Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

نبی کریم ﷺ کی خانگی و معاشرتی زندگی کے اہم پہلو |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خانگی و سماجی زندگی میں اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے آپ ﷺنے جو اسوہ چھو ڑا ہے وہ اکمل و احسن ہے ۔ حضور اکرم محمد ﷺ کی رسول، داعیِ دین، مفسر قرآن، معلم، قاضی، سپہ سالار، حکمراں اور سربراہِ خاندان کی حیثیت سے جو مختلف النوع اور کثیر ذمہ داریاں تھیں ان سے ہم سب واقف ہیں۔ان سب کے باوجود آپﷺ کا روزانہ کا معمول یہ تھا کہ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے گھر پر تشریف لے جاتے اور ان کی ضروریات معلوم کرتے۔بعد مغرب سب سے مختصر ملاقات فرماتے اور شب باری باری مساویانہ طور پر ہر ایک کے گھر میں گذارتے [1]۔سب کے کھانے، پینے، رہائش اور نان و نفقہ میں عدل و انصاف سے کام لیتے۔ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ اپنی ازواج کے لیے سال بھر کے نفقہ کا اہتمام فرماتے تھے ۱ الف ۔ کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے اگر وقت پر کوئی کام نہ ہوتا تو ناراض نہ ہوتے بلکہ نرمی کا برتاؤ کرتے۔ایک بار ایک صحابیؓ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آپ ﷺ گھر میں ہوتے تو کیا کرتے تھے جواب میں انہوں نے فرمایا:

 

کان یکون فی مہنۃ اھلہ۔فاذا حضرت الصلوٰۃ قام الی الصلوٰۃ

 

ترجمہ: وہ اپنے گھر کے کام میں لگے رہتے اور جب نماز کا وقت آجاتا تو نماز کے لئے چلے جاتے[2] ۔

 

گویا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں دونوں کے حقوق کا خیال رکھتے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے کہا کہ جب آپﷺ گھر میں ہوتے تو نہایت نرم خو، عفو و در گذر کرنے والے، گھر کے کاموں میں کاتھ بٹاتے اور بدزبانی سے پرہیز کرتے اور کبھی کسی سے انتقام نہ لیتے[3]۔مزید براں بعض حدیث میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھا ل خود کرتے، بکری کا دودھ دوہتے، اپنے کپڑوں میں پیوند لگاتے، اپنے جوتے کی مرمت کرتے، ڈو ل میں ٹانکے لگاتے، خود ہی بازار سے ودا سلف لاتے اور اگر کوئی خادم ہوتا تو گھر کے کام کاج میں اس کی مدد کرتے ۔[4]

 

یہاں یہ واضح رہے کہ قرآن کریم میں انفاق یا مال خرچ کرنے کی جو ترتیب بیان کی گئی ہے اس میں سب سے پہلے والدین اور رشتہ داروں کا ذکر ہے [5]۔ یعنی کسی صاحبِ مال کے میں سب سے پہلے حق دار وہی ہیں اور روز مرہ زندگی میں ان کی ضروریات کو مقدم رکھا جائے گا۔ایک حدیث سے بھی اپنے اہل و عیال پر مال خرچ کرنے کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک دینار جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کیا جائے، ایک دینار کسی غلام کو آزاد کرنے میں، ایک دینار کسی مسکین کو دیا جائے اور ایک دینا ر اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا جائے۔ ان میں اجر و ثواب کے لحاظ سے سب سے افضل دینار وہ ہے جو اہل و عیال کے نان و نفقہ پر خرچ کیا جائے [ اعظمہا اللذی انفقتہ علیٰ اھلک] [6]۔ایک دوسری حدیث میں صاٖف صاف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مال خرچ کرنے کی ابتداء ان لوگوں سے کی جائے جو کسی کے زیرِ کفالت رہتے ہیں[7] ۔ لیکن جب ایثار و قربانی کا موقع ہوتا تو نبی کریم ﷺ گھر والوں کے مقابلہ میں دوسرے ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے۔ یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک صحابی نے نکاح کیا، ولیمہ کے لیے گھر میں کچھ نہ تھا۔ اسی ضرورت سے وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ: عائشہ کے پا س جاؤ اور آٹے ٹو کر ی مانگ لاؤ۔ وہ گئے اور اسے لے آئے جبکہ صورتِ حال یہ تھی کہ کاشانۂ نبوی ﷺ میں اس کےعلاوہ شام کے کھانے کے لیے کچھ نہ تھا [8]۔ اس سے زیادہ نصیحت آموز واقعہ یہ ہے: یہ بات بخوبی معروف ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریم ﷺ کی چہیتی بیٹی تھیں۔ آپ ﷺ ان سے بے حد محبت فرماتے تھے، حتی کہ جب آپ ﷺ سفر کے لیے روانہ ہونے سے قبل سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملتے اور واپسی پر مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد سب سے پہلے ان کے گھر تشریف لے جاتے اور ملاقات کرتے[9]۔ ایک دوسری روایت کے مطابق جب حضرت فاطمہؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں، تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چومتے اور اپنی جگہ انھیں بٹھاتے[10] ۔انہی صاحبزادیؓ کا واقعہ ’’ اوراقِ سیرت‘‘ کے مصنفِ گرامی مولانا سید جلال الدین عمری کے الفاظ میں مسند احمد ابن حنبل کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں: حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ گھر کے لیے پانی بھرتے بھرتے سینہ میں درد ہوجاتا ہے۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ چکی چلا نے سے ہاتھ میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ اس وقت قیدی آئے ہیں، خدمت کے لیے ان میں سے ایک غلام عنایت فرمایا جائے۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: واللہ لا اعطیکما و احرم اہل الصفّہ تطوی بطونہم، لا اجد ما انفق علیہم ولٰکنّی ابیعہم ا نفق علیہم اثمانہم (قسم خدا کہ یہ نھیں ہو سکتا کہ میں تمھیں خادم فراہم کردوں اور اصحابِ صفّہ کو جن کے پیٹ فاقے سے پچکے پڑے ہیں، محروم کردوں۔ میں غلاموں کو فروخت کرکے ان کی قیمت اصحاب صفّہ پر خرچ کروں گا) ۔ پھر آپ ان کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں سوتے وقت تسبیح (33بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر) پڑھنے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ یہ تسبیح تمہارے لیے غلام سے بہتر ہے۔ فرماں بردار صاحب زادیؓ نے یہ سن کر جو جواب دیا وہ لایقِ توجہ و باعثِ عبرت ہے:

 

رضیت عن اللہ وعن رسولہ[11]۔

 

ترجمہ: یعنی میں اللہ اور اس کے رسول محبوب ﷺ سے خوش و راضی ہوں ۔

 

اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے اہل و عیال کے لیے آخرت کی فکر بھی رکھتے تھے۔ آپ ﷺ انھیں دین اور دین کی باتوں سے آگاہ فرماتے اور ا خروی زندگی کی تعمیر کی جانب انہیں بار بار متوجہ کرتے۔ یہ سلسلہ آغازِ نبوت سے جاری ہوا تو تا حیات قایم رہا۔حضرت فاطمہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ان الفاط میں انہیں انذار کیا: یا فاطمہ بنت محمد انقذی نفسکِ من النار، فانّی لا املک لکمِ من اللہ شیئاً، غیر انّ لکم رحما سا بلھا ببلالھا (اے محمد کی بیٹی فاطمہ! تم بھی خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔[میں روز قیامت] تمھار ے کچھ کام نہیں آ سکتا، البتّہ جو رشتہ ہے اس کے حقوق کی اچھی طرح نگہ داشت کروں گا) [12]۔ ظاہر ہے کہ یہ اس آیت کی عملی تعبیر تھی جس میں اللہ رب ا لعزت نے اہل ایمان کو ہدایت دی ہے:

 

یاَاَیھا َا لذِین َآمَنواقوا اَنفسَکم و َاہلِیکم ناَراً وَقود ہا َالناس وَالحِجاَرَۃ[13]۔

 

ترجمہ: اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

 

روزمرہ زندگی میں آپ ﷺ کا اسوہ ملاحظہ فرمائیے۔ آپ ﷺ کا معمول شریف یہ تھا کہ ہر کام اپنے متعینہ وقت پر انجام دیتے تھے اور معاشرہ کے تمام لوگوں کا خیال رکھتے تھے۔عدالت کا وقت ہوتا تو مقدمات کا فیصلہ فرماتے، وعظ و نصیحت کا موقع ہوتا تو اس میں مصروف ہو جاتے، نماز کا وقت آتا تو امامت فرماتے، جنگ کا معاملہ آتا تو سپہ سالار بن جاتے۔عام مسلمانوں سے ملتے توان کی خبر گیری کرتے، پڑوسیوں سے مل کر ان کی ضرورتیں معلوم کرتے اور یتیموں و بیواؤں کی حاجت روائی کرتے، بیماروں کی عیادت کو جاتے اور کوئی جنازہ ہوتا تو اس میں شرکت فرماتے۔حضرت انسؓ جو آپ کے خادمِ خاص تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیماروں کی عیادت فرماتے، جنازے کے ساتھ جاتے اور مملوک یا غلام اگر دعوت دیتے تو قبول فرماتے [14]۔ یعنی آپ ﷺ تکلفات سے دور رہتے، لوگوں کے درمیان کوئی فرق و امتیاز پسند نہیں فرماتے، غلام و خادم کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے اور بلا تکلف ان کی دعوت بھی قبول فرماتے۔آپ ﷺ کی واضح تعلیم یہ تھی کہ ہر شخص کو سلام کیا جائے، خواہ اس سے شناسائی ہو یا نہ ہو۔ سلام کر نے میں پہل کی ترغیب دیتے ہوئے آ پ ﷺ نے فرمایا:

 

اِنّ اَولیٰ الناسِ باِللہ ِمِن بَدَء َباِلسلامِ‘‘) [15]

 

ترجمہ: اللہ کے قریب تر وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔

 

عام انسانوں کی طرح آپ ﷺ خوشی کے موقع پر خوشی کا اظہار فرماتے اور غم کے موقع پر غمگین ہو جاتے، لیکن اس وقت بھی اللہ کو یاد کرتے۔ آپﷺ کے یہاں آ خرِ عمر میں حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے صاحبزادے پیدا ہوئے۔ جب حضرت ابو رافع نے آپﷺ کو اس کی خبر دی تو اتنا خوش ہوئے کہ انہیں انعام میں ایک غلام دے دیا۔ اپنے جد امجد کے نام پر ان کا نام ابراہیم رکھا[16]۔ ڈیڑھ دو سال کے اندر ہی ا ن کی وفات ہوگئی تو بیٹے کی موت کو دیکھ کر آپ ﷺ رونے لگے اور یہ فر مایا:

 

اِنّ العَین تَدمع وَالقَلب یَحزن وَلا َنَقول اِلّا ما َیَرضیٰ رَبّنَاواِنّا بِفِرَاقِک َیا اِبراہیم لَمَحزونون[17]

 

ترجمہ: ا ے ابراہیم تمہاری موت سے ہم غمگین ہیں، آنکھیں رو رہی ہیں اور دل دکھی ہے مگر ہم کوئی ایسی بات نہ کہیں گے جو اللہ کو نا پسند ہو ۔

 

یعنی اس کیفیت میں بھی آپ ﷺ اللہ کی یاد اور اس کی رضا کی فکر سے غافل نہ رہے۔

 

حضور اکرم ﷺ سفر میں ہوتے تو اجتماعی کاموں میں سب کے ساتھ شریک ہوتے۔ ایک بار ایک سفر میں کئی صحابہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ایک روز بکری ذبح کرکے گوشت پکانے کا پروگرام بنا۔ ایک صحابی نے کہا کہ میں اسے ذبح کروں گا، دوسرے نے کہا کہ میں اس کی کھال اتاروں گا، تیسرے نے پکانے کی پیش کش کی۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں لکڑی جمع کروں گا۔ صحابہ نے کہا کہ اے رسول ﷺ ہم سب کام کر لیں گے یعنی آپ زحمت نہ فرمائیں۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم سب کام کر لو گے لیکن میں اپنے لئے کسی امتیاز کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ کو یہ پسندنہیں کہ اس کا کوئی بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان امتیاز کے ساتھ رہے[18]۔یہ ہے انکساری، خاکساری اور ساتھیوں کے ساتھ کاموں میں شریک ہونے کا اعلیٰ نمونہ۔ اسی طرح سماج کے کمزور اور بے سھارا لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ کے بے تکلف بیٹھنے اور ان دلداری کا یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے: حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت کے مطابق وہ ایک دفعہ ایسے کمزور و غریب مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ان کے پاس بدن ڈھانکنے کے لیے پورا کپڑا بھی نہیں تھا۔ ا ن میں سے ایک قرآن پڑھ رہے تھے۔ اسی دوران نبی کریم ﷺ تشریف لائے ۔ ا نہیں سلام کرنے کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم لوگ کیا کر رہے تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ایک قاری قرآن سنا رہے ہیں اور ہم سن رہے ہیں۔آپ ﷺ ان کے بیچوں بیچ مساوات برتتے ہوئے (یعنی بلا کوئی امتیاز) بیٹھ گئے اور اشارہ کیا کہ سب لوگ حلقہ بنا لیں، پھر انہیں مخاطب کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے فقہاء مہاجرین تمہارے لیے روز قیامت پورے نور کی بشارت ہے۔تم لوگ اصحابِ دولت سے نصف دن قبل جنت میں داخل ہوگے اور یہ نصف دن پانچ سو برس کے برابر ہوگا[19]۔مزید براں حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ قافلہ کے ساتھ سفر کرتے تو اس کے پیچھے چلتے، کمزوروں کو اپنی سواری پر بٹھاتے اور ان کے حق میں دعائیں بھی کرتے:

 

کان یتخلّف فی المسیر، فیجزی الضعیف و یردف و یدعو لھم[20]۔

 

ترجمہ: سفر کے دوران آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کی دیکھ بھال کرتے چلتے، کمزوروں کو سہارا دیتے۔

 

اور پھر مزید کرم فرمائی یہ کہ ان کے حق میں دعا بھی کرتے کہ اللہ ان کے حالات کو بہتر بنائے۔اس اسوہ حسنہ سے کتنے جامع انداز میں امیر سفر کی ذمہ د اریاں اور سالارِ کارواں کے فرائض واضح ہوتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ مخدوم نہ بنیں بلکہ خادم کی حیثیت اختیار کریں اور رفقاء سفر کی ضروریات کا پوری طرح خیال رکھیں۔ 

 

رسول اکرم ﷺ صحابہ کرام کو تعلیم وتربیت دیتے ہوئے اس بات پر خاص زور دیتے تھے کہ وہ دوسروں کے کام آئیں، ان کی مدد کریں اور انہیں آرام پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس کا بخوبی اندازہ ان روایات سے ہوتا ہے جن میں نیک اعمال کی ترغیب دی گئی ہے۔حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ اے رسول اللہ ﷺ ایمان کے ساتھ کوئی نیک عمل بتائیے۔آپ نے فرمایا کہ جو روزی اللہ نے دی ہے اس میں سے دوسروں کو دو۔ عرض کیا اے اللہ کے رسول! اگر وہ خود مفلس ہو، فرمایا اپنی زبان سے نیک کام کرے (یعنی اچھی باتیں کہے و بتائے) ۔ عرض کیا اگر وہ زبان سے معذور ہو، فرمایا کہ کمزور کی مدد کرے۔عرض کیا اگر وہ خود کمزور ہو اور مدد کی قوت نہ رکھتا ہو، فرمایا کہ جس کو کوئی کام کرنا نہ آتا ہو اس کا کام کردے ۔ عرض کیا اگر وہ خود ہی ناکارہ ہو، فرمایا اپنی ایذا رسانی (یعنی تکلیف دینے) سے دوسروں کو بچائے[21]۔

 

حضور اقدس ﷺ روزمرہ زندگی میں غلاموں و خادموں (جو سماج کے انتہائی کمزور طبقات میں شمار کئے جاتے ہیں) کے ساتھ اچھے برتاؤ کی خاص تاکید فرماتے تھے۔ان کے آقاؤں یا مالکوں کے لئے آپ ﷺ واضح ہدایت یہ تھی:

 

ھم اخوانکم جعلہم اللہ تحت ایدیکم فمن جعل اللہ اخاہ تحت یدہ فلیطعمہ ممّا یا کل ویلبسہ ممّا یلبس ولا یکلفہ من العمل ما یغلبہ فان کلّفہ ما یغلبہ فلیعینہ علیہ[22]

 

ترجمہ: وہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ما تحت کیا ہے۔پس جسے اللہ نے اس کا بھائی بنا کر اس کے ماتحت کیا ہے اسے چاہیے کہ جو خود کھائے وہی انہیں بھی کھلائے، جیسا کپڑا خود پہنے ویسا ہی انہیں بھی پہنائے۔ ان کو اتنا کام نہ دے جو ان پر بھاری ہو جائے۔اور اگر بھاری کام د ے تو اس میں خود بھی شریک ہو کر ان کی مدد کرے۔

 

آپ ﷺ خود غلاموں اور خادموں کے ساتھ بڑی شفقت و نرمی سے پیش آتے تھے۔ وہ اگر دعوت دیتے تو ان کی دعوت کو قبول کرتے اور ان کی دلجوئی فرماتے[23]۔حضرت عائشہؓ کی روایت کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ عورت کو، نہ خادم کو، نہ کسی اور کو، سوائے اس صورت کے کہ آپ را ہِ خدا میں جہاد کر رہے ہوتے [24]۔ یہاں یہ ذکر اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ ایک دفعہ ایک صحابی (حضرت ابو مسعودؓ) اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ پیچھے سے انہوں نے یہ آواز سنی کہ جان لو، جان لو۔ انہوں نے مڑکر دیکھا تو آنحضرت ﷺ یہ فرما رہے تھے کہ ا ے ابو مسعود جتنا قابو تم کو اس غلام پر ہے اس سے زیادہ اللہ کو تم پر ہے۔ صحابیؓ بیان فرماتے ہیں کہ اس نصیحت کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے پھر کسی غلام کو نہیں مارا (اللہ اقدر علیک منک علیہ۔ قال ابو مسعود فما ضربت مملوکاً لی بعد) [25]۔

 

معاشرتی زندگی سے متعلق نبی کریم ﷺ کی یہ روشن تعلیمات بھی بڑی اہمیت رکھتی ہیں کہ اپنے و غیر کی تفریق کے بغیر ہر محتاج و ضرورت مند کی مدد کی جائے اور ہر شخص کو سلام کیا جائے، خواہ اس سے شناسائی ہو یا نہ ہو[26] ۔ اسی طریقہ سے آپ ﷺ نے مسلم و غیر مسلم کی تفریق کے بغیر ہر مہمان کی خاطر داری اور اس کے ساتھ بہترین سلوک کی تلقین کی اور اس پر خود بھی عمل کر کے دکھایا۔ ایک بار عیسائیوں کا ایک وفد نجران مدینہ سے آیا۔آپ ﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹہرایا اور خود ان کی میزبانی فرمائی، حتیٰ کہ انہیں اپنے طریقہ پر عبادت کی اجازت بھی مرحمت فرمائی[27] ۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ کا بیا ن ہے کہ وہ اسلام لانے سے قبل ایک دفعہ مدینہ آئے اور حضو ر اکرم ﷺ کے مہمان رہے۔ گھر میں رات کے کھا نے میں صرف بکری کا دودھ تھا۔ آپ ﷺ نے اسے مہمان کو دے دیا اور گھر کے لوگوں نے فاقہ میں رات بسر کی [28]۔ یہاں یہ ذکر بھی بر محل معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ذرؓ نے اسلام لانے کے بعد آپ ﷺ کے اس اسوۂ مبارکہ (مہمان کی خاطر تواضع میں ایثار و قربانی) کی پیروی کا خود عمل ثبوت پیش کیا۔ مستند مآخذ میں ان کے بارے میں یہ بیان ملتا ہے کہ وہ روزانہ بکری کا دودھ دوہ کر پہلے پڑوسیوں اور مہمانوں کو پلاتے تھے۔ ایک دفعہ دودھ اور کھجوریں لے کر پڑوسیوں اور مہمانوں کے سامنے پیش کر کے معذرت کرنے لگے کہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اگر ہوتا تو پیش کرتا۔ چنانچہ جو کچھ تھا دوسروں کو کھلا دیا اور خود بھوکے سو رہے [29]۔ مزید براں ایک بار حکمرانِ حبشہ کے سفیر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ خود ان کی خاطر مدارات میں مصروف ہو گئے۔صحابہ نے عرض کیا کہ ہم اس خدمت کے لئے حاضر ہیں، آپ زحمت نہ فرمائیں۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جب مسلمان حبشہ ہجرت کر کے گئے تھے تو ان لوگوں نے ان کی خدمت کی تھی اب یہ میرا فرض ہے کہ میں بھی ان کی خدمت کروں[30]۔ بیماروں کی عیادت کے باب میں بھی آپ ﷺ کا طرز عمل یہی تھا کہ مسلم و غیر مسلم میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے[31]۔

 

نبی کریم ﷺ اس بات کو سخت ناپسند فرماتے تھے لوگ عام بات چیت یا خطاب میں کسی کو برے لقب سے یاد کریں یا ا سے ایسے نام اسے پکاریں جس سے اس کی تحقیر ظاہر ہو ۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک روز ایک مسلمان بھائی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا رنگ کالا تھا، کسی ضرورت سے ان کو خطاب کیا تو زبان سے نکل گیا: یا ابن السوداء (اے کالے رنگ والے) ۔آپ ﷺ نے سنا تو سخت ناپسند فرمایااور کہا کہ:

 

لیس لابن البیضاء علیٰ ابن السوداء فضل [32]

 

ترجمہ: کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔

 

ا س سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے پر کتنا زور دیتے تھے۔ اسی ضمن میں یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے آپ ﷺ کے سامنے حضرت صفیہؓ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے پستہ قد ہونے کی جانب کچھ اشارہ کردیا۔ آپ ﷺ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہو ئے فرما یا:

 

لقد قلتِ کلمۃً لو مزج بھا البحر لمزجتہ [33]

 

ترجمہ: تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر میں گھول دیا جائے تو اسے بھی متا ثر کر کے رہے ۔

 

یہاں یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کے ساتھ اپنی مجلسوں میں بعض اوقات پر لطف باتیں کرتے اور خوش طبعی و خو ش مذاقی کا مظاہرہ بھی فرماتے ۔اس کے متعدد واقعات سیرتِ نبوی ﷺ میں ملتے ہیں۔یہان صرف ایک واقعہ پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ایک دفعہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سواری کے لئے ایک اونٹ طلب کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اونٹ کا بچہ دوں گا۔ انھوں نے عرض کیا: حضورﷺ میں اونٹ کے بچے کو لے کر کیا کروں گا؟ مجھے توسواری کی ضرورت ہے، مجھے اونٹ دلوائیے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ نہیں! میں تجھے اونٹ کا بچہ ہی دیا جائے گا۔ وہ بہت پریشان ہوئے تو لوگ ہنسنے لگے توحضورﷺنے فرمایا: نادان!آخر اونٹ بھی تو اونٹ کا بچہ ہی ہوگا[34] ۔

 

معاشرتی زندگی سے متعلق حضور اقدس ﷺ کی سیرت کا یہ بھی نہایت اہم پہلو ہے کہ آپ غریبوں، ضرورت مندوں اور پریشاں حالوں کی حاجت روائی اور ان کی تسلی و تسکین کا سامان کرنے پر خاص توجہ دیتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تاکید فرماتے تھے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ: ما سئل النبی ﷺ عن شیئی قطّ فقال: لا (کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی سائل نے آپ کے سامنے کو ئی ضرورت رکھی ہو اور آپ ﷺ نے اس کا جواب ’’ نہیں‘‘ سے دیا ہو) [35]۔ اہم بات یہ کہ موقع و محل کے اعتبار سے حاجت مندوں کی حاجت روائی کے لئے مختلف طریقے اختیار کرتے تھے۔ کبھی کسی ضرورت مند کو جو کچھ گھر میں ہوا پیش کر دیا، گھر میں کچھ نہ ہونے پر صحابہ کو دعوت دیتے کہ ان میں سے کوئی سائل کی ضرورت پوری کرے۔کبھی کسی پریشاں حال کی غمخواری وتسلی کے لئے خود اپنی حالت بیان فرماتے اور کبھی کسی حاجت مند کو دعاء سکھاتے کہ اس کے توسط سے اللہ تعالیٰ سے رجوع کریں تو ان کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ ایک بار ایک صحابیہ نے اپنے ہاتھ سے چادر بن آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کی ۔ آپ ﷺ نے اسے قبول کرلیا۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ اسی دوران ایک صحابیؓ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ مجھے عنایت کر دیجیے۔آپ نے اسی وقت اتار کر انہیں دے دیا[36]۔ اسی طرح یہ واقعہ پہلے نقل کیا جا چکا ہے کہ ایک صحابی کے یہاں شادی کے بعد ولیمہ کے لئے گھر میں کچھ نہ تھا۔ انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے اپنی ضرورت پیش کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ ۔ وہ گئے اور اسے لے آئے، جب کہ صورت حال یہ تھی کہ اس روز گھر میں اس کے سوا شام کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا [37]۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ کا بیا ن ہے کہ وہ اسلام لانے سے قبل ایک دفعہ مدینہ آئے اور حضور اکرم ﷺ کے مہمان رہے۔ گھر میں رات کے کھانے میں صرف بکری کا دودھ تھا، آپ ﷺ نے اسے مہمان کو پیش کردیا اور گھر کے لوگوں نے فاقہ میں رات بسر کی ۔ [38]اسی طرح ایک بار ایک بھوکا شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی ضرورت ظاہر کی، گھر میں پانی کے سوا کچھ نہ تھا ۔آپ ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آج کی رات جو ان کو مہمان بنائے گا اللہ اس پر رحم فرمائے گا۔ یہ سعادت ایک انصاری صحابی کو نصیب ہوئی۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گئے اور جو کچھ تھا انہیں پیش کردیا، جبکہ صورتحال یہ تھی کہ گھر کے لوگ جن میں بچے بھی شامل تھے ابھی بھوکے تھے۔ بچوں کو کسی طرح سلا دیا اور مہمان کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ باقی لوگ ابھی بھوکے ہیں[39]۔اسی طرح حضرت طلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حاضر خدمت ہو کر بھوک کی شکایت کی اور دامن اٹھا کر دکھایا کہ بھوک سے بیتاب ہو کر پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں۔آپ ﷺ نے ہماری تسکین کے لئے اپنا دامن اٹھایا تو ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ ایک نہیں بلکہ دو پتھر باندھے ہوئے ہیں [40]۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضرت مجھ پر اتنا قرض ہو گیا ہے کہ بظاہر اس کی اد ا ئیگی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی، ہر وقت فکر و غم میں مبتلا رہتا ہوں۔ اللہ کے واسطے کچھ بتائیے کہ جس سے فکر و غم دور ہو اور میں کچھ آرام کی زندگی بسر کر سکوں۔ فرمایا تجھے ایک دعا بتاتا ہوں جس سے تیرا قرض ادا ہو جائے گا اور اطمینان بھی حاصل ہو گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبح و شام یہ پڑھ لیا کرو: اَ للھم اِنی اَعوذ بِکَ مِن َالھم و َالحزن وَاَعوذ بِک مِنَ العجزِ وَالکسل ِوَاَعوذ بِکَ مِن َالبخلِ وَالجبن وَ اَعوذ بِک َمِن غَلَبَۃ َالدَینِ وَقَھرِ الرِجاَلِ[41]۔اسی طرح آپ ﷺ صحابہ کرام کومریض کی عیادت کے وقت یہ دعا سات بار پڑھنے کی تلقین کرتے تھے: اَسئَلَ اللہ العَظِیم رَب العَرشِ العَظِیم اَن یَشفِیکَ[42]۔

 

حقیقت یہ کہ آپ ﷺ کی زندگی در حقیقت ان ہدایاتِ ربانی کا پرتو تھی جنہیں آپ ﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے: (1) کھلے اور چھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں، (2) غصہ یا خوشی ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، (3) محتاجی و امیری دونوں حالتوں میں اعتدال پر قایم رہوں، (4) جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں، (5) جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں، (6) جو مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کردوں، (7) میری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو، (8) میرا بولنا ذکرِ الٰہی ہواور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو، (9) اور یہ کہ میں نیکی کا حکم دوں[43] ۔ 

 

مختصر یہ کہ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں گھر والوں کی دیکھ ریکھ، صلۂ رحمی، حاجت مندوں کی حاجت براری، مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد، غرباء و کمزوروں کی اعانت، اورپریشاں حال کی غمخواری اور مہمانوں کی خاطر داری کے باب میں بڑے قیمتی سبق ملتے ہیں اور اہم بات یہ کہ نبوت سے سرفرازی سے پہلے سے یہ خصائلِ محمودہ آپ ﷺ کی زندگی میں جلوہ گر تھے، جیسا کہ امّ المومنین حضرت خدیجہؓ کے ان کلمات (جو انہوں نے وحی کے آغاز کے موقع پر ادا کیے تھے) سے بھی اس کی واضح شہادت ملتی ہے: واللہ ما یخزیک ابداً، انّک لتصل الرحم و تحمل الکلّ و تکسب المعدوم و تقرئ الضیف و تعین علیٰ نوائب الحق [ اللہ آپ ﷺ کو رسوا نہ کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہماں نوازی کرتے ہیں اورمصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں][44]۔حقیقت یہ کہ آپ ﷺ مکارمِ اخلاق کے اتنے بلند مقام پر فائز تھے کہ مخالفین حتّیٰ کہ سخت ترین دشمن بھی آپ ﷺ کے اخلاق کی بلندی اور کردار کی عظمت و پاکیزگی کو تسلیم کرتے تھے۔اس کا ایک واضح ثبوت اس سے ملتا ہے کہ شاہِ روم ہرقل کے دربار میں حضرت ابو سفیانؓ (جو اس وقت مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے) نے بادشاہ کے ا ستفسار پر اپنے تاثرات میں آپ ﷺ کی سچائی، راست بازی، وعدہ وفائی اور دیگر خصائلِ حمیدہ کا بر ملا اعتراف کیا تھا [45]۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو پوری طرح قرآن و سنت پر کار بند رہنے اور ان کی روشنی میں معاشرہ کی اصلاح کے لیے جد و جہد کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین ثمّ آمین۔

حوالہ جات

  1. البخاری، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب دخول الرجل علی نسا ۂ فی الیوم، باب المرأۃ یھب یومہا من زوجہا لضر تہا و کیف یقسم ذالک، محمد عبد الحئی، اسوہ رسول اکرم ﷺ، ص118-190،؛ عبد الرؤف ظفر، اسوۂ کامل ﷺ، نشریات، لاہور، 2009ء، ص357-358
  2. صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب حبس نفقۃ الرجل قوت سنۃ علیٰ اہلہ
  3. صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما یکون الرجل فی مھنۃ اہلہ؛ طبقات ابن سعد، دار صادر، بیروت، 1960ء، ج1، ص366
  4. جامع الترمذی، ابواب البر والصلہ، باب ما جاء فی خلق النبی ﷺ، محمد خالد مسعود، حیات رسول امّی ﷺ، قرآن و سنت اکیڈمی، نئی دہلی، 2004ء، ص594-595
  5. البقرہ2: 215
  6. صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما یکون الرجل فی مھنۃ اہلہ؛ طبقات ابن سعد، ج1، ص366-367، شبلی نعمانی، سیرۃ النبی ﷺ، دار المصنفین شبلی اکیڈمی، انڈیا، 2003ء، ج2، ص270
  7. صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک
  8. سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص247 (بحوالہ مسند احمد ابن حنبل، ج4، ص58)
  9. سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص316؛ سعید انصاری، سیر الصحابیات، مطبع معارف، اعظم گڑھ، انڈیا، 1972ء، ص101-102
  10. سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی قیام الرجل للرجل ؟، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص317؛ ج6، ص525
  11. صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب عمل المرأۃ فی بیت زوجہا؛ بو داؤد، کتاب الخراج، باب فی بیان مواضع قسم الخمس و سہم ذی القربیٰ طبقات ابن سعد، دار صادر بیروت، 1958ء، ج8، ص25، سید جلال الدین عمری، اوراقِ سیرت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، 2015ء، ص376 بحوالہ مسند احمد ابن حنبل، ج1، ص106-107، نیز دیکھیے: سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص246، 352
  12. صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قولہ تعالیٰ: وانذر عشیرتک الاقربین، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقاق، باب الانذارو التحذیر، ج2، ص698
  13. التحریم6: 66
  14. شمائلِ ترمذی (اردو ترجمہ از: مولانا کرامت علی جونپوری بعنوان ’’ انوارِ محمدی‘‘، مع عربی متن) ، ندوۃ التالیف والترجمہ، جامعۃ الرشاد، اعظم گڑھ، 1996ء، ص291؛ محمد فاروق خاں، کلامِ نبوت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، 2012ء، ج2، ص672
  15. سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، باب افشاء السلام، جامع ترمذی، ابواب الاسیذان والادب، باب ما جاء فی فضل الّذی یبداٗ بالسلام
  16. سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص345 (بحوالہ الزرقانی، ج3، ص251)
  17. صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمتہ الصبیان والعیال؛ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب قول النبیﷺ انّابک لمحزونون، سیرۃ النبی ﷺ، ج6، ص555
  18. الزرقانی، ج4، ص306، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص264، 270
  19. سنن ابو داؤد، کتاب العلم، باب فی ا لقصص
  20. سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب لزوم الساقۃ؛ کلام نبوت، محولہ بالا، ج2، ص674
  21. محمد ابن اسمٰعیل البخاری، الادب المفرد، المطبعۃ السلفیہ، القاہرہ، 1378ھ، ص 316-317، 404-405؛ جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ما جاء فی صنائع المعروف؛ سیرۃ النبی ﷺ، ج6، ص125، 309
  22. صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما ینہیٰ عن السباب واللعن؛ سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فی حق المملوک، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص201
  23. کلام نبوت، ج2، ص672 (بحوالہ البیہقی فی شعب الایمان)
  24. صحیح بخاری، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب مساعدتہ ﷺ للآثام و اختیارہ من المباح اسھل و انتقامہ عند انتھک حرماتہ؛ ، شمائلِ ترمذی، ص306، کلامِ نبوت، ج2، ص652
  25. جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب النہی عن ضرب الخدام و شتمہم، باب ما جاء فی العفو عن الخدام؛ سیرۃ النبی ﷺ، 2/305، 6/317
  26. سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، باب افشاء السلام، جامع ترمذی، ابواب الاستیذان والادب، باب ما جاء فی افشاء السلام
  27. ابن القیم الجوزیہ، زاد المعاد من ھدی خیر العباد، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، 1987ء، ج3، ص629، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص38، 294
  28. مسند احمد ابن حنبل، دار الحدیث، القاہرہ، 1995ء، ج18، ص476، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص247
  29. طبقات ابن سعد، محولہ بالا، ج4، ص235-236؛ شاہ معین الدین ندوی، مہاجرین، مطبع معارف، اعظم گڑھ، انڈیا، 1952ء، ج2، ص89
  30. سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص231، 271 (بحوالہ شرح شفائے قاضی عیاض، ج2، ص100)
  31. صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبیّ، سنن ابو داؤد، کتاب الجنائز، باب العیادۃ، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص293، ج2، ص196-197
  32. وحید الدین خان، پیغمبر انقلاب ﷺ، مکتبہ الرسالہ، نئی دہلی، 2014ء، ص28
  33. سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، جامع ترمذی، کلامِ نبوت، ج2، ص515-516، سعید انصاری، سیر الصحابیات، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، انڈیا، 2001ء، ص85
  34. سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المزاح، شمائلِ ترمذی، ص228، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص315
  35. صحیح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق و السخاء؛ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب ما سئل رسول اللہ ﷺ شیئاً قطّ فقال: لا، طبقات ابن سعد، دارصادر، بیروت، 1960ء، ج1، ص327
  36. حیح بخاری، کتاب المناقبب؛ سنن ابو داؤد، کتاب الفرائض، باب الدعاء للمریض عند العیادۃ، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب الدعوات فی الاوقات، کلامِ نبوت، ج2، ص353-354، 259-260، 266، 672، 674، ج4، ص129؛ اوراقِ سیرت، ص366
  37. صحیح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص246
  38. سیرۃ النبی، ﷺ، ج2، ص247 (بحوالہ مسند احمد ابن حنبل، ج4، ص58، ج6، ص397)
  39. صحیح مسلم، کتاب الاشربہ، باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ؛ سیرۃ النبی، ﷺ، ج6، ص336
  40. شمائلِ ترمذی، ص321، مشکوٰۃ المصابیح (کتاب الرقاق، باب فضل الفقراء وما کان من عیش النبی ﷺ) ، دمشق، 1961ء، ج2، ص767، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص280
  41. صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوذ من غلبۃ الرجال؛ مشکوٰۃ المصابیح (کتاب الدعوات، باب الدعوات فی الاوقات) ، ج1، ص751
  42. سنن ابو داؤد، کتاب الفرائض، باب الدعا ء للمر یض عند العیادۃ
  43. مشکوٰاۃ المصابیح، کتاب الر قاق، باب البکاء و الخوف
  44. صحیح بخاری، کتاب الوحی، باب بدء الوحی، سیرۃ النبی ﷺ، ج2، ص227-228
  45. نبی کریم ﷺ کے بارے میں رومی بادشاہ ہرقل کے استفسارات اور حضرت ابو سفیانؓ کے جوابات پر تفصیلی مطالعہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں: سید جلال الدین عمری، اوراقِ سیرت، محولہ بالا، ص296-299
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...