Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

محدثين كے ہاں قراء ثلاثہ كا مقام و مرتبہ اور علم حديث ميں ان كى خدمات |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Allah Himself has taken the responsibility to protect the Holy Quran and the Hadith of the Holy Prophet. He Himself has provided the sources of their protection. One of the means of the protection that was the creation of such a group of the Qura who not only served the Holy Quran but also provided worth mentioning services in Ahadith of the Holy Prophet. But their services are hidden from us. By Qura the researcher means those Qura whose recitation styles and narrations are studied and taught in the different quarters of the world who are known as Qura Saba & Ashra (سبعہ وعشرہ). They are ten imams each with two Ravi’s. They are thirty Qura in total. I have selected only last three Imam & their two narrators in this Article. These Qurra are known as Qurra Thlathah (قراء ثلاثہ). The services of these imams have been highlighted in the light of the following eleven Ahadith books. Sihah: Sahih Bukhari, Sahih Muslim, Sahih Ibn-e-Habban, Sahih Ibn-e-Khuzeema. Sunan: Sunan Abu Dawud, Sunan al-Tirmidhi, Sunan al-Nasai, Sunan Ibn Majah, and Sunan al-Kubra. Masaneed: Musnad Ahmad ibn Hanbal, Musnad Abu Ya`la al-Mawsili. How many people have reported them and what is the standard of the weakness and soundness of those narrators have also been discussed in this article. Besides these books of Ahadith, these Ahadith have been searched in other books of Ahadith also. The status of these Qura has been explained in the light of the commentary of Muhadithin. Whether Ahadith critics have declared them thiqa or weak or have declared them as average sadooq. The most important thing is that there is no one weak reporter in these imam qura. Two out of three imam qura are ranked as thiqa and one sadooq. And among the narrators of these qura one is thiqa, one sadooq, and nobody are weak reporters. There is silence about the remaining four reporters of these qura. The reason is that there is no hadith reported from them. Because of all this their religious and scholarly authenticity could be determined. The narrations of these thalathah (ثلاثہ) Qura are confined to reporting the Holy Quran but they have also reported about every part of fiqh and they have been utilized and refered to

قراء سبعہ[1] كے بعدمزید تین آئمہ قراءات جن کی قراءات بھی قابل اعتماد اور متواتر ہیں ،جن كو امام ابن الجزرى نے اپنى كتاب ”النشر فى القراءات العشر “ميں جمع كيا اور پھر”الدرہ“ كے نام سے منظوم شكل ميں پيش كيا، اس كے علاوہ ان تمام قراء يعنى قراء سبعہ اور بقيہ تين كو ايك ہى جگہ ”طيبۃ النشر“ميں منظوم شكل ميں جمع كيا،جو كہ دنيا ميں آجكل متداول اور شامل نصاب ہيں۔قراء عشرہ اور ان کےراويوں كے اعتبار سے اس كو تين مباحث ميں تقسيم كيا گيا ہے، جوکہ درج ذیل ہیں:

 

مبحث اول: یزید بن قعقاع مدنی(م: 132 ھ )، ان سے روایت کرنے والےابن وردان اور ابن جماز ہیں۔

 

مبحث دوم: یعقوب بن اسحاق بصرى(م: 205 ھ )، ان سے روایت کرنے والے رَوح اور رُويس ہیں۔

 

مبحث سوم:خلف بن ہشام بزار (م: 229ھ)، ان سے روایت کرنے والے اسحاق اورادريس ہیں۔

 

انہیں آئمہ ثلاثہ،يا قراء ثلاثہ كہا جاتا ہے۔ پہلے سات اور ان تینوں کواکٹھےقراء عشرہ کہا جاتا ہے[2]۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان دس قراءتوں کے علاوہ مزید قراءتیں بھی موجود ہیں جو دیگر قراء سے مروی ہیں لیکن یہ شاذ قراءتیں کہلاتی ہیں۔

 

مبحث اول : ابو جعفر یزید بن قعقاع مدنی(م:132 ھ= 750 ء)

نام ونسب: يزيد بن قعقاع مدنى ، مخزومى، كنيت ابوجعفر،عبد اللہ بن عياش بن ابى ربيعہ كے غلام تھے ، آپ كے نام ميں اختلاف ہے بعض نے يزيد بعض نے جندب بن فيروز اور بعض نے فيروز بن قعقاع كہا ہے ليكن پہلا زياده مشہور ہے [3]۔قراءات ميں اہل مدينہ كےامام،مفتى اور مجتہدتھے،بہت ہى عبادت گزار، روزہ دار ، قيام كرنےوالے، بڑے مرتبہ والے اور مجود تھے آپ كى قراءت محفوظ ہے ، قراء عشرہ كے پہلےامام اور تابعى ہيں ، معاويہكے دور حكومت ميں قرآن پاك سيكھا۔بچپن ميں نبى كريم كى زوجہ محترمہ ام المؤمنين ام سلمہ كے پاس آئےانہوں نے آپ كے سر پر ہاتھ پھيرا اور بركت كى دعا كى۔ دخل على أم سلمة زوج النبى وهو صغير،فمسحت على رأسه ودعت له بالبركة۔[4]

 

امام مالك بن انس فرماتے ہيں:كان أبو جعفر القارئ رجلاً صالحاً يفتي الناس بالمدينة۔[5]

 

اساتذہ: جابر بن عبد اللہ( م:70ھ) ، عبد الله بن عباس( م:68ھ) ، عبد الله بن عمر ( م:73ھ) ، ابو ہريرة( م: 57ھ)[6] ۔

 

شاگرد: آپ نے ايك لمبا عرصہ لوگوں كو تعليم دى، سكھايا ، واقعہ حرہ سے پہلے لوگوں كوپڑھاتے تھے[7]۔آپ كے لاتعداد شاگرد تھے ان ميں سے مشہور اسماعيل بن جعفر(م:180ھ)، سليمان بن مسلم بن جماز،عيسى بن وردان، نافع بن عبد الرحمن بن ابى نعيم(م: 169ھ)، عبيد الله بن عمر عُمَرى (م:100ھ)، نجيج ابو معشر سندى(م: 170ھ) وغيرہ [8]اور حديث مباركہ روايت كرنے والے امام مالك بن انس (م:179 ھ)، عبدالعزيز بن محمد دَراوَرْدِى(م: 186ھ) اور عبد العزيز بن ابى حازم(م:184ھ) ہيں۔[9]

 

روايت حديث ميں مقام ومرتبہ:

