Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 1 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

حیات امام مسلم بن حجاج القشیری |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060030112_753

Pages

65-79

PDF URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/download/6/1

Chapter URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/view/6

Subjects

Imam Muslim bin Hajjaj Hadith Sahih Muslim As-Sahih Al-Jamey Imam Muslim bin Hajjaj Hadith Sahih Muslim As-Sahih Al-Jamey.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

نام و نسب

عساکر الدین ابوالحسین مسلم بن حَجاج بن مسلم بن وَرد بن کوشاذ القُشیری۔([1]) مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ قشیری النسب ہیں اور یہ بنو قشیر کی طرف منسوب ہےجو کہ عرب کے مشہور معروف قبائل میں سے ایک ہے۔ ا سی وجہ سےآپؒ قشیری کہلاتے ہیں۔بہت سے علماء کا تعلق اس سے رہا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ خالص عربی النسب ہیں۔([2])

 

وطن

نیشاپور آپ کا مولد و مسکن ہے۔ اس نسبت سے آپ نیشاپوری کہلاتے ہیں۔نیشاپور کا شمار اس وقت کے اہم علمی مراکز میں ہوتا تھا۔خصوصا ًعلم ِحدیث میں اس شہر کو امتیازی شان حاصل تھی۔اسی وجہ سےعلامہ سخاوی نے اسے”دارالسّنة والعَوالي“ کے نام سےیاد کیا ہے۔)[3]( اس شہر کی طرف علماء کے رجوع کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں یہاں کے رہنے والے علماءاورباہر سے آنے والے علماء کی تعداد 1375 بتائی گئی ہے۔ چناں چہ یاقوت حَموی کا قول ہے: معدن الفضلاء ومنبع العلماء۔)[4](

 

تاریخِ ولادت

امام مسلم کی تاریخ ِولادت کے بارے میں چار اقوال ہیں:

 

پہلا قول:201ھ ،جیسا کہ ذہبی نے العبر میں ماہ رجب میں امام کی وفات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: وله ستون سنة۔([5]) اور آپ کی وفات بالاتفاق 261 ھ ہے۔اس لحاظ سے ولادت کی تاریخ 201 ھ بنتی ہے۔ ابن العماد حنبلی نے شذرات میں اس قول کی موافقت کی ہے۔([6])

 

دوسرا قول:202ھ، اس قول کے قائلین میں بروکلمان اور سزکین ہیں۔انھوں نے کچھ یوں کہا ہے: ولد سنة202ھ، وقیل سنة 206ھ۔)[7](

 

تیسرا قول:204ھ، اس قول کو ذہبی نے غیر یقینی انداز میں ذکر کیا ہے۔)[8]( ابن کثیر)[9]( ابن حجر)[10]( ابن تغری بردی)[11](نے 204ھ کے قول کو جزم کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

 

چوتھا قول:206ھ یہ حاکم کا قول ہے۔ چناں چہ فرماتے ہیں:

 

وبه قال الحاکم وذلك فیما سمعه من ابن الأخرم: توفي مسلم بن حجاج عشية یوم الأحد ودفن یوم الإثنین لخمس بقین من رجب سنة إحدی وستین ومائتین وھو ابن خمس وخمسین سنة وھذا یتضمن، کما قال ابن الصلاح: إن مولدہ کان فی سنة ست ومائتین۔)[12](

 

’’امام مسلم نے اتوار کی شام وفات پائی،261ھ پیر کے دن آپ کو سپردِقبر کیا گیا بوقت وفات عمر مبارک55سال تھی ۔اس حساب سے سن ِ پیدائش206 ھ ہی ہوا۔یہی امام ابن الصلاح کی رائے بھی ہے۔‘‘

 

ڈاکٹر عبدالرحمن طوالبہ کی تحقیق

 

اس موقع پر ڈاکٹر عبدالرحمن طوالبہ اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

والصحیح – فیما یبدو لي - القول الأخیر، وأن ولادته سنة 206ھ، 821م في خلافة المامون، لأن أول من ذکر سنة وفاته وتقدیرہ سنة ابن الأخرم۔ (ت 344ھ) صاحب ”المستخرج علی صحیح مسلم“، ونقله عنه تلمیذہ الحاکم (ت405ھ) في کتاب ”علماء الأمصار“ وکتاب ”المزکین لرواة الأخبار“، وعن کتاب ”علماء الأمصار“ نقل ابن الصلاح (ت643ھ) وابن خلکان (ت681ھ)، وقال إنه تملک من نفس النسخة التي نقل منھا شیخه ابن الصلاح۔)[13](

 

وابن الصلاح)[14]( والنووي)[15]( عن کتاب ”المزکین لرواة الأمصار“۔ وبه جزم طاش کبری زادہ حیث قال: والصحیح أنه ولد في سنة ست ومائتین۔)[16]( ویلاحظ أن ابن الأخرم والحاکم وابن الصلاح والنووي ممن استدت عنایتھم بالإمام مسلم. مصنفاته وھذا أدعی إلی التحقیق والتدقیق۔)[17](

 

’’ڈاکٹر طوالبہ کی تحقیق کے مطابق آخری قول راجح ہےکہ آپ کی ولادت خلافتِ مامون کے زمانے میں206ھ میں ہوئی ہے،اس لیے کہ سب سے پہلے سنِ وفات کا ذکر ابن الاخرم صاحبِ مستخرج صحیح مسلم نے کیا ہے،حاکم نے جو ان کے شاگرد ہیں ان ہی سے نقل کیا ہے۔نَوَوِی اورابن الصلاح کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ طاش کبرہ زادہ نے بڑے یقین کے ساتھ تاریخ پیدائش206ھ کا قول ذکرکیا ہے،اور یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ ابن الاخرم،حاکم،ابن الصلاح اور نووی یہ وہ حضرات ہیں جن کا امام مسلم اور انکی تصانیف سے خاص تعلق رہا ہے۔ ‘‘

