Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 1 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

قرون وسطی میں مصر سے ملتان تک قرامطہ کے سیاسی و مذہبی اثرات |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029185_1081

Pages

107-132

DOI

10.51411/rahat.1.2.2017.17

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/17/313

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/17

Subjects

Khilafate sectarian Qramtah Islamic state

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قرامطہ کاآ غازوارتقاء:

تاریخ کےاوراق پرنظر دوڑائی جائےتومعلوم ہوتاہےکہ امت مسلمہ کوجہاں کئی مسائل کاسامنا کرناپڑا وہیں کئی فتنےبھی ظاہر ہوئےجن میں کبھی فتنہ ارتدادتوکبھی منکرین زکواة اورکبھی خوارج نےامت کوبدحال کردیامگرجب خلافت اسلامیہ کےزوال وانحطاط کادورآیاتواس کےبعدان تمام میں نہایت ہی خوفناک،کرب انگیز،وحشت ناک اورسفاکیت سےبھر پور کردار قرامطہ کابھی ہےجنہوں نےاسلام کےلبادہ میں خوداسلام کی اینٹ سےاینٹ بجاڈالی۔ یہ فرقہ مشرق سےلیکرمغرب تک عالم اسلام کےانتشار،ان کی تباہی وبربادی اورمسلمانوں کےلئےخوف کی علامت بن گیااس فتنےکے ہاتھوں عام لوگ ہی نہیں بلکہ علماءوفضلاءکاقتل عام ہوا،اپنے عقائد کےبرعکس چلنےوالوں کوجان سےماردیناانکےایمان کاحصہ تھایہی وجہ ہے کہ امت کوسب سےزیادہ نقصان فتنہ قرامطہ کیوجہ سے ہوااورفتنہ قرامطہ مصرسےملتان تک پھیلا اورمسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہتا رہا ۔فاطمی فرقہ کی بنیاد مہدی نے ڈالی جس کا پورا نام ابومحمد عبیداللہ بن میمون القدع اور لقب مہدی تھا علامہ جلال الدین سیوطی نے ذہبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ محققین کا خیال ہے کہ مہدی بلحاظ حسب و نسب فاطمی یا علوی نہیں تھا،[1]اورپھر یہ شخص بلاد افریقہ میں داخل ہوا اور وہیں اس نے اپنے فاطمی ہونے کا دعویٰ کیا اور ایک چھوٹی سی حکومت قائم کر لی۔اس نے سلجماسہ شہر پر قبضہ کر لیا پھر اس نے مہدی شہر کی بنیاد رکھی یہی اس کی حکومت کا مرکز تھا اور یہیں سے قرامطہ کی حکومت کا آغاز ہوا[2]،اور بعد میں اس کے کارندے یہاں سے پورے اسلامی ریاست میں پھیل گئے اور یہ کارندے فاطمی داعی کے نام سے پکارے جانے لگے۔ شروع سے آخر تک ان کی تمام کاروائی انتہائی صیغہ راز میں رہتی تھی اور ایک دم یہ کسی جگہ خروج کر کے اس علاقے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بزور طاقت قائم کر لیتے اور اپنے عقائد کا پرچار کرتے تھے ۔

ڈاکٹر زاہد علی نے تاریخ فاطمین مصر لکھی اور یہ کتاب فاطمین مصر پرایک مستند مقام رکھتی ہے۔ اوریہ تاریخ فاطمی مصنفین کی قلمی کتابوں سے اخذ کی گئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اسما عیلی فرقے کی سب سے پہلی اور اہم شاخ قرامطہ ہے یہ لفظ جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد قرمطی ہے جو قرمط کا اسم منسوب ہے۔کہا جاتا ہے کہ قرمط لقب ہے حمدان بن اشعث کا جس نے اس فرقے کی بنیاد ڈالی قرمط کے معنی عربی زبان میں نزدیک نزدیک قدم ڈال کرچلنے کے ہیں پست قامت ہونے کی وجہ سے یہ شخص قرمط کہلانے لگا [3]۔جبکہ ابن خلدون کے مطابق اسماعیلی فرقے کی بنیاد فاطمی خاندان کے ایک فرد نے رکھی جبکہ قرامطہ کی تحریک کے محرک اسما عیلی داعی تھے اسماعیلیوں اور قرامطہ میں عقائد کا کوئی فرق نہیں تھا بلکہ قرامطہ نے حکمرانی کی خاطر خروج پچاس سال پہلے کر لیا[4]۔ ابن اثیر کا خیال ہے کہ یہ لفظ کرمیتہ ہے جو نبطی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معانی سرخ آنکھوں والے آ دمی کے ہیں۔ حمدان کی آنکھیں سرخ تھیں اس لیے عرب اس کو قرمطہ کہنے لگے۔اسماعیلی فرقے کی ابتدا اسماعیل بن جعفرصادق کی وفات کے بعد ہوئی یہ واقعہ 33 ھ کا ہے اور قرامطہ کا آغاز احمد بن عبداللہ بن محمد بن اسماعیل متوفی 242ھ میں ہوا جس کے بیٹے حسین اسماعیلیوں سے الگ ہو گئے[5]۔ڈاکٹر زاہد کا خیال ہے کہ قرامطہ کا آغاز حسین ہوازی نے کیا جو کہ احمد بن عبداللہ بن میمون القداح کا ایک داعی تھا۔یہ کوفہ میں ایک اور داعی حمدان بن اشعث سے ملا حسین ایماندار نیکو کار تھا لوگ اس کے گرویدہ ہو گئے[6]۔ایک خفیہ داعی خوزستان سے آیا تو وہ بھی قرمط کہلایا اس کا اصل نام کسی کو معلوم نہیں تھا یہ خوزستانی اور کرمیتہ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے کرمیتہ کہلانے لگا۔پھر اس لفظ

