Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 1 Issue 2 of The International Research Journal Department of Usooluddin

خاندانی کاروبار میں جانشینی کی منصوبہ بندی اور اس سے متعلق وصیت ووراثت کے شرعی احکام |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060030112_774

Pages

12-23

PDF URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/download/9/8

Chapter URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/view/9

Subjects

Succession Planning Family Business Sharia Law Succession Planning Family Business Sharia Law.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

فیملی بزنس یا خاندانی کاروبار کے معاملات میں نسبتاً پیچیدگی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ یہاں شرکائے کاروبار کے نزدیک خاندان اور کاروبار دونوں بیک وقت اور پوری طرح ترجیح کے حامل ہوتے ہیں۔کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنا ان کے لیے قریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے مسائل حد درجہ گونا گوں ہو جاتے ہیں۔ مسائل اور ان کے حل کا تجزیہ اسی تناظر میں اور اسی اہمیت کے ساتھ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس مقالے میں خاندانی کاروبار کے ایک اہم ترین مسئلے یعنی جانشینی کی منصوبہ بندی(Succession Planning)کو زیر بحث لایا جارہا ہے، کیونکہ کاروبار کی پہلی سے اگلی نسلوں میں منتقلی کا انحصار اسی منصوبہ بندی کی کامیابی پر ہے۔ سب سے پہلے کچھ تمہیدی نکات پیش کیے جائیں گے اور اس کےبعد اصل موضوع پر بحث کی جائے گی۔

 

فیملی بزنس کی تعریف

فیملی بزنس ایسا کاروبارہے جو پروپرائٹر شپ ، پارٹنرشپ، کمپنی یا کسی بھی اجتماعی صورت میں پایا جائے اور اس میں ملکیت و انتظام کے کل یا زیادہ تر حقوق و اختیارات ایک ہی خاندان کے افراد کے پاس ہوں، نیز یہ کاروبار کئی نسلوں تک چلتا رہے۔[1]

 

فیملی بزنس کی معاشی و اخلاقی اہمیت

خاندانی شراکت داری میں آسانی ہے، حفاظت ہے اور تسلسل کے لاتعداد امکانات ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں خاندان اور کاروبار دونوں یکجا ہونے کی وجہ سے مفادات حد درجہ مشترک ہیں۔ اس بزنس میں ہر شخص مالک بھی ہے اور ملازم بھی۔ ہر ایک کا نفع نقصان ہر لحاظ سے برابر ہے۔ یہاں تک کہ سب کے دل کی دھڑکنیں بھی ایک ساتھ دھڑکتی ہیں۔

 

یہی وجہ ہے کہ فیملی بزنس اس وقت عالمی معیشت پر بھی چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ آج کی دنیا میں بھی کارپوریٹ بزنسز اور پبلک لمیٹڈ کمپنیز کی طرح فیملی بزنس بھی ملک کی ترقی میں ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔تحقیقاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق:خلیجی ممالک کی معیشتوں کا 98 فیصد جبکہ اسپین کی معیشت کا 75 فیصد حصہ فیملی بزنسز پر مشتمل ہے۔[2]

 

اسی طرح امریکا کے 90 فیصد بزنسز، انڈیا کی تقریباً 90 فیصد معیشت ، جبکہ عالمی تجارت کا 70 تا 90 فیصد جی ڈی پی فیملی بزنس کا ہی مرہون منت ہے۔[3] بہرکیف اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔

 

مقالے کی ترتیب

زیر بحث موضوع خاندانی کاروبار میں جانشینی کی منصوبہ بندی (Succession Planning) اور اس سے متعلق وصیت و وراثت کے شرعی احکام پر گفتگو دو حصوں پر مشتمل ہو گی:

 

(پہلا حصہ) جانشینی کے منصوبے کی بنیادی تفصیلات

 

(دوسرا حصہ) جانشینی کی منصوبہ بندی سے متعلق وصیت و وراثت کے شرعی احکام

 