 

تعلیم

امام مسلم نے ایک علمی خاندان میں پرورش پائی۔ آپ کے والد حجاج بن مسلم شیوخ میں سے تھے۔)[18]( آپ کے والد کی کامل توجہ آپ کی طرف منعطف تھی۔آپ نے ابتدائی بنیادی تعلیم اپنے والد ہی سےحاصل کی۔البتہ اس زمانے کے دستور کے موافق آپ کو مکتب بھیجا گیا ۔جہاں آپ نے دیگر بچوں کی طرح تعلیمِ قرآن اور کتابت کی تحصیل فرمائی۔ اس ابتدائی لازمی مرحلہ کی تکمیل کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہوا۔اب آپ نے شیوخ کے پاس آنا جانا اور سماع شروع فرما دیا۔ گویا یہ اس زمانے کا طرز ِتعلیم تھا۔ آپؒ کے شیخ امام بخاریؒ اپنےبارے میں فخریہ فرماتےتھے:

 

بأنه ألھم حفظ الحدیث وھو فی الکتاب، ومع ذلك فلم یخرج من الکتاب إلا بعد العشر۔)[19](

 

’’ وہ حفظ الحدیث کی طرف ا س وقت متوجہ ہوئے جب وہ کتابت کی تحصیل میں مصروف تھے۔اور دس سال کی عمر کے بعد اس سے فارغ ہوئے۔ ‘‘

 

طلب ِحدیث

امام مسلم علم ِحدیث کی تحصیل کی طرف چھوٹی عمر میں متوجہ ہوئے ہیں۔ چناں چہ آپ کا پہلا سماع 218ھ۔)[20]( میں ثابت ہے جب کہ آپ کی عمر 12 سال تھی، آپ نے اپنے شہر کے مختلف شیوخ سے کثیر تعداد میں روایات کا سماع کیا ہے۔سماع حدیث کے سلسلے میں سب سے پہلا نام یحیی بن معین بن بکیر التمیمی نیشاپوری (ت226ھ) کا آتا ہے۔ )[21]( اس کے علاوہ نیشاپور میں جن سے آپ نے سماع ِحدیث کیا ہے ان میں اسحق بن راہویہ (ت238ھ) )[22]( قتیبہ بن سعید (ت240ھ) ہیں۔ یہ حضرات قَرن ِثالث سے تعلق رکھتے ہیں جو روایتِ حدیث، نقدِ حدیث اور تدوین ِعلم ِحدیث کے اعتبار سے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔ )[23](

 

تحصیل ِعلم حدیث سے متعلق امام مسلم ؒ کا طرزِ عمل

ڈاکٹر عبدالرحمن طوالبہ نے اس سلسلے میں ایک لطیف نکتہ امام صاحب کےطرزِ عمل سے متعلق بیان کیا ہے: 


وصنیع مسلم في السماع من شیوخ بلاده قبل السماع من غیرھم ینسجم مع آداب طالب الحدیث في البدء بالمدن القریبة قبل الرحلة إلی الآفاق۔ وھو الیسر وأقل کلفة، وأقوی في التثبت والضبط، ومن حفظ وفھم في مکان القریب السھل بغیر عناء فإن ذلك یساعدہ علی الحفظ والفھم في المکان البعید الصعب۔([24])

 

’’امام مسلم کا سماعِ حدیث میں طریقہ، پہلے اپنے شہر کے شیوخ سے استفادے اور پھر دوسرے شیوخ کی طرف متوجہ ہونے کا رہا ہے، جیسا کہ طالب الحدیث کے آداب سےمتعلق ہے کہ دور دراز علاقوں کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے اپنے قریبی شہر سے ابتداء کرے، یہ آسان ہے اور اس میں مشقت بھی کم ہےاور تثبت و اتقان کے اعتبار سے زیادہ مؤثر ہے۔ جواس طرح بغیر مشقت کےاپنے قریبی مقام سے تحصیل کرلیتا ہے تو یہ اس کے لیے دور دراز اور پُر مشقت ماحول میں حفظ وفہم کے لیےمعین و مددگار ثابت ہوتا ہے ۔‘‘

 

امام مسلم ؒ کا ذریعۂ معاش

امام مسلم ؒتاجر تھے۔([25]) ومتجرہ بخان محمش۔([26]) ’’خانہ محمش امام مسلم کی تجارت گاہ تھا۔‘‘ چناں چہ محمد بن عبدالوھاب فراء (ت 272ھ)کا بیان ہے: کان (مسلمؒ) بَزَّازاً۔([27]) ’’آپ نے کسبِ معاش کیلئے بَزازی اختیار کی۔‘‘

 

چناں چہ امام مسلم کے آبائی وطن نیشاپور کی خوشحالی کے بارے میں علامہ حِمْیَری فرماتے ہیں: 

 

وليس بخراسان مدينة أصح هواء ولا أرحب فناء ولا أشد عمارة ولا أمكن تجارة ولا أكثر سابلة ولا أغزر فائدة من نيسابور، ويرتفع منها من أصناف البز وفاخر الثياب القطن والقز ما يعم البلاد وتؤثره الملوك ويتنافس فيه الرؤساء۔([28]) 


