Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

مولانا شاہ حکیم محمد اختر: حیات و خدمات |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

تعارف:

تصوف وطریقت کے آفتاب عالم تاب مولانا شاہ حکیم محمد اخترؒ نے اس وقت آنکھ کھولی جس وقت مسلمانوں کو ایک ہزارسالہ طویل عظیم الشان سلطنت کوکھوئےتقریباً 70سال ہوچکے تھے۔سیاسی تنزلی کےبعدانگریزوں نےمسلمانوں کو1857ء کی جنگ آزادی کےذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کودینی ودنیاوی علوم سےبےدخل کیاتھا۔جس کی وجہ سےمسلمان علم کی میدان میں دیگر اقوام سے پیچھےرہ گئےتھے۔ دینی علوم کی کمی اورباطل قوں کا نظریہ باطلہ کےپرچارکیلئےکوششوں کی وجہ سے مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم،بدعات اوردیگر روحانی بیماریاں عام ہوگئی تھیں۔ ان روحانی بیماریوں کے علاج ،شرک وبدعت کے سدباب اوربےحیائی وفحاشی کےسامنے بندھ باندھنے کیلئےجس طرح آپؒ کےشیوخ نےبھرپورکوششیں کئیں ،ان اولیاء اللہ کےزیرسایہ رہنے اور ان کے جانشین بننےکی وجہ سے آپؒ نے بھی ان خرابیوں کی اصلاح کیلئے اپنی زندگی وقف کرلی تھی۔ آپؒ نے اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والی بدعات وخرافات کےخاتمہ کیلئےعملی طورپرانتھک محنت کی اور اسلامی زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا۔

 

ولادت:

حکیم محمداخترؒ نے 1923ء میں ہندوستان کےصوبہ اترپردیش کےضلع پرتاب گڑھ میں ایک چھوٹے سے قصبہ اٹھیہ میں مشہور بزرگ حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ کے سلسلہ نسب میں محمدحسین نامی ایک سرکاری ملازم کے گھرجنم لیا۔[1]

 

بچپن میں غلبہ دین و محبت الہٰی:

آپ کی طبعیت بچپن سے ہی دین کی طرف مائل تھی اور دین سے تعلق رکھنے والی چیزیں آپؒ کو اس کم عمری میں ہی بہت اچھی لگتی تھیں۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ کم عمری میں ہی داڑھی،اسلامی کرتہ اوردینی وضع قطع مجھے بہت اچھی معلوم ہوتی تھی۔[2]

 

آپؒ بارہ سال کی عمر میں ہی غلبہ حُب دین کی وجہ سےآدھی رات کو اٹھ کر گھر سے کافی فاصلے پرجنگل میں واقع ایک مسجدمیں چلےجاتے،اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے،تہجد پڑھتے،تنہائی میں اللہ تعالیٰ کےذکروفکرمیں مشغول رہتےاوریادالہٰی میں خوب گڑگڑاکررویاکرتے۔آپؒ کی والدہ ماجدہ اکثرآپ کومنع فرماتیں کہ اتنی رات کواکیلےاس جنگل میں مت جایاکروجہاں دوردورتک کوئی نہیں ہوتا،جس کیوجہ سےآپ کی جان کوچوروں،ڈاکوؤں اورجنگلی درندوں سےخطرہ ہو۔[3]آپؒ کےوالدکوآدھی رات کوآپؒ کے جنگل میں جاکرعبادت کرنےکاپتہ چلاتوایک رات وہ اپنےدوستوں کےساتھ اس وقت مسجدآئےجب آپؒ تہجدکی نمازاداکررہے تھے۔انہوں نےآپؒ کوسمجھایاکہ سرکاری ملازمت کی وجہ سےمیرےدوستوں کےساتھ ساتھ بہت سےدشمن بھی ہیں،تم میرے اکلوتے بیٹےہو،لہذاتم گھرپرنمازپڑھ لیاکرو،اس کےبعدآپؒ گھرپرہی تہجدپڑھنے لگے۔[4]

 

ابتدائی دینی تعلیم

مولاناحکیم محمداخترؒنےابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ”اٹھہیہ“میں حاصل کی۔سب سے پہلے آپؒ نے قرآن مجیدکوناظرہ سے پڑھناشروع کیا،کم عمری میں قرآن مجیدختم کیا۔ جب آپؒ کے والد کا تبادلہ ضلع سلطان پورہوا تووہاں کےجامع مسجدکےخطیب مولاناقاری صدیقؒ سےفارسی کی کتابیں غیررسمی طورپڑھناشروع کیں۔”کریما “مکمل اور ”گلستان سعدی“کےکچھ ابواب آپؒ نے مولانا قاری صدیقؒ سےپڑھےجواس وقت فارسی کے مبتدی طلباء کوپڑھائےجاتےتھے۔[5]

 

عصری تعلیم:

آپؒ نے سکول کی مروجہ تعلیم اپنے شہر پرتاب گڑھ ہی میں حاصل کی۔ درجہ چہارم پاس کرنے کے بعد اپنے والد سے دینی علوم کے سیکھنے کیلئے دارالعلوم دیوبند جانے کی درخواست کی لیکن انہوں نے مڈل سکول میں آپ کا داخلہ کروایا۔والد کے حکم کے سامنے مجبور ہو کر آپ نے بادل نخواستہ درجہ ہفتم تک سکول میں پڑھا۔[6]آپ کا دل اگرچہ دنیا وی تعلیم میں نہیں لگ رہا تھا لیکن پھر بھی طلبِ علم کی رغبت ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھیوں میں اپنی لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے ممتاز تھے۔ آپ نے مڈل تک امتیازی نمبروں کے ساتھ تمام درجات پاس کیے۔ اس کے بعد آپ کے والد نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئےآپؒ کو الٰہ آباد میں اپنی بہن کے ہاں بھیجا۔[7]

 

طبیہ یونانی کالج الٰہ آباد میں داخلہ :

مڈل پاس کرنے کے بعد آپؒ کے والد نے آپؒ کو طبیہ کالج ہمت گنج الٰہ آباد میں داخلہ دلوایا۔ آپؒ کی دینی مزاج اور علوم دینیہ کے اشتیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے آپؒ کے والد نے آپؒ کو طب کی تعلیم کی تکمیل کے بعد عربی درسیات کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی۔ اس طرح آپؒ نے تین سالوں 1942-44ء مذکورہ کالج میں علم طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امتیازی نمبروں سے طب کی سند حاصل کی اور اپنے نام کے ساتھ حکیم کا لقب لگانے کے مستحق قرار پائے۔[8]

 

طبیہ کالج میں آپؒ کے استادحکیم عثمانی صاحب ہندوستان کےمشہور زمانہ حکیم ”محمداجمل خان“کےشاگردتھےجو انتہائی لائق تھے۔حکومت کی طرف سے ان کوشفاءالمُلک کاخطاب ملا تھا،اس طرح آپؒ حکیم اجمل خان کےایک واسطےسےشاگردہوئے۔[9]

 

طبیہ کالج ہمت گنج اٰلہ آبادمیں داخلہ کےوقت آپؒ کےوالدنےفرمایاتھا،میں تمہیں طب کی تعلیم اس لئےدلوارہاہوں تاکہ دین تمہاراذریعہ معاش نہ ہواور دین کی خدمت تم صرف اللہ تعالیٰ کی رضاء کیلئے کرو۔[10]

 

والد صاحب کا سانحہ ارتحال

 

طبیہ کالج کے تیسرے سال 1944ء میں آپ کے والد بیمار پڑھ گئے اور یہی بیماری بعد میں مرض الموت ثابت ہوئی تھی۔ آپ کو والد کی رحلت کا اس وقت پتہ چلا جب آپ کالج کا آخری پرچہ دے کر اپنے پھوپھی کے گھر پہنچے۔ والد کی رحلت کی خبر سےآپؒ کو بہت سخت صدمہ ہوا لیکن صبر کے دامن کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔گھر کے قریب واقع قبرستان جا کر دل کو سمجھایا کہ ایک دن تجھے بھی اسی مسکن میں دفن ہوناہے اور حق تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ہی عین عبدیت ہے۔[11]

 

بیت العلوم سرائےمیر میں دینی علوم کا حصول:
دینی علوم کے حصول کے لیے مولانا حکیم محمد اختر  نے اپنے شیخ شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کے مدرسہ ”بیت العلوم“سرائے میر، ضلع اعظم گڑھ تشریف لائے۔جس کے ساتھ آپ کا تعلق طیبہ کالج سے فراغت کے فوراً بعد ہوا تھا۔ آپ وقت کے بہت قدر شناس تھے اور وقت کے ضائع کرنے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ عام طور پر دوران تعلیم اکثر طلبہ فضولیات میں وقت ضائع کرتے ہیں ان کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا وقت ایک عظیم سر مایہ ہے اس کا ضیاع انتہائی افسوس ناک ہے۔کسی عربی شاعر کاشعر ہے کہ:والوقت أنفس ما عنيت بحفظهوأراه أسهل ماعليك يضيع[12]

 

ترجمہ:وقت ایک نفیس ترین شے ہے جس کی حفاظت کا تمہیں مکلف بنایا گیا ہے جبکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی چیز

 

تمہارے پاس سب سے زیادہ آسانی سے ضائع ہو رہی ہے۔

 

یہی وقت کی قدر شناسی کا صلہ تھا کہ آپ نےمدرسہ بیت العلوم میں درس نظامی کا 8 سالہ کورس صرف چار سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف مکمل طور پر پڑھ لیا تھا بلکہ اُس پر ایسا دسترس حاصل کر لیا تھا کہ آپؒ کے اساتذہ کرام بھی رَشک کرنے لگے تھے۔[13]

 

آپ کے مختلف علوم وفنون کے اساتذہ کرام کا ذکر نہیں ملتا ہے البتہ صحاح ستہ اور حدیث کی دیگر تمام کتب آپ نے مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری ؒسے پڑھیں۔ 1950ء کی دھائی میں آپ نے مشکوۃ المصابیح پڑھی اور اس سے اگلے سال بخاری شریف پڑھی۔[14]

 

آپ کا شیخ مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ اپنے استاد مولانا ماجد علی جونپوریؒ کے واسطے سے قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے شاگرد تھے۔ اس طرح آپ صرف دو واسطوں سے قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے شاگرد تھے۔ [15]

 

بیت العلوم سرائے میر میں فارسی تعلیم:

آپؒ نے تو ابتدئی فارسی تعلیم بچپن ہی میں غیر رسمی طور پر حاصل کی تھی اور باقاعدہ طور پر فارسی زبان کی تعلیم مدرسہ ”بیت العلوم“ کی فارسی کی درس گاہ میں حاصل کی۔ یہاں آپؒ کے فارسی کا استاد مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے بیعت اور متقی انسان تھے۔ اس سے پڑھنے کے بعد آپؒ نے فارسی زبان میں اتنی مہارت حاصل کی کہ آپ نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی مشہور کتاب ”مثنوی مولانا روم“ کی شاہکار شرح” معارف مثنوی“ کے نام سے لکھ لی اور فارسی زبان میں آپ کا مجموعہ کلام”مثنوی اختر“ کے نام سےمنصہ شہود پر آچکا ہے۔[16]

 

دارالعلوم دیوبند کی بجائے بیت العلوم میں پڑھنے کی وجہ:

طبیہ کالج سے فراغت کے بعد علوم شرعیہ کے حصول کے لئے آپ نے دارالعلوم دیوبند کا رخ کرنے کی بجائے ایک گمنام مدرسے بیت العلوم میں داخلہ لیا۔ دارالعلوم کی شہرت کی وجہ سے آپ کے جاننے والے طلباء آپ سے اکثر کہتے کہ بیت العلوم چھوڑ کر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے لو وہاں ایک تو دنیا وی آسائشیں یہاں کی نسبت زیادہ ہیں، اچھے کھانے ملتے ہیں اور دارالعلوم کی آفاقیت و شہرت اور عوام و خواص میں اس کی مقبولیت ہے۔تم اس گمنام مدرسے میں پڑھ کر کیا کروگے، کوئی آپ کو پوچھے گا بھی نہیں اس طرح حصول علم کے دوران بھی اور بعد از فراغت بھی ذلتیں اور مشقتیں تمہاری مقدر ہونگی۔ بعض ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا کہ کم از کم حدیث کی کتابیں دارلعلوم میں پڑھنی چاہیے لیکن آپ ان سے یہ فرمایا کرتے تھے، علوم ظاہری میرے نزدیک درجہ ثانوی میں ہے اور اللہ کی محبت اور علوم طریقت درجہ اولیٰ میں ہے۔جب دارلعلوم دیوبند جاؤں گا تو اپنے شیخ کی صحبت اور علوم طریقت سے محروم ہوجاونگا، جو علم کی روح ہے۔ اس لیے اپنے شیخ شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کو چھوڑ کر دیوبند نہیں جاسکتا اور علوم طریقت ہی مجھے ہر شئے سے محبوب و مرغوب ہے۔ جہان مجھے یہ دونوں علوم ملے تو اس کی خاطر مجھے ہر طرح کی مشقت اور ذلت قبول ہے۔[17]

 

ارباب بصیرت کے ہاں بھی یہ بات مسلم ہے کہ ہر محبوب و مرغوب چیز کو حاصل کرنے کے لئے اس سے کم مرغوب و

 

محبوب چیز سے دست بردار ہونا ضروری ہوتا ہے تو علم اعلیٰ درجہ کا مرغوب و محبوب اور ارفع قسم کاشرف ہے جوعرفان الہٰی کا سبب ہے اور یہ مشکل راستوں،دشوار گزار گھاٹیوں کی سیر کر کے حاصل ہوتاہے ۔ بہت سی چیزوں مثلاًوقت ،اہل و عیال، احباب کی محبت اور مباح چیزوں کی قربانی دیئے بغیرعلم کاحصول نا ممکن ہے ۔ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ:

 

لِكُلِّ شَيْءٍ آفَةٌ وَلِلْعِلْمِ آفَاتٌ[18]

 

ترجمہ:ہر شے کیلئے ایک آفت ہوتی ہے اورعلم کے حصول کے لئے بہت ساری آفتیں ہوتی ہیں ۔

 

امام ابو یوسف رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں ۔

 

الْعلم عز لَا ذل فِيهِ لَكِن لَا ينَال إِلَّا بذل لَا عز فِيهِ۔[19]

 

ترجمہ:علم خود عزت مند ہےلیکن اس کا حصول ذلت و مشقت کے بغیر نا ممکن ہے۔

 

ایک شاعر فرماتے ہیں۔

 

من لم يذق طعم المذلة ساعة قطع الزمان بأسره مذلولا[20]

 

ترجمہ:جو شخص پڑھنے میں تھوڑی سی ذلت برداشت نہیں کرسکتا وہ تمام عمر ذلت اُٹھا تا رہے گا ۔

 

آپؒ نے مدرسہ بیت العلوم میں ایسا وقت گذارا کہ روکھی سوکھی اور دال بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا چہ جائیکہ دارالعلوم دیوبند کے طلباء کی طرح چھوٹے،بڑے گوشت کی بوٹیاں اڑاتے اور مرغن غذاؤں سے محظوظ ہوتے۔کھانے میں اکثر دال ہونے اور وہ بھی کم پڑ جانے پر ایک دفعہ نوبت یہاں تک پہونچی کہ طلباء نے احتجاج کیا تھا۔ مدرسہ میں دیگر سہولیات کا بھی شدید فقدان تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؒ کے شیخ حضرت پھولپوریؒ کا اپنا ذاتی غسل خانہ تک نہ تھا۔ تالاب میں نہاتے تھے۔ طلباء قضائے حاجات کیلئے بیت الخلاء کی کھڈیوں میں جاتے جہاں بدبووتعفن سے سانس گھٹنے لگتا یا پھردور جنگل میں جاتے تھے۔[21]انہی مشقتوں اور ذلتوں کی سہنے کا صلہ مِن جانبِ اللہ یہ ملا کہ چار دانگ عالم آپؒ کے ورع و تقویٰ اور للٰھیت و علوم کے چرچے تھے۔ آسمان تصوّف و طریقت کے خورشید بن کر ابھرے تھے اور آفاق عالم میں اپنا فیضان عام کیا تھا۔

 

شیخ و مرشد کی تلاش:

بچپن سے ہی آپؒ بطریق جذب آتش عشق الہٰی سے نوازے گئے تھے۔ جب بارہ سال کی عمر میں آپؒ درجہ چہارم میں زیر تعلیم تھے اس وقت ہی سے شیخ کامل کی تلاش تھی۔ آپ نے ضلع سلطان پور کے جامع مسجد کے امام و خلیفہ مجاز بیعت حضرت تھانویؒ ،حافظ ابوالبرکات ؒسے بیعت کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کی، کہ حضرت تھانوی ؒنے مجھے مجاز بیعت للعوام بنایاہے۔ آپ عوام میں سے نہیں ہیں، اس لیے میں بیعت نہیں کرسکتا۔[22]

 

طبیہ کالج میں داخلہ کے ابتدائی ایام میں آپ مولانا سراج احمد امروہویؒ کے درس قرآن کے محفل میں بیٹھا کرتے تھے۔ مولانا امروہویؒ الٰہ آباد میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ”اللہ والی مسجد“میں اس وقت درس قرآن دیا کرتے تھے۔[23]

 

حضرت امروہوی ؒکی صحبت سے استفادہ کرنے کے بعدآپ نے الٰہ آباد میں مولانا فضل الرحمٰن شاہ گنج مراد آبادی ؒ کے سلسلہ کےبزرگ مولانا شاہ محمداحمد پرتاب گڑھیؒ کی صحبت سے فیضیاب ہونا شروع کیا اورتین سال تک حضرت سے مستفید ہوتے رہے۔[24]

 

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے مکاتبت

مولانا اشرف علی تھانویؒ کا مشہور وعظ “راحت القلوب"پڑھنے کے بعدحضرت تھانویؒ سے عقیدت ہوگئی اور طےکیا کہ اسی سلسلہ میں داخل ہونا ہے۔ حضرت تھانویؒ کی خدمت میں خط لکھا ۔ وہاں سے حضرت کے خادم مولانا شبیر علی صاحب نے جوابی خط لکھا کہ حضرت تھانویؒ شدیدبیمار ہیں خلفاء میں سے کسی کا انتخاب کریں۔ خط کا جواب ملنے کے چند دن بعد خبر معلوم ہوئی کہ حضرت اشرف علی تھانویؒ اس جہان فانی سے کوچ کرگئےہیں ۔[25]

 

حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ سے بیعت و ارادت:

حضرت تھانویؒ کی رحلت کے بعد آپؒ تلاش مرشد کیلئے زیادہ بے چین رہنے لگے، اسی اثناء میں کسی دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ مولانا تھانویؒ کا خلیفہ اجل مولانا شاہ عبدالغنیؒ پھولپور میں مقیم ہیں۔آپؒ نے حضرت پھولپوریؒ کو اپنا مرشد و مصلح منتخب کرنے کا فیصلہ کیا اوران سے مکاتبت کا سلسلہ شروع کردیا۔ آپ نے حضرت پھولپوریؒ کو جو پہلا خط لکھا تھا اس میں یہ شعر لکھا:

 

؂جان و دل اے شاہ قربانت کنمدل ہدف راتیرِ مژگانت کنم

 

حضرت پھولپوریؒ نے جوابی خط میں آپ کو اپنے حلقہ ارادت میں قبول فرمانے کی خبر دی تھی اور ذکر و اذکار کا بھی تلقین کیا تھا۔چنانچہ حضرت مولانا شاہ عبدالغنیؒ نے جواب میں لکھاکہ:

 

”آپ کا مزاج عاشقانہ معلوم ہوتا ہے اور اہلِ عشق اللہ کا راستہ بہت جلد طے کرتے ہیں، محبت شیخ مبارک ہو، محبتِ شیخ تمام مقاماتِ سلوک کی مفتاح ہے“۔[26]

 

حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ سےملاقات

مکاتبت کے ذریعے آپؒ اپنے شیخ سے بیعت تو ہوئے لیکن سفر کرکے شیخ سے ملاقات کرنے سے بعض موانع عارض تھے۔ آخر کار اٹھارہ سال کی عمر میں عید الاضحیٰ سے قبل اپنی بیوہ والدہ سے اجازت لے کر پھولپور روانہ ہوگئے اور عین بقر عید کے دن نماز عید الاضحیٰ سے ایک گھنٹہ قبل صبح آٹھ بجے پھولپور میں اپنے شیخ کے خانقاہ پہنچے۔ حضرت شاہ عبدالغنیؒ اس وقت تلاوت میں مشغول تھے۔ حضرت سے سلام عرض کرنے کےبعد اپنا تعارف کرایا اور آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے ہاں چلہ گذارنے کا اردہ ہے، جس کو سن کرحضرت پھولپوریؒ بہت خوش ہوئے۔[27]

 

حضرت پھولپوریؒ کی خدمت میں ایک چلہ کیا گزارنا تھا کہ حضرت نے دم آخر تک اپنا مستقل خادم بنا ڈالا۔ سترہ سالوں تک دن رات اپنے شیخ و مرشد کی صحبت کا شرف حاصل رہا اور شیخ کی اس جانثاری و فدا کاری سے خدمت کی ، جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔[28]

 

بیوہ والدہ کا نکاح ثانی:

بیعت کے چار سال بعد آپؒ کے شیخ حضرت پھولپوریؒ کی اہلیہ انتقال کر گئیں۔آپؒ اپنے شیخ کےعقد ثانی کےلیے فکرمند ہوئے۔ اپنے والدہ محترمہ سے مشورہ کرنے کے بعد اس کا نکاح ثانی اپنے شیخ سے کروا لیا۔آپؒ کی والدہ سے عقد ثانی فرمانے کے بعد حضرت پھولپوریؒ نے ارشاد فرمایا تھاکہ اسی طرح امام محمدؒ کی والدہ صاحبہ سے حضرت امام ابو حنیفہؒ نے عقد فرمایا تھا۔[29]

 

شادی اور اولاد:

آپؒ کو اپنے شیخ حضرت شاہ عبدالغنیؒ کی جدائی اور اس کی صحبت اور خدمت سے محرومی گوارا نہ تھی۔اس لیے آپؒ نے اپنے وطن میں نکاح کرنے کی بجائے 1948ء میں پھول پور سے قریب ایک گاؤں ”کوٹلہ“ میں بہت صالحہ، قانتہ اور اللہ والی عورت سے نکاح کیاجو عمر میں آپؒ سے پندرہ سال بڑی تھیں لیکن ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کا پورے گاؤں میں شہرہ تھا۔ آپؒ کا نکاح نہایت سادگی سے ہوا۔ اس گاؤں میں کوئی مولوی نہ ہونے کی وجہ سے آپؒ نے اپنا نکاح خود پڑھایا۔آپؒ کی اہلیہ کا انتقال 19 شعبان المعظم 1419ھ بمطابق 9 دسمبر 1998ء بروز بدھ دس بجے صبح کو ہوئی۔[30]حکیم صاحب کی اہلیہ کی بطن سے چار اولادیں ہوئیں۔ ان میں تین صاحبزادے اظہر، اطہر اور محمد مظہر جبکہ ایک صاحبزادی تھی۔دو صاحبزادے اظہر اور اطہر بچپن میں بلترتیب پانچ اور چھ سال کی عمر ہی میں وفات پاگئےتھےجبکہ مولانا محمد مظہر اور بیٹی بقید حیات ہیں۔آپؒ کے صاحبزادے محمد مظہرمدظلہ کی پیدائش پھولپور میں ہوئی تھی اور ابتدائی تعلیم بھی پھولپور میں حاصل کی۔ آپؒ کی پاکستان ہجرت کے بعد دارالعلوم کراچی اور جامعہ اشرفیہ لاہور میں پڑھا۔ آپ(محمد مظہر مد ظلہ) کے اساتذہ میں مولانا مفتی عبدالرشید ، مولانا ادریس کاندھلوی ؒ، قاری فتح محمد پانی پتیؒ، مولانا موسیٰ خان روحانی البازی ؒ، مولانا عبیداللہ ؒ اور مولانا عبدالرحمٰن اشرفی جیسے علم و عمل کے پیکر بزرگان دین شامل ہیں۔مولانا محمد مظہر کا اصلاحی تعلق محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی ؒ سے تھا اور حضرت ہردوئیؒ نے آپ کو اجازت بیعت سے بھی نوازا ۔[31]

 

پاکستان ہجرت:

آپؒ پہلی دفعہ دسمبر 1958ء کو اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کے ساتھ عارضی طور پر پاکستان تشریف لائے تھے اور 22جنوری 1959ء کو واپس شیخ کے ساتھ ہندوستان گئے۔ 1960ء میں آپؒ کا شیخ حضرت پھولپوریؒ نے مستقل طور پر پاکستان ہجرت فرمائی تھی اور آپ نے بھی ان کےساتھ پاکستان ہجرت فرمائی۔کراچی کے علاقے ناظم آباد نمبر4 میں آپؒ نے اپنے شیخ کے ساتھ قیام فرمایا۔ شروع میں ایک سال تک اپنے اہل و عیال کو بوجوہ پاکستان منتقل نہ کرسکے تھے۔ ایک سال بعد اپنے اہل و عیال کو بھی پاکستان منتقل کیا۔[32]

 

حضرت شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی سے بیعت:

حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ نے وفات کے وقت اگر چہ آپؒ کو فرمایا تھا کی میرے بعد کسی سے بیعت ہونے کی ضرورت نہیں ہے یعنی آپؒ کا اصلاح کامل ہوچکی ہے۔لیکن پھر بھی راہ طریقت کے عمومی اصول کے تحت آپؒ نے اپنا اصلاحی تعلق حضرت شاہ ابرارالحق ہردوئیؒ کے ساتھ قائم کیاتھا ۔[33]

 

ذریعہ معاش:

آپؒ کے والد محترم نے طبیہ کالج الٰہ آباد ہندوستان سے طب کا کورس کروایا تھا۔ آپؒ ایک مستند، حاذق اور ماہر حکیم تھے۔ مدرسہ بیت العلوم میں طالب علمی کے دور سے ہی آپؒ نے حکمت کا کام شروع کیا تھا، طلباء اور عام لوگ آپؒ سے علاج کراتےتھے۔ دور طالب علمی میں ہی آپ مختلف جڑی بوٹیوں سے ایک معجون”معجون اشرفی“ کے نام سے تیار کر کے بیچتے تھے۔ دینی علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے کئی دفعہ باقاعدہ طور پر اپنے دواخانے اور مطب قائم کئے تھے۔ شیخ کی خدمت اور محبت میں تین دفعہ اپنے دواخانوں کو نیلام کرنا پڑا۔ عزیز آباد کراچی میں آپؒ نے ایک بڑا دواخانہ قائم کیا تھا لیکن حضرت پھولپوریؒ کی محبت میں بغیر کسی قیمت کے ایک حکیم صاحب کو خیرات کردیا تھا۔ جب آپؒ کا کوئی ذریعہ معاش نہ ہوتا تو آپؒ کا شیخ ثانی حضرت شاہ ابرارالحق ؒ ہردوئی ہندوستان سے آپؒ کو گذر اوقات کیلئے ایک معقول رقم بھیجا کرتے تھے۔[34]

 

ناظم آباد سے جب آپؒ گلشن اقبال بلاک نمبر دو کراچی منتقل ہوئے تو وہاں پر ایک دواخانہ ”مطب اشرفی“اورایک کتب خانہ” کتب خانہ مظہری“ کے نام سے قائم کیا تھا جو آج تک قائم ہیں۔

 

تصنیفات و تالیفات:

کسی بھی ذی استعداد شخص کی علمیت و قابلیت کا اندازہ اس کی تصنیفات و تالیفات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی تصنیفات و تالیفات کتنی ہیں، کیسی ہیں، اور ان کے مضامین کی جامعیت اور اس میں ربط و تسلسل کیساہے۔ آپؒ چونکہ تصوّف و طریقت سے مناسبت رکھتے تھے اور آپؒ نے پوری زندگی مخلوق خدا کا تعلق خالق کائنات سے جوڑنے اور لوگوں کے دِلوں میں دردِ محبت الہٰی و تعلق نسبت مع اللہ پیدا کرنے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ کی تصنیفات و تالیفات میں تصوّف و طریقت کا رنگ ہی غالب ہے۔ آپؒ کی کتب کی تعداد 200 سے بڑھ کر ہے۔ ان پر مفصل لکھنے کیلئےباقاعدہ ایک عظیم دفتر کی ضرورت ہے۔ اس لیے آپؒ کے شہرہ آفاق کتب میں سے ایک دو کا اجمالی تذکرہ کرتے ہیں اور باقی میں سے صرف چند کتب کے نام لکھنے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں تاکہ مالا ید رک کلہ لا یترکہ کلہ کا مصداق بن جائے۔

 

آپؒ کی کتب میں سب سے پہلا اور اہم و شہرت یافتہ کتاب مولانا جلال الدینؒ کی شہرہ آفاق کتاب ”مثنوی مولانا روم“ کی شرح ”معارف مثنوی“ہے جس میں آپؒ کے اشعار کا قرآن و حدیث کی روشنی میں تشریح کی ہے۔ اس شرح کے آخر میں آپؒ کا فارسی مجموعہ کلام”مثنوی اختر“ بھی اب چھپ چکا ہے۔آپؒ کی دوسری اہم کتاب ”رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت“ ہے جس میں آپؒ نے حدیث کی مشہور کتاب ”مشکوٰۃ المصابیح“ کی کتاب الرقاق سے احادیث کا انتخاب کرکے ان کی تشریح و توضیح مشکوٰۃ شریف کی مستند شرح ”مظاہر الحق“کی روشنی میں کی ہے۔

 

علاوہ ازیں آپؒ کی کتب میں خزائن القرآن، خزائن الحدیث، خزائن شریعت و طریقت،خزائن معرفت و محبت، معرفت الہٰیہ، کشکول معرفت، معارف شمس تبریز، درسِ مثنوی، فغان رومی، معارف ربانی، بدنظری و عشق مجازی کی تباہ کاریاں اور آپؒ کے مجموعہ کلام فیضان محبت، آئینہ محبت وغیرہ تقریباً 47 بڑی کتابیں ہیں۔مختلف موضوعات پر مشتمل آپؒ کے مواعظ جن کی تعداد 109 ہے وہ بھی مواعظ حسنہ کے نام سے آپؒ کی زندگی ہی میں کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں۔آپؒ کے کچھ مواعظ جو آپؒ کے خدام نے صرف کیسٹوں میں محفوظ کیے تھے اور منصہ شہود پر نہیں آئے تھے وہ آپؒ کی رحلت کے بعد خادم خاص و خلیفہ مجاز سید عشرت جمیل میر ؒ نے” مواعظ اختر“کے نام سے ترتیب دے کر کتابی شکل میں چھپوائے ہیں جن کی تعداد 81 ہے۔ ان تمام کتب کے حقوق محفوظ کرانے سے آپؒ نے اپنی حقیقی اور روحانی اولادوں کو منع فرمایا ہے اور ان سے کسی طرح بھی نفع کے حصول پر پابندی لگائی ہے تاکہ ہر شخص اس کو چھاپ کر کےافادہ عامہ کی خاطر ان کو عام کردیں۔[35]

 

جامعہ اشرف المدارس (بنین و بنات):

1980ء میں اپنے شیخ حضرت ابرارلحق ہردوئیؒ کے حکم کے مطابق اپنا مکان فروخت کرکے گلشن اقبال بلاک نمبر2 میں ایک 1300 مربع گز کا ایک پلاٹ لیکر اس میں مسجداشرف، خانقاہ امدادیہ اشرفیہ اور اشرف المدارس کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ طلباء کا تعداد اتنا بڑھا کہ طلباء کےلیے جگہ کم پڑنے لگا۔ اس کے بعد آپؒ نے سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر بلاک نمبر12 میں 4000 مربع گز کا ایک وسیع پلاٹ لیکر اس پر ایک وسیع بیسمنٹ کے ساتھ چھ منزلوں، دو سو بیس کمروں پر مشتمل ایک عظیم الشان عمارت ،”جامعہ اشرف المدارس“ کے نام سے قائم کی۔[36]جس میں پانچ ہزار سے زائد ملکی و غیرملکی طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کی تمام اخراجات جامعہ کے ذمے ہیں۔[37] جامعہ میں درج ذیل شعبے قائم ہیں۔

 

شعبہ کتب درسِ نظامی، حفظ القرآن، شعبہ تخصص فی الحدیث، شعبہ بنات، لائبریری، مطبخ و دارالاقامہ، شعبہ برائے اصلاحی تربیتِ طلباء، شعبہ مالیات ۔[38]

 

دارالافتاء :

جامعہ اشرف المدارس کے زیر انتظام 2000ء میں ایک دارالافتاء قائم کیا گیاہے۔ جو لوگوں کے فون، آن لائن اور بالمشافہ پوچھے گئے سوالات کے جوابات قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں دیتا ہے۔ اس دارالافتاء سے گزشتہ تیرہ سالوں میں جاری ہونے والے فتاویٰ کی تعداد 24000 سے بھی زیادہ ہے۔ان تمام فتویٰ جات پر تبویب کا کام بھی ہوچکا ہے، جو باقاعدہ طور پر 140 جلدوں

 

میں کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔[39]

 

المظہر انسٹیٹوٹ ( برائے کمپیوٹر و ماڈرن لینگوجز):

عصری تعلیم کےفروغ کےلیے جامعہ کے زیر انتظام”المظہر انسٹیٹیوٹ“ کے نام سے ایک جدید عصری تعلیمی ادارہ بھی حضرت حکیمؒ کے حکم سے قائم کیا گیا ہے۔ اس ادارے کا مقصد عصرِ حاضر میں مذہبی اور عصری تعلیمات کے درمیان خلا کو ختم کرنا ہے۔ اس ادارے میں عربی، انگریزی زبانوں کی تعلیم، کمپیوٹر کے جدید کوسز اور منیجمنٹ سائنس کے کورسز مدرسہ کے طلباء کو بلامعاوضہ کرائے جاتے ہیں۔ مدرسہ اشرف المدارس کے طلباء کے علاوہ حضرت کے مریدین و متعلقین، ان کے بچے اور عوام الناس بھی اس ادارے سے استفادہ کررہے ہیں۔[40]

 

المظہر اسکول آف ایکسی لینس:

مدرسہ اشرف المدارس کے زیر انتظام آپؒ نے ان طلباء کےلیے ایک سکول بھی قائم کیاہے جن کے والدین ان کو باقاعدہ طور پر مدرسوں میں پڑھانے کےلیے راضی نہیں ہوتے۔ اس سکول میں مکمل اسلامی ماحول میں طلباء کو دینی اور جدید عصری علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہ سکول ”کمپیوٹرائز لینگویج لیب“ اور”ملٹی پرپز آڈیٹوریم ہال“سے آراستہ ہے۔ اس سکول میں طلباء کو ”او لیول“ تک تعلیم دی جاتی ہے۔[41]

 

خانقاہ امدادیہ اشرفیہ:

1980ء میں اپنے شیخ ہردوئیؒ کے حکم کی تعمیل میں آپؒ نے اشاعت حق و تبلیغ دین کے خاطر ”خانقاہ امدادیہ اشرفیہ“کے نام سے اپنے اسلاف کے طرز پر ایک خانقاہ قائم کیا 1993ء میں اس کا ایک شاخ گلستان جوہر بلاک 12 میں سندھ بلوچ سوسائٹی میں قائم فرمایا۔ اب اس کی شاخیں آپؒ کے مریدیں، منتسبین اور خلفاء نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں سمیت برطانیہ، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، موریطانیہ، امریکہ،بھارت، کینیا، ماریشس، ری یونین، ملاوی، برما، ترکی وغیرہ ممالک میں قائم کیے ہیں اور وہاں پر اشاعت حق کا کام جاری ہے۔[42] آپؒ کے مریدں و منسلکین اوردیگر عوام جو خانقاہ سے دوری یا مصروفیت کی وجہ سے مجالس ذکر وغیرہ میں شرکت نہیں کرسکتے ان کےلیے آپؒ نے www.khanqah.org کے نام سے ایک ویب سائیٹ لانچ کیا ہے جس پر خانقاہ کے روزانہ کے مجالس ذکر اور دیگر معمولات ہر روز باقاعدگی سے ڈالے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت حکیمؒ کی تمام کتب، مواعظ حسنہ اور آپؒ کے محفوظ شدہ بیانات بھی اس ویب سائیٹ پر موجود ہیں۔ اس سائیٹ تک رسائی بالکل مفت ہے۔[43]

 

ماہنامہ الابرار

خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کے ترجمان کے طور پر مولانا حکیم محمد اخترؒ نے ایک مؤقر اور اصلاحی رسالہ ماہنامہ الابرارکے نام سے جاری کیا تھا۔ اس کے بانی آپؒ خود ہیں، سرپرست آپؒ کے جانشین مولانا حکیم محمد مظہرمدظلہ ہیں، جب کہ مدیر مولانا محمدابراہیم صاحب ہیں۔ماہنامہ الابرار ہر ماہ پابندی سے شائع ہوتا ہے، یہ ایک خالص دینی، علمی اور اصلاحی رسالہ ہے۔ اس رسالے کو اس کی اشاعت کے پہلے ہی شمارہ سے انتہائی مقبولیت ملی ہے اور عوام و خواص میں بہت مقبول ہے۔[44]

 

الاختر ٹرسٹ انٹرنیشنل:

آپؒ نے دکھی، لاچار اور بے آسرا انسانوں کی خدمت کیلئے الاختر ٹرسٹ کے نام سے فلاحی ادارہ بنایا جس میں بلا رنگ و نسل اور مذہب کے تمام انسانوں کی خدمت کی جاتی تھی۔ اس ٹرسٹ میں ہسپتالیں، بنیادی صحت کے مراکز، ایمبولینس سروس، قدرتی آفات میں متاثر ہونے والے افراد کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، بے گھر افراد کیلئےمفت گھروں کا انتظام اور دیگر بہت سے رفاہی و فلاحی کام شامل تھے۔ اس ٹرسٹ کے منتظم اعلیٰ آپؒ کے فرزند مولانا حکیم محمد مظہر تھے۔ اس ٹرسٹ نے قلیل عرصے میں بہت ترقی کی اور ملک کے طول و عرض میں انسانی ہمدردی کے بنیاد پر انسانیت کی فلاح و بہبود کی خدمت بلاتفریق رنگ ونسل اور مذہب کے کیا۔[45]

 

الاختر میڈیکل سینٹر:

14 اگست 2002ء کو آپؒ نے سندھ بلوچ سوسائٹی میں ”الاختر میڈیکل سنٹر“کے نام سے جدید سہولیات سے مزین ایک ہسپتال قائم فرمایا جہاں آپؒ کے مریدین، خلفاء، مدرسہ اشرف المدارس کے طلباء اور دیگر مستحق لوگوں کا علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کی عزت نفس اور سفید پوشی کا خیال رکھتے ہوئے انتہائی کم فیس لیاجاتاہے۔[46]

 

کتب و مواعظ کی مفت تقسیم:

آپؒ کے مواعظ حسنہ و مواعظ اختر شروع دن سے مفت تقسیم کیے جارہے ہیں۔ اصلاح الناس کے خاطر ان کو آسان اور عام فہم بنانے کےلیے پاکستان کے اکثر زبانوں سمیت عربی،فارسی، انگریزی، جرمن، فرانسیسی، چینی، ملیشیائی، لاطینی،پرتگالی،زولو، بنگلا، برمی، ہندی،گجراتی وغیرہ غیر ملکی مشہور زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں اور گذشتہ تیس سالوں سے کروڑوں کی تعداد میں فی سبیل اللہ تقسیم ہوتے آرہے ہیں۔ اب بھی یہ سلسلہ پہلے کی طرح جاری و ساری ہے۔ کو ئی بھی شخص متعلقہ خدام سے رابطہ کرکے گھر بیٹے بذیعہ ڈاک بھی مفت حاصل کرسکتا ہے۔[47]

 

مکتبہ جبرئیل( ڈیجیٹل لائبریری):

آپؒ کی زندگی ہی میں آپؒ کے خانقاہ کی اشاعت حق کے شعبے نے ایک ڈیجیٹل لائبریری قائم کی جس میں آپؒ کے جملہ کتب و مواعظ کے علاوہ بہت سےجید علماء کرام کی دینی علوم و فنون سے متعلق ہر قسم کی ہزاروں کتابیں وہاں مفت میں دستیاب ہیں۔ ان کو مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے اور ڈاؤن لوڈ بھی ۔ عوام الناس کی سہولت کیلئے آج کل اس کا ایپ گوگل پلے سٹور پر بھی دستیاب ہے۔اس مکتبہ کی یہ خاصیت ہے کہ بندہ آسانی کے ساتھ اپنا مطلوبہ مواد کئی طریقوں سے تلاش کر سکتا ہے۔ [48]

 

مطب اشرفی:

آپؒ نے گلشن اقبال میں خانقاہ، مدرسہ اور مسجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے دواخانہ ”مطب اشرفی“کے نام سےقائم فرمایاجس میں غریب اورمستحق لوگوں کومفت علاج کے ساتھ دوائی بھی مفت فراہم کی جاتی تھی۔آپؒ کا قائم کردہ یہ مطب ابھی تک موجود ہے۔

 

کتب خانہ مظہری:

دین حق کی اشاعت اور جہالت کے خاتمے کےلیے آپ نے گلشن اقبال میں ”کتب خانہ مظہری“کے نام سے ایک کتب خانہ قائم فرمایا تھا جس نے اشاعت حق کےلیے بےبہا خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس کتب خانے میں علماء حق کی کتابوں کا دیدہ زیب انداز میں اعلیٰ کاغذ پر طباعت کی جاتی ہے اور تبلیغ دین کی خاطرنہایت سستے داموں ہر عام و خاص کےلیے دستیاب ہیں۔

 

سفر آخرت:

آپؒ پر31مئی 2000ء میں فالج کا حملہ ہوا تھا اور اسی بیماری سے 13 سالوں تک علیل رہے۔آپؒ کی بیماری میں کبھی شدت آجاتی اور کبھی کافی حد تک افاقہ ہوجاتا مئی 2013ء کے آخری عشرے میں بیماری میں ایک بار پھر شدت آئی جس کی وجہ سے یہ آفتاب عالم تاب 23 رجب المرجب 1434ھ بمطابق 2 جون 2013ء بوقت 7 بجکر 42 منٹ پر اپنے ہزاروں مریدین، منتسبین اور متوسلین کو داغ فرقت دیکر اس جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے دارالابد کی طرف کوچ فرماگئے۔
میر،سیدعشرت جمیل،رشک اولیاء حیات اختر،ص456-459

 

خلاصہ بحث:

مختصراً یہ کہ مولانا حکیم محمد اخترؒ نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اصلاحی تقاریر و تحاریر کے ذریعے بے شمار لوگوں کی اصلاح کی اور اپنے فیض علمی و روحانی سے دنیا کے بیشتر ممالک سے تعلق رکھنے والےلاکھوں افراد کو مستفیض و مستفید فرمایا۔ آپؒ نے تبلیغی و اصلاحی خدمات کے ساتھ علمی و تصنیفی اور فلاحی خدمات بھی سرانجام دیں۔ آپؒ کے قلم فیض رقم سے دوسو سے زائد تالیفات و تصنیفات منصہ شہود پر آئیں۔ علاوہ ازیں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے آپؒ نے انٹرنیٹ کے ذریعے بھی فروغ علم و تبلیغ دین کی بھرپور کوشش کی ہے۔ آپؒ نے عوام الناس و خواص کے استفادہ کیلئے”مکتبہ جبرئیل“کے نام سے ایک آن لائن اسلامی لائبریری اور کئی ویب سائیٹز لانچ کئے ہیں۔دکھی انسانیت کی خدمت کےواسطےآپؒ نےایک عظیم ادارہ ”الاختر ٹرسٹ انٹرنیشل“کا قیام عمل میں لایا تھا۔ الغرض آپؒ نے تبلیغ،تقریر،تحریر،تصنیف و تالیف اور رفاہ عامہ کےحوالے سےگرانقدر اور ناقابل فراموش خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپؒ ایک عظیم عالم، بےمثال مصلح، ممتاز مؤلف و مصنف، مجذوب شاعر، بےنظیر خادم خلق اور ایک عارف و شیخ کامل تھے۔ آپؒ نے ساری زندگی اپنے شیوخ مولانا عبدالغنی پھولپوریؒ، شاہ ابرارالحق ہردوئیؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تعلیمات و ارشادات کے مطابق گزاری اور ان کے مسلک و مشرب پر کار بند رہے۔

حوالہ جات

  1. ندوی ،محمد اسجدقاسمی(ڈاکٹر) ،اختر تاباں، مرکز الکوثرالتعلیمی و الخیری، مراد آباد،انڈیا، 2014ء،ص14
  2. میر،سیدعشرت جمیل،حالات زندگی اورسانحہ وفات، ادارہ تالیفات اختریہ،کراچی،س ن،ص14-15
  3. اخوان، جلیل احمد، مولانا، تذکرہ مجمع البحار، خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال ،کراچی، 2016ء،ص19
  4. شاہ ،حکیم محمد اختر ،مولانا، ترجمتہ المصنف،کراچی ، خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال ،2015ء،ص7
  5. ایضاً،ص8
  6. ندوی ،محمد اسجدقاسمی (ڈاکٹر) ،اختر تاباں، ص15
  7. شاہ ،حکیم محمد اختر ،مولانا، ترجمتہ المصنف ،ص8
  8. اخوان،جلیل احمد،مولانا، تذکرہ مجمع البحار، ص29
  9. میر،سید عشرت جمیل،حالات زندگی اورسانحہ وفات، ص35
  10. ایضاً
  11. شاہ ،حکیم محمد اختر ،مولانا، ترجمتہ المصنف، ص 9
  12. الحازمی،أحمدبن عمر،شرح الأصول الثلاثة،دروس صوتية قام بتفريغهاموقع الشيخ الحازمي، ج4،ص 3
  13. میر،سید عشرت جمیل،حالات زندگی اورسانحہ وفات،ص 28
  14. میر،سید عشرت جمیل،رشک اولیاء حیات اختر، ادارہ تالیفات اختریہ،کراچی، 2017ء، ص 37
  15. شاہ ،حکیم محمد اختر ،مولانا، ترجمتہ المصنف، ص 17
  16. میر،سید عشرت جمیل،رشک اولیاء حیات اختر ، ص 35
  17. میر،سید عشرت جمیل،حالات زندگی اور سانحہ وفات، ص 28-29
  18. ملاعلی قاری،علي بن(سلطان)محمد،مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح،دارالفكر، بیروت،1422،ج1،ص 332،حدیث 265
  19. الوَصَابي،محمدبن عبدالرحمن،نشر طيّ التعريف في فضل حملة العلم الشريف والردعلى ماقتهم السخيف،جدة،دارالمنهاج، 1417،ج1،ص 186
  20. النووي،يحيى بن شرف، التبيان في آداب حملة القرآن،دار ابن حزم للطباعة والنشر والتوزيع،بیروت،1414،ج1،ص 50
  21. میر،سید عشرت جمیل،رشک اولیاء حیات اختر، ص 38،39
  22. میر،سید عشرت جمیل،حالات زندگی اور سانحہ وفات،ص 5
  23. ندوی،خطیب الرحمٰن،مولانا، مختصر حالات زندگی ،سہ ماہی فغان اختر ،شیخ العرب و العجم نمبر،محرم تاربیع الاول 1435ھ، ج1،ش1، ص 241
  24. ندوی ،محمد اسجدقاسمی (ڈاکٹر) ،اختر تاباں، ص17-18
  25. شاہ حکیم محمد اختر، مولانا،ترجمۃ المصنف، ص8-9
  26. اخوان، جلیل احمد،مولانا، سفرنامہ حرمین شریفین،خانقاہ امدادیہ اشرفیہ ،کراچی، 2016ء، ص23-24
  27. شاہ حکیم محمد اختر، مولانا،ترجمۃ المصنف،ص13-14
  28. شاہ حکیم محمد اختر، مولانا،درس مثنوی، خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال، کراچی، 2015ء،ص31
  29. شاہ حکیم محمد اختر، مولانا،ترجمۃ المصنف، ص18-17
  30. اخوان، جلیل احمد، مولانا،تذکرہ مجمع البحار، ص28
  31. میر،سید عشرت جمیل، رشک اولیاء حیات اختر، ص 50،51
  32. اخوان، جلیل احمد، مولانا،سفرنامہ حرمین شریفین، ص30
  33. ندوی ،محمد اسجدقاسمی ،اختر تاباں،ص26
  34. میر،سید عشرت جمیل،رشک اولیاء حیات اختر، ص 122-123
  35. ایضاً،ص632تا645
  36. ابن سرتاج عالم،مولانا، جامعہ اشرف المدارس ،سہ ماہی فغان اختر ،شیخ العرب و العجم نمبر، کراچی، ج1،شمارہ1، محرم تاربیع الاول1435ھ، ص 349
  37. اراکانی،مولانامحمدصدیق،حضرت مولاناحکیم اخترصاحب بھی چل بسے،ماہنامہ حق نوائے احتشام،کراچی،شعبان 1434ھ، ص20
  38. ابن سرتاج عالم،مولانا،سہ ماہی فغان اختر ، شیخ العرب و العجم نمبر ، ج1،ش1 ، ص351
  39. ایضاً، ص353
  40. ایضاً، ص 356
  41. ایضاً، ص 357
  42. ارمان،محمدارمغان، مولانا، حضرت والا کے واقعات و کمالات حضرت والا کی زبانی،ایضاً ص 871
  43. www.khanqah.org
  44. ا بن سرتاج عالم،مولانا،سہ ماہی فغان اختر ، شیخ العرب و العجم نمبر ، ج1،ش1 ، ص354
  45. اخوان،جلیل احمد،مولانا،سفرنامہ رنگون وڈھاکہ،خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال،کراچی،2016ء،ص50
  46. محمدارمغان ارمان،حضرت والاکےواقعات وکمالات حضرت والاکی زبانی،سہ ماہی فغان اختر،شیخ العرب والعجم نمبر، کراچی، ج1،ش1، محرم تاربیع الاول 1435ھ، ص885
  47. میر،سید عشرت جمیل،رشک اولیاء حیات اختر،ص634
  48. www.elmedeen.com
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...