(پہلا حصہ) جانشینی کے منصوبے کی بنیادی تفصیلات

فیملی بزنس کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک’’جانشینی کی منصوبہ بندی‘‘بھی ہے ۔ فیملی بزنس کا سب سے مشکل مسئلہ اور مرحلہ یہی ہے ۔ فیملی بزنس کی اگلی نسل میں کامیاب منتقلی ہی اس کی کامیابی کا بنیادی ستون ہوتی ہے ۔ اگر فیملی بزنس کامیابی سے اگلی نسل کے حوالے کیا جا رہا ہے،تبھی وہ فیملی بزنس ہے، ورنہ فیملی بزنس کسی چیز کا نام نہیں ۔ پھر یہ بھی کہ ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقلی ہی وہ نکتہ ہوتا ہے جہاں فیملی بزنس کے جاری رہنے یا ٹوٹ جانے کا فیصلہ ہوتا اور نوبت آتی ہے ۔ ایک تحقیق کار کے بقول: فیملی بزنسز میں سے صرف 30فیصد ایسے ہیں جو پہلی سے دوسری نسل میں منتقل ہوپاتے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ اس موڑ پر 70فیصد فیملی بزنسز باقی نہیں رہ پاتے ۔ اسی طرح صرف 12فیصد فیملی بزنسز دوسری نسل سے تیسری نسل تک پہنچتے ہیں، جبکہ صرف 3فیصد وہ ہیں جو تیسری سے آگے چوتھی میں داخل ہوتے ہیں ۔[4]

 

اس قدر بڑی تعداد میں فیملی بزنسز کی ناکامی اور بندگلی میں پہنچنے کی وجہ ایک کامیاب جانشینی کی منصوبہ بندی نہ ہونا ہے ۔ اس لیے اس حوالے سے نہایت تفصیل سے بات کرنا ضروری ہے ۔ 

 

Succession Planning کی تعریف

Family Business Succession Planning کی تعریف یوں کی گئی ہے: 

 

A structured process involving the identification and preparation of a potential successor to assume a new role (Garman & Glawe, 2004, p. 120)

 

ایک ایسا منصوبہ جو ایک باصلاحیت جانشین کی شناخت اور تیاری کے مقصد سے ہو، تاکہ وہ نیا کردار قبول کر سکے ۔ [5]

 

کامیاب جانشینی کی منصوبہ بندی کی اہمیت و فوائد

جانشینی کی منصوبہ بندی ایک ادارے میں موجود افراد میں سے ایسے لوگوں کی نشاندہی اور ان کی تیاری کے عمل کا نام ہے جو مستقبل میں کاروباری قیادت سنبھال سکیں ۔ جانشینی کی منصوبہ بندی ایسے اہل اور تجربہ کار افراد کی دستیابی میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے جو مستقبل میں پیدا ہونے والی انتظامی اور اسٹریٹجک پوزیشنوں پر فرائض انجام دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔بہر حال جانشینی منصوبہ بندی ضروری ہےجس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

 

۱۔ غیر موثر جانشینی کاروبار کا مستقبل خطرے میں ڈال دیتی ہے ۔ 

 

۲۔ جانشینی ایک اہم معاملہ ہے ۔ 

 

۳۔ منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث اکثر رشتے داریاں تباہ ہو جاتی ہیں ۔

 

۴۔ جانشینی محض ملکیتی انتظامی فرائض کی منتقلی کا نام نہیں ۔ 

 

۵۔ جانشینی کے عمل کا کچھ حصہ کاروبار کی صحت مندانہ حیثیت برقرار رکھنے سے متعلق ہوتا ہے ۔

 

۶۔ جانشینی کی منصوبہ سازی اور اس پر عملدرآمد میں وقت صرف ہوتا ہے، اس لیے کوئی کمپنی جتنی جلدی اس پر کام شروع کر لے، اتنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔[6]

 