’’خراسان بھر میں نیشاپور سے بڑھ کر کوئی شہر ایسا نہ تھا جس کاماحول صاف ستھرا ، میدانی زمینیں کشادہ ، عمارتیں مضبوط ، تجارت مستحکم اور بے پناہ فائدے والا ہو۔یہاں سے قسم ہا قسم کے عمدہ کاٹن اور ریشم کے کپڑے چہار دانگ عالم میں برآمد کئے جاتے جنہیں بادشاہان ممالک زیب تن کیا کرتے اور رؤساء جس کی حرص کرتے ۔ امام مسلم صاحب ِثروت تھے اور خوشحال زندگی گزارتے تھے۔‘‘([29] )

 

لیکن ان کا یہ مال و دولت اور تجارت اشاعتِ حدیث کے لیے رکاوٹ کے بجائے مؤیِد تھا۔چناں چہ حاکم کا بیان ہے:  

 

قال الحاکم النیسابوري(ت405ھ):وسمعت أبي یقول:رأیت مسلم بن حجاج یحدّث بخان محمش۔([30]) 

 

’’حاکم فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ امام مسلم خان محمش (جو کہ آپ کا مقام تجارت تھا) میں حدیث بھی بیان کرتے تھے۔آپ کی تجارت دراصل آخرت کی تجارت تھی، اپنا مال خیر کے کاموں میں خرچ کرتے تھے، اہل نیشاپور پر آپ کی خاص عنایت تھی ،حقیقت میں آپ محسن ِنیشاپور تھے۔‘‘([31])

 

دوسری طرف آپ نے بلاد ِاسلامیہ کے سفر بھی کیے اور ایک سے زیادہ مرتبہ کیے۔([32]) ظاہر ہے ان اسفار کے لیے زادِ راہ، سواری اور خرچے کی کس قدر ضرورت ہوتی ہوگی یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔چنانچہ یہ ضرورت اسی تجارت سے پوری فرماتے تھے۔

 

امام مسلم ؒکے اخلاق و صفات

امام مسلم کے اخلاق و صفات سے متعلق علماءمتفق السان ہیں کہ آپ اعلیٰ اخلاق سے متصف ، نہایت سخی اور بہترین منتظم تھے، غیبت وحسد اور سب و شتم جیسی روحانی بیماریوں سے کوسوں دور تھے اس سلسلے میں آپ کے معاصرین کےچند اقوال پیشِ خدمت ہیں۔امام حاکم فرماتے ہے:

 

سمعت أبي یقول: رأیت مسلم بن الحجاج یحدّث بخان محمش، فکان تامّ القامة، أبیض الرأس واللحية۔([33])

 

’’میں نے اپنے والد سے سنا وہ کہتے ہیں: میں نے خان محمش میں امام صاحب کوحدیث بیان کرتے دیکھا ہے، آپ دراز قد تھے، سر اور ڈاڑھی مبارک کے بال سفید تھے۔‘‘

 

شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ فرماتے ہیں:

 

أنه ما اغتاب أحدا في حیاته، ولا جرب ولا شتم۔([34])

 

’’آپ نے ساری زندگی کسی کی غیبت کی نہ کسی کے ساتھ سبّ و شتم کیا۔‘‘

 

حافظ ذہبیؒ آپ کی خدمتِ خلق کی صفت کی وجہ سے آپ کو "محسنِ نیشاپور" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔([35])

 

حسن ِترتیب اور انتظام کے اعتبار سے آپ اپنے اہل علاقہ کی طرح ایک خاص مقام رکھتے تھے، جن کے بارے میں کہا گیا ہے :

 

وله ملكة حسنة و يضع الأشياء في مواضعها هو يتّصف بما وصف به أهل نيسابور، من أنهم: أھل رئاسة وسیاسة، وحسن ملكة، ووضع للاشیاء في مواضعھا۔)[36](

 

ملحوظہ: چناں چہ حسن ِ ترتیب و انتظام کا ایک مظہر امام صاحب کی تصنیف صحیح مسلم بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصرین نے حسنِ صناعت اور وضع وترتیب کےاعتبار سے صحیح مسلم کو صحیح بخاری پرفضیلت دی ہے جیسا کہ اس بارے میں مشہور شعر ہے:

 

 

تخاصم قوم في البخاری و مسلم   لدي وقالوا أي ذین تقدم
فقلت لقد فاق البخاری صحة   کما فاق في حسن الصناعة مسلم)[37](

 

 

امام مسلم ؒ کا خاندان

آپؒ کی عائلی زندگی سے متعلق ہمیں خاطر خواہ معلومات نہیں ملتیں، اس سلسلے میں حاکم کا یہ قول معمولی رہنمائی کرتا ہے :

 

رأیت من أعقابه من جهة البنات في دارہ ولم یعقب ذکرا۔([38])

 

’’ مجھے امام صاحب کے گھر میں ان کی بچیوں سے متعلق تو معلوم ہے لیکن اولادِ نرینہ آپ کی نہیں تھی۔‘‘

 

امام مسلم ؒ کا مذہب

امام مسلم کے مذہب کے سلسلے میں ہمیں مختلف اقوال ملتے ہیں:

 

حاجی خلیفہ وغیرہ کی رائے: حاجی صاحب نے آپ کو شافعی المذہب بتایا ہے۔([39])

 

نواب صدیق حسن خاں صاحب کی رائے: نواب صاحب سے بھی آپ کا شافعی ہونا منقول ہے۔([40])

 

ابن ابی یَعلیٰ کی رائے: محقق ابن ابی یعلی نے طبقات ِحنابلہ میں آپ کا ذکر کیا ہے۔([41])

 