امام ابو داودنے ”السنن“ميں كتاب الحروف ميں آپ سےروايت نقل كى ہے[10]۔يحيى بن معينفرماتے ہيں:ثقہ[11]۔ امام نسائیؒ فرماتےہیں:ثقہ[12]۔امام ابوحاتمؒ فرماتےہیں:صالح الحدیث[13]۔محمدبن سعدفرماتےہیں:كان ثقة قليل الحديث،وكان إمام أهل المدينة فى القراءة فسمى القارىء بذلك[14]امام ابن حِبَّان نے ان كو كتاب الثقات ميں ذكر كيا ہےاور كہا كہ آپ اہل مدينہ كےقراءت ميں امام ہيں[15]۔حافظ ابن حجرفرماتےہيں:ثقہ[16]۔امام ذہبىفرماتےہيں:أحدالأئمة العشرة في حروف القراءات وهو نزر الرواية، لكنه في الإقراء إمام۔[17]

 

خلاصہ كلام

آپ حديث ميں بھى اسى طرح ثقہ ہيں جس طرح قراءت ميں ثقہ ہيں ليكن قليل الروايت ہيں۔

 

وفات: آپ كى تاريخ وفات ميں اختلاف ہے، مشہور قول كے مطابق132ھ تاريخ وفات ہے[18]۔ابو موسى محمد بن المثنى كے نزديك ان كى وفات12ھ اور خليفہ بن خياط عصفرى كے نزديك130ھ ميں ہوئى [19]۔90سال سے زائد عمر پائى[20]۔

 

ابوجعفر يزيد بن قعقاع کے دومعروف راوى درج ذيل ہیں، جن كے بارے ميں امام ابن الجزرى فرماتے ہيں:

 

أَبُو جَعْفَرٍ عَنْهُ ابْنُ وَرْدَانَ نَاقِلٌ ... كَذَاكَ ابْنُ جَمَّازٍ سُلَيْمَانُ ذُو الْعُلَا[21]

 

1: امام عيسى بن وردان2: امام سليمان بن مسلم بن جماز﷫

 

پہلا راوى: عيسى بن وردان(م:160ھ)

 

نام ونسب عيسى بن وردان مدنى حذاء ، كنيت ابو الحارث ہے[22]۔امام ، ماہر مقرئ، قراء عشرہ ميں سے امام جعفركے پہلےمحقق ضابط راوى ہيں، جيسا كہ امام ابن الجزرى   فرماتےہيں: إمام مقرئ حاذق وراو محقق ضابط۔[23]

 

اساتذه: ابو جعفر يزيد بن قعقاع ،شيبۃ بن نصاح اور امام نافع سے بھى قرآن مجيد پڑھا جو ان كےبڑےگہرے دوستوں اور پرانے ساتھيوں ميں سے تھے اور سند ميں بھى شريك ہيں۔[24]

 

شاگرد: ان كے شاگردوں ميں اسماعيل بن جعفر، قالون اور محمد بن عمر واقدى كے نام آتے ہيں۔[25]

 

وفات: آپ نے160ھ ميں مدينہ منورہ ميں امام نافع (م: 169ھ) سے پہلے وفات پائى۔[26]

 

دوسرا راوى: ابن جماز (م: 170ھ)

 

نام ونسب:سليمان بن مسلم بن جمّاز يا سليمان بن سالم بن جمّاز مدنى،زہرىين كے غلام تھے، كنيت ابو الربيع ہے[27]۔امام ، ماہر مقرئ، قراء عشرہ ميں سے امام جعفر كےدوسرےبڑے ضابط راوى ہيں۔امام ابن الجزرىؒ فرماتےہيں:مقرئ جليل ضابط۔[28]

 

اساتذه:ابو جعفر يزيد بن قعقاع ،شيبۃ بن نصاح اور امام نافع سے بھى قرآن مجيد پڑھا ، امام نافع پر فخر كياكرتے تھے ، ان كے بعض

 

اساتذہ كے ساتھ سند ميں بھى شريك تھے۔امام نافع بھى ان كى تعظيم وتوقير كرتے تھے[29]۔حديث كو سُمَى مولى ابى بكر بن عبد الرحمن سے رويت كرتے ہيں۔[30]

 

شاگرد: ان سے اسماعيل بن جعفر، وليد بن مسلم اور قتيبۃ بن مہران صاحب كسائى نے قراءت حاصل كى[31]۔ان سے حديث روايت كرنے والے ابو ہمام صلت بن محمدہيں۔[32]

 

وفات:بقول امام ابن الجزرى آپ نے170ھ كے بعد مدينہ منورہ ميں وفات پائى۔[33]

 

مبحث دوم: امام یعقوب بن اسحاق حضرمی( 117 ھ- 205 ھ= 735 - 821 ء)

نام ونسب:یعقوب بن اسحاق بن زید بن عبداللہ بصری،کنیت ابومحمداور ابویوسف ہے،حضرمین کےآزادکردہ غلام،احمدبن اسحاق کےچھوٹےبھائی ہیں۔ان کےداداعبداللہ بن ابی اسحاق،بھائی یحیی بن ابی اسحاق ہیں۔بصرہ میں 130ھ کےبعدولادت ہوئی[34]۔امام، مجود،حافظ، فقيہ ، نحوى، لغوى، قراءت ،حديث،فقہ،لغت عربى و ادب، دين اور تقوىٰ و ورع ميں امام ہيں،قراء عشرہ میں سےدوسرے امام ہیں، ان كى قراءت مشہور اورمنقول ہے،امام ابوعمرو بصرى كےبعداہل بصرہ كےامام اورمقرى تھے۔علمى وادبى گھرانے ميں پيدا ہوئے، صغار اتباع التابعين كے طبقہ ميں سے ہيں۔جيسا كہ ابو حاتم سجستانى فرماتے ہيں:

 

يعقوب بن إسحاق من أهل بيت العلم بالقرآن والعربية وكلام العرب والرواية الكثيرة والحروف والفقه، وكان أقرأ القراء، وكان أعلم من أدركنا ورأينا بالحروف والاختلاف في القرآن وتعليله ومذاهب أهل النحو في القرآن، وأروى الناس لحروف القرآن وحديث الفقهاء۔[35]

 

تصانيف:

 

1: الجامع (زبيدى كہتے ہيں: اس ميں اختلاف وجوه القرآن كو جمع كيا ہے ا ورہر حرف كو اس كے پڑھنے والے كى طرف منسوب كيا ہے)

 

2: وجوه القراآت 3: وقف التمام 4: كيمريج كى لائبريرى ميں مخطوطات اسلاميہ ميں”تہذيب قراءة ابى محمد يعقوب بن اسحق“ كا نسخہ موجود ہے۔[36]

 

اساتذه :سلام بن سليمان(171ھ)،شہاب بن شُرنفہ مجاشعى(162ھ)،حمادبن سلمہ(167ھ)،شعبہ بن حجاج(160ھ)[37]