جانشینی کی منصوبہ بندی سے عمومی بے اعتنائی

خاندانی کاروباروں کی اگلی نسل میں منتقلی سےمتعلق جس قدر اہمیت ہے، عالمی طور پر اس میں اتنی ہی بے اعتنائی بھی پائی جاتی ہے۔تحقیق کے مطابق: امریکا جہاں سب سے زیادہ فیملی بزنسز کا تناسب ہے، وہاں صرف آدھے فیملی بزنسز ایسے ہیں جنہوں نے جانشینی کی منصوبہ بندی کو تحریری طور پر ضبط کیا ہوا ہے۔کینیڈا میں صرف 17 فیصد خاندانی کاروبار اپنا جانشینی کے منصوبے کو تحریری شکل میں لا چکے ہیں۔ چین میں صرف 10 فیصد خاندانی کاروباروں نے یہ معاملہ رسمی طور پر(formalized) طے کیا ہے۔لاطینی امریکا میں یہ تناسب کم ہو کر 9.9 ہو جاتا ہے۔ [7]

 

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جانشینی کی منصوبہ بندی سے متعلق حساسیت اور فکر مندی کا تناسب نہایت کم ہے اور یہی فیملی بزنسز کی ناکامی کی اہم ترین وجہ ہے۔

 

جانشینی کی اقسام

جانشینی کی دو اقسام ہیں:

 

۱۔ ملکیت کی جانشینی 

 

ملکیت کی جانشینی کا تعلق اس فرد سےہے جو کاروبار کے کسی حصہ دار کی جگہ لے گا ۔ جانشینی کی یہ قسم خاندانی کاروبار سے بہت زیادہ متعلق ہے۔

 

۲۔ انتظامی جانشینی 

 

اس نوعیت کی جانشینی کا تعلق اس فرد سے ہے جو روزمرہ کی کاروباری سرگرمیاں اور آپریشن سنبھالے گا ،تاکہ جانشینی کاروباری حکمت عملی تصور سے مربوط کی جانی چاہیے۔بہر کیف خاندانی کاروبار میں جانشینی کی دونوں اقسام اکٹھی چلتی ہیں کیونکہ یہ کاروبار خاندان کے افراد چلا رہے ہوتے ہیں ۔

 

جانشینی کی منصوبہ بندی کے مراحل

 

جانشینی کی منصوبہ بندی کے چار مراحل حسبِ ذیل ہیں :

 

۱۔ یہ عمل مالک کے مقاصد کے قابل عمل ہونے کی وضاحت اور تجزیے سے شروع ہوتا ہے ۔ 

 

۲۔ خاندان کے ارکان اور کم حصہ رکھنے والے مالکان اپنے اہداف کے بیان سے یہ عمل شروع کرتے ہیں اور جانشینی کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ وضع کرنے سے آغاز کرتے ہیں ، وہ ایک خاندانی منصوبہ تیار کرتے ہیں ۔ 

 

۳۔ جب مالک کا منصوبہ اورخاندان کے آداب کی وضاحت ہوجاتی ہے اور یہ عملی صورت میں ڈھل جاتی ہے تو بنیادی نوعیت کے سوالات کے جوابات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں ، مثلاً: مالک اور خاندان کمپنی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا فروخت کرنا چاہتے ہیں ، کیا خاندان اور مالک کے مابین رابطہ اور مطلوبہ تعلقات کار کا نظام موجود ہے، کیا جانشینی کے معاملے کو زیر بحث کیا جا چکا ہے ۔ 

 

۴۔ یہ منصوبہ واضح کرتا ہے کہ ملکیت اور انتظامیہ کی اس انداز میں منتقل ہوگئی اور یہ بزرگ نسل کس طرح مالیاتی تحفظ، جمع شدہ دولت کی حفاظت، شریک مالکان اور خاندان کے افراد کے ساتھ انصاف کو یقینی بناتے ہوئے کاروبار کا تحفظ بھی کرے گی۔[8] 

 

جانشینی کی منصوبہ بندی کا طریقہ کار

خاندانی کاروبار کی جانشینی کی منصوبہ بندی کس ترتیب سے کی جائےگی؟ اس حوالے سے درج ذیل نکات توجہ طلب ہیں:

 

۱۔ یہ کام پہلی فرصت میں کرنے کا ہے

 

تمام خاندانی کاروباروں کا یہ عمومی مسئلہ ہے کہ جانشینی کی منصوبہ بندی سے متعلق مکمل بے فکر اور بے پرواہ ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ لوگ اتنی اہم بات سے اس قدر لاتعلق ہیں۔ اگر غور کیاجائے تو اس کی دو اہم وجوہات ہیں:

 

۱۔ بہت سے لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کام کوئی ہاتھ کی میل ہے۔ انہیں اس کی پیچیدگی اور وسعت کا اندازہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبہ بندی کے سبب کاروبار بہت سی اہم تبدیلیوں سے آشنا ہو تاہے۔ پرانی روایات اختتام پذیر ہو جاتی ہیں۔ نئی نسل کی درست رخ پر تربیت کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ پرانے مالکان اور لیڈرز کے اثرات بھی کاروبار پر کم ہو جاتے ہیں وغیرہ۔

 

۲۔ دوسری وجہ یہ کہ لوگ اس کو موزوں ہی نہیں سمجھتے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں یہ منصوبہ بندی کئی نئے مسائل کو جنم دے دے گی۔ اس کی وجہ سے ایسے اختلافات اٹھ کھڑے ہوں گے جو کہ ایک چلتے ہوئے کاروبار کی صحت کے لیے غیرمفید ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل کا حل ماہرین سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ صر ف ایسے خدشات کے باعث اس سے گریزاں رہنا اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔

 

۲۔ یہ ایک طویل پراسیس ہے، کوئی تقریب یا پروگرام نہیں

 

جانشینی کی منصوبہ بندی کے حوالے سے یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اپنے کاروبار کو نئی نسل میں منتقل کرنا ایک طویل پراسیس پر مشتمل ہے۔ یہ کوئی واقعہ، پروگرام یا تقریب نہیں کہ کسی ایک دن میں ہی مکمل ہو جائے گا۔ اگر بزنس مالکان یہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی ایک دن میں ہم بیٹھ کر اپنا کاروبار اپنے بیٹے یا بیٹی کے حوالے کر دیں گے اور وہ اس کو اپنی ذمہ داری میں لے لیں گے اور اس کے ساتھ ہی قصہ تمام ہو جائے گا، ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اس کی چند وجوہات ہیں،جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے:

*

ایک تو کاروبار کی اس حوالگی سے پہلے منافع اس قدر لازماً ضروری ہیں کہ بچوں کو کاروبار اچھی حالت میں حوالے کیا جا سکے۔
  • دوسرا یہ کہ جانشین کو باقاعدہ تیار کرنا کہ وہ آپ کی امانت کو سنبھالنے کے بھی قابل ہو سکے، یہ بھی اہم کام ہے۔
  • آپ کو کچھ قانونی مسائل سے بھی گزرنا ہے، تاکہ آپ اپنے ذمہ واجب ٹیکسز وغیرہ سے فارغ ہو کر ملکی قانون کے مطابق جانشینی کا عمل ترتیب دے سکیں۔

 

 

 

۳۔ خاندانی اقدار کو یکجا جمع کریں

 

ہر خاندان کی کچھ ایسی مشترکہ اقدار و روایات ہوتی ہیں، جن کے بل پر خاندان بطور ایک خاندان باقی اور زندہ رہتا ہے۔ جب آپ جانشینی کی منصوبہ بندی کرنے بیٹھیں تو کاغذ قلم لے کر ایسی تمام اقدار و روایات کو لکھ لیں۔ یہ خاندانی روایات کسی بھی کاروبار کے ایک سلوگن سے زیادہ قیمتی اور گراں قدر ہوتی ہیں۔ جب کبھی خاندان میں جھگڑا رونما ہونے لگتا ہے تو اس وقت کاروبار کی لیڈرشپ اور خاندانی ملازمین خود کو انہی اقدار کے گرد ہی جمع کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ فیملی کا اتحاد رزیادہ ریونیو جمع کرنے سے زیادہ اہم ہے۔

 

۴۔ جانشینی کے حوالے سے میٹنگز منعقد کیجیے

 