محمد بن عبد الرحمن العليمي المقدسي الحنبلي کی رائے: علیمی نے المنھج الاحمد فی تراجم اصحاب امام احمد نےبنا بر سماع امام احمد بن حنبل آپ کا تذکرہ حنابلہ میں کیا ہے۔([42] ) لیکن بہرحال آپ کے حنبلی المسلک ہونے کی صراحت نہیں کی ہے۔

 

صاحب ِفتح الملہم علامہ شبیر احمد عثمانی کہتے ہیں: آپ مقلّدِ محض تھے، نہ ہی مجتہدِ مطلق، البتہ علماءِ حدیث و فقہ میں سے تھے بلکہ اہل ِحدیث فقہاء مثلاً امام مالک، امام شافعی اور احمد بن حنبل کی رائے کی طرف آپ کا میلان تھا۔ ([43])

 

امام مسلم ؒ کا زمانہ

امام مسلم کا زمانہ206ھ تا261ھ قرنِ ثالث کہلاتا ہے۔ یہ علوم و فنون کے عروج کا زمانہ کہلاتا ہے۔ خاص کر علم ِحدیث میں اس کی خاص شان تھی۔

 

فشھد ھذا القرن: فمنه ما بدأہ الصحابة ومن بعدھم من الائمة من أجل المحافظة علی السنة من حیث التدوین والنقد والتألیف فیھما۔([44])

 

’’حدیث اور علم اس زمانے میں خوب پھلا پھولا ہے۔ اور تدوین حدیث کے حوالے سے یہ زمانہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔‘‘

 

یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کو حدیث اور سنت کے اعتبار سے با رونق زمانہ کہا گیا ہے۔أزهى عصور السنة وأسعدھا بأئمة الحدیث وتألیفھم الخالدة۔([45]) ’’نیز یہ زمانہ بڑے بڑے محدثین، ماہر ترین ناقدین ِحدیث اور مؤلفینِ حدیث کا زمانہ رہا ہے۔‘‘ (فھوعصر) کبار المحدثین وحذاق الناقدین ومھرة المؤلفین۔([46]) ’’خاص کر یہ زمانہ یحیي بن معین (ت233ھ) علی بن المدینی (ت234ھ) اسحاق بن راہویہ (ت238ھ) امام احمد بن حنبل (ت241ھ) امام بخاری (ت256ھ)امام ابوزرعہ (ت264ھ)امام ابن ماجہ (ت275ھ)امام ابوداؤد (ت275ھ) اور ابوحاتم (ت277ھ) جیسے اساطین ِعلم و فن کا زمانہ کہلاتا ہے۔‘‘([47])

 

امام مسلم ؒکے علمی اسفار

امام مسلم نے سب سے پہلے اپنے وطن نیشاپور اور اپنے شہر خراسان([48]) میں روایات کے ایک بڑے ذخیرے کا سماع کیا ہے۔ اس کے بعد آپ بیرونی اسفار کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ چناں چہ امام نووی لکھتے ہیں:

 

أحد الرحالین في طلبه إلی أئمة الأقطاروالبلدان([49]) وکانت رحلاته واسعة ([50]) جدا. طاف خلالھا البلاد الإسلامية عدة مرات۔([51])

 

’’آپ نے طلبِ حدیث کے لیے دور دراز کے شہروں کے سفر کیے ہیں۔ آپ نے مختلف اسلامی ممالک کے متعدد اسفار کیے ہیں۔‘‘

 

آپ کے بیرونی اسفار کی ابتداء220ھ بتائی جاتی ہے، اُس وقت آپ کی عمر 14 سال تھی۔ آپ کا یہ سفر حج کی ادائیگی کے لیے تھا۔ چناں چہ علامہ ذہبی فرماتے ہیں:

 

وحجّ في سنة عشرین ومائتین وھو أمرَد۔([52])

 

’’آپ نے 220ھ میں حج کا سفر کیا۔ اس وقت آپ بے ریش تھے۔‘‘

 

اس مبارک سفر میں آپ نے امام قعنبی (ت221ھ) اور ان کے پائے کے دیگر محدثین سے سماع کیا اور علوِ سند حاصل کی۔ امام ابن الصلاح اور امام نووی کے بقول حجاز میں آپ نے سعید بن منصور (ت 227ھ) ابومصعب زھری (ت 242ھ) وغیرہ سے سماع کیا۔ ([53]) امام ذہبی اورعلامہ ابن کثیرکاقول ہے:

 

وسمع بالحرمین یعني المدینة والمكة۔([54])

 

’’آپ نے حرمین یعنی مکہ اور مدینہ میں بھی سماع کیا ہے۔‘‘

 

اس کے علاوہ آپ نے عراق، بصرہ، بغداد، بلخ، کوفہ، شام، مصر، ری وغیرہ کا سفر بھی کیا ہے۔([55])

 

امام مسلم ؒکے شیوخ

امام مسلم کے وہ شیوخ جن سے آپ نے اپنی الجامع المسند الصحیح میں روایت لی ان کی تعداد 220 تک پہنچتی ہے۔([56]) ذہبی نے تذکرہ میں جن کے حالات ذکر کیے ہیں ان کی تعداد 84 ہے،جو حفّاظِ حدیث میں سے ہیں۔([57]) امام مسلم نے اپنی کتاب میں اپنے تمام شیوخ سے روایت نہیں لی ہے۔

 

امام مسلمؒ کے وہ شیوخ جن کی روایت مسلم شریف میں نہیں ملتی

*

علی بن الجعد (ت230 ھ)
  • علی بن المدینی( ت234ھ)
  • محمد بن اسمٰعیل البخاری (ت 256ھ)
  • محمد بن یحیی الذھلی(ت258 ھ)۔([58])

 

امام مسلم ؒکے چار مشہور شیوخ

*

امام القعنبی (ت221ھ)
  • امام یحیي بن یحیي بن بکیر نیشاپوری (ت226 ھ)
  • امام بخاری (ت256 ھ)
  • امام ابوزرعہ رازی (ت264 ھ) ۔([59])

 

 

 

امام مسلمؒ کے وہ چند شیوخ جن سے صحیح مسلم میں زیادہ روایات مروی ہیں

 

 

نمبر شمار اسمائے گرامی تعداد ِمرویات تاریخ وفات
1 عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ([60]) 1540 235ھ
2 زہیر بن حرب ([61]) 1281 234ھ
3 محمد بن مثنی ([62]) 772 252ھ
4 قتیبہ بن سعید ([63]) 668 240ھ
5 محمد بن عبداللہ بن غیر([64]) 573 234ھ
6 محمد بن علاء ہمدانی([65]) 556 247ھ
7 محمد بن بشار ([66]) 460 252ھ

 

 

امام مسلم ؒکے تلامذہ

امام مسلم کی علوّ ِشان اور علم ِحدیث میں آپ کے مقام کی بدولت شرق و غرب کے طالبان ِعلم ِحدیث کثرت سے آپ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ کیوں کے آپ نے بکثرت اسفار کیے ہیں لہذا آپ کے تلامذہ ناصرف نیشاپور بلکہ بیرونِ نیشاپوربھی ہمیں نظر آتے ہیں۔چناں چہ رَی میں آپ سے ابن ابی حاتم رازی نے سماع کیا ہے۔([67]) بغداد کے متعدد اسفار میں یحی بن صاعد اور محمد بن مخلد کا نام آتا ہے۔([68]) آپ کےتلامذہ میں سے 38 حضرات وہ ہیں جنہوں نے امام صاحب کے علم سےوافر حصہ پایا ہےاور آپ کی مؤلفات کو عام کیا ہے۔ ان کے تراجم سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے 26 تو حفّاظ ہیں ۔([69]) جن کے حالات ذہبی نے تذکرہ میں قلمبند کیے ہیں، جو اپنے زمانے کے کبار محدثین اور حفاظ میں سے ہیں۔([70]) امام مسلم ؒ ان عبقری شخصیات میں سے ہیں جن سے روایت کرنے والوں میں ان کےشیوخ بھی ہیں۔جن کے نام یہ ہیں۔ (۱) محمد بن عبدالوہاب الفراء ([71]) (۲) علی بن حسین بن ابی عیسی الہلالی([72])

 

امام مسلمؒ کے چند مشہور تلامذہ

 

ابوبکربن خزیمہ (ت223 ھ)صاحب الصحیح ابوحاتم رازی (ت227 ھ) ابن ابی حاتم رازی (ت327 ھ)صاحب الجرح والتعدیل ابوعوانہ اسفرائینی (ت 316 ھ)صاحب المستخرج عن صحیح مسلم ابوعیسی الترمذی (ت272 ھ)صاحب السنن۔([73])

 

امام مسلمؒ کی تألیفات

امام مسلم کثیرالتصانیف شخصیت رہے ہیں۔ آپ نے علم ِحدیث اور دیگر علوم و فنون میں کئی تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں، مثلاً عِلَل، أوہام المحدثین، طبقات، الأسماء والکنی، منفردات، وحدان، الإخوۃ والأخوات اور مخضرمین وغیرہ۔علامہ ذہبی سیرمیں امام صاحب کی جملہ تصانیف کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

 

ثم سرد الحاکم تصانیف له لم أذکرھا۔)[74]( ’’آپ کی بہت ساری کتابیں تو آج تک نامعلوم ہی رہی ہیں۔‘‘

 

بہر کیف آپؒ کی چند تصانیف درج ذیل ہیں:

 

۱۔ الأسامی والکنی یا الأسماء والکنی یا الکنی([75]) ۲۔ التمییز ۳۔ الجامع الصحیح ۴۔ رجال عروۃ بن زبیر ۵۔ المنفردات والوحدان ۶۔ الطبقات ۷۔ الأخوۃ و الأخوات من العلماء والرّواۃ ۸۔ أسماء الرجال)[76]( ۹۔ الأفراد ۱۰۔ افراد الشامیین من الحدیث عن رسول اللہ رب العالمین ۱۱۔ الأقران ۱۲۔ انتخاب مسلم علی أبی احمد الفراء ۱۳۔ الإنتفاع بأہب السباع ۱۴۔ الأوحاد ۱۵۔ الأولاد الصحابۃ ومن بعدہم من المحدثین۔([77])

 

وفات

امام مسلمؒ کی وفات بالاتفاق اتوار کی شام 25 رجب ([78])261ھ ([79]) بمطابق 6 مئی578م بعمر 55 سال ہوئی ہے۔([80]) میدانِ زیاد نصر آباد نیشاپور سے باہر آپ کی قبر مبارک ہے۔([81]) وکان قبرہ یزار)[82]) آپ کی مقبرہ زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ چناں چہ حاکم فرماتے ہیں:

 

وبه قال الحاکم وذلك فیما سمعه من ابن الأخرم: توفي مسلم بن حجاج عشية یوم الأحد ودفن یوم الإثنین لخمس بقین من رجب سنة إحدی وستین ومائتین وھو ابن خمس وخمسین سنة وھذا یتضمن، کما قال ابن الصلاح: إن مولدہ کان فی سنة ست ومائتین۔)[83])

 

سببِ وفات

آپ کی وفات کا واقعہ جہاں عجیب و غریب ہے وہاں طالبانِ علم ِحدیث کے لیے درس ِعبرت بھی ہے۔چناں چہ روایت ہے: مجلس میں کسی نے آپ سے ایک حدیث سے متعلق دریافت کیا جس کے بارے میں امام صاحب کو معلوم نہیں تھا۔ آپ گھر تشریف لائے اور گھر والوں سے کہہ دیا کہ کوئی مداخلت نہ کرے۔ گھر والوں نے بطور ِہدیہ آئی ہوئی کھجوروں کی تھیلی آپ کے سامنے رکھ دی۔ چناں چہ آپ حدیث تلاش کرتے رہے اور ایک کے بعد ایک کھجور کھاتے رہے یہاں تک کہ صبح نمودار ہوگئی اور حدیث مل گئی۔([84])

 

چناچہ امام حاکم پورا قصہ نقل کرنے کے بعد فرماتےہیں:

 

أنه مرض منھا ومات. فکان سبب وفاته ناشئا عن غمرة فکريّة علميّة۔([85](

 

’’اسی سبب آپ بیمار ہو ئے اور انتقال فرمایا۔ دراصل یہی علمی فکرو استغراق آپ کی وفات کا سبب بنا۔‘‘

 

امام مسلم ؒ کی عظمتِ شان

امام مسلم کی جلالت ِشان اور محدّثانہ عظمت کی ایک دنیا قائل رہی ہے۔آپ کی طبعی حذاقت اورفن ِحدیث میں یدِ طولیٰ کے پیشِ نظر جہاں بعد والوں نے آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے وہاں خود آپ کے اساتذہ نے بھی آپ کے بارے میں بلند کلمات ارشاد فرمائے ہیں، جو آپ کے امامِ حدیث ہونے کی بیّن دلیل ہے۔ چند اقوال بطورِ نمونہ پیشِ خدمت ہیں۔

 

امام مسلم ؒاپنے مشائخ کی نظر میں

آپؒ کے استادِ عظیم اسحق بن راہویہ آپؒ کی ذکاوت و ذہانت کو دیکھتے ہوئے فرماتے تھے:

 

أيّ رجل یکون ھذا۔([86]) ’’اللہ ہی بہتر جانتےہیں کہ یہ شخص مستقبل میں کتنا بڑا آدمی بنے گا۔‘‘

 

ابوعمرو المستملیؒ جیسے اساتذہ آپؒ کے وجود کوباعثِ خیر جانتے تھے۔چنانچہ فرماتے ہیں:

 

لن نعدم الخیر ما أبقاک اللہ للمسلمین۔)[87]( ’’جب تک آپ زندہ ہیں ہم خیر سے محروم نہیں ہوں گے۔‘‘

 

آپؒ کے استاذ محمد بن عبدالوہاب الفراءؒ کہتے ہیں:

 

کان مسلم بن الحجاج من علماء الناس، ومن أوعية العلم، ما علمته إلا خیرا۔)[88](

 

’’مسلم بن حجاج علماء الناس اور علم کے محافظین میں سے ہیں،میں ان کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا۔‘‘

 

آپؒ کے شیخ محمد بن بشارؒ کہتے ہیں:حافظ الدنیا چار ہیں: امام ابوزرعہ رازی (رَی میں)، امام مسلم( نیشاپور میں)، امام عبداللہ دارمی(سمرقند میں)، امام محمد بن اسماعیل (بخاری میں)۔)[89](

 

امام مسلم ؒدیگر علماء کی نظر میں

شیخ یافعیؒ مراٰۃ الجنان میں کہتے ہیں:

 

قال الیافعي: ومناقبه مشهورة، سیرته مشکورة۔([90]) ’’آپ کے مناقب معروف ہیں اور سیرت قابل قدر ہے۔‘‘

 

خطیب بغدادی کی رائے:

 

قال الخطیب: أحد الأئمة من حفاظ الحدیث۔([91]) ’’آپ کا شمار ائمہ حفاظ الحدیث میں ہوتا ہے۔‘‘

 

علامہ سمعانی کہتے ہیں:

 

قال السمعاني: أحد أئمة الدنیا۔([92]) ’’جن علماء نے پوری دنیا پر اپنی امامت کا سکہ بٹھایا ہے آپ ان میں سے ایک ہیں۔‘‘

 

امام نوویؒ کہتے ہیں:آپ اہل ِحفظ و اتقان میں سے تھے۔([93])

 

ابن خَلّکان کہتے ہیں: آپ ائمہ حفاظ اور اونچے درجے کے محدّث ہیں۔([94])

 

علامہ ذہبیؒ کی نظر میں:

 

قال الذهبي في(التذکرۃ):الإمام الحافظ حجة الإسلام۔([95]) وفي(السیر)الإمام الکبیرالحافظ المجوّد الصادق۔([96]) وفي(العبر)أحد أرکان الحدیث۔([97])

 

’’ذہبی نے آپؒ کو امام، حافظ،حجّۃ الاسلام،الامام الکبیر،مجوّد، صادق اور حدیث کی بنیادوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔‘‘

 

ابوبکر الجارودؒ کہتے ہیں:

 

کان من أوعية العلم۔([98]) ’’آپ علم کے سب سے بڑے محافظ تھے۔‘‘

 

طاش کبری زادہ کہتے ہیں:

 

بل ھو إمام خراسان في الحدیث بعد البخاري۔(99) ’’امام مسلم ، امام بخاری کے بعدخراسان کے امام ہوئے ہیں۔‘‘

حوالہ جات

  1. () جمال الدين أبو الحجاج يوسف المزي، تہذيب الكمال في أسماء الرجال، (بيروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1403ھ-1983م)، ج: 3 ، ص : 1324؛ شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي، تذكرة الحفاظ، (بيروت: دار الكتب العلمية)، ج : 2، ص : 588؛ شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذہبی، سير أعلام النبلاء، (بيروت: مؤسسۃ الرسالۃ)، ج : 12، ص: 557
  2. ()أبو سعد عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمي السمعاني ، كتاب الأنساب، (بيروت: دار الجنان، 1408ھ)، ج : 10، ص : 155؛ عز الدين أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الكريم ابن الأثير الجزري، اللباب في تہذيب الأنساب، (بيروت: دارالكتب العلمیۃ، 1420ھ)، ج : 3، ص : 37؛ أبو عمرو بن صلاح، صیانۃ صحيح مسلم من الإخلال والخلط والحمایۃ والسقط، (بيروت، دار الغرب الإسلامی، 1404ھ - 1984 م)، ص: 57؛ أبو زكريا محي الدين يحى بن شرف بن مري بن حسن بن حسين بن حزام، تہذيب الأسماء واللغات، (بيروت: دار الفكر، 1996م)، ج : 2، ص : 89
  3. ()شمس الدين محمد بن عبد الرحمن السخاوي، الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ، (بيروت: دار الكتب العلمیۃ، )، ص : 666
  4. ()أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي، معجم البلدان، (بيروت: دار الفكر، )، ج : 5، ص : 331؛ زكريا بن محمد بن محمود القزوينی، آثار البلاد وأخبار العباد، (بيروت: دار الصادر، )، ص: 473
  5. ()شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذہبی، العبر في خبر من ذہب، (بيروت: دار الكتب العلمیۃ،)، ج : 2، ص : 23
  6. ()أبو الفلاح عبد الحي الدمشقي المعروف ب ابن عماد، شذرات الذہب في أخبار من ذہب، (دمشق: دار ابن كثير، 1406 ھ)، ج : 1، ص : 145
  7. ()كارل بروكلمان، تاريخ الأدب العربي، (القاہرة: دار المعارف، )، ج : 3، ص : 179؛ الدكتور فؤاد سزكین، تاريخ التراث العربي، (الرياض: وزارة التعليم العالي، )، ج : 1، ص : 263
  8. ()الذہبی، تذکرہ، ج : 2، ص : 588، الذہبی،سیر، ج : 12، ص : 558
  9. ()محمد إسماعيل ابن كثير، البدایۃ والنہایۃ، (پشاور: المكتبۃ الحقانیۃ)، ج : 11، ص : 34 قال: وکان مولدہ في السنۃ التی توفي فیہا الشافعي وھو سنۃ أربع ومائتین.
  10. ()أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر شہاب الدين العسقلاني، تہذيب التہذيب، (بيروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1416ھ)، ج : 10، ص : 127
  11. ()أبي المحاسن يوسف بن تغري الأتابكی، النجوم الزاہرة في ملوك مصر والقاہرة، (بيروت: دار الكتب العلمیۃ، 1413ھ)، ج : 3، ص : 33
  12. () ابن صلاح، الصیانۃ، ص : 64
  13. ()شمس الدين أحمد بن محمد ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، (بيروت: دار الصادر)، ج : 5، ص : 195
  14. () ابن صلاح، الصیانۃ، ص : 64
  15. ()أبو زكريا محيي الدين يحی بن شرف النووي ، تہذيب الأسماء واللغات، (بيروت: دار الفكر، 1996م)، ج : 2، ص : 92؛ أبو زكريا يحى بن شرف بن مري النووي، المنہاج شرح صحيح مسلم، (بيروت: دار إحياء التراث العربي، 1392ھ)، ج : 1، ص : 11
  16. ()طاش کبری زادہ احمد بن مصطفى، مفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ فی موضوعات العلوم، (بيروت: دار الكتب العلمیۃ، 1985م)، ج : 2، ص : 8
  17. ()الدكتور محمد عبد الرحمن طوالبۃ، الإمام مسلم ومنہجہ في صحيحه، (عمان: دار عمار، 1421 ھ - 2000م)، ص : 17
  18. () العسقلاني، تہذیب، ج : 10، ص : 127
  19. ()طوالبۃ، الإمام مسلم،ص:18
  20. () الذہبی، تذکرہ، ج : 2، ص : 588
  21. () الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 558
  22. () ابن صلاح، صیانۃ، ص : 57
  23. () طوالبۃ، الإمام مسلم، ص : 18
  24. ()مرجع سابق ، ص : 19
  25. () الذہبی، العبر، ج : 2، ص : 23؛ ابن عماد، شذرات، ج : 1، ص : 145
  26. () الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 570
  27. () ابن حجر، تہذيب، ج : 10، ص : 127
  28. () محمد بن عبد المنعم الحِميري، الروض المعطار في خبر الأقطار، (بيروت، مؤسسۃ ناصر للثقافۃ، 2008م)، ص : 588
  29. () الذہبی، العبر، ج : 2، ص : 23
  30. () الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 570
  31. () الذہبی، العبر، ج : 2، ص : 23
  32. ()شبیر احمد العثمانی الديوبندي، فتح الملہم، (بيروت: دار إحياء التراث العربي، 1426 هـ - 2006 م) ج:1،ص:100
  33. () الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 570
  34. () الديوبندي، فتح الملہم، ج : 1، ص : 100
  35. () الذہبی، العبر، ج : 2، ص : 23
  36. () طوالبۃ، الامام مسلم، ص : 21
  37. ()الديوبندي، فتح الملہم، ج : 1، ص : 268
  38. () أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النسيابوري، معرفۃ علوم الحديث وكمیۃ أجناسہ، (بيروت، دار ابن حزم، 1424 ھ- 2003 م)، ص : 52
  39. () حاجي خليفۃكاتب چلپی مصطفى بن عبد الله، كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، (بيروت: دار إحياء التراث العربي،)، ج : 1 ص : 555
  40. () أبو الطيب صديق حسن خان القنوجي، الحطۃ في ذكر الصحاح الستۃ، (بيروت، دار الجيل، )، ص : 198
  41. ()أبو الحسين محمد بن أبي يعلى الفرّاء الحنبلي، طبقات الحنابلۃ، (الرياض، دارة الملك عبد العزيز، 1419 ھ)، ج : 1، ص : 237
  42. () عبد الرحمن بن محمد بن عبد الرحمن العليمي المقدسي الحنبلي، المنہج الأحمد في تراجم أصحاب إمام أحمد، (بيروت: دار الصادر، 1997 م)، ج : 1، ص : 221
  43. ()الديوبندي، فتح الملہم، ج : 1، ص : 101
  44. () طوالبۃ، الامام مسلم،ص : 62
  45. () الدكتور مصطفى السباعي، السنۃ ومكانتہا في التشريع الإسلامی، (الأردن: دار الوراق، )، ص : 105
  46. () محمد محمد أبو زهو، الحديث والمحدثون، (الرياض: الرئاسۃ العامۃ، 1404 ھ - 1984م)، ص : 367
  47. () طوالبۃ، الإمام مسلم، ص: 23-26
  48. () ابن الاثیر، اللباب، ج : 3، ص : 38
  49. () النووي، تہذیب الاسماء، ج : 2، ص : 91
  50. () ابن صلاح، صیانۃ، ص : 56
  51. () سزکین، تاریخ التراث، ج : 1، ص : 263
  52. () الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 558
  53. () ابن صلاح، صیانۃ، ص : 57
  54. () ابن كثير، البدایۃ، ج : 11، ص : 33
  55. () طوالبۃ، الإمام مسلم، ص : 29-36
  56. () المزي، تہذیب، ج : 3، ص : 1324
  57. () الذہبی، التذکرہ، ص : 383
  58. () ابن صلاح، صیانۃ، ص : 98؛ طوالبۃ، الإمام مسلم، ص:39-43
  59. ()طوالبۃ، الإمام مسلم، ص:43-49
  60. () العسقلاني، تہذیب، ج : 6، ص : 4
  61. () مرجع سابق، ج : 3، ص : 344
  62. ()العسقلاني، تہذیب،ج : 9، ص : 427
  63. ()العسقلاني، تہذیب ، ج : 8، ص : 361
  64. ()مرجع سابق، ج : 9، ص : 283
  65. ()مرجع سابق،ج : 9، ص : 386
  66. ()مرجع سابق ، ج : 9، ص : 73
  67. () عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس الرازي ، الجرح والتعديل، (بيروت: دار إحياء التراث العربي، 1271ھ)، ج : 8، ص : 182
  68. () الفراء، طبقات الحنابلۃ، ج : 2، ص : 337
  69. () الذہبی، التذکرہ، ص : 567
  70. () النووي، شرح مسلم، ج : 1، ص : 10
  71. () الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 562
  72. () المزي، تہذیب، ج : 3، ص : 325
  73. ()طوالبۃ، الإمام مسلم،ص:78
  74. ()الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 579
  75. () ابن ندیم، الفہرست، ص : 286
  76. () النووی، شرح مسلم، ج : 4، ص : 64
  77. () إسماعيل باشا البغدادي، هدیۃ العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين، (بيروت: دار إحياء التراث العربي، 1370 ھ)، ج : 2، ص : 431
  78. ()الفرّاء، طبقات، ج : 1، ص : 339؛ أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر جلال الدين السيوطي، طبقات الحفاظ، (بيروت: دار الكتب العلمیۃ، 1403ھ -1983م)، ص: 261؛ محمد إسماعيل ابن كثير، البدایۃ والنهایۃ، (پشاور: المكتبۃالحقانیۃ)، ج : 11، ص : 34؛ طاش كبرى زاده، مفتاح، ج : 6، ص : 9
  79. () طوالبۃ، الإمام مسلم، ص: 26
  80. () ابن صلاح، صیانۃ، ص : 64؛ النووي، شرح مسلم، ج : 1، ص : 11؛ ابن خلكان، وفيات، ج : 5، ص : 195
  81. () ابن خلكان، وفيات، ج : 5، ص : 195
  82. () الذہبی، تذکرہ، ص : 590؛ ابن صلاح، صیانۃ، ص : 66
  83. ()ابن صلاح، الصیانۃ، ص : 64
  84. () المزي، تہذیب، ج : 3، ص : 1325
  85. () ابن صلاح، صیانۃ، ص : 66
  86. () الذہبی، التذکرہ، ص : 579
  87. () ابن صلاح، صیانۃ، ص : 63 و 64
  88. ()الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 579
  89. () الذہبی، التذکرہ، ص : 589
  90. ()طوالبۃ، الإمام مسلم، ص : 36
  91. ()الخطیب، تاریخ، ج : 13، ص : 100
  92. () السمعاني، الأنساب، ج : 10، ص : 155
  93. () النووي، تہذیب الأسماء، ج : 2، ص : 91
  94. () ابن خلكان، الوفیات، ج : 5، ص : 194
  95. () الذہبی، التذکرہ، ص : 588
  96. ()الذہبی، سیر، ج : 12، ص : 557
  97. () الذہبی، العبر، ج : 2، ص : 23
  98. ()ابن حجر، التہذیب، ج : 10، ص : 128

     

    (99) طاش كبرى زاده، مفتاح ، ج : 2، ص : 8
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...