میں تصحیف ہوئی اور کرمیتہ کا کاف قاف سے بدل کر قرمط ہو گیا [7]۔

مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی کا خیال ہے کہ سر زمین کوفہ پر 278ھ میں حمدان المعروف قرامط نے ایک نیا مذہب جاری کیا اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ایک غالی شیعہ تھا اور سات اماموں کا قائل تھا جن میں امام حسین ؓ، امام زین العابدینؒ ، امام محمد باقر ؒ، امام جعفر صادقؒ ، امام اسماعیل بن جعفر صادق ، امام محمد بن اسماعیل ، عبید اللہ بن محمد کو وہ اپنا امام مانتا تھا اور خود کو عبید اللہ کا نائب کہتا تھا۔حالانکہ عبید اللہ نام کا کوئی بیٹا محمد بن اسماعیل کا نہیں تھا۔حمدان محمد بن الحنفیہ بن علی بن ابی طالب کو رسول مانتا تھا دن میں دو نمازیں فرض کیں دو رکعت طلوع آفتاب سے پہلے اور دو غروب آفتاب کے بعد رکھیں۔ جمعہ کی بجا ئے دوشنبہ کا دن افضل قرار دیا،اس دن کوئی کام نہیں کرتا تھا اور قرامطہ کے مخالف کو واجب القتل قرار دیا[8]۔

242ھ میں احمد کی وفات کے بعد حسین بن احمد کے خط کے جواب میں حمدان نے اپنے ایک ساتھی داعی عبدون کو سلمیہ بھیجا کے حالات کا جائزہ لے کر آؤ۔عبدان سلمیہ آ کر حسین سے ملا تو حسین کا رویہ بدلا ہوا تھا۔عبدان کے امام سے متعلق سوال کا حسین نے یہ جواب دیا کہ پہلے تم بتاؤ تو عبدان نے کہا کہ وہ امام محمد بن اسماعیل بن جعفر صاحب ا لزمان ہیں تو حسین نے کہا نہیں میرے باپ کے سوا کوئی امام نہیں ہو سکتا اور میں اس کا قائم مقام ہوں عبدان نے واپس آکر حمدان کو حالات سے آگاہ کیا تو اس نے 286ھ میں سلمیہ سے الگ ہو کر دعوت قرمطیہ کا آغاز کر دیا اور کئی مدد گارداعی تیار کر لیے۔اس نے اپنی قوت بڑھائی اور محاصل مریدوں سے وصول کرنے لگا اور اسکے مریدو پیرو کا ر اسکی ہر بات ماننے لگے[9]۔

اس نے لوگوں کو مال و دولت نہ رکھنے کی ترغیب دی اور اعلان کیا کہ تم جلد تمام روئے زمین کے مالک ہونے والے ہو۔ ان کو ہتھیار خرید کر گھر رکھنے کا حکم دیا اور انکی کمائی خود جمع کرنے کیلئے ایک داعی مقرر کر دیا اور ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ جمع شدہ رقم میں سے جو بھوکا ہو اس کو کھانا کھلائے جو ننگا ہو اس کو کپڑا دے جو اپاہج ہو اس کی مدد کرے۔اس عمل سے کوئی محتاج اور فقیر نہ رہااور لوگوں کی ساری کمائی خوشی سے اس کے پاس جمع ہونے لگی تو اس نے لوگوں کو فسق و فجور کی طرف موڑ دیا اور کہا کہ ایک خاص حد تک پہنچنے کے بعد شریعت کے ظاہری اعمال اٹھ جاتے ہیں۔اب نماز ، روزے، کی ضرورت نہیں اور کہا کہ محمد بن اسماعیل بن جعفر کی معرفت ہی کافی ہے یہی وہ مہدی ہیں جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے اور یہ سب کچھ ان کیلئے کیا جا رہا ہے کہ کمزور عباسی خلافت کی وجہ سے قرامطہ نے اپنی تبلیغ شروع کی عراق ایران شام اور بحرین میں چھا گئے۔لوگوں کو امید دلائی کہ مہدی کا ظہور ہونے والا ہے مہدی کا انتظار قرامطہ کی سیاسی ترقی کا اہم سبب ہے[10]۔

288ھ میں عبدان کو قتل کر دیا گیا تو قرامطہ میں پھوٹ پڑ گئی مگر دو سال بعد یہ پھر طاقتور ہو گئے بلاد شام ان کے قبضے میں آ گئے خلیفہ معتضد نے آخر ایک بڑی لڑائی میں قرامطہ کو شکست دے کر بہت کمزور کر دیا یحےیٰ اور اس کے اکثر قرامطی ساتھی مارے گئے ۔ پھر خلیفہ مکتفی نے ایک اور بڑا لشکر اپنے سپہ سالار محمد بن سلیمان کی سرکردگی میں بھیجا اور خود بھی رقہ تک اس لشکر کے ساتھ گیا جس میں قرامطہ کو بہت بڑی شکست ہوئی زکرویہ کے تینوں بیٹے اس جنگ میں مارے گئے 294ھ میں حجاج کرام کوقتل اور لوٹنے کی وجہ سے ایک بار پھر مکتفی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو مکتفی نے پھر اپنے سپاہ سالار وصاف کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا ۔ وصاف نے قرامطہ کو خوفناک شکست دی ۔زکرویہ قتل ہوا اور اسکی لاش بغداد میں کئی دن تک لٹکائی گئی۔اس کے ساتھ ہی عراق سے قرامطہ کا خاتمہ ہو گیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قرامطی پسپا تو ہو جاتے تھے مگر تھکتے نہیں تھے۔اس سلسلے میں ایک بار خلیفہ مقتدر نے تعجب سے کہا کہ قرامطہ کی دو ہزار فوج ہماری اسی

