Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 2 Issue 2 of The International Research Journal Department of Usooluddin

تابعین کرام کا مقام و مرتبہ اور ان کی علمی و ادبی خدمات |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

تابعی کی تعریف

تابعی کی تعریف کے حوالے سے متعدد آراء ہیں۔ صاحب’’منھل الراوی‘‘تابعی کی تعریف کے حوالے سے لکھتے ہیں:


التابعی من صحب صحابیاً و قیل من راٰہ و ھوالا ظھر۔ (۱)


’’تابعی وہ ہے جس نے کسی صحابیؓ کی صحبت اختیار کی ہو اور بعض لوگوں نے یہ تعریف بیان کی ہے کہ تابعی وہ ہے جس نے کسی صحابیؓ کو دیکھا ہو اور یہ تعریف زیادہ لائقِ اعتماد ہے۔‘‘


خطیب بغدادیؒ تابعی کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:


ہومن صحب صحابیاً۔ (۲) ’’تابعی وہ ہے جس نے صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی صحبت اختیار کی ہو۔‘‘


جمہور علماء حدیث کے نزدیک تابعی وہ ہے جس نے محض حالتِ اسلام میں صحابی کو دیکھا اور اسی پر موت واقع ہوئی ہو۔

 

طبقاتِ تابعین

ویسے تو تابعین صحابہ کرامؓ کے بعد اُمت کا مقدس ترین طبقہ ہیں لیکن باہم ان کے درجات ان کی خدماتِ دینیہ کے تفاوت کے باعث متفاوت ہیں۔تمام تابعین علمی و ادبی خدمات میں یکساں نہ تھے بلکہ تمام تابعین موقع و محل کے مطابق مختلف خدماتِ دینیہ کے ساتھ وابستہ تھے۔کسی کو موقع زیادہ ملا، کسی کو کم، کوئی علمِ تفسیر میں آگے نکل گیا تو کوئی علمِ حدیث میں اور کوئی علمِ فقہ میں۔غرض اپنی طبع اور اپنے میلان کے مطابق رخ اختیار کرتے رہے۔ اسی تفاوت کی وجہ سے محدثین کرام نے صحابہ کرامؓ کی طرح انہیں بھی مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے۔


امام مسلمؒ نے تین طبقات اور ابن سعدؒ نے چار طبقات بتائے ہیں۔ امام حاکم ؒ فرماتے ہیں: تابعین کے پندرہ طبقات ہیں۔ امام مسلمؒ نے طبقات کی تقسیم صحابہؓ اور تابعین کے رواۃِ حدیث کے درجات، اکابر، متوسط اور اصاغر کے لحاظ سے کی ہے۔اس لحاظ سے تین طبقات درج ذیل ہیں:


۱۔ اکابر تابعین، عموماً اکابر صحابہؓ سے روایت کرنے والے۔


۲۔ متوسطین تابعین، صحابہ اور تابعین دونوں سے روایت کرنے والے۔


۳۔ اصاغر تابعین، اصاغر صحابہؓ سے روایت کرنے والے۔ (۳)


امام حاکمؒ نے صحابہ کرامؓ کے طبقات اور فضائل کے پیشِ نظر ان سے ملاقات اور استفادہ کرنے والوں کےدرج ذیل طبقات قائم کیے ہیں: * طبقہ اولیٰ کے تابعین وہ ہیں جن کا لحوق و لزوق عشرۃ مبشرہ کے ساتھ رہا ہے۔ ایک گروہ ان تابعین کو بھی صحابہؓ میں شمار کرتا ہے۔ ان میں سعید بن مسیب، قیس بن ابی حازم، ابو عثمان النہدی، قیس بن عباد، ابو ساسان حضین بن المنذر، ابو وائل شفیق بن سلمہ اور ابو رجاء عطاروی وغیرہ ہیں۔

  • طبقہ ثانیہ کے تابعین میں اسود بن یزید، علقمہ بن قیس و مسروق بن اجدع، ابو سلمہ بن عبد الرحمن اور خارجہ بن زید ہیں۔
  • طبقہ ثالثہ کے تابعین میں عامر بن شراحیل شعبی، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، شریح بن حارث اور ان کے اقران ہیں۔
  • تابعین کے پندرہ طبقے ہیں۔آخری طبقے کے افراد یہ ہیں: بصرے میں جنہوں نے انس بن مالکؓ سے لقا حاصل کی۔ کوفے میں جو عبداللہ بن ابی اوفی سے ملے، مدینے میں جو سائب بن یزیدؓ سے ملاقی ہوئے۔ مصر میں جنہیں عبد اللہ بن حارث بن جز سے شرف لقاء حاصل ہوا اور شام میں جو ابو امامہ باہلی سے ملے۔ (۴)

 

 

طبقہ مخضرمین

تابعین کا ایک طبقہ مخضرمین بھی ہے۔ امام حاکمؒ فرماتے ہیں:


المخضرمون من التابعین ھم الذین أدرکوا الجاھلیۃ و حیاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و لیست لھم البغوی فھم أبورجاء العطاردی و أبو وائل الأسدی و سوید بن غفلۃ و أبو عثمان النھدی و غیرھم من التابعین۔ (۵)


’’تابعین کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جنہوں نے اسلام سے قبل جاہلیت کا زمانہ پایا اور جب اسلام کا اعلان ہوا تب بھی وہ موجود تھے یعنی حیاتِ نبویﷺکو انہوں نے پایا لیکن صحبتِ نبویﷺاور شرفِ دید سے مشرف نہ ہوسکے۔ لیکن آپﷺکی وفات کے بعد انہوں نے صحابہ کرامؓ کی زیارت کی۔ چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں محدثین کرام اصطلاحاً مخضرمین کہتے ہیں۔مثلاً: ابو رجاء عطاردی، ابو وائل اسدی، سوید بن غفلۃ اور ابو عثمان نھدی وغیرہ۔‘‘


معرفۃ علوم الحدیث کے مصنف لکھتے ہیں: مخضرمین کے بعد تابعین کا ایک اور طبقہ بھی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو حضورﷺ کے زمانے میں پیدا تو ہوئے لیکن حضور ﷺسے کچھ سننے کا موقع نہیں ملا۔ ان میں یہ لوگ ہیں: یوسف بن عبد اللہ بن سلام، محمد بن ابی بکر صدیق، بشیر بن ابی مسعود انصاری، امامہ بن سہل بن حنیف، عبداللہ بن عام بن کریز، سعید بن سعد بن عبادہ، ولید بن عبادہ بن صامت، عبداللہ بن عامر بن ربیعہ، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر، ابو عبداللہ بن صنابجی، عمرو بن سلمہ جرمی، عبید بن عمیر، سلیمان بن ربیعہ اور علقمہ بن قیس۔


ایک وہ طبقہ بھی ہے جو تابعین میں شمار تو ہوتا ہے لیکن کسی صحابی سے اس کا سماع ثابت نہیں۔ ان میں ابراہیم بن سوید نخعی ہیں (جو ابراہیم بن یزید نخعی فقیہہ کے علاوہ ہیں) ان کی روئت علقمہ اور اسود سے تو صحیح ہے لیکن انہوں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا۔ نیز بکیر بن ابی سمیط بھی انہیں میں ہیں۔ان کی کوئی روایت انس سے ثابت نہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان سے قتادہ ساقط ہوگئے ہیں۔ ان میں بکیر بن عبد اللہ بن اشج بھی ہیں۔ ان کا سماع عبد اللہ بن حارث بن جزء سے ثابت نہیں۔ ان کی روایات تابعین سے ہیں۔ ان میں ثابت بن عجلان انصاری بھی ہیں جن کا ابن عباس سے سماع صحیح نہیں بلکہ عطاء اور سعید بن جبیر کے واسطوں سے ہے۔ انہی میں سعید بن عبد الرحمان رقاشی اور ان کے بھائی واصل ابو حمزہ ہیں۔ ان دونوں میں کسی کا انسؓ سے سماع ثابت نہیں۔


ایک طبقہ ایسابھی ہے جو اگرچہ صحابہ سے ملا ہے مگر عام لوگوں کے نزدیک اس کا شمار تبع تابعین میں سے مثلاً: ابوالزناد اور عبداللہ بن ذکوان جن کو عبد اللہ بن عمر، انس بن مالک اور ابو امامہ بن سہل کی لقا حاصل ہے۔یا ہشام بن عروہ جو عبد اللہ بن عمر اور جابر بن عبداللہ کے پاس لائے گئے تھے۔ یا موسیٰ بن عقبہ جنہوں نے انس بن مالک اور ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص کو دیکھا ہے۔ (۶)

 

افضل ترین تابعی

ویسے تو تمام تابعین کرام ان انعامات کے مستحق ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺنے ان کے لئے بیان کیے ہیں مگر ان میں سے کچھ ایسے تابعین بھی ہیں جو اپنی خدمات دینیہ کی وجہ سے زیادہ ممتاز ہیں۔علماءکرام نے ان تابعین کے اسماء گرامی کی نشاندہی فرمائی ہے اور انہیں اکابر تابعین شمار کیا ہے۔تدریب الراوی میں ہے:


’’اکابر تابعین سات فقہاء ہیں: ابن المسیب، قاسم بن محمد، عروہ بن زبیر، خارجہ بن زید، ابو سلمہ بن عبدالرحمان، عبید اللہ بن عتبہ اور سلیمان بن یسار۔ عبداللہ بن مبارک نے سالم بن عبد اللہ کو ابو سلمہ کی جگہ شمار کیا ہے۔اور ابو الزناد نے ان دونوں کی جگہ پر ایک اور تابعی ابو بکر بن عبد الرحمان کو اکابر تابعین میں شمار کیا ہے۔‘‘ (۷)


یحییٰ بن سعید قطانؒ نے ان فقہاء مدینہ کی تعداد بارہ بتائی ہے۔ (۸) ان سات یا بارہ فقہاء تابعین میں سے کون سا تابعی افضل ترین تابعی ہے، اس بارے میں بھی محدثین کرامؒ کی مختلف آراء ہیں جوذیل میں بیان کی جارہی ہیں: * ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی فرماتے ہیں: اہل مدینہ کے نزدیک افضل ترین تابعی سعید ابن المسیب ہیں۔ اہلِ کوفہ کے نزدیک اویس قرنی اور اہلِ بصرہ کے نزدیک حسن بصری افضل ترین تابعی ہیں۔ابن الصلاح نے اہلِ بصرہ کے قول کو مستحسن قرار دیا ہے۔

  • علامہ عراقی ؒفرماتے ہیں: صحیح اور درست بات وہ ہے جس کی طرف اہلِ کوفہ گئے ہیں اور اس پر دلیل حضرت عمرؓ کی وہ حدیث ہے جسے امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: میں نےآنحضرتﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے افضل تابعی وہ آدمی ہے جس کا نام اویس ہے۔علامہ عراقیؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس اختلاف کا بہترین حل ہے۔ اور رہی یہ بات کہ امام احمد بن حنبل ؒ اور دیگر محدثین نے حضرت سعید بن المسیب کو افضل ترین تابعی قرار دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ شاید حضرت اویس قرنی ؒ کی فضیلت والی حدیث ان حضرات تک نہ پہنچی ہو۔ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے سعید ابن المسیب کو ازروئے علم افضل قرار دیا ہو نہ کہ ازروئے خیر۔
  • علامہ بلقینی ؒ فرماتے ہیں: زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ یوں کہاجائے کہ زہد و تقویٰ کے لحاظ سے حضرت اویس قرنیؒ افضل ہیں اور خبر و روایت کے لحاظ سے سعید ابن المسیب۔ (۹)
  • ابن ابی داؤد فرماتے ہیں: تابعیات میں افضل ترین تابعیہ حفصہ بنت سیرین اور عمرہ بنت عبد الرحمان ہیں۔ (۱۰)

 

 

زمانہ تابعین کی ابتداء

زمانہ تابعین کی ابتداء کا درست تعین کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ بعض تابعین کی پیدائش قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں ہوئی تھی۔ بعض آپ ؐکی حیاتِ طیبہ کے ابتدائی دنوں میں پیدا ہوئے۔اور بعض کی پیدائش آپ ؐکی وفات کے زمانے میں ہوئی ۔مگر زیارتِ رسولﷺکاشرف حاصل نہیں ہوا، چنانچہ صحابیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔ایسے تمام افراد تابعین میں سے ہیں۔اب اگر ان افراد کی پیدائش کا لحاظ رکھتے ہوئے زمانہ تابعین کی ابتداء کا تعین کیا جائے تو تابعین کا زمانہ آپ ؐکے زمانے اور صحابہ کرامؓ کے زمانے سے یا توپہلے شروع ہوجاتا ہے یا تابعین کا زمانہ ان دونوں زمانوں کے ہم عصر ہوجاتا ہے اور یہ بات اہلِ علم کے ہاں یقیناً ناقابلِ تسلیم ہے۔علاوہ ازیں ایسی کوئی مضبوط تاریخی روایت بھی نہیں جس میں اس زمانے کی ابتداء کی کوئی واضح صورت نظر آتی ہو جبکہ صحابہ کرامؓ کے زمانے کی ابتداء کی صورت بالکل واضح ہے کیونکہ ان کا زمانہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب فردِ اول نے اسلام قبول کیا تھا۔

 

زمانہ تابعین کی انتہاء

جس طرح زمانہ تابعین کی ابتداء کی تعیین مشکل ہے اسی طرح انتہاء معلوم کرنا بھی آسان نہیں ہے جبکہ صحابہ کرامؓ کے زمانے کی انتہاء تقریباً بالکل واضح ہے ۔کیونکہ بعض صحابہؓ کی روایات ایسی موجود ہیں جن میں ان کے آخری صحابی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ ؐ کی ایک حدیث بھی ہے جس سے زمانہ صحابہؓ کی انتہاء معلوم کرنے میں مدد ملتی ہے، البتہ تابعین کے زمانے کے حوالے سے ایک تاریخی روایت ایسی ملتی ہے کہ اگر وہ علماء محدثین کے ہاں درست تسلیم ہو تو زمانہ تابعین کی انتہاء یقیناً معلوم ہوسکتی ہے۔ وہ روایت خلف بن خلیفہ کے حوالے سے ہے۔ یہ شخصیت علماء حدیث کے ہاں مختلف فیہ ہے۔ بعض محدثین نے انہیں تابعین میں شمار کیا ہے اور بعض محدثین نے تبع تابعین میں شمار کیا ہے۔صاحب تہذیب الکمال خلف بن خلیفہ کے بارے میں لکھتے ہیں:


کان بالکوفہ ثم انتقل الی واسط فسکنھا مدۃ ثم تحول الی بغداد فاقام بھا الی حین و فاتہ۔ رای عمرو بن حریث صاحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ھو غلام صغیر ابن ست سنین۔ (۱۱)


’’خلف بن خلیفہ پہلے کوفہ میں تھے پھر واسط منتقل ہوگئے اور وہاں ایک عرصہ تک مقیم رہے، پھر بغداد چلے آئے اور تادم حیات وہیں مقیم رہے۔ انہوں نے عمرو بن حریث ؓ صحابی رسولﷺکو دیکھا جبکہ وہ چھ سال کے بچے تھے۔‘‘


تہذیب الکمال کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلف بن خلیفہ تابعی ہیں کیونکہ صحابیؓ کی زیارت حاصل ہے اور زیارت صحابی تابعی ہونے کے لئے کافی ہے۔ ان کی وفات کے بارے میں ابن سعد فرماتے ہیں:


کان ثقۃ مات ببغداد سنۃ احدیٰ و ثمانین و مأۃ و ھو ابن تسعین سنۃ اونحوھا۔ (۱۲)


’’خلف بن خلیفہ ثقہ تھے اور انہوں نے ۱۸۱ھ میں بغداد میں وفات پائی جبکہ وہ تقریباً نوے سال کی عمر کے تھے۔‘‘


شاید اسی روایت کی بنیاد پر علامہ سخاویؒ صاحب فتح المغیث خلف بن خلیفہ کے بارے میں فرماتے ہیں: خلف بن خلیفہ آخری تابعی ہیں اور ان کی وفات ۱۸۱ھ میں ہوئی۔ (۱۳) اس روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خلف بن خلیفہ تابعی ہیں اور آخری تابعی ہیں۔اور ان کے رخصت ہونے پر دنیا ان مقدس افراد کے وجودِ مسعود سے محروم ہوگئی۔ اس طرح ۱۸۱ھ زمانہ تابعین کی انتہاء ہے۔

 

تابعین کی فضیلت و منقبت

صحابہ کرامؓ کے بعد اُمت میں جو مقام و مرتبہ تابعین کو حاصل ہے وہ کسی اور فردِ اُمت کو حاصل نہیں۔ کیونکہ تابعین وہ خوش قسمت افراد ہیں جنہیں زیارتِ بنویﷺتو حاصل نہیں مگر صحابہ کرامؓ کی زیارت کا ضرور موقع ملا ہے اور یہ وہ سعادت ہے جو تابعین کے علاوہ اُمت کے کسی اور فرد کو حاصل نہیں ہے۔ان حضرات کی فضیلت و منقبت کے لئے اتنا ہی کافی ہےکہ ان حضرات نے صحابہ کرامؓ کی آغوش میں تربیت حاصل کی، ان سے علوم و فیوض کا اکتساب کیا۔ان کے اخلاصِ نیت اور حسنِ عمل کی بدولت انہیں بھی صحابہ کرامؒ کی طرح دربارِ خداوندی سے شرافت و عزت کا اعزاز حاصل ہوا۔ اگر صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں تو اس معیار پر اترنے والی پہلی جماعت تابعین کی جماعت ہے۔


صحابہ کرامؓ نے علومِ نبوت کی اشاعت کے لئے قدم بڑھائے تو انہوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ غلبہ اسلام کی کوششوں میں ان کے شانہ بشانہ رہےاور ایک عظیم الشان تاریخ رقم کی۔ چاردانگِ عالم میں اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ میں انہی دو طبقوں نے جو خدمات سر انجام دیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جہاں صحابہ کرامؓ کی تحسین کرتا ہے وہاں انہیں بھی اس کا حصہ دار بناتا ہے۔

 

تابعین کی فضیلت قرآن کی روشنی میں

ویسے تو تابعین کی فضیلت کے حوالے سے قرآن مجید میں متعدد آیات وارد ہوئی ہیں، یہاں پر صرف دو آیات بطورِ مثال درج ذیل ہیں: سورۃتوبہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ میں سے جہاں مہاجرین و انصار کا مقام و مرتبہ بیان کیا، ان سے راضی ہوئے اور ان کے لئے اعلانِ جنت کیا، وہیں تابعین کرام کو بھی ان کےساتھ شامل کردیا چنانچہ یہ تابعین کرام کی بہت بڑی شان ہے۔ ارشادفرمایا گیا:


والسابقون الاولون من المہاجرین و الانصار والذین اتبعوھم باحسان۔ رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ و اعدلھم جنات تجری تحتھا الانھٰر۔ خالدین فیھا ابداً۔ ذٰلک الفوز العظیم۔ (۱۴)


’’مہاجرین و انصار میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والے اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیر و ہوئے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘


اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں مہاجرین و انصار کے ساتھ تابعین کے لئے بھی رضاو جنت کا اعلان کیا ہے جو کہ طبقہ تابعین کی فضیلت کی بہت بڑی شہادت ہے۔اسی طرح سورۃ الجمعہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کو جہاں بعثتِ نبویﷺکا مخاطب قرار دیا ہے وہیں تابعین کو بھی اس میں شامل فرمایا ہے۔ چنانچہ بعثتِ بنویﷺکے اثرات، قرآن کی تلاوت، تزکیۂ قلوب و اذہان اور کتاب و حکمت کی تعلیم وغیرہ اصالۃ صحابہ کرامؓ پر پڑے اور تبعاً تابعین کرامؒ پر پڑے۔جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:


ھو الذی بعث فی الامیین رسولاً منھم یتلوا علیھم اٰیٰتہٖ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ، و ان کانوا من قبل لفی ضلٰل مبین۔ و اٰخرین منھم لما یلحقوا بھم و ھوالعزیز الحکیم۔ (۱۵)


’’وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے وہ واضح گمراہی میں تھے اور ان میں سے دوسرے بھی ہیں جو ابھی تک ان سے نہیں ملے۔ وہ زبردست حکمت والا ہے۔‘‘


چنانچہ یہ آیت بھی تابعین کرامؒ کے حوالے سے عظمت کی واضح شہادت ہے۔

 

تابعین کرام کی فضیلت احادیث کی روشنی میں

جس طرح قرآن مجید میں فضیلت تابعین کے واضح نقوش ملتے ہیں اسی طرح احادیثِ نبویﷺمیں بھی تابعین کی منقبت کے حوالے سے متعدد آثار ملتے ہیں۔ چنانچہ تابعین کی فضیلت کے حوالے سے چند احادیث و آثار درج ذیل ہیں:


۱۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا:


خیر امتی القرن الذی بعثت فیہ، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم، ثم یخلف قوم یحبون السمانہ، یشھدون قبل ان یستشھدوا۔ (۱۶)


’’میری اُمت میں بہترین زمانہ وہ ہے جس میں میں مبعوث ہوا۔ پھر اس کے بعد (صحابہ) کا، پھر اس کے بعد (تابعین) کا، پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو تکبر پسند ہوگی اور گواہی طلب کیے جانےسے قبل گواہی دے گی۔‘‘


اس حدیثِ مبارکہ میں آپﷺنے صحابہؓ کے بعد تابعین کے زمانے کو بہترین قرار دیا ہے اور اسے متصف بالخیر بتایا ہے۔


۲۔ نبی کریمﷺنے فرمایا:


لا تمس النار مسلما راٰنی او رای من رانی۔ (۱۷)


’’جس مسلمان نے مجھے دیکھا یا میرے اصحاب کو دیکھا تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔‘‘


اس حدیث مبارکہ میں آپﷺنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ تابعین کےلئے بھی نجات من النار کا مژدہ سنایا ہے۔


۳۔ حضورانورﷺکا ارشاد ہے:


اللھم اغفر للصحابہ و لمن رای و لمن رای۔ (۱۸) ’’اے اللہ !میرے اصحاب کی مغفرت فرما اور ان کی بھی جنہوں نے انہیں دیکھا۔‘‘


اس حدیث مبارکہ میں آپﷺنے اپنے اصحابؓ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی ہے اور ان کے بعد آنے والے تابعین کرام کی بھی مغفرت کی دعا فرمائی ہے۔ جن کی مغفرت کیلئے اللہ کے رسولﷺدستِ مبارک بلند کریں ان کی شانِ عظمت کے کیا کہنے۔


امام حاکمؒ نے اپنی مستدرک میں تابعین کے فضائل کے بیان میں ایک باب قائم کیا ہے اور اس کے تحت تابعین کے فضائل کے حوالے سے متعدد احادیث روایت فرمائی ہیں۔جن میں سے چند درج ذیل ہیں:


۴۔ حضرت زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیں:


قالت الانصارثم یا رسول اللہ ان لکل نبی اتباعا و انا قد اتبعناک فادع اللہ ان یجعل اتباعنا منا فدعالھم ان یجعل اتباعھم منھم۔ (۱۹)


’’ایک مرتبہ انصار نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ!ہر نبی کے پیروکار ہیں اور ہم نے آپ ؐکااتباع کیا ہے۔ (یعنی ہم آپؐ کے پیروکار ہیں) آپؐ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے اتباع کو ہم میں سے (یعنی ہم جیسا) بنائے۔چنانچہ آپؐ نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرامؓ کے اتباع (یعنی تابعین) کو ان میں سے (ان جیسا) بنائے۔ اس حدیث میں بھی تابعین کے لئے آنحضرتﷺکا دعا فرمانا مذکور ہے۔‘‘


۵۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:


قال رسول اللہ ﷺ ثم ان اناساً من امتی یاتون بعدی یود احدھم لو اشتری رؤیتی باھلہ ومالہ۔ (۲۰)


’’رسولﷺنے فرمایا کہ میرے بعد میری اُمت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو تمنا کریں گے کہ کاش وہ اپنے خاندان اور مال کے بدلے میں میری زیارت حاصل کرسکتے۔‘‘


اس حدیث سے تابعین کا شوقِ زیارتِ رسولﷺواضح ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں اپنے اہل و مال کے مقابلے میں اللہ کے رسولﷺکی کس قدر قدرو قیمت ہے۔


طبقہ تابعین کے سرخیل حضرت اویس قرنی ؒہیں۔آپؒ اگرچہ عہدِ رسالتﷺمیں موجود تھے، ملاقات نہ ہونے کے باوجود آپؐ نے نہ صرف ان کی فضیلت بیان فرمائی بلکہ انہیں’’خیر التابعین‘‘قرار دیا۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ سے ان کا غائبانہ تعارف کرایا اور ان سے ان کی ملاقات کی پیشین گوئی بھی فرمائی۔ امام مسلمؒ نے حضرت اویس قرنیؒ کی فضیلت کے حوالے سے ایک باب باندھا ہے اور احادیث نبویہﷺروایت فرمائی ہیں۔


۶۔ صحیح مسلم میں حضرت عمرؓ کی روایت ہے:


انی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ثم ان خیر التابعین رجل یقال لہ اویس و لہ والدۃ وکان بہ بیاض فمروہ فلیستغفرلکم۔ (۲۱)


’’میں نے رسولﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے افضل تابعی وہ شخص ہے جس کا نام اویسؒ ہے۔ اس کی ماں بھی ہے، اس کے جسم پر برض کے نشانات ہیں۔ اس سے درخواست کرو کہ وہ تمہارے لیے دعائے مغفرت کرے۔‘‘


اس کے بعد حضرت عمرؓ حضرت اویس ؒ کی تلاش میں رہے۔ آخر کار حضرت عمرؓ کی حضرت اویسؒ سے ملاقات ہوگئی۔ جب یمن سے فوجی امداد آئی اور ان میں حضرت اویسؒ بھی موجود تھے۔ آپؒ نے حضرت عمرؓ کے لئے ان کے کہنے پر دعائے مغفرت فرمائی۔ بعض احادیث میں آنحضورﷺنے تابعین کے متعلق بشارت دی ہے کہ وہ دینی خدمات سرانجام دیں گے۔ اس کے لئے خواہ انہیں مشقت ہی اٹھانا پڑے۔


۷۔ ایک اور مقام پر رسول اللہﷺنے فرمایا:


لو کان الدین ثم الثریا لذھب بہ رجل من فارس او قال من ابناء فارس۔ (۲۲)


’’اگر دین آسمانوں میں ثریا ستاروں پر بھی ہوگا تو فارس کا آدمی یا فارس کے کچھ آدمی اسے ضرور پالیں گے۔‘‘


علامہ جلال الدین سیوطیؒ اور علامہ ابن حجر مکیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کو اس حدیث کا مصداق قرار دیا ہے۔چنانچہ یہ حدیث بھی تابعین کی فضیلت پر دال ہے۔

 

تابعین کرامؒ کی علمی و ادبی خدمات

تابعین کرام کی مقدس جماعت علم و عمل میں اصحابِ رسولؓ کا عکس و پرتو تھی۔ انہوں نے جذبے و لگن کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی علمی اور اخلاقی وراثت کو مسلمانوں میں پھیلایا۔ قرآن، حدیث، فقہ، عربی ادب اور دیگر علوم میں ایسی بنیادی خدمت سر انجام دی کہ بعد میں انہی خدمات کے بل بوتے پر علوم و فنون کو وسعت ملی اور اسلامی تہذیب و تمدن کو فروغ ملا۔عہدِ تابعینؒ میں عہدِ رسالت سے بُعد کی وجہ سے اطراف سے قرآن و حدیث کے مقابلے میں کچھ کدورتیں آگئی تھیں۔ اسی طرح سیاسی نظام میں بھی کچھ خرابیاں آگئی تھیں۔تابعین کرامؒ کے لئے یہ ایک چیلنج تھا، چنانچہ انہوں نے اس گردوغبار کو صاف کرنے کی پوری کوشش کی۔ قرآن و حدیث کے مقابلے میں گردوغبار کو انہوں نے پوری طرح صاف کردیا۔


قرآن و حدیث کے مقابلے میں تحریفات اور بے جا تاویلات کے واقع ہونے اور اس کی سرکوبی کے لئے عادل اہلِ علم کے کھڑے ہونے کے حوالے سے آپؐ نے پیش گوئی دی تھی اور وہ تابعین کرامؒ کے حوالے سے درست ثابت ہوئی کہ انہوں نے ان باطل کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دینی علوم کی حفاظت کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔چنانچہ سننِ بیہقیؒ میں روایت ہے:


قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم یرث ھذ االعلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تأویل الجاہلین و انتحال المبطلین و تحریف الغالین۔ (۲۳)


’’رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں میں سے ذی عدل اہلِ علم اس علمی وراثت کی ذمہ داری لیں گے اور وہ اس سے جہلاء کی بے جا تاویلات، اہل باطل کی آمیزش اور سرکشوں کی تحریفات کو دورکریں گے۔‘‘


اس حدیث پر خطیب بغدادیؒ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ حدیث آنحضورﷺکی طرف سے اس بات پر شہادت ہے کہ تابعین کرامؒ امورِ دین کے ماہرین اور مسلمانوں کے امام ہیں کیونکہ انہوں نے اہلِ باطل کی تحریف و آمیزش اور جہلاء کی تاویل سے شریعت کو محفوظ کردیا ہے۔ دینی امور میں ان کی طرف رجوع کرنا اور ان پر اعتماد کرنا واجب ہے۔ (۲۴)


البتہ سیاسی نظام کی بہتری کے لئے ان کی کوششیں مسلسل جاری رہیں اور ان کوششوں سے اگر چہ مکمل اصلاح نہ ہو سکی لیکن باطل نظام کے مقابلے میں اسلام کا مصفا سرچشمہ سامنے آگیا اور وقتاً فوقتاً اس کی برکات سامنے آتی رہیں اور اُمت ان سے فیضیاب ہوتی رہی۔الغرض تابعین کرامؒ نے مذہبی علوم کی حفاظت کی اور ان کی اشاعت کو یقینی بنایا۔ انہوں نے نئے نئے علوم کی بنیاد رکھی جو بعد میں ترقی یافتہ تمدن کے لئے پہلی اینٹ ثابت ہوئے۔چنانچہ اس دور میں اگر تابعین کرامؒ ان نئےعلوم کا کشفِ نقاب نہ کرتے تو یقیناً آج کی تیز رفتار دنیا ابھی تک گھٹنوں کے بل چل رہی ہوتی ۔ اس کے علاوہ تابعینؒ نے اسلامی سلطنت کی حدود کو شرق و غرب میں پھیلایا۔ چنانچہ انہی حضرات کی کاوشوں کی بدولت آج دنیا کے کثیر ممالک اسلامی طور طریقوں سے وابستہ ہیں۔بہر کیف آئندہ سطور میں تابعین کرامؒ کی چند بنیادی خدمات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔

 

قرآ ن و تفسیر کے حوالے سے تابعین کی خدمات

قرآن مجید کی جمع و تدوین کا کام عہدِ نبویﷺاور عہدِ صحابہؓ میں مکمل ہوچکا تھا۔معانی و تفسیر کے حوالے سے تو قرآن کے دروازے تا قیامت کھلے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس میدان میں عہدِ تابعین میں کام کی گنجائش تھی۔ چنانچہ تابعین کرامؒ نے معانی و تفسیر کے حوالے سے ایسی اصولی اور اٹل خدمت سرانجام دی کہ اہلِ باطل کے لئے سرکشی کا موقع نہیں چھوڑا۔ اس طرح قرآن کے معنی و بیان کومحفوظ کردیا۔


صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺسے قرآن لیا اور تابعین نے صحابہ کرامؓ سے قرآن مجید حاصل کیا اور اس کی تلاوت پر قائم رہے ۔ اس کے محکمات پر عمل کیا۔ اس کے متشابہات پر ایمان لائے اور ان متشابہات کو اللہ کی طرف سے سمجھتے رہے اور انہوں نے کسی آیت میں بھی اختلاف نہیں کیا بلکہ ایسا کرنے والے اور متفقہ طریقہ تلاوت سے ہٹ کر تلاوت کرنے والے کو اجماعِ اُمت سے خارج سمجھا۔ انہوں نے صحابہ کرامؓ کے علومِ قرآن اور قرآن کے فرائض، اس کی حدود، اوامرو نواہی اور ناسخ و منسوخ کو اُمت تک پہنچایا اور اس میں ذرا بھی خیانت نہیں کی۔


چنانچہ جب ہم طبقاتِ مفسرین کا مطالعہ کرتے ہیں تو تابعین کی ایک بہت بڑی تعداد اس علم سے وابستہ نظر آتی ہے بلکہ مفسرین تابعین کی تعداد مفسرین صحابہؓ سے زیادہ ہے کیونکہ ایسے صحابہ کرامؓ کی تعداد دس سے زیادہ نہیں جو علومِ تفسیر سے وابستہ تھے۔ جبکہ تابعین کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جس نے اپنی زندگی اس علم کے لئے وقف کردی تھی اور جاتے جاتے علمِ تفسیر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اُمت کےحوالے کردیا۔ چنانچہ تب سے اب تک لکھی جانے والی تفاسیر میں تابعین کی علمی کاوشوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ مفسرین تابعین کو تین طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔


۱) طبقہ اہلِ مکہ۲) طبقہ اہلِ مدینہ۳) طبقہ اہلِ عراق


""۱۔ طبقہ اہلِ مکہ


اہلِ مکہ میں سے طبقہ مفسرین وہ ہے جنہوں نے ترجمان القرآن سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے علمِ تفسیر حاصل کیا۔ یہی وہ طبقہ ہے جو علمِ تفسیر میں سرخیل ہے اور علمِ تفسیر کا بہت بڑا حصہ انہی حضرات سے مروی ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:


اعلم الناس بالتفسیر اہل مکۃ لانھم اصحاب عبداللہ بن عباس۔ (۲۵)


طبقہ اہلِ مکہ میں درج ذیل تابعین شامل ہیں:


۱۔ مجاہد بن جبیرؒ: حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے بڑی حزم و احتیاط سے اپنے شیخ سے علمِ تفسیر حاصل کیا۔ وہ خود فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن عباس پر تین بار قرآن پڑھا۔ میں ہر آیت پر ٹھہر جاتا اور ان سے پوچھتا کہ یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی اور کیسے نازل ہوئی؟علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:


اذ جاء ک التفسیر عن مجاہد فحسبک بہ۔ (۲۶) ’’جب حضرت مجاہدؒ کی بیان کردہ تفسیر تمہارے سامنے آئے تو وہ کافی ہے۔‘‘


۲۔ عطاء بن ابی رباحؒ: کو قرآن، حدیث، فقہ، جملہ مذہبی علوم میں پوری دستگاہ حاصل تھی۔ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:


ما لقیت احداً افضل من عطاء بن ابی رباح۔ (۲۷)


۳۔ عکرمہ مولی ابن عباسؓ: حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے غلام تھے۔آپ نے مختلف علاقوں کا سفر کیاجس میں بلادِ مغرب بھی شامل ہے ۔آپ کے بارے میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں:


ما بقی احد اعلم بکتاب اللہ من عکرمہ۔ (۲۸)


۴۔ طاووس بن کیسان الیمانیؒ: علومِ تفسیر کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ قوتِ حافظہ اور ذکاء خوب حاصل تھا۔ تقریباً ۵۰ صحابہ کرامؓ سے ملاقات کی۔


۵۔ سعید بن جبیرؒ: ان کا اکابر تابعین میں شمار ہوتا ہے۔ علمِ تفسیر کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کی۔ جو سنتے تھے وہ انہیں یاد ہو جاتا تھا۔آپ کے بارے میں سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں:


خذ وا التفسیر عن اربعۃ، عن سعید بن جبیر و مجاہد و عکرمہ و الضحاک۔ (۲۹)


۲۔ طبقہ اہلِ مدینہ


طبقہ اہلِ مدینہ میں جو علمِ تفسیر کے حوالے سے زیادہ مشہور ہوئے وہ تابعین درج ذیل ہیں:


۱۔ محمد بن کعب القرظی: علم کے لحاظ سے مدینہ کے بڑے علماء میں ان کا شمار تھا۔ علمِ تفسیر اور علمِ حدیث میں درک حاصل تھا۔آپ کے بارے میں عون بن عبد اللہؒ کا بیان ہے:


ما رأیت احدا اعلم بتاویل القرآن منہ۔ (۳۰) ’’میں نے محمد بن کعب القرظیؒ سے تاویل قرآن کا بڑا عالم نہیں دیکھا۔‘‘


۲۔ ابو العالیہ الریاحیؒ: اہلِ بصرہ کے تابعین میں سے ہیں۔ علمِ تفسیر اور فقہ کی وجہ سے مشہور تھے۔ انہوں نے حضرت ابی بن کعبؓ کو خود قرآن سنایا اور دیگر صحابہؓ سے سنا۔


۳۔ زید بن اسلمؒ: اہلِ مدینہ کے فقہیہ اور محدث تھے۔ علمِ تفسیر میں کمال حاصل تھا۔ چنانچہ علمِ تفسیر کے حوالے سے ان کی کتاب بھی ہے، مسجد نبوی ؐمیں ان کا حلقہ درس ہوتا تھا۔ حضرت علی بن الحسینؓ اس میں شریک ہوتے تھے۔۱۳۶ ہجری میں وفات پائی۔


۳۔ طبقہ اہلِ عراق


طبقہ اہلِ عراق میں بھی بکثرت تابعین علمِ تفسیر کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ تابعین حسبِ ذیل ہیں:


۱۔حسن بصریؒ: علمی کمالات کے لحاظ سے سرخیل علماء اور اخلاقی و رروحانی فضائل کے اعتبار سے سرتاجِ اولیاء تھے۔ ان کے والدین غلام تھے۔حسن بصریؒ ایسے زمانے میں پیدا ہوئے کہ جب صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تقریباً ایک سو بیس صحابہ کرامؓ کو دیکھا۔ بصرہ کے بہت بڑے فصیح، عابد اور فقہیہ تھے۔


۲۔ مسروق بن اجدعؒ: کوفہ کے کبار تابعین میں سے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے علومِ قرآن کو حاصل کیا۔ علمِ تفسیر کی وجہ سے مشہور تھے۔شیخ بخاری علی بن مدینیؒ آپ کے حوالے سے فرماتے ہیں:


ما أقدم علی مسروق من أصحاب عبد اللہ بن مسعود أحدا، صلی خلف أبی بکر، و لقی عمر و عثمان۔ (۳۱)


۳۔ قتادہؒ: حضرت قتادہؒ بصرہ کے تابعین میں سے ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ، سعید بن المسیبؓ اور بہت سے صحابہؓ سے روایت کرتے ہیں۔آپ علمِ تفسیر اور فقہ کے امام تھے۔


۴۔ عطاء الخراسانیؒ: غایت درجے کے زاہد اور متقی تھے۔فقہ، حدیث اور تفسیر میں مشہور تھے۔ اشاعتِ علم کا بہت شوق تھا۔ جب کوئی نہ ملتا تو عام لوگوں کے پاس چلے جاتے اور ان تک علم پہنچاتے تھے۔


۵۔ مرۃ الھمزانیؒ: انہوں نے بکثرت صحابہؓ سے ملاقات کی۔ بہت متقی، پرہیزگار اور عبادت گزار تھے۔ علمِ تفسیر میں مہارت حاصل تھی۔


یہ وہ تابعین حضرات ہیں جنہوں نے صحابہ کرامؓ سے علوم و معارف حاصل کیے اور ان سے تبع تابعین اور ان کے بعد دیگر علماء اُمت نے ان سے حاصل کیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دین، اپنی کتاب، اپنی شریعت، اپنے علوم و معارف کو سینہ درسینہ اور نسل در نسل محفوظ رکھا ہے۔بہر کیف ان مذکورہ بالا مفسرینِ تابعین کے بارے میں علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں:


فھولاء قدما ء المفسرین، و غالب اقوالھم تلقوھا من الصحابۃ، ثم بعد ھذہ الطبقۃ ألّفت تفاسیر تجمع أقوال الصحابۃ و التابعین، کتفسیر (سفیان بن عیینۃ) و (وکیع بن الجراح) و (شعبۃ بن الحجاج) و (یزید بن ھارون) و آخرین، ثم جاء بعدھم (ابن جریر الطبری) و کتابہ أجل التفاسیر و أعظمھا۔ (۳۲)


’’یہ اولین مفسرین کی جماعت ہے۔ ان حضرات نے علومِ تفسیر کا غالب حصہ صحابہ کرامؓ سے حاصل کیا۔ اس طبقے کے بعد صحابہ و تابعین کے علمی اقوال و تفسیری نکات پر مشتمل کتب تفاسیر تالیف کی گئیں وغیرہ۔ پھر ان کے بعد ابن جریر طبریؒ آئےاور ان کی کتابِ تفسیر تمام تفاسیر میں نمایاں مقام کی حامل ہے۔‘‘


علمِ حدیث کے حوالے سے تابعینؒ کی خدمات


جس طرح علمِ تفسیر کے حوالے سے تابعینؒ کی خدمات مسلم ہیں اسی طرح علم حدیث کے حوالے سے بھی ان حضرات کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان حضرات نے صحابہ کرامؓ کی روشِ حیات کو اپنایا اور علوم دینیہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا اولین وظیفہ قرار دیا۔ چنانچہ تابعین کرامؒ نے آنحضورﷺکی حیاتِ طیبہ کے حالات و واقعات اور احکام و قضایا کی تعلیم و تبلیغ کا بڑا بلیغ اہتمام کیا۔ صحابہ کرام ؓکے سامنے زانوئے تلمذتہہ کر کے ان تمام روایات، واقعات اور حالات کو پوچھ پوچھ کر ایک ایک کے دروازے پر جا جا کر، مختلف علاقوں کے سفر کرکے اور بوڑھے، جوان، مرد اور عورت سے تحقیق کر کے حدیث و سنت کے ذخیرے کی حٖفاظت کی۔محمد بن شہابؒ، زہریؒ، ہشام بن عروہؒ، قیس بن ابی حازمؒ، عطا بن ابی رباحؒ، سعید بن جبیرؒ وغیرہ ہزاروں تابعین ایسے ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر ممکنہ کوششوں سے دن رات ایک کرکے گوشے گوشے سے حدیث و سنت کا ایک ایک دانہ جمع کیا۔ انہی انتھک کوششوں کے نتیجے میں آج پیغمبر اسلامﷺکی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے اور انسانیت کے لئے باعثِ رحمت و رہنمائی ہے۔


تابعین کرامؒ کا علمِ حدیث سے شغف کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ مختلف علاقوں میں صحابہ کرامؓ سے حالاتِ نبویؐ معلوم کرنے کے حوالے سے تابعینؒ کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ جسے جہاں موقع میسر تھا وہیں سے جامِ علم نوش کر لیتا اور اگر کسی دوسرے علاقے میں کسی نئی بات، کسی نئی حدیث اور کسی نئے واقعے کے بارے میں خبر ہوتی تو وہاں کے لئے رختِ سفر باندھ لیتا۔


تراجم اور رجال کی کتابوں میں اس طرح کے سینکڑوں واقعات ملتے ہیں جن سے تابعین کرامؒ کے علم حدیث سے شغف اور ان کے علمی اسفار کی بابت معلوم ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ محدث نیشاپوریؒ نے ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘میں ان تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے نام گنوائے ہیں جنہوں نے علمی سفر کیے۔ چند واقعات بطور نمونہ و مثال ذیل میں بیان کیے جائیں گے۔ہشیم تابعیؒ فرماتے ہیں:


کنت اکون بأحد المصرین فیبلغنی أن بالمصر الآخر حدیثافأرحل فیہ حتی اسمعہ و أرجع۔ (۳۳)


’’اگر میں کسی شہر میں ہوتا اور مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ کسی دوسرے شہر میں حدیث ہے تو میں سفر کرکے وہاںچلا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس کا سماع کرتا اور واپس لوٹتا۔‘‘


سعید بن المسیبؒ جو کہ جامع العلوم ہیں، کبار تابعینؒ میں سے ہیں۔ انہیں طلب حدیث کا بہت زیادہ شغف تھا۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں: ان کنت لأسیر الأیام و اللیالی فی طلب الحدیث الواحد۔ (۳۴)


’’میں صرف ایک حدیث کی تلاش میں کئی دن اور کئی راتیں سفر کرتا تھا۔‘‘


تابعین کرامؒ کا طلب حدیث کے حوالے سے یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں ہزاروں طالبینِ حدیث کا ہجوم تھا۔ چنانچہ محمد بن سیرین جوکہ جلیل القدر تابعی ہیں، فرماتے ہیں:


قدمت الکوفہ و بھا اربعۃ الاف یطلبون الحدیث۔ (۳۵) ’’میں کوفہ آیا تو وہاں علمِ حدیث کے ہزار ہا طالبِ علم موجود تھے۔‘‘


عبید اللہ بن عدیؒ جوکہ کبار تابعین میں سے ہیں، وہ طلبِ حدیث کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:


قال بلغنی حدیث ثم علیؓ فخفت ان مات أن لا أجدہ ثم غیرہ فرحلت حتی قدمت علیہ العراق۔ (۳۶)


’’مجھے ایک حدیث کے متعلق معلوم ہوا کہ اس کو حضرت علیؓ رسول اللہ ؐسے روایت کرتے ہیں: دل میں خدشہ آیا کہ کہیں خدانخواستہ ان کا انتقال ہوگیا تو پھر براہِ راست ان سے وہ حدیث نہ سن سکوں گا۔بس فوراً ہی سفر شروع کیا اور ان کی خدمت میں عراق پہنچ کردم لیا۔‘‘


جب فتنوں نے سر اٹھانا شروع کردیا اور اہلِ باطل نے سچ اورجھوٹ کو ایک دوسرے سے ملانا شروع کردیا تو تابعین کرامؒ نے بھی اخذ حدیث میں احتیاط شروع کردی اور تحقیق کی روش اختیار کرلی تاکہ کذب علی النبی ؐکے فتنے کا پوری طرح سد باب ہو جائے۔ چنانچہ محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں:


ان ھذا العلم دین، فانظر و ا عمن تاخذون دینکم۔ (۳۷)


’’یہ علمِ حدیث دین ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کے بارے میں خوب غور کر لیا کرو جن سے تم دین لے رہے ہو۔‘‘


چنانچہ اولاً صحابہ کرامؓ اور ثانیاً تابعین عظامؒ کی انہی کوششوں کی بدولت حدیث و سنت اہلِ باطل کی آمیزش سے محفوظ رہے اور آج تک محفوظ ہیں۔ صحابہ ؓ و تابعینؒ اور کے ائمہ حدیث نے حفاظتِ حدیث سے تدوینِ حدیث تک جو خدمات سرانجام دی ہیں انہیں دیکھ کر زمانہ حیران ہے۔


عرب سے باہر عجم میں اسلام کی اشاعت کی وجہ سے نئے مسائل اور نئے حالات سامنے آرہے تھے۔ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ حدیث و سنت کا سرمایہ جو کہ صحابہؓ و تابعینؒ سے چلا آرہا تھا مدون کرلیا جائے اور منتشر ذخیرۂ علم کو یکجا محفوظ کرلیا جائے۔ادھر صحابہ کرامؓ بھی دارِ فانی سے رخصت ہورہے تھے اور فتنے بھی سر اٹھا رہے تھے، چنانچہ تدوینِ حدیث کی ضرورت شدید ہوگئی۔ عظیم تابعی خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ۹۹ھ میں منصبِ خلافت پر فائز ہوئے تو سب سے پہلے انہوں نے تدوینِ حدیث کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ انہوں نے تدوینِ حدیث کا ارادہ کرلیا۔ اس حوالے سے سب سے پہلے انہوں نے قاضی مدینہ ابوبکر ابن حزم ؒ کو تدوینِ حدیث کی طرف متوجہ کیا۔ صحیح بخاری میں ہے:


کتب عمر بن عبد العزیز الی أبی بکر بن حزم انظر ما کان من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاکتبہ فانی خفت دروس العلم و ذھاب العلماء۔ (۳۸)


’’حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ابو بکر ابن حزمؒ کو لکھا کہ تمہیں آنحضورﷺکی جو احادیث ملیں انہیں تحریری شکل میں لے آؤ، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ علم مٹ جائے گا اور علماء رخصت ہو جائیں گے۔‘‘


اس کے علاوہ خلیفہ عمر بن عبد العزیزؒ نے عمالِ سلطنت اور مشاہیر علماء کو بالخصوص اس طرف توجہ دلائی اور عمومی فرمان جاری کیا۔ ان حجر روایت کرتے ہیں:


کتب عمر بن عبد العزیز الی الآفاق انظروا حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاجمعوہ واحفظوہ فانی خفت دروس العلم و ذھاب العلماء۔ (۳۹)


’’حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اطرافِ مملکت میں یہ لکھ بھیجا کہ آنحضورﷺکی احادیث ڈھونڈ کر جمع کرو اور محفوظ کرو کیونکہ مجھے علم کے مٹنے اور علماء کے رخصت ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘


اس کے علاوہ امام محمد بن شہاب زہری ؒ تابعی کو بھی اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ خود فرماتے ہیں:


امرنا عمر بن عبد العزیز بجمع السنن فکتبنا ھا دفترا دفترا فبعث الی کل ارض لہ علیھا سلطان دفترا۔ (۴۰)


’’ہمیں عمر بن عبد العزیزؒ نے سنن کے جمع کرنے کا حکم دیا۔ ہم نے دفتر کے دفتر لکھ ڈالے اور پھر انہوں نے ہر اس زمین پر جہاں ان کی حکومت تھی، ایک دفتر بھیج دیا۔‘‘


ان مذکورہ بالا روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تدوین حدیث کا مستقلاً آغاز عہدِ تابعینؒ میں ہوا۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں اس کی تکمیل ہوتی رہی۔صاحب تدریب الراویؒ فرماتے ہیں:


واما ابتداء تدوین الحدیث فانہ وقع علی رأس الماءۃ فی خلافۃ عمر بن عبد العزیز بأمرہ۔ (۴۱)


’’تدوین حدیث کا آغاز پہلی صدی کے اختتام پر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت میں ان کے حکم سے ہوا۔ ‘‘


چنانچہ یہ بات تو واضح طور پر معلوم ہے کہ تدوین حدیث کی ابتداء عہدِ تابعینؒ میں ہوئی مگر اس بات میں علماء کے درمیان اختلافِ رائے ہے کہ اول مدون کون ہے؟ بعض حضرات کے نزدیک ابو بکر بن حزمؒ اول مدون ہیں جبکہ بعض حضرات نے امام ابن شہاب زہریؒ کو پہلا مدون قرار دیا ہے۔

 

علم فقہ اور تابعین کرامؒ

جس طرح تابعین کرامؒ نے صحابہ کرامؓ سے قرآن و حدیث کے علوم حاصل کیے اسی طرح علم فقہ بھی ان سے حاصل کیا۔ اکثر صحابہ کرامؓ جو آپؐ کے ساتھ صحبت و ملازمت اختیار کرتے تھے وہ فہیم اور صاحبِ فراست ہوتے تھے۔ انہوں نے نزولِ قرآن کا مشاہدہ کیا، اس کے منصوص و مفہوم کو سمجھا اور آپؐ کے اقوال و افعال کا بار بار مطالعہ کیا۔ اس طرح انہوں نے دین کا فہم اور شریعت کے اسرار کو خوب اچھی طرھ سے سمجھ لیا۔


پھر عہدِ تابعین میں بھی صحابہ کرامؓ جو مختلف اطرافِ مملکت میں اشاعتِ علم کی غرض سے پھیل گئے تھے، ان کے آس پاس بھی فہیم اور صاحبِ فراست لوگ اکتسابِ علم کے لئے جمع ہوگئے تھے۔یہ تابعین حضرات نہ صرف قرآن و حدیث کے ظاہری الفاظ اخذ کرتے تھے بلکہ ان کے معانی کا بھی درک حاصل کرتے تھے۔ اور نئے پیش آمدہ مسائل کو اس کی روشنی میں حل کرتے تھے۔ اس طرح علمِ فقہ ترقی کرنے لگا۔عہدِ صحابہؓ میں صحابہؓ لوگوں کے دینی مسائل حل کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے، پھر عہدِ تابعین میں انہی اصحابِ رسولؓ کے تابعین ؒ فتویٰ دینے لگے۔ اور انہی کی کاوشوں سے علمِ فقہ پھیلا۔ ابو عبداللہ محمد بن ابی بکرؒ’’اعلام الموقعین ‘‘میں فرماتے ہیں:


الفقہ والعلم انتشر فی الأمۃ عن أصحاب ابن مسعود و أصحاب زید بن ثابت و أصحاب عبداللہ بن عمر و أصحاب عبداللہ بن عباس فعلم الناس عامتہ عن أصحاب ھؤلاء الأربعۃ۔ (۴۲)


’’فقہ اور علم و ادب اُمت میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے شاگردوں کے ذریعے پھیلا اور بقیہ اُمت نے انہی چار صحابہ کرامؓ کے اصحاب سے علم حاصل کیا۔‘‘


جب تک صحابہ کرامؓ تھے وہ فتویٰ دیتے تھے۔ پھر ان کے بعد حضراتِ تابعینؒ نے اس مسند کو سنبھال لیا۔ اس طرح ہر شہر میں تابعینؒ کی ایک جماعت ہوتی تھی جو دینی مسائل کا حل بتاتی تھی۔’’اعلام الموقعین‘‘ میں مختلف شہروں میں موجود اہلِ فتویٰ تابعینؒ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ذیل میں ان حضرات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔


۱۔ مکہ کے صاحب فتویٰ تابعینؒ


عطابن ابی رباحؒ، طاؤس بن کیسانؒ، مجاہد بن جبیرؒ، عبید بن عمیرؒ، عمرو بن دینارؒ، عبد اللہ بن ابی ملیکہؒ، عبد الرحمن ابن سابطؒ اور عکرمہؒ۔ (۴۳)


۲۔ مدینہ کے صاحبِ فتویٰ تابعینؒ


ابن المسیبؒ، عروہ بن الزبیرؒ، قاسم ابن محمدؒ، خارجہ بن زیدؒ، ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشامؒ، سلیمان ابن یسار ؒ اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودؒ۔ (۴۴)


۳۔ کوفہ کے صاحبِ فتویٰ تابعینؒ


علقمہ بن قیس النخعیؒ، اسود بن یزید النخعیؒ۔ عمرو بن شرجیل الھمدانیؒ، مسروق بن الاجدع الھمدانیؒ، عبیدۃ السلمانیؒ، شریح بن القاضیؒ، یزید النخعیؒ، عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود القاضیؒ، خیثمہ بن عبد الرحمنؒ، سلمہ بن صھیبؒ، مالک بن عامرؒ، عبد اللہ بن سخبرہؒ، زر بن حبیش، خلاس بن عمروؒ، عمرو بن میمون الاودیؒ، ہمام بن الحارثؒ، الحارث بن سویدؒ، یزید بن معاویۃ النخعیؒ، ربیع بن خیثمؒ، عتبہ بن فرقد، صلۃ ابن زفرؒ، شریک بن حنبلؒ، ابو وائلؒ، شفیق بن سلمہؒ، عبید بن نضلہؒ۔ (۴۵)


اس کے علاوہ امام ابو حنیفہؒ تابعی بھی کوفہ کے مفتی حضرات میں سے تھے جو لوگوں کو ان کے مسائل کا دینی حل بتاتے تھے ۔ امام ابو حنیفہؒ کے علم فقہ کو جو شہر ت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔


۴۔ بصرہ کے صاحبِ فتویٰ تابعینؒ


بصرہ میں اصحابِ رسولؐ کے بہت سے شاگرد مسندِ افتاء پر فائز تھے اور لوگ ان سے علمی فیوض حاصل کررہے تھے۔ ان حضرات کے نام درج ذیل ہیں:


عمرو بن سلمہ الجرمیؒ، ابو مریم الحنفیؒ، کعب ابن سودؒ، حسن بصریؒ، ابو الشعثاءؒ، جابر ابن زیدؒ، محمد بن سیرینؒ، ابو قلابہؒ، عبد اللہ بن زیدالجرمیؒ، مسلم بن یسارؒ، ابو العالیہؒ، حمید بن عبد الرحمنؒ، مطرف بن عبد اللہ الشخیرؒ، زرارہ بن ابی اوفیؒ، اور ابو بردہ بن ابی موسیؒ۔ (۴۶)


۵۔ شام کے صاحبِ فتویٰ تابعینؒ


شام میں بھی تابعینؒ کی ایک ایسی جماعت موجود تھی جو افتاء کے مقام پر فائز تھی اور علمِ فقہ کی نشرو اشاعت میں مصروف تھی۔ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں:


ابو ادریس الخولانیؒ، شرحبیل بن السمطؒ، عبد اللہ بن ابی زکریا الخزاعیؒ، قبیصہ بن ذویب الخزاعیؒ، حبان بن امیہؒ، سلیمان بن حبیبب المحاربیؒ، حارث بن عمیر الزبیدیؒ، خالد بن معدانؒ، عبد الرحمن بن غنم الاشعریؒ، جبیر بن نفیرؒ، عبد الرحمن بن جبیر بن نفیرؒ، مکحول ؒ، عمر بن عبد العزیزؒ، رجاء بن حیوہؒ، عبد الملک بن مروانؒ اور حدیر بن کریبؒ۔ (۴۷)


۶۔ مصر کے صاحبِ فتویٰ تابعینؒ


مصر میں مسند افتاء پر فائز تابعینؒ کے نام درج ذیل ہیں:


یزید بن ابی حبیبؒ، بکیر بن عبد اللہ بن عثمانؒ، عمرو بن الحرثؒ، لیث بن سعدؒ اور عبید اللہ بن ابی جعفرؒ۔ (۴۸)


غرض وہ برکتیں جن کا عہدِ صحابہؓ میں آغاز ہوا تھا تابعین کرامؒ نے نہ صرف ان کی آبیاری کی بلکہ انہیں تکمیل تک پہنچایا اور جو پوری ہوچکی تھیں ان کی حفاظت کا یقینی بندوبست کردیا۔ آج انہی حضرات کے دم سے اسلام کی روح زندہ ہے اور انہی کی کوششوں سے علوم و فنون کی عمارت قائم ہے اور انہی کی کاوشوں سے اطرافِ عالم سے اسلام کی خوشبو آرہی ہے۔

 

حوالہ جات

(۱) محمد بن ابراہیم، منھل الراوی، دمشق، دارالفکر، ۱۴۰۶ھ، ص ۱۱۴، ج ۱

 

(۲) السیوطی، عبد الرحمان بن ابوبکر، تدریب الراوی، ریاض، مکتبہ الریاض الحدیثہ، ص۲۳۴، ج ۲

 

(۳) الاسعدی، عبیداللہ، مولانا، علوم الحدیث، کراچی، مجلس نشریات اسلام، ص ۲۳۷

 

(۴) الحاکم، محمد بن عبد اللہ، معرفۃ علوم الحدیث، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۷۷ء، ص ۴۲، ج ۱

 

(۵) محولہ بالا، ص ۴۴، ج ۱

 

(۶) محولہ بالا، ص ۴۵، ج ۱

 

(۷) السیوطی، عبد الرحمان بن ابو بکر، تدریب الراوی، ریاض، مکتبہ الریاض الحدیثہ، ص ۲۴۰، ج ۲

 

(۸) الحاکم، محمد بن عبد اللہ، معرفۃ علوم الحدیث، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۷۷ء، ص ۴۴، ج ۱

 

(۹) السیوطی، عبد الرحمان بن ابو بکر، تدریب الراوی، ریاض، مکتبہ الریاض الحدیثہ، ص۲۴۱، ج ۲

 

(۱۰) محمد بن ابراہیم، منھل الراوی، دمشق، دارالفکر، ۱۴۰۶ھ، ص ۱۱۵، ج ۱

 

(۱۱) المزی، یوسف بن الزکی، تہذیب الکمال، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، ۱۹۸۰ء، ص ۲۸۵، ج ۸

 

(۱۲) محولہ بالا، ص ۲۸۸، ج ۸

 

(۱۳) سخاوی، محمد بن عبدالرحمان، علامہ، فتح المغیث، قاہرہ، مبطعہ عاصمہ، ۱۳۸۸ھ، ص۱۴۰، ج ۳

 

(۱۴) القرآن: ۶۲/۱۰۰

 

(۱۵) القرآن: ۹/۳، ۲

 

(۱۶) ابو الحسین، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ص۱۹۶۳، ج ۴

 

(۱۷) التبریزی، محمد بن عبد اللہ الخطیب، مشکوٰۃ، کراچی قدیمی کتب خانہ، ۱۳۶۸ھ، باب مناقب صحا بہؓ، ص۵۵۴

 

(۱۸) الہیثمی، علی بن ابو بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۹۶۷ء، ص ۱۰، ج ۲۰

 

(۱۹) الحاکم، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۹۰ء، ص ۹۵، ج ۴

 

(۲۰) محولہ بالا 

 

(۲۱) ابو الحسین، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ص ۱۹۶۸، ج ۴

 

(۲۲) محولہ بالا، ص ۱۹۷۱، ج ۴

 

(۲۳) البیہقی، احمد بن حسین، سنن البیہقی الکبریٰ، مکہ المکرمہ، مکتبہ دارالباز، ۱۴۱۴ھ، ص ۲۰۹، ج۱۰

 

(۲۴) القرطبی، محمد بن احمد بن ابی بکر، تفسیر القرطبی، قاہرہ، دارالشعب، ۱۳۷۲ھ، ص ۳۶، ج ۱

 

(۲۵) الصا بونی، محمد علی، التبیان فی علوم القرآن، بیروت، موسسہ مناھل العرفان، ۱۴۰۰ھ، ص ۷۳

 

(۲۶) محولہ بالا، ص ۷۴

 

(۲۷) محولہ بالا، ص۷۵

 

(۲۸) محولہ بالا، ص۷۵

 

(۲۹) محولہ بالا، ص۷۶

 

(۳۰) عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، تہذیب التہذیب، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۴ھ، ص ۳۷۳، ج ۹

 

(۳۱) الصابونی، محمد علی، التبیان فی علوم القرآن، بیروت، موسسہ مناھل العرفان، ۱۴۰۰ھ، ص ۸۱

 

(۳۲) محولہ بالا، ص ۸۲

 

(۳۳) ابو بکر، احمد بن علی، الرحلۃ فی طلب الحدیث، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۳۹۵ھ، ص ۱۵۵، ج ۱

 

(۳۴) محولہ بالا، ص ۱۲۷، ج ۱

 

(۳۵) السیوطی، عبد الرحمان بن ابوبکر، طبقات الحفاظ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۳ھ، ص ۲۸، ج ۱

 

(۳۶) عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، فتح الباری، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۳۷۹ھ، ص ۱۷۵، ج ۱

 

(۳۷) ابو الحسین، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ص ۱۴، ج ۱

 

(۳۸) بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دا ر ابن کثیر، ۱۹۸۷ء، ص ۴۹، ج ۱

 

(۳۹) عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، تغلیق التعلیق، بیروت، المکتب الاسلامی، ۱۴۰۵ھ، ص۸۹، ج ۲

 

(۴۰) ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، جامع بیان العلم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۰ء، باب ذکر الرخصۃ فی کتابۃ العلم، ص ۴۰

 

(۴۱) السیوطی، عبد الرحمان بن ابو بکر، تدریب الراوی، ریاض، مکتبہ الریاض الحدیثہ، ص ۹۰، ج ۱

 

(۴۲) ابو عبد اللہ، محمد بن ابو بکر، اعلام الموقعین، بیروت، دار الجبل، ۱۹۷۳ء، ص ۲۱، ج ۱

 

(۴۳) محولہ بالا، ص ۲۴، ج ۱ (۴۴) محولہ بالا، ص۲۳، ج ۱

 

(۴۵) محولہ بالا، ص۲۵، ج ۱ (۴۶) محولہ بالا، ص۲۴، ج ۱

 

(۴۷) محولہ بالا، ص۲۶، ج ۱ (۴۸) محولہ بالا، ص۲۷، ج ۱
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...