 

شاگرد:قراءت كےمشہورتلامذہ روح بن عبد المؤمن،رويس محمدبن المتوكل،ايوب بن متوكل،ابوعمردُورى،ابوحاتم سجستانى، وغيرہ[38]اورحديث روايت كرنے والے احمد بن ثابت جحدرى،عبدالرحمن بن محمدطرسوسى،سليمان بن داود عتكى اور لوگوں كى بہت بڑى تعداد نے كسب فيض كيا۔[39]

 

روايت حديث ميں مقام ومرتبہ:

 

امام مسلمؒ نےصحيح ميں، امام ابوداودؒ،امام نسائىؒ،امام ابن ماجہؒ نے سنن اورامام ترمذىؒ نےالشمائل ميں ان سےروايت نقل

 

كى ہے[40]۔امام احمد بن حنبلاور امام ابو حاتمفرماتے ہيں : صدوق [41]۔امام ابن حِبَّان نے ان كو كتاب الثقات ميں ذكر كيا ہے[42]۔ابن سعد فرماتے ہيں: ليس هوعندهم بذاك الثبت،يذكرون أنه حدث عن رجال لقيهم وهوصغير۔[43]

 

ترجمہ:محدثين كے ہاں اتنے پائے كے نہيں ہيں اور ان رجال سے روايت كرتے ہيں جن سے صغر سنى ميں ملاقات كى۔

 

حافظ ابن حجرؒفرماتےہيں:صدوق[44]۔امام ذہبى فرماتےہيں:ثقہ۔[45]

 

حاصل كلام:آپ صدوق درجہ كے راوى ہيں جيساكہ امام احمد، امام ابو حاتم اور حافظ ابن حجر كے قول سے ظاہر ہے۔

 

وفات :ان كى وفات ذو الحجہ يا جمادى الاولى205 ھ كو ہوئى۔قدرت كے عجائبات ميں سے ہےكہ ان كى، ان كے والد اسحاق، اور دادا زيد تينوں كى وفات اٹھاسى (88) سال كى عمر ميں ہوئى۔[46]

 

يعقوب بن اسحاق کے دومعروف راوى درج ذيل ہیں، جن كے بارے ميں امام ابن الجزرى فرماتے ہيں:

 

وَيَعْقُوبُ قُلْ عَنْهُ رُوَيْسٌ وَرَوْحُهُمْ۔[47]1: امام رويس2: امام روح﷫

 

پہلا راوى : رُوَيس (م:238 ھ)

 

نام و نسب:محمد بن متوكل بن عبدالرحمن لؤلؤى بصرى ، بنوہاشم كے غلام تھے،كنيت ابو عبد الله ،رويس كے لقب سے معروف ہيں[48]۔قراء عشرہ كے ايك راوى ،امام، بڑے ماہر مشہورثقہ متقن مقرئ ہيں، بصرہ ميں پڑھايا كرتے تھے، امام يعقوب حضرمى كے ماہر ترين شاگردوں ميں سے تھے، امام ابن الجزرى   نے ان كى روايت پر اعتماد كيا ہے جيساكہ امام ابن الجزرى   فرماتے ہيں:

 

مقرئ حاذق ضابط مشهور... وعلى روايته أعول۔[49]

 

اساتذہ: قراءت كويعقوب حضرمى سے حاصل كيا، ان كو كئى مرتبہ مكمل قرآن سنايا اور ان كے ماہر ترين شاگردوں ميں سے تھے ۔[50]

 

شاگرد:ان سے قراءت سيكھنے والے محمد بن ہارون تمّار،ا ور زبير بن احمد زبيرى شافعى ہيں۔[51]

 

وفات:ان كى وفات بصرہ ميں 238 ھ كو ہوئى۔ [52]

 

دوسرا راوى: رَوح (م: 233ھ)

 

نام ونسب: رَوح بن عبد المؤمن بن عبدة بن مسلم،بصرى،كنيت ابو الحسن،ہذلى كے غلام تھے۔[53]

 

امام ،قراء عشرہ كے ايك راوى ،بڑے جليل القدرمشہور مقرى مجود،نحوى، قرآن كے متقن قراء اور حديث كے ثقہ رواۃ ميں سے ہيں ۔جيسا كہ امام ابن الجزرى   فرماتے ہيں: مقرئ جليل ثقة ضابط مشهور[54]

 

شيوخ:

 

يعقوب حضرمى سے قرآن سيكھا ، ابو عمرو بصرى كى قراءت كواحمد بن موسى، معاذ بن معاذ، ان كے بيٹے عبيد الله بن معاذاور محبوب بن معاذسے سيكھا ،اس كے علاوہ قراءت كو حماد بن شعيب ، محمد بن صالح مُرِّى سے حاصل كيا[55]۔حديث ميں آپ كے شيوخ

 

جعفربن سليمان ضبعى،حمادبن زيد،عبدالواحدبن زياد،معاذبن ہشام دستوائى،ابوعوانہ،يزيدبن زريع وغيرہ شامل ہيں۔[56]

 

شاگرد:

 

قراءت ميں آپ كے شاگردوں ميں طيب بن حسن قاضى، ابو بكر محمد بن وہب ثقفى، محمد بن حسن بن زياد، احمد بن يزيد حلوانى اورحسين بن بشربن طبرى وغيره[57] اورحديث روايت كرنےوالوں ميں امام بخارى،ابويعلى موصلى،عبد اللہ بن احمدبن حنبل،ابوزرعہ رازى اورعثمان بن سعيددارمى وغيرہ شامل ہيں۔[58]

 

روايت حديث ميں مقام ومرتبہ:

 

كتب ستہ ميں سے صرف امام بخارى نے صحيح بخارى ميں ان سے روايت نقل كى ہے[59]۔امام حاكم نے ان كى احاديث كو ”المستدرك“میں اورامام دارمى نے”السنن“ميں ذكركى ہيں[60]۔امام ابوحاتم اورامام ابوزرعہؒ نےبھى آپ سے روايت كى ہے[61]۔ امام ابوحاتمؒ فرماتےہيں:صدوق[62]۔امام ابن حِبَّان نےان كوكتاب الثقات ميں ذكركياہے[63]۔حافظ ابن حجرفرماتےہيں:صدوق[64]۔ امام ذہبىفرماتےہيں: ثقۃ۔[65]

 

خلاصہ كلام:حديث ميں صدوق درجہ كے راوى ہيں جيساكہ امام ابو حاتم اور حافظ ابن حجر نے توضيح كى ہے۔

 

وفات: ان كى تاريخ وفات ميں اختلاف ہے امام حبان  نے 233ھ ذكر كى ہے۔[66]بعض نے234 ھ يا 235ھ ذكر كى ہے۔ [67]

