Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 2 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

رحمۃ للعالمينﷺ کے غیر مسلموں سے معاملات قرآن و سیرت طیبہ کی روشنی میں |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

آپﷺکے غیر مسلموں سے معاملات اور مکالمے دعوت وتبلیغ کی اساس اور اللہ کے پیغام رشدوہدایت کو عام کرنے ، دین کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کے حوالے سے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔ قرآن وسیرت طیبہﷺمیں آپﷺاور خلفاء راشدین کے غیر مسلموں سے معاملات ذکر کئے گئے ہیں ، جو مختلف مذاہب بالخصوص الہامی مذاہب کے پیروکاروں اور خاص طور پر امت مسلمہ کے لئے اسوہ حسنہ کا درجہ رکھتے ہیں۔

 

آج جب کہ دنیا ایک گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ دین کی دعوت کو عام کرنے ، دنیا میں امن وسلامتی کے قیام ، مذہبی رواداری اور مختلف مذاہب میں مفاہمت کے لئے مکالمے کی راہ اپنائی جائے ۔ اس اسلوب کے ذریعے دنیا کی مختلف اقوام کو دین کی دعوت بھی دی جائے اور مفاہمت ، رواداری ، امن وسلامتی کے فروغ کے لئے مکالمے کو ایک موثر اسلوب اور ذریعہ دعوت وتبلیغ بھی بنایا جائے۔

 

مقالے کا یہ موضوع منفرد اور دور حاضر میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس موضوع کو اس لئے اختیار کیا گیا ہے تاکہ قرآن کریم اور سیرت طیبہﷺکی روشنی میں خاتم الانبیاءﷺکے اسوئہ حسنہ اور خلفاء راشدین  کے طرزِ عمل کو اجاگر کیا جائے۔ نیز اس حوالے سے قدیم اور اہم مصادر ومراجع سے استفادہ کرکے یہ ثابت کیا جائے کہ دور حاضر میں مذاہب کے درمیان مفاہمت کے فروغ ، مذہبی رواداری کے قیام اور مختلف تہذیبوں کے درمیان تصادم سے بچنے کا واحد اور موثر ذریعہ مذاہب کے درمیان مکالمہ ہے۔

 

تقریبًا نصف صدی سے مکالمہ بین المذاہب کے موضوع پر بہت کثرت اور تواتر کے ساتھ گفتگو ہورہی ہے۔ مسلمان اور مغربی دنیا کے لوگ اس موضوع پر سیمینارز اور کانفرنسیں کرواتے رہتے ہیں۔ آج کی یہ کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

 

ایک اصولی بات سمجھنی چاہیئے کہ مکالمہ بین المذاہب ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مفہوم مناظرہ ، تبلیغ یا مجادلہ وغیرہ سے ملتا جلتا ضرور ہے لیکن فی نفسہ یہ ایک مستقل اصطلاح ہے۔ جس میں مناظرہ کی طرح کسی سے بحث مباحثہ کرکے اور دلائل دے کر اپنی بات منوانا یا تبلیغ کی طرح کسی کو دین کی دعوت دینا نہیں ہوتا۔ ضمنًا اگر چہ یہ مقاصد بھی حاصل ہورہے ہوتے ہیں ۔ لیکن درحقیقت یہ ایک مستقل عنوان اور اصطلاح ہے۔ سب سے زیادہ قریب لفظ قرآن میں مجادلہ استعمال ہوا ہے۔

 

﴿ادع إلی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلہم بالتي ہي أحسن﴾

 

’’ آپ اپنے رب کی راہ کی طرف علم کی باتوں اور اچھی نصیحتوں کے ذریعہ سے بلائیے (اور اگر بحث آن پڑے تو) ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجئے (کہ اس میں شدت و رخونت نہ ہو)۔‘‘)[1](

 

عربی زبان میں مجادلہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایسے شخص سے جس کا نقطہ نظر آپ کے نقطہ نظر سے مختلف ہو استدلال کے انداز میں بات کریں اپنا موقف دلائل کے ساتھ بیان کریں اور دلائل کے ساتھ اس کا موقف سنیں ۔ اس کے بعد جو مقاصد حاصل کرنا چاہیں اسی کی روشنی میں حاصل کریں۔یہ لفظ اردو کے جنگ وجدل کے مفہوم میں نہیں۔ اس کے بارے میں قرآن کریم میں ہدایات اور احکامات موجود ہیں۔ حضورﷺاور صحابہ کرام  کے تعامل سے بھی بہت سی راہیں اور رہنمائیاں ملتی ہیں۔ قرآن کریم کا یہ لفظبالتی ہی أحسن بہت خوبصورتی کے ساتھ ہر زمانے میں وقت کی ضرورت کے مطابق بہترین انداز بیان اختیار کرتے ہوئے مخاطب کو مطمئن کرنے کے معانی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔اس موضوع سے متعلق بہت سی قرآنی آیات رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ مثلا:

 

﴿فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر﴾ ’’ پھر اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ برغبت نصیحت قبول کرلے۔‘‘)[2](

 

﴿قولوا قولا سدیدا﴾’’ اورراستی کی بات کہو (جس میں عدل اور اعتدال سے تجاوز نہ ہو)۔‘‘)[3](

 

﴿اعدلوا ھو أقرب للتقوی﴾ ’’ عدل کیا کرو وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘)[4](

 

﴿ولا تسبوا الذین یدعون من دون الله فیسبوا الله عدوا بغیر علم﴾

 

’’ اور دشنام مت دو ان کو جن کی یہ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں پھر وہ براہ جھل حد سے گزر کر الله تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔‘‘)[5](

 

﴿لا أعبد ما تعبدون﴾ ’’ میں تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کرتا۔‘‘)[6](

 

﴿وإذا قلتم فاعدلوا ولو کان ذا قربی﴾ ’’ اور جب تم بات کیا کرو تو انصاف رکھو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو۔‘‘)[7](

 

اور اس جیسی بہت سی دیگر آیات مکالمہ بین المذاہب کے لئے بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔ اس رسالہ میں ان بنیادوں کو یا مکالمہ کی تاریخ کو موضوع نہیں بنایا جارہا کہ بحث کی جائے کہ سب سے پہلا مکالمہ کس نے کیا ؟کہاں ہوا؟ مسلمانوں میں یہ اصطلاح کیوں کر آئی؟ اس سلسلے میں کافی شافی کلام ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے مضمون ”مکالمہ بین المذاہب ، مقاصد اہداف اور اصول وضوابط“ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ مضمون سیمینارز رپورٹ ۲۰۰۸میں چھپ چکا ہے جسے حافظ نعمان حامد نے ترتیب دیا ہے اور دسمبر ۲۰۰۷ میں آواری ٹاور میں جو کانفرنس ہوئی تھی اس میں انھوں نے یہ مقالہ پیش بھی کیا تھا۔ خاصہ معلوماتی مقالہ ہے جو کہ ڈاکٹر صاحب کے امت مسلمہ کے لئے درد کا بھی غماز ہے۔

 

ہمارا مقصودحضورﷺکی زندگی کے واقعات او رخلفائے راشدین کی زندگی کے واقعات اور ان سے حاصل ہونے والے لضائح کا بیان ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے ڈاکٹر سعد صدیقی شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور نے اپنے مضمون مکالمہ بین المذاہب کی حدود قیود۔ (آنحضرتﷺکی غیر مسلم وفود سے ملاقاتوں کی روشنی میں)میں کافی مواد جمع کیا ہے۔ وہ بھی خاصہ تحقیقی مضمون ہے اور ہمارے لیے اس موضوع پر لکھنے میں کافی مددگار ثابت ہوا۔

 

ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ الله مسلمانوں کے لیے بڑے درد مند اور فکر مند انسان ہونے کے ساتھ جدید اور قدیم علوم پر بھر پور دسترس رکھتے تھے۔ مغربی تہذیب سے بھی خوب واقف تھے۔ انہوں نے ۹ دسمبر ۲۰۰۷ میں جو کانفرنس ہوئی تھی مکالمہ بین المذاہب کے موضوع پر انہوں نے اس میں یہ بات کہی تھی کہ’’میرا ذاتی خیال یہ ہے ہوسکتا ہے کسی کو اختلاف بھی ہو مسلمان دفاعی پوزیشن پر جارہے ہیں چاہے عقائد و نظریات کا معاملہ ہو یا معاشیات و معاشرت کا، سیاسی معاملہ ہو یا مذہبی ہر جگہ ہم اپنا دفاع کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور مسلمان ہر جگہ کفا رکے سامنے مختلف فورمز میں ان کی عدالت کے کٹھرے میں کھڑا ان کے اعتراضات کے جوابات دے رہا ہوتا ہے۔ عام طور پر ان مکالمات میں حدود کے قواعد، شریعت میں انسانی حقوق، عورت کا مقام اور مرتبہ، ریاست اور مذہب کا تعلق، مسلمانوں کی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق، مذہبی تعلیم اور مذہبی تعلیم کے ادارے خاص کر مدارس اور مدرسہ، دہشت گردی وغیرہ۔ ان مکالموں میں اکثر مسلمان علماء جاتے ہیں اورمسلمان علماء کو جانا بھی چاہیے۔

 

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سوالات اسلام ہی کے بارے میں کیوں ہیں گویا اسلام ایک ملزم اورمتہم ہے ایک مجرم ہے جس پر بہت سارے الزامات لگائے گئے ہیں او رایک مشترکہ کمیٹی بیٹھ کر ان الزامات کا جائزہ لے۔ مسلمان علماء اپنا دفاع کریں اور مغربی فضلاء و علماء بیٹھ کر اس دفاع کا جائزہ لیں اور طے کریں کہ ہم مطمئن ہیں یا نہیں۔ یہ مسلمانوں کے وقار اور اسلام کی شان کے خلاف ہے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ یا تو ایسا ہو کہ مثلاً کوئی بھی بنیادی حکم ہے تو اس کا ان کے ہاں کیا تصور ہے؟وہ مسلمان جو مغرب سے واقف ہیں وہ تعین کریں کہ ہم آپ کے یہ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں مسلمانوں کی طرف سے وہ لوگ شریک ہوں جو مسلمانوں کی طرف سے تحفظات بیان کریں۔ یا پھر یہ کہ مسلمانوں اور ان کے مستقبل اور مشترک مقاصد کے لیے ناگزیر مسائل پر بھی بحث ہو۔

 