ہزار فوج کے لشکر کو کیسے مغلوب کر دیتی ہے [11]۔

بعض محققین کا خیال یہ ہےکہ قرامطہ اسماعیلی فرقہ کی ایک شاخ تھا۔ اس کا بانی عبد اللہ بن میمون کے د اعیوں میں سے ایک داعی حمدان نامی تھا۔ اس کا لقب قرامطہ تھا۔ جو خوزستان سے آ کر کوفہ کے نزدیک تہرین نامی گاؤں میں آباد ہوا اور اسماعیلی فرقے کی تبلیغ کرنے لگا۔ حمدان کے لقب قرامطہ کی وجہ تسمیہ کے متعلق بہت سی روایات ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حمدان بیمار ہوا تو ایک شخص نے جسے سرخ آنکھوں کی وجہ سے کرمیہ کہتے ہیں۔ نہایت تندہی سے حمدان کا علاج معالجہ اور بیمار داری کی حمدان کی صحت یابی کے بعد بھی وہ اس کے پاس رہتا تھا۔ اس پر لوگوں نے حمدان کو بھی کرمیہ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں قرمطہ بن گیا۔ ایک روایت ہے کہ حمدان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا تھااور چونکہ عربی میں ایسے آدمی کو قرمطہ کہتے ہیں اس لے وہ اسی نام سے مشہور ہوا ہے اور اس کے پیرو قرامطہ کہلائے۔حمدان بہت زاہد اور عبادت گزار تھا لوگوں کو امام مہدی کی طرف دعوت دیتا تھا، اسکے عقائد بہت عجیب تھے جن میں ایک عقیدہ یہ تھا کہ دن رات میں پچاس نمازیں فرض ہیں یہاں بحرین میں عربوں ، حبشی غلاموں اورہا شمی قبیلوں کی مخلوط آبادی تھی یہ لوگ کاشتکاری کرتے تھے لیکن ان کی شبانہ روز محنت کا پھل مالکان اراضی اور جاگیر دار کھا جاتے تھے ۔اور یہ محنت کش کا شت کار لوگ ذلت اور تنگ دستی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ حمدان قرمطہ نےان مظلوم محنت کش کاشتکاروں کی تنظیم کی اور انہیں یہ یقین دلایا تھا کہ امام محمد بن اسماعیل عنقریب دنیا میں ظاہر ہوں گے اور تمہیں مالکان اراضی کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔ اس پر عوام کی ایک کثر تعداد اس کے ساتھ ہو گئی اور یہ تحریک کافی زور پکڑ گئی ۔ یہ عباسی خلیفہ معتمد کے دور خلافت کی بات ہے اس وقت عباسی سلطنت اپنے دور زوال سے گزر رہی تھی ، حمدان کو دربار خلافت کی کمزوری کی بنا پر اپنی جمعیت بڑھانے کے موقع مل گیا۔ اس کا منشاء دراصل یہ تھا کہ عباسی حکومت کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ ایک اسماعیلی یا فاطمی حکومت قائم کی جائے۔ اسکے پیرو اسے امام الزمان کا پیرو سمجھتے تھے 278ھ مطابق 891ء میں حمدان نے کوفہ کے مشرق میں ایک مرکز قائم کر کے اس کا نام دارالحجرت رکھا اور اس کو حکومت کے خلاف اپنی سر گرمیوں کا مرکز بنایا اس پر کوفہ کے عباسی حاکم نے حفظ ما تقدم اپنی سر گرمیوں کا مرکز بنایا، اس پر کوفہ کے عباسی حاکم نے حفظ ما تقدم کے طور پر اسے گرفتار کر کے قصر امارات کے ایک کمرے میں بند کر دیا لیکن ایک لونڈی کی منت سماجت پر جو غالبا حمدان کی خیر خواہ اورمعتقد تھی رہا ہو گیا اس نے اس رہائی کو اپنی کرامت پر محمول کیاساتھ ہی اس نے یہ خیال بھی پھیلا یاکہ کوئی شخص اسے گزند نہیں پہنچا سکتا۔ کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ اسے اپنی جان کا خطر ہ ہوا تو وہ بھا گ کر شام چلا گیا جہاں اس کی تحریک کو بہت فروغ حاصل ہوا ،عراق اور شام کے علاوہ یہ تحریک خراسان ، سندھ اور ملتان تک پھیل گی۔قرامطی تحریک اشتراکی اصولوں پر استوار کی گئی تھی۔ اس کا مقصد رواداری اور مساوات کا پرچار تھا ۔ یہ سرمایہ داروں کے ظلم و ستم اور ان کی ٹوٹ کھسوٹ سے محنت کشوں کا تحفظ چاہتی تھی۔ اس لئے قرامطیوں نے مختلف نوع کے پیشہ وروں کی ایک جماعت بنائی ایک منظم بنائی اور یہ ایک ہی نوع کے پیشہ ور وں کی جماعتی تنظیم کی ایک منظم جماعت جس میں ایک ہی نوع کے پیشہ ور شامل ہوتے تھے،صنف (Guilds)کہلاتی تھی۔ حمدان اگرچہ فرقہ اسمعیلیہ سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس نے نئے نئے مذہبی اقتصادی اور سماجی اصول وضع کئے، متمدن دنیا کے تاریخی دور میں غالبا یہ پہلی تحریک تھی جس نے عالم اسلام کے محنت کشوں کو منظم کیا [12]۔

قرامطہ کے متعلق یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں ضروریات قرامطہ کو مقدم گردانتے ہوئے ضروریات دین کا انکار کیا ، نص قرآنی کی باطنی تاویلات کیں اور اسلام کے بر عکس عقائد و نظریات اختیار کیے۔ اس وجہ سے علمائے امت نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج بتایا۔ علامہ

عبد القاہر بغدادی قرامطہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

اعلمو ا اسعد کم اللہ ان ضرر الباطنیہ (القرامطة) علی فرق المسلیمن اعظم من ضرر الیھود و النصاری والمجوس علیھم اعظم من مضرة الدھریة و سائر اصناف الکفرة علیھم بل اعظم من ضرر الدجال الذی یظھر فی آخر الزمان ۔ لان الذین ضلع عن الدین بد عوة الباطنیة من وقت ظھور دعتوتھم الی یومنا اکثر من الذین یضلون بالدجال فی وقت ظھورہ لان فتنة الدجال لا تزید مد تھا علی اربعین یوما و فضائح الباطنیة اکثر من عدد الرمل والقطر“[13]

علامہ بغدادی فرماتے ہیں کہ مسلمان گروہوں پر باطنیہ (قرامطہ) کا ضرر یہود و مجوس بلکہ دہریت اور کفر کی جملہ صورتوں سے بڑھ کر ہے شیخ عبد القاہر قرامطہ کو دجال سے بھی زیادہ ضرر رساں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس فرقہ نے آغاز دعوت سے آج تک جتنے لوگوں کو گمراہ کیا ہے وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جنہیں دجال گمراہ کر ے گا کیونکہ اس کا فتنہ تو چالیس دن تک محدود ہے اور قرامطہ کی گمراہیاں ریت و قطر کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں.

