Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

نوجوانوں میں تعلیم و تربیت کے فقدان کا تدارک اور سدباب: سیرت مبارکہ کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

نوجوان طبقہ بلا شبہ امت مسلمہ کا ایک قیمتی سرمایہ ہے، اگر اسے خیر وبھلائی کے کاموں، عزت وعظمت کے تحفظ اور تعمیر و ترقی کے امو رمیں صرف کیا جائے توپھر یہ طبقہ ایک نعمت اور خیر وبرکت بن جاتا ہے اور اگر اسے شر وفساد اپنے رنگ میں رنگ لے تو وہی طبقہ خطر ناک اور انتہائی نقصان دہ بن کر سامنے آتا ہے ۔ اگر ان کی تر بیت صحیح اسلامی خطوط پر ہو گی تو ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو گا اور صف اقوام میں ہم عزت اور وقار کی فضا میں سانس لے سکیں گے ۔شبا ب اور جوانی میں اخلاق وکردا ر کا تنزل انتہائی خطر نا ک اور خوفناک ہوتا ہےجس کی وجہ سے معاشرہ فتنہ وفساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہذاجس قدر نوجوان طبقے کی تربیت اور ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لی جائے اتنا ہی امت اور معاشرے کا انجام بہتر ہو گا۔ اسلام نے نوجوانوں کو خاص مقام عطا کیا ہے اور اس کو مستقبل کا معمار اور انسانی قیادت کا سپہ سالار قرار دیا ہے ۔ نبی کریمؐ نے اپنے دور کے سبھی نوجوانوں کو اہمیت دی اور مرکز توجہ بنایا۔ آپ ؐ نے اپنی بعثت سے تا دم آخرین تعلیم و تربیت کے دونوں امور وفرائض بیک وقت سر انجام دئیے اور اپنی اس الہامی تعلیم سے نہ صرف جزیرہ عرب میں بلکہ اس وقت کی اور قیا مت تک آنے والی انسانیت کے لیے ہمہ گیر انقلاب کی نوید سنائی ۔ نوجوانوں نے تاریخ اسلام میں اسلامی زندگی کی بہترین نمائندگی کی اور اخلاقی بلندی و عظمت اسلام کا پیغام مستقبل میں آنے والی نسلوں اورقوموں تک پہنچادیا۔ عصر حاضر میں نوجوانوں کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ تعلیم و تربیت کا فقدان ہیں جس پر اس تحقیقی مقالہ میں علمی بحث کی گئ ہے۔زیر نظر مقالہ میں ذیلی عنوانات کچھ اس طرح ترتیب دیئے گئے ہیں ۔

 

1۔ تعلیم وتربیت کا مفہوم

 

2۔ تعلیم وتربیت کا فقدان اور اس کےاسباب

 

3۔ تعلیم وتربیت کے فقدان کے نقصانات, تدارک اور سدّ ِباب

 

4۔ خلاصہ بحث

 

5۔ حواشی وحوالہ جات

 

علم کی تعریف:

علم عین کے کسرہ اورلام کے سکون کے ساتھ مصدر ہے سمع یسمع کے باب سے جس کا معنیٰ ہے جاننا، پہچاننا۔قرآن کریم میں یہ لفظ متعدّد مواقع پر استعمال ہواہے، چنانچہ ارشاد ربّانی ہے:

 

عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَكُمْ۔

 

ترجمہ: اللہ تعالیٰ جانتےتھےکہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے۔

 

ایک اور جگہ فرمایا:

 

لَكِنَّ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ 2

 

ترجمہ: یہ کافر لوگ مانیں یا نہ مانیں لیکن اللہ نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں وہ خود گواہی دیتا ہے کہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے ۔

 

ایک اورجگہ مضارع کاصیغہ استعمال کرتےہوئےفرمایا:

 

وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ3

 

ترجمہ: اور اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو تم چھپ کر کرتے ہو، اور وہ بھی جو تم علی الاعلان کرتے ہو۔

 

اصطلاح میں علم کی تعریف ہے کہ: إدراک الشیئ بحقیقتہ4 کسی چیز کی حقیقت کوپہچاننا۔باب تفعیل سےعَلَّمَ یُعَلِّمُ تَعْلیماً کسی کوسکھلانا، بتانا، سمجھانا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتےہیں: وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ5اور تم کو ان باتوں کا علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ایک اور جگہ فرمایا: وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ۔6اورانہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے۔

 

تربیّت کی تعریف:

تربیت باب نصر ینصر سے مصدر ہےرَبَّ یَرُبُّ رَبّاً انتظام کرنا، بالادست ہونا۔اورباب تفعیل سےرَبَّایُرَبِّیْ تَرْبِیَۃً اسی سے کہاجاتاہے ورب ولده والصبي يربه ربا رباه أي أحسن القيام عليه ووليه حتى أدرك أي فارق الطفولية كان ابنه أو لم يكن یعنی اس نے اپنے بیٹے یاکسی بھی بچےکی تربیت کی یعنی اس کی دیکھ بھال، نگرانی اور پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہوجائے۔ رَبَّ الْوَلَدَ 7لڑکے کے بالغ ہونے تک پرورش کرنا، درجہ بدرجہ کمال کوپہنچانا۔8 قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا۔9

 

ترجمہ: اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔

 

تعلیم وتربیّت کی اہمیّت:

تعلیم وتربیّت کی اہمیّت کا اند ازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے جس رسول کے مبعوث فرمانے کی دعا کی اس کی صفت یہ بیان کی کہ وہ پیغمبرایسا ہو جو لوگوں کوکتاب سکھلاکران کی تعلیم وتربیّت کرے:

 

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ 10

 

ترجمہ: اور ہمارے پروردگار! ان میں ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے۔

 

نیز اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی مؤمنین پر احسان جتلاتے ہوئےفرمایاکہ میں نے تمہارے اندر ایک ایسا رسول بھیجاجس کے فرائضِ منصبی میں تعلیم وتربیّت شامل ہے۔

 

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ۔ 11

 

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ۔

 

حضورِاکرم ﷺنے بھی اپنے منصب کو بیان کرتےہوئے فرمایا: انما بعثت معلما12 کہ مجھے معلّم، تعلیم دینے والابناکر بھیجا گیا ہےاور فرمایا: انما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق۔13 مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کےلئے مربّی بناکربھیجاگیاہے۔

 

اس سے بھی زیادہ فضیلت یہ کہ اللہ تعالیٰ خود معلّم، تعلیم دینے والااور نبی اکرمﷺ متعلّم تعلیم حاصل کرنے والا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اس کوفضل عظیم فرمایا:

 

وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا۔14

 

ترجمہ: اور تم کو ان باتوں کا علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے، اور تم پر اللہ کا فضل بہت زیادہ ہے۔

 

اسی طرح اللہ تعالیٰ مربّی تربیّت کرنے والااور نبی علیہ السلام تربیّت حاصل کرنےوالےہیں:

 

أدبنی ربی فأحسن تأدیبی15 کہ میرے ربّ نے مجھے اچھا ادب سکھلایا۔

 

حضور اکرم ﷺ پرغارِ حراء میں جوسب سے پہلی وحی نازل ہوئی اس میں توحید، نماز، روزے اور دیگرعبادات کا حکم نہیں دیاگیابلکہ اسلام نے سب سے پہلے جواعلان کیا وہ تعلیم اور تربیّت کاتھاچنانچہ ارشادفرمایا:

 

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ16

 

ترجمہ: پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے ۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے ۔ جس نے قلم سے تعلیم دی ۔ انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔

 

تعلیم وتربیّت کافقدان:

تعلیم وتربیّت کے فقدان کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ مخبرِ صادق ﷺ نے چودہ سوسال پہلے تعلیم وتعلّم پرزور دیتےہوئے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب علم کو اٹھالیاجائے گا، یہاں تک کہ دوآدمیوں کے درمیان کوئی فیصلہ کرنے والا بھی نہیں ملے گا:

 

قال ابن مسعود: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: تعلموا العلم وعلموه الناس، تعلموا الفرائض، وعلموها الناس، تعلموا القرآن، وعلموه الناس، فإني امرؤ مقبوض، والعلم سينقص، وتظهر الفتن، حتى يختلف اثنان في فريضة لا يجدان أحدا يفصل بينهما17

 

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنےمجھے فرمایا: علم سیکھو اورلوگوں کوسکھاؤ، فرائض سیکھواور لوگوں کوسکھاؤ، قرآن سیکھواور لوگوں کوسکھاؤکیونکہ میں انسان ہوں جواٹھایاجاؤں گااور علم بھی عنقریب اٹھالیاجائے گا، اورفتنے ظاہرہوں گے حتیٰ کہ دو شخصوں میں کسی فرض کےبارےاختلاف ہوگا توان کو کوئی نہ ملے گا جو ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ایک اورجگہ پر ارشاد فرمایا:

 

عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا 18

 

ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سےنکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تولوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔

 

لہذا اس بات کی اشدضرورت ہے کہ تعلیمی انحطاط اورتربیّت کے فقدان کےاسباب کوتلاش کرکے اس کے نقصانات پر غوراوراس کاسدّباب کیاجائے، چونکہ تعلیم وتربیّت لازم وملزوم ہیں اس لئے ذیل میں اس کےفقدان کے اسباب ترتیب واربیان کئےجائینگے۔

 

تعلیم وتربیّت کے فقدان کے اسباب:۔والدین کاخود تعلیم وتربیت سے بےبہرہ ہونا:

قرآن کریم میں مؤمنین کویہ حکم دیاگیا ہے:

 

يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًاوَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ 19۔

 

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

 

اس آیت مبارکہ میں حکم دیاگیاہے کہ اپنےنفس اور اہل وعیال کو آگ سے بچاناضروری ہے، لیکن اگروالدین خوداسلامی تعلیمات سے بےخبراوربےبہرہ ہو ں گےتو اپنی اولادکی تعلیم اورتربیت کیسے کریں گے، مشاہدے سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جن بچوں کے والدین غیرتعلیم یافتہ ہوتےہیں، توان کی اولاد تعلیم وتربیت سے عاری ہوتی ہے الاّماشاءاللہ ۔

 

نبی اکرمﷺ کا ارشادہے:

 

والرجل راع في أهله وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية في بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها۔20

 

ترجمہ: آدمی اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔

2۔معاشی مشکلات:

اکثروالدین چاہتےہیں کہ اپنی اولاد کی خوب تعلیم وتربیت کریں لیکن معاشی طور پروہ اس قابل نہیں ہوتے کہ تعلیمی اخراجات کابوجھ برداشت کرسکیں، اس لئے نوعمری ہی میں بچوں کومحنت مشقّت پرلگاکرتعلیم سے محروم کردیتے ہیں۔حدیث پاک میں فقرکوکفرکا سبب قراردیاگیا ہے، جہل کا درجہ تو کفرسے کم ہے، لہذاجوکفرکےلئےسبب بن سکتاہے وہ جہل کےلئے بطریق اولیٰ سبب بنےگا۔

 

عن عمررضي الله عنه قال: جاء رجال أصحاب الصفة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فشكوا إليه الحاجة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم كاد الفقر أن يكون كفرا۔21

 

ترجمہ: حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ اصحابِِ صفّہ نےآکر نبی ﷺ کوتنگدستی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا قریب ہے کہ تنگدستی کفر کےلئے سبب بن جائے۔

 

3۔حکومتی عدم توجّہ:

تعلیم وتربیت کے فقدان کاایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ حکومت تعلیم تربیت پر بہت کم توجہ دے رہی ہے، بجٹ میں دفاع اور دیگر اخراجات کی بہ نسبت تعلیم کےلئےبہت کم رقم مختص کرتی ہے، اور وہ بھی تعلیم کی بجائےاکثرانتظامی اخراجات اور دیگر امورمیں خرچ کی جاتی ہے۔حالانکہ تعلیم ہربچے کاحق اورحکومت کی ذمہ داری ہے۔رسول اکرم ﷺ کے زمانےمیں صفّہ میں باقاعدہ مدرسہ آپ علیہ السلام کی نگرانی میں کام کرتاتھا، اورغزوہ بدر کے بعض قیدیوں پر مسلمانوں کے بچوں کو کتابت سکھانالازم قرار دیاگیاتھا۔فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم فداءهم، أن يعلموا أولاد الأنصار الكتابة۔22

 

4 ۔بچوں کی بے جامار پیٹ اوراُن پرحد سے زیادہ سختی کرنا:

تعلیم وتربیت سے محروم ہو نے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اساتذہ بچوں کوسخت مارتےہیں، بسا اوقات معاملہ ہسپتال اور موت تک بھی پہنچ جاتاہے، بے جاسختی سے بچے بد ظن ہوکر تعلیم کوادھورا چھوڑ دیتے ہیں ۔حالانکہ تعلیمات نبوی توخوش اخلاقی، نرمی اور طالب علم کےساتھ بھلائی کاحکم دیتی ہے:

 

يسروا ولا تعسروا، وبشروا، ولا تنفروا 23۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین میں آسانی کرو اور سختی نہ کرو، لوگوں کو خوشخبری سناؤ اورانہیں متنفر نہ کرو۔

 

وروينا عن أبي هارون العبدي، وشهر بن حوشب قالا: كنا إذا أتينا أبا سعيد الخدري رضي الله عنه يقول: مرحبا بوصية رسول الله, قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ستفتح لكم الأرض ويأتيكم قوم أو قال: غلمان حديثة أسنانهم يطلبون العلم، ويتفقهون في الدين ويتعلمون منكم فإذا جاءوكم فعلموهم وألطفوهم ووسعوا لهم في المجلس وفهموهم الحديث فكان أبو سعيد يقول لنا: مرحبا بوصية رسول الله، أمرنا رسول الله أن نوسع لكم في المجلس وأن نفهمكم الحديث24

 

ترجمہ: ابوہارون عبدی اورشہر بن حوشب کہتے ہیں کہ جب ہم طالب علم حضرت ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے توفرماتے، خوش آمدید خوش آمدید، حضوراکرم ﷺ کی وصیّت سنو!رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے، کہ عنقریب زمین تمہارےلئے مسخر کی جائے گی، اورتمہارےپاس کم عمرآئیں گےجوعلم کے بھوکے پیاسے ہوں گے، تفقّہ فی الدّین کے خواہش مند ہوں گے اور تم سے سیکھنا چاہیں گے، پس جب وہ آئیں تو انہیں تعلیم دینا، مہربانی سے پیش آنا، ان کی آؤ بھگت کرنا مجلس میں توسیع کرنااورحدیث بتانا۔

 

5 ۔نصاب کامادری اور قومی زبان میں نہ ہونا:

تعلیم حاصل کرنےمیں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہمارا نصاب مادری اورقومی زبان میں نہیں، بلکہ زیادہ زورانگریزی پر دیاجاتاہے، حتّی کہ اگرایک آدمی اردو، پشتو، اسلامیات یاکسی اور مضمون میں ایم اے، ایم فل وغیرہ کرناچاہے تو بھی اس کےلئے انگریز ی کے مشکل مراحل سے گزرناضروری ہے، بلکہ متعلّقہ مضمون سے زیادہ سوالات انگلش کے متعلّق ہوں گے۔انگریزی بطور مضمون کے اور انگریزی بطور ذریعہ تعلیم میں فرق نہیں کیاجاتا، جس کالازمی اثر بچوں پر پڑتا ہے، غیرمادری زبان سیکھنےمیں جس قدرمحنت درکار ہوتی ہے وہ کسی ماہر تعلیم پر مخفی نہیں، طالب علم جس قدرمادری زبان میں اظہار مافی الضّمیر کرسکتا ہے وہ غیر مادری زبان میں ہرگز نہیں کرسکتا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ غیرمادری زبان میں بہت کم لوگ مہارت حاصل کرتےہیں ورنہ عام لوگ ایک محدود لغات رٹ کر کام چلاتے رہتے ہیں اس طریقہ کارنے طلبہ کی تحقیقی صلاحیتوں کوکچل کررکھ دیاہے۔ سنّت خداوندی یہ ہےکہ اللہ تعالی نےہر قوم کو جورسول مبعوث فرمایا تو انہی کی زبان میں مبعوث فرمایا تاکہ وہ قوم کو ان کی زبان میں سمجھاسکے:

 

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ۔25

 

ترجمہ: اور ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا، خود اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے حق کو اچھی طرح واضح کرسکے۔

 

ایک حدیث میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے، چنانچہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

 

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إنا معاشر الأنبياء كذلك أمرنا أن نكلم الناس بقدر عقولهم 26

 

ترجمہ: حضوراکرم ﷺ فرماتےہیں کہ ہمیں انبیاءکی جماعت کو حکم دیاگیاہے کہ ہم لوگوں کےساتھ ان کی فہم اور سمجھ کے مطابق بات کریں۔

 

6 ۔معاشرے میں تعلیم وتربیت کی اہمیّت کافقدان:

عام لوگ اپنے اردگرد کے معاشرے کودیکھ کراس سے اثر لیتے ہیں اگر معاشرے میں اچھائی غالب ہو توبچے اورنوجوان اچھے اخلاق کےمالک بنتےہیں اوراگر معاشرہ برائی میں مبتلاہو تو بچےاورنوجوان بری عادات کو اپنالیتےہیں، اگرہم اپنے معاشرے پرنظرڈالیں تواس میں فضولیات کو اپنایاجاتاہے لیکن تعلیم وتربیت کواہمیت نہیں دی جاتی معاشرے کے اثراندازہونے کی طرف احادیث مبارکہ میں بھی اشارہ ہے کہ اونٹ اورگھوڑوں والوں میں سختی اورغروراوربکریوں والوںمیں نرمی ہوتی ہے یعنی انسان جانوروں کی صحبت سے بھی اثرلیتے ہیں چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

والفخر والخيلاء في أهل الخيل والإبل الفدادين، أهل الوبر والسكينة في أهل الغنم 27۔

 

ترجمہ: فخر و غرور گھوڑے اور اونٹ والوں میں ہے جن کے دل سخت ہیں اور نرم اخلاقی و مسکینی بکری والوں میں ہے۔

 

7 ۔اساتذہ کی نیم خواندگی اورتربیت کی کمی:

تعلیم وتربیت کے فقدان کاایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں سفارش اور رشوت کاکلچر عام ہوچکا ہے، اکثراساتذہ اپنی تعلیمی استعداد کے بل بوتے پر نہیں، بلکہ سفارش، جعلی کاغذات اور دیگر ناجائز ذرائع سے عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتےہیں، اگرچہ ان میں تعلیمی صلاحیّت بالکل ناپید ہوتی ہے، جب یہ نیم خواندہ اورغیر تربیت یافتہ لوگ بچوں کوپڑھائیں گے، تو یہ کیاپڑھائیں گے اور کیسے تربیت کریں گے؟ چنانچہ فارسی کی مشہور ضرب المثل ہے ’’خفتہ راخفتہ کی کند بیدار‘‘یعنی ایک سویاہوا آدمی دوسرے سوئے ہوئے کوکیسے جگائے گا؟اورعربی کاایک شعر ہے:

 

إذا كان الغراب دليل قوم. . . يدلهم على جيف الكلاب28

 

ترجمہ: کہ جب کوّا کسی قوم کاراہنما بن جائے تو اُن کومردار کتّوں کےگوشت کی طرف راہنمائی کرے گا۔

 

8 ۔ احساسِ ذمہ داری کانہ ہونا اورتعلیم وتربیت کو مذہبی فریضہ کی حیثیّت نہ دینا:

تعلیم وتربیت کےفقدان کاایک سبب یہ ہے کہ تعلیم وتربیت سے متعلّقہ افرادمثلاًوالدین اساتذہ اور دیگر افراد اپنی ذمہ داری کااحساس نہیں کرتے، اگروہ اس کو مذہبی فریضہ سمجھ کر اہمیت دینے لگیں توکوئی وجہ نہیں کہ ہم دوبارہ عظمتِ رفتہ کو حاصل نہ کرسکیں، اگر ہم میں سے ہر ایک یہ سوچے کہ میری اولاد، میرے شاگرداور میرے ماتحت میرے پاس ایک امانت ہیں اور ان کی تعلیم وتربیت میری شرعی ذمہ داری ہے، مجھ سے قیامت کےدن ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائےگا۔اور یہ پوچھاجائے گا کہ تم نے امانت حقدار کوپہنچائی تھی ؟تومیں کیاجواب دونگا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:

 

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا۔29

 

ترجمہ: مسلمانو یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔

 

حضور اکرم ﷺ نے بھی فرمایا:

 

أد الأمانة إلى من ائتمنك۔30

 

ترجمہ: جو تمہارے پاس امانت رکھوائے اس کی امانت ادا کرو۔

 

ایک اورجگہ ارشادفرمایا:

 

كلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته31

 

ترجمہ: تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔

 

9 ۔ سکول، کالج، یونیورسٹیوں اورمدارس تعلیم گاہوں، دانش گاہوںکی کمی:

ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارےملک میں انسانی پیدائش کی رفتار کے تناسب سے علمی درسگاہوں کی کمی ہے، اگر کچھ تھوڑی بہت ہیں بھی تو وہ بند پڑی ہیں اگراس کااندازہ کرناہو توپنجاب کےپانچ ہزار بھوت سکول، سندھ کے زمینداروں کے اوطاقوں اور دیہاتوں کے ٹاٹ سکولوں سے اس کااندازہ کیاجاسکتاہے۔ ابتدائے اسلام میں انتہائی مشکلات کے باوجود کافی تعداد میں تعلیمی مراکز تھے چنانچہ مکّہ مکرّمہ میں ۱مسجد أبی بکر 2فاطمہ بنت خطّاب کاگھر 3 دار ارقم 4شعبِ أبی طالب وغیرہ جبکہ مدینہ منوّرہ میں 5 مسجدنبویؐ 6مسجد

 

بنی زریق 7 مقام قباء 8نقیع الخصمات وغیرہ ۔

 

10 ۔نقل، سفارش اور جعل سازی:

ہمارے ملک میں ایک وباء جس نے تعلیمی نظام کو کھوکھلاکردیا ہے، وہ سفارش، نقل اور جعل سازی کی وباء ہے۔جب ایک بچے کو یہ بات معلوم ہو کہ میں اگرمحنت نہ بھی کروں، توامتحان میں نقل کرکے اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہوجاؤنگایا کسی بڑے آدمی کی سفارش سےکرواکر یا جعلی کاغذات اوررشوت دےکر کسی اچھی نوکر ی اور عہدے کو حاصل کرلونگا، تو لازمی بات ہے کہ وہ محنت اور مشقت سےجی چرائے گا، اور اس کااثر صرف اس بچے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ وہ بچے جومحنت کرنے والے ہیں جب یہ صورتحال دیکھتے ہیں تو ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، اوروہ بھی اس ناجائز راستوں پر چلنے کے طریقے تلاش کرنا شروع کرتے ہیں۔حالانکہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیّت سے یہ کام ناجائز اور حرام ہے ۔نبی ﷺ کاارشادمبارک ہے: من غشنا فليس منا۔32 جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: الراشي والمرتشي في النار33۔کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا جہنّم میں ہوں گے۔ایک اورجگہ ارشادفرمایا: لاضررولاضرار۔34 یعنی نہ اپنےآپکوضرردیناجائزہےاورنہ دوسروںکو۔

 

11 ۔طبقاتی نظامِ تعلیم:

آج ہمارے ملک میں پانچ طرح کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ اے لیول اور او لیول، آغاخان بورڈ، انگریزی میڈیم سکول، اردو میڈیم سکول اور دینی مدارس

 

اگران پانچ قسموں کوہم مختصر کرناچاہے، تویہ دوقسم بن جائیں گےدینی نظامِ تعلیم اورعصری نظامِ تعلیم چونکہ ان دونوں قسموں کےنصاب اوردرس گاہیں جداجداہیں جس کانتیجہ یہ نکلا کہ ہرنصاب پڑھنے والے دوسرے نصاب سے جوانہوں نےنہیں پڑھاقطعا بےگانہ ہیں، لہذاپڑھالکھاطبقہ دوحصوں میں تقسیم ہوگیا، ایک کانام’’ ملا‘‘اوردوسرے کانام تعلیم یافتہ پڑگیااوریہیں سے ’’مسڑاورملاّ کی کشمکش شروع ہوگئی، ہرایک دوسرے کے وجود سے بے زارہے، علماءتعلیم یافتہ حضرات پر فسق، الحاداوربےدینی کاالزام لگاتےہیں ۔اورتعلیم یافتہ طبقہ علماء حضرات پرتنگ نظری دقیانوسی اوردہشت گردی کے الزامات لگاتاہے۔جس کی وجہ سےعلماءعصری علوم اورتعلیم یافتہ حضرات دینی تعلیم سے محروم ہیں۔

 

12 ۔طلباء کا مروجہ سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لینا:

تعلیم وتربیت کے فقدان کے اسباب میں یہ بھی ہے کہ طلبہ شعوری یا لاشعوری طورپر سیاست میں حصہ لینا شروع کردیتےہیں، جس کی وجہ سے پڑھائی متأثّر ہوجاتی ہے۔

 

13۔ بری صحبت اختیار کرنا:

بعض طلباء گندے ساتھیوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں، اور فحش فلمیں دیکھتے ہیں جن سے طلباء کے قیمتی اوقات ضائع ہو کر انکی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں حالانکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے حرام چیزوں سے اجتناب کی ھدایت کی گئی ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: اتق المحارم۔35حرام کاموں سے پرہیز کرو۔دوسری حدیث میں ہے: من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه۔36 کسی شخص کے بہترین مسلمان ہونے کا تقاضا ہے کہ لغو باتوں کو چھوڑ دے۔

 

تعلیم وتربیت کے فقدان کےنقصانات:

آج کےبچے کل کے معمار ہیں، اگربچپن سے ہی ان کی تعلیم وتربیت پرتوجہ نہ دی گئی اور اس میں غفلت، کوتاہی اور لاپرواہی سے کام لیاگیا، تو آنے والے وقت میں اس کے اتنےزیادہ نقصانات ہوں گے جوصرف بچے کی ذات تک محدودنہیں ہوں گے، بلکہ پورے معاشرےکو لپیٹ میں لے کر قوم وملّت کی بربادی کاسبب بنیں گے۔مثلاًبچےکےوالدین، اساتذہ، سربراہ قوم، قبیلہ، ملک، معاشرہ اوردوست واحباب ایک بچے کےایمانی، اخلاقی، جسمانی، دینی، عقلی، نفسیاتی، جنسی اوراجتماعی و معاشرتی تربیت کی ذمہ داری میں کوتاہی برتنےمیں کرناکام ہوجاتے ہیں، تویہ بچہ جھوٹ، چوری، گالم گلوچ، بےراہروی، فضول خرچی، بغض، حسد، دشمنی، قتل وقتال کرپشن، ڈاکہ اورمنشیات کااستعمال شروع کردیتا ہے، اورظاہر ہے کہ یہ خرابیاں انفرادی نہیں، بلکہ اس سے پورامعاشرہ متأثر ہوگا، اسی طرح یہ دیگر بچوں کوبھی اسی کاموں پرلگائے گا اوریہ چنگاری ایک خوف ناک آگ کی صورت اختیار کرکے نہ صرف ملک بلکہ پوری ملّت کواس کاایندھن بناکر رکھ دے گی۔مختصر یہ کہ اسلام میں تعلیم وتربیت کے تین مرحلے ہوتے ہیں: خاندان، مدرسہ اورمعاشرہ۔

 

اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں تعلیم وتربیت کی ابتداء خاندان ہی سے ہو ۔ مدرسہ میں معلم مربی کے فرائض سر انجام دیں جبکہ معاشرہ اس کی پذیرائی کرے ۔ آج نوجوان نسل کو جتنی تعلیم کی ضرورت ہے اتنی ہی تربیت کا احتیاج ہے، بلکہ آج اعلیٰ تعلیم سے زیادہ اعلیٰ تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر صرف تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہوتی تو ان ممالک میں جرائم نہ ہوتے جہاں شرح تعلیم سو فیصد ہے ۔ سرکاری، عدالتی، تعلیمی، سیاسی، معاشرتی جملہ امراض اور ان کے تدارک وانسداد کا واحد حل تعلیم کے ساتھ تربیت ہے۔

 

تدارک اور سدّ ِباب:

تعلیم وتربیت کے فقدان میں کئی عوامل اور اسباب کار فرما ہیں مثلاً والدین، اساتذہ، نظامِ تعلیم، معاشرہ، حکومت، منبرومحراب، سیاسی جماعتیں اورمیڈیا وغیرہ، لہذا تعلیم وتربیت کے فقد ان کے سدِّ باب کی بھاری بھرکم ذمہ داری بھی ان سب پرعائد ہوتی ہے۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ہر بندہ دوسرے کو ذمّہ دار ٹھہراکر خود کو بری الذمہ قراردینے کی کوشش کرتا ہے ۔اس روش کو ختم کرکے یہ سب ملکر یہ عزم کرلیں کہ ہم نے نسلِ نو کی تعلیم وتربیت میں حائل دیواروں کو بہر حال گرانا اور فقدان کے اسباب کو بہر قیمت مٹاناہے، تو کوئی بعید نہیں کہ نوجوانانِ قوم کومختصر مدت میں بہترتعلیم وتربیت کے زیورسےآراستہ وپیراستہ کیاجاسکے۔ ذیل میں تعلیم وتربیت کے تدارک اورسدِّباب کے متعلق چندمعروضات پیش کی جاتی ہیں: ۔

 

1 ۔ والدین کی ذمہ داری:

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ خودبھی علم حاصل کریں اور اولاد کی تعلیم وتربیت کا بھی انتظام کرے، قرآن کریم میں مؤمنین کویہ حکم دیاگیا ہے:

 

يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًاوَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ 37۔

 

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

 

اس آیت مبارکہ میں حکم دیاگیاہے کہ اپنےنفس اور اہل وعیال کو آگ سے بچاناضروری ہے اورظاہر بات ہے کہ اچھی تعلیم اور اعلیٰ تربیت ہی کے ذریعہ سے والدین اپنے آپ اور اولاد کوآگ سے بچاسکتےہیں۔

 

2۔ اساتذہ کی ذمہ داری:

تعلیم وتربیت دیناانبیائے کرام علیہم السلام کامبارک پیشہ ہے چنانچہ حضورِاکر ﷺ نے اپنے منصب کو بیان کرتےہوئے فرمایا: انما بعثت معلما38 کہ مجھے معلّم، تعلیم دینے والابناکر بھیجا گیا ہےاور فرمایا: انما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق۔39مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کےلئے مربّی بناکربھیجاگیاہے۔لہذا ایک معلّم ومربّی کےلئے ضروری ہے کہ تعلیم وتربیت کو فرض منصبی سمجھتے ہوئے ہر وقت بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر میں لگا رہے۔

 

3۔ معاشرہ کی ذمہ داری:

یہ بات واضح ہے کہ معاشرہ مختلف افراد سے مل کر بنتا ہے، اب معاشرے میں ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں، متعلقین اور اردگرد کے دیگر افراد کی تعلیم وتربیت میں حتّی المقدور اپنا حصہ ڈال کر اپنے مسلمان بھائیوں اوربہنوں کی بھلائی اور خیر خواہی کو مقدّم رکھے، اسلام نے اسی کا حکم دیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

 

عن تمیم الداری ان النبی ﷺ: قال: "الدین النصیحۃ ‘‘قلنا: لمن؟قال: ’’للہ، ولکتابہ، ولرسولہ، ولأئمۃ المسلمین وعامتھم"۔40

 

ترجمہ: تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے عرض کیا کس چیز کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ کی اور تمام مسلمانوں کی۔

 

4 ۔ میڈیا کی ذمہ داری:

آج کل قوموں کی ترقی وزوال میں میڈیا کا جوکردار ہے وہ کسی بھی عقلمند انسان سے مخفی نہیں، میڈیا سفید کو سیاہ اورسیاہ کو سفید کرسکتاہے، اسی طرح تعلیم وتربیت میں بھی میڈیا اہم کردار اداکرسکتا ہے، اگر ہم اسلامی ممالک میں میڈیا کی ہر قسم اشاعتی میڈیا، صوتی میڈیا، تصویری میڈیا کی موجودہ عملی حالت کو دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ میڈیا اسلامی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کی بجائے مغرب کےمفاد اور مغرب کی ثقافت کے لیے کام کر رہا ہےمثال کے طور پر مسلمانوں کے پاس اپنے ٹی وی چینلز تو ہیں لیکن بجائے اس کے کہ اس کے ذریعے لوگوں کے سامنے اسلامی اور ملی اقدار کا تعارف کرایا جائے الٹا دن رات مغربی طرز پر زندگی گزارنے کی تلقین کی جارہی ہے، ایسے واقعات اور پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جن کو دیکھ کر مسلمانوں کو اسلامی، قومی اور تاریخی اقدار اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمان خواہش پرستی، فیشن اور مغربی معاشرے کی تقلید پر آمادہ ہو جاتے ہیں، مسلم معاشرے میں نوجوان مردوں اور عورتوں اوران کے طور طریقوں کے خلاف آزادی کا نام لے کربے پردگی پر آمادہ کیا جاتا ہے۔حالانکہ مدینہ منوّرہ تشریف آوری کےوقت نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے جوپیغام جاری فرمایا وہ سلام کوپھیلانے کاتھا: وكان أول شيء تكلم به أن قال"يا أيها الناس، أفشوا السلام "۔41

 

افشائےسلام سے لفظ السلام علیکم بھی مراد ہے، لیکن اس کالغوی معنیٰ مطلق سلامتی اور خیرخواہی پھیلانا ہے، گویا کہ اسلامی معاشرےمیں میڈیا کاکام دینی اقدار، تعلیم وتربیت اورسلامتی پھیلاناہے، نہ کہ ہلاکت، بربادی اور بے حیائی۔اللہ تعالیٰ نے فحاشی پھیلانے والوں کےبارے فرمایا: == ==

 

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لا تَعْلَمُونَ==۔==42

 

ترجمہ: یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بےحیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

 

میڈیا والوں کو چاہئے کہ تعلیم وتربیت کے فقدان کے سدّ باب کےلئے روزانہ کے حساب سےباقاعدہ پروگرام کریں۔بچوں بوڑھوں اور جوانوں میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کرکے ان کی تربیت پربھرپور توجہ دے۔

 

5۔ منبر ومحراب:

مسلم معاشرے پر سب سے زیادہ اثر اندازہونے والے لوگ علمائے کرام ہیں، ظاہر بات ہے کہ علمائے کرام منبر ومحراب کےذریعہ معاشرے کے ہرشبعہ سے تعلّق رکھنے والے افرادکو اپنی آواز، موقف اورمدّعیٰ بآسانی پہنچاسکتےہیں، اور زندگی کے ہرشعبہ سے تعلّق رکھنے والےلوگ علمائے کرام کی باتوں اورتعلیمات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، لہذا تعلیم وتربیت کے حوالے سے منبرومحراب ایک اہم رول اداکرسکتا ہے، اگرمنبرسے مسلکی اختلافات، فرقہ واریت اورتعصّبات کی بجائے تعلیم وتربیت، حسن معاشرت اور اخلاق پر توجّہ دی جائے، تو بہت آسانی سے قوم اورمعاشرے کو سدھارا جاسکتاہے۔

 

6 ۔ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری:

سیاسی جماعتیں اور ان کےراہنما اورقائدین قوم کےنوجوانوں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، لہذا ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کے بچوں اور مستقبل کے معماروں کو سیاسی دھینگا مشتی، اختلافات، نعرہ بازی اور جلاؤ گھیراؤ کی بجائے ان کی تعلیم وتربیت پر توجّہ دے، اور ان کو قوم کی امیدوں کے روشن چراغ بنا کر ملک وملت کی تمنّاؤں کی آبیاری کرے۔ جب کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ تمام حکومتی اورتعلیمی اداروں میں بغیر اہلیّت کے اپنی جماعت کے منظورِ نظر افراد کواعلیٰ عہدوں پر فائز کرے۔

 

7۔ حکومت اورمحکمہ تعلیم کی ذمہ داری:

تعلیم اورتربیت کے فقدان کے سلسلہ میں سب سبے زیادہ ذمہ داری حکومت وقت اورمحکمہ تعلیم پر عائد ہوتی ہے، عربی کا مشہور ضرب المثل ہے: "الناس علیٰ دینِ ملوکھم"43یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے طور طریقے کو اختیار کرتے ہیں، اردومیں کہاجاتا ہے ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘اور عربی کےایک شعر میں اس پوری صورتِ حال کو یوں بیان کیا گیا ہے:

 

"إذاکان ربّ البیت بالدّف مولعاً۔۔۔۔فشیمۃ أھل البیت کلھم الرّقص"44

 

ترجمہ: یعنی جب گھر کا سربراہ ڈھول بجانے کا شوقین ہو تو گھر کے باقی افراد کی عادت ناچنا ہی ہوگی۔

 

لہذا گر حکومتِ وقت اورمحکمہ ٔتعلیم تعلیم کے نام پر جہالت اور بے حیائی کو فروغ دیں گے اور تعلیمی اور تربیتی سلسلہ میں موجودہ رکاوٹوں اور موانع کا سدِّ باب نہیں کریں گے تولازمی طور پر نوجوان نسل علم وادب اور تعلیم وتربیت سے دور ہوتی جائے گی، اب حکومت اور محکمہ تعلیم کی کونسی ذمہ داریاں ہیں جن کی پورا کرنے سے علمی انحطاط اور تربیتی فقدان کاتدارک کیاجاسکے ذیل میں اختصار کے ساتھ ان کو لکھا جاتا ہے:

 

1۔قومی یا مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا:

شومئ قسمت سےمملکتِ خداداد میں انگریزی زبان کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور تعلیمی میدان میں اس کو لازمی سمجھا جاتا ہے، انگریزی کی وجہ سے بچوں کی ذہنی پریشانی مشقت بڑھنے اور ان کی تعلیم پر برے اثرات کو وضاحت کے ساتھ ذکر کیا جاچکا ہے، لہذاحکومت قومی یا علاقائی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنائے، البتہ انگریزی کو لازمی مضمون کے طور پربرقرار رکھے۔

 

2۔== مخلوط نظام تعلیم سے چھٹکارا: ==

 

اسلام نے جس طرح مردوں کی تعلیم کو اہمیت دی اور جس طرح مردحضرات علم کے بام عروج پر پہنچ کر مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے میں پیش پیش تھے اسی طرح اسلام نے خواتین کی تعلیم وکتابت پر بھر پور توجہ دی اوران کے حصولِ علم پر ان کی تعریف وتوصیف کی چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے انصار خواتین کی علمی تڑپ پرفرمایا: "نعم النساء نساءالأنصار لم یکن یمنعھن الحیاء أن یسأ لن عن الدین، وأن یتفقھن فیہ" 45 حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ انصاری عورتیں بڑی اچھی تھیں انہیں دین کا مسئلہ دریافت کرنے یا اس کی حقیقت کو سمجھنے میں جھوٹی شرم و حیاء مانع نہ ہوتی تھی۔

 

رسول اللہ ﷺ بھی مختلف اوقات میں وعظ وتلقین کے ذریعہ خواتین کوتعلیم دیتےتھے چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے:

 

أن رسول اللہﷺخرج ومعہ بلال، فظن أنہ لم یسمع، فوعظھن وأمرھن بالصدقۃ، فجعلت المرأۃ تلقی القرط والخاتم، وبلال یأخذ فی طرف ثوبہ۔46

 

ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے قسم کھا کر بیان کیا کہ ایک مرتبہ عید کے موقعہ پر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کی صف سے گذر کر عورتوں کی صفوں میں پہنچے اس وقت آپ کے ہمراہ بلالؓ تھے آپ نے یہ گمان کیا کہ شایدعورتوں نے خطبہ نہیں سنا تو آپ نے انہیں نصیحت فرمائی اور انہیں صدقہ دینے کا حکم دیا، پس کوئی عورت بالی اور انگوٹھی ڈالنے لگی کوئی کچھ اور بلال اپنے کپڑے کے کنارے میں لینے لگے۔

 

لیکن مخلوط نظامِ تعلیم کے طلبہ پر ذہنی اور اخلاقی برے اثرات کسی بھی ذی شعورانسان پرمخفی نہیں، تقریباًستر70فیصد والدین مخلوط نظامِ تعلیم کی تباہ کاریوں کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئےبھی اپنی بیٹیوں کواعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم کردیتے ہیں، بالواسطہ طور پر حکومت ہی کواس محرومی کا ذمہ دارقرار دیاجاسکتا ہے، لہذا حکومت پرلازم ہے کہ طلبہ وطالبا ت کےلئے الگ تعلیم کا انتظام کرے۔

 

3۔طبقاتی نظامِ تعلیم کا سدِّ باب:

اسلامی نقطہ نظر سے علم کے حصول میں عرب اور عجم غریب اور امیر سب برابر ہیں ۔لیکن بدقسمتی سےہمارے ملک میں امیر اورغریب کے بچوں کا الگ الگ نظامِ تعلیم ہے اور دونوں کے لئے الگ الگ معیارات ہیں، جس کی وجہ سےغریب کا بچہ حصولِ علم کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرپاتا، اوراس وجہ سےوہ بچےاحساسِ کمتری کا شکارہوکر حصولِ علم سے دستبردارہوجاتےہیں اور آبادی کے اعتبار سے چونکہ یہ طبقہ زیادہ ہے، اس لئے اکثر لوگ جہالت کے اندھیروں میں پڑے رہ جاتے ہیں۔اس لئے حکومت پر لازم ہے کہ امیروں کے بچوں کی طرح غریبوں کے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرکے تعلیم کومفت اور بلاتفریق فراہم کرے، یہی اسلامی تعلیمات ہیں ۔

 

4۔ اساتذہ اورمعلّمین کی تقرّری اور چیک اینڈ بیلنس:

عام طورپر یہ دیکھا گیاہے کہ سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں اساتذہ اور معلّمین کی تقرّری کے وقت تعلیمی معیار اور قابلیت کوملحوظِ خاطرنہیں رکھا جاتا، بلکہ سفارش، اقرباءپروری، جعل سازی، اور ذاتی پسندوناپسند کی بنیادپر بھرتی کاعمل بروئے کار لایا جاتا ہے، حالانکہ قرآن کریم میں تویہ حکم دیاگیا ہے:

 

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا۔47

 

ترجمہ: یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔

 

اس آیت کی تفسیرمیں مفتی محمد شفیع ؒ لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہو اکہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں، جس کے امین وہ حکّام اورافسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل ونصب کے اختیارات ہیں، ان کےلئے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایس شخص کے سپردکردیں جو اپنی عملی اورعلمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے، بلکہ اُن پر لازم ہے کہ ہر کام اورہر عہدہ کےلئے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔۔۔آج جہاں نظامِ حکومت کی ابتری نظرآتی ہے وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظراندازکردینے کانتیجہ ہے، کہ تعلقات اورسفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کئے جاتےہیں جس کانتیجہ یہ ہوتاہےکہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہوکر خلقِ خدا کو پریشان کرتے ہیں، اورسارا نظامِ حکومت برباد ہوجاتاہے ۔48

 

اسی طرح نبی کریم ﷺ کاارشاد بھی ہے کہ اگرکوئی حاکم اہل حضرات کوچھوڑکر نااہل کو عامل اورذمہ داربنائے، تواس نے اللہ تعالیٰ، اور اس کےرسول ﷺ اورمسلمانوں سے خیانت کا ارتکاب کیا۔

 

من استعمل عاملامن المسلمین وھو یعلم أن فیھم أولی بذلک منہ وأعلم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ، فقد خان اللہ، ورسولہ، وجمیع المسلمین۔49

 

ترجمہ: جو مسلمانوں میں سےکسی کوعامل بنائے، حالانکہ وہ جانتاہوکہ ان میں اس سے بہتر موجود ہے، تو اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اورمسلمانوں کی جماعت کےساتھ خیانت کی۔

 

تعلیم وتربیت کے فقدان کے اسباب میں ایک اہم سبب یہ ہے، لہذا جب تک اس غیر شرعی اور غیر اخلاقی طریقہ کار کاتدارک نہ کیا جائے توتعلیمی اور تربیتی میدان میں آگے بڑھنا دشو ار بلکہ محال ہے، نیز تقرّری کے بعد بھی اساتذہ پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا چاہئے، ان کی حاضری اور کارکردگی پر بھر پور نظر رکھنی چاہئے اور اچھی کارکردگی پر انعام اوراکرام اورترقی دے کران کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے، صوبہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نے اس طرف پہلاقدم اٹھایا ہے، اللہ کرے کہ وہ اس جانب مزید پیش رفت کرے اور پورے ملک کےلئے قابل تقلید نمونہ بن جائے۔وماذلک علی اللہ بعزیز۔

 

5۔ مذہبی تعلیم:

تعلیم وتربیت کے فقدان کے تدارک کے لئے ایک اہم بات جوہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچانے کےلئے تیر بہدف ثابت ہوسکتی ہے، وہ اسکولوں، کالجوں اورجامعات میں مذہبی تعلیم اوراقدار کوفروغ دینا ہے، ہمارا مذہب، اسلام نام ہی تعلیم وتربیت کا ہے، لہذاجب تک مذہبی لٹریچر کو نصاب کا اہم جزء نہ بنایا جائے اور نوجوانوں کو اپنے اسلا ف کی تعلیمی اور تربیتی کارناموں سے روشناس نہ کرایا جائے، توقوم کے یہ معمار اسی طرح بھٹکتے رہیں گے، وہ مسلمان جو غیر اسلامی ممالک میں رہائش پذیر ہیں اپنی اولاد کو بے راہ وروی سے بچانے کےلئے مذہب کا سہارالیتےہیں جوکہ سو فیصد کامیاب تجربہ ہے۔

 

6۔ تعلیمی اداروں میں مروّجہ سیاست پر پابندی:

ایک اہم کام جو میری رائے میں تعلیمی اور تربیتی فقدان کی راہ میں سدِّ سکندری بن سکتاہے وہ طلبہ کی مروّجہ سیاست پر تعلیمی اداروں میں پابندی لگانا ہے، یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ ہمارے بہت سی مشہو رجامعات علاقائی، لسانی، مذہبی سیاست اور پارٹی بازی کی وجہ سے علمی معیار برقرار نہیں رکھ سکیں اورطلبہ کاایک دوسرےکے خلاف ہنگامہ آرائی کرنا، ان کو جامعات میں مارناپیٹنا اوریہاں تک کہ قتل وقتال تک نوبت پہنچنا اسی سیا ست کی کارستانیاں ہیں، طلبہ کے عالمِ شباب کا قیمتی وقت اس کی نظر ہوکر برباد ہوجاتا ہے۔بعض جامعات کے منتظمین نے طلبہ کی سیاست پر پابندی لگادی ہے ۔حکومت اگر بلاتفریق اس پر پابندی لگادے تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔واللہ ولیّ التوفیق۔

حواشی وحوالہ جات

1 البقرۃ 187: 2

 

2 النساء 166: 4

 

3 النحل 19: 16

 

4اساتذہ کی کمیٹی، نگرانی ڈاکٹر صلاح الدین الھواری، المعجم الوسیط، دارالبحاربیروت، طبع اول، 2007ء، ص1134

 

5 النساء113: 4

 

6 البقرۃ129: 2

 

7 الزّبیدی، أبوالفیض محمد بن محمد بن عبدالرّزاق، تاج العروس، دارالھدایۃ، سطن، ج1، ص506

 

8 بلیاوی، ابوالفضل مولانا عبدالحفیظ، مصباح اللغات، المیزان لاہور، 2004ء، ص 272

 

9 بنی اسرائیل24: 17

 

10 البقرۃ129: 2

 

11 آ ٓل عمران164: 3

 

12 ابن ماجۃ، القزوینی، أبوعبداللہ محمدبن یزید، سنن ابن ماجہ، دارإحیاءالکتب العربیۃ بیروت، سطن، ج1ص83

 

13 البیھقی، ابوبکر أحمدبن حسین بن علی، السنن الکبریٰ، دارالکتب العلمیّۃ بیروت، طبع سوم، 1424ھ؍2003ء، ج10۔ص323

 

14 النساء113: 4

 

15 المتقی، الہندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، طبع پنجم، 1401ھ؍1981ء، ج11، ص406

 

16 العلق5: 96-1

 

17 الدارمی، ابومحمد، عبداللہ بن عبدالرحمٰن، سنن الدارمي، دارالمغنی للنشروالتوزیع السعودیۃ، طبع اول، 1412ھ؍، ج1، ص298

 

18 بخاری، ابوعبداللہ، محمدبن اسماعیل بن مغیرہ، صحيح البخاري، دارطوق النجاۃ، بیروت، طبع اوّل، 1422ھ، ج1، ص31

 

19 التحریم6: 66

 

20 صحیح البخاری، ج2، ص5

 

21 الطبرانی، ابولقاسم، سلیمان بن احمدبن ایوب، الدعاءللطبرانی، دارالکتب العلمیۃبیروت، طبع اول، 1413ھ، ج1، ص319

 

22 حاکم، ابوعبداللہ، محمدبن عبداللہ بن محمد، المستدرك على الصحيحين، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، طبع اول، 1411ھ؍1990ءج2، ص152

 

23 صحیح البخاری، ج۱، ص25۔

 

24 ابن عبدالبر، أبوعمر، ہوسف بن عبدللہ بن محمد، جامع بیان العلم وفضلہ، دار إبن الجوزی السعودیۃ، طبع اول، 1414ھ؍1994ء، ج1، ص578۔

 

25 ابراہیم4: 14

 

26 أبو الحسن، خیثمۃ بن سلیمان، من حدیث خیثمۃ بن سلیمان، دارالکتاب العربی لبنان، 1400ھ؍1980ءج1، ص57۔

 

27 امام مسلم، القشیری، ابوالحسین مسلم بن حجاج النیسابوری، صحيح مسلم، داراحیا التراث العربی بیروت، سطن، ج1، ص72۔

 

28 أحمد بن إبراہیم بن مصطفیٰ الھاشمی، السحرالحلال فی الحکم والأمثال، دار الکتب العلمیۃ بیروت، سطن، ج1، ص10۔

 

29 النساء58: 4

 

30 أبوداؤد، سلیمان بن اشعث، السجستاني، سنن أبی داؤ، المکتبۃ العصریّۃ بیروت، سطن، ج3، ص290۔

 

31 صحیح البخاری، ج2، ص5۔

 

32 صحیح مسلم، ج1، ص99۔

 

33 البزّار، أبوبکر أحمد بن عمروبن عبدالخالق، مسندالبزّار المنشورباسم البحرالذخّار، مکتبۃ العلوم والحکم المدینۃ المنوّرۃ، طبع اول، سطن، ج3، ص274

 

34 سنن إبن ماجہ، ج۲، ص۷۸۴

 

35صحیح مسلم، ج3، ص1680، دار احیاءالتراث العربی، بیروت۔

 

36الجامع الصحیح سنن الترمذي، ج4، ص551۔

 

37 التحریم6: 66

 

38ابن ماجۃ، القزوینی، أبوعبداللہ محمدبن یزید، سنن ابن ماجہ، دارإحیاءالکتب العربیۃ بیروت، سطن، ج1ص83۔

 

39 البیھقی، ابوبکر أحمدبن حسین بن علی، السنن الکبریٰ، دارالکتب العلمیّۃ، بیروت، طبع سوم، 1424ھ؍2003ء، ج10۔ص323۔

 

40 امام مسلم، القشیری، ابوالحسین مسلم بن حجاج النیسابوری، صحيح مسلم، داراحیا التراث العربی بیروت، سطن، ج1، ص74۔

 

41الجامع الصحیح سنن الترمذي، ج4، ص652۔

 

42 النور19: 24

 

43أبومنصور الثعالبی، عبدالملک بن محمد بن اسماعیل، التثمیل والمحاضرۃ، الدارالعربیۃ للکتاب بیروت، طبع دوم، 1401ھ؍1981ءج1، ص131۔

 

44بہاءالدین الھمذانی، محمد بن حسین بن عبد الصمد، الکشکول، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1408ھ؍1998ء، ج1، ص246۔

 

45أبوداؤد، سلیمان بن اشعث، السجستاني، سنن أبی داؤ، المکتبۃ العصریۃ بیروت، سطن، ج1، ص85۔

 

46صحيح البخاري، ج1، ص31۔

 

47سورۃ النساء58: 4

 

48مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، مکتبہ معارف القرآن کراچی، 1429ھ؍2008ءج2، ص264۔

 

49البیھقی، ابوبکرأحمدبن حسین بن علی، السنن الکبریٰ، دارالکتب العلمیّۃ بیروت، طبع سوم، 1424ھ؍2003ء، ج10۔ص201۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...