 

مبحث سوم :خلف بن ہشام(150-229ھ=767-844م)

خلف بن ہشام بن ثعلب بزاربغدادى اسدى اوركنيت ابومحمدہے،ولادت150ھ اوروفات بغدادميں229ھ ميں80سال كى عمرميں ہوئى۔امام ،حافظ ، حجت، شيخ الاسلام ، مقرى ، قراء عشرہ كے امام اورقراء سبعہ ميں سے امام حمزہ كے راوى ہيں۔ ان كو خلف العاشر كہا جاتا ہے كيونكہ قراءات عشرہ متواترہ ميں يہ دسويں نمبر پر آتے ہيں۔قراء سبعہ ميں آپ چھٹے نمبرپر امام حمزہ زيات كے ايك راوى ہيں[68]۔شيوخ سليم بن عيسى زيات ، يحيى بن آدم ، مالك بن انس وغيرہ اور تلامذہ احمد بن يزيد حلوانى ، احمد بن حنبل،امام مسلم وغيرہ ہيں۔[69]

 

مصنفات: 1: كتاب القراءات۔[70]2: فضائل القرآن۔[71]

 

روايت حديث ميں مقام و مرتبہ:

 

آپ سے امام مسلم اور امام ابو داود نے روايت كى ہے[72]۔مسند احمد ميں بھى ان كى سترہ 17مرويات ہيں۔ امام احمدبن حنبل[73]، امام يحيى بن معين اور امام نسائى نے ثقہ قرار ديا ہے[74]۔حافظ ابن حجرؒفرماتےہیں:ثقة له اختيار فى القراءات۔[75]

 

حاصل كلام : آپ حديث و قراءت دونوں ميں ثقہ ہيں، قراءات سبعہ ميں امام حمزہ كےراوى اور قراءات عشرہ ميں امام ہيں۔

 

امام خلف بن ہشام کے دومعروف راوى درج ذيل ہیں، جن كے بارے ميں امام ابن الجزرى فرماتے ہيں:

 

وَإِسْحَاقُ مَعْ إِدْرِيْسَ عَنْ خَلَفٍ تَلَا ۔[76] 1:امام اسحاق وراق2:امام ادريس﷫

 

پہلا راوى:اسحاق وراق(م: 286 ھ)

 

نام و نسب: اسحاق بن ابراہيم بن عثمان بن عبد الله مروزى بغدادى،كنيت ابو يعقوب ۔[77]

 

اسحاق قراءت ميں ثقاہت وضبط،پختگى وعمدگى اور اتقان ميں مشہورتھے ، قراء عشرہ ميں سے امام خلف كے كاتب اور ان كے راوى ہيں جيسا كہ امام ابن الجزرى   فرماتے ہيں: ثقة، كان قيّما بالقراءة۔[78]

 

اساتذہ: امام خلف سے قراءت سيكھى اس كے علاوہ وليد بن مسلم سے بھى پڑھا۔[79]

 

شاگرد:آپ كے مشہور شاگردوں ميں آپ كے بيٹے محمد بن اسحاق بن ابراہيم ، محمد بن عبد الله بن ابى عمر نقّاش، حسن بن عثمان برصاطى، على بن موسى ثقفى، ابن شنبوذ وغيرہ كے نام شامل ہيں۔[80]

 

وفات: ان كى وفات ميں286 ھ كو ہوئى۔ [81]

 

دوسرا راوى:ادريس حداد(199ھ-292ھ)

 

آپ كانام ونسب: ادريس بن عبد الكريم حداد بغدادى ، كنيت ابو الحسن ہے ۔199ھ ميں پيدا ہوئے۔[82]

 

مقرى عراق، قراء عشرہ كے ايك راوى ہيں، ادريس بھى قراءت ميں ثقاہت وضبط،پختگى وعمدگى، اتقان اور عالى سندميں مشہورتھے اسى ليے لوگوں نے حصول علم كى خاطر ان كى طرف سفر كيے ۔امام ابن الجزرى   فرماتے ہيں:إمام ضابط متقن ثقة۔[83]

 

اساتذہ: امام خلف سے قراءت پڑھى ا ور اسےاختياركيا، اورعلى محمد بن حبيب شمونى سے بھى قراءت پڑھى۔حديث كو امام احمد بن حنبل، عاصم بن على، يحيى بن معين، مصعب بن عبد اللہ زبيرى، ابو الربيع زہرانى اور اس طبقے سے روايت كرتے ہيں۔[84]

 

شاگرد:

 

بغداد ميں لوگوں كوپڑھايا اورآپ كى عالى سند اور اتقان كى وجہ سے لوگوں نے مختلف علاقوں سےآپ كى طرف رخ كيا، ابو الحسن بن شنبوذ ، محمد بن حسن بن مُقسِم،موسى بن عبيد الله خاقانى،احمدبن عثمان بن بویان،احمدبن جعفربن حمدان،حسن بن سعیدمطوعی وغیرہ نےآپ کوقرآن سنایاجبکہ قراءت کاسماع کرنےوالےاوبوالقاسم سلیمان بن احمدطبرانی،ابوبكر بن مجاہد،ابوبكر بن حمدان قطيعى، ابوبكربن الانبارى وغيرہ ہيں۔[85]

 

روايت حديث ميں مقام ومرتبہ:

 

امام دارقطنى نے كہا: ثقة وفوق الثقة بدرجة۔ثقہ بلكہ ثقہ سے ايك درجہ بڑھ كر ۔[86]

 

حافظ ابن حجر فرماتے ہيں: أحد الثقات من أئمة القراء۔[87]

 

خلاصہ كلام: قراءت و حديث دونوں ميں ثقہ ہيں۔

 

وفات: ان كى وفات تيرانوے 93يا چورانوے 94 سال كى عمر ميں عيد الاضحى كےدن292 ھ كو ہوئى۔ [88]

 

خلاصۃ البحث:

 

احرف سبعہ اور قراءات سبعہ و عشرہ دونوں ميں فرق ہے ، قراءات سبعہ وعشرہ احرف سبعہ كا ايك حصہ ہے۔قراءات سبعہ اور عشرہ دونوں متواتر اور حجت ہيں كيونكہ ان ميں قراءات كے اركان ثلاثہ پائے جاتے ہيں۔قراء سبعہ عشرہ نہ صرف قرآن بلكہ حديث كى خدمت ميں بھى مشغول رہے، ان كےحديث كے بيان كرنے ، اس كى خدمت ميں كتنا حصہ ہے ، اس كو ہم تين درجوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں ۔1۔مكثرين2۔مقلين: 3۔معدوم:

 

آئمہ قراءات كى مرفوع روايات كى تعداد صحاح ، سنن اور مسانيد كى روشنى ميں:

 

 

مكثرين مقلين معدوم
خلف بن ہشام127 امام یعقوب بن اسحاق حضرمی21 امام یزیدبن قعقاع مدنی
رواۃ:

 

 

مكثرين مقلين معدوم
- رَوح بن عبد المؤمن 13 عيسى بن وردان
- ادريس 1 سلیمان بن مسلم بن جماز
- - رُوَيس
- - اسحاق
قراء كے بارے ميں يہ خيال نہايت غلط ہے كہ تمام قراء حديث ميں ضعيف ہيں ايسا نہيں ہے بلكہ يہ آئمہ قراءات جرح و تعديل كے اعتبار سےمختلف درجہ پر فائز ہيں ، يہ درجات قراء كرام نے نہيں بلكہ محدثين كے بڑے بڑے آئمہ نقاد اورآئمہ جرح و تعديل نے انہيں تفويض كئے ہيں، درجات كے اعتبار سے ہم ان كو چار مراتب ميں تقسيم كرسكتے ہيں:

 

1۔ثقہ 2۔صدوق3۔ضعيف4۔سكوت

 

آئمہ قراءات:

 

 

ثقہ صدوق ضعيف سكوت
امام یزید بن قعقاع مدنی امام یعقوب بن اسحاق حضرمی - -
امام خلف بن ہشام   -  

رُواۃ:

 

 

ثقہ صدوق ضعيف سكوت
ادريس الحداد رَوح بن عبد المؤمن - عيسى بن وردان
- - - سلیمان بن مسلم بن جماز
- - - رُوَيس
- - - اسحاق وراق
قراء ثلاثہ حفظ، ضبط ، اتقان اور زہدو ورع ميں ممتاز تھے يقيناً حديث ميں يہ اس طرح پختہ نہيں جس طرح كہ حفظ قرآن ميں تھے اس كا سبب ان كا اس ميدان ميں زيادہ مشغوليت تھا ليكن علم حديث ميں بھى وہ كسى سے پیچھے نہيں رہے۔ سب سے اہم بات كہ آئمہ قراءات ميں سے كوئى بھى ضعيف نہيں۔

 

آئمہ ثلاثہ ميں سے دو ثقہ اورايك صدوق كے درجہ پر فائز ہيں اور ان كے راويوں ميں سےايك ثقہ ،ايك صدوق اور كوئى راوى ضعيف نہيں ہے ، باقى چار رواۃ كے بارے ميں خاموشى ہےاور اس كى وجہ كہ ان سے كوئى حديث مروى نہيں۔

 

اس نتيجہ سے ان كى دينى و علمى ثقاہت كا اندازہ ہوتاہے اور اس شبہ كا بھى ازالہ ہوتا ہے كہ تمام قراءضعيف ہيں۔آئمہ قراء ثلاثہ ميں سے كوئى راوى ضعيف نہيں ہے ۔ آئمہ قراءات كى مرويات دوسرے آئمہ محدثين كے موافق اور مقبول ہيں۔آئمہ قراءات كى مرويات صرف قراءات قرآنيہ پر مشتمل نہيں بلكہ فقہ كے ہر باب سےتعلق ركھتى ہيں اور ان سےخوب استفادہ و استدلال كيا گيا ہے،خواہ اس كاتعلق عقائد (اسلام ،ايمان ،توحيدو رسالت وغيرہ) سے ہے يا عبادات(نماز،روزہ ،حج،زكوۃ وغيرہ)سے، يا اس كاتعلق معاملات( نكاح، طلاق ، بيوع وغيرہ)سےہے يا اخلاقيات( زہد، ورع ، تقوى ، حسن ادب وغيرہ)سے، شريعت كے ہر حكم پر ان سے كوئى نہ كوئى روايت عام طور پر موجود ہے ، خاص طور پر مكثرين يعنى كثرت سے روايت كرنے والوں كى مرويات سے خوب استفادہ كيا گياہے مثلاً خلف بن ہشام كى مرويات كى تعداد127ہے ۔آئمہ محدثين نے صرف ان اشخاص كے بارے ميں كلام كيا ہے جنھوں نے احاديث بيان كى ہيں جن سے كوئى روايت نہيں ان كے بارے ميں سكوت / خاموشى اختيار كى ہے۔بہت سے آئمہ محدثين قراء ميں سے بھى ہيں ، ان كى قراءات كے حوالے سے بھى بہت خدمات ہيں ليكن مشہور صرف حديث كے ميدان ميں ہوئےہيں جيسے مجاہد بن جبير، اعمش، حسن بصرى، عبد الرحمن بن ہرمز، محمد بن عبد الرحمن بن ابى ليلى، جعفر بن محمد الصادق، سلام بن سليمان وغيرہ ۔

 

صحاح (صحيح بخارى ،صحيح مسلم ،صحيح ابن حبان،صحيح ابن خزيمہ)، سنن(ابوداود، ترمذى،نسائى،ابن ماجہ اور سنن بيہقى) اور مسانيد(مسنداحمد،مسندابى يعلى الموصلى )كےحوالہ سےقراء ثلاثہ كى مرويات كتنى ہيں،ہر امام اوران كےرواۃ كى ہركتب كےلحاظ سے انفرادى طور پر اور تمام كتب كےلحاظ سے مجموعى طور پر كتنى روايات ہيں اس كو مندرجہ ذيل آئمہ قراء ثلاثہ اور ان كے رُواۃ كى مرويات كى تعداد كے نام سے دو جدول كے ذريعہ ظاہر كيا گيا ہے۔

 

آئمہ قراء ثلاثہ كى مرفوع روايات كى تعداد

 

 

كتب امام ابوجعفر امام یعقوب امام خلف
صحيح بخارى - - -
صحيح مسلم - 3 30
صحيح ابن خزيمہ - - -
صحيح ابن حبان - - 23
سنن ابى داود - 2 4
سنن ترمذى - - -
سنن نسائى - 1 -
سنن ابن ماجہ - 4 -
سنن بيھقى - 8 17
مسند احمد - 1 17
مسند ابى يعلى - 2 36
كل مرويات - 21 127

 

 

 

كتب ابن وردان ابن جماز رَوح رُويس اسحاق ادريس
صحيح بخارى - - 1 - - -
صحيح مسلم - - - - - -
صحيح ابن خزيمہ - - - - - -
صحيح ابن حبان - - 2 - - -
سنن ابى داود - - - - - -
سنن ترمذى - - - - - -
سنن نسائى - - - - - -
سنن ابن ماجہ - - - - - -
سنن بيھقى - - 1 - - 1
مسند احمد - - 7 - - -
مسند ابى يعلى - - 2 - - -
كل مرويات - - 13 - - 1
رُواۃ كى مرويا ت كى تعداد