قرامطہ کے متعلق ایک رائے یہ بھی ہے کہ قرامطہ زنادقہ اور ملحدوں کا ہی ایک فرقہ ہے اور یہ فارس کے فلاسفہ کی اقتدا ءکرنے والا ہے جو زردشت اور مردک کو نہیں مانتے ہیں یہ دونوں شخص حلال کو حرام ماننے والے ہیں پھر اس کے بعد قرامطہ ہر کس و نا کس کو ماننے والے ہوگئے دراصل ان کو عقل کے کوراہونے کی وجہ سے رافضیوں نے گمراہ کیا اور قرمط بن الاشعث کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ان کا نام فرقہ قرامطہ مشہور ہو گیا[14]۔

عراق میں انہیں باطنیہ، قرامطہ اور مزدکیہ کانام دیا جا تا ہے خراسان میں تعلیمیہ اور ملحدہ کے نام سےجانےجاتےہیں جبکہ وہ اپنےآپ کواسماعیلیہ کہتے ہیں۔بعض مورخین قرامطہ کو ایک مستقل فرقہ کےطور پر ذکر کرتے ہیں لیکن امام غزالی کہتے ہیں کہ قرامطہ ، اسماعیلیہ ہی کا ایک لقب ہے:

واما القرامطہ فانما لقبو ابہا نسبتا الی رجل یقا ل لہ حمدان قرمطہ، کان احد دعاتھم فی الابداءفاستجاب لہ فی دعوتہ رجال فسمو ا قرمطیة۔ [15]

امام غزالی ؒ کے مطابق دعوت کے ایک داعی حمدن قرامط کی دعوت پر لبیک کہنے والے

قرامطہ کہلائے ۔ بعض علمائے تاریخ جیسا کے ذکر کیا گیا قرامطہ کو ایک الگ فرقہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں اسکی وجہ شاید یہ ہو کہ سیاسی و سماجی منظر نامہ پر اسماعیلیہ قرمطہ کے نام سے ظاہر ہوئے۔

278ھ میں قرامطہ نے کوفہ میں خروج کیا یہ ملحدوں کی ایک قسم ہے انہوں نے غسل جنابت کو نا جائز اور شراب کو جائز قرار دیا اپنی اذان میں اَ نَّ مُحَمَّدَ بِن الحَنفِیّہ رَسُولُ اللّٰہِ کے الفاظ کا اضافہ کیا ۔ روزے ہر سال میں دو دن کے یعنی نیروز اور مہر جان کے فرض رکھے بیت المقدس کا حج کیا اور اس کو اپنا قبلہ قرار دیا بہت سی چیزوں کو کم یا زیادہ کیا اور اپنے عقائد کو جاہلوں، گنواروں اور علماء کے سامنے پیش کیا اور انکار کرنے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دیں[16]۔

حمدان قرمط کے داعیوں میں ایک شخص ابو سعید جنابی تھا۔ اس نے بحرین میں اس قدر زور پکڑا کہ 286ھ میں اس نے بحرین میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ الاحصار اس کا دارالحکومت تھا۔ اگلے سال اس نے بصرہ پر حملہ کر دیا اور عباسی فوجوں کو شکست دے کر وہاں پر قابض ہو گیا۔ اس فتح سے جنوبی عراق دوبارہ قرامطی تحریک کی لپیٹ میں آگیا ، اس کے دو سال بعد اس نے شام پر حملہ کر کے ہر طرف تباہی و بربادی پھیلا دی اور جنابی نے یمامہ کو زیر نگین کر لیا اور عمان پر فوج کشی کی۔ 286ھ میں ابوسعیدقرمطی جب ظاہر ہوا تو اس کی شوکت کو ترقی ہوئی افواج شاہی اور ابو سعید کے مابین جنگ ہوئی جس میں ابو سعید کامیاب ہوا ۔اس کے بعد بھی خلیفہ کی فوج اور ابو سعید میں چند مرتبہ جنگ ہوئی مگر خلیفہ کی فوج نے شکست کھائی تو ابو سعید بصرہ اور اس کے گردونواح میں قابض ہو گیا۔290ھ میں یحیٰ بن زکرویہ قرامطی اور 291ھ میں اس کا بھائی حسین بن یحیٰ جس نے اپنا لقب امیر المومنین مہدی رکھا تھا ان کا ایک چا زاد بھائی عیسیٰ بن مہرویہ جس نے اپنا لقب مدثر رکھا تھا اور کہتا تھا کہ قرآن کی سورہ مدثر میں اسی کا نام مذکور ہے اور ان کا غلام جس کا نام انہوں نے المنطوق بالنور رکھا انہوں نے شام میں اودھم مچائی اور آخر کار یہ تینوں شام میں مارے گئے301ھ میں مہدی قرامطی مصر پر حملہ کر دیا شاہی افواج نے برقہ کے مقام پر مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اور یہ اسکندریہ اور فیوم پر قابض ہو گیا[17]۔

301ھ مطابق 914ء میں شاہی افواج کے ساتھ ایک معرکہ کے دوران میں جنابی مارا گیا اور اس کا بیٹا ابو طاہر قرامطہ کا قائد بنا۔ لوٹ مار و ظلم و تشدد میں یہ اپنے باپ سے بھی دو قدم آگے تھا اس نے بصرہ پر پے در پے حملے کر کے بڑی بیدردی سے قتل عام اور غارتگری کی اور بصرہ کے بعد بغداد اور کوفہ کو تخت و تاراج کیا۔اس کے مقابلے میں شاہی لشکر نے ہر معرکہ میں شکست کھائی۔ حاجیوں کے قافلوں کو لوٹنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ 316ھ مطابق 930ءمیں ابو طاہر نے عین حج کے دن مکہ معظمہ پر حملہ کر دیا۔ قرامطہ نے حاجیوں کو بے دریغ قتل کیا ۔ خانہ کعبہ کی بے حرمتی کی ۔ غلاف کعبہ پھاڑ دالا اور خانہ کعبہ کو لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنانے کے بعد حجر اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ لےگئے حرم کی اس شدیدبےحرمتی کےباعث تمام مملکت اسلامیہ میں شورمچ گیااورخود قرامطیوں کے پیشوا عبد اللہ نے ابو طاہر کو اس مذموم فعل پر برا بھلا کہا اور حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی تمام چیزیں واپس کی جائیں اس نے صرف حجر اسود واپس کیا اور باقی چیزوں کے متعلق لکھا کہ وہ ضائع ہو چکی ہیں[18]۔

