھ موقوف نہ ہوں ۔ایک کی ذمہ داریاں دوسرے کی ذمہ داریوں کے ساتھ گڈمڈنہ کی جائیں ۔یہ طریقہ جو استعمال کیاجاتا ہے وہ آجکل فلیٹوں کی بکنگ ہورہی ہے ،اخبار میں روز اشتہار آرہے ہیں کہ ہم ایسا بنگلہ بنا کر دین گے ،ایسا فلیٹ بناکر دیں گے پہلے بکنگ کے پیسے لیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ پیسے دیئے جاتے ہیں ۔اس کی فقہی تخریج استصناع ہے۔

 

استصنا ع کا جواز خلافِ قیاس ہے :

 

سلم کی طرح اس عقد کا بھی خریدوفروخت اس کے وجود میں آنے سے پہلے کیا جاتا ہے تو ناجائز ہونا چاہئے ،لیکن امت کی آسانی کے لئے اس کی اجزت دی گئی ہے ۔علامہ کاسانی نے اس پر تفصیلی بحث فرمائی ہے:

 

جوازه فالقیاس ان لا یجوز لانه بیع ما لیس عند الانسان لا علیٰ وجه المسلم وقد نهیٰ رسول اللهﷺعن بیع ما لیس عند الانسان ورخص فی السلم ویجوز استحساناً لاجماع الناس علی ذلک لانهم یعلمون ذلک فی سائر الاعصارِ من نکیر وقد قال عليه الصلاۃ والسلام لا تجتمع امتی علی الضلالة وقال عليه السلام مارواه المسلمون قبیحاً فهو عند الله قبیحاً والقیاس یترک بالإجماع ولهذا ترک القیاس فی دخول الحمام بالأجرۃ من غیر بیان المدة ومقدار الماء الذی یستعمل فيه۔۔۔۔وما اشتمل علی عقدین جائزین[48]

 

ترجمہ:جہاں تک عقدِ استصناع کے جواز کا تعلق ہے تو قیاس کاتقاضہ یہ ہے کہ یہ بیع جا ئز نہ ہو ،کیونکہ ایسی چیز کی بیع ہے جو انسان کے پاس موجود نہیں ہے اور یہ سلم بھی نہیں ہے ،جبکہ رسول اللہﷺایسی چیز کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے جو کہ انسان کے پاس نہیں ،البتہ سلم کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی استحساناً اجماع کی وجہ سے جو کہ کافی زمانوں سے چلاآرہا ہے ۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی ۔آپﷺنے یہ بھی فرمایا کہ جس کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ رب العزت کے ہاں بھی اچھا ہے جس کو وہ براجانیں اللہ کے ہاں بھی براہے۔اجماع کی وجہ سے قیاس کو ترک کیا گیا ہے ،اس لئے قیاس کو ان جیسے بہت سارے معاملات میں ترک کیا گیا ہے ،جیسے وقت اور پانی کے استعمال کے بغیر حمام میں ایک متعین اجرت کے بدلے غسل کرنا۔استصناع کے عقد کرنے کی حجت بھی ہوتی ہے ،کیونکہ بعض دفعہ انسان کو مخصوص جنس،مخصوص نوع اور مخصوص صفت کے موزے یا جوتے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اس کے مطلوبہ معیار کے مطابق تیار شدہ چیز بہت کم دستیاب ہوتی ہے اور اس مطلوبہ معیار کے مطابق استصناع کرنا پڑتا ہے ۔اگر اس کی نہ دی گئی تو لوگ تنگی میں پڑ جائیں گے جو عقد دومعاملات پر مشتمل ہو اور وہ جائز بھی ہو تو شریعت نے اس کی اجازرت دی ہے۔

 

استصناع میں غرر اور علتِ فساد:

فقہائے کرام اور ائمہ اربعہ کے ہاں اس میں غرر موجود ،کیونکہ یہ معدوم کی بیع ہے اور معدوم میں غرر کا عنصر پایا جاتا ہے، البتہ استحسان اور عرف کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔غرر کے متعلق ڈاکٹر صدیق امین لکھتے ہیں :

 

وأریٰ أن الاستحسان وإن کان بیع معدوم إلا انه بیع معدوم محقق الوجود فی العادة فلاغرر فيها لاسیما علی الرأی الذی یجعله عقداً لازماً مادام الشیٔ الممنوع علی الصفة المطلوبة کما سنری فهو اذن جائز قیاساً لانه معاوضة خال عن المعاوضة.[49]

 

ترجمہ:میرا خیا ل ہےکہ استصناع میں اگرچہ معدوم چیز کی بیع ہے ،لیکن یہ معدوم چیز ایسی جس کا مستقبل میں وقوع یقینی ہے لہٰذا اس عقد میں کوئی غرر نہیں ہے ۔خصوصاً اگر اس رائے کو اختیار کیاجائے جس کے مطابق بیع اگر مطلوبہ صفات کی حامل ہوتو عقد معاوضہ ہے جس میں غرر نہیں پایا جاتا ہے،لہٰذااس اعتبار سے قیاس کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ یہ عقدِ معاوضہ ہے جس میں غرر نہیں پایا جا تا ہے۔

 

استصناع کے جواز کے شرائط :

1:جس چیز کا آرڈر دیا گیا ہے اس کی جنس ،نوع ،صفت اور مقدار معلوم ہو۔2:استصناع کا عقد ایسی چیز کے با رے میں ہو جن کا عرف میں رواج ہو ،جیسے فرنیچر،عمارت وغیرہ ۔اگر کسی چیز میں استصناع کا عرف نہیں ہے تو وہاں پر استصناع جائز نہیں ۔3:امام ابو حنیفہ کے ہاں عقدِ استصناع میں مدت مقرر کرنے کی ضروت نہیں ہے۔

حوالہ جات

  1. الموسوعة الفقهية الکویت وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية الکویت ج31،ص 139
  2. ابنِ منظور، لسان العرب، ابنِ منظور دارِاحیاء التراث العربی،بیروت، ج1 ،ص 41
  3. محمد بن یعقوب، القاموس المحیط الفیروز آبادی ، مجد الدین محمد بن یعقوب،دارِ احیاء التراث العربی ،ج 2 ،ص 143
  4. مجد الدین، جامع الأصول فی أحادیث الرسول، مجد الدین ابو سعادات المبارک بن محمد، مکتبة دار البیان ،ص 527
  5. الانفطار 5
  6. الکاسانی ،بدائع الصنائع ، علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی، ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی، ج5ص 143
  7. السرخسی،کتاب المبسوط، السرخسی محمد بن احمد ابی سهيل أبوبکر، بیروت دار المعرفة، ج 12 ،ص 194
  8. شهاب الدین القذافی، الفروق، ابو العباس شهاب الدین القذافی،دار المعرفۃ بیروت، ج 3 ،ص 264
  9. الهمام، کمال الدین محمد بن عبد الواحد بن عبد المجید بن مسعود،فتح القدیر ، کوئٹہ مکتبة الرشید ، ج 6 ص 132
  10. الدسوقی،حاشية الدسوقی علی شرح الکبیر الدسوقی، شمس الدین الشیخ محمد الدسوقی،بیروت دارالفکر، ج3 ص 55
  11. شهاب الدین الرملی، شمس الدین محمد بن ابو العباس احمد بن حمزة، نهاية المحتاج،دار احیاء التراث العربی،بیروت،ج 3ص 392
  12. تقی الدین ، القواعد النورانية الفقهية، أبو العباس تقی الدین أحمد بن عبد الحلیم، مطبعة السنة المجدية، القاهرة ص116
  13. آل عمران3:29
  14. البقرۃ2: 188
  15. الاعراف36:6
  16. آل عمران3: 116
  17. امام مسلم،صحیح مسلم، ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری، ،مکتبة الاسلامية، استنبول، حدیث 3691
  18. ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی، سنن ابو داؤد،دار احیاء السنة النبوية، بیروت،رقم الحدیث 3382
  19. امام ماجہ ،ابنِ ماجه، ابو عبد الله محمد بن یزید القزوینی المتوفی 297 ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، رقم الحدیث 2195
  20. ابنِ بطال شرح صحیح بخاری، ج2ص272
  21. شهاب الدین و الفروق، ابو العباس شهاب الدین القذافی،دار المعرفة بیروت، ج 1 ،ص 151
  22. زین الدین،الأشباه والنظائر، زین الدین بن ابراهيم،ادارة القرآن،کراچی،، ج1،ص326
  23. النووی، المجموع شرح المهذب، أبو زکریا محی الدین بن شرف النووی، دار الفکر ، بیروت ،ج 9 ،ص 328
  24. موفق الدین ابو محمد عبد الله بن أحمد بن محمد،المغنی ابن قدامة، دارِ عالم الکتب الطبعة الثالثة، ریاض، ج6 ،ص150
  25. شهاب الدین القذافی، الفروق، ابو العباس شهاب الدین القذافی،دار المعرفۃ بیروت، ج 3 ،ص 260
  26. القرطبی، بداية المجتهد, ابو الولید محمد بن أحمد بن محم بن أحمد بن رشد القرطبی, ج 2،ص127
  27. قاضی أبو الولید سلیمان بن خلف بن سعد بن أیوب بن وارث الباجی،المنتقی فی شرح المؤطا،مطبعہ السعادہ ،مصر،ج 5 ،ص41
  28. الدسوقی حاشية الدسوقی،علی شرح الکبیر، شمس الدین الشیخ محمد الدسوقی دارالفکر بیروت،ج3 ،ص 60
  29. ابوالولید، المقدمات، ابوالولید محمد بن احمد بن رشد، دار الغرب الاسلامی، بیروت، ص 73
  30. ابن تیمية، القواعد النورانية الفقهية، ابن تیمية، مطبعة السنة النبوية المحمدية،القاهرة، ص118
  31. البقرة282:2
  32. عبد الله ،الحاکم المستدرک علی الصحیحین، الحافظ عبد الله محمد بن عبد الله الحاکم،دار الکتب العلمية بیروت، ج2 ص314
  33. البخاری ،صحیح البخاری، ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری،دارالکتب العلميةبیروت،رقم الحدیث 3124
  34. الامام محمد،کتاب الأم ، الامام محمد بن ادریس ،دار الفكر بیروت، ج 6 ص 288
  35. برهان الدین ،الهداية،برهان الدین أبوالحسن علی بن ابی بکر،ادارة القرآن کراتشی، ج 5 ،ص 222
  36. Mufti Taqi Usmani ,An Introduction To Islamic Finance, Dar al Isha’at, Karachi, P:186
  37. الکاسانی ،بدائع الصنائع ، علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی، ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی، ج5ص 202
  38. ایضا، ج5ص213
  39. موفق الدین ابو محمد عبد الله بن أحمد بن محمد، المغنی ابن قدامة، دارِ عالم الکتب الطبعة الثالثة، ریاض، ج6 ،ص404
  40. الهمام، کمال الدین محمد بن عبد الواحد بن عبد المجید بن مسعود ،فتح القدیر،مکتبة الرشید کوئٹہ ج 5 ،ص 219
  41. محمد الخرشی، بهامش الشیخ علی العدی الخرشی علی مختصر سید خلیل الخرشی، محمد الخرشی، دار صادر بیروت ، ص210
  42. سلیمان،حاشیۃ الجمل، سلیمان بن عمر بن منصور،دارالکتب العلمیہ،بیروت،ج5،ص192
  43. الشوکانی، نیل الاوطار، الامام محمد بن محمد الشوکانی المتوفی 255 مصطفی البابي الحلبی وأولاده، مصر ج 5 ص192
  44. محمد امین،رد المحتار، محمد امین الشهير الشامی المتوفی 1252 ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، ج4 ص 526
  45. الزبیدی ،تاج العروس، السید محمد مرتضی الزبیدی ،دارِ صادر بیروت، ج5،ص 422
  46. الکاسانی ،بدائع الصنائع ، علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی، ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی، ج5ص 2
  47. محمد امین،رد المحتار، محمد امین الشهير الشامی المتوفی 1252 ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، ج5 ,ص 224
  48. الکاسانی ،بدائع الصنائع ، علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی، ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی، ج5ص 2
  49. الصدیق محمد أمین ، الغرر وأثره فی العقود، الصدیق محمد أمین الضریر، ص 466
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...