اس لیے کہ آپ کی کن موضوعات پر، کن مسائل پر گفتگو ہو یہ بھی بڑی اہم بات ہے ، کیا اسلام کی حیثیت ایک مستقل ملزم کی ہے جو اپنا موٴقف بیان کرنے کے لیے کبھی اس عدالت میں، کبھی اس عدالت میں پیش ہو اور کسی عدالت میں اس کی سنوائی نہ ہو، جیسا آج کل ہورہا ہے، یا اگر یکساں سطح پر باعزت تبادلہ خیال ہورہا ہے تو دونوں طرف سے ہونا چاہئے، کیا ان کے ہاں ایسی چیزیں نہیں ہیں؟ ایسی چیزیں بے شمار ہیں جن پر مسلمانوں کو تحفظات ہیں۔ لیکن ان کا جسٹی فیکشن ان کی نظر میں کیا ہے؟ مسلمانوں کو سیکولرازم پر تحفظات ہیں۔ مذہب اور ریاست کی تفریق کا تصور مسلمان نہیں رکھتے۔ مسلمانوں کو قانون اور اخلاق میں جو تبعید ہے اس پر تحفظات ہیں۔ مسلمانوں کو خاندانی ادارہ جو وہاںElaborateہو رہا ہے ختم ہو رہا ہے۔ بغیر شادی کے رہنے والے جوڑوں کی تعداد ۶۰ فیصد ہوگئی ہے مسلمان اس کو غیر اخلاقی سمجھتے ہیں، اس پر بات، یہ انسانیت کا ایک مشترکہ مسئلہ ہے کہ ساری انسانی نسل حرام کی پیداوار ہے، تو مسلمان اس کو غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اس پر بات ہونی چاہئے۔

 

بعض ممالک میں خودکشیوں کا ریشو زیادہ آرہا ہے، جن ممالک میں خوشحالی زیادہ ہے وہاں خودکشیاں زیادہ ہیں، کئی بڑے ممالک ایسے ہیں جہاں ہر دو سیکنڈ کے بعد عورت کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ بدکاری ہوتی ہے، زبردستی، زنا بالجبر ہوتا ہے اس پر بات ہونی چاہئے، اس پر کوئی بات نہیں کرتا، آپ کے ہاں مختاراں مائی کو کوئی پکڑ کر لے جائے تو پوری دنیا ہل جاتی ہے اور وہاں ہر دو سیکنڈ بعد ایک عورت کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے کوئی نہیں پوچھتا۔ یہ تو پھر یک طرفہ ساری بات ہے۔ اس پر پھر مسلمانوں کو غور کرکے یہ طے کرنا چاہئے کہ اس کے مسائل کیا ہونے چاہئیں، اور مسائل کا متن ایسا ہو کہ فریق ایک دوسرے کے موٴقف کو سمجھ لیں، نہ کہ ایک فریق کو مکمل طور پر قفسِ انہام میں یا کٹہرے میں بطور ملزم کے کھڑا کیا جائے اور اب مسلمان مسلسل ۵۰ سال سے مستقل جواب دے رہے ہیں، ڈائیلاگ کے نام سے اور دو سو برس سے د ے رہے ہیں اشراق کے نام پر اور اس سے پہلے کسی اور نام پر،یہ سلسلہ لامتناہی رہے گا تو تعطل رہے گا، تعلقات میں کشاکش رہے گی، معاملات کے چلانے میں اور مستقبل کی نقشہ کشی کرنے میں، اس لیے اگر سنجیدگی سے مستقبل کی نقشہ کشی کرنا مقصود ہے، تو وہ ایک خطوط پر ہونی چاہئے۔‘‘)[8](

 

یہ مختصر سی تمہیدی روداد ذکر کرنے کے بعد اب ہم موضوع کو حضورﷺکی زندگی سے شروع کرتے ہیں۔ حضورﷺ کی زندگی بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے۔بلکہ قبل از نبوت کے دور کو بھی شامل کریں تو تین حصوں پر مشتمل کہا جاسکتا ہے۔ قبل از نبوت کا دور، ہجرت سے قبل کا مکی دور اور ہجرت کے بعد کا مدنی دور۔ حضور ﷺ کی پوری زندگی میں کفار کے ساتھ جومختلف معاملات ہوئے ہیں مثلاً: آپﷺکی اسلام سے قبل غیر مسلموں کے آپس کے معاہدات میں پیش رفت، غیر مسلموں کو انفرادی و اجتماعی ، خفیہ واعلانیہ دعوت، غیر مسلم بادشاہوں کے نام مکتوبات گرامی، مدنی دور میں غیر مسلم وفود سے مکالمات، غیر مسلموں کو جانی ومالی حفاظت دینے کے فرامین جاری کرنا، جانی دشمن سے عفو ودرگزر، دشمنوں کے حق میں دعائے خیر، غیرمسلم قیدیوں سے حسن سلوک اور اسی طرح کے معاملات جو صحابہ نے بھی سر انجام دیئے ان میں اگر غو رکیا جائے تو دعوتی پہلو کے ساتھ ساتھ محبت، رواداری، تحمل وبرداشت اور دین برحق کو تمام ادیان پر غلبہ دلانے کے حصول کا جذبہ بھی کار فرما نظر آتا ہے۔اس موضوع کو اختیارکرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے تاکہ حضور ﷺکی زندگی کے واقعات کو پڑھ کر مسلمان اپنا ایک لائحہ عمل بنائیں اور اس دور میں مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈا شروع ہوا ہے اس کا سدباب کیا جاسکے۔

 

آپﷺکی اسلام سے قبل غیر مسلموں کے آپس کے معاہدات میں پیش رفت

کعبۃ الله کی تعمیر میں حجر اسود نصب کرنے پر جھگڑے کا شاندار تصفیہ

 

نبی کریمﷺکی عمر مبارک جب پینتیس سال کے لگ بھگ تھی کہ اس دوران قریش نے کعبة الله کی تعمیر کا فیصلہ کیاجب تعمیر مکمل ہونے لگی اور حجر اسود نصب کرنے کا موقع آیا توان میں سخت اختلاف ہوگیا ہر قبیلہ یہ چاھتا تھا کہ یہ سعادت اسے نصیب ہو۔ آپﷺنے اپنی دانائی سے ایسی تدبیر فرمائی کہ سب خوش ہوگئے اور ایک چادر بچھا کر اس پر حجر اسود رکھ کر سب سے اٹھوایا اور ایک خوفناک جنگ کا خاتمہ فرمایا۔)[9](

 

قبل از نبوت حلف الفضول میں شرکت

نبی کریمﷺکی عمر مبارک جب بیس سال کے لگ بھگ تھی ایک اہم معاہدے کی تجدید ہوئی، اس معاہدے کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ عرب ممالک کی عام بدامنی، راستوں کے خطرناک ہونے،مسافروں کے لٹنے اور غریبوں پر زبردستوں کے ظلم نے چند باشعور اور دردمند لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کا تدارک کریں، چنانچہ ایسا جذبہ رکھنے والے کچھ لوگ جمع ہوئے ان میں چند لوگ فضل بن فضالہ، فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث نام کے تھے، انہوں نے ایک معاہدہ مرتب کیا ، جو ان کے نام پر حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا۔)[10](

 

حرب فجار جو واقعہٴ فیل کے بعد بڑا واقعہ ہے، جس میں بہت خونریزی ہوئی تھی، اس کے نتیجے میں حجاز میں بڑی بدامنی ہوگئی تھی۔ چنانچہ زبیر بن المطلب کی تحریک پر اور بقول سلیمان منصور پوری آپ ﷺ کی تحریک پر بنو ہاشم اور بنو تمیم دونوں عبدالله بن جُدعان کے گھر جمع ہوئے اور حلف الفضول کی تجدیدکی، اس معاہدے میں چار اہم شقیں تھیں اور ہر ممبر اس کا اقرار کرتا تھا۔

 

۱۔ ہم ملک سے بدامنی دور کریں گے۔۲۔ مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے۔

 

۳۔ غریبوں کی امداد کرتے رہا کریں گے۔۴۔ او رہم زبردست کو زیردست پر ظلم کرنے سے روکیں گے۔

 

آپﷺاس معاہدے میں شریک تھے اس کے نتیجے میں پھر کسی قدر امن قائم ہوگیا۔ آپﷺاس معاہدے کا ذکر کرکے فرماتے تھے کہ اس معاہدے کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی دئیے جاتے تو ہر گز پسند نہ کرتا اور اگر زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدے کی طرف بلایا جاوٴں تو اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا۔)[11](

 

حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبیﷺکی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ بیمار ہوا تو آپﷺاس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ اس کے سرہانے بیٹھے تو اسلام کی دعوت دی۔ لڑکا اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا جو پاس ہی موجود تھا (کہ باپ کا کیا خیال ہے؟) باپ نے لڑکے سے کہا کہ ابو القاسمﷺکی بات مان لو، چنانچہ لڑکا مسلمان ہوگیا، اب نبیﷺیہ کہتے ہوئے باہر آئے کہ شکر ہے الله کا جس نے اس لڑکے کو جہنم سے بچا لیا۔)[12](

 

اس واقعے سے اندازہ کیجئے کہ دعوت و تبلغی کا کام ہر موقع اور ہروقت کیاجانا چاہیے۔ مرض میں چونکہ انسان کا دل نرم ہوتا ہے اس لیے حق کو آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ پھر دکھ کے وقت کی ہمدردی اور اعانت انسان کو یاد رہتی ہے۔ ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عیسائیوں نے اسپتالوں کے ذریعے مشنری کام کو وسیع پیمانے پر کیا ہے اور کر رہے ہیں۔

 

غیر مسلموں کو انفرادی واجتماعی ، خفیہ واعلانیہ دعوت

اسلام کی تبلیغ کی ابتداء تو جبر ، زور اور زبردستی کے جس معندانہ ماحول میں ہوئی وہ انسانی تاریخ کی دردناک لیکن تابناک مثال ہے۔ اسلام کا آغاز مظلومیت ، بے چارگی أور بے بسی سے ہوا ۔ قریش، یہود اور نصاری سب ہی اس کے مخالف تھے ۔ اسی لئے الله کی طرف سے حکم تھا کہ اس کا آغاز اپنے گھر اور ترمی سے کروااور وہ نہ مانیں تو ان سے تعارض نہ کرو۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔آپ جانتے ہیں کہ جب الله تعالیٰ کا فرمان:

 

﴿وأنذر عشیرتک الأقربین واخفض جناحک لمن اتبع من الموٴمنین فإن عصوک فقل إنی برئ مما تعملون﴾

 

’’ اور آپ سب سے پہلے اپنے قریبی کنبہ کو ڈرائیے۔ اور اپنی پیروی کرنے والے مومنین کے لئے نرم ہو جا، اگر تیری بات نہ مانیں تو کہہ دے میں تمہارے اعمال سے بری ہوں۔‘‘)[13](

 