 

تحقيق سے ظاہرہوا كہ كوفہ كے قراء كى مرويا ت زيادہ ہيں اس كا سبب ، يہ دار الخلافہ تھے،امير معاويہكے دور ميں شام اور علىكے دور سے كوفہ كو خوب عروج حاصل ہوا ، اہل علم كامركز بنے، علم كے حصول كے زيادہ مواقع ميسر آئے، اسى ليے امام بخارىؒ فرماتے ہيں كہ مجھے نہيں معلوم كتنى مرتبہ كوفہ اور بغداد آيا۔وَلاَ أُحْصِي كم دَخَلْتُ الكُوْفَةَ وَبَغْدَادَ مَعَ مُحَدِّثِي خُرَاسَانَ۔[89]

 

انہى اثرات كے نتيجہ ميں پورى دنيا كى فضا ان كےعلم سے معطر ہے ۔محدثين كرام ہوں يا فقہاء عظام ، قراء ہوں يا صوفيا ، ہر ايك كا علمى لحاظ سے كوفہ و بغداد سے تعلق ضرور رہا ہے ۔بڑے بڑے قراء،محدثين اور فقہاء يہيں پيدا ہوئے۔ اسى طرح قراء سبعہ ميں سے تين آئمہ قراءات كا تعلق كوفہ سے ہے، قراءا ت ميں امام عاصم اور ان كے ايك راوى حفص كا تعلق بھى اسى كوفہ سے ہے ، حديث ميں بھى امام عاصم ، امام حمزہ ، شعبہ خلف وغيرہ كوفى ہيں۔اور ان سے مروايات كى تعداد بھى زيادہ ہے۔ اگر چہ اثبت البلاد فى الحديث الصحيح كے حوالے سے علماء كا عمومى حكم اس كے برعكس ہے، علماء كى كيا رائے ہے اس بارے ميں خطيب بغدادى فرماتے ہيں:أصح طرق السنن ما يرويه أهل الحرمين مكة والمدينة فإن التدليس فيهم قليل والاشتهار بالكذب ووضع الحديث عندهم عزيز۔[90]

 

احاديث كى روايت ميں سب سے صحيح طرق اہل حرمين ، مكہ و مدينہ كے ہيں كيونكہ ان كے ہاں تدليس ،جھوٹ اور وضع حديث نادر الوجود ہيں ،اہل يمن كى روايات بھى اچھى ہيں ، ان كے طرق صحيح ہيں ليكن بہت كم ہيں اور ان كى بنياد اہل حجاز كى روايت پر ہے اہل بصرہ كى بھى بہت واضح اور صحيح روايات ہيں جودوسروں كے ہاں نہيں پائى جاتيں۔ اسى طرح اہل كوفہ كے ہاں كثرت سے روايات مو جود ہيں تاہم ان كى روايات ميں قيل وقال كا بہت امكان ہے اور يہ علت سے بہت كم پاك ہيں۔شيخ الاسلام ابن تيميہفرماتےہيں:

 

اتفق أهل العلم بالحديث على أن أصح الأحاديث ما رواه أهل المدينة ثم أهل البصرة ثم أهل الشام۔[91]

 

اگرچہ يہ عمو مى حكم تمام علاقوں كى نسبت سے ہے اس كا يہ مطلب ہرگز نہ ليا جائے كہ اہل كوفہ كى روايات كلى ومطلقاً طور پر مردود ہيں يا ضعيف ہيں بلكہ يہ بات پيش نظر رہے كہ سب سے زيادہ فتنوں نے يہيں سر اٹھايا ورنہ ثقہ و متقن اہل علم كى ايك كثير تعداد يہاں موجود رہى ہے جيسے كہ امام بخارى  كا قول اس حوالہ سے پيش كياگياہے۔

 

سفارشات

برصغير پاك و ہند ميں متنوع قراءات قرآنيہ كو بطور نصاب پڑھانےسے صرف نظر كيا گياہے اس طرف خصوصى توجہ كى ضرورت ہے حالانكہ قراءات قرآنيہ تفسير قرآن،استنباط احكام ،عقائد كى توضيح ونكھار ميں نہايت ممدومعاون ہيں۔اعجاز قرآن كا ايك عمدہ پہلو ہے اور سب سے بڑھ كر قرآن كريم كا نطق اور كيفيت ادا جوصحابہ كرام كو رسول اللہ ﷺ نے سكھائى ہے،سے معرفت حاصل ہوتى ہے۔قراء ثلاثہ كى مرويات ابھى چند كتب حديث سے جمع كى گئى ہيں ، ابھى باقى كتب كے حوالہ سے بہت سا كام باقى ہے جس كے كرنے كى ضرورت ہے۔خاص طور پر مصنفات ، معاجم اور بقيہ سنن اور مسانيد ميں ان كى مرويات كى كثير تعداد موجود ہے۔ان قراء كى روايات كو فقہى ترتيب سے بھى جمع كرنے كى ضرورت ہے ۔جس پركام ابھى باقى ہے۔

 

