Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

فتوی اور فتاوی الکاملیہ کا تعارف و اہمیت |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029185_1027

Pages

68-83

DOI

10.51411/rahat.3.1.2019.56

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/56/353

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/56

Subjects

Fatwa Fatawa Al-Kamiliya Fiqah Introduction Importance Time management discipline importance Islamic Teachings

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جس طرح قرآن پاک اﷲکی آخری کتاب ہےاور پیغمبراسلام سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔اسی طرح اسلام کا پیش کیا ہوا نظام حیات سب سے آخری ابدی اور مکمل دستور ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں،جس میں اسلام نے اس کی راہنمائی نہ کی ہو۔پھر اسلام کے پاس فقہ وقانون کا جو ذخیرہ موجود ہے۔ وہ قانونی دقیقہ سنجی،ژرف نگاہی،مصالح کی رعایت اور انسانی فطرت سے ہم آہنگی کا شاہکار ہے۔اسی علم فقہ کی ایک کڑی فتوی ہے۔فتوی کا سلسلہ نبی اکرم ﷺسے چلا آرہا ہے۔ آپ ﷺکے بعد یہ فتوی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین دیاکرتے تھے۔اس کے بعدتابعین اور زمانےکے علمائے کرام دیاکرتے تھے۔اور ان کے فتاوی جمع بھی کئے جاتے تھے۔فتوی کا کام جتنا اہم ہے اتنا ہی پیچیدہ بھی ہے ۔ اس میں حالات وواقعات کو شرعی نقطہ نظر سے انتہائی مہارت اور باریک بینی سے دیکھا جاتاہےاور انتہائی احتیاط کے ساتھ قرآن وحدیث ،خلفاء راشدین ،صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ ومجتہدین رحمہ اللہ تعالی کے اقوال وارشادات کوعلمی اورفقہی اندازمیں لکھا جاتاہے۔پھرتصنیف وتالیف کےحسین وجمیل اسالیب میں ان کوپیش کیا جاتاہے۔

اس طریقہ سےعلمی فقہی شاہکار تیار کئے جاتے ہیں۔فقہ کے ان علمی ذخائر میں سب سے اہم اور قابل اعتماد ذخیرہ کو فتاوی کہا جاتاہے۔

انہی فتاوی میں سے ایک فتاوی الکاملیہ بھی ہے۔فتاوی الکاملیہ فقہ حنفی کے ایک بلند پایا عالم دین ،الشیخ محمد کامل بن مصطفی بن محمود طرابلسی کی تصنیف ہے۔شیخ کی پیدائش 1242ھ میں طرابلس میں ہوئی ۔انیس سال کی عمر1263ھ میں انہوں نے مصر کی جانب تعلیم کے حصول کیلئے رخت سفر باندھاتاکہ وہاں جاکر فقہ حنفی سیکھیں ۔اس غرض کیلئے جامع ازھر مصرمیں علوم کی تحصیل کیلئے داخلہ لیا ۔اس میں انہوں نے فقہ حنفی کو وقت کے بڑے بڑےحنفی علماء کبار سے سیکھا۔مصر میں تقریبا سات سال کا عرصہ گزارنے کےبعد 1270ھ میں دوبارہ وطن مالوف طرابلس کی طرف عازم سفر ہوئے۔وطن پہنچنے پر فقہ حنفی کی درس وتدریس اور فتوی دینے کے کا م کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ایک عرصہ کے بعدآپ نے اپنے دئیے ہوئے فتاوی جات کو کتابی شکل میں ترتیب دیااور اس طرح فتاوی کاملیہ ،علم فقہ کی دنیا میں ایک روشن منارہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ یہ فقہ حنفی کی ایک بہترین فتاوی کی کتاب ہے۔[1]

فتوی کا لغوی واصطلاحی معنی :

فتوی فاء کے فتحہ کے ساتھ بھی منقول ہےاور فاء کے ضمہ کے ساتھ بھی ۔لیکن صحیح فاء کے فتحہ کے ساتھ ہے،جس کے معنی ہیں :کسی بھی سوال کا جواب دینا،چاہے وہ شرعی سوال ہو یا غیر شرعی[2]۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
یایھا الملأ افتونی فی رؤیای ان کنتم لرؤیا تعبرون ۔[3]
ترجمہ :اے سردارو!اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہوتومجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔
اصطلاح میں کسی مسئلہ کے حکم کا بیان فتوی کہلاتاہے۔اس تعریف کا ذکر علامہ مناوی نے یوں کی ہے۔
قال العلامۃ المناوی:والافتاء بیان حکم المسئلۃ۔[4]
احادیث میں بھی لفظ فتوی شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔جیسا کہ ارشاد نبویﷺ ہے کہ:
اجرؤکم علی الفتوی اجرؤکم علی النار ۔[5]
ترجمہ :تم میں جو شخص ،فتوی دینے میں دوسروں سے زیادہ جرأت کرنے والا ہے۔ وہ دوزخ کی آگ پر دوسرے سے زیادہ جرأت کرنے والا ہے۔

فتوی کا تاریخی پس منظر

رسالت مآب ﷺکے زمانے میں حضرت نبی اکرم ﷺ خود مفتی الثقلین تھے اورمنصب فتوی پر فائز تھے ۔وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالی کی طرف سے فتوی دیا کرتے تھے اور اس طرح یہ وحی غیر متلو کی صورت میں امت کے پاس حدیث پاک کی صورت میں جمع ہوئی ۔ان کا انداز نہایت فصیح و بلیغ ہےچونکہ آپ ﷺ کو اللہ تعالی نے جوامع الکلم عطا فرمائےتھے، اس میں الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے تھے جس کی وجہ سے اس سے فقہاء نے لاکھوں مسائل مستنبط کئےاور یہ اسلامی شریعت کا دوسر ا اہم ماخذ کا درجہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔اس با ت کو قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایاگیاہے:

وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون ۔[6]
ترجمہ :اورہم نے تمہاری طرف اس قرآن کو نازل کیا تاکہ آپ ﷺ اس کو لوگوں کے سامنے بیان کریں کہ کیا چیز ان کی طرف اتاری جارہی ہےاور شاید یہ لوگ اس میں غور و فکر کریں ۔

دورصحابہ میں فتوی :

نبی اکرم ﷺ کا اس دار فانی سے وصال پا جانے کے بعدفتوی کے کام اور ذمہ داری کو صحابہ کرام نے سنبھالا اور احسن طریقے سے انجام دیا۔علامہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام میں سے جو فتوی دیاکرتے تھے ،ان کی تعدادایک سو تیس سے کچھ زائد تھی ۔ جن میں مرد بھی شامل ہیں اورعورتیں بھی،البتہ زیادہ فتوی دینے والے سات تھے،چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ:
فکان المکثرون منہم سبعا،عمربن الخطاب وعلی بن ابی طالب وعبداللہ بن مسعود وعائشۃ ام المؤمنین وزید بن ثابت وعبد اللہ بن عباس وعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم اجمعین۔[7]
ترجمہ:ان میں زیادہ فتوی دینے والے کل سات حضرات تھےحضرت عمرا بن خطاب،حضرت علی ابن ابی طالب، حضرت عبداللہ ابن مسعود،ام المؤمنین حضرت عائشہ ،حضرت زید ابن ثابت ،حضرت عبداللہ ا بن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین۔

تابعین کے دور میں فتوی:

تعلیم وتعلم اور فتوی دینے کا سلسلہ حضرات صحابہ کے زمانے کے بعد بھی جاری رہا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے شاگردوں نے اس کو آگے بڑھایااور اس کی ترویج میں دن دگنی رات چوگنی محنت کی اور اس علم کو چار چاند لگاکر نہ صرف اس کو محفوظ کیا بلکہ اس کے بہت زیادہ منظم اور آراستہ کیا ۔

حضرات صحابہ کرام کے عہد زریں کا تاریخی جائزہ لینے کے بعد، ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ جل و علا نے فتوحات کی کثرت سے ان کو بہت زیادہ نوازا اور اس طرح بہت سارے شہر فتح ہوئے ۔اس بنا پر حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے شاگرد،حضرات تابعین مختلف شہروں میں دین کی تعلیم اور ترویج کی خدمت انجام دینےلگے۔ان میں سےمخصوص بلاداسلامیہ میں علم کے آفتاب و ماہتاب ہستیاں نمایاں طور پر سرفہرست ہیں۔چنانچہ صرف مدینہ منورہ میں حضرت سعید بن مسیب،حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف،حضرت عروہ بن زبیر،حضرت عبیداللہ ،حضرت قاسم بن محمد،حضرت سلیمان بن یساراور خارجہ بن زید ،فقہائے کرام فتوے دیا

کرتے تھے۔انہی کو فقہائے سبعہ کہاجاتاہے۔اسی بات کا تذکر ہ حافظ ابن القیم نے یوں کیا ہے کہ:

وانتصب فی کل بلد من البلاد الاسلامیۃامام یتبعہ کثیر من الناس فی الفقہ والفتوی ،وکان فی المدینۃ سعید بن مسیب،ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف،عروہ بن زبیر،عبیداللہ،قاسم بن محمد،سلیمان بن یسار و خارجہ بن زید رحمھم اللہ تعالی ویقال لھم الفقھاء السبعۃ،وقد ذکر بعضھم ابابکر بن الحارث بن ھشام من جملتھم عوضا عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن ۔[8]

فقہ حنفی بطور قانون :

خلفائے عباسیہ کے دورسے لے کر گزشتہ صدی کے شروع ہونے تک اکثر اسلامی ممالک میں فقہ حنفی قانونی شکل میں نافذ اور رائج رہی ہے۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ:
فالدولۃ العباسیۃ وان کان مذھبہم مذھب جدھم فاکثرقضاتھاومشائخ اسلامھا حنفیۃ۔یظہر ذالک لمن تصفح کتب التواریخ،وکان مدۃ ملکھم خمس ماۃ سنۃٍ تقریباً۔واما الملوک السلجوقیون وبعدھم الخوارزمیون فکلھم حنفیون وقضاۃ ممالکھم غالبھا حنفیۃ۔واما ملوک زمانناسلاطین آل عثمان (ایداللہ تعالیٰ دولتھم ماکرر الجدیدان)فمن تاریخ تسع ماۃ الیٰ یومنا ھذالایولون القضاۃ وسائر مناصبھم الا الحنفیۃ۔[9]
ترجمہ:پس اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دولت عباسیہ کامذہب ان کے اجداد کا تھالیکن یہ بات بدیہی ہےکہ ان کے اکثر قاضی اور مشائخ تمام کے تمام حنفی تھے۔یہ بات اس شخص پر زیادہ اچھی طرح سے واضح ہوگی جو کتب تاریخ کا غور وخوض سے جائزہ لے گا۔ان کی دولت کا زمانہ تقریباپانچ سو برس پر محیط ہےپس سلجوق اور خوارزم والوں کا فقہی مذہب حنفیت ہی تھااور ان کے علاقوں کے قاضی اکثر حنفی تھےاوربہر حال ہمارے زمانے کے سلطنت آل عثمان والے ،اللہ تعالی ان کی عہد حکومت کو تاقیامت امتداد دے ۔نویں صدی سے لے کر آج تک ،وہ قاضی کا عہدہ اور دیگر بڑے مناصب صرف اورصرف حنفیوں کو دیتے ہیں۔

برصغیر پاک وہند میں فتوی نویسی کی خدمات

عوام اور علمائے کرام دونوں کی راہنمائی کیلئے وقت کے عظیم مفتیان کرام نے فتاوی کے عظیم ذخیروں کومجموعوں کی صورت میں ترتیب دیا جن سے ایک خلق کثیر مستفید ہورہی ہے ۔دنیا بھر میں تمام بلاد اسلامیہ میں مفتیان کرام اور علماء عظام نےچاہےوہ شرق کےہوں یاغرب کے،انہوں نےاس کارنامہ عظیمہ میں تندی اورمستعدی دکھائی۔مصر،شام ،عراق،طرابلس،مکہ، مدینہ ،ماوراء النہر، افغانستان اور برصغیر پاک وہندوغیرہ۔ برصغیر پاک و ھند بھی ا س سلسلے میں کسی سے پیچھے نہ رہا، بلکہ اس میں بھی اﷲجل وعلا نے ایسے رجال کار پیدا کئے ،جنہوں نے اس دھرتی کو علم سے بھر دیا۔انہوں نے اپنے علم اور ہنر سے اس علاقے کوچارچاند لگادئیے،نہ صرف تدریس بلکہ تصنیف وتالیف کے میدانوں کو بھی آباد کیا،جیساکہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒکی فتاوی امدادیہ ، مولانا احمدرضاخان بریلویؒ کی فتاوی رضویہ ، مفتی محمودؒ کی فتاوی مفتی محموداور موجودہ دور میں مولانا مفتی محمد یوسف لدھیانویؒ کی آپ کے مسائل اور ان کا حل،مفتی نجم الحسن امروہوی کی نجم الفتاوی ،مفتی تقی عثمانی کی فتاوی عثمانی ،مفتی محمدفرید ؒ کی فتاوی فریدیہ وغیرہ دنیائے فتاوی نویسی میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔[10]

فتاویٰ کاملیہ کی اہمیت :

فتاوی کاملیہ اپنے موضوع کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے،کیونکہ اس کا تعلق فقہ سے ہےاورفقہ علوم اسلامیہ میں سب سے زیادہ وسیع اوردقیق علم ہے۔اس لئے کہ فقہ کے لئے ایک طرف قرآن وعلوم قرآن،حدیث اور ومتعلقات حدیث ،اقوال صحابہ، ارشادات ائمہ ،اجتہادات فقہاء،اور جزئیات وفروع کے باریک امتیازات پر وسیع نظر ،مرجوح اور غیر مرجوح پر وسیع اطلاع، امت کے واقعی ضروریات کا ادراک،احوال زندگی کی مکمل بصیرت اوربدلتے ہوئے حالات میں مسائل دین کو شریعت کی روح کو ملحوظ رکھ کر استنباط کرنے کا نام ہے۔علم فقہ،جو طہارت اورنظافت کےجزوی مسائل سےلے کر عبادات ،معاملات،معاشرت،آداب واخلاق اور ان تمام امورکو اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہیں جن کا تعلق حلال وحرام اباحت وحرمت اور جائزناجائزجیسے احکامات کے اطلاق کے ساتھ ہے۔ [11]
پھر فتوی کا میدان فقہ سے اور زیادہ وسیع ہے۔اس لئے فتاوی میں ایمانیات وعقائد،فرق،تاریخ ،سیرنبوی اور سیرت صحابہ، تصوف و سلوک ،اخلاق و آداب ،عبادات،معاملات،سیاسیات،معاشرت،قدیم وجدید مسائل کا حل ،اصولی وفروعی مسائل کی تشریح اور تطبیق وغیرہ تمام فتوی دینے کے شعبہ جات ہیں ۔اس لئے مفتی ان تمام شعبوں اور مسائل سے صرف نظر کرکے اپنی ذمہ داری صحیح طور پر نبھا نہیں سکتا۔پھر مفتی کو کبھی امت اسلامیہ کی مشکلات میں آسانیاں پیداکرنے کے لئے حدود شرعیہ کا خیال رکھتے ہوئے نرم مزاج اور کبھی شرعیت کی حفاظت اورخلاف شرع طرزاپنانے والوں کے خلاف سخت مزاج بننا پڑتاہے۔[12]

فتاوی کاملیہ کی خصوصیات:

مفتی محمدکامل بن مصطفی بن محمود طرابلسیؒ نے فتاوی الکاملیہ میں جو منہج اختیار کیا ہےبعینہ یہ منہج ان فقہاء حضرات کاہے جو ان کے پیش روہیں۔یعنی جب کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہوتو اس کا حل قرآن وحدیث ،قیاس اور اجماع کے تناظر میں ائمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں دیکھتاہے۔اسی طرح جب ہم فقہ کی امہات الکتب کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آجاتی ہےکہ مصنف اپنے پیش رو حضرات کے علمی شہ پاروں کے خوشہ چین ہیں ۔آپؒ ہر مسئلہ میں ائمہ سلف وخلف کے اقوال کو ذکرفرماکر اپنے مسئلہ کو مبرھن کرتے ہیں ،اس طرح موجودہ زمانے تک جو فتاوی جات مرتب ہوئے ہیں ان تمام کا عرق ان کے مرتب کئے ہوئے فتوی کے اندر ملتاہے۔

عربی زبان میں ہونا:

فتاوی کاملیہ کی زبان عربی ہے۔ عربی کی عبارات شریعت کی امہات الکتب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔اس لئے فتاوی کاملیہ کی عبارات کا حوالہ امہات الکتب سے تلاش کرنا ،نہایت سہل ہے۔ اس کے علاوہ عربی زبان کی جامعیت اس کے مسائل کی جامعیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ،کیونکہ فتوی کے کام میں عبارت جتنی جامع ہوتی ہےاس کو حل کرنا اور اس سے مسئلہ سمجھنا اوربتانا آسان تر ہوتا ہے۔ اس طرح دیگر غیر عربی فتاوی جات کی بانسبت فتاوی کاملیہ کو ایک گنا فضیلت ہے۔

نفس مسئلہ کی صراحت:

یہ محض اختصار کی حد تک ہےکہ صاحب فتوی کاملیہ اپنے قاری کی توجہ صرف اور صرف مسئلہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہےتاکہ قاری مسئلہ کو صحیح سمجھ سکے۔

فتاوی کاملیہ کا عام فہم اسلوب:

اس فتاوی کی ایک اہم بات یہ ہےکہ اس میں نفس مسئلہ کو لے کر بیان کیا جاتاہےتاکہ فتوی طلب کرنے والا مسئلہ کو سمجھ کر عمل کرسکے۔اس لئے اس میں قرآن و حدیث کی حوالہ بندی کا فقدان پایا جارہاہےجس کی نشاندہی علمی تحقیقی اسلوب میں لازمی ہے۔

مفتی بہ اقوال کی عدم صراحت:

کتاب مذکور میں ذکرکردہ مسائل میں مفتی بہ اقوال کی صراحت امہات الکتب سے دستیاب نہیں،اس لئے بغیر تحقیق کئے اس سے فتوی دیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس سے کسی اور کتاب کے قول کو جانچا جا سکتا ہے۔

فتوی کے رموز سے خالی ہونا:

فتوی کے رموز سے نا بلد وناواقف شخص اس کے فوائد کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا۔

امہات الکتب میں سے نہ ہونا:

یہ فتاوی چونکہ امہات الکتب میں شامل نہیں ہےاس لئے اس کتا ب کو مدار بناکر کسی قول کو نہ ثابت کیاجاسکتا ہے اور نہ رد۔

فتوی سے عامی شخص کو مغالطہ کا ہونا:

بادی النظر میں ایک فقہ سے نا واقف شخص کو مذکورہ کتاب سے مغالطہ ہو سکتا ہے کہ اس کے مسائل میں قرآن وحدیث اور فقہ کی امہات الکتب کو بنیاد فتوی نہیں بنایا گیا ہےجبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

تنقیدی جائزہ کا فقدان :

فتاوی کاملیہ میں مسائل سے متعلق تنقیدی جائزہ دستیاب نہیں،جو کہ تحقیق کے میدان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

فتوی کاملیہ کا درجہ :

فتاوی کاملیہ کو دیکھا جائے تو یہ ثانوی مصادر میں سے آتاہے،یعنی امہات الکتب میں اس کو شمار نہیں کیا جاسکتاجیسا کہ قدوری، کنز ،ہدایہ ،بدائع الصنائع اور مبسوط وغیرہ ہیں ۔

ابواب اور فصل بندی کا اسلوب :

اس حوالے سے جب فتاوی کاملیہ کو دیکھا جاتاہےتو مصنفؒ نے کتاب اور باب کا لفظ استعمال کیا ہےجس کی وضاحت قدیم فقہاء کرام کی کتب میں یوں ملتی ہےکہ اگر مختلف قسم کے مسائل کو جو ایک جنس سے متعلق ہوں ،ذکر کیا جائے تو اس کو کتاب کہا جائے گا، اور اگر ایک نوع کے مسائل کو ذکر کیا جا ئے تواس کو باب کہا جائے گا۔[13]

نتیجہ بحث:

مفتی محمدکامل بن مصطفی بن محمود طرابلسیؒ کی فتاوی کاملیہ بنیادی نوعیت کی فتاوی ہےجس میں فہم فقہ اور فہم فتوی پر نہایت جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے اندر مصنف ؒنے نہ صرف مستفتی کا خیال رکھا ہےبلکہ مفتی کے لئے بھی ایسا لائحہ عمل تجویز کیا ہےکہ وہ حل مسائل اور فتوی دینے میں کن باتوں کا خیال رکھیں گے،تاکہ فتوی نویسی کا کا م ایسے سہل انداز میں انجام پائے کہ مستفتی اور مفتی دونوں کیلئے فقہ کی روح کو سمجھنا آسان ہوجائے۔مستفتی کا کام صرف نفس مسئلہ کوسمجھناہے۔ اس کا اطمینان بخش جواب اور حکمت عملی والا انداز کیا ہوناچاہئے ؟اس کا عملی ثبوت پیش کرکے مصنفؒ نےفتوی نویسی کے میدان میں اہل علم پر احسان عظیم کیا ۔ فتاوی کاملیہ میں مصنف ؒنےنہ صرف ایک نئے طرز کو پروان چڑھایاہے بلکہ فتوی کے کام کو انتہائی جاذب بنایا۔لہذاموجودہ زمانے میں ،فتوی نویسی کے میدان میں قدم رکھنے والےفتوی کاملیہ کو دیکھ کر،مفتی طرابلسیؒ کی راہنمائی کو جان کر ، فتوی طلب کرنے والے کو آسانی کے ساتھ مطمئن کرسکیں گےاور اس کے شرعی مسئلہ کا انتہائی پر مغز بامعنی ،ذود فہم اور کافی شافی جواب دینے سے اس مشکل کو کامیابی کے ساتھ حل کرسکیں گے۔ چونکہ فتاوی کاملیہ چند سا ل ہوئے ہیں کہ بازار میں چھپی ہوئی صورت میں دستیا ب ہے۔اس سے پہلے صرف بڑے بڑے علماء کے پاس اس کی مخطوطات ہو اکرتی تھیں ۔اس لئے اس پر نہ تو کسی نے اردو ترجمے کےحوالے سے کام کیا ہے اور نہ اس کی تدقیقات اور تحقیقات کسی عالم دین نے کی او ر نہ ہی کسی پی ایچ ڈی یا ایم فل کےسکالر نے اس کو موضوع تحقیق بنایا۔اس لئے اس طرح کی فقید المثا ل ،فتوی کی کتاب پر کام کرنا واقعی میں ایسا کام ہوگاجس سے عوام اور خواص ہر ایک یکساں طور پر مستفید ہوسکیں گے ۔

حوالہ جات

  1. طرابلسی، محمد کامل بن مصطفی بن محمود،فتاوی کاملیہ،مکتبہ اسلامیہ ،کوئٹہ،2015ء،ص3
  2. کیرانوی،قاسمی،وحید الزماں،القاموس الجدید، ادارہ اسلامیات،کراچی،1410ھ،ص 897
  3. الیوسف12 :43
  4. گنگوہی،محمودالحسن،فتاوی محمودیہ،ادارۃالفاروق،کراچی، 2010ء،ج1،ص106
  5. الدارمی التميمي السمرقندي،أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن ، سنن دارمی،داراحیاء التراث،بیروت،1412ھ،ج1،ص179
  6. النحل45:16
  7. امام ابن قیم ،اعلام الموقعین،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج1،ص28
  8. الشہرزوری،ابن صلاح،ادب المفتی والمستفتی،قدیمی کتب خانہ ،کراچی،س ن،ص56
  9. ابن عابدین،محمدامین بن عمر،ردالمحتارعلی الدرالمختار،المکتبۃ الحقانیۃ،پشاور،مقدمۃ الکتاب،مطلب:یجوزتقلید المفضول مع وجود الافضل ،ج1،ص137
  10. لدھیانوی،محمد یوسف،آپ کے مسائل اور ان کاحل،مکتبہ لدھیانوی، کراچی،2012ء،ج1،ص20
  11. گنگوہی،محمودالحسن،فتاوی محمودیہ،ادارۃالفاروق،کراچی، 2010ء،ج1،ص104
  12. ایضاً
  13. طرابلسی، محمد کامل بن مصطفی بن محمود،فتاوی کاملیہ،مکتبہ اسلامیہ ،کوئٹہ،2015ء،ص6
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...