حضرت خدیجہؓ سب سے پہلے ایمان لائیں، پھر جضرت علی کو یہ شرف حاصل ہوا، جن کی عمر اس وقت دس سال تھی آپ کے غلام زید بن حارثہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ قریش کے سرداروں میں سب سے پہلے جضرت ابوبکرؓآپ کے گریدہ ہوئے، حضرت عمارؓاور سعید بن زیدؓنے بھی آپ کی دعوت کو قبول کیا، عورتوں میں حضرت خدیجہ ؓکے علاوہ آپﷺکے چچا حصرت عباسؓ کی بیوی ام الفضلؓ، اسماء بنت عمیس، اسماء بنت أبی بکرؓاورحضرت عمر فاروقؓ کی بہن حضرت فاطمہؓ بھی اس کارواں میں شامل تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی مساعی سے حضرت عثمان غنیؓ، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت طلحہؓ، اورحضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی مسلمان ہوئے۔ مسلمان چھپ کر عبادت کرتے ۔ کفار کی طرف سے ایذاء رسانی کا سلسہ بھی جاری تھا۔)[14](

 

نبوت کے تین سال بعدجب الله کی طرف سے حکم نازل ہوا تو آپ نے خفیہ دعوتی سلسلے سے آگے بڑھتے ہوئے اعلانیہ دعوت کا سلسلہ شروع کیا۔فاصدع بما توٴمر وأعرض عن المشرکین پس تجھ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو کھل کر کہہ دے اور مشرکین سے دور ہو جا۔اس سلسلے میں حضورﷺکا کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کو نام بنام بلانا ان کے ساتھ آپ کا مکالمہ اور انہیں خیر کی دعوت دینا کتب سیرت میں مشہور ہے۔ ابو لہب کا آپ کے ساتھ جرح کرنا آنحضرتﷺکاتحمل اور برداشت۔ انہیں جواب نہ دینا انہیں بہت پیارو محبت کے ساتھ ان کی فلاح و بھلائی کی بات سمجھانا جس پر جب ابو لہب کا آپ کو بد دعا دینا نعوذ بالله جس پر الله تعالیٰ کی طرف سے سورہ لہب نازل ہونا جس میں ابو لہب کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔)[15](

 

اس دعوتی مکالمہ سے جہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضورﷺ نے انفرادی او راجتماعی دعوتی مکالمہ فرمایا اور بہت ہی اچھے انداز سے ان کو فلاح کی طرف بلایا تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اس کے ساتھ یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو اس دعوت کا انکار کرتا ہے اور جرح وعدم برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے الله کا غیض و غضب اس پر کیسا قہربن کرنازل ہوتا ہے قیامت تک کے لیے وہ آیات قرآن کریم کا جزء بن گئیں۔

 

اگر صرف حضو رﷺکی زندگی کو ہی لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے مشرکین، نصاری، یہود اور مجوس اور دیگر مذاہب والوں کو دین کی دعوت دی جس کی حیثیت تبلیغ کے ساتھ دعوتی مکالمے کی بھی مانی جاسکتی ہے۔ اور یہ دعوتی مکالمے ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد کی زندگی دونوں کو محیط ہیں۔

 

صنادید قریش سے مکالمہ

ابتدائی زمانہ اسلام میں آپ کا اپنے چچا ابو طالب کی موجودگی میں صناید قریش سے مکالمہ بہت مشہور ہے جس میں آپ نے انہیں کلمہ واحدہ کی طرف دعوت دی اور انہیں اس کے فوائد بتائے وہ کلمہ واحدہ پڑھنے کے لیے تیار تھے لیکن جب پتہ چلا کہ وہ کلمہ توحید ہے تو وہ اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔جس کاتذکرہ سورة ص أجعل الآلہة إلہا واحدا إن ہذ ا لشئ عجاب میں حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق ہے۔)[16](

 

حضورﷺ کا اپنے چچا ابو طالب سے مکالمہ

جب قریش نے حضورﷺ کی شکایت لگائی اور ابو طالب نے آپ کو طلب کرکے وضاحت چاہی تو حضور کا وہ جوا ب بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ چچا جان اگر آپ میرے داہنے ہاتھ سورج اور بائیں ہاتھ پر چاندبھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو نہ چھوڑوں گا۔ یہاں تک کہ الله کامیابی دے یا میرا خاتمہ ہو یہ کہہ کر آپ کی آنکھ مبارک نم ہوگئی اور آپ رونے لگے۔)[17](

 

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مکالمہ میں اپنے نظریہ اور مشن کو چھوڑنا صحیح نہیں ۔

 

عتبہ بن ربیعہ کے ساتھ جو حضورﷺ کا جو مکالمہ

عتبہ بن ربیعہ کے ساتھ جو حضورﷺ کا جو مکالمہ ہوا وہ کتنا دلچسپ ہے اس نے مال، دولت، شادی، بادشاہت، عزت ہر طرح سے لالچ دینے کی کوشش کی آپﷺنے جواب سورہ حم السجدة کی آیات تلاوت فرمائیں وہ لاجواب ہوکر اپنی کفار قوم کو سمجھانے اور محمدﷺسے تعرض نہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔)[18](

 

حضورﷺکا حضرت وحشیؓ سے مکالمہ

حضرت وحشی ؓ سے جو اسلام سے قبل حضرت حمزہ ؓ، حضو رﷺکے چچا کے قاتل بھی تھے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دیکھئے وہ سوا ل کرتا ہے کہ میں قاتل مشرک زانی ہوں میری نجات کیسے ہوسکتی ہے۔حضورؐ نے اس کے تردد کو دور فرمایا قرآن کی آیات اتریں:

 

﴿الامن تاب وآمن وعمل صالحا فاولئک یبدل الله سیاتہم حسنات وکان الله غفورا رحیما﴾

 

’’ مگر جو (شرک و معاصی سے) توبہ کرلے اور ایمان (بھی) لے آئے اور نیک عمل کرتا رہے تو الله تعالیٰ ایسے لوگوں کے (گزشتہ) گناہوں کی جگہ نیکیاں عنایت فرمائے گا اور الله غفور رحیم ہے۔‘‘)[19](

 

وحشی پھر کہتا ہے کہ توبہ اور اعمال صالحہ کی شرط بڑی کڑی ہے ممکن ہے میں پوری نہ کرسکوں جواب ملتا ہے:

 

﴿ ان الله لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء﴾

 

’’بیشک الله تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے۔)[20](

 

وحشی پھر فرماتے ہیں کہ الله کی مشیت کی شرط لگادی گئی ہے نہ جانے میرے بارے میں الله کی مشیت ہوگی یا نہ ہوگی۔ کوئی امید افزا بات بتائیں۔ الله نے آیت اتاردی:

 

﴿یا عبادی الذین أسرفوا علی أنفسہم لاتقنطوا من رحمة الله إن الله یغفر الذنوب جمیعا﴾

 

’’ اے میرے بندوں جنہوں نے (کفرو شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو، بالیقین الله تمام گزشتہ گناہوں کو معاف فرمادے گا۔‘‘)[21](

 

دیکھئے دعوتی مکالمہ میں کتنی زیادہ نرمی اور برداشت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے چچا جو دل و جان سے زیادہ عزیز تھے ان کے قاتل کے ساتھ بھی اس انداز کی گفتگو او رامید افزا باتیں بتاکر دین کی طرف راغب کیا جارہا ہے۔)[22](

 

جماعتوں کے ساتھ مکالمہ

 

حضورﷺ نے مکالمہ صرف انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ جماعتوں سے بھی فرمایا:مثال کے طور پر ابن جریر نے ابن عباس سے جو واقعہ نقل کیا ہے جس میں صنادید قریش نے آپﷺ کو بلوایا اور آپ کو مال و دولت کا لالچ دینے کی بات کی۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ بیمار ہیں تو ہم علاج کرائیں۔ لیکن آپ نے ایک ہی جواب دیا کہ میں تو جنت کی بشارت اور دوزخ سے ڈراتا ہوں۔)[23](

 

پھر انہوں نے کہا کہ اگر تم ہماری بات نہیں مانتے تو ایسا کرو کہ ہم سے فقرو فاقہ دور کردو، اور ہمارے جدامجد قصی بن کلاب کو زندہ کردو۔ جو نیک انسان تھا اس سے ہم آپ کے بارے میں پوچھ لیں گے جنت دوزخ اور آخرت کے بارے میں اگر وہ آپ کی تصدیق کردے تو ہم بھی تصدیق کردیں گے۔

 

حضورﷺ نے کتنے پیارے انداز سے جواب دیا کہ میں ان باتوں کے لے نہیں آیا میں تو الله کی جانب سے وہی باتیں لایا ہوں جن کو دے کر الله نے مجھے بھیجا ہے جو تمہاری کامیابی کی ضامن ہیں۔ اگر تم نہ مانوگے تو میں صبر کروں گا۔وہ پھر بولے کہ چلو الله سے دعا کرو کوئی فرشتہ آجائے جو آپ کی تصدیق کرے۔ چلیں آپ اپنے لیے باغات محل اور خزانے مانگ لیں۔ تاکہ آپ کو بازاروں میں کمانے کی زحمت اور تکلیف نہ ہو۔حضورﷺ کا جواب سنیں میں ان باتوں کے لیے نہیں آیا میں رحمت کی خوشخبری سنانے اور عذاب سے ڈرانے کے لیے آیا ہوں۔ جو کچھ میرے پاس ہے اس میں تمہارے لیے دونوں جہانوں کی بھلائی ہے۔پھر کہنے لگے چلو تم ہم پر آسمان گرا دو تاکہ ہم ختم ہوجائیں جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے۔

 

آپﷺ نے فرمایا یہ الله کے اختیار میں ہے۔انہوں نے پھر کہا کہ کیا الله کو پتہ نہیں کہ ہم تم سے سوا ل کرنے جمع ہیں وہ تمہیں جواب پہلے سے ہی دے دیتا۔ ہمیں ایسا پتہ لگاہے کہ تم کو یمامہ کا ایک آدمی رحمان بتاتا ہے۔ ہم خدا کی قسم کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اور آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے بدلہ لیتے رہیں گے یا آپ ہلاک ہوجائیں یاہم ختم ہوجائیں۔کسی نے کہا کہ فرشتے الله کی بیٹیاں ہیں۔ ہم ان کو پوجتے ہیں ان کوحاضر کرو تو ہم مسلمان ہوجائیں جب انہوں نے یہ باتیں شروع کیں توحضور اٹھ کر چل دیئے۔

 