قرامطہ مختلف ادوار میں مختلف جگہوں پر خروج کرتے رہے 286ھ میں بصرہ کے نواح میں ابو سعید جنابی نے خروج کیا اور قطیف اور ہجر کے علاقے میں بہت زیادہ فساد برپا کیا اصل میں یہ جنابہ نامی شہر کا باشندہ تھا جس کی وجہ سے یہ جنابی کہلایا[19]۔

قرامطہ نے اسلامی حکومت کی کمزوری کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور مختلف جگہوں پر اپنی

طاقت کے مطابق خروج کرتے رہے اور مسمانوں کا خون نا حق پانی کی طرح بہاتے رہے۔ عباسی خلیفہ کمزور ہونے کی وجہ سے مقابلہ تو کر رہا تھا مگر ان کا مکمل قلعہ قمع نہیں کر پا رہا تھا ۔اور یہ بہت طاقت ور ہوتے جا رہے تھے یہی وجہ تھی کی پہلے ان کے داعی علاقے میں پہنچ کر لوگوں کو اپنا حامی بناتے اور پھر یہ حالت کو سازگار دیکھ کر وہاں خروج کرتے۔قرامطیوں کی یہ لوٹ مار ایک عرصہ تک جاری رہی خلفاءعباسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ قرامطیوں کا انسداد کر سکے،ایسی صورت حالات میں یہ فتنہ نہ جانے اور کیا کیا گل کھلا تا کہ 326 میں ان کی اپنی جماعت میں پھوٹ پڑ گئی جس سے ان کا زور ٹوٹ گیا بالخصوص جب انکے لیڈر اصم شاہ بحرین کو فاطی خلفا ءالمعز اور العزیز نے پے در پے شکستیں دیں تو ان کی طاقت کا خاتمہ ہو گیا۔

298ھ میں قرامطہ نے کوفہ کے مضافات میں پیش قدمی کی مگر بروقت کاروائی ہونے کی وجہ سے ان کو کامیاب نہ ہونے دیا گیا اسی سال قرامطہ نے دمشق پر یلغار کر دی اور یحیٰ بن ذکرویہ نے قرامطہ کے سامنے جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ اولاد علی بن ابی طالب میں سے ہے۔ اور کہا کہ اس کے متبعین کی تعداد ایک لاکھ ہے اور اس کی اونٹنی منجانب اللہ مامور ہے اور یہ جس علاقے میں جائے گی اس علاقے والوں کو فتح حاصل ہو گی۔اس کو شیخ کا لقب دے دیا گیا اور اس کے حامی فاطمین بن گئے خلیفہ نے اس کی سرکوبی کیلئے ایک لشکر بھیجا مگر اس لشکر نے شکست کھائی۔قرامطہ نے اس کے بعد رصافہ کی جامع مسجد کو جلا دیا لوگوں کو خوب لوٹا اور دمشق میں داخل ہو گئے جہاں قتل عام میں کوئی کمی نہ چھوڑی[20]۔ 291ھ میں خلیفہ کے لشکر نے انکو شکست دی اور ان کا سردار حسن بن ذکرویہ گرفتار ہو گیا۔ اس کو پوری جماعت کے ساتھ بغداد بھیجا گیا جہاں ان کو عبرت ناک سزا دے کر واصل جہنم کیا گیا ۔حسن بن ذکرویہ کا سر لکڑی پر رکھ کر پورے بغداد کے شہر میں گھمایا گیا محر م 294ھ میں قرامطہ نے ذکرویہ کی سربراہی میں مکہ مکرمہ سے خراسان آنے والے حجاج کے قافلے پر حملہ کر کے بیس ہزار حاجیوں کو شہید کردیااس قتل عام میں قرامطہ کے مرد و زن سب شریک تھے۔عورتوں نے فریب کےساتھ حجاج کو قتل کیا اور تمام مال و دولت لوٹ لیا گیا ۔خلیفہ بغداد نے اس واقعے کا سخت انتقام لیا اور ایک بہت بڑا لشکر بھیجا جس نے ان کو عبرت ناک شکست دی چند لوگوں کے سوا پوری جماعت قتل ہوئی اور ذکرویہ کا سر کاٹ کر پورے خراسان میں گھمایا گیا اور پھر دربار خلافت میں بھیجا گیا[21]۔

قرامطہ نے کبھی پرواہ نہ کی کہ نہتے اور معصوم لوگوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں بلکہ انہوں نے اس ظلم و بربریت کو جاری رکھا اور آئے روز ایک نیا محاذ کھول کر خلیفہ کو خوب پریشان کیا اور وہ بے بس نظر آیا۔ مصر سے ملتان تک عوام قرامطہ کے خوف کا شکار تھی اور وہ اس خوف و عذاب سے نجات کی طلبگار تھی مگر کوئی بھی انکی اس امید کو پورا کرنے سے قاصر تھا۔ قرامطی بے لگام گھوڑے کی منند دوڑ رہے تھے کوئی شہر ،علاقہ ان کی دسترس سے دور نہیں تھا۔

311ھ میں قرامطہ کا سردار ابو طاہر سترہ ہزار شہ سواروں کے ساتھ رات کی تاریکی میں بصرہ میں داخل ہوا خوب قتل و غارت کی اور لوٹ مار کر کے روانہ ہو گیا خلیفہ نے اس کے پیچھے لشکر روانہ کئے مگر یہ جس شہر میں ہوتا اس کو ویران کر کے دوسری طرف بھاگ جاتا، آخر کا ر یہ واپس ہجر جا پہنچا[22]۔سیوطی لکھتے ہیں کہ :اس سال خلیفہ نے منصور ویلمی کو امیر حج بنا کر بھیجا جو بخیریت مکہ پہنچ گیا مگر طاہر قرامطی بھی 8 ذولحجہ کو مکہ آ گیا اس نے حجاج کرام کا قتل عام کرایا اور لاشیں چاہ زمزم میں پھینکوا دیں۔حجر اسود کو گرز ماما کر خانہ کعبہ کی دیوار سے جدا کر دیا اور یہ گیارہ روز تک ایسے پڑا رہا پھر وہ اس کو ساتھ لے گیا اور چوبیس برس اس کے پاس رہا۔حجر اسود لیکر جانے والے چالیس اونٹ راستے میں مر گئے مگر واپسی پر صرف ایک کمزور اونٹ حجر اسود کو مکہ لے آیا۔ ابو طاہر اس واقعے کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا اور چیچک میں مر گیا[23]۔

اور علاقوں میں قرامطہ کی سفاکی کی داستانیں سنائی جا رہی تھیں کہ کہ یہ فتنہ وہاں پہنچ گیا جس جگہ کو امن کا مقام بتایا گیا ہے۔ و من دخلہ کان امنا۔ اور جو یہاں داخل ہوا اس کے لیئے امان ہے۔ سات ذی الحج کو ابو ا طاہر قرمطی اپنے حواریوں کے ساتھ مکہ پہنچا گیا مکہ کی گلیوں میں معصوم حجاج کا قتل عام ہوا۔مسجد الحرام بھی محفوظ نہ تھی جو لوگ غلاف کعبہ سے جا کر لپٹ گئے ان کا بھی قتل عام ہوا جو طواف کر رہے تھے وہ قتل ہوئے اور یہ سب کچھ مقدس ماہ اور محترم مسجدلحرام میں ہو رہا تھا اور اس نے اعلان کیا کہ میں نے ہی ان لوگوں کو پیدا کیا اور میں ہی ان کا فنا کرنے والا ہوں۔ حجاج ناحق شہید ہو رہے تھے اور کچھ جان کنی میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے: تم بہت سے عاشقوں کو اپنے شہر میں بچھڑا ہوا پاؤگے اصحاب کہف کی طرف انہیں نہیں معلوم کہ وہ یہاں کتنے دن ٹھہرے ہیں۔ قتل عام کے بعد شہداءکو چشمہ زمزم اور مسجد حرام میں دفن کر دیا۔ پھر کعبے کا دروازہ توڑ دیا اور غلاف کو چاک کر دیا۔ابو طاہر نے ایک شخص کو حکم دیا کہ میزاب کعبہ کو اکھیڑ دو وہ جب اوپر چڑھنے لگا تو اوندھے منہ گر کر مر گیا پھر کسی کو جرا ت نہ ہوئی۔حجر اسود اکھیڑ لیا اور پکارنے لگے کہ کہاں گئے طیراً ابابیل اور حجارة من سجیل ۔ جب قرامطی حجر اسود لے کر جا رہے تھے تو امیر مکہ نے درخواست کی کہ میرا پورا مال لے لو اور یہ حجر اسود واپس کر دو تو قرامطی نے جواب میں امیر مکہ اور اس کے گھر والوں کو شہید کر دیا۔ آ خر کار مہدی نے ابو طاہر کو خط لکھ کر واقعہ حج پر ملامت کی اور کہا کہ جو کام چپکے سے ہو رہا تھا تو نے اس کو ظاہر کر دیا۔اس نے حکم دیا کہ جو مال لوٹا ہے وہ واپس کر دو مگر طاہر نے جواب دیا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا[24]۔

316ھ میں ہونے والے اس واقعے نے امت ِ مسلمہ اور خلافت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں بہت سارے شہر اور علاقے قرامطے کے قبضے میں آگئے ان کے سخت گیر رویئے اور سفاکیت کی وجہ سے لوگوں کے دل لرز اٹھے۔عباسی خلیفہ معتضد نے کئی بار ان کے خلاف فوجیں روانہ کیں مگر شکست کھائی۔قرامطہ کا خوف اتنا بڑھا کہ اہل مکہ اپنا شہر چھوڑ گئے اور کئی سال تک حج بند ہو گیا 327ھ میں ابوعلی عمر بن یحیٰ العلوی نے اپنے قرامطی دوست کو ایک خط لکھا اور کہا کہ حاجیوں کا راستہ کھول دے اور ہر حاجی سے فی اونٹ پانچ دینار محصول لے کر حج کی اجازت دے ،تو اس نے

اجازت دے دی اور لوگوں نےحج کیا یہ پہلا موقع تھا جب حاجیوں سے ٹیکس وصول کیا گیا[25]۔

قرامطہ نے حجر اسود کو اپنے پاس تقریباً چوبیس برس رکھا اور کہتے تھے جس کے حکم سے لے گئے ہیں اسی کے حکم سے واپس کریں گے پھر یہ 339ھ میں اس کو کوفہ لے آئے۔ طاہر کے ایک بھائی نے خط لکھ کر ساتھ رکھ دیا کہ جس کے حکم سے لائے تھے اسی کے حکم سے واپس کر دیا اور اسی سال ذیقعد 339ھ میں قرامطہ حجر اسود کو بغیر کسی مطالبے کے واپس مکہ چھوڑ گئے[26]۔

قرامطہ نے اپنا اثر و رسوخ اور رعب و دبدبہ قائم کر دیا یہاں تک کہ وہ جب چاہتے حج پر بھی پابندی لگا دیتے تھے جیسا انہوں نے شام و مصر کی فتح کے وقت کیا مثلاً 356ھ میں قرامطہ دمشق پر بھی قابض ہو گئے اور انہوں نے شام اور مصر سے جانے والے ہر شخص کو حج کر نے سے روک دیا[27].

باطنیان و قرمطیان خط باریک کہ آنرا خط مقرمط خوانند نیک نوشتی وازاین جھت اور اقر مطویہ لقب کردندی مردیی را از شہر اھواز با این مبارک دوستی بود نام ابو عبداللہ میمون قداح۔ قرامطن حسن جنابی وپسرش طاہر مردمان از بیم شمشیر خویشتن را در چاہ می افگندند و برسر کوہ میشدند و حجر الاسود را از خانہ جدا کردند۔ بطنی قرامطی دراصل عبداللہ بن میمون قداح کے پیرو کار ہیں جس کا لقب قرامطہ تھا ۔پھر حسن جنا بی اور اس کا بیٹا طاہر جس نے چاہ زمزم کو حجاج کرام کی لاشوں سے بھر دیا اور حجر اسود کو خانہ کعبہ کی دیوار سے جدا کر دیا[28]۔

قرامطہ ملتان میں :

ایران کے طول و عرض میں معتزلہ کے علاوہ قر امطہ کی بھی کثرت تھی اور یہ قرامطی بنو

فاطمہ کے داعی تھے بحرین میں ان کو حکومت کرنے کا موقع مل گیا۔ناصر خسرو دہلوی اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ بنو فاطمہ امام کہلائے اور یہ سید ۔یہ فرقہ باطنیہ بھی کہلاتا تھا۔ ا نکے دور حکومت میں بحرین میں قصاب کی دکان پر گائے، بکری، بھیڑ اور سور کا گو شت دستیاب تھا لیکن خریدار کی مرضی تھی کہ وہ جو بھی خریدے۔ان میں حلال اور حرام کی تمیز نہ رہی ان کا یہ بھی عقید ہ تھا کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔باطن اصل ہے اور تفسیر الحاد ہے۔ یہ ملاحدہ کہلائے اور ملاحدہ عقائد کی تبلیغ شروع کر دی۔اور اتنا زور پکڑا کہ حج کے موقع پر مکہ کے تمام راستے بند کر دیئے۔حجاج کا خوب قتل عام کیا اورلاشیں چشمہء زمزم میں پھینک دیں حجر اسود اکھاڑ کر لے گئے اور کئی سال تک قبضے میں رکھا آخر کارفاطمی خلیفہ عبیداللہ مہدی کی سرزنش کے بعد واپس کیا[29]۔

سبکتگین کے دور سے اس علاقے میں قرامطہ کا اثر و رسوخ تھا اور ملتان کا حاکم سبکتگین کا مطیع تھا مگر بعد حالات تبدیل ہوئے تو حاکم ملتان داؤد نے راجہ انند پال کی اطاعت قبول کر لی تو قرامطی مذہب اور انند پال کی اطاعت دونوں محمود کیلئے ناقابل برداشت تھے جس کیلئے اس نے ملتان کا رخ کیا مگر داﺅد کی معافی سے محمود نے ملتان سے واپسی کی راہ لی اور پھر متعدد بار وہ حملہ آور ہوتا رہا آخر کار اس نے ملتان کو اپنی عملداری میں شامل کر لیا۔محمود سال 401ھ میں پھرقہر و غضب کے ساتھ ملتان پر حملہ آور ہوا اورکثیر تعداد میں قرامطی قتل کیئے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے اور خود ابوالفتح داؤد قید ہوا۔محمود اس کو اپنے ساتھ غزنی لے گیا [30]۔

قرامطہ اب صرف حجاز یا مغرب تک محدود نہ تھے بلکہ وہ برصغیر میں خصوصاً ملتان میں بہت زیادہ طاقتور تھے اور یہاں کے حکمران تھے جبکہ ان کی مقابل غزنی کی حکومت ان کے برعکس عباسی خلیفہ کی وفادار اور فرمانبردار تھی۔ قرامطہ نہ صرف عالم اسلام کیلے دردِ سر بنے رہے بلکہ محمود کے ساتھ بھی مسلسل نبرد آزما رہے اور محمود گاہے بگاہے انکی قوت توڑتا رہا کبھی مشرقی سمت میں ملتان میں اس فتنے کو دبایا تو کبھی مغرب ایرانی علاقے میں انکے اثر کا خاتمہ کیا جیسا کے مشاہیر اسلام میں بیان کیا گیا ہے کہ، سلطان محمود نے رے پر حملے کے وقت ان قرامطیوں کی خوب خبر لی اکثر مارے گئے اور ان کی کتب کو سلطان نےجلادیا۔سلطان کےدور میں قرامطہ کا سب سے اہم و مضبوط مرکز ملتان تھا جس کا حاکم عبدالفتح داؤد تھا جس کومحمود نے حملے کے دوران گرفتار کر کےغور کےقلعہ میں قید کردیا اور یہ وہیں مرگیا[31]۔

البیرونی لکھتا ہے کہ: محمد بن قاسم ابن منبہ جب ملتان کو فتح کیا اور وہاں کی آبادی اور جو مال وہاں جمع تھا اسکا سبب پوچھا تو بت کو ذریعہ آمدنی پایا اس نے بت کو چھوڑ تو دیا مگر اس کی توہین کیلئے اس کی گردن میں گائے کے گوشت کا ٹکڑا لٹکا دیا اور وہاں ایک مسجد بنوا دی۔مگر قر امطہ جب قابض ہوئے تو جلم نے بت توڑ ڈ الا ،پجاریوں کو قتل کر دیا اور اپنے لیے ایک محل بنوایا۔اس نے سابقہ جامع کو بند کر کے نیا جامع بنوایا اور بنی امیہ کے بغض کی وجہ سے کیا۔امیرمحمود نے جب ان ملکوں سے قرامطہ کا قبضہ اٹھایا اور پہلی جامع میں از سر نو جمعہ قائم کیا۔اور دوسری کو بند کر دیا جو کہ اب صرف حنا کی پتیوں کا بیدر (کھلیان ) رہ گئی ہے۔اب اگر ہم عدد مذکور یعنی 216432 سے سینکڑہ اور اس سے نیچے کے مراتب یعنی دہائی اوراکائی کو بھی گھٹا دیں تو قرامطہ کے ظہور کا زمانہ ہمارے زمانے