حوالہ جات

  1. قراء سبعہ سےمرادوہ اشخاص ہیں جن سےقرآن کریم کی قراءٰت کےسلسلہ میں متعددروایتیں واردہوئی ہوں جوان کی طرف منسوب ہیں،ان روایتوں میں بعض جگہوں پراعراب(زبر،زیر،پیش)حروف اورکلمات وغیرہ کااختلاف پایاجاتاہے۔بہت سےآئمہ نےمختلف قراء کی قراءٰت کوجمع کیالیکن جوشہرت اور دوام ابن مجاہد(امام احمدبن موسیٰ بن عباس بن مجاہدابوبکرتمیمی بغدادی)کوحاصل ہواوہ کسی اورکامقدر نہ بنا،انہوں نےہی سب سےپہلےان سات قراء اوران کےدو،دو راویوں کومنتخب کیا،جن کوقراء سبعہ کہاجاتاہے۔ان قراء کی قراءٰت کو”السبعہ“نامى كتاب ميں جمع كيا۔مزيدتفصيل کیلئےديكھيے:ابن مجاہد، احمدبن موسى بن عباس تميمى بغدادى،ابوبكر،كتاب السبعۃ فى القراءات،محقق:شوقى ضيف،دارالمعارف،مصر،1400ھ ص53،ذہبى،سیراعلام النبلاء، مؤسسۃ الرسالۃ ،طبع سوم ، 1985 ء،ج15،ص272
  2. ابن الجزرى،محمد بن محمد بن يوسف، شمس الدين، ابو الخير، الدرة المضيۃ فى القراءات الثلاث المتتمۃ للعشر،محقق: محمد تميم الزعبى، دار الهدى، 2000ء،ص2
  3. بخارى ،محمد بن اسماعيل ، ابو عبد اللہ ، التاريخ الكبير، دائرة المعارف العثمانيۃ، حيدر آباد ، الدكن،ج8،ص353
  4. المزى،يوسف بن عبد الرحمن،ابو الحجاج،تہذيب الكمال فى اسماء الرجال،محقق:د.بشارعوادمعروف،مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت ، 1980ء،ج33،ص200
  5. ابن خلكان، احمد بن محمد برمكى ،وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان،محقق: احسان عباس، دار صادر ،بيروت، طبع اول، 1994ء،ج6،ص275
  6. ذہبی،محمد بن احمد بن عثمان، شمس الدين،معرفۃالقراء الكبار على الطبقات والأعصار، محقق : د.طيار آلتى قولاچ،دار عالم الكتب ، 2003ء ،ج1،ص173
  7. "حرہ"پتھریلی زمین کو کہتے ہیں؛ چونکہ مدینہ کا ایک حصہ پتھریلا اور آتش فشانی پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے ، اسی لئے "حرہ"کہلاتا ہے۔لسان العرب،ابن منظور ،محمد بن مكرم ،دار صادر، بيروت، 1414 ھ، ج4،ص179"حرہ واقم" کے راستے افواج یزید کی آمد پہ يہ واقعہ"واقعۂ حرہ" کہلایا۔یزید بن معاویہ کے دور میں سانحۂ کربلاکے بعد دوسرا بڑا سانحہ مدینہ پرشامی افواج کی چڑھائی تھی جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ۔ یہ افسوسناک واقعہ 63ھ میں پیش آیا ،يہ واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ابن الأثير،على بن محمد،الكامل فى التاريخ،تحقيق:عمرعبد السلام،دارالكتاب العربى،بيروت، 1997ء،ج3،ص211
  8. ابن الجزرى،محمد بن محمدبن يوسف،ابو الخیر،غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء،مكتبۃ ابن تيميہ،1351ھ،ج2،ص382
  9. معرفۃالقراء الكبار ،ج1،ص173
  10. المزى،يوسف بن عبدالرحمن،ابوالحجاج،تہذيب الكمال فى اسماءالرجال،محقق:د.بشارعوادمعروف، ج33،ص200
  11. يحيى بن معين بن عون ابو زكريا،تاريخ ابن معين (روايۃ الدورى)محقق: د. احمد محمد نور سيف،مركز البحث العلمى ،مكۃ المكرمۃ،1979،ج3،ص191
  12. تہذيب الكمال،ج33،ص201
  13. ابن ابى حاتم،عبد الرحمن بن محمد،رازى،ابو محمد،الجرح والتعديل،طبعۃ مجلس دائرة المعارف العثمانيۃ،حيدرآباد،دكن، ہند 1952ء،ج9،ص285
  14. ابن سعد،محمد بن سعد بن منيع،ابو عبد الله،بصرى،بغدادى،الطبقات الكبرى،القسم المتمم لتابعى اہل المدينۃومن بعدهم محقق:زياد محمد منصور،مكتبۃ العلوم والحكم،المدينہ المنورہ،طبع دوم، 1408ء،ص151
  15. ابن حبان،محمد بن حبان،تميمى،دارمى،بُستى،الثقات،دائرة المعارف العثمانيۃ،حيدر آباددكن،ہند،1973ء،ج5،ص543
  16. ابن حجر،احمد بن على،عسقلانى،تقريب التہذيب،دار المعرفۃ،بيروت،لبنان،2001ء،ج2،ص411
  17. ذہبى،محمد بن احمد بن عثمان،ابو عبد اللہ ، سیر اعلام النبلاء،مؤسسۃ الرسالۃ ،طبع سوم ،1985ء،ج5،ص87
  18. ابن حبان ، الثقات،ج5،ص543،ابن حبان، محمد بُستى،مشاہيرعلماء الأمصار وأعلام فقہاء الأقطار،محقق:مرزوق على ابراہيم،دارالوفاء للطباعۃ ،المنصورة، طبع اول 1991 ء،ص124
  19. ابن خياط،ابو عمرو،خليفہ شيبانى عصفرى بصرى،طبقات خليفہ بن خياط،محقق:دسہيل زكار،دار الفكر، 1993ء،ص455
  20. سیر اعلام النبلاء،ج5،ص288
  21. ابن الجزرى ، الدرة المضيۃ فى القراءات الثلاث المتتمۃ للعشر، ص13
  22. معرفۃالقراءالكبار،ج1،ص247،ذہبی،تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاہيروَالأعلام،محقق:د۔بشارعوّاد،دارالغرب الإسلامى طبع اول2003ء،ج4،ص705
  23. غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء ،ج1،ص616
  24. معرفۃالقراء الكبار،ج1،ص248 ، غايۃ النہايۃ،ج1،ص616
  25. ايضا
  26. ايضا
  27. الجرح والتعديل،ج4،ص142
  28. غايۃ النہايۃ،ج1،ص315
  29. معرفۃالقراء الكبار ،ج1،ص293، غايۃ النہايۃ،ج1،ص315
  30. دارقطنى،على بن عمربغدادى،ابو الحسن،المؤتَلِف والمختَلِف،تحقيق:موفق بن عبداللہ بن عبدالقادر،دار الغرب الإسلامى، بيروت،1986ء،ج2،ص2،ابن حجر،احمدبن على عسقلانى،تبصيرالمنتبہ بتحريرالمشتبہ،تحقيق:محمدعلى النجار،المكتبۃ العلميۃ، بيروت،ج1،ص346
  31. الجرح والتعديل،ج4،ص142
  32. دارقطنى، المؤتَلِف والمختَلِف،ج2،ص742
  33. غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء،ج1،ص315
  34. التاريخ الكبير،ج8،ص399،الجرح والتعديل،ج9،ص203،ذہبى،المعين فى طبقات المحدثين،محقق:د.ہمام عبدالرحيم سعيد،دار الفرقان،عمان،الأردن،طبع اول، 1404ھ،ص80
  35. معرفۃ القراء الكبار،ج1،ص329،غايۃ النہايۃ،ج2،ص389
  36. زركلى،خير الدين بن محمود،دمشقى،الأعلام،دارالعلم للملايين،طبع پندرہويں2002ء،ج8،ص195،كحالۃ،عمربن رضابن محمد راغب بن عبد الغنى الدمشقى ،معجم المؤلفين،مكتبۃ المثنى،دار احياء التراث العربى،بيروت،ج13،ص243
  37. تہذيب الكمال،ج32،ص315، سیر اعلام النبلاء،ج10،ص169
  38. معرفۃالقراء الكبار،ج1،ص329، غايۃ النہايۃ،ج2،ص387
  39. تہذيب الكمال،ج32،ص316،ابن حجر،احمد بن على ، عسقلانى،تہذيب التہذيب،دائرة المعارف النظاميۃ،حیدرآباد،دکن ہند، طبع اول، 1326ھ،ج11،ص381
  40. ذہبى،محمد بن احمد بن عثمان،ابو عبد اللہ،الكاشف،محقق:محمد عوامۃ احمد محمد نمر الخطيب،دار القبلۃ للثقافۃ الإسلاميۃ ،مؤسسۃ علوم القرآن،جدة،طبع اول، 1992 ء،ج2،ص393
  41. ابن المِبْرَد ،يوسف بن حسن ، حنبلى، بحر الدم فيمن تكلم فيہ الإمام احمد بمدح أو ذم، تحقيق: دكتورة روحيۃ عبد الرحمن سويفى، دار الكتب العلميۃ، بيروت ،طبع اول1992ء،ص178،الجرح والتعديل،ج9،ص204
  42. ابن حبان ، الثقات ،ج9،ص283
  43. الطبقات الكبرى،ج7،ص304
  44. تقريب التہذيب،ج2،ص384
  45. الكاشف،ج2،ص393
  46. التاريخ الكبير،ج8،ص399 ،وفيات الأعيان ،ج6،ص391
  47. ابن الجزرى،الدرة المضيۃ فى القراءات الثلاث المتتمۃ للعشر،ص13
  48. معرفۃالقراءالكبار،ج1،ص428،محيسن،محمدسالم،معجم حفاظ القرآن عبرالتاريخ،دارالجيل،1992،ج1،ص248
  49. غايۃ النہايۃ،ج2،ص234
  50. معرفۃالقراء الكبار،ج1،ص428،غايۃ النہايۃ،ج2،ص234
  51. ايضا
  52. صفدى،خليل بن ايبك،الوافى بالوفيات،محقق احمدالأرناؤوط وتركى مصطفى،دارإحياءالتراث،بيروت،2000،ج4، ص271
  53. التاريخ الكبير،ج3،ص310، جرجانى،عبد الله بن عدى،ابو احمد،اسامى من روى عنهم محمد بن اسماعيل البخارى،محقق:د. عامرحسن صبرى،دارالبشائرالإسلاميۃ،بيروت،1414ھ،ص126،ابن خلفون،محمد بن اسماعيل،ابو بكر،المعلم بشيوخ البخارى ومسلم،محقق:ابوعبدالرحمن عادل بن سعد،دار الكتب العلميۃ،بيروت،طبع اول،ص181
  54. غايۃ النہايۃ،ج1،ص285
  55. معرفۃالقراء الكبار،ج1،ص428
  56. تہذيب الكمال،ج9،ص246
  57. معرفۃالقراء الكبار،ج1،ص428، غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء ،ج1،ص285
  58. تہذيب الكمال،ج9،ص247
  59. الكاشف،ج1،ص398
  60. مغلطاى،اكمال تہذيب الكمال،ج5،ص11
  61. الجرح والتعديل،ج3،ص499
  62. ايضا
  63. ابن حبان،الثقات ،ج8،ص244
  64. تقريب التہذيب،ج1،ص249
  65. الكاشف،ج1،ص398
  66. ابن حبان،الثقات، ج8،ص244
  67. ابن زبرالربعى،محمدبن عبداللہ،ابو سليمان،تاريخ مولد العلماء و وفياتہم،محقق:د.عبداللہ احمد سليمان الحمد،دار العاصمۃ،رياض، 1410ھ،ج2،ص516
  68. الجرح والتعديل،ج3،ص372،التاريخ الكبير،ج3،ص196
  69. تہذيب الكمال،ج8،ص301، معرفۃالقراء الكبار،ج1،ص420
  70. حموى،ياقوت بن عبد اللہ رومى،ابوعبد اللہ،معجم الأدباء،ارشاد الأريب الى معرفۃ الأديب،محقق:احسان عباس،دار الغرب الإسلام،بيروت، 1993 ء،ج3،ص1259
  71. داوودى،محمدبن على بن احمد، شمس الدين مالكى،طبقات المفسرين ،دار الكتب العلميۃ ،بيروت ،ج1،ص167
  72. الكاشف،ج1،ص374
  73. ابن المبرد، بحر الدم فيمن تكلم فيہ الإمام احمد بمدح او ذم، ص50
  74. تاريخ بغداد،ج8،ص322،تہذيب الكمال،ج8،ص302
  75. تقريب التہذيب،ج1،ص222
  76. ابن الجزرى، الدرة المضيۃ فى القراءات الثلاث المتتمۃ للعشر،ص13
  77. غايۃ النہايۃ،ج1،ص155،معجم حفاظ القرآن عبر التاريخ،ج1،ص53، خطيب،احمد بن على،بغدادى،ابوبكر،تاريخ بغداد،دار الكتب العلميۃ،بيروت،تحقيق:مصطفى عبد القادر عطا، طبع اول، 1417 ء،ج6،ص381
  78. غايۃ النہايۃ،ج1،ص155
  79. ايضا
  80. يضا
  81. ايضا
  82. ابن حجر،احمد بن على عسقلانى،لسان الميزان،محقق:عبدالفتاح ابوغدة،دارالبشائرالإسلاميۃ،طبع اول، 2002ء،ج2، ص13، الوادعِى، مُقْبل بن ہادىم، 1422ھ، تراجم رجال الدارقطنى فى سننہ ،دار الآثار ، صنعاء، طبع اول، 1999،ص131
  83. غايۃ النہايۃ فى طبقات القراء ،ج1،ص154
  84. سیر اعلام النبلاء،ج14،ص44
  85. معرفۃالقراء الكبار ،ج1،ص500،غايۃ النہايۃ،ج1،ص154
  86. سہمى،حمزة بن يوسف،جرجانى،ابو القاسم،سؤالات حمزة بن يوسف سہمى،محقق:موفق بن عبد الله بن عبدالقادر،مكتبۃ المعارف،رياض، 1984،ص175
  87. لسان الميزان ،ج2،ص14
  88. الوافى بالوفيات،ج8،ص208،لسان الميزان ،ج2،ص13
  89. سیر اعلام النبلاء،ج12،ص407
  90. خطيب بغدادى،احمد بن على ، ابو بكر،الجامع لأخلاق الراوى وآداب السامع،محقق: د. محمود الطحان، مكتبۃالمعارف ، الرياض، ج2،ص286-287
  91. قاسمى، محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم حلاق،قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث،دار الكتب العلميۃ، بيروت، لبنان، ص81
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...