آپ کے ساتھ عبدالله بن ابی امیہ ابن عبدالله، ابن عمرو بن مخزوم جو آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا بیٹا تھا چل دئیے۔ کہنے لگا اے محمد انہوں نے جو پیش کرا آپ زمانے پھر انہوں نے اپنے منافع کا سوا ل کیا تو اس کو بھی آپ نے پورا نہیں کیا پھر عذاب کا مطالبہ بھی آپ نے پورا نہیں کیا۔ خدا کی قسم میں ایمان نہیں لاوٴں گا چاہے آپ آسمان تک سیڑھی لگائیں آسمان پر چڑھے جائیں میں دیکھ رہا ہوں آپ کھلی کتاب لے کر آئیں چار فرشتے ساتھ ہوں آپ کی تصدیق کے لیے میں پھر بھی آپ کی تصدیق نہ کروں گا۔ دیکھئے جناب والا حضو رکے ساتھ کس انداز کا مکالمہ کر رہے ہیں۔ اور حضور کا غم اور کڑھن دیکھیں۔)[24](

 

غیر مسلم بادشاہوں کے نام رسول الله ﷺکے مکتوبات گرامی

مکالمے کی ایک دعوتی مثال(آپ ﷺکا صحابہ کرام کے ہاتھوں دعوتِ اسلام کیلئے خطوط روانہ کرنا)

 

حدیبیہ کی صلح کے بعد آپﷺنے اپنے معاصر سلاطین کو اسلام کی دعوت دی اور ان کے پاس خطوط بھجوائے جو رواداری، نرمی اور بردباری کی اعلی مثال ہے۔ رسول اللهﷺنے کسریٰ کے پاس عبدالله بن حذافہؓ کو اور حاکم یمامہ ہوذة بن علی کے پاس سلیط بن عمروؓ کو اور ہجر کے حاکم منذر بن ساوی کے پاس علاء بن حضرمیؓ کو اور عمان کے دونوں حاکموں جیغر وعباد جلندی کے دونوں بیٹوں کے پاس عمرو بن العاص ؓ کو اور قیصر کے پاس حضرت دحیہ کلبیؓ کو اور منذر بن حارث غسانی کے پاس شجاع بن وہب اسدیؓ کو اور نجاشی شاہ حبشہ کے پاس عمرو بن امیہ ضمریؓ کو آپ نے روانہ فرمایا۔ یہ سارے حضرات سوائے حضرت علاء بن حضرمیؓ کے پیغام رسانی کرکے آپ کی حیات طیبہ ہی میں واپس آگئے، علاء بن حضری ؓبحرین میں تھے کہ جناب رسول اللهﷺدار بقا کی طرف رحلت فرما گئے۔)[25](

 

مکتوبِ گرامی ﷺبنام نجاشی شاہِ حبش

 

رسول اللهﷺنے عمرو بن امیہ ضمری ؓ کے ہاتھ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے بار ے میں شاہ حبشہ کو یہ گرامی نامہ ارسال فرمایا:’’بسم الله الرحمن الرحیم،محمد رسول الله ﷺکی جانب سے نجاشی شاہ حبش کے نام۔

 

السلام علیک میں اس الله پاک کی حمد تمہاری طرف پیش کرتا ہوں جو مالک کائنات اورمقدس امن دینے والا اور سلامت رہنے والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ ؑ الله کی طرف سے روح اور الله کا ایسا کلمہ ہیں جن کو مریم بتول نیک طینت، پاک دامن کی طرف القا فرمایا تھا، چنانچہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ حاملہ ہوگئیں، ان کو الله نے اپنی روح اور (اپنے فرشتہ کی پھونک سے پیدا فرمایا جس طرح پر کہ حضرت آدم ؑ کی تخلیق اور ان میں روح کا پھونکنا اپنے دست قدرت سے کیا اور میں تم کو ایسے الله کی طرف بلاتا ہوں جو تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی اطاعت وفرماں برداری کی پابندی کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی کہ میرا اتباع کرو۔ مجھ پر اور جو کتاب مجھ پر نازل کی گئی اس پر ایمان لے آوٴ بیشک میں الله کا رسول ہوں اور میں نے تمہارے پاس اپنے چچازاد بھائی جعفر اور ان کی معیت میں دوسرے مسلمانوں کو بھیجا ہے جب یہ لوگ تمہارے پاس پہنچیں تو ان کی خاطر تواضع کرنا اور تکبر اور غرور کو چھوڑ دینا، میں تم کو اور تمہارے لشکر کو الله عزوجل کی طرف بلاتا ہوں میں تمہیں تبلیغ و نصیحت کرچکا میری نصیحت کو مان لو اور اس پر سلامتی ہے جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔“)[26](

 

مکتوبِ گرامی ﷺبنام قیصر و شاہ روم

 

حضرت دحیہ کلبی ؓفرماتے ہیں جناب رسول اللهﷺنے مجھے گرامی نامہ دے کر قیصر کی طرف بھیجا میں نے قیصر کے یہاں پہنچ کر مکتوب گرامی اس کے حوالہ کیا قیصر کے پاس اس کا بھتیجا بیٹھا ہوا تھا، اس کا رنگ سرخ، آنکھیں نیلی، سر منڈا ہوا تھا، خط قیصر کے سامنے پڑھا گیا، جس کا مضمون گرامی یہ ہے:الله کے رسول محمد ﷺکی طرف سے روم والے ہر قل کے نام

 

یہ سن کر اس کا بھتیجا غرآیا اور تڑخ کر بولا یہ خط ہر گز نہ پڑھا جائے گا، قیصر (یعنی ہر قل) نے اس سے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا اس لیے کہ کہنے والے نے اپنا نام پہلے لکھا ہے اور دوسرے یہ کہ روم کا بادشاہ لکھنے کے بجائے روم والا لکھا ہے۔ قیصر نے کہا یہ مکتوب گرامی ضرور پڑھا جائے گا، چنانچہ یہ خط پڑھا گیا اور جب قیصر کے پاس سے مجمع ہٹ گیا قیصر نے مجھے اور اپنے اس پادری کو جوہر کام میں مشیر سمجھا جاتا تھا اندر بلالیا ساری باتیں اس کے سامنے بیان کیں اور آپ کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا پادری نے کہا یہی تو وہ نبی ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے تھے اور جن کی ہم کو عیسیٰ ؑ نے بشارت دی ہے، قیصر نے پھر پادری سے پوچھا میرے لیے اب تمہارا کیا حکم ہے پادری نے اس سے کہا بہر حال میں تو ان کی تصدیق کروں گا، اور ان کا اتباع کروں گا، قیصر نے کہا اگر میں ایسا کر لوں تو میری سلطنت چلی جائے گی۔

 

حضرت دحیہؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ تو اس کے پاس سے چلے آئے اور قیصر نے ابو سفیان کے پاس جو ان دنوں وہیں تھے آدمی بھیج کر ان کو بلوایا اور ان سے دریافت کیا وہ آدمی جو تمہارے یہاں ظاہر ہوا ہے کون ہے؟ کیسا ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ جوان آدمی ہے قیصر نے پوچھا کہ تم لوگوں میں اس کا حسب نسب کیسا ہے؟ ابو سفیان نے کہا حسب نسب میں اس سے افضل ہم میں سے کوئی نہیں ہے، قیصر نے کہا یہ بات علاماتِ نبوت میں سے ہے، اس کے بعد پوچھا کہ آپ کی سچائی کس درجہ ہے ابو سفیان نے کہا کہ کبھی جھوٹ نہیں بولا قیصر نے کہا یہ بھی علامت نبوت سے ہے، قیصر نے پوچھا کیا کوئی تمہارے ساتھیوں میں سے اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد تمہاری طرف لوٹا ابو سفیان نے کہا نہیں قیصر نے کہا یہ بھی نبوت کی نشانی ہے، قیصر نے دریافت کیا جب وہ اور اس کے ساتھی جنگ کرتے ہیں تو کیا پسپا بھی ہوتے ہیں ابو سفیان نے کہا کبھی انہیں شکست ہوتی ہے کبھی فتح ہوتی ہے قیصر نے کہا یہ بھی نبوت کی نشانی ہے۔

 

حضرت دحیہ ؓ فرماتے ہیں۔ اس کے بعد مجھ کو بلا کر کہا اپنے حضرت سے کہہ دینا مجھے یقین کامل ہے کہ وہ نبی ہیں لیکن میں اپنا ملک نہ چھوڑوں گا حضرت دحیہ ؓ کہتے ہیں جس پادری سے رائے لی تھی لوگ اس کے پاس ہر اتوار کو جمع ہوا کرتے تھے وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کیاکرتا تھا اس کے بعد جب اتوار آیا وہ وعظ و نصیحت کے لیے اپنے حجرے سے نہیں نکلا اور اگلے اتوار تک حجرے ہی میں بیٹھ رہا میں اس کے پاس آیا جایا کرتا تھا، وہ مجھ سے باتیں کر تا اور پوچھا کرتا تھا، اس کے بعد دوسرا اتوار آیا لوگوں نے اس کا بڑا انتظار کیا کہ وہ باہر آئے لیکن وہ باہر نہ نکلا او رمرض کا بہانہ کر گیا، اور ایسا اس نے کئی مرتبہ کیا تو لوگوں نے اس کی طرف یہ پیغام بھیجا یا تو ہم لوگوں کے پاس آ اور نہیں توزبردستی ہم لوگ داخل ہوکر تجھے قتل کردیں گے ہم لوگ تو تجھے اسی دن سے بدلا ہوا پاتے ہیں جب سے وہ عربی آیا ہے مجھ سے پادری نے کہا تم اس خط کو لو اور اپنے حضرت کو دے دینا اور میرا سلام عرض کرنا اور آپ سے کہنا کہ بیشک میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے الله کے اور کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ محمدﷺالله کے رسول ہیں میں آپ پر ایمان لاتا اور آپ کی تصدیق کرتا ہوں اور میں نے آپ کا اتباع کیا ان لوگوں کو میرا یہ ایمان لانا برا لگا جو کچھ (ا ے دحیہ) تم دیکھ رہے ہو آپ تک پہنچا دینا، اس کے بعد پادی باہر نکلا اور لوگوں نے اسے شہید کردیا۔

 

بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر قل نے آپ کی گرامی نامہ پڑھ کر حضرت دحیہ ؓ سے کہا تجھ پر بڑا افسوس ہے بے شک خدا کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے حضرت بنی مرسل ہیں اور یہ وہی ذات گرامی ہیں جن کا ہم لوگ انتظار کر رہے تھے، اور ان کا تذکرہ ہماری کتابوں میں موجود ہے لیکن مجھے باشندگان روم سے اپنی جان کا خطرہ ہے اور اگر یہ کھٹکا نہ ہوتا تو میں ضرور آپ کا اتباع کرتا تم صنغاطر پادری کے پاس جاوٴ اور اس سے اپنے حضرت کا تذکرہ کرو، اس لیے کہ وہ سر زمین روم میں مجھ سے بڑا ہے او راس کی بات زیادہ مانی جاتی ہے حضرت دحیہؓنے پادری سے جاکر بات چیت کی، پادری نے کہا تمہارے حضرت خدا کی قسم نبی مرسل ہیں ہم ان کی صفات سے اور ان کے نام سے بھی واقف ہیں اس کے بعد وہ اپنے حجرے میں گیا اور اپنے کپڑے اتارے اور سفید کپڑے پہن کر باہر آیا اور اس نے کلمہ حق کی شہادت دی اہل روم اس پر پل پڑے اور اس کو شہید کر ڈالا۔)[27](

 

مکتوبِ گرامیﷺبنام مقوقس شاہ اسکندریہ (مصر)

 

حضرت عبدالله بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں رسول اللهﷺنے حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہ کو اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کے پاس نامہ گرامی دے کر بھیجا یہ حضور کا خط لے کر پہنچے مقوقس نے گرامی نامہ کو چوما اور حضرت حاطب ؓ کا اکرام کیا اور بہت اچھی طرح ان کو ٹھہرایا اور جب انہیں رسول اللهﷺکے پاس واپس کیا آپﷺکے لیے ان کے ہاتھ بطور ہدیہ ایک جوڑاکپڑا اور زین سمیت ایک خچر اور دو باندیاں پیش خدمت کیں جن میں سے ایک آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی ماں ہوئیں جن کا نام ماریہ ؓ تھا اور دوسری باندی حضورﷺنے محمد بن قیس عبدی کو ہبہ کردی۔

 

حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ فرماتے ہیں مجھے رسول اللهﷺنے مقوقس شاہ اسکندریہ کے پاس نامہ گرامی دے کر بھیجا۔ مقوقس نے مجھے اپنے محل میں اپنے پاس ٹھہرایا اس نے اپنے تمام پادریوں کو جمع کیا اور مجھے بلا کر کہا میں تم سے کچھ باتیں پوچھوں گا، تم ذرا سمجھ کر جواب دنیا میں نے کہا پوچھئے اس نے کہا تم اپنے حضرت سے مجھے مطلع کر دکیا وہ نب ینہیں ہیں میں نے کہا وہ بلاشبہ الله کے رسول ہیں اس نے کہا کہ جب وہ اس اونچے پائے کے تھے تو انہیں یہ کیا سوجھی کہ جب قوم نے انہیں وطن سے نکال باہر کردیا قوم کے لیے بد دعا کیوں نہ کی؟

 

میں نے کہا کیا حضرت عیسیٰؑ بن مریم ؑکے بارے میں تم لوگ الله کے رسول ہونے کی شہادت نہیں دیتے ہو اس نے کہا بیشک وہ الله کے رسول ہیں میں نے کہا جب قوم نے انہیں پکڑا اور ان کو سولی دینے کاارادہ کیا تو انہیں یہ کیا سوجھی کہ قوم پر بد دعا کیوں نہیں کی؟ کہ الله ان سب کو تباہ و برباد کردیتا اور ان کو الله نے آسمان دنیا پر اٹھالیا۔ حضرت حاطب ؓ کہتے ہیں اس نے مجھ سے کہا کہ تم نہایت ہی دانا اور عقل مند کے پاس سے آئے ہو یہ ھدیے میں تمہارے ساتھ بھیج رہا حضرت محمدﷺکے لیے اور تمہارے ساتھ پہرے دار بھیج دوں گا، جو تمہاری وہیں تک پہرہ داری کریں گے رسول اللهﷺکے پاس تین باندیاں جن میں سے ایک ابراہیم بن رسول الله ﷺکی والدہ مبارکہ ہوئیں اور ایک باندی آپ نے حسان بن ثابت کو اور تیسری محمد بن قیس عبدی کو ہبہ کردی اورکئی ایک نایاب چیزیں اپنے یہاں کی چیزوں میں سے آپ کی خدمت میں بھیجیں۔)[28](

 

مکتوبِ گرامیﷺبنام اہل نجران (عیسائیوں سے مکالمہ کی ایک اہم اساس)

 

حضرت یونسؓ جو شروع میں نصرانی تھے بعد میں اسلام لے آئے فرماتے ہیں، جناب رسول اللهﷺنے اہل نجران کو سورہ طس اترنے سے قبل ہی نامہ گرامی اس مضمون کا ارسال فرمایا:حضرت ابراہیم ؑ و حضرت اسحق ؑ وحضرت یعقوبؑ کے پروردگار کے نام سے شروع کرتا ہوں محمدﷺکی جانب سے جو الله کے نبی اور اس کے رسو ل ہیں، نجران کے پادری اور تمام ساکنین نجران کے نام، تم لوگ صلح پسند ہو میں تمہارے سامنے حضرت ابراہیمؑ و حضرات اسحق ؑو حضرت یعقوبؑ کے خدا کی تعریف کرتا ہوں امابعد، میں تم لوگوں کو بندوں کی عبادت سے ہٹاکر الله کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور نبدوں کی دوستی سے ہٹا کر الله کی دوستی کی دعوت دیتا ہوں اگرتم اس بات سے انکا رکو تو جزیہ دو اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو میں نے تم کو لڑائی کا چیلنج دیا ہے۔ والسلام)[29](

 

مکتوب گرامی نجران کے پادریوں کے نام

 

نجران کے پادریوں کے لیے آپﷺنے ایک تحریر لکھ کردی:الله کے نبی محمدﷺکی طرف سے ابو الحارث پادری، و دیگر پادریوں اور راہبوں اور کاہنوں کو اور ہر وہ چیز جو ان کے قبضہ میں ہے تھوڑی یا بہت الله اور اس کے رسول کی پناہ دی گئی کسی پادری اور کسی راہب اور کسی کاہن کو ان کے منصب سے نہ ہٹایا جائے گا اور ان کے حقوق اور ان کے اقتدار اور کسی چیز میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی ان کے لیے الله اور الله کے رسول کی پناہ اس وقت تک جب تک کہ یہ صحیح اور صالح طرز پر رہیں گے نہ تو کسی کے ساتھ ظلم کریں اور نہ ظالم کا ساتھ دیں، یہ تحریر آپﷺنے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے لکھوائی۔)[30](

 

مکتوبِ گرامی ﷺبنام بکر بن وائل

 

مرثد بن طبیان ؓ فرماتے ہیں ہم لوگوں کے پاس جناب رسول اللهﷺکا نامہ گرامی پہنچا ہمیں کوئی ایسا پڑھنے والا نہ ملا جسے پڑھ کر ہم لوگوں کو سناتا، بالآخر قبیلہ ضبیعہ کے ایک آدمی سے پڑھوایا، حضورﷺ کا یہ گرامی نامہ بکر بن وائل کے نام تھا، آپ نے تحریر فرمایا تھا۔”تم لوگ اسلام لے آوٴ محفوظ رہو گے۔“)[31](

 

مکتوبِ گرامیﷺبنام بنی جذامہ

 

عمیر جذامی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رفاعہ جذامی جناب رسول اللهﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کو بھی یہ گرامی نامہ تحریر فرما کر دیا:

 

”محمد رسول اللهﷺکی طرف سے رفاعہ بن زید کے لیے، میں ان کو ان کی قوم کے پاس اور جو لوگ بھی ان میں داخل ہیں ان کے پاس بھیج رہا ہوں، تاکہ یہ لوگوں کو الله اور اس کے رسو ل کی طرف بلائیں جولوگ ایمان لے آئیں گے وہ الله اور اس کے رسول کی جماعت میں شمار ہوں گے اور جو انکار کرے گا اس کے لیے صرف دوماہ کی مہلت ہے جب یہ اپنی قوم کے پاس آئے لوگوں نے ان کا کہا مان لیا۔‘‘)[32](

 

ان سرگرمیوں سے اندازہ ہوگا کہ آپﷺاپنے معاصر سلاطین کو کس طرح اسلام کی طرف مائل کرنا چاھتے تھے ۔ آپ ﷺجب سفراء کو کہیں بھیجتے تو نرمی، اخلاق حسنہ اور رواداری کی تلقین فرماتے ۔ان کے اسی اعلی اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

 

اپنی ذات کیلئے رواداری اور برداشت میں اور دین کیلئے رواداری میں فرق

 

آپﷺکی جن سے گفتگو ہوئی ان کے دو گروہ ہیں، ایک تو وہ جنہوں نے آپ کی ذات کو تکلیف پہنچائی، آپ کی راہ میں کانٹے بچھائے اور دوسرا وہ گروہ جنہوں نے دین اسلام کی راہ میں کانٹے بچھائے اور ایسا نقصان پہنچایا کہ امت مسلمہ کو اور دین کی تعلیمات کو منہدم یا مسخ کرنے کی کوشش کی، ان کے ساتھ آپ کا رویہ کیا ہے؟ جب آپﷺنے فتح مکہ کے وقت عام معافی کا اعلان کیا تو آپ نے کچھ لوگوں کو عام معافی سے مستثنیٰ کردیا تھا، ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، ان میں سے ایک شخص کے متعلق صحابہ نے آکر رپورٹ دی کہ یا رسو ل الله! وہ خانہ کعبہ کے پردے میں لپٹا ہوا ہے آپﷺنے فرمایا کہ اس کو وہیں قتل کردو، تو رواداری اور برداشت میں یہ فرق بہر حال رکھنا چاہیے کہ ایک وہ رواداری ہے کہ جس میں آپ کی ذات کو تکلیف پہنچی ہو اور ایک وہ رواداری ہے کہ جس میں دین کو نقصان پہنچا ہو۔ اس لیے جہاں ہم مکالمہ بین المذاہب کی بات کریں وہاں ہمیں رواداری کے مفہوم کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔

 

مدنی دور میں غیر مسلم وفود سے مکالمات

 

مدنی دور کا آغاز معاہدات، غزوات اور سرایات سے ہوتا ہے، مدنی دور کے آغاز میں وفود کی آمد بہت کم ہے لیکن سن آٹھ ہجری کے اواخر اور سن نو ہجری اور سن دس ہجری سارے کا سارے وفود کی آمد اور ان کے ساتھ گفتگو سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے۔

 