جانشینی کی منصوبہ بندی کا حقیقی آغاز اس وقت ہو گا جب فیملی ممبران کو اس معاملے میں شامل اور ان سے گفت و شنید کی جائے گی۔ اس وقت اس بات کا فرق کرنےکی ضرورت نہیں ہے کہ ان کا تعلق کون سی نسل سے ہے؟ یعنی پہلی دوسری یا تیسری؟ نیز یہ بھی کہ فی الوقت وہ کمپنی کے لیے کتنا کام کر رہے ہیں؟ان سب کی آرا ءلیجیے اور ان پر غور کیجیے۔ اس کے ساتھ اس معاملے کے حل کی آسانی کے لیے کسی کنسلٹنٹ اور ایڈوائز ر سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔

 

۵۔ خاندان کی ذہن سازی اور تربیت ضروری ہے

 

یہ یقینی بات ہے کہ تعلیم و تربیت بزنس کی اگلی نسل میں کامیاب منتقلی کے لیے اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر درست تعلیم و تربیت نہ ہو تو لوگ حقیقی مسائل اور ان کے حل تک نہیں پہنچ پاتے۔ جانشینی کے حوالے سے درج ذیل نکات سے متعلق معلومات و تربیت مکمل ہونی چاہیے:

*

اختلافا ت کو ختم کرنےکی قابلیت ہونی چاہیے۔ یہ تنازعات فیملی سے متعلق ہوں یا بزنس سے متعلق۔
  • کمپنی کے اندر متعلقہ ذمہ دار کو قبول کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
  • اپنی کمپنی کیلئے فیملی ممبر کو ایک قانونی مشیر جیسا ہونا چاہیے،یہ صفت کاروبار میں ملنے والی ہرذمہ داری کے ساتھ ہونی چاہیے۔
  • فیملی بزنس کو زندہ وراثت کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ایسی وراثت جو بیک وقت ماضی اور مستقبل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

 

 

 

۶۔ فیملی دستور کو تحریری شکل دیجیے

 

فیملی بزنس کی جانشینی کو مضبوط بنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے خاندانی دستور کی شکل دے کر ضبط تحریر میں لایا جائے۔ یہ خاندانی دستور دو اہم کام سرانجام دے گا:

 

۱۔ یہ ایک حکمراں دستاویز کے طور پر کام کرتے ہوئے فیملی بزنس کو دوام عطا کر ے گا۔ اختلافات کو ختم کرنے اور مشکل فیصلے کرنے میں تعاون کرے گا۔

 

۲۔ یہ فیملی اقدار کو واضح کرنے کے ساتھ ان کے ساتھ نتھی رہنے پر زور دے گا۔ اس طرح یہ اقدار خاندانی و غیر خاندانی ملازمین، ڈائریکٹرز اور کسٹمرز کے سامنے یہ واضح کر دیگا کہ آپ کس بات پر یقین رکھتے اور بزنس کو کس طرح لے کے چل رہے ہیں۔

 

عموماً ترقی پذیر ممالک میں کاروبار اگلی نسل کو منتقل کرنے کی مربوط انداز میں منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ۔ ایسی دستاویز کی تیاری میں ناکام رہتے ہیں جو کاروبار کے بانی کی اچانک موت یا بیماری کی صورت میں کاروبار کی بقاءکے لیے سہولت بہم پہنچا سکے ۔[9]

 

۷۔ جانشین کی باقاعدہ کاروباری تربیت

 

فیملی ممبران کو کاروبار یا انتظام کار کا حصہ بنانے سے پہلے عام ملازمین کی طرح کاروبار کا حصہ بنانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ وہ نچلی سطح سے ہو کر اوپر آئیں۔ بنا بنایا کاروبار پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش نہیں کر دینا چاہیے، بلکہ انہیں ممکنہ حد تک ان راہوں سے ضرورگزارنا چاہیے جہاں جہاں سے کاروبار کے بانیان کو گزرنا پڑا۔ تربیت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ خاندان کے نوجوان اپنی کمپنی سے کہیں باہر کام کر کے تجربہ حاصل کریں اور پھر اس کے بل بوتے اپنا فیملی بزنس کنٹرول کریں۔

 

(دوسرا حصہ) جانشینی کی منصوبہ بندی سے متعلق وصیت و وراثت کے شرعی احکام

جانشینی کی منصوبہ بندی کا اگر شرعی احکام کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو شریعت کے دو احکام بہت زیادہ اہمیت کے ساتھ اس منصوبہ بندی سے متعلق ہیں۔ ان میں سے ایک وصیت ہے اور دوسرا وراثت۔چونکہ خاندانی کاروبار کی پہلی نسل یعنی بانیان کی نسل جسے(Owner Partner) کہا جاتا ہے، جب یہ محسوس کرتی ہے کہ اسے اب اپنی ذمہ داریاں اگلی نسل کو سونپ دینی چاہییں، اس موقع پر انہیں شریعت کی طرف سے تحریری وصیت کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ انہیں جو کچھ بھی اپنی اولادوں کو سونپنا یا اس کی وصیت کرنی ہو، انہیں چاہیے کہ اسے تحریراً لکھ کر رکھ دیں۔

 

اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ ممکن ہے عام حالات میں جانشین مقرر کرنے یا اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے بڑھاپے کا انتظار کیا جاتا ہے، مگر شریعت کی رہنمائی یہ ہے کہ اس کےلیے ایک دن کے انتظار کی بھی گنجائش نہیں۔ حدیث پاک کی رہنمائی اور تاکید یہ ہے کہ کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گزرنی چاہیے کہ انسان کے پاس اس کے جملہ معاملات کی وصیت تحریر شدہ موجود نہ ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ مَا يُوصِي فِيهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَه۔ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔[10]

 

کسی ایسے مسلمان بندے کے لئے جس کے پاس کوئی ایسیچیز( جائیدادیا سرمایہ یا امانت اور قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہئےتو درست نہیں کہ وہ دو راتیں گزاردے مگر اس حال میں کہ اس کاوصیت نامہ لکھا ہوا اس کے پاس ہو۔

 

اسی طرح وصیت کی اہمیت سے متعلق سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد ہے:

 

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ۔[11]

 

”تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑ کر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آ جائے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔“

 

دوسری آیت مبارکہ میں ہے:

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِينَ۔[12]

 

”ایمان والو! جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لئے گواہ بنانے کا طریقہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں)یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں(غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہو جائیں۔ پھر اگر تمہیں شک پڑ جائے تو ان دو گواہوں کو نماز کے بعد روک سکتے ہو، اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو،ا ور اللہ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کوہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گناہگاروں میں شمار ہوں گے۔“

 

علماء کرام نے وصیت کی دو قسمیں بتائی ہیں، واجب اور مستحبوصیت۔ واجب کی پانچ صورتیں ہیں جوکہ حسب ذیل ہیں:

 

۱۔ اگر کسی شخص پر قرضہ ہے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔

 

۲۔ اگر زندگی میں حج فرض کی ادائیگی نہیں کرسکا تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔

 

۳۔ اگر زکوٰۃ فرض تھی، ادا نہیں کی تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔

 

۴۔ اگر روزے نہیں رکھ سکا، اس کے بدلے میں فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔

 

۵۔ اگر کوئی قریبی رشتہ وصیت کے قانون کے مطابق میراث میں حصہ نہیں حاصل کرپارہا ہے، مثلاً: یتیم پوتا اور پوتی اور انہیں شدید ضرورت بھی ہے تو وصیت کرنا واجب تو نہیں ہے، لیکن اُسے اپنے پوتے اور پوتی کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ بعض علماء نے ایسی صورت میں وصیت کرنے کو واجب بھی کہا ہے۔وصیت کی دوسری قسم مستحب وصیت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ایک تہائی کی کسی بھی ضرورت مندشخص یا مسجد یا مدرسہ یا مسافر خانے یا یتیم خانےکو وصیت کرجائے، تاکہ وہ اس کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے اور اس کو مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔[13]

 

شریعت کی ایک اہم رہنمائی اس حوالے سے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد یا کاروبار اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو اس کی گنجائش ہے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس صورت میں سب میں برابر تقسیم کرے گا اور موت سے پہلے جو بھی تقسیم ہو گی، یہ ترکہ نہیں، بلکہ ہبہ شمار ہو گا۔اس بارے میں علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

وفی الخانیة: لا باس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبة لانها عمل القلب، وکذا فی العطایاان لم یقصد به الاضرار، وان قصده فسوی بینهم یعطی البنت کالابن عند الثانی وعلیه الفتوی۔[14]

 

فتاوہ خانیہ میں ہے کہ اولاد میں بعض کو محبت کی وجہ سے ترجیح دینے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ محبت قلب کا عمل ہے اور اسی طرح تحائف میں بھی، بشرطیکہ دوسروں کو اذیت دینا مقصود نہ ہو، بصورت دیگر وہ سب کے درمیان برابری کرے گا۔ بیٹے اور بیٹیاں دونوں کو برابر دے گا۔ اسی پر فتوی ہے۔‘‘

 

دوسری جانب جب خاندانی کاروبار کا سربراہ وفات پا جائے تو پھر کاروبار کا شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ خاندانی کاروبار میں ترکہ کی تقسیم کا مطلب یہ ہو گا کہ ورثا ءمیں سے ہر ایک کے حصوں کی تعیین کر دی جائے گی۔ یعنی قرآن و سنت کی رہنمائی کی روشنی میں یہ باور کر لیا جائے گا کہ تمام فیملی ممبران کو اس کاروبار کے شرکا ء ہیں، وہ کس تناسب سے اس کاروبار میں شریک ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کے نتیجے میں بہت بڑا فساد وجود میں آ سکتا ہے، لہذا جانشینی کی منصوبہ بندی کا یہ اہم ترین پہلو ہے۔سربراہ کو چاہیے کہ وہ موت سے پہلے پہلے یہ لکھ کر جائے کہ اس کا کاروبار اس کی اولاد میں کس طریقے کے مطابق تقسیم ہو گا۔شریعت کی نظر میں یہ بات اس قدر اہم ہے کہ اللہ تعالی نے اسے نہایت تفصیل سے ذکر فرمایاہے:

 

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ۔[15]

 

”اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں دو یا دو سے زائد، مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو انہیں اس کا تہائی حصہ ملے گا اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے )کا آدھا حصہ ملے گا۔ بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تواس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ہاں! اگر اس کےکئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا، (اوریہ ساری تقسیم) اس کی وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد۔ تمہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمہارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب کون ہے؟ یہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں؛یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہے اور حکمت کا بھی مالک۔اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد( زندہ) نہ ہو۔ اور ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کےبعدتمہیں ان کےترکےکاچوتھائی حصہ ملے گا۔ اورجوکچھ تم چھوڑ کرجاؤ، اس کا ایک چوتھائی ان (بیووں) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ “

 

اگر اس معاملے میں سستی کی گئی تو اللہ تعالی کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا جرم ہو گا۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

 

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِين۔[16]

 

”اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسا عذاب ہو گا جو ذلیل کرے گا۔“

 

اسی حوالے سے ایک حدیث پاک رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

 

عن انس رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم من قطع میراث وارثه قطع میراثه من الجنة یوم القیامة۔[17]

 

’’حضرت انس ؓسے روایتہے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جوشخص اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کرے گا۔“

 

 

خلاصہ بحث

فیملی بزنس میں سب سے اہم چیز اس کا کامیابی سے اگلی نسل میں منتقل ہونا ہے۔ خاندانی کاروبار کے تسلسل، بقا اور دوام کے لیے ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف کاروبار کی منتقلی کو کامیابی سے انجام دینا بے حد ضروری ہے، جس میں سب سے اہم چیز جانشینی کی منصوبہ بندی ہے۔جانشینی کی منصوبہ بندی ایک نہایت اہم، نازک اور پیچیدہ عمل ہے، جس کے متعلق سطور بالا میں کافی تفصیل بیان کر دی گئی۔ کاروبار کی اگلی نسل میں منتقلی کے اس عمل میں جہاں دیگر بہت سی اہم ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے، وہیں شریعت کے احکام کی پیروی بھی ناگزیر ہے۔ اس کے لیے کاروبار کے بانی وغیرہ پر لازم ہو گا کہ وہ جملہ امور کو تحریری شکل میں لکھے اور لکھ کر اپنے جملہ معاملات اگلی نسل کے حوالے کرے۔ فیملی بزنس کے ماہرین نے بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور شریعت مطہرہ نے بھی متعدد آیات و احادیث میں اس کی تاکید کی ہے۔ ان دونوں پہلووں کا خلاصہ ذکر کر دیا گیا۔ اگر کوئی بھی خاندانی بزنس کا سربراہ اپنے جانشینی کے عمل کو اس مقالے کی روشنی میں سرانجام دیتا ہے تو بلاشبہ اس کی یہ منصوبہ بندی نہایت بھرپور اور جامع ہو گی اور کاروبار کے کامیاب تسلسل میں نہایت معاون و مددگار ہو گی۔

 

 

 

Ms. ASHWINI SURENDRA KADAM A Study of Conflict and its impact on Family Managed Business: with Special Reference to major cities in Western Maharashtra. A Ph.D Thesis, Submitted,(Enrollment No.: DYP-M.Phil-11022) Patil University,Department of Business Management, Navi Mumbai,January 2014

حوالہ جات

  1.  
  2. Ashok Panjwani, Vijay Aggarwal and Nand Dhameja,Source Family Business: Yesterday, Today, Tomorrow Indian Journal of Industrial Relations, Vol. 44, No. 2 (Oct., 2008), pp. 272-291,Published by: Shri Ram Centre for Industrial Relations and Human Resources Stable URL: https://www.jstor.org/stable/27768196,Accessed: 01-09-2018 15:52 UTC
  3. Ms. ASHWINI SURENDRA KADAM A Study of Conflict and its impact on Family Managed Business: with Special Reference to major cities in Western Maharashtra. A Ph.D Thesis, Submitted,(Enrollment No.: DYP-M.Phil-11022) Patil University,Department of Business Management, Navi Mumbai,January 2014
  4. Alexandra Burns, A research Article Succession Planning in Family-owned Businesses, SUBMITTED IN PARTIAL FULFILLMENT OF THE REQUIREMENTS FOR THE DEGREE OF MASTER OF ARTS ,UNIVERSITY OF SOUTHERN MAINE MASTER’S DEGREE IN LEADERSHIP STUDIES ,on May 2014
  5. Same Referance
  6. خاندانی کاروبار میں کاروباری نظم و نسق اور جانشینی کی منصوبہ بندی: اصیلہ شوز کا تمثیلی مطالعہ، ص:39، 40، شایع کنندہ:انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن(IFC)، ورلڈ بینک گروپ، اشاعت: اکتوبر2015ء 
  7. Family Business Succession: https://www.tharawat-magazine.com/sustain[1]/family-business-succession-planning/#gs.dzm5l1 Last access on 27May 2016
  8. خاندانی کاروبار میں کاروباری نظم و نسق اور جانشینی کی منصوبہ بندی: اصیلہ شوز کا تمثیلی مطالعہ، ص:39، 40، شایع کنندہ: انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن(IFC)، ورلڈ بینک گروپ، اشاعت: اکتوبر2015ء 
  9. steps for succession: https://www.smartcompany.com.au/business-advice/strategy/[2]six-simple-steps-succession-family-businesses/ Last access on 28-5-2019
  10. الترمذی، امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ المتوفی: 279، جامع الترمذی ،ج:2،ابواب الوصایا، ص: 94، طباعت 2018،الطاف اینڈ سنز کراچی، پاکستان
  11. سورہ البقرہ ، آیت: 180
  12. سورہ المائدة: 106
  13. http://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detail Last Access on 7-6-2019 اسلام کا قانون وصیت
  14. ابن عابدين، محمد امين بن عمر بن عبد العزیز عابدين الدمشقی الحنفی، المتوفی:1252ھ، رد المحتار علی الدرالمختار،ج:5، ص696، کتاب الہبہ، دار الفکر،بیروت، الطبعةالثانیة، 1992
  15. سورة النساء، آیات : 12،11
  16. سورہ نساء، آیت:14
  17. التبريزی، محمد بن عبد اللہ الخطيب العمری، ابو عبد اللہ، ولی الدین، التبریزی،المتوفی741ھ، مشکاة المصابیح، ج:2، ص:926،باب الوصایا، المکتب الاسلامی ،بیروت، الطبعةالثالثة، 1985
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...