Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

ہیومنزم کے نظریہ پر تنقید و تحقیق: اسلام کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029185_1288

Pages

104-131

DOI

10.51411/rahat.2.2.2018.38

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/38/335

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/38

Subjects

Humanism philosophy Islamic view human rights Humanism philosophy Islamic view human rights

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مغرب میں انسانی عقل کے ارتقاء سے جو انقلاب برپا ہوااس کے نتیجے میں مختلف نظریات جنم لیتے گئے. نئی دنیا کے نظریات میں سب سے اہم ہیومنزم کا نظریہ ہےجس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسانوں نے خود کو خود ہی بچانا ہے کسی خدا نے نہیں اور نہ کسی خدا کی ضرورت ہے۔ فطری طور پر ہی انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی عقل، سمجھ اور تجربے کی بنیاد پر اپنے اچھے برے کا فیصلہ کر سکتا ہے. ہیومنزم کا یہ عقیدہ آج مغرب کا نظریہ بن چکا ہے۔ اس نظریےمیں تمام فیصلے اپنی سمجھ، فہم، شعور اور عقل کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اپنے لئے بھی اور باقی انسانوں کے بارے میں بھی۔ وحی یا الہامی تعلیمات کا اس میں کوئی دخل نہیں ۔ انسانیت یا انسان پرستی کا بنیادی فلسفہ ہےکہ انسانوں کےدرمیان مذہب، نسل، رنگ، جغرافیہ اورمال وغیرہ کو اساس تفریق نہ بنایاجائے۔ بظاہر یہ فلسفہ بہت اچھا اورخوشنمالگتاہےلیکن اس کا اصل مقصد لوگوکو لادین بناناہے۔ ہیومنزم کے نظریہ پر تحقیق کے بعدمعلوم ہوا کہ اس نظریےمیں درج ذیل خامیاں ہیں۔

 

ہیومنزم اور خدا کے وجود کا انکار:

ہیومنزم نے اسلام کے بنیادی عقائد یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر حملہ کیا اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلائے۔ خدا کے وجود سے انکار کردیا گیا اور آخرت سے متعلق طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔ 1973 منشور میں کثرت کے ساتھ یہ لائنیں استعمال ہوئی۔

 

’’ کوئی معبود ہمیں نہیں بچا ئےگا ہم نے خود اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اور ہم ذمہ دار ہیں اس بات کے لیے کہ ہم کیا ہیں اور کیا ہونگے‘‘[1] انسان منشور دراصلHumanistsکےانسان اورتصورکائنات کےبارےمیں انکےاپنےاصول ہیں ۔تینوںمنشوروں کا مرکزی خیال اور خلاصہ یہ ہے [https: //translate. googleusercontent. com/translate_c?depth=1&hl=ur&prev=search&rurl=translate. google. com. pk&sl=en&u=https: //en. wikipedia. org/wiki/Philosophy&usg=ALkJrhgo248Mzf_4s4weE26uevzq8MgS9A فلسفہ] اور اقدار کی تفصیلات جس میں کوئی ذاتی خدا کا عقیدہ یا"اعلی طاقت‘‘ شامل نہیں ہے[2]۔

 

جبکہ قرآن کہتا ہے:

 

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ  [3]

 

ترجمہ: انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ذات ان کے شرک سے پاک ہے۔

 

جب کوئی انسان اللہ پاک کے حکم سے کسی دوسرے شخص کي اطاعت قبول کرتا ہے تب وہ شرک نہيں کہلاتا ہے – یعنی انبیاء اور رسول ﷺ کی اطاعت شرک نہیں ۔اس کے برعکس اگر يہی کام خدا کے حکم کے بغير ہو وہ اس خاص شخص کی اطاعت ہو گی جو کہ شرک ہے۔

 

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ[4]

 

ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا، جس کے پاس ہم نے وحی

 

نہ بھیجی ہو کہ میرے سوا کوئی الہ (معبود) نہیں، پس میرے ہی عبادت کیا کرو۔

 

اللہ تعالیٰ نے خود اپنی یکتائی پر گواہی دی ہے، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں اور اہل علم حضرات نے بھی اس امر کی گواہی دی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَ[5]

 

ترجمہ: اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔

 

خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔

 

نظریہ ارتقاء:

ارتقا (evolution) علم [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%AA حیاتیات] میں ایک نظریہ ہے جس کےمطابق تمام [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%AA جاندار] اجسام، ماضی میں رہنے والے کسی ایک ہی جدِ امجد یا مورث (ancestor) کی ترمیم شدہ اشکال ہیں۔ہیومنزم کے حامی نظریہ ارتقاء کو مانتے ہیں ۔ Huxley, Julian کہتا ہے کہ: ’’ہیومنزم ایک ایسا نقطہ نظرہے جوانسان کو اجتماعی اور ذاتی طور پر اپنے مستقبل کی خودتخلیق کرنے کے کی طاقت دیتا ہے‘‘۔[6]دوسرے الفاظ میں ارتقاء = مذہب. اورلوگ اپنے اصول اپنی مرضی سے بناتے ہیں نہ کہ خدا۔وہ لکھتا ہے کہ: ’’یہاں کوئی الگ مافوق الفطرت دائرہ نہیں ہے۔تمام مظاہر ارتقاء کے قدرتی عمل کا حصہ ہیں۔مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی شگاف نہیں ہے۔اور ہمارے مذہبی خیالات کے نمونہ دوبارہ تشکیل دینے کی اب سخت ضرورت ہے۔اور یہ نمونہ خدا سے ہٹ کر نظریہ ارتقاء پر

 

مرکوز ہو‘‘۔[7]

 

انسانی ارتقا کا نظریہ دو صدیوں قبل سب سے پہلے چارلس ڈارون [8]نے پیش کیاتھا۔ ڈارون

 

کے خیال میں انسان آج جس شکل میں ہے وہ اس کی ارتقائی شکل ہے۔وہ کہتا ہے کہ انسان مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا بندر بنا اور پھرزمانے کے ساتھ ساتھ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا وہ انسان بن گیا۔قرآنی نظریہ اور اسلام کے مطابق انسان کو اللہ پاک نے انسان ہی کی شکل میں پیدا کیا اوراولین انسان کے طورپرآدم علیہ السلام جیسے جلیل القدر انسان کو پیدا کیا۔قرآن میں پاک میں ارشاد ہے:

 

لقدخلقنا الانسان فی احسن تقویم [9]

 

یعنی ہم نے انسان کو بہترین صورت میں بنایا ہے۔

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اللہ کے منصوبہ کے عین مطابق ہوئی ہے۔ قرآن بارباراسی غور وفکر اور تدبر وتفقہ کی دعوت دیتا ہے۔

 

فطرت و مادہ پرستی:

اکثرہیومنزم کے ماننے والوں نے فطرت پسندی کو انسان سے مخصوص کیا ہےہیومنزم کا یہ تصور انسان کے اخلاق کومتاثرکرنے کے ساتھ ساتھ پورےمعاشرہ میں فساد و بگاڑکا سبب بن رہا ہے ۔ مادہ پرست انسان مادی ترقی، مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کا مقصد تصورکرتا ہے۔ اگر چہ وہ خدائی ضابطوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔

 

ہیومنسٹ Patrick Glynn کہتا ہے:

’’1933 میں humanists یقین رکھتے تھےکہ روایتی دینیت خاص طور پر خدا کا دعاکاسننا پر اور ان کی دعا ؤں کا سمجھنا اور اس کا انکو افراد کے لئے دیکھ بھال کے قابل بنانا ایک دقیانوسی اور غیر ثابت شدہ ایمان ہے۔ان کا خیال تھا روایتی عقیدہ یا مذہب جس میں وحی، خدا، مذہبی رسومات وغیرہ شامل ہیں انسانی ذات کے لئے نقصان دہ ہیں۔ لا دینیت کی حیثیت سے ہم انسانوں سے شروع کرتے ہیں نہ کہ خدا سے، اور ہم صرف فطرت کو مانتے ہیں “۔[10]

 

ہیومنزم میں معاشرہ دین سے دوری اختیار کر کے صرف مادی تصورات کو اہمیت دے رہا ہے ۔ ہیومنزم کے نظریات میں انسان کی امیدوں اور امنگوں کا خلاصہ اس کی مادی اور دنیاوی زندگي ميں ہوتا ہے ۔ اور اس فکر ميں زندگي کا مقصد، لذت و منفعت طلب کرنا اور خود پسندانہ طریقے سے ہر ممکنہ  صورت میں خدا کی نعمتوں سے استفادہ کرنا ہے ۔

 

انسان کا مادی جسم مٹی سے نکلا ہے اور انسان میں مادی علوم کی سمجھ بھی موجود ہے اور بنیادی انسانی سمجھ اور عقل کے ساتھ انسان میں ایک اور چیز بھی ہے جسے فطرت کہتے ہیں۔جس میں بنیادی اچھائی، برائی کی تمیز بھی ڈال دی گئی اوراسلام بنیادی اچھائی اور برائی کے تصور میں وحی کو شامل کرتا ہے اور جسم کے ساتھ روح کو بھی جمع کرتا ہے، مادی اور روحانی علوم کو ملا کر انسان کی تکمیل کرتا ہے قرآن کہتا ہے:

 

كُنتُمْ خَيرْ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ۔[11]

 

ترجمہ: تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکہتے ہو۔

 

اور رہی بات مال و دولت کی تو دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے مال و دولت ضروری ہے۔مگر’’ مادہ پرستی‘‘ اور’’جائز طریقے سے سے کمایا ہوا مال و دولت‘‘ میں فرق ہے ما ل کی محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔مگر اسلام مال ودولت کو دنیاوی زندگی کی زینت قرار دیتا ہے اور مال کو فتنہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا  [12]

 

ترجمہ: مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔

 

مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے، پھر یہی بد اخلاق و بد کردارشخص رفتہ رفتہ الحاد کی طرف چلا جاتاہے اور اس کی عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔اللہ تعالی نے اس سے انسان کو متنبہ کیا ہے مادہ اور مادہ پرستی کو اسباب فریب قراردیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ مِنَ الذَّہب وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا  [13]

 

ترجمہ: مزین کر دیا ہے لوگوں کیلئےان کے نفس کو مرغوب کرنےکیلئےعورتوں سے، اولاداورسونے چاندی کے ڈھیروں سے اور، گھوڑے، مویشی، اور زرعی زمینیں سے۔لیکن یہ سب سامان دنیا کی چند روزہ زندگی کےلئے ہیں۔

 

فکراو رعمل میں عدم مطابقت:

’’ہیومنزم کےفکرو عمل میں باہمی ربط نہیں اور قول اور فعل میں تضاد ہے۔یعنی ہیومنزم کی فکری تحریک کا ایجنڈا کچھ اورانسانی معاشرہ پر عملی ہیومنزم کچھ اورہے اور اس چیز نے انسان کی اہمیت کو بلند کرنے کے بجائے اس کو ایک نئے خطرے سے دوچارکردیا اور انسان پرستی کے مدعی حضرات نے اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیاہے۔ جب حق زندگی، آزادی و خوشی اور آسودگی کے تحت ہیومنزم میں انسانی حقوق کے عنوان سے گفتگو ہوتی تھی تو ایک صدی بعد تک امریکہ میں کالوں کو غلام بنانا قانونی سمجھا جاتاتھا “[14] یعنی انسانیت کی آزادی اور مساوات کے نعرے لگانے والے عملی طور پر اس کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں’جبکہ قرآن کہتا ہےکہ:

 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ . كَبُـرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّـٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ  [15]

 

ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں اللہ کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ جو تم کرتے نہیں وہ کہتے ہو۔

 

ان آیات میں قول و فعل میں تضاد پر تنبیہ کی گئی ہے۔عمل کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی عقل، دل اور نفس کی اِصلاح ہو۔ اس سے انسان قرآن مجید کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کی راہ پر چلنے والوں کے لئے قرآن راہ روشن کرتا ہے انسان کا دِل راہِ رات کے حق ہونے پرمطمئن ہو جاتا ہے اور اطمینانِ قلب کے لئے صرف کلمہ طیبہ پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے عملی تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔

 

انسان کی آزادی وکامل خود مختاری:

ہیومنزم کا نظریہ رکھنے والوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان بہت زیادہ اختیارات کا حامل ہے ان کا کہنا ہے کہ مذہب کی قید سے آزاد ہو کرانسان جس طریقہ سے چاہے زندگی گذار سکتا ہے ۔ سارٹر[16] کہتا ہے کہ: ’’اگر ایک مفلوج انسان دوڑمیں ممتاز نہ ہوسکتا ہو تو یہ خود اس کی غلطی ہے اسی طرح وہ لوگ اعمال کے انجام دینے (عامل خارجی کو بغیر مد نظر رکھتے ہوئے خواہ حقوقی، سنتی، اجتماعی، سیاسی، غیر فطری افعال) میں انسان کی ترقی سمجھتے ہیں‘‘ ۔[17]

 

قرآن کریم میں انسان کی تعریف و توصیف بھی بیان کی گئی ہے اورکئی مقامات پر مذمت بھی گئی ہے ۔قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے قرآن حکیم کی مختلف آیات انسانی اقدار کے طور پر ذکر ہوئی ہیں. ۔ارشاد ہوتا ہےکہ:

 

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ اٰدَمَ وَحَـمَلْنَاهُـمْ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُـمْ مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُـمْ عَلٰى كَثِيْـرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا ۔[18]

 

ترجمہ: ہم نے بنی آدم کو تکریم عطا کی اور ان کو زمین پر اور سمندروں میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوق پر نمایاں فوقیت بخشی۔

 

اس ارشاد قرآنی سے حیات و کائنات کے اس پورے نظام میں انسان کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ اسلام آزادی کا دین ہے یعنی آزاد انسانوں کا دین ہے۔ اسلام نے انسان کو تکریم کا رتبہ دیا ہے اور تکریم میں آزادی بہرحال شامل ہوتی ہے۔اسلام میں معاشرتی آزادی کو ان فرائض کی ادائیگی سے مربوط کیا گیا ہے۔انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات سے زیادہ ہے۔ انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار ہے اورپھر اس امانت کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار بھی ۔ خدا نے انسان کو دیگر مخلوقات پر برتری عطا کی ہے اب انسان اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔

 

اخلاقی پستی اور اخلاقی اقدارکی پامالی:

ہیومنزم نے خود کو انسانی اخلاق کے علمبردار کی حیثیت سے پیش کیا۔ جدید دور میں الحاد کی اس تحریک نے اپنا نام انسانی تحریک (Humanism) رکھ لیا ہے اور وہ خود کو اخلاقیات کا چیمپئن سمجھتے ہیں۔ چنانچہ کونسل فار سیکولر ہیومن ازم کے بانی پال کرٹز اپنی حالیہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ:

 

’’ہمیں تیسری طرف جو جنگ لڑنا ہے وہ انسانی اخلاقیات کی جنگ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقی انقلاب ہی انسانیت کے مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔ یہی آخرت کی نجات یا جنت کے عقیدے کے بغیر انسانی زندگی کو بہتر بناتا ہے ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اخلاقی اقدار کو مشاہدے اور دلائل کی بنیاد پر پرکھیں اور نتائج کی روشنی میں اپنی اخلاقی اقدار میں تبدیلی کرنے پر تیار رہیں۔ ہمارا طریقہ عالمی (پلینیٹری) ہے، جیسا کہ Humanist Manifesto 2000 میں زور دیا گیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سیارے زمین پر ہر انسان بالکل برابر حیثیت رکھتا ہے۔ اخلاق کے ساتھ ہماری وابستگی یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں اور ہم اپنے مشترکہ گھر یعنی اس زمین کی حفاظت کریں۔ انسانی اخلاقیات فرد کی آزادی، پرائیویسی کے حق، انسانی آزادی اور سماجی انصاف کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس کا تعلق پوری نسل انسانیت کی فلاح و بہبود سے ہے۔‘‘[19]

 

ان فلسفیوں نے انسانی حقوق اور انسانی اخلاق کو اپنے فلسفے میں بہت اہمیت دی ۔وہ لوگ بالعموم جھوٹ کم بولتے ہیں، اپنے کاروبارمیں بددیانتی سے اجتناب کرتے ہیں، ایک دوسرے کااستحصال کم کرتے ہیں، فرد کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، یتیموں اور اپاہجوں کے لئے ان کے ہاں منظم ادارے ہیں، قانون کا احترام کرتے ہیں ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں میں بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

 

یہ لوگ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے، ان کی خدمت نہیں کرتے، جنسی بے راہ روی ان کے ہاں عام ہے، ان کی اکثریت طرح طرح کے نشے میں سکون تلاش کرتی نظر آتی ہے، ان میں تشدد کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، اور بالخصوص ان کے اخلاقی معیارات اپنی قوم کے افراد کے لئے کچھ اور ہیں اور باقی دنیا کے لئے کچھ اور۔ نیشنلزم کا جذبہ بہت طاقتور ہونے کی وجہ سے یہ اپنی قوم کے افراد کے لئے تو ابریشم کی طرح نرم ہیں اور ہر اخلاقی اصول کی پیروی کرتے ہیں لیکن جب معاملہ کسی دوسری قوم کے ساتھ ہو تو وہاں انسانی حقوق کے تمام سبق بھول جاتے ہیں۔

 

ہیومنزم کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ایک مغربی ناول نگار ڈین کونٹز [20]اپنی مشہور کتاب Intensity novelمیں لکھتا ہے: ’’ہمارے وجود کا واحد مقصد خواہش نفس اور اپنی ہیجانی کیفیت کی تسکین ہونا چاہیے، یہاں اخلاقی قدر کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی نیکی و بدی اور غلط و صحیح کے تخیل کی گنجائش رکھنی چاہیے، مارکس اور انگلس کے مینوفیسٹو میں خاص طور پر کہا گیا کہ ’’قانون، اخلاق اور مذہب سب اقتصادی آسودگی کی فریب کاری ہے، جس کی آڑ میں اس کے بہت

 

سے مفاد چھپے ہوئے ہیں‘‘۔[21]

 

دین اسلام وہ دین ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور سابقہ ادیان کا خاتمہ کیا۔اسے اپنے بندوں کے لیے مکمل ترین دین بنایا اور اس کے ذریعے سے ان پر اپنی نعمت مکمل فرمائی اور ان کے لیے اسے بطور دین پسند کیا، لہذا اس کے نزدیک اس کے سوا کوئی دوسرا دین ہر گز مقبول نہیں ہو سکتا۔دین اسلام عقیدہ اور شرائع کے اعتبار سے ایک جامع اور مکمل دین ہے جو مندرجہ ذیل احکام پر مبنی ہے:

 

  • اسلام اللہ تعالیٰ کی توحید کا حکم دیتا ہے اور شرک سے منع کرتا ہے۔

 

  • سچائی اور راست بازی کا حکم دیتا ہے اور جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے۔

 

  • عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور ظلم و جور سے منع کرتا ہے۔

 

  • امانت کا حکم دیتا ہے، اور خیانت سے روکتا ہے۔

 

  • وعدہ پورا کرنے کا حکم دیتا ہے اور خوامخواہ کے عذر اور حیلوں سے منع کرتا ہے۔

 

  • والدین کے ساتھ احسان اور بھلائی کا حکم دیتا ہے اور ان کی نافرنی سے منع کرتا ہے۔

 

  • رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور قطع رحمی سے روکتا ہے۔

 

  • پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہےاور بدخوئی و بدخواہی سے منع کرتا ہے۔

 

یعنی’’اسلام‘‘تمام اخلاق حسنہ اپنانے کا حکم دیتا ہے اور تمام برے اخلاق سے روکتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَٰنِ وَإِيتَآئِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ

 

وَٱلْمُنكَرِ وَٱلْبَغْىِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ[22]

 

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ تم کو عدل و احسان کرنے اور قرابت داروں کو (خرچ کے

 

لیے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور فحش باتوں، بری عادات، نیز سرکشی سے منع فرماتا ہے وہ (اللہ تعالیٰ) تمہیں اس لیے وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

 

انسان باطنی اخلاق کا حامل ہے اور وہ اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے۔

 

بگ بینگ تھیوری:

اب تک دنیا میں یہ مانا جارہا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس نظریے کو جدید دنیا میں جرمن فلسفی عمانویل کانٹ نے پیش کیا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہے۔

 

بیسویں صدی میں فلکیات (Astronomy) کے میدان میں جدید علمی تحقیقات نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔ 1929 میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ کہکشائیں مسلسل ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ اس سے سائنس دانوں نے یہ اخذ کیا کہ ماضی میں کسی وقت یہ کہکشائیں اکٹھی تھیں۔ اس وقت یہ کائنات توانائی کے ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں موجود تھیں جو ایک بہت عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں مادے کی صور ت اختیار کرگیا۔ملحد مفکرین نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کردیا لیکن مزید سائنسی تحقیقات نے اس نظریے کو تقویت دی۔ 1960 کے عشرے میں دو سائنس دانوں ارنو پینزیاز اور رابرٹ ولسن نے دھماکے کے نتیجے میں بننے والی Cosmic Background Radiation کو دریافت کیا۔ اس مشاہدے کی تصدیق 1990 میں Cosmic Background Explorer Satellite کی ذریعے کی گئی۔ اس صورتحال میں انتھونی فلیو جو یونیورسٹی آف ریڈنگ میں فلسفے کے ایک ملحد پروفیسر

 

ہیں، کہتے ہیں کہ:

 

”اعتراف روح کے لئے اچھی چیز ہے۔ میں اس اعتراف سے آغاز کرتا ہوں کہ علم فلکیات

 

میں اس اتفاق رائے سے ایک ملحد کے نظریات پر زد پڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلکیات دان اس بات کو سائنسی طور پر ثابت کرنا چاہتے ہیں جو سینٹ تھامس فلسفیانہ طور پر ثابت نہ کرسکے یعنی یہ کہ اس کائنات کی کوئی ابتدا ہے۔ اس سے پہلے ہم یہ اطمینان رکھتے تھے کہ اس کائنات کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی اختتام------ اب یہ کہنا بگ بینگ تھیوری کے سامنے آسان نہیں‘‘ ۔[23]

 

ہیومنزم کے مطابق یہ دنیا خود بخود وجود میں آگئی۔ان کی سائنس کےمطابق پوری کائنات در اصل ایک غیر معمولی لیکن خود بخود رونما ہونے والے حادثے سے وجود میں آئی جو ان کی اصطلاح میں” بگ بینگ” کہلاتا ہے۔ حالانکہ ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ آخر یہ حادثہ اس متعین وقت پر ہی کیوں ہوا ؟ دنیا اگر حادثاتی ہے تو اتنی منظم کیوں ہے ؟ کیا دنیا کا کوئی بھی حادثاتی واقعہ اتنا منظم ہو سکتاہے ؟ اگر یہ نیچر کا قانون ہے تو سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ یہ نیچر خاص طرز و انداز میں کیوں چلتا ہے ؟ بارش خاص موسم میں ہی کیوں ہوتی ہے ؟ گرمی خاص وقت میں کیوں آتی ہے ؟ موت و حیات کا پورا فلسفہ کیا ہے ؟ وغیرہ۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ سائنسداں جو ہر بات کو ثابت کرنے کے بعد ماننے کو اصل اصول بتاتے ہیں اس معاملے میں مان لیتے ہیں کہ ایسا ہوا ہوگا۔

 

اسلام کے مطابق اللہ پر ایمان رکھا جائے کہ اس پوری کائنات کا خالق، مالک، چلانے والا اور اس پر پوری طرح حکمرانی کرنے والا ایک اللہ ہے۔ وہی رب ہے۔ اسی کی بادشاہی ہے۔ اس کے حکم کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ وہی مارتاہے، وہی جلاتاہے، وہی ہوا چلاتا ہے، وہی بارش برساتا ہے۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کا غلام ہے۔ اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ وہ مالک ہے سب مملوک، وہ رب ہے سب محتاج، وہ حاکم ہے سب محکوم، اس کے کسی

 

کام میں کوئی نقص نہیں، وہ پاک اور بے عیب ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

 

يٰٓـاَ يُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ . اَلَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّـٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ  ۔[24]

 

ترجمہ: اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن سکو۔ وہ ذات جس نے زمین کو تمہارے لیے بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔ اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کیے جو تمہارے لیے روزی ہیں۔

 

جدیدیت:

”مغربی معاشرہ میں کلیسائی استبداد کے ردعمل میں جب ہیومنزم کو ترقی ملی اور اس کے تصورات غالب آگئے تو جنگِ عظیم دوم کے بعد 1945ء میں جدیدیت (Modernism) کی تحریک وجود میں آئی، جس نے ایسے معاشرہ کی تشکیل کی دعوت دی جس میں انسان کی روحانی زندگی کو یکسر مسترد کرکے اپنی مادی خواہشات اور نفسانی ہیجانات کو خدا، تصورِ آخرت، اخلاقی اقدار اور اس قبیل کے تمام امور سے بالاتر سمجھا گیا، صرف سائنس اور عقلی تخیلات کو ہی جگہ دی گئی، چنانچہ انہی بنیادوں پر جدید معاشرہ عمل میں لائی گئی، لیکن جدیدیت کوئی قابل عمل اخلاقی نظام نہ لاسکی، اس کے بعد مابعد جدیدیت (Post Modernism) کا دور شروع ہوتا ہے، جس کا آغاز 1980ء سے مانا جاتا ہے، مابعد جدیدیت دراصل ان حالات اور بحرانوں کا نام ہے جو نہایت ہی کمزور اور غیر مستحکم بنیادوں پر قائم جدید معاشرہ میں معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور ذہنی تبدیلی سے پیدا ہوئے اور یہ تبدیلی جدیدیت کے بعد ہوئی، اس لیے اس کو مابعد جدیدیت (Post Modernism) کہا جاتا ہے‘‘۔[25]

 

عقلیت پرستی:

ہیومنزم کے حامی عقائدکا انکار کر تے ہیں اور عقل کو اہمیت دیتے ہیں اورخدا اور عقل کو برابر سمجھتے بلکہ عقل کو خدا پر برتری دینا اور عقل پرستی کو خدا پرستی کی جگہ قرار دیتے ہیں ہیومنزم کے فلسفیانہ افکار میں ہمیں روح اور مادے، فرد اور معاشرے کی کشمکش جا بجا دکھائی دیتی ہے ۔ وہ مذہب کو کسی صورت قبول کرنے کے لیئے تیار نہیں تھے ۔ عقل انسانی کو تمام مسائل کا حل اور ایک برتر قوت مانتے تھے ۔ عقل کی بنیادپر معاشی، معاشرتی اور مذہبی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔

 

اٹھارویں صدی کے بعد جتنے بھی فلسفے پیش کیئے گئے ان سب میں انسانیت پرستی کو اعلیٰ مقام دیا گیا۔عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی کی جو روش اس دور میں شروع ہوئی تھی وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ تین صدیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی اسی طرح موجود ہے ۔لوگ مذہب سے بیزار ہوچکے تھے اور مذ ہب کی جگہ آذاد خیالی، عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی نے لے لی تھی۔اس ساری فکر کا بنیادی نکتہ عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی تھی باقی جتنے بھی نظریات ہیں خواہ وہ سیکولرزم کا نظریہ ہو یا لبرلزم کا، ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہو یا کومٹ کا ثبوتیت کا نظریہ، یہ سب اسی بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر اپنائے گئے تھے ۔ وہ لوگ یہ بھول گئے تھے کہ وحی کے مقابلے میں انسانی عقل کی بساط ہی کیا ہے، وحی کے بغیر انسانی عقل ناتمام ہے اور محض انسانی عقل کی بنیادپر کیئے جانے والے فیصلے کبھی غلطیوں سے پاک نہیں ہوسکتے۔

 

دین کے مطابق عقل انسان کو خدا کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کی معرفت و عبادت کی راہ ہموارکرتی ہے ۔عقل کا صحیح استعمال، انسان کو اس طرف راغب کرتا ہے کہ وہ یوں ہی آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ پاک کی ربوبیت کے زیر سایہ ہے ۔ہیومنزم کے افکار میں انسانی شناخت کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ انسان کی عقل، خدا اور اس کے دین کا جاگزیں قرار پاتی ہے اور دین و معنویت کو زندگي میں کسی قسم کاعمل دخل حاصل نہیں ہوتا  ۔

 

اگر انسان کی اخلاقی اور حقوقی آزادی دینی تعلیمات کی روشنی میں نہ ہوں توانسان کی عقل، ہوس پرستی اور حیوانی خواہشات کے زیر اثرآکرہر جرم کو انجام دی سکتی ہے۔ قرآن مجید اوراسلامی روایات بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کرتے ہیں کہ وحی سے دور رہ کرانسان خود اور دوسروں کی تباہی کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ نیز خود کو اور دوسروں کو سعادت ابدی سے محروم کرنے کے علاوہ اپنی دنیاوی زندگی کو بھی تباہ و برباد کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

 

انَّ النسَانَ لَفِی خُسرٍ الاّ الَّذِینَ آمنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالحَاتِ وَ تَوَاصَوا بِالحقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ[26]

 

ترجمہ: یقینا انسان خسارے میں ہے مگر وہ افراد جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح انجام دیا اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں ۔

 

ہیومنزم کی طرف سے کہا گیا کہ عقل کی موجودگی میں خدا اور مذہب کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ۔عقل کی بنیاد پر چند ایسے قوانین معلوم کیئے جا سکتے ہیں جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں اوران معلوم شدہ اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہے ۔

 

اسلام دین فطرت ہے اور اسکے احکام انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں ۔ عقل پسندی کو پسند کرتا ہے لیکن عقل پرستی کو نہیں ۔ عقل پرستی سے مراد یہ ہے کہ ہر حکم کو عقل پر پرکھنا۔ عقل کو ہر معاملے میں رد و قبول کا معیار بنا لینا۔

 

توازن اور اعتدال ہی اسلام کی خوبی ہے اور یہی اعتدال عقل کے معاملے میں بھی رکھا گیا ہے۔ شریعت کے عام ظاہری احکام کے متعلق عقل کے استعمال سے منع نہیں کیا گیا بلکہ حق تو یہ ہے کہ قرآن و سنت سے فقہی احکام عقل کو ہی استعمال کرکے ترتیب دیے گئے ہیں۔ لیکن احکام وحی اور وہ معلومات جن کو جاننے کے لیے عقل کام نہیں کرسکتی تھی اور انکو عقل کے ذریعے سمجھایا نہیں جاسکتا تھا، انکو خالق کائنات نے اپنے مخصوص نمائندوں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ان میں عقل کے استعمال سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ان میں مشاہدہ کام نہیں کرسکتا ان پر اعتبار کے لیے سند اور نشانیاں کافی ہے ۔!

 

انسانیت کی بے قیدوشرط آزادی:

”ہیومنزم انسان کی بے لگام آزادی کا قائل ہے۔ ہیومنزم کی نظر میں انسانوں کی آزادی کے معنی اعتقادات دینی کو پس پشت ڈالنا اور اس کے احکام سے چشم پوشی کرنا ہے لیکن اسلام اورادیان آسمانی میں انسانوں کے ضروری حقوق کے علاوہ بعض مقدسات اور اعتقادات کے لئے بھی کچھ خاص حقوق ہیں جن کی رعایت لازم ہے مثال کے طور پر انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے کے اعتبار سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ہے اسلام کو چھوڑکر کافرو مشرک ہونے یا کسی دوسرے مذہب کے انتخاب کرنے میں بغیر کسی شرط کے وہ آزاد ہے۔ لیکن اسلام کی رو سے وہ مرتد ہے (اپنے خاص شرائط کے ساتھ) جس کی سزا قتل یا پھانسی ہے لیکن ہیومنزم کی نگاہ میں ایسی سزا قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پیغمبر ﷺو ائمہ معصومین اور دیگر افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

 

ہیومنزم کا عقیدہ رکھنے والوں نے انسانی معاشرے کی تمام کامیابیوں کو انسانی کارنامہ اور فکر بشر کا نتیجہ سمجھا ہے، یعنی انسان نے خود کی کوشش اور محنت کر کے ترقی کی ہے۔اس نظریہ میں ہر انسان کے حقوق کے بارے میں بحث ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اپنے حق کو بجالائے نہ کہ اپنی تکلیف اور ذمہ داری کو، اس لئے کہ اگر کوئی تکلیف اور ذمہ داری ہے بھی تو حق کے سلسلہ ادائگی میں اسے آزادی ہے ۔ اجتماعی صورت میں ہیومنزم جمہوریت نیز حقوقی، اجتماعی قوانین کے حوالے سے نسبی آزادی کے قائل ہیں جو دینی نظریہ سے مناسبت نہیں رکھتے‘‘[27] دین اسلام کے نظریہ کے مطابق تمام موجودات کا وجود خدا کی وجہ سے ہے اور تمام انسان برابر ہیں نیز ہر ایک قوانین الہی کے

 

مقابلہ میں ذمہ دار ہے اور حاکمیت اعلیٰ صرف اور صرف خدا کو حاصل ہے ۔

 

فلسفہ انسانی حقوق ہیومنزم کی نظر میں:

ہیومنزم کی نظر میں انسان کسی کا عبد نہیں بلکہ وہ آزاد (Free) ہے۔اورانسان اپنا خالق خود (Existent by itself) ہے۔ اور وہ کائنات کی ہر شے کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کاحق رکھتا ہے. ہیومن ازم (انسان پرستی) نے مذہب کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر سطح سے خارج کر کے انسان ہی کو ہر شے کی میزان ٹھہرایا۔ انسان کو اللہ کا بندہ ہونے کی بجائے ایک ایسے آزاد فرد کے طور پر باور کرایا جو خیر وشر کی تعیین اور تحدید میں بذاتِ خود ایک پیمانہ ہے۔

 

حقوق انسانی کا چارٹر:

انسانی حقوق کا چارٹر جسے یو این او کے ذریعہ تمام ممبر ممالک پر یکساں طور پر لاگو کیا گیا ہےو فلاح انسانی کا ضامن، امن وسلامتی کا علمبردار اور شرفِ انسانی کا پیکر ہے۔ اقوام ِ متحدہ کے ذریعہ تمام ممبر ممالک کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے اس منشور کو عالمی اور ناقابلِ چیلنج قانون تسلیم کرتے ہوئے اس پر دستخط کریں۔ لہٰذامسلم ممالک بھی یو این او ( (UNOکے رکن ہونے کی حیثیت سے اس دینی بغاوت پر مبنی منشور پر دستخط کرتے ہیں، وہ پابند ہوتے ہیں کہ اپنے ممالک کے دستور و قانون کو انسانی حقوق کے چارٹر کے زیر اثر لائیں گے۔ہیومنزم کے اس ہیومن رائٹس چارٹر کے چند نکات یہ ہیں:

 

”ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اس آزاد حیثیت میں ہر فرد دوسرے فرد کے مساوی ہے۔ہر انسان کو زندگی گزارنے اور معاشرت کو تعمیر کرنے کے لیے جو بنیادی وسائل دیے گئے ہیں، وہ دو ہیں (1) عقل، (2) ضمیر۔عقل کی بنیاد پر انسان طبعی معاشرت کی تعمیر کرتاہے تو ضمیر کی بنیاد پر اپنی اخلاقی معاشرت کی تعمیر کرتا ہے۔ہر شخص کو ضمیر اور مذہب کی آزادی ہے۔ اسی طرح مذہب کو تبدیل کرنے، اپنے عقائد کا انفرادی یا اجتماعی طور پر اظہار کرنے کی آزادی ہے۔ (چاہے وہ فرد اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہونا چاہے یا یہودی عیسائیت قبول کر لے) ۔ہر شخص کو اپنے خیالات کی تبلیغ کا حق حاصل ہے۔ہر شخص کو (خواہ مرد ہو یاعورت) ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ طور پر ملنے اور اپنی انجمنیں قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی میڈیا کے لیے جس قسم کی معلومات جہاں سے چاہے حاصل کر سکتا ہے۔مردوعورت (بلا تفریق مذہب وملت) شادی کرنے کے بعد اسے فسخ کرنے کا اختیا ررکھتے ہیں۔تمام بچے خواہ شادی سے پہلے ہوں یا بعد میں’ معاشرتی تحفظ میں یکساں طورپر مستفید ہو سکتے ہیں۔انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق غیر انسانی اور وحشی سزاؤں (مراد اسلامی سزائیں) کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کے اس چارٹر میں غلام، لونڈی بنانے رکھنے اور ان کی خرید وفروخت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہِ راست یا آزادانہ طور پر منتخب کیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔ عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیا ہو گی۔تعلیم کا مقصد، انسانی شخصیت کی پوری نشوونما ہو گا اور وہ انسانی اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کرنے کا ذریعہ ہو گی۔‘‘[28]

 

نمونے کے طور پر چند نکات پیش کیے ہیں ان نام نہاد حقوق کی فہرست کافی لمبی ہے جس میں انسانی آزادیوں کی لمبی لمبی تفصیلات ہے۔

 

یہ جو ہیومنزم کے حامی ہیں اگر یہ حقوق انسانی کا نام لیتے ہیں یا اپنے منشوروں میں یا اعلانات میں کہیں حقوق انسانی کا ذکر کیا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ حقوق یا تو ان کے شہریوں کے ہیں، یا پھر وہ ان کو سفید نسل والوں کے لئے مخصوص سمجھتے ہیں۔ انسانی جان کا بحیثیت ”انسان‘‘ کوئی احترام ان کے دل میں نہیں ہے۔ اگر کوئی احترام ہے تو اپنی قوم یا اپنے رنگ یا اپنی نسل کی بنیاد پر ہے۔ لیکن اسلام تمام انسانوں کے لئے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص وحشی قبائل سے تعلق رکھتا ہے تو

 

اسلام اسکو بھی انسان ہی سمجھتا ہے۔

 

انسانی حقوق کا مقصد بے محار آزادی:

حقوق کے ضمن میں اس تمام فلسفہ کا اصل زور آزادی (Freedom) پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان ہر طرح سے آزاد ہے۔ وہ کسی ان دیکھی ہستی کا عبد نہیں، بلکہ فیصلہ کا اختیار عقل کے پاس ہے۔عقل ہی شر اور خیر کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔اس فلسفہ میں تمام انسان مساوی ہیں اس پر کہ ہر فرد اپنی عقلیت کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کر سکتا ہے۔ وہ آج مسلمان ہے تو کل یہودی یا پھر عیسائی بھی بن سکتا ہے، اگر مذہب اس کی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ ہو تو وہ لا دین بھی ہو سکتا ہےچنانچہ ہیومنزم میں روشن خیال، لبرل، آزادی و مساوات پر اور جمہوریت پر یقین رکھنے والا ہی اصل انسان ہے۔اور یہ انسان خیرو شر کے تعین کے لیے کسی وحی کا محتاج نہیں بلکہ اس کی عقل ہی اس کے تمام امورِ زندگی کے لیے میزان ہے۔

 

انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے استعماری جبر:

یو این ڈی پی کی ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ 2000ء میں ہیومن رائٹس کے فروغ کے لیے تین اہم خطوط متعین کیے گئے۔ UNDPکی رپورٹ میں جن ترجیحات کا تعین کیا گیا وہ حسبِ ذیل تھیں:

 

تیسری دنیا کے ممالک بین الاقوامی قوانین کی ملکی قوانین پر بالادستی تسلیم کر لیں جو ہیومن رائٹس سے متعلق سول لبرٹیز کو عالمی سطح پر نافذ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔قومی ریاستوں کا دستوری ڈھانچہ ان بین الاقوامی قوانین اور عدالتی تنظیموں کے ماتحت کر دیا جائے، جو سرمایہ دارنہ نظام کی عالمگیریت کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔معاشرتی سطح پر اغراض کی بنیاد پر ایسی گروہ بندیاں قائم کی جائیں جو حقوق کی سیا ست کو فروغ دیں اور قومی ریاستوں کے عالمی سرمایہ کے ماتحت ہو

 

جانے کے عمل کی تائید کریں اور اس کا جواز عوامی سطح پر پیش کریں۔

 

اسی رپورٹ کے آغاز میں اس وقت کے یو این او کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ جو ملک بھی حقوق انسانی کے ماورا قانون سازی کرے اس کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فوجی کاروائی کرے۔ کوفی عنان نے لکھا تھا:

 

”کسی حکومت کو حق نہیں کہ وہ قومی خودمختاری کو آڑ بنا کر ہیومن رائٹس سے انکار کر ے۔ سوڈان اور افغانستان کے مظلوم عوام کا حق ہے کہ ہم ان پر ہونے والے ظلم کو ختم کریں اور ان ممالک کو ترقی کی راہ پر لائیں۔ ہم ان ممالک میں فوجی مداخلت کریں کیوں کہ یہ مداخلت ہیومن رائٹس کے عالمگیر طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق ہوگی۔‘‘[29]

 

انسانی حقوق کی تنظیمیں:

بےشمار انسانی حقوق کی تنظیمیں یعنی این جی اوز دنیا کے مختلف ممالک میں کام کر رہی ہیں اور ان کی سرپرستی استعماری ریاستیں کر رہی ہیں۔یہ تنظیمیں قومی معاشروں میں اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ حکومتیں، ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں انسانی حقوق کی پامالی تو نہیں کر رہی ہیں منشور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر رپورٹیں شایع کرنا ان تنظیموں کا کام ہے۔ہیومنزم کے فروغ کے لئے یہ این جی اوز احتجاجی مظاہرے ترتیب دیتی ہیںاور مختلف ذرائع سے حکومتوں پر دباؤ ڈالتی ہیں پس پردہ ان کا مقصد اس لادین منشور انسانی حقوق کی مکمل پاس داری کروانا ہے۔

 

ان تنظیموں کے طریق کار سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق معاشرتی وحدت، مذہب کی بالا دستی، شرعی قوانین کی پاس داری سے نہیں ہو تا۔بلکہ یہ سرمایہ داری کو مستحکم کرنے کا سبب ہوتی ہیں۔ یہ این جی اوز جب صاف پانی کی فراہمی کو اپنا ایشو بناتی ہیں تو بین السطور ان کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ منرل واٹر کی بوتلیں خرید کر پانی پئیں تا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ ہو سکے۔ یہ این جی اوز جب کسی بیماری کو ایشو بناتی ہیں تو اس کا ذکر اس طور پر کیا جاتا ہے کہ لوگ شدید خوف زدہ ہو جائیں تا کہ اس بیماری کی ادویات کی فروخت میں اضافہ ہو سکے، اسی طرح یہ تنظیمیں انصاف کی فراہمی کو ایشو بناتی ہیں تو عمومی طور پر ایسے زنا کار جوڑوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اپنے مذہب، والدین اور معاشرے سے بغاوت کر کے سرمایہ داری کی محافظ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔

 

مذہب دشمنی ان کی سرشت میں ہوتی ہے، اسی لیے یہ مختاراں مائی کے لیے تو جان ودل سے تگ ودو کرتی ہیں مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے کبھی کلمۂ حق کہنے کے لیے تیار نہیںہوتیں۔ یہ این جی اوز جب غیر اسلامی فرقوں کے تحفظ کی بات کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں ارتداد کی کھلی اجازت ہونی چاہیے… کوئی مسلمان قادیانی ہونا چاہے یا عیسائی یا لبرل بننا چاہے تو اس میں مذہب کو مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔

 

ہیومنزم کے اس انسانی حقوق کے عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کائنات کا اصل محور ومرکز ہےاورعلم و ادراک کا بنیادی ذریعہ عقل ہےآزادی اور مساوات اساسی قدر ہےاورمادی ترقی لازمی عمل ہے۔

 

انسانیت کا مذہب اسلام نہ کہ ہیومنزم:

ہیومنزم کے فلسفہ انسانیت کے برعکس دین اسلام ہر انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے, اسلام میں نہ صرف انسانیت کا حکم ہے بلکہ اس کی بنیاد پر جزا و سزا ہے۔اللہ اپنے بندوں کو کتنے واشگاف الفاظ میں انسانیت کے احکامات دیتا ہے اور اپنی پکڑ سے ڈراتا ہے:

 

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا[30]

 

ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

 

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ

 

وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ aبِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا[31]

 

ترجمہ: اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔

 

احسان کا جامع تصور اس آیت میں پیش کیا گیا ہے۔

 

الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا[32]

 

ترجمہ: جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

ہومنزم ایک فلسفہ ہے نہ کہ مذہب:

1933میں شکاگو یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس  میں پہلاانسان منشور Humanist Manifesto جاری کیا گیا جس میں واضح کیا گیا کہ ہیومنزم کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک نظریہ ہےجو کہ اخلاقیات، معاشی اور معاشرتی انصاف کی تائید کرتا ہےاور عقیدہ اور مذہب کے بجائے سائنس (علم) کو مقدم رکھتا ہےجو کہ اخلاقیات اور فیصلہ سازی کی بنیاد ہے ۔[33]

 

انسان کوکائنات کا محور و مرکزقرار دینا ہی ہیومن ازم ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مطابق:  

 

’’ہیومنزم وہ فلسفیانہ اور ادبی تحریک ہے جو چودھویں صدی کے نصف ثانی تک میں اٹلی میں پیدا ہوئی اور وہاں سے یورپ کے دوسرے ممالک میں پھیل گئی جو بالآخر جدید ثقافت کی تشکیل کے اسباب میں سے ایک سبب بنی۔اور ہیومنزم ہر اس فلاسفی کو بھی کہتے ہیں جو انسانی قدر یا عزت کو تسلیم کرے اور اسے” تمام چیزوں کا میزان” قرار دے یا جو صرف انسانی طبیعت کو اپنی فکر کی حد یا دائرہ کار کی حیثیت سے لے‘‘۔[34]

 

ہیومن ازم کی تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الٰہی اور ہدایت ربانی کی ضد تھی۔ اس تحریک کا مقصد عیسائی معاشرے میں تصور الٰہ، تصور رسول اور تصور آخرت کو ختم کر دینا تھا، چناں چہ اس تحریک نے عیسائیوں کو ہر اس ہدایت کے انکار کی طرف ابھارا جو ربانی یا آسمانی ہو اور ہر اس ظابطے سے بغاوت پر آمادہ کیا جس کی بنیاد ہدایتِ الٰہی تھی۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسائیکلو پیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس میں بیان کیا گیا:

 

’’فلسفہ میں ہیومن ازم ہر طرح کی فطریت (ربانیت) اور کلیت کی ضد ہے۔ یہ ایک ایسا فلسفیانہ رجحان دیتا ہے جو انسانی تجربوں کی تشریحات کو ہر طرح کے فلسفہ کا اولین مرکز توجہ دے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کام کے لیے انسانی علم کافی ہے‘‘۔[35]

 

چنانچہ ہیومن ازم، ایک ایسا فلسفہ ہے جو خدا کے بجائے انسان کی مرکزیت پر یقین رکھتا ہے، جس کی بنیاد پر انسان کے معاملاتِ زندگی خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور انسان اپنے اچھے برے کی تمیز خود کرسکتا ہے اس کیلئے خدا اور آخرت کو بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں، ۔ چنانچہ ’’ہیومن ازم‘‘ایک ایسا فلسفہ ہے جو خدا کو ہٹا کر زمین کے تمام معاملے ’’انسان‘‘کے سپرد کرتا ہے۔

 

اس میں انسان آپ ہی اپنا مقصود ہے۔ جبکہ قرآن پاک کہتا ہے:

 

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ[36]

 

ترجمہ: اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ وہ تم سب کو غیب کا علم دے دے؛ (تمہیں غیب سے مطلع کرنے کےلیے تو) اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے منتخب کرتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر ہی۔ اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرلو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔

 

خلاصہ البحث:

ہیومن ازم کا زندگی کے بارے میں ان کا تصور یہ کہ بس یہی اصل زندگی ہے اس کے بعد کسی جواب دہی اور زندگی کا تصور لا یعنی ہے سائنسی منہاج کو علم حقیقی قرار دے کر مذہب کو انسانی زندگی سے خارج کر دیا گیا ہے۔اس طرح یہ تہذیب وحی اور آسمانی ہدایت کے منبع علم ہونے کا انکار کرتی ہے ان کے نزدیک معیار حق وہی ہے جو انسانی عقل اور تجربہ اور مشاہدہ کی پیدا وار ہو، اس نکتہ نظر کا خلاصہ یہ ہے خدائی کی کبریائی کا انکا راور خود انسان کا خدا ہو نا ہے ۔ وہ انسان جو خود کو خدا کا بندہ اور وہ جو خود کو خدا سمجھتا ہے بھلا کیسے یکساں زندگی، معاشرہ و ریاست کی تعمیر کرسکتے ہیں؟

 

ہیومنزم زمین پرانسان کے’’قیومself-subsistingاورخودکفیل self-sufficient اور خودمختار independentہونے‘‘کا اعلان ہے جبکہ اصل زندگی اپنے دین کی حقیقت پر اصرار کرنا ہے:

 

یہ عالمی شرک، جسے انسان پرستی یا انسانی خدائی Humanism کا نام دیا جاتا ہے اور جوکہ اپنا ظہور ڈیموکریسی، سیکولرزم، سرمایہ داری، آزادی، مساوات، فیمن ازم، اخلاقی قدروں کے قتل، رائے عامہ، عریانی، انارکی اور فری مارکیٹ اکانومی وغیرہ کے پورے ایک پیکیج کے ذریعے کرتا ہے۔البتہ یہ بات مسلم ہے کہ انسان کی حقیقی شخصیت کی شناخت، اس کی پیدائش کا ہدف اور اس ہدف تک رسائی کی کیفیت، قرآنی تعلیمات، اسلامی دستورات اور عقلی تجزیہ و تحلیل پر موقوف ہے۔

 

 

حوالہ جات

  1. Text of Humanist Manifesto 11. about Humanism. available at: http: //www. Americanhumanist. org accessed on 13-11-2011
  2. =="Text of Humanist Manifesto I, Humanist Manifesto II, Humanist Manifesto III. Available on: http: //www. Americanhumanist. org accessed on 2011-10-01
  3. ==توبہ: 31 ==
  4. الانبیاء: 25
  5. آل عمران 18: 3
  6. Huxley, Julian. The evolution of thought and knowledge. London: 1965, pp. 99, 336
  7. Huxley, Julian. . "The New Divinity ". Essays of a Humanist'. Ed. Chatto & Windus, , London: Penguin press 1964. p. 39.
  8. چارلس ڈارون (1809-1882ڈارون 12 فروری 1809 کو شریوزبری [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%AF%D9%84%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86 انگلستان] میں پیدا ہوا۔ ڈارون 1831 میں 22سال کی عمر میں بیگل پر دنیا کے گرد سفر پر روانہ ہوا اس لمبے سفر کے دوران ڈارون بہت قدیم قبیلوں سے ملا بہت سارے فوسل دریافت کیۓاور بہت زیادہ تعداد میں پودوں اور جانوروں کا مشاہدہ کیا ان مشاہدات کو اس نے بڑی تفصیل سے قلم بند کیا۔ان مشاہدات کی بنیاد پر اسنے بے شمار کتابیں لکھیں جن میں سب سے مشہور اصل الانواع (Origin Of Species) ہے۔ڈارون  کے  نظریہ  ارتقاء  کو اب سائنس کی مسلمہ حقیقت کا درجہ حاصل ہے-وہ ایک [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B2 انگریز] ماہر [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%AA حیاتیات] تھا۔ اسنے نے [https: //ur. wikipedia. org/w/index. php?title=%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%DB%81_%D8%A7%D8%B1%D8%AA%D9%82%D8%A7&action=edit&redlink=1 نظریہ ارتقا] پیش کیا اور دنیا کی سوچ میں بہت بڑی تبدیلی لیکر آیا۔
  9. التین: 4
  10. Patrick Glynn,   [http: //www. amazon. com/exec/obidos/ASIN/0761519645/mmn-20 "God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Post secular World"]. California,: , Prima Publishing, California, 1997, p. 61
  11. آل عمران 110: 3
  12. الکھف: 46
  13. ال عمران14: 3
  14. Tony Davies, Human (The New Critical Idiom) , UK: Taylor & Francis e library, 2001, 2nd Edition, p. 36.
  15. الصف: 2، 3
  16. Jean Paul Sartre (1905-1980) ایک 20 ویں صدی کے فرانسیسی فلسفی، ڈرامہ نگار، ناول نگار سوانح نگار تھااور فرانسیسی فلسفے کا بنیادی نکتہ اور مارکسی نظریہ کا حامی تھا۔ jean Paul Sartre ہیومنسٹ تھا۔اور ملحد تھا 1946 میں ہیومنزم پر Existentialism is a Humanism لکھی.
  17. jean Paul Sartre. Existentialism is a Humanism (Translator, Philip Mairet Carol Macomber, France: good reads store, 1948. p5-54
  18. بنی اسرائیل: آیت 70
  19. Paul Kurtz, The Secular Humanist Prospect: In Historical Perspective, Free Inquiry Magazine, US: 2003 Vol. 23, No. 4, May. 2003
  20. Dean koontz ایک امریکی ناول نگار ہیں 1945 کو امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس کے ناول سسپنس اور ڈر و خوف سے بھر پور ہیں۔اپنے ناول By the light of the Moon ؐ میں اپنے آپ کو ہیومنسٹ کے طور پر پیش کیا ہے۔
  21. Dean Koontz, Intensity, US: Random house publishing Group 2007. Page 161
  22. النحل، آیت90
  23. = Henry Margenau, Roy Abraham Varghese. Cosmos, Bios, Theo’s: Scientists Reflect on Science, God, and the Origins of the Universe, Life, and Homo sapiens: England: Open Court Publishing, 1992, p. 241 =
  24. البقرۃ2: 21-22
  25. Lyon David: post modernity. Britain, Buckingham: open uni: press. 1994. p: 7
  26. العصر: 2، 3
  27. Available on _ http//www. humanism. org/freedom. accessed on july 2015
  28. "Universal Declaration of Human Rights" Available on _ http//[http: //www. ohchr. org/EN/UDHR/pages/introduction/ www. ohchr. org/EN/UDHR/pages/introduction/] accessed on10. 01-2013
  29. UNDP. Human Development Report, 2000 P 31
  30. عنکبوت – 8
  31. النساء 36: 4
  32. النساء37: 4
  33. Nicolas Walter,   Humanism: What's in the Word? London: RPA/BHA/Secular Society Ltd, 1937. p. 43.
  34. Encyclopedia of philosophy, New York: the Macmillan company and the free press N. York1966، p. 204
  35. Encyclopedia of religion and ethics، edinbery, &T clarh, 1937 edition 2nd, pp. 84
  36. آل عمران17: 3
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...