سن نو ہجری میں جو وفد آیا اس میں وہ سردار بھی موجود تھے جنہوں نے آپﷺکو زخمی کردیا تھا اور حضرت فاطمہؓ فرماتی ہیں کہ خون سے آپﷺکا جوتا مبارک پاوٴں سے اس قدر جم گیا تھا کہ بڑی مشکل سے میں نے وہ جوتا آپ کے پاوٴں سے جدا کیا، اور اس وفد میں وہ لوگ بھی موجود تھے کہ فتح مکہ کے بعد جب مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا تو انہوں نے سازش کے ذریعے مسلمانوں کو بڑا سخت نقصان پہنچایا اور وہ سازش یہ کی کہ جب مسلمان طائف میں داخل ہوئے تو طائف کے لوگوں نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا، کوئی ان سے تعرض نہیں کیا، مسلمان بڑے اطمینان کے ساتھ طائف کے اندر داخل ہوگئے اور طائف ایک پہاڑی علاقہ ہے اور یہ پہاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے اور منصوبہ یہ تھا کہ جب تک پورا قافلہ اندر نہیں آجاتا اس وقت تک ہم کوئی حرکت نہیں کریں گے اور یہ قافلہ بہت بڑا تھا جب یہ سارے کا سارا قافلہ اندر آگیا تو چاروں طرف سے گھیر کر مسلمانوں کو مارا گیا، وہ لوگ بھی اس میں موجود تھے۔ تو اس وقت صحابہؓ نے عرض کی کہ آپ ان کے لیے بد دعا فرمائیں تو اس وقت بھی آپﷺکی زبان مبارک سے بد دعا کی بجائے یہ الفاظ مبارک نکلے (اللہم اہدی ثقیفاً وأت بہم مسلمین) کہ اے الله ثقیف کے لوگوں کو ہدایت عطا فرمایا اور انہیں مسلمان بنا کر میرے پاس لا، الله تعالیٰ نے نبی کریمﷺکی یہ دعا قبول فرمائی، واقعتا ثقیف کے وہ لوگ ہدایت یافتہ بھی ہوئے او راز خود مسلمان ہونے کے لیے نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اس میں عبد علیل بھی تھا جس نے طائف کے اوباش نوجوانوں کو آپ ؐنے پیچھے لگایا تھا۔)[33](

 

اور بھی طائف کے بہت سے لوگ تھے، ان لوگوں نے آکر نبی کریمﷺسے کہا کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، ہم اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہماری تین شرائط ہیں:(۱)کہ ہم نماز نہیں پڑھ سکتے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ہمارے لیے، آپ نماز معاف کردیں۔ (۲)ہمارا ایک بہت بڑا بت لات ہے، ہم اس کے بہت معتقد ہیں، خصوصاً ہما ری عورتیں اس کی بہت معتقد ہیں، تو فوری طور پر اس کو توڑنا اور اس کی عبادت کو چھوڑنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے، تو تین سال تک ہمیں مہلت دیں کہ اس بت کو نہ توڑا جائے، تاکہ تین سال کے اندر لوگوں کے اندر اس کی جو محبت ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہوجائے، تو تین سال کے بعد جب اسے توڑا جائے گا تو کوئی ایسا امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ (۳)ہمارے بت خود ہمارے ہاتھوں سے نہ تڑوائے جائیں۔

 

نبی کریم ﷺنے ان کی تینوں شرائط کوسنا اور سن کر کہا کہ پہلی جو دو شرائط ہیں وہ تو بالکل ناقابل قبول ہیں ایسے دین میں کوئی خیر نہیں ہے کہ جس میں نماز نہ ہو، لہٰذا تمہارا یہ مطالبہ بالکل ناقابل قبول ہے کہ تمہارے لئے نماز معاف کردی جائے، نماز ایک فریضہ ہے اگر تم مسلمان ہونا چاہتے ہو تو تمہیں نماز پڑھنی پڑے گی اس میں کوئی رخصت اور کوئی چھوٹ نہیں ہے اور دوسرا جو تمہارا یہ مطالبہ ہے کہ لات کو تین سال تک زندہ رکھا جائے اور اسے توڑانہ جائے یہ مطالبہ بھی قابل قبول نہیں کہ جب تم مسلمان ہوگئے، دین اسلام قبول کرلیا الله کی توحید اور الله کی وحدانیت کو قبول کرلیا تو اب کسی بھی طرح لات ہو یا منات و عزیٰ ہو، تو کسی بھی طرح ان کی عبادت قابل قبول نہیں ہے۔ تو یہ تمہارے دو مطالبے تو قابل قبول نہیں ہیں، البتہ تیسرا مطالبہ قابل قبول ہے کہ ہم اپنے نمائندے بھیج دیں گے اور وہ نمائندے جاکر تمہارے بتوں کو توڑ دیں گے۔ لہٰذا ہم تمہارا تیسرا مطالبہ ماننے کے لیے تیار ہیں، چنانچہ اس پر ثقیف کے لوگ مسلمان ہوئے اور کچھ صحابہ رضی الله عنہم نے جاکر ان کے بتوں کو توڑا۔ اگرچہ اس پر بڑا احتجاج ہوا خواتین آگئیں، انہوں نے اپنے سر ننگے کرلئے اور انہوں نے بڑا رونا پیٹا شروع کردیا کہ ہمارے یہ بت کیوں توڑے جارہے ہیں۔ تو آپ دیکھیں کہ ثقیف کے اس غیر مسلم وفد نے تین شرائط رکھیں لیکن آپﷺنے ان میں ایک کو مان لیا اور دو کو رد کردیا۔)[34](

 

دوسرا بڑا وفد بنو حنیفہ کاہے۔ یہ ایک مالدار قبیلہ تھا جس کے سردار ثمامہ بن اثال تھے ، یہ بڑے مغرور اور متکبر قسم کے لوگ تھے، اسی بنی حنیفہ کے اند رمسیلمہ کذاب بھی موجود تھاجس نے دعویٰ نبوت کیا تھا۔ یہ لوگ بھی مدینہ منورہ تشریف لائے، لیکن اپنے غرور اور تکبر کی وجہ سے خود نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے، نبی کریمﷺکو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ کوئی حرج کی بات نہیں، میں ان کی قیام گاہ پر چلا جاتا ہوں اور نبی کریمﷺبذات خود ان کی قیام گاہ پر تشریف لے کر گئے۔وہاں مسیلمہ کذاب نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ ہم اسلام لانے کے لیے تیار ہیں لیکن ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آپ ابھی اعلان کردیجئے کہ آپ کے بعد میں آپ کا جانشین ہوں گا، میں آپ کا خلیفہ ہوں گا اور نبوت اور رسالت کا جو کام آپ کر رہے ہیں وہ میں کروں گا، یہ کام کردیجئے تو پھر ٹھیک ہے،مجھے ولی عہد بنا دیجئے میں آپ کا دین قبول کرنے کے لیے تیار ہوں، آپﷺنے انکار فرمادیا اور آپﷺاٹھ کر واپس چلے آئے اور مزید کوئی ان سے آپﷺکی گفتگو نہیں ہوئی۔)[35](

 

تیسرا وفد نصاریٰ نجران کاہے یہ وفد اپنی کمیت کے اعتبار سے بھی بہت بڑا تھا اور کیفیت کے اعتبار سے بھی بہت بڑا تھا اور اپنی گفتگو کے اعتبار سے بھی بہت بڑا تھا، کمیت کے اعتبار سے تو اس طرح کہ اس میں ساٹھ افراد شامل تھے جو نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے، کیفیت کے اعتبار سے اس کی بڑائی یہ تھی کہ اس میں چودہ افراد وہ تھے جو نصاریٰ نجران کے سردار اور ان کے ائمہ قسم کے لوگ تھے اور گفتگو کے اعتبار سے اس طرح بڑا تھا کہ اس میں نبی کریمﷺنے بڑی طویل گفتگو فرمائی۔

 

وہ وسیع گفتگو یہ تھی کہ انہوں نے عیسیٰ ؑ کی الوہیت کے متعلق سوال کیا، ان کی الوہیت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اور گفتگو کا آغاز اس طرح کیا کہ کیا آپ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ کا کوئی باپ نہیں تھا، آپﷺنے فرمایا کہ ہاں بالکل ایسے ہی بات ہے کہ وہ ایک معجزانہ شان کے ساتھ بن باپ کے پیدا ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اچھا اگر ان کاکوئی باپ نہیں تھا تو پھر ان کا باپ کون؟ انسانوں میں جب کوئی ان کا باپ نہیں تھا تو معلوم ہوا کہ الله ان کا باپ تھا اور وہ الله کے بیٹے ہیں، یہ انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ نبی کریم ﷺکے سامنے، نبی کریمﷺنے فرمایا کہ اچھا ایک بات بتلاوٴ! کیا تم اس بات کو مانتے ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ حضرت مریم ؑ کے حمل سے پیدا ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہاں جی بالکل تسلیم کرتے ہیں تو نبی کریمﷺنے پوچھا کہ کیا الله تعالیٰ کسی کے حمل سے پیدا ہوئے ہیں؟ اب یہ چپ ہوگئے۔

 

دوسرا سوال نبی کریم ﷺنے ان سے یہ کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کھانا وغیرہ کھاتے تھے؟ تو انہوں نے کہا ہاں جی بالکل کھاتے تھے تو آپ ﷺنے کہا کہ کیا الله تعالیٰ کھانے کا محتاج ہے؟ کیا اسے بھوک لگتی ہے؟ پھر یہ لوگ خاموش ہوگئے۔

 

تیسرا سوال یہ کیا کہ الله تعالیٰ کے متعلق تمہارا کیا تصو رہے؟ کیا الله تعالیٰ بھی کسی وقت فنا ہوجائے گا؟ کیا کوئی ایسا وقت آئے گا جب الله تعالیٰ نہیں ہوگا؟ تو نہوں نے کہا کہ نہیں ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ وعیسیٰ یأتی علیہ الفنا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا حال یہ ہے کہ ان پر فنا آئے گی، یہ گفتگو ہورہی ہے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وفد نجران کے سامنے، اور اس وفد میں عیسائیوں کے بڑے بڑے پوپ شامل تھے، ان کے سامنے آپ ﷺیہ بتلا رہے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام الله کی ذات میں شریک نہیں ہوسکتے، اس کے بعد آپ ﷺ نے سورة اخلاص کی تلاوت فرمائی (قل ہو الله احد۔ الله الصمد۔ لم یلد۔ ولم یولد۔ ولم یکن الله کفوا احد) کہ اس کی الوہیت میں نہ کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، اس لیے تمہیں یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی، یہ وفد چلا گیا، اس نے کوئی جواب نہیں دیا، انہوں نے کہا کہ ہم واپس آکر جواب دیں گے۔

 

