Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

قاسمی خانوادہ کی دینی و فلاحی خدمات |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029185_1080

Pages

143-151

DOI

10.51411/rahat.3.1.2019.62

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/62/359

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/62

Subjects

Qasmi family patriotism religious norms social reforms Qasmi family patriotism religious norms social reforms

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قاسمی خانوادہ:

قاسمی خانوادہ کی نسبت خواجہ محمد قاسم انگوی قادری سے ہے۔ خواجہ محمد قاسم انگوی قادری کا سلسلہ نسب اٹھائیس واسطوں سےاورسلسلہ طریقت35واسطوں سےحضرت علی المرتضیٰ سےجاکرملتاہے۔حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی اولادمیں سےحمزہ بن حسن بن عبیداللہ بن عباس بن علی المرتضیٰ مدینہ سے بصرہ منتقل ہوگئے[1]۔بعد ازاں قاسم بن علی بن جعفر اول بن حمزہ بصرہ سے بغداد تشریف لےآئے۔حالات کےتغیر وتبدل کی وجہ سے شیخ نعمان بن جعفر ثانی بن قاسم ایران آگئے اورتبریز میں قیام پذیر ہوگئے۔جب تاتاریوں نے تبریز کو تاراج کیا تو قاسم بن علی کی اولاد میں سے شیخ محمد پہلوان کابل افغانستان آگئے۔جب امیر تیمور نے اپنی فوجیں ثمر قند سے ہندوستان روانہ کیں تو شیخ محمد پہلوان کے پوتے شیخ محمد بہرام تبلیغ کے لئے ساتھ تشریف لے آئے۔[2]

 

سلطنت مغلیہ کے پہلے فرمانروا ظہیرا لدین بابر نے شیخ محمد بہرام کی اولاد سے مخدوم احمد کو علاقہ سون ضلع شاہ پور (خوشاب) تبلیغ کیلئے بھیجا۔انہوں نے پہاڑی پر ایک گائوں بسایا۔ جس کا نام اسلام آباد رکھا۔ شیخ مخدوم احمد کے بعد ان کے بیٹوں شیخ محمد یوسف اور

 

شیخ محمد ابراہیم نے تبلیغ کے کام کو جاری رکھا۔

 

شہنشاہ ایران نادر شاہ کے حملہ کے موقع پر اس کے لشکر نے اسلام آباد کا تاراج کیا۔ تو یہاں کے باشندوں نے اسلام آباد کے شمال مشرق میں ایک میل کے فاصلے پر انگہ نامی گائوں بسایا۔ شیخ مخدوم احمد کی اولاد یہاں منتقل ہوگئی۔ آگے چل کر شیخ مخدوم احمد کی اولاد میںس ے خواجہ محمد قاسم انگوی قادری پیدا ہوئے۔ خواجہ محمد قاسم انگوی قادری کی اولاد آج بھی پنجاب کے شمال مغربی اضلاع اور کشمیر کے باشندوں کی روحانی پیش وا ہے۔ [3]

 

عصر حاضر کے تقاضے:

عصرحاضر کے حوالے سے دیکھا جائے تو مسلم معاشرہ مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔ پورے معاشرے میں ایک بے چینی کی فضا پائی جاتی ہے۔ لوگ طرح طرح کی پریشانیوں کا شکار ہیں۔ کوئی بیمار ہے تو کوئی قرض دار کوئی گھریلو ناچاکیوں کا شکار ہے۔ کوئی تنگ دست و بے روز گار اور کوئی نافرمان اولاد کی وجہ سے مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار الغرض ہر ایک کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہے۔جب بھی معاشرے ایسے حالات سے دو چار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے ایسے نفوس کا گروہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ جو حالات کے گرداب سے معاشرے کو نکالتا ہے۔ ایک نئی جہت سے معاشرہ اپنی اقدار کو لیکر آگے بڑھتا ہے۔ عصر حاضر میں اگر دیکھا جائے تو قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے جوخدمات سرانجام دیں۔ وہ قابل تعریف اور لائق تحسین ہیں۔ معاشرے میں جب بھی جس محاذ پر بھی ضرورت محسوس ہوئی قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے کماحقہ پورا کیا۔

 

حافظ سید امیر قادری قاسمی، علامہ پیر محمد شفیع قادری قاسمی ،احمد ندیم قاسمی اور صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی نے اصلاح معاشرہ اور فلاح انسانیت کےحوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بزرگوں نےحقیقی معنوں میں عصر حاضر کےتمام تر مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے مساعی جلیلہ فرمائی۔ملکی سا لمیت کے استحکام اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر فروغ شریعت کیلئے جدوجہد مسلسل کی۔[4]

 

خانقاہی نظام کی افادیت:

پوری دنیا میں خاص کر برصغیر پاک وہند میں صوفیاء اور مشائخ عظام نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کےحوالےسے بڑا کلیدی اور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مشائخ عظام کے اخلاق حسنہ، عادات و خصائل اور روایات اس معاشرے میں بسنے والے افرادکیلئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان بزرگوں نےخانقاہوں کومرکز بناکر اصلاح معاشرہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں مشائخ عظام نے بلاتفریق رنگ ونسل، بلاتمیز مذہب ومسلک اسلام کی اعلیٰ اقدار، عمدہ روایات اور امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کی بنیاد پر ایک عظیم معاشرہ کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔برصغیر پاک وہند میں قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود مشائخ عظام آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں عقیدت واحترام کے ساتھ موجود ہیں۔ مشائخ وعظام کے کردار و عمل کے ناصرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی معترف ہیں۔ [5]

 

عصر حاضر میں بعض بناوٹی اور پیشہ ور صوفیاء نے اپنی خانقاہوں میں ظاہری جاہ و جلال اور طائوس ورباب جیسی خرافات کو زینت محفل بنایا ہوا ہے۔ تصوف کے اصلی تشخص کو داغ دار کرکے غیر اسلامی نظریات اور خرافات کو اس کا حصہ بنادیا ہے۔

 

سینکڑوں خانقاہوں نے تصوف کو نذر ونیاز کا ذریعہ بنا رکھا ہےجس سے تصوف کا کردار مشکوک ہوگیا ہے۔ جس طرح لوگ ماضی میں تصوف سے استفادہ حاصل کرتے تھےمادی نظریات کے فروغ پاجانے سے لوگ اس سے دور بھاگ رہے ہیں اکثر نام نہاد مشائخ اپنے اسلاف کی دینی ورفاہی خدمات کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔[6] ان تمام حالات کے تناظر میں قاسمی خانوادے نے موجودہ صورتحال کے برعکس قرون اولیٰ کے اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں خانقاہی نظام کی افادیت کو برقرار رکھا۔ تصورف کی دم توڑتی روایت کو حیات نو بخشی۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے نذرونیاز کے مروجہ اصولوں کو پس پشت ڈال دیا بلکہ جو مرید یا عقیدت مند تنگدستی کا شکار ہوتا تو اس کی مالی معاونت فرماتے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگ خالصتاً خانقاہی نظام کے اصولوں کے علمبردار تھے۔ ان اصولوں کی وجہ سے آج بھی ہزاروں افراد خانقاہ عالیہ قادرسیہ قاسمیہ ڈھوڈا شریف سے مستفیدد ہورہے ہیں۔[7]

 

'انسان دوستی:'

عصر حاضر میں ہر انسان ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو انا کا مسئلہ بناکر ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر تلاہوا ہے۔ نفرتوں کے ایسے بیج بوئے گئے ہیںکہ انسان دوسرے انسان کی بات سنے کو تیار ہی نہیں رہے ایسے حالات میں انسان دوستی کا پیغام نوید سحرکی حیثیت رکھتا ہے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے ہر دور میں ہر حالت میں انسان دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کسی انسان کو مصیبت یا تکلیف میں دیکھتے تو تڑپ جاتے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے۔ جب تک اس کی تکلیف کا مداوانہ کرلیتے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگ احمد ندیم قاسمی انسان دوستی کے حوالے سے پیش پیش رہے۔سحرانصاری لکھتے ہیں کہ:

 

ترقی پسند تحریک سے احمد ندیم قاسمی کا سب سے بڑا محرک ان کی انسان دوستی ہے۔ ابتداء ہی سے ان کے ہاں عظمت انسان کا احساس اور تقدیر آدم کا ادراک نمایاں تھا۔ ترقی پسند تحریک کے بنیادی اصولوں میں سے ایک، انسان کو اس کی عظمت گمشدہ سے ہم کنار کرنا اور تقدیر آدم کے رموز کو فاش کرنا شامل تھا اس لئے احمد ندیم قاسمی کی اس سے وابستگی فطری تھی۔[8]

 

سماج دوستی:

قاسمی خانودے کے بزرگوں نے سماج دوستی کے حوالے سے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ہر وقت اسی تگ و دو میں لگے رہے کہ معاشرے زمانے کی فرسودہ روایات سے نکال کر شریعت کے اصولوں کےمطابق زمانے سے ہم آہنگی پیدا کی جائے۔دینی، تبلیغی،معاشرتی،معاشی ہرحوالےسےنمایاں کردارادا کیاہے۔دینی حوالےسےدیکھاجائےتولوگوں کی اصلاح کیلئےدینی علوم سے روشناس کرانے کااہتمام کیا ہے۔تبلیغی حوالے سے دیکھا جائے تو خانوادے کے بزرگ تبلیغی دوروں اور اجلاسوں کا اہتمام فرماتے رہے ہیں۔معاشرتی حوالے سے کی جانے والی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ معاشی حوالے سے دیکھا جائے تو ان کے بزرگوں نے ہمیشہ لوگوں کی معاونت کی ہے تاکہ وہ معاشرے کا عظیم فرد بن سکیں۔ احمد ندیم قاسمی نے الحادی قوتوں کے ساتھ برسرپیکار ہوکر گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ سماج دوستی میں اگر صاحبزادہ محمد احمد قاسمی کا ذکر نہ کیا جائے تو قاسمی خانوادے کی خدمات ادھوری رہ رجاتی ہیں۔ آپ نے دن رات ایک کرکے تمام تر توانائیوں کے ساتھ لوگوں کی فکری اصلاح فرمائی اور ہر مشکل وقت میں ان کیلئے مدد گار ثابت ہوئے۔ [9]

 

اخلاقیات:

عصرحاضر میں اگر دیکھا جائے تو معاشرہ دیگر امور کے ساتھ ساتھ اخلاقی بلندیوں سے گر کر پستی کی طرف رواں دواں ہے۔ ہمارے قرون اولیٰ کے اسلاف اخلاق کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز تھے۔ مسلمان تو درکنار غیر مسلم بھی اس کی مثال دیا کرتے تھے۔ لیکن ہم نے اسلامی روایات سے روگردانی کی تو اخلاقی پستی ہمارا مقدر بن گئی۔ ایسے حالات میں ہمارے اکابر نے ہماری اخلاقی قدروں کو پامالی سے بچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ ان کاوشوں میں قاسمی خانوادے کا عظیم حصہ ہے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے ہر پہلو ہر زاویہ سے ہماری اخلاقی قدروں کو سنوارا ہے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے کبھی کسی انسان کو اس کے مقام سے نہیں گرایا بلکہ ناواقف بھی اگر ان بزرگوں سے ملتا تو ان کے اخلاق وکردار کی تعریف کے بغیر نہ رہ سکتا[10]۔حاجی خالد محمود نے راقم کو بتلایا کہ: میری بیعت صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی سے ہے۔ میں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو انسان دوست نہیں دیکھا۔ جو آپ کو ایک بار ملتا وہ آپ کا ہوکر رہ جاتا۔ آپ کی شخصیت میں کشش ہی کچھ اس طرح کی تھی۔ آپ کو ملنے والا ایسے سمجھتا کہ آپ اس کو صدیوں سے جانتے ہیں۔[11]

 

حقوق العباد:

عصر حاضر میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ مسائل حق تلفی سے پید اہورہے ہیں۔ دنیاوی جاہ وجلال نے لوگوں کو اندھا کردیا ہے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگ چونکہ نسبتاًسلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلسلہ قادریہ کے تین بنیادی اصول ہیں۔

 

1: اطاعت اللہ2:اطاعت رسول3:خدمت مخلوق الہ ۔[12]

 

قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے ان اصولوں کو ہمیشہ مقدم رکھا تاکہ کسی بھی انسان کی حق تلفی نہ ہو۔

 

حقوق العباد کے حوالے سے علامہ محمد شفیع قادری قاسمی کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ آپ کی زندگی کے تمام گوشے مریدین کے لئے مشعل راہ ہیں۔ صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی نے بھی ساری زندگی اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا۔آپ جہاں بھی تشریف لے جاتے اس بات کا خیال رکھتے کسی کی حق تلفی نہ ہو اور لوگوں کے لئے مشکلات پیدا نہ ہوں۔ [13]

 

تزکیہ نفس:

آج کےاس مادی دور میں انسان طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہے،ہر کسی کوروحانی تسکین کی تلاش ہےچنانچہ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے تزکیہ نفس پر خصوصی توجہ دی ہے کیونکہ روحانی تربیت میں تزکیہ نفس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے اخلاق حسنہ کی تکمیل کیلئے روحانی مراحل کے طے کرنے میں عقیدت مندوں کی ہمیشہ راہنمائی فرمائی ہے۔ خواجہ محمد قاسم انگوی قادری سے لیکر صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی تک تمام بزرگوں کی یہ اولین ترجیح رہی ہے کہ مخلوق انسانی کو روحانی سکون میسر ہو۔ دنیاوی رذائل سے بچا کر اخلاق حسنہ کا پیکر بنایا جاسکے۔

 

بوقت بیعت قاسمی خانوادےکےبزرگ جوعہدلیتے ہیں ان پر عمل پیرا ہوکر تزکیہ نفس کے مراحل کو بآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ [14]

 

نظام اصلاح وتربیت:

عصرحاضر میں قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے نظام اصلاح وتربیت پر خصوصی توجہ دی ہے۔

 

علم نفسیات میں انسان کی تین کیفیات سے بحث کی جاتی ہے۔ ادراک، احساس اور عمل۔ ہر انسانی فعل ادراک واحساس کی منزل سے گزرتا ہے۔ مشائخ کی اصلاح کا بنیادی طریقہ اور اصول یہ تھا کہ انسان کا عمل درست کرنے کیلئے ادراک واحساس کو درست کیاجائے۔ انسان کی صحیح تربیت وہ ہے جو اس کے ادراک،احساس اور عمل کو درست کردے[15]۔سلسلہ قادریہ قاسمیہ کے بزرگوں نے نظام اصلاح وتربیت کے ان اصولوں کو مریدین وعقیدتمندوں کی اصلاح کی وقت مدنظر رکھا۔

 

روحانی تسکین:

قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے مریدین او رعقیدت مندوں کے قلوب واذہان کو منور کرنے کیلئے اور ان کو روحانی تسکین فراہم کرنے کیلئے ذکر الہٰی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے مردہ دلوں کو زندہ کرنے کیلئے اورزنگ آلود دلوں کو صاف کرنے کیلئے ذکر الٰہی کو ایک اکسیر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ذکر الٰہی اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق استوار کرتا ہے۔ اس لئے جتنا خشوع وخضوع زیادہ ہوگا تعلق اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ تعلق جتنا مضبوط ہوگا۔ اس کی رحمت اور لطف وکرم سے اتنا ہی زیاہد فیض یاب ہوا جاسکتا ہے۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو تمام عبادات ہی ذکر الٰہی کا مظہر ہیں۔ تمام عبادات کا مقصود ذکر الٰہی ہے جو کہ روحانی تسکین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے[16]۔جیسا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ: اے سامعین! تم اپنے اور خدا کے درمیان ذکر سے دروازہ کھولو۔ مردان خدا ہمیشہ اسی کا ذکر کرتے رہو یہاں تک کہ ذکر الٰہی ان سے ان کے بوجھ کو دور کردیتا ہے۔ [17]

 

غریبوں کی دادرسی:

عصر حاضر میں سب سے بڑا مسئلہ غربت وافلاس ہے۔ قرونِ اولیٰ سے لیکر اب تک ہمارے بزرگوں نے اس با ت کو بڑی اہمیت دی ہے کہ مستحق افراد کی بروقت مدد کی جائے قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے اس ضمن میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ قاسمی خانوادے کے بزرگ جب تبلیغی دورے فرماتے تو تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ مفلس و نادار مریدین کی مالی امداد فرماتے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی حافظ سید امیر قادری قاسمی، علامہ محمد شفیع قادری قاسمی، علامہ حیدر شاہ قادری قاسمی اور صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی نے ساری زندگی غریبوں کی داد رسی میں گزاری۔ [18]

 

قاسمی خانوادے کے بزرگ علامہ محمد شفیع قادری قاسمی سیالکوٹ کے علاقہ لونیبجوات جو کہ ہندوستان کی سرحد پر واقع ہے پر خصوصی توجہ فرماتے۔ بجوات میں سال کا اکثر حصہ بارشوں میں گزر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب کی وجہ سے اس علاقہ کی صورت حال مخدوش رہتی ہے۔ آپ سیلاب اور بارشوں میں خصوصی طور پر وہاں تشریف لے جاتے اور تمام امور اپنی یر نگرانی مکمل کروائے۔ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک ان کی تکالیف کا مداوانہ کرلیتے۔ [19]

 

دینی و دنیاوی علوم کا امتزاج:

قاسمی خانوادے کا شمار مملکت خداداد پاکستان کے ان جلیل القدر خاندانوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اپنے آغاز سے لیکر اب تک اپنا مشن امت مسلمہ کو دینی ودنیاوی علوم سے روشناس کرانا اور ان کی علمی استعداد بڑھانا بنارکھا ہے۔تاکہ وہ اپنے اعمال وعقائد کی پختگی کے ساتھ معاشرے کے عظیم فرد بن سکیں۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں کی ان تھک محنت سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو علمی ضیاء نصیب ہوئی۔ اگر دنیاوی حوالے سے دیکھا جائے تو احمد ندیم قاسمی کی تصانیف اپنی مثال آپ ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنی کتب اور مختلف رسائل وجرائد میں وقتاًفوقتاً قوم کی علمی حوالے اصلاح فرمائی۔ آپ کی شاعری میں بھی علمی ضیاء کے ساتھ ساتھ اصلاح کا عنصر موجود ہے۔ علاوہ ازیں احمد ندیم قاسمی کے چچازاد بھائی حیات شاہ نے طب کے حوالے سے کتب تالیف فرمائیں۔

 

دینی حوالے سے صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی نے مریدین اور عقیدت مندوں کی راہنمائی کیلئے متعدد کتب تصانیف فرمائیں۔ جن کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان عبادات، عقائد اور اعمال کے حوالے سے اپنے آپ کو شریعت کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ [20]

 

فروغ شریعت میں کردار

عصر حاضر میں قاسمی خانوادےکےبزرگوں نےفروغ شریعت میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔خانوادے کے بزرگ نہ صرف خود شریعت مطہرہ پر عمل کرتے بلکہ اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کو بھی سختی سے اس کی تلقین فرماتے۔ خانوادے کے بزرگ جب بیعت لیتےتو شریعت کی پاسداری، فروغ شریعت میں کردار اور کبائر سے بچنے کا باقاعدہ درس دیا جاتا تھا۔ قاسمی خانوادے کے بزرگ حافظ سید امیر قادری بوقت بیعت ان امور کو یقینی بناتے جو شخص پابندی کرتا اسے بیعت فرماتے۔ پھر اس کی نگرانی کرتے، اگر وہ اس عہد کی پابندی کرتا تو اس کی تربیت فرماتے، اگر خدانخواستہ اس عہد کی پابندی میں کوئی کوتاہی کرتا تو اس سے ناطہ توڑ لیتے۔ [21]

 

القاسم دستر خوان:

عہد حاضر میں دکھی انسانیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو مہنگائی کے ہوشرباء میں ایک غریب ونادار کے لئے دو وقت کا کھانا مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے۔ ایسے کٹھن حالات میں قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے خدمت مخلوق اسے کے اصول کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے قاسمی خانوادے کے بزرگ صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی نے القاسم دستر خواں کا اہتمام فرمایا آپ اپنی زیرنگرانی دوردراز سے آنے والے مسافروں، عقیدت مندوں اور مقامی آبادی سے جو افراد خانقاہ عالیہ قادریہ قاسمیہ ڈھوڈا شریف گجرت پر آتے ان کے لئے مستقل بنیادوں پر تین وقت کے کھانے کا اہتمام کیا۔ اہتمام کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ آپ کے وصال کے بعد القاسم دسترخوان کا اہتمام القاسم ٹرسٹ نے سنبھالا ہوا ہے۔ اب بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں۔[22]

 

مسلمانوں کی فلاح کا جذبہ

قاسمی خانوادہ خواجہ محمد قاسم انگوی قادری سے لیکر صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی تک فلاح انسانیت کے حوالے سے ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ مخلوق انسانی کی داد رسی ان وطیرہ رہا ہے۔ دکھی اور مظلوم انسانیت کی فلاح ان کا شیوہ ہے۔ لیکن اگر عصر حاضر کے حوالے سے دیکھا جائے تو دکھی انسانیت کی مدد کے لئے اور فلاح انسانیت کے جذبہ سے سرشار صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی نے القاسم ٹرسٹ قائم فرمائی۔ القاسم ٹرست فلاح انسانیت کے حوالے سے تمام پہلوئوں پر کام کررہی ہے۔ القاسم ٹرسٹ میں نادار ومفلس مریضوں کے علاج ومعالجہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے القاسم ہسپتال کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ آج کے دورمیں بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ بڑا نازک ہے۔ آپ نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آمنہ ہائراسکینڈری اسکول قائم فرمایا۔ آپ کے ان اقدامات کو دیکھ کر انسانی عقل ششدررہ جاتی ہے کہ آج کے اس مادی دور میں ایسے اقدامات وہی کرسکتا ہے۔ جسے ایسی خوبیاں وراثت میں ملی ہوں۔ [23]

 

ملکی سا لمیت کا استحکام اور جذبہ حب الوطنی:

عصرحاضر میں جب بھی ملک عزیز میں مشکل یا کٹھن حالات پیدا ہوئے تو قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ ان میں علامہ محمد شفیع قادری قاسمی نے قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کی آباد کاری میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ آپ خود کیمپوں میں تشریف لے جاتے اور آپ کی زیرنگرانی آباد کاری کے جملہ امور سرانجام دیئے جاتے۔ 1948ئ میں کشمیر پر بھارتی یلغار اور 1965جئ کی بھارتی جارحیت کے موقع پر آپ خود محاذ پر تشریف لے جاتے اور پاک فوج کے جوانی کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ [24]

 

محمد ریاض حوالدار(ر) نے 1965ء کی جنگ کا احوال بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ:علامہ محمد شفیع قادری قاسمی نے خطر ناک مورچوں پر جاکر پاک فوج کے جوانی کی حوصلہ افزائی فرمائی، ان کے لئے دعائیں کیں۔ آپ نے برملاء فرمایا کہ شیرو، بچیوں، پترو، اللہ اور اس کا رسول ﷺ تمہارا محافظ ہے اور دشمن بھاگے گا۔ انشاء اللہ۔[25]

 

قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے زلزلہ وسیلاب جیسی مشکل گھڑی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بزرگ نہ صرف خود بلکہ مریدین کو بھی سختی سے تلقین فرماتے۔ اگر احمد ندیم قاسمی کو دیکھیں تو ان کی ساری زندگی استعماری قوتوں کے خلاف قلمی جہاد کرتے ہوئے گزری۔ جب بھی کسی طالع آزمانے پاکستانی شہریوں کی آزادی صلب کرنے کی کوشش کی تو آپ کی قلم حرکت میں آگئی۔ صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی نے بھی ہر مشکل گھڑی میں حکومت پاکستان اور حکومت کشمیر کا ساتھ دیا۔ سالانہ اجتماعات کے موقع پر آپ گڑگڑا کر ملکی سا لمیت واستحکام کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ جو کہ آپ کے جذبہ حب الوطنی کا حسنہ بولتاثبوت ہے۔[26]

 

جدید اردو نعت گوئی کا آغاز:

قاسمی خانوادے کے بزرگ احمد ندیم قاسمی کے ہاں جدید نعت گوئی کا رجحان 1980ء کی دہائی میں شروع ہوا۔ ندیم نے یہ نعتیں اندرونی جذبے متاثر ہوکر یہ نعتیں لکھیں۔ امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ:

 

اس پر آشوب دور میں احمد ندیم قاسمی کی نعتیہ شاعری زخموں کا مرہم کا کام دیتی ہے۔عظمت آدم یوں تو ہمیشہ ان کا محبوب موضوع رہا ہے۔ مگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے تعلق سے ان کے یہ لازوال شعر اپنی مثال آپ ہیں۔

 

پورے قد سے کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرممجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

 

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہیاب جوتا حشر کافر دا ہے وہ تنہا تیرا

 

ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آدیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا

 

جدید اردو نعت گوئی میں احمد ندیم قاسمی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے دہریت اور الحاد کے دور عروج میں اللہ کی وحدانیت اور نبی آخرالزمان کی رحمت اور انسانوں سے محبت کو ان روایتی حمدیہ اور نعتیہ مضامین پر ترجیح دی۔ جن میں عقیدت تو اندھی ہوتی ہے مگر بصیرت کا فقدان ہوتا ہے۔ جو آدمی کو انسان اور انسان کو مرد مومن کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ وہ آج کے عدم برداشت اور شدت پسندی کے دور میں ہمیں قطبی ستارے کی طرح چمکتا اور دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ [27]

 

خلاصہ بحث:

الغرض قاسمی خانوادے کے بزرگ مخلوق انسانی کی خدمت کیلئے ہمیشہ پیش پیش ہے۔ عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام الناس کی راحت کا بھرپور اہتمام فرمایا۔خواجہ محمد قاسم انگوی قادری سے لیکر صاحبزادہ محمد احمد قادری قاسمی تک سبھی اس جہد مسلسل میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے نہ صرف خانقاہی نظام کے ثمرات کو عوام تک پہنچایابلکہ انسان دوستی، سماج دوستی، اخلاقیات میں اپنی مثال آپ تھے۔ قاسمی خانوادے کے بزرگوں نے لوگوں کو شرعی علوم سے روشناس کرایا اور ساتھ ساتھ ہی روحانی تسکین اور تزکیہ نفس کا اہتمام فرمایا۔ انسانیت کی فلاح کا جذبہ ان بزرگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جس کی عملی شکل القاسم ٹرست کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جو آج بھی دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔

حوالہ جات

  1. چشتی، ریاض حسین، ابوحسان، معارف الاعوان، ادارہ افکار اعوان پاکستان، راولپنڈی، ص239
  2. سہ ماہی صراط اسلام، ج١،شماررہ 1، اکتوبرتادسمبر2013،ص19
  3. Haider Shah, Peer, Testimonials of Khichi Awan Family of Anga, P.2
  4. ہفت روزہ، آئینہ گجرات، 23نومبر 2013، گجرات،ص4
  5. غلام مجتبیٰ،نور احمدفریدی اورخلیق احمد نظامی کی تذکرہ نگاری کاتقابلی جائزہ (بحوالہ مشائخ چشت،تحقیقی مقالہ ایم فل علوم اسلامیہ، BZU، ملتان) سیشن2010-2012
  6. سعیدی،عون محمد،علامہ، جعلی پیراورزوال اہلسنت،مکتبہ نظام مصطفی ،بہاولپور ،ص4
  7. ساجدقاسمی،القاسم نیوز،ناشرالقاسم ٹرسٹ،ڈھوڈاشریف،گجرات،ص1
  8. طوروی،محمد عباس، احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک، پاکستان رائٹرز کو پریٹو سوسائٹی، لاہور، ص181
  9. سہ ماہی صراط الاسلام، ج1،شمارہ 1،اکتوبر تادسمبر 2013 بھمبر، آزاد کشمیر،ص24
  10. ہفت روزہ، آئینہ گجرات، ج1،شمارہ 9، 23نومبر 2013،ص4
  11. خالدمحمود، حاجی،نافرمان گجرات،انٹرویو،بروز ہفتہ،3اگست2013ء،بوقت 11:30بجے دن، بمقام ڈھوڈا شریف ،گجرات
  12. جیلانی، عبدالقادر ، شیخ، غنیة اطالبین، مترجم صوفی عبدالستار طاہرمسعودی،بشیر برادرز ،لاہور، ص163
  13. ظفر، عبدالحق،علامہ، انوار قاسم، ادارہ قاسم المصنفین، ڈھوڈاشریف ،گجرات، ص241
  14. قادری، ضیاء اللہ،علامہ، مشائخ قادریہ،قادری کتب خانہ،سیالکوٹ، ص107
  15. نظامی، خلیق احمد، تاریخ مشائخ حیثیت، مشتاق بک کارنر، لاہور، ص265
  16. قادری،محمد احمد،صاحبزادہ،مجموعہ وظائف قادریہ، ادارہ قاسم المصنفین، ڈھوڈا شریف، گجرات، ص21
  17. جیلانی،عبدالقادر شیخ،الفتح الربانی،مترجم مفتی ابراہیم قادری،فرید بک اسٹال،لاہور، ص41
  18. روزنامہ، جنگ لاہور، 12 جنوری 2012ء،ص8
  19. ظفر،عبدالحق،علامہ، انوارقاسم، ص257
  20. سہ ماہی صراط اسلام، ج1،شمارہ 2، جولائی تاستمبر 2014ء،ص35
  21. قادری، ضیاء اللہ، علامہ، مشائخ قادریہ، ص113
  22. روزنامہ جنگ لاہور،یکم جنوری، 2014ء،ص8
  23. ساجدقاسمی، القاسم نیوز، ناشر القاسم ٹرسٹ،ص1
  24. قادری،ضیاء اللہ،علامہ،مشائخ قادریہ،ص144
  25. محمد ریاض،حوالدار(ر) دولت نگرگجرات،انٹرویو،بروز ہفتہ،3اگست2013ء،بوقت 11بجے دن،بمقام ڈھوڈاشریف،گجرات
  26. ظفر،عبدالحق،علامہ، انوارقاسم، ص227
  27. روزنامہ،ایکسپریس ملتان،13جولائی 2014ء،ص12
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...