پر مقدم ہے،یہ تقریباَ سو برس بنتا ہے[32]۔

سید روشن شاہ رقمطراز ہیں کہ دیپالپور سے ملتان تک کا علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا پھر مدت کے بعد قرامطہ فرقے کی بیشتر قوم اس علاقے پر قابض ہو گئی اور اس کا عمل دخل جاری ہوا۔ بہت مدت سے ملحدوں کی قوم قرامطہ اس علاقے پر حکومت کر رہی تھی اور ان کا ظلم وستم حد سے بڑھ گیا تو سلطان محمود نے پروردگار عالم کی توفیق سے اس علاقے کو فتح کرنے اور کشور کشائی کیلئے کمرہمت و شجاعت باندھی اور ملتان فتح کرنے نکلا۔سلطان نے ابوالفتح کے کردار کو دین مبین کی حمیت و عزت کے بر خلاف سمجھا ۔اس کے عقیدے کے مطابق قرامطہ شرع متین کے مخالف تھے۔ اور اس نے ان کے خاتمے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی[33]۔

ابو نصرمحمد عتبی جس کی کتاب تاریخ یمینی محمود کے دور کا اہم ماخذ ہے اس نے ا پنی ا س

مشہور کتاب تاریخ یمینی میں سلطان محمود غزنوی کی ملتان کی مہم کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے:

وقد بلغ السلطان یمین الدولہ امین الملہ حال وا الی المولعان ابی الفتوح فی خبث نحلتہ و دخل دخلتہ و دھس اعقادہ رقبح الحادہ و دعاتہ الی مچل رایہ اھل بلاد ہ فانف للدین من مقازتہ علی فظاعہ شرہ و شناعة امرہ و استحار اللہ الخائرفی قصدہ لا ستابتہ و تقدیم حکم اللہ فی الیقاع بہ وامر بضم الاطراف و کف اللذبول و جمع الخیول الی الخیول وضوی الیہ من مطوع المسلمین من ختم اللہ لھم بصالح الاعمل و اکرمھم با حدی الحسنین فی الازل و ثاربھم نحو الملتان عند موج الربیع بسیول الاانواءو سبح الانھار۔[34]

عتبی کے بقول یمین الدولة امین الملتہ محمود غزنوی کو جب والی ملتان ابو الفتح کے حالات کا پتہ چلا کہ اس کا مسلک انتہائی بد تر ، اعتقاد برا اور وہ انتہائی قبیح الحاد کا مرتکب ہے اور مستزادیہ کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں کو بھی پانی رائے کی دعوت دیتا ہے تو دین کی حمایت اورا س (ابو الفتح) کے قبیح شر اور بد ترین معاملے کی خاطر غزنوی اٹھ کھڑا ہوا اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنے مقصد کی خاطر استخارہ کیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کو مقدم کرتے ہوئے لشکر جرار کی تیاری کا حکم دیا اس نے علماءسے رابطہ کرتے ہوئے اوران کی معیت میں برسات کے موسم میں ملتان

حوالہ جات

  1. ابن کثیر، حافظ عمادالدین ،تاریخ ابن کثیر ،اردو ترجمہ البدایہ و النہایہ ،مترجم مولانا محمد اصغر مغل، دارالاشاعت ، کراچی، 2008ء ، ص188
  2. السیوطی، علامہ جلال الدین ، تاریخ الخلفا ، مترجم شبیر احمد انصاری، مکتبہ خلیل یوسف ،اردو بازار لاہور،2008ء ، ص21
  3. ڈاکٹر زاہد علی، تاریخ فاطمین مصر، نفیس اکیڈمی کراچی،1963،ص 141
  4. ابن خلدون ، علامہ عبدالرحمن ، مترجم ،حکیم احمد حسن عثمانی، نفیس اکیڈمی کراچی ،1966ء، ج4 ،ص 84
  5. بحوالہ بالا،ڈاکٹر زاہد علی، تاریخ فاطمین مصر، ص 214
  6. ایضا ،ص144-145
  7. ایضا ،ص 147
  8. نجیب آبادی ،مولانا اکبر شاہ خان ، تاریخ اسلام، نفیس اکیڈمی ،کراچی، ج 2،ص517
  9. بحوالہ بالا، ڈاکٹر زاہد علی، ص148
  10. ایضا ،ص 149-151
  11. ایضا ص 153،155،157
  12. پروفیسر عبداللہ، تاریخ اسلام،لاہور،1996ء،ص286
  13. الغزالی،ابوحامد محمد، فضائع الباطنیہ ،قاہرہ،1924ء، ص12
  14. بحوالہ بالا،تا ریخ ابن کثیر ، ص 95
  15. الغزالی،ابوحامد محمد، فضائع الباطنیہ ،قاہرہ،1924ء، ص12
  16. بحوالہ بالا،تاریخ الخلفاء،ص405
  17. ایضا،ص409،411،417
  18. بحوالہ بالا،تاریخ ابن کثیر،ص 114
  19. ایضا،ص118
  20. ایضا،ص 129
  21. ایضا،ص133
  22. ایضا،ص176
  23. بحوالہ بالا،تاریخ الخلفاء،ص420
  24. بحوالہ بالا،تاریخ ابن کثیر، ص 188
  25. بحوالہ بالا،تاریخ الخلفاء،ص418،430
  26. بحوالہ بالا، تاریخ ابن کثیر، ص 245
  27. بحوالہ بالا، تاریخ الخلفاء، ص 440
  28. خواجہ نظام الملک ،سیاست نامہ ،وزارت فرہنگ، ایران،1940ء ، ص260،268
  29. عباداللہ اختر ،مشاہیر اسلام،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور،1958ء،ص134
  30. قاسم فرشتہ، تاریخ فرشتہ، مترجم خواجہ عبدالحئی، لاہور، 1976،ص122
  31. بحوالہ بالا، عباداللہ اختر ،مشاہیر اسلام،ص137
  32. البیرونی، ابو ریحان ، کتاب الہند،مترجم سید اصغر علی،الفیصل ناشران وتاجران کتب،غزنی سٹریٹ، لاہور،ص126
  33. مخدوم سید روشن شاہ،تذکرة الملتان،مترجم ڈاکٹر محمد بشیر انور ،سرائیکی ریسرچ سنٹر BZU،ملتان،2004ء، ص23
  34. عتبی ، ابونصر محمد بن محمد الجبار ، تاریخ یمینی،لاہور،1878ء ، ص211
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...