Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

کوئٹہ کے مراکز افتاء اور ان کی کارکردگی |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060029185_1278

Pages

03-15

DOI

10.51411/rahat.3.2.2019.71

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/71/368

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/71

Subjects

Sharia Islamic Law Maddaris Muftees Fatawahs Verdict Ifta Sharia Islamic Law Maddaris Muftees Fatawahs Verdict Ifta

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

In Sharia (Islamic Law), the interpretation of any law to solve an issue or problem with a logical verdict, of an individual in society or state, is called Fatwahs. Fatwahs are issued from the religious institutions, called “Marakiz e Ifta”. While the “Muftees” are considered the sole authority to disperse and verdict for all issues in an Islamic society or state. Without the interpretation of Muftees, the solution for all issues in an Islamic society is impossible. No individual can deny the importance of “Fiqh” and “Fatwahs” in Islamic society. These religious practices and services of Muftees with Fiqah, have been existing since its origin. In the same way, such services and practices are present in Quetta city as in the other regions of Pakistan. In this study, the researcher has analyzed the following aspects such as: Muftees, their religious Fatawahs and Maddaris, their establishment, services and practices regarding these Fatawahs and its characteristics, the merit of an issue for a verdict and the importance of these Fatawahs on official level. The objectives of this study are the analysis of the services of Muftees and Maddaris of Quetta. That the Muftees and Maddaris have practiced and served the general public as in the other regions of Pakistan. The research site for this study was Quetta city. The research toll was interview technique while the respondents or participants for this study were religious Schalors. Data was collected and analyzed by the researcher. This study comes within the qualitative research paradigm.

اصطلاح ِ شرع میں پیش آمدہ واقعات کےبارےمیں دلیل ِ شرعی کےذریعےحکم ِ الہی بتانےکا نام فتویٰ ہےاور جن اداروں سےفتاویٰ جاری کیےجاتےہیں انہیں دارالافتاءکےنام سےموسوم کیا جاتا ہے،ہر مسلمان اپنے شرعی مسائل میں مفتی کا محتاج ہےبغیر اس کی کدو کاوش ،تحقیق وجواب ،مسئلہ کا حل آسان نہیں ہے۔کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہےکہ مجھے اپنی زندگی میں کسی مرحلہ پر کوئی ایساسوال پیش نہیں آیاجس میں فقہ وفتاویٰ کی طرف رجوع کی ضرورت نہیں پڑی،مفتیان ِ کرام کی جماعت جن کوفقہ سےمناسبت تامہ ہوتی ہےہرزمانہ میں پائی گئی،اورعوام وخواص ہرایک کا اس جماعت کی طرف رجوع عام رہا،اوریہ اپنےعلمی رسوخ اورخداداد صلاحیت کی وجہ سےاس کام میں ممتاز اورنمایاں رہی اوراسےرات دن اسی کام کےساتھاشتغال رہا،مملکت خداددادپاکستان کےدیگر گوشوں کی طرح کوئٹہ بھی دارالافتاؤں کی اسی ثروت سےمالامال ہے،چنانچہ زیرنظرتحقیقی موضوع میں کوئٹہ کےممتازومایہ نازدارالافتاء اور مفتیان کرام کی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیاہے،کوئٹہ میں مراکز ِ افتاءکی تاریخ و قیام پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے، کوئٹہ کےمطبوعہ وغیرمطبوعہ فتاویٰ جات کی خصوصیات،ہر دار الافتاءکا طریقہ کار ،تخصص فی الافتاءمیں داخلےکی شرائط و نصاب ِ تخصص مفتیان کرام کو درپیش مشکلات اور سرکاری سطح پر ان فتاویٰ جات کی حیثیت ،اس مقالےمیں ان تمام امور کو زیر بحث لایاگیاہے،اس تحقیق کا مقصد کوئٹہ کےمراکز ِ افتاءکی خدمات کا جائزہ لینا ہےکہ فقہی میدان میں ان مراکز نےملک کےدیگر مراکز افتاءکی طرح عوام الناس کی بھرپور راہنمائی کی ہے۔

 

کوئٹہ کاپرانانام شال کوٹ تھا،آئین اکبری اوردیگرمشہورتواریخ میں اسی نام سے جاناجاتاہےمگرتحقیق اورجستجوکی بات یہ ہے کہ کوئٹہ کوشال یاشال کوٹ کیوں کہاگیااورپھرشال سے کوئٹہ کیسے بنا؟تاریخ بلوچستان میں مرقوم ہےکہ:

 

”احمدشاہ ابدالی سدوزئی درانی بادشاہ قندہارعوض خدمات میرنصیرخان کلاں بمقدمہ جنگ ہمراہ علی مردان خان مغل حاکم نصیر خان بذات خود زخمی ہوا تھا۔علاقہ کوٹ کاوالدہ میرنصیرخان کوپیش گاہ بادشاہ موصوف سےبطورخلعت کےملاتھادستورہے کہ عورتوں کوجوبادشاہ یاامیرخلعت دےان کوبلوچی میں سری،ہندی میں چادراورپشتومیں شال کہاجاتاہے۔چونکہ علاقہ ھذاوالدہ شریفہ میرنصیر خان کوعطاء ہواتھا۔اس واسطے اس کانام شال مشہورہوا۔تب سے شال کوٹ کہلانے لگا“۔[1]

 

کوئٹہ قدیم شہر ہے جس کے وجود کا ثبوت چھٹی صدی عیسوی سے ملتا ہے،اس وقت یہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حصہ تھا، ساتویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو یہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کی فتوحات میں کوئٹہ کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد ایک خیال کے مطابق کانسی قبیلہ کے افراد نے تخت سلیمان سے آکر کوئٹہ میں بڑی تعداد میں سکونت اختیار کی۔[2]

 

1543ء میں مغل شہنشاہ ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کرایران کی طرف فرار ہو رہا تھا تو یہاں کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے بیٹے اکبر کو یہیں چھوڑ گیا جو دو سال تک یہیں رہا۔ 1556ء تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا جس کے بعد ایرانی سلطنت کا حصہ بنا۔ 1595ء میں دوبارہ شہنشاہ اکبر نے کوئٹہ کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ 1730ء کے بعد یہ ریاست قلات میں شامل رہا۔ 1828ء میں ایک یورپی مسافر کے مطابق کوئٹہ کے اردگرد مٹی کی ایک بڑی دیوار تھی جس نے اسے ایک قلعہ کی شکل دے دی تھی اور اس میں تقریباً تین سو گھر آباد تھے۔ 1828ء اور اس کے بعد کوئٹہ کا جائزہ لینے کیلئے کئی انگریز مسافر کوئٹہ آئے جن کا مقصد انگریزوں کو معلومات مہیا کرنا تھا۔ 1839ء کی پہلی برطانوی و افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پر قبضہ کر لیا۔ 1876ء میں اسے باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا اور رابرٹ گروو سنڈیمن کو یہاں کا نمائندۂ سیاسی (پولیٹیکل ایجنٹ) مقرر کیا گیا۔ اس دوران بلوچ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ انگریزوں نے کوئٹہ کو ایک فوجی اڈا میں تبدیل کر دیا چنانچہ اس دور میں کوئٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا جو 1935ء کے مشہور زلزلہ تک جاری رہا۔[3]

 

بعدازیں موضوع کی مناسبت سےہم کچھ لفظ افتاء کاجائزہ لیتے ہیں، افتاءعربی زبان میں لفظ افتاء اورفتوی(فاء کے فتحہ اورضمہ کے ساتھ مگرصحیح فتحہ کے ساتھ ہے۔)تین ادوار سے گزراہے۔

 

اوّلامحض کسی بھی سوال کاجواب دینے کیلئے استعمال ہوتاتھا،خواہ اس کا تعلق فقہ اورشریعت سے ہو یاعام معمولات سےہو۔ جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہے:

 

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ اَفْتِنَا فِيْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۔[4]

 

ترجمہ:یوسف !اےبڑےسچے(یوسف )ہمیں اس خواب کی تعبیر بتائیے کہ سات موٹی گایوں کوسات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز ہیں اور سات خشک ۔

 

سور ہ یوسف کے ایک اورمقام پرارشادہے:

 

يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ۔[5]

 

ترجمہ:اے سردارو! اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔

 

ثانیاًیہ لفظ محدود ہوکرمحض مسئلہ شرعیہ اورحکم شرعی کیلئے مستعمل ہونے لگا۔جیسا کہ ارشادخداوندی ہے:

 

يَسْتَـفْتُوْنَكَ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ ۔[6]

 

ترجمہ:(اے پیغمبر) لوگ تم سے (کلالہ کے بارے میں) حکم (خدا) دریافت کرتے ہیں۔

 

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی یہ لفظ شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے استعمال کیاگیاہے۔جیساکہ دارمی کی حدیث ہے:

 

اجرءکم علی الفتیااجرء کم علی النار۔[7]

 

ترجمہ:تم میں سے جوفتوی پرجراءت کرنے والاہے وہ آگ پرجراءت کرنے والاہے۔

 

بالاخیریہ لفظ”فتوی“ محض فقہی مسئلہ کیلئے مختص ہوااورآج کل فتوی سے مرادفقہی مسئلہ کاحل بتانا ہے،فتوی کے اصطلاحی معنی ومفہوم کے بارے میں علامہ مناوی تحریرفرماتے ہیں:

 

الافتاء بیان حکم المسئلۃ،قال الکشاف:الفتوی الجواب فی الحادثۃ۔[8]

 

ترجمہ:کسی مسئلہ کےحکم بیان کرنےکوافتاء کہتے ہیں۔صاحبِ کشاف کہتے ہیں کہ کسی واقعہ کے متعلق جواب دینے کا نام

 

فتویٰ ہے۔

 

صاحب مصباح لکھتے ہیں:

 

الاخباربحکم اللہ تعالی عن مسئلۃ دینیۃ بمقتضی الادلۃ الشرعیۃ لمن سئل عنہ فی امرنازل علی جھۃ العموم والشمول،لاعلی وجہ الالزام۔[9]

 

ترجمہ:پیش آمدہ واقعات کےبارےمیں دریافت کرنےوالےکودلیلِ شرعی کےذریعےاللہ تعالیٰ کےحکم کےبارے میں خبر دینے کو فتویٰ کہتے ہیں ۔

 

کوئٹہ کے باسیوں کیلئے یہ بات بصدشکر ، قابل ِ فخرہےکہ الحمد للہ، اللہ تعالی نے کوئٹہ کوعلمی اورفقہی اختصاص کےاعتبارسے خصوصابلوچستان اورعموماپاکستان کےبہت سارےشہروں پرفوقیت دےرکھی ہے۔کوئٹہ کےمراکزِافتاء کی طرف پاکستان کے علاوہ افغانستان اورایران کے طلبہ بھی رخ کرکے اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں،کراچی کے بڑے مدارس کواللہ تعالی قائم ودائم رکھے اوراللہ تعالیٰ انہیں دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے،کہ جب سے ہمارے بلوچستان کے طلبہ نے ان اداروں کارخ کیاہےاس وقت سے کوئٹہ میں مدارس کے ساتھ دارالافتاء کارجحان بڑھنے لگاہے،چونکہ یہ نئے فضلاء ان بڑے اداروں سے تخصص فی الفقہ کرکے افتاء کے معاملے میں اعلی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں اس لیے ان کی دلی چاہت ہوتی ہے کہ کوئٹہ کے قدیم دارالافتاؤں میں اعلیٰ فقہی نہج پرکا م کریں یااگران کی استطاعت ہوتواپناکوئی ادارہ کھول کر اس دینی اورفقہی خدمات کوسرانجام دیں۔آج کل اللہ تعالیٰ کافضل وکرم ہے کہ کوئٹہ کے دارالافتاء قدیم مسائل کےساتھ ساتھ جدیدعصری مسائل اوردرپیش چیلنجزکابہت ہی معیاری طریقے سے مقابلہ کررہے ہیں، ویسے توکوئٹہ میں فتویٰ کاکام مختلف نوعیت سے انجام دیا جارہاہے البتہ مشہورمراکزِ افتاءکی مختصرسی روداد حسب ذیل ہے:

 

دارالافتاءجامع مسجد بلوچی سٹریٹ اور مدرسہ مظہر العلوم شالدرہ:

مدرسہ کے بانی و مہتمم مولانا عبد الغفورؒ لہڑی تھے جو 1912ء میں کوئٹہ کے علاقے بلوچی سٹریٹ (بستی اللہ بخش)میں پیدا ہوئے،دینی تعلیم سے فراغت کے بعد 1938ء میں آپؒ نے بلوچی سٹریٹ میں مظہر العلوم کے نام سے مدرسے کی بنیاد رکھی اور بعد میں شالدرہ کے علاقے میں زمین حاصل کرکے پشتو زبان میں درس وتدریس کا پہلا دینی وعلمی تحقیقی ادارہ قائم کیا۔ جہاں نہ صرف بلوچستان بلکہ افغانستان کے لاتعداد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہر سال کثیر تعداد میں فارغ التحصیل ہوتے ہیں ۔1993ء سے 2012ء کے ریکارڈ کے مطابق اس ادارے سے فارغ التحصیل علماء کی تعداد دو ہزار تین سو سے زائد ہے جو ملک اور قوم کی دینی و علمی تربیت کر رہے ہیں اور تقریباً پانچ سو حفاظ کرام قوم کی دینی خدمات میں مصروف ہیں۔مولانا عبد الغفور ؒ 16 اکتوبر 1997ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔مولانا صاحب کے بڑے فرزندحافظ عبد الواحد اب مسجد و مدرسہ کے مہتمم ہیں،اس مدرسے میں دارالا فتاء کاکام پہلے کی بنسبت زبانی حد تک محدودہوکررہ گیاہے۔

 

دارالافتاءمدرسہ مطلع العلوم بروری روڈ کوئٹہ :

مولانا عرض محمد ؒ جو دیوبند سے فارغ التحصیل تھے ۔انہوں نے 1942ء میں بروری روڈ پر مدرسہ مطلع العلوم کے نام سے ادارہ قائم کیا۔مدرسہ میں طلباء کی بہت بڑی تعدادباہرسےآکرتعلیم حاصل کرتی ہےجن کیلئے رہائش کا بندبست کیا گیا ہے۔ان کے صاحبزادےسابق سنیٹر حافظ حسین احمدکےزیر نگرانی مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے،جامعہ مظہرالعلوم کی طرح اس قدیم جامعہ میں بھی افتاء کاسلسلہ سرد مہری کاشکارہوکرماندپڑگیاہے۔

 

دارالافتاء والرشادچمن پھاٹک کوئٹہ:

ضلع کوئٹہ کے قدیم اور معروف دینی ادارے جامعہ دار الافتا ء والرشاد چمن پھاٹک کا شمار اس وقت ملک کے چند نمایاں دینی مدارس میں ہوتا ہے ۔بانی جامعہ مولانا عبد العزیز ؒ مرکز رشدو ہدایت دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد 1944 ء میں کوئٹہ میں تشریف لائےاور1953ء میں آپ ؒ نے دار الإفتاء والرشاد کا سنگ بنیاد رکھا ،اس عرصے میں آپؒ بطور رئیس دار الإفتاء کام کرتے رہے اور مختلف موضوعات پر فتاویٰ جات صادر فرمائے جن میں جسٹس عبد الغنی کے سوالات کے جوابات بھی شامل ہیں ۔جنہوں نے آپ ؒ سے شرعی راہنمائی طلب کی کہ عوام ِ بلوچستان کونسا طرز حکومت چاہتی ہے ، جرگہ سسٹم ، شرعی نظام یا 1936ء کا ایکٹ ؟یہ ایک مفصل فتوی ہے جوکہ اس مدرسے کے مفتیانِ کرام اورعلماء عظام نے مرتب کیااس فتوی میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ رائے صادرفرمائی گئی تھی کہ بلوچستان کے عوام دینداراوردین پرست ہونے کی وجہ سے اسلامی نظام کے علاوہ کسی اورنظام پرراضی نہیں ۔[10]

 

مولانا عبد العزیز ؒ کی وفات کے بعد منصب ِ فتویٰ کی ذمہ داری آپ ؒ کے بڑے بیٹے ڈاکٹر جمیل الرحمان نے سنبھالی ،اس دوران جامعہ کے دیگر مفتیان ِ کرام میں مولانا نور حبیب اور مولوی سراج الدین شامل تھے۔ 1978ء تا 1994ء ڈاکٹر عبد اللطیف جامعہ کے مہتمم رہے جبکہ مولانا نور حبیب بطور ِ رئیس دار الإفتاء اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے دیگر رفقاء کار میں مولوی آغا محمد اور مولانا تاج محمد شامل تھے۔ 1995ء سے لیکرتاحال ڈاکٹر عطاء الرحمان جامعہ کے مہتمم ہیں جبکہ رئیس دار الإفتاء میں بالترتیب مولانا نور حبیب اور مولانا تاج محمدکے اسمائے گرامی شامل ہیں،اب دار الافتاء کا شعبہ موجودہ رئیس دار الإفتاء مولانا تاج محمد کے زیر نگرانی کام کر رہا ہے، جو اپنی ضعیف العمری کے باوجود اس منصب جلیلہ پر فائز ہیں۔جامعہ کے دار الا فتاء سے ہر سال میراث کے متعلق تقریباً 400 فتاویٰ جات جاری کیے جاتے ہیں جن کو باقاعدہ سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ اب تک تقریباً اٹھائیس ہزار فتوے جاری کیے جا چکے ہیں جن میں سے کچھ کا ریکارڈ دار الإفتاء کے رجسٹروں میں محفوظ ہے۔[11]

 

دارالافتاء جامعہ تجویدا لقرآن کوئٹہ:

جامعہ تجویدالقرآن کاشمارکوئٹہ کے اہم اوربڑے جامعات میں ہوتاہے۔جامعہ کے بانی ومہتمم قاری غلام نبیؒ بڑے خدا ترس عالم تھے،جیدعلماء کرام سے اکتساب ِعلم کے بعداپنےاستاذمحترم قاری عبدالمالک کی نشت پرعلوم دینیہ کی خدمت کرتے رہے،پھر مولاناعبداللہ درخواستیؒ کےارشاد پرکوئٹہ تشریف لاکر1960ءمیں مدرسہ تجویدالقرآن کی بنیادڈالی ۔1981ءکواس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔اس وقت جامعہ کے اہتمام کی ذمہ داری قاری مہراللہ سرانجام دے رہے ہیں۔[12]

 

جامعہ میں دیگرشعبہ جات کے ساتھ ساتھ درالافتاءسے بھی عوام الناس کی فقہی مسائل میں رہنمائی کی جاتی رہی ہے، دارالافتاء کےتوسط سےجامعہ کے شعبہ نشرواشاعت کی طرف سے عوام الناس کی تحریری اورتقریری ہعطرح سےرہنمائی کی جاتی ہے،چنانچہ اس سلسلےمیں ایک اہم خدمت کوئٹہ اوراس کے مضافات کیلئے پنج وقتہ دائمی نقشہ اوقات نماز کامرتب کرناہےاس کے علاوہ نقشہ سحر وافطار،مسائل نماز،مسائل قربانی،مسائل رمضان،مسائل زکوۃ اورعقائد اسلامیہ پرمشتمل (دروس العقائد)شامل ہیں ،یہ فقہی کتب ورسائل وقتافوقتامفت تقسیم کئے جاتے ہیں،مستقبل میں جامعہ کی انتظامیہ اس بات کیلئے پرعزم ہے کہ مستقل طورپر ایک جریدہ جاری کرے تاکہ اس میں عوام کوپیش آمدہ خاص کرجدیدمسائل سے آگاہی ہو۔

 

دار الافتاء جامعہ رشیدیہ کوئٹہ:

بانی جامعہ مولانا محمد یعقوب شرودیؒ کی ولادت 1930ء میں بلوچستان کےضلع دالبندین میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعددورہ حدیث کیلئے دار العلوم دیو بند تشریف لے گئے ،جہاں آپ دورہ حدیث کے سالانہ امتحان میں پورے دارالعلوم میں اول آئے [13]۔آپ کے فرزندارجمندحافظ حسین احمدشرودی صاحب اپنے والدمحترم کی فقہی خدمات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

”آج کل(ستمبر1996ء)حضرت مولاناصاحب جامعہ رشیدیہ کوئٹہ کے شعبہ تخصص فی الفقہ میں نوجوان فضلاء کی علمی تربیت فرمانےکےساتھ ساتھ فتویٰ لکھنےاورفصل خصومات میں فریقین کی طرف اختیارتفویض کرنےپرشرعی فیصلےدینےکی دینی خدما ت پربجاطورپر مامورہیں،پورے صوبے کے اطراف واکناف سے لوگ اس دارالقضاء میں پہنچ کر اپنے اپنے مقدمات بڑی آسانی سے حل کراتے ہیں“۔[14]

 

دارالافتاء اوردارالقضاء کی یہ خدمات حضرتؒ کی زندگی میں تھی اب صورت حال یہ ہے کہ یہ ادارہ محض زبانی سوال وجواب تک محدودہوکررہ گیاہے۔

 

جامعہ دارالعلوم رحیمیہ نیلا گنبد سرکی روڈ کوئٹہ :

یہ درسگاہ کوئٹہ شہر کے وسط اور گنجان آباد علاقے میں قائم ہے ۔جہاں علوم عربیہ کی تمام کتب بشمول دورہ حدیث کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور تخصص فی الفقہ والقضاء الشرعیہ کا شعبہ بھی قائم ہے ۔اس کے علاوہ شعبہ تصنیف وتالیف بھی قائم ہے۔نیز دار الافتاء اور دار القضاء کاباقاعدہ انتظام ہے،اس دارالافتاء کی ایک اہم پیشرفت اپنے فتاویٰ جات کویکجاکرکے اسے ”کتاب الفتاویٰ “کے نام سے شائع کراناہے، فتاویٰ کےمؤلف مفتی گل حسن نےدیگردینی علوم سے فراغت کے بعد دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی محمد رفیع عثمانی کے زیر نگرانی تین ماہ کاقاضی کا کورس مکمل کیا،1988ءسےتاحال اسی درسگاہ سے بطوررئیس دارالافتاء رشتہ قائم رکھا ہے۔

 

آپ کی مجموعہ فتاوی ٰ ”کتاب الفتاویٰ“ اپنی تفصیل و تکمیل کے لحاظ سے بلوچستان میں پہلا فتاویٰ ہے۔ چار جلدوں کا یہ فتاویٰ سترہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل تیرہ سو تینتیس مسائل کا مجموعہ ہے۔ یہ دین کے تمام شعبوں کو محیط اور خصوصاً دور جدید کے مسائل کے حوالے سے اہل علم و عامة المسلمین کیلئے مفید فقہی معلومات کا ذخیرہ ہے۔

 

جامعہ دارالعلوم ربانیہ چمن ہاؤسنگ کوئٹہ:

ژوب کے ممتاز عالمِ دین مفتی روزی خان نے 2000ء میں جی۔او۔آر کالونی چمن ہاؤسنگ میں اس مدرسے کی بنیاد رکھی، ابتداء میں شعبہ حفظ وناظرہ کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ دارالافتاءاور شعبہ تخصص فی الفقہ کا اجراء 2003ء میں ہوا جہاں سے اب تک 160مفتیان کرام 15000فتاوی ٰحل کرکےسند فراغت حاصل کر چکے ہیں ،ان میں مختلف النوع فتاوی ٰ ہیں۔اکثرفتاویٰ میراث اور طلاق سے متعلق ہیں،ان فتاویٰ کاباقاعدہ ریکارڈرکھاجاتاہ،بوقت حصولِ سہولیات اسے کتابی شکل میں لایاجائیگا،دارالافتاءکےناظم مفتی محمد نعیم ہیں،آپ کے ساتھ مفتی محمد اورمفتی عبد العلی نائب مفتیان کی حیثیت سےدرالافتاء کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔[15]

 

دارلافتاء جامعہ احسن العلوم سریاب روڈ:

بانی جامعہ مفتی عبد الباری کا اصل وطن ضلع قلات بلوچستان کا ایک نواحی علاقہ منگچر ہے،مفتی صاحب ایک جیداورمصلح عالم دین ہے،اکابرین علماء سے مشورہ کے بعدآپ نے کوئٹہ میں جامعہ احسن العلوم کی بنیاد 1998ءکومفتی نظام الدین شامزئی ؒکے ہاتھوں رکھی،یہ جامعہ آج نہ صرف دینی تعلیم کاکام کررہاہے بلکہ اپنی ضمن میں کئی دینی اورعصری شعبہ جات کاحامل ہیں۔اورمعاشرے پر اس کے بہت ہی مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔[16]

 

جامعہ کے تعارفی کتابچے میں دارالافتاء کے بارے میں کچھ یوں مرقوم ہے:

 

”دین اسلام کے مطابق زندگیاں گزارنے اورعوام الناس کے شرعی مسائل میں رہنمائی کرنے میں مشغول اس شعبے میں قدیم وجدیدمسائل پردقت نظرنئے مسائل کے حل کیلئےمؤثرعلمی وفقہی کاوشوں کومہمیزدی جاتی ہے۔فقہ المعاملات یعنی عوام کے جدیدمسائل کااورجزئیات کاعلمی بنیادوں پرتخریج وتحقیق بھی اسی کاحصہ ہے“۔[17]

 

جامعہ احسن العلوم کے عملی افتاء کاایک اہم شعبہ قضاء بھی ہے۔جوکہ آج کل کے قبائلی لاینحل مسائل کاواحدذریعہ ہے۔ اس شعبے کے بارے میں جامعہ کےتعارفی کتابچہ میں مرقوم ہے:

 

”نظام قضاء وتحکیم کی سہولیات فراہم کرنےوالاپاکستان کاواحدوہ دینی ادارہ ہےجس میں عملاقضاء وتحکیم سکھائی جاتی ہے۔

 

اور لوگوں کے لاینحل مسائل ثالثی کے ذریعے ایک دومجلس میں نمٹائے جاتے ہیں“۔[18]

 

دارالافتاء جامعہ تعلیم الاسلام مشن روڈکوئٹہ:

جامعہ تعلیم الاسلام زونکی رام روڈ کوئٹہ علوم ِ دینیہ کے میدان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے،اپنے قیام کے انتہائی قلیل

 

عرصے میں یہ اپنی کامیابیوں کا لوہا منوا چکا ہے ۔وفاق المدارس العربیہ کے تحت منعقدہ سالانہ امتحان میں صوبائی سطح پر متعدد پوزیشنز اپنے نام کر چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ ملتان کی جانب سے دو حسن کارکردگی ایوارڈ جامعہ کے حصے میں آ چکے ہیں ۔

 

اس جامعہ کے بانی مفتی عنایت اللہ ہیں، آپ نے جامعہ رشیدیہ سرکی روڈ سے 1999ء میں تخصص فی الفقہ (مفتی کورس) کیا، اس کے بعدآپ نے 2003ء میں اس مدرسے کی بنیاد رکھی،ابتدا میں یہاں حفظ و ناظرہ کی تعلیم دی جاتی تھی ،اب اس کے ساتھ ساتھ درس نظامی کی درجہ رابعہ تک تعلیم ہوتی ہے،مختلف درجوں میں 300 کے قریب طلباء تعلیم پا رہے ہیں ،رئیس دارالافتاء اورناظم تعلیمات مفتی ابرہیم خلیل ہیں، آپ کی لیاقت واستعدادکاثمرہ تھاکہ محبین ِ اسلام نےمسائل ِ دینیہ سے واقفیت حاصل کرنے کیلئے آپ کی طرف رجوع کیا،مفتی صاحب ان کے مسائل شریعت ِ مطہرہ کی روشنی میں حل فرماتے رہے،مرور ِ زمان کے ساتھ مستفتی حضرات کی تعدادبڑھ گئی، چنانچہ اس شدید ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے جامعہ میں باضابطہ طور پر2008میں دار الافتاء کا شعبہ قائم کیا گیا،جہاں مفتی ابراہیم خلیل ( فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی)کورئیس دارالافتاء مامورکیاگیا،ہرسال 10سے 12 طلبہ تخصص تقدیرجیدجدااور ممتازسےسندفراغت حاصل کرلیتے ہیں،جامعہ کے دار الافتاء سے اب تک مختلف موضوعات پر 6000 چھ ہزار فتوے جاری کیے جا چکے ہیں جن کا ریکارڈ درالافتاء کے رجسٹروں میں محفوظ ہے ،اس کے علاوہ دارالافتاء کے رئیس مفتی ابراہیم نے انفرادی لحاظ سے کچھ فتاوی جات کاترجمہ بھی اردوسے پشتومیں کیاہے جوکہ پشتوزبان والوں کے لئے نہایت عمدہ کام ہے۔ان مترجم فتاوی میں سے فتاوی دارالعلوم جلداوّل ،بدرالفتاوی،بمعہ تخریج وتبویب،مال حلال وحرام ،مسائل حج،مسائل اعتکاف۔[19]

 

دارالافتاءراحت القلوب وخانقاہ یعقوبیہ کوئٹہ:

جامعہ راحت القلوب وخانقاہ یعقوبیہ جمعیت روڈخلجی آبادسپنی روڈکوئٹہ میں واقع ہے۔جامعہ کےبانی ورئیس اوّل حضرت مولاناسیدعبدالاحدآغا ”دلیلی “عرف لالک آغاہے۔آپ 1939ء میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ سادات سید ھنی ؒ ابن سید محمد حمزہ گیسودرازؒ کی اولاد میں سے ہیں [20]۔آپ نے 1395ھ بمطابق 1974 /1975میں مناظر اسلام حضرت مولانا حمداللہ جانؒ سے جامعہ مظہر العلوم ڈاگی ضلع صوابی میں تفسیر قرآن کریم ومناظرہ پڑھا اور 1975ء ہی میں جامعہ اکوڑہ خٹک سے دورہ حدیث مکمل کیاہے[21]۔ اس وقت دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے شیوخ حدیث حضرت مولاناعبدالحقؒ اورحضرت شیخ مفتی محمدفریدؒ تھے۔

 

8ذی الحج 1428ھ بمطابق 8دسمبر 2007ء کو جامعہ راحت القلوب وخانقاہ یعقوبیہ کی داغ بیل ڈالی۔جامعہ کاقیام اس لئے عمل میں لائی گئی تاکہ علم ظاہر وباطن ، شریعت وطریقت کے تشنگان کے افادےکیلئےموقع ومقام فراہم کیاجائے، جامعہ میں کل 3 شعبے ہیں۔ شعبہ حفظ، شعبہ کتب، دارالافتاء۔یہ تمام شعبہ جات پروفیسرڈاکٹرمولاناسیدباچاآغاکے زیرانتظام بحسن خوبی چل رہے ہیں۔ اکثر بیرونی طلباء ہیں جو اسباق کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔رہائشی طلبہ کی تعدادتقریباً 50 تک ہیں۔جامعہ وفاق المدارس العربیہ ملتان سے الحاق ہونے کی بناء پر اسی کے طرز پر تمام نظام الاوقات مشتمل ہیں۔

 

جامعہ کے دارالافتاءسے سائلان امور شرعیہ کو فقہ حنفی کی روشنی میں فتویٰ بھی جاری کئے جاتے ہیں اور اب تک متعدد دقیق مسائل کے حل کیلئےمتفق علیہ فتویٰ جاری کئے گئے ہیں جنہیں بعد میں کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ہے، جامعہ کے دارالافتاء کارئیس اوّل سید مولاناعبدالاحد آغاہیں، مگرحضرت ضعیف العمری کی وجہ سے جامعہ کے مختلف امور سرانجام نہیں دے سکتے اس وجہ سے انہوں نے اپنے فرزند مفتی سید محمد رفیق آغاکو دارالافتاء کے امور حوالے کر دئے ہیں۔مفتی سید محمد رفیق آغا جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں اور جامعہ اشرف المدارس کراچی سے تخصص فی الافتاء کئے ہوئےہے،تاحال جامعہ سے سینکڑوں متفرق فتویٰ جاری ہو چکے ہیں، اکثرکاتعلق میراث سے ہیں اورتاحال غیرمرتب ہیں،مستقبل میں جامعہ کے انتظامیہ کااسے مطبوعہ شکل دینے کا ارادہ ہے۔

 

کوئٹہ کےمراکزافتاء کاطریقہ کار:

عموماکوئٹہ ہی نہیں بلکہ ملک بھرکے مراکزافتاء کاطریقہ کاراوراصول وضوابط یکساں ہیں،یہ اصول وضوابط اورطریقہ کارعمومامستندفقہاء کرام اورمفتیان عظام کی کتب سے اخدکئےگئےہیں،جیسےشرح عقودرسم المفتی،آداب فتوی نویسی،اصول الافتاء وآدابہ، المصباح فی رسم الافتاء اوردیگرمتداول کتب شامل ہیں،اس بارے میں مفتی محمد حنیف احمدرفیق دارالافتاء تجوید القرآن کوئٹہ تحریرفرماتے ہیں کہ:

 

”پہلی بات یہ ہے کہ مسئلہ کے حکم کی تلاش ان کتب سے شروع کی جائے جن کو مأخذ ،اصول اور أمہات کتب کی حیثیت حاصل ہےیا پھر کتب فن میں کسی خاص بنیاد پرایک خاص امتیاز حاصل ہو،مثال کے طور پرمبسوط سرخسی،فتاویٰ قاضی خان ،فتاویٰ بزازیہ،فتح القدیر،البحر الرائق، الھدایہ، رد المحتار وغیرہ جن کو فقہ حنفی میں اہم مراجع اور مأخذ کا مرتبہ حاصل ہے۔اور نقل مذہب میں کا فی معتمد ہیں،اسی طرح کسی فقہی مسئلہ کی تخریج کیلئے ان کتب سے حوالہ دینا اصول افتاء کے خلاف ہے کہ جن کتابوں کا موضوع ہی سرے سے فقہ نہیں، مثلاًفقہی مسئلہ کا حکم تفاسیر، احادیث یا سیرة وغیرہ پر لکھی گئی کتب سے تلاش کرنا۔تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ اسی مسئلہ سے متعلق ماہرین فن کے فتاویٰ ،مضامین اور تحقیقات وتحریرات دیکھ لی جائیں۔کیوں کہ مسئلہ کا حکم شرعی معلوم کرنےکیلئےاپنی حتیٰ المقدور کوشش کے باوجودعین ممکن ہے کہ اس میں کسی حوالہ سے خطا ہوچکی ہو، یا ہوسکتا ہے کہ کتب عربی میں جو حکم مذکور ہے عرف کی بنا ءپر اب فتویٰ اس کے خلاف ہو، یا وہ حکم ایسی قید سے مقید ہو جو دیکھنے والے کی نظر سے نہ گذری ہو،یا اس کے علاوہ تمام وہ اسباب جس کی وجہ سے حکم شرعی میں تبدیلی آسکتی ہے ان میں سے کوئی موجود ہو،اس حوالہ سے مسئلہ کو یقینی بتانےکیلئےضروری ہے کہ ماہرین فن کی طرف مراجعت کی جائے۔ان تین مراحل کے بعد مسئلہ کا جواب مکمل ہوجائے گااور جتنی احتیاط سے یہ مراحل طے کیے جائیں گے اتنا ہی جواب محتاط ہو گا، البتہ وہ مسائل جس میں حکم عدم جواز کا ہو اور اس کا کوئی شرعی حل بھی ہو تو ان مسائل کا اختتام مذکورہ تین مراحل پر نہیں ہوتا، بلکہ ایک چوتھا مرحلہ ہے ، جس سے اس طرح کے مسئلہ کی تکمیل ہوگی اور وہ یہی ہے کہ جب کسی مسئلہ کا شرائط و قیود کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ممکنہ شرعی حل موجود ہو تو اس کا ذکر کیا جائے، تاکہ قربِ قیامت کے اس مشکل دور میں امت سہولت کے ساتھ حرام سے بچتے ہوئے حلال اختیار کر سکے۔ اس کے بغیر جواب گو درست ہو، البتہ مکمل نہ کہلائے گا اور اس عدم ِتکمیل کو غیر درست ہونا بھی کہا جاسکتا ہے۔مثلاً فرض کریں کہ چند لوگوں کی ایک جماعت ایک بڑے پیمانے پر تجارت کرتی ہے اس میں بہت ساروں کے ان پر قرضے ہیں، ان کے دوسروں پر قرضے ہیں، بہت سارا سرمایہ لگا کر بہت سارا مال خرید ا گیا ہے، لیکن کسی بنا پر ان کی تجارت غیر شرعی ہے تو شرعی حل ہونے کے با وجود اب صرف اور صرف ان کو یہ کہہ دینا کہ یہ معاملہ غیر شرعی ہے، ایک غیر مکمل اور ناقص مسئلہ بتا نا ہے اور ان کو ایک بہت بڑی مشکل کے مقابلہ میں لا کھڑا کرنا ہے اور ان کیلئےدین کےمعاملہ میں عسر پیدا کرنا ہے۔ ضروری ہے کہ انہیں شرعی حل بتلانے کے ساتھ ساتھ اُن کو اُن کی تجارت کا جائز رُخ بھی بتا یا جائے۔اس کے بعدمقالہ نویسی کامرحلہ ہے،شعبہ تخصص فی الفقہ الاسلامی کاآخری مرحلہ مقالہ لکھنے کا ہوتاہے،جو کسی فقہی موضوع پر لکھوایا جا تاہے۔ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ کیا متخصص اس مقررہ مدت تک اس فن سے منسلک رہ کر اتنی صلاحیت کا حامل ہو چکاہے کہ کسی متعلقہ فن پر کوئی جامع ومانع تحریر یا مضمون لکھ سکے یا نہیں، جس کے نتیجہ میں اس پر اعتماد کرتے ہوئے آئندہ حلِ مسئلہ کی اجازت دی جا سکے۔ یعنی یہ مقالہ تخصص کے اس فن میں صاحبِ استعداد ہونے یا نہ ہونے کا معیار ہوتا ہے“۔[22]

 

یہ توافتاء اورطریقہ دارالافتاء کاعمومی طریقہ ہوگیاجوکہ اکثرمدارس اس طریقے پرکاربندنظرآتے ہیں مگراس کے علاہ بھی کچھ دارالافتاء کے رئیس صاحبان نے مزیدبعض چیزوں کااضافہ کیاہے جوکہ ان کے یہاں مروج ہیں ،مثلامدرسہ تعلیم القرآن زونکی رام روڈکوئٹہ کے دارالافتاء کاطورطریقہ بتاتے ہوئے رئیس دارالافتاء مفتی محمد ابراہیم خلیل فرماتے ہیں کہ:

 

”ہم اپنے تخصص کے دوسالہ نصاب میں دیگرسرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کچھ چیزوں پرخاص توجہ دیتے ہیں مثلا:میراث کی مشہورکتاب سراجی،اصول افتاء میں شرح عقودرسم المفتی،امدادالفتاوی ج3،قواعدالفقہ میں مشہورکتاب تاسیس النظر،مفتی محمدتقی کی مشہورکتاب اسلام اورجدیدمعیشت،بینکنگ کے مسائل،الاملاء والترقیم،اس کے ساتھ ساتھ سال اوّل کے طلبہ کیلئے کم ازکم 80 فتاویٰ اورسال دوئم کے طلبہ کیلئے کم ازکم 120فتاویٰ حل کرناضروری ہے“۔[23]

 

دارالافتاءدارالعلوم ربانیہ کے رئیس مفتی محمد نعیم اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ :

 

” ہمارے تخصص فی الفقہ کےدوسالہ نصاب میں دیگرضروری کتب اورسرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دواجزاء پرمشتمل ہونے کی وجہ سے بہت ہی قابل اہمیت ہے،پہلے حصے میں مطالعاتی کتب ہیں جوکہ ایک متخصص کیلئےہم نے لازمی قراردئے ہیں جس کاباقاعدہ جائزہ لیاجاتاہےاس حصے میں امدادالفتاوی،امدادالاحکام،الردالمحتار،فتاوی دارالعلوم دیوبندمذکورہ بالاکتب کانصف حصہ سال اوّل جبکہ دیگرنصف حصہ سال دوئم میں تدریجاًمطالعہ کروایاجاتاہے۔دوسراحصہ تدریسی کتب کاہےاس حصے میں شرح عقودرسم المفتی،المصباح، معین الحکام والقضاۃ،کمپیوٹرکتب بطورتدریس پڑھائے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں سال دوئم کے طلبہ کیلئے یہ بھی لازمی قراردیاگیاہے کہ وہ آخری سہ ماہی میں کسی نئے موضوع پرمقالہ(تھیسیز) تحریرکریں“۔[24]

 

جامعہ راحت القلوب کے ناظم الامور اپنے دارالافتاء کے طریقہ کارکومختصرطورپرکچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ:

 

”متخصص حضرات بوقت تحریراستفتاء فقہ حنفی کے بنیادی ماخذکوسامنے رکھ کرفتوی حل کرتے ہیں، اس کے بعدفتوی رئیس درالافتاءکے سامنے پیش کیاجاتاہے، اتفاق کی صورت میں وہ دستخط کے بعد رئیس اعلیٰ کو پیش کرکے مستفتی کے حوالہ کرتے ہیں“۔[25]

 

کوئٹہ کےمراکز ِ افتاءکی فقہی خدمات:

کوئٹہ کے مراکزافتاء کے مرتب کردہ فتاوی ٰجات یافقہی خدمات توزیادہ ہیں مگران میں نمایاں کام درج ذیل ہے:

 

کتاب الفتاویٰ :

کتاب الفتاوی (مولف مفتی گل حسن صاحب جامعہ رحیمیہ نیلاگنبد)اپنی تفصیل و تکمیل کے لحاظ سے بلوچستان میں پہلا فتاویٰ ہے۔ چار جلدوں کا یہ فتاویٰ سترہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل تیرہ سو تینتیس مسائل کا مجموعہ ہے۔یہ دین کے تمام شعبوں کو محیط اور خصوصاً دور جدید کے مسائل کے حوالے سے اہل علم و عامة المسلمین کیلئے مفید فقہی معلومات کا ذخیرہ ہے۔

 

دارالافتاءمدرسہ تعلیم الاسلام کی فقہی خدمات:

اس حوالے سے رئیس دارالافتاء مفتی ابراہیم خلیل فرماتے ہیں کہ:

 

”مدرسہ کے دار الافتاء سے اب تک مختلف موضوعات پر 6000 چھ ہزار فتوے جاری کیے جا چکے ہیں جن کا ریکارڈ درالافتاء کے رجسٹروں میں محفوظ ہے ،اس کے علاوہ دارالافتاء کے رئیس مفتی ابراہیم صاحب نے انفرادی لحاظ سے کچھ فتاوی جات کاترجمہ بھی اردوسے پشتوکی طرف کیاہے جوکہ پشتوزبان والوں کے لئے نہایت عمدہ کام ہے۔ان مترجم فتاوی میں سے فتاوی دارالعلوم جلداوّل، بدرالفتاوی،بمعہ تخریج وتبویب،مال حلال وحرام ،مسائل حج،مسائل اعتکاف“ ۔[26]

 

درالافتاء جامعہ تجویدالقرآن کی فقہی خدمات:

جامعہ میں دیگرشعبہ جات کےساتھ ساتھ دارالافتاءسے بھی عوام الناس کی فقہی مسائل میں رہنمائی کی جاتی رہی ہے، دارالافتاء کےتوسط سےجامعہ کے شعبہ نشرواشاعت کی طرف سے عوام الناس کی تحریری اورتقریرہرطرح کی رہنمائی کیاجاتی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں ایک اہم خدمت کوئٹہ اوراس کے مضافات کے لئے پنج وقتہ دائمی نقشہ اوقات نماز کامرتب کرناہےاس کے علاوہ نقشہ سحر وافطار،مسائل نماز،مسائل قربانی،مسائل رمضان،مسائل زکوۃ اورعقائد اسلامیہ پرمشتمل (دروس العقائد)شامل ہیں ،یہ فقہی کتب ورسائل وقتافوقتامفت تقسیم کئے جاتے ہیں،مستقبل میں جامعہ کی انتظامیہ اس بات کیلئےپرعزم ہے کہ مستقل طورپرایک جریدہ جاری کرے تاکہ اس میں عوام کوپیش آمدہ خاص کرجدیدمسائل سے آگاہی ہو۔

 

ثمینۃ الفتاوی اورحسینۃ الفتاوی:

جامعہ رشیدیہ کے دارالافتاء سےمولانایعقوب شرودیؒ کےقلم سےدوفتاویٰ شائع ہوچکےہیں،ایک ”ثمینۃ الفتاوی“ اور

 

دوسرا ”حسینۃ الفتاوی“کے نام سے موسوم ہے ان دونوں فتاویٰ کاطرزواندازایک ہی ہے،ہرایک فتاویٰ فقہی ابواب کےترتیب پر مرتب کیا گیا ہے۔ عقائدوغیرہ کابحث اس پر مستزاد ہے۔ ان فتاوی ٰکی ترتیب یہ ہے کہ کتاب العقائد سے شروع ہوکرکتاب الفرائض یا کتاب الدعویٰ پرختم ہوتے ہیں،ان میں ثمینۃ الفتاویٰ تین جلدوں پرمشتمل ہے مگرہرایک جلدکادوسری جلدکے ساتھ کوئی ربط نہیں کیونکہ ہرجلدکتاب العقائدسے شروع ہوکرکتاب الفرائض(میراث )پرختم ہوتی ہے،جوکہ کتاب کی مستقل بنفسہ ہونے کی دلیل ہے۔

 

حاصل بحث:

 

کوئٹہ کے مدارس دینیہ کی گوناگوں فقہی خدمات کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی عیاں ہو جاتی ہے کہ عوام الناس کی شرعی راہنمائی میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ مزید گزشتہ سالوں کی چندفقہی تصنیفات نے قابل ِ فخر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ البتہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ فقہاء ،مفتیانِ کرام اور قضاۃ کی تربیت وتیاری ،نیز مخصوص عباداتی اور ضروری فروعی مسائل پر تصنیف وتالیف اور مختلف مسالک پر مبنی فتاویٰ جات کی کثرت سے عصر جدید کے تقاضوں سے نبرد آزمائی ممکن نہیں ۔آج بنیادی طور پر مسلم سماج کو اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلکی،گروہی اور جماعتی تعصبات کے تنگ دائروں سے بالا تر ہو کر قدیم طرز ِ فکر کو چھوڑ کر عصر جدید کےمسائل اورتقاضوں کا ادراک کیا جائے۔نیز شروح وحواشی پر انحصار کرنے کی بجائے بنیادی مآخذ شریعت کی طرف مراجعت کی جائے ،تاکہ اجتماعی اجتہاد کی فضا ہموار ہو سکے اور آج کے جدید مسائل کا حل تلاش کرنے میں بھی آسانی ہو۔

حوالہ جات

  1. ہتورام، رائے بہادرلالہ، تاریخ بلوچستان، سیلزاینڈسروسز، کوئٹہ،1997ء،ص228
  2. کاسی، درمحمد، کوئٹہ اورکاسی، خان ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، کوئٹہ،2006ء،ص111
  3. کاسی، ارباب محمدعثمان، شال سے شال کوٹ، پائلٹ ایجوکیشنل پروڈکٹس، کوئٹہ،س ن،ص122
  4. الیوسف46:12
  5. الیوسف 43:12
  6. النساء176:4
  7. الدارمی التميمي السمرقندي، أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن، سنن دارمی، قدیمی کتب خانہ، کراچی،1412ھ، باب الفتیا ومافیہ من الشدۃ،ج1، ص157
  8. المناوی،محمد عبد الرؤف ،فیض القدیرعلی الجامع الصغیر،تحت رقم الحدیث183،مکتبہ المصطفی الباز،س ن،ج1،ص300
  9. الراشدی،محمد کمال الدین ،المصباح فی رسم المفتی،ماریہ اکیڈمی،کراچی،2007ء،ج1،ص16
  10. انٹرویو، ڈاکٹر عطاء الرحمان، بمقام جامعہ دارالرشاد، کوئٹہ،25 ستمبر2018ء بعد از نماز ِ مغرب
  11. ایضاً
  12. قاری مہر اللہ ،تعارفِ جامعہ،ماہنامہ صدائے تجوید،جامعہ تجویدالقرآن،کوئٹہ، جولائی2007ء،ص55
  13. شرودی، محمدیعقوب، مولانا، ثمینۃ الفتاویٰ، جامعہ رشیدیہ، کوئٹہ،ج1،ص3
  14. ایضاً
  15. انٹرویو ،مفتی نعیم ، ناظم تعلیمات ،جامعہ دارالعلوم ربانیہ،کوئٹہ،11ستمبر 2016 ء بعد از نماز ِ مغرب
  16. https://www.facebook.com/DarulSulook
  17. جامعہ عربیہ أحسن العلوم کاتعارف، جامعہ عربیہ أحسن العلوم، کوئٹہ،س ن، ص6
  18. ایضاً
  19. انٹرویو ،مفتی ابراہیم خلیل ناظم تعلیمات،جامعہ تعلیم الاسلام، مشن روڈ ، 23کوئٹہ ، ستمبر 2018ء بعد از نماز ِ ظہر
  20. محمد عبداللہ شاہ ، تذکرہ سادات،مکتبہ سید خیل،کوئٹہ ، 2009 ء،ص98
  21. صابر،غلام دستگیر،پروفیسر،قدیم وجدیدعلماء بلوچستان،راسکوہ ادبی دیوان،بلوچستان،2018ء،ص118-119
  22. محمدحنیف، مفتی، تخصص فی الفقہ الاسلامی،ماہنامہ الفاروق،جامعہ فاروقیہ، کراچی، شعبان 1437ھ، ص56
  23. انٹرویو ،مفتی ابراہیم خلیل ناظم تعلیمات،جامعہ تعلیم الاسلام، مشن روڈ ،کوئٹہ،23 ستمبر 2018ء بعد از نماز ِ ظہر
  24. انٹرویو ،مفتی نعیم ، ناظم تعلیمات ،جامعہ دارالعلوم ربانیہ، کوئٹہ،11ستمبر 2018ء بروزمنگل بعدازنمازعصر
  25. انٹرویو ،مفتی سیدمحمدرفیق آغا،مسئول دارالافتاءجامعہ راحت القلوب وخانقاہ یعقوبیہ،خلجی آبادسپنی روڈ،کوئٹہ،20 دسمبر2018ء
  26. انٹرویو ،مفتی ابراہیم خلیل، ناظم تعلیمات،جامعہ تعلیم الاسلام، مشن روڈ ،کوئٹہ،23ستمبر 2018ء بعد از نماز ِ ظہر
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...