واپس جاکر ان کی آپس میں گفتگو شروع ہوگئی کہ نبی کریمﷺکو کیاجوا ب دیں؟ تو ان کے جو بڑے پوپ اور فادر تھے وہ ابھی تک اس حال میں نہیں تھے کہ نبی کریمﷺکی بات کو مان لیں اور نبی کریمﷺجو نظریہ رکھتے ہیں اس نظریے کو مان لیں۔ اگلے دن پھر حاضر ہوئے۔ پھر اسی طرح کی گفتگو ہوئی، پھر بھی انہوں نے بات کو تسلیم نہیں کیا، تو نبی کریم ﷺنے انہیں دعوت مباہلہ دی،(ثم نبتہل فنجعل لعنة الله علی الکاذبین) نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ٹھیک ہے، اگر تم میری بات کو اس طرح سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو ان دلائل کی روشنی میں جو میں نے دئیے تو پھر میں بھی اپنے بچوں کو لے کر آتا ہوں اور تم بھی اپنے بچوں کو لے کر آوٴ، پھر کسی کھلے میدان میں مباہلہ کرتے ہیں جو ہم میں جھوٹا ہوگا اس پر اسی وقت الله کا عذاب اور غضب نازل ہوگا۔

 

اب اگلے دن کا مباہلے کا وقت ہے، یہ لوگ واپس آگئے تو اب ان کے جو پوپ تھے انہوں نے کیا بات کہی؟ تو انہوں نے کہا کہ دیکھو مباہلے کی دعوت بالکل قبول نہ کرنا، اس بات پر ہر گز نہ آنا اگر تم نے مباہلے کی دعوت قبول کرلی تو دیکھو ہم تو علماء ہیں مذہب کو جانتے ہیں، نبی کی تعلیمات اور اس کی نشانیوں کو جانتے ہیں، ہم نے نبی کریم ﷺکے چہرے میں نور نبوت دیکھا ہے اور یقین کرلو کہ اگر تم نے مباہلے کی دعوت قبول کرلی تو تم سب تباہ و برباد ہوجاوٴ گے۔ چنانچہ مباہلے کے وقت سے پہلے ہی انہوں نے اپنی ہار مان لی، لیکن اسلام قبول نہیں کیا، لیکن انہوں نے کہا کہ ہم جزیہ دینے کے لیے تیار ہیں آپ اپنا کوئی محاصب بھیج دیا کریں جو سالانہ جزیہ وصول کرلیا کرے۔)[36](

 

سیرت طیبہﷺغیر مسلموں سے معاملات

حسن سلوک کا تاریخ ساز نمونہ غیر مسلموں کی جانی ومالی حفاظت دینے کے فرامین

 

جانی دشمنوں سے عفو ودرگزران کے لئے دعائے خیر اور ان کے قیدیوں سے حسن سلوک

 

غیر مسلم کی جان کی حفاظت

 

ابن عمر فرماتے ہیں حضورﷺنے ایک ذمی کی وہی دیت ادا کی جو مسلمان کی دیت ہوتی ہے۔)[37]( انسانی جان کی عظمت اور حرمت کے پیش نظر اسلام میں غیر مسلم شہری کی جان کو وہی احترام او رعزت حاصل ہے جو کسی مسلمان کی جان کو ہوسکتی ہے دونوں میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔اسی لیے حضورﷺ نے فرمایا:

 

﴿من قتل معاہدا لم یرح رائحة الجنة وغن ریحہا یوجد من سیرة اربعین عاماً﴾

 

’’جس نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری جو اسلامی ریاست کا باشندہ ہو) کو قتل کردیا وہ شخص جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس ہوگی۔‘‘)[38](

 

غیر مسلم کے مال کی حفاظت

 

جنگ خیبر کے موقع پر جب یہود سے معاہدہ ہوچکا تو انہوں نے رسول اکرم ﷺسے شکایت کی کہ مسلمان ہمارے پھلوں اور غلوں پر ٹوٹ پڑے ہیں حالانکہ یہ چیزیں محفوظ مقام پر رکھی ہوئی تھیں۔ آپ نے فوراً ہدایت فرمائی۔

 

﴿لا لایحل اموال المعاہدین الا بحقہا﴾

 

’’آگاہ ہو جاوٴ معاہدین (غیر مسلم) کے اموال قطعاً حلال نہیں ہیں سوائے اس کے کہ اسے لینے کا حق (ریاست کی طرف سے) ہو۔‘‘)[39](

 

جانی دشمن سے عفو و درگزر

 

جانی دشمنوں اور قاتلانہ حملہ آوروں سے عفوو درگزر کا واقعہ پیغمبروں کے صحیفہٴ اخلاق کے سوا اور کہاں مل سکتا ہے جس شب کو آپﷺنے ہجرت فرمائی ہے کفار قریش کے نزدیک یہ طے شدہ تھا کہ صبح کو محمدﷺکا سر قلم کردیا جائے، اس لیے دشمنوں کا ایک دستہ رات بھر خانہ نبویﷺکا محاصرہ کئے کھڑا رہا۔

 

اگرچہ اس وقت دشمنوں سے انتقام لینے کی آپﷺمیں ظاہری قوت نہ تھی، لیکن ایک وقت آیا جب ان میں سے ایک ایک کی گردن اسلام کی تلوار کے نیچے تھی اور اس کی جان صرف آنحضرتﷺکے رحم و کرم پر موقو ف تھی لیکن ہر شخص کو معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی شخص اس جرم میں کبھی مقتول نہیں ہوا۔

 

جانی دشمن کے لئے سند امان لکھنا

 

ہجرت کے دن قریش نے آنحضرتﷺکے سر کی قیمت مقرر کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ جو محمد ﷺ کا سر لائے گا یا زندہ گرفتار کرے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دئیے جائیں گے۔ سراقہ بن جعشم پہلے شخص تھے جو اس نیت سے اپنے صبا رفتار گھوڑے پر سوار ہاتھ میں نیزہ لیے ہوئے آپﷺکے قریب پہنچے، آخر دو تین دفعہ کرشمہ اعجاز دیکھ کر اپنی نیت بد سے توبہ کی اور خواہش کی مجھ کو سند امان لکھ دی جائے، چنانچہ سند امان لکھ کر ان کو دی گئی، اس کے آٹھ برس کے بعد فتح مکہ کے موقع پر حلقہٴ اسلام میں داخل ہوئے اور اس جرم کے متعلق ایک حرف سوال بھی درمیان میں نہیں آیا۔)[40](

 

جانی دشمن کو اپنے قریب بٹھانا

 

عمیر بن وہب آنحضرتﷺکا سخت دشمن تھا، مقتولین بدر کے انتقام کے لیے جب سارا قریش بیتاب تھا تو صفوان بن امیہ نے اس کو بیش قرار انعام کے وعدہ پر مدینہ بھیجا تھا کہ وہ چپکے سے جاکر نعوذ بالله آنحضرتﷺکا کام تمام کردے، عمیر اپنی تلوار زہر میں بجھا کر مدینہ آیا، لیکن وہاں پہنچنے کے ساتھ اس کے تیور دیکھ کر لوگوں نے پہچان لیا، حضرت عمر ؓ نے اس کے ساتھ سختی کرنی چاہی، لیکن آپ ؐنے اس سے منع فرمایا اور اپنے قریب بٹھا کر اس سے باتیں کیں اور اصلی راز ظاہر کردیا، یہ سن کر وہ سناٹے میں آگیا، لیکن آپؐ نے اس سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ یہ دیکھ کر وہ اسلام لایا اور مکہ میں جاکر دعوت اسلام پھیلائی۔ یہ واقعہ ۳ھء کا ہے۔)[41](

 

جانی دشمن پر غلبہ پاکر معاف کردینا

 

ایک دفعہ آپﷺایک غزوہ سے واپس آرہے تھے، راہ میں ایک میدان آیا، دھوپ تیز تھی، لوگوں نے درختوں کے نیچے بستر لگادئیے۔ آنحضرتﷺنے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا۔تلوار درخت کی شاخ سے لٹکا دی، کفار موقع کے منتظر رہتے تھے، لوگوں کو غافل دیکھ کر ناگاہ ایک طرف سے ایک بدو نے آکر بے خبری میں تلوار اتارلی، دفعةً آپﷺبیدار ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص سرہانے کھڑا ہے اور ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں ہے، آپﷺکو بیدار دیکھ کر بولا ”کیوں محمد! اب بتاوٴ تم کو اس وقت مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟“آپ ﷺنے فرمایا ”الله“یہ پر اثر آواز سن کر اس نے تلوار نیام میں کرلی، اتنے میں صحابہ آگئے۔ آپ ﷺ نے ان سے واقعہ دہرایا اور بدو سے کسی قسم کا تعرض نہیں فرمایا۔)[42](

 

ایک دفعہ ایک اور شخص نے آپﷺکا قتل کا ارادہ کیا، صحابہ اس کو گرفتار کرکے آنحضرتﷺکے سامنے لائے، وہ آپﷺکو دیکھ کر ڈر گیا، آپﷺنے اس کو مخاطب کرکے فرمایا ”ڈرو نہیں، اگر تم مجھے قتل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے۔)[43](صلح حدیبیہ کے زمانہ میں ایک دفعہ اسّی آدمیوں کا ایک دستہ منہ اندھیرے جبل تنعیم سے اتر کر آیا اور چھپ کر آنحضرت ﷺکو قتل کرنا چاہا، اتفاق سے وہ لوگ گرفتار ہوگئے، لیکن آنحضرتﷺنے ان کو چھوڑ دیا اور کچھ تعرض نہیں کیا۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی ہے:

 

﴿وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیٴدِیَہِمْ عَنَّکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ﴾)[44](

 

”اسی خدا نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک لے۔‘‘)[45](

 

خاتمی مرتبت ﷺ کا زہر کھلانے والی یہودی عورت سے اپنی ذات کیلئے بدلہ نہ لینا

 

خیبر میں ایک یہودیہ نے آنحضرتﷺکو کھانے میں زہر دیا، آپﷺنے کھانا کھایا تو زہر کا اثر محسوس کیا، آپ ﷺ نے یہودیوں کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے اقرار کیا، لیکن آپﷺنے کسی سے کچھ تعرض نہیں فرمایا لیکن اسی زہر کے اثر سے جب ایک صحابی نے انتقال کیا تو آپﷺنے صرف اس یہودیہ کو قصاص کی سزا دی (حالانکہ خود آنحضرتﷺکو زہرکا اثر مرتے دم تک محسوس ہوتا رہتا تھا۔)[46](

 

دشمنوں کے حق میں دعائے خیر

 

دشمنوں کے حق میں بد دعا کرنا انسان کی فطری عادت ہے لیکن پیغمبروں کا مرتبہ عام انسانی سطح سے بدرجہا بلند ہوتا ہے، جو لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں وہ ان کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اور جو ان کے تشنہٴ خون ہوتے ہیں وہ ان کو پیار کرتے ہیں، ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمانوں پر او رخود آنحضرتﷺپر جو پیہم مظالم ہورہے تھے، اس داستان کے دہرانے کے لیے بھی سنگدلی درکار ہے، اسی زمانہ میں خباب بن ارت ؓ ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللهﷺدشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائیے، یہ سن کر چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔)[47](

 

ایک دفعہ چند صاحبوں نے مل کر اسی قسم کی بات کہی تو آپﷺنےفرمایا: ”میں دنیا کے لیے لعنت نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔)[48](

 

آپ ﷺکو محصور کرنے والے قریشیوں کے لئے بھی دعا کرنا

 

وہ قریش جنہوں نے تین برس تک آپﷺکو محصور رکھا اور جو آپﷺکے پاس غلہ کے ایک دانہ کے پہنچنے کے روادار نہ تھے، ان کی شرارتوں کی پاداش میں دعائے نبویﷺکی استجابت نے ابر رحمت کا سایہ ان کے سرسے اٹھا لیا اور مکہ میں اس قد رقحط پڑا کہ لوگ ہڈی اور مردار کھانے لگے۔ ابو سفیان نے آنحضرتﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ”محمدﷺ! تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے، خدا سے دعا کرو کہ یہ مصیبت دور ہو۔“ آپ ﷺنے بلا عذر فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور خدا نے اس مصیبت سے ان کو نجات دی۔)[49](

 

جنگ احد میں خون آلود کرنے والوں کے لئے دعا کرنا

 

جنگ احد میں دشمنوں نے آپﷺپر پتھر پھینکے، تیر برسائے، تلواریں چلائیں، دندانِ مبارک کو شہید کیا، جبین اقدس کو خون آلود کیا، لیکن ان حملوں کا وار آپ ﷺنے جس سپر پر روکا وہ صرف یہ دعا تھی:

 

﴿اللہم اہد قومی فانہم لایعلمون﴾ ”خدایا ان کو معاف کرنا کہ یہ نادان ہیں۔‘‘)[50](

 

طائف والوں کے استہزاء اور تمسخر کے حواب میں دعائیں

 

وہ طائف جس نے دعوت اسلام کا جواب استہزاء اورتمسخر سے دیا تھا، وہ طائف کا معاشرہ جس نے داعی اسلام کو اپنی پناہ میں لینے سے انکار کردیا تھا، وہ طائف جس نے پائے مبارک کو لہو لہان کیا تھا ان کی نسبت فرشتہ غیب پوچھتا ہے کہ حکم ہو توان پر پہاڑ الٹ دیا جائے۔ جوا ب ملتا ہے کہ ”شاید ان کی نسل سے کوئی خدا کا پرستار پیدا ہو۔‘‘

 

دس بارہ برس کے بعد یہی طائف اسلام کی دعوت کا جواب تیر و تفنگ (منجنیق) سے دیتا ہے، جان نثاروں کی لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں، صحابہ عرض کرتے ہیں کہ ”یا رسول الله ﷺ!ان کے حق میں بد دعا کیجئے!“آپ ﷺدعا کے لے ہاتھ اٹھاتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ حضورﷺان کے حق میں بد دعا فرمائیں گے۔ لیکن زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہیں۔’’خداوندا! ثقیف (اہل طائف) کو اسلام نصیب کر اور دوستانہ ان کو مدینہ لا۔“وہ تیر جو میدان جنگ میں نشانہ پر نہیں لگے تھے، وہ مدینہ کے صحن مسجد میں زبان مبارک سے نکل کر ٹھیک اپنے ہدف پر پہنچے، یعنی وہ مدینہ آکر خاص مسجد نبویﷺمیں بیٹھ کر جہاں وہ مہمان ٹھہرائے گئے تھے، مسلمان ہوئے۔)[51](

 

رحمت عالم ﷺکا قبیلہ دوس کے لئے دعاکرنا

 

دوس کا قبیلہ یمن میں رہتا تھا طفیل رضی الله عنہ بن عمرو دوسی اس قبیلہ کے رئیس تھے، وہ قدیم الاسلام تھے، مدت تک وہ اپنے قبیلہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن وہ اپنے کفر پر اڑا رہا، ناچار وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور قبیلے کی حالت عرض کرکے گزارش کی کہ ان کے حق میں بد دعا فرمائیے، لوگوں نے یہ سنا تو کہا کہ اب دوس کی بربادی میں کوئی شک نہیں رہا، لیکن رحمت عالمﷺنے جن الفاظ میں دعا فرمائی وہ یہ تھے:

 

﴿اللہم اہد دوسا وأت بہم﴾ ”خداوندا دوس کو ہدایت کر اور ان کولا۔‘‘)[52](

 

حضرت ابو ہریرہؓ کی مشرکہ ماں کے لئے دعا

 

حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ماں مشرکہ تھیں، اپنی ماں کو وہ جس قدر اسلام کی تبلیغ کرتے تھے وہ اس کی مخالفت کرتی تھیں، ایک دن انہوں نے اسلام کی دعوت دی تو ان کی ماں نے آنحضرتﷺکی شان میں گستاخی کی، حضرت ابو ہریرہؓ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ رونے لگے اور اسی حالت میں آنحضرتﷺکے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا، آپﷺنے دعا کی ”الہٰی! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت نصیب کر۔‘‘ وہ خوش خوش گھر واپس آئے تو دیکھا کواڑ بند ہیں اور ماں نہا رہی ہیں،غسل سے فارغ ہوکر کواڑ کھولے اور کلمہ پڑھا۔)[53](

 

رحمة للعالمین ﷺاور مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشوں اور اعلانیہ استخفاف و اہانت کرنے والے کیلئے دعا کرنا

 

عبدالله بن ابی بن سلول وہ شخص تھا جو عمر بھر منافق رہا اور کوئی موقع اس نے آنحضرت ﷺاور مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشوں اور اعلانیہ استخفاف و اہانت کا ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کفار قریش کے ساتھ اس کی خفیہ خط و کتابت تھی، غزوہ احد میں عین موقع پر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فوج سے الگ ہوگیا۔ واقعہ افک میں حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگانے والوں میں وہ سب سے آگے تھا۔بایں ہمہ اس کی فرد جرم کو رحمت عالمﷺکا حکم و عفو ہمیشہ دھوتا رہا، وہ مرا تو آپﷺنے اس کی مغفرت کی نماز پڑھی، اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا ”یا رسول الله ! آپﷺاس کے جنازہ کی نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اس نے یہ کہا اور یہ کہا ۔‘‘یہ سن کر آپ ﷺ متبسم ہوئے اور فرمایا ”ہٹو اے عمر!“جب زیادہ اصرار کیا تو فرمایا ”اگر مجھے اختیار دیا جاتا کہ اگر ستر دفعہ میں نماز پڑھوں کہ اس کی بخشش ہو سکتی ہے تو اس سے بھی زیادہ پڑھتا۔‘‘)[54](

 

قیدیوں سے حسن سلوک

 

نبی اکرمﷺکے زمانے میں خطہ عرب اور خاص طور پر حجاز میں قید خانوں کا رواج نہیں تھا اور نہ ہی ایسے حالات تھے کہ کسی کو طویل عرصہ قید کیا جاتا۔اسلام میں باقاعدہ قید خانے کی ابتدا ء حضرت عمرؓ نے کی۔ انہوں نے صفوان بن امیہ کا گھر چار ہزا ردرہم میں خرید کر اسے قید خانہ بنایا۔ اس میں مختلف قیدی بند کئے جاتے تھے۔ پھر حضرت علی ؓ نے قید خانہ بنوایا۔ اور اس کا نام نافع رکھا، لیکن یہ کوئی مضبوط قلعہ نہیں تھا۔ اس لیے بعض قیدی اس سے بھاگ جاتے تھے۔ بعد میں اسے دوبارہ تعمیر کرایا جو مضبوط تھا، جس سے قیدیوں کے فرار کی صورت نہیں تھی۔تاہم جو لوگ وقتی طور پر گرفتار ہوکر آتے انہیں روکے رکھنے کے لیے عارضی طور پر یا تو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا جاتا یا مختلف صحابہ کرام ؓ کے حوالے کردیا جاتا جو ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کے ساتھ ان کے خوردو نوش ارو دیگر ضروریات کا بندوبست کرتے۔ جاہلی نظام میں جنگی قیدی فاتح کے رحم و کرم پر ہوتے تھے ، ان پر ظلم توڑے جاتے تھے، ان سے بدسلوکی کی جاتی اور ان کو غلامی میں ڈا ل دیا جاتا۔ اور ان کے کھانے کے لیے ان سے بھیک منگوائی جاتی، آج کے مہذب دور میں بھی جنگی قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ گوانتا نامو بے اور پل چرخی افغانستان اور اس کے قید خانوں سے واضح ہوتا ہے۔

 

نبیﷺنے جنگی قیدیوں کو نیا مرتبہ دیا، چنانچہ بدر کے قیدی جو تاریخ مدینہ میں پہلی مرتبہ زیادہ تعداد میں قید ہوئے تھے، ان کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ قیدیوں کو نہایت آرام سے رکھا جائے۔ بعض صحابہؓ نے اس کی تعمیل میں خود کھجوریں کھا کر اپنے ذمے آئے ہوئے قیدیوں کو پیٹ بھر کر اچھا کھانا کھلایا۔ ایک بدری قیدی ابو عزیر (مصعب بن عمیر کے بھائی) کا بیان ہے کہ جن انصاریوں کے ہاں مجھے رکھا گیا تھا، وہ خود کھجوروں پر گزر کرتے اور مجھے اچھا کھانا لاکر دیتے۔ اس سلوک کی وجہ سے میں سخت شرمسار ہوتا۔ جن اسیروں کے پاس لباس کم تھا، ان کو کپڑے دئیے گئے۔

 

حضرت عباسؓ کے بدن پر لمبے قد کی وجہ سے کوئی کرتہ پورا نہ اترتا تھا، لہٰذا ان کے لیے عبدالله بن ابی ؓ نے کرتہ بھجوایا۔ ان قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو اپنا پورا زورِ بیان اور فصاحت حضورﷺکے خلاف تقریریں کرنے میں صرف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا کہ اس کے سامنے کے دانت اکھڑ وادئیے جائیں، تاکہ جو ش خطابت نہ دکھاسکے، کوئی اور ہوتا تو اپنے بے بس قیدی کے ساتھ بدترین سلوک کرنے میں تأمل نہ کرتا، لیکن رحمت عالمﷺنے فرمایا کہ اگر میں اس کے کسی حصہ بدن کو بگاڑ دوں (مثلہ کروں) تو میرے نبی ہونے کے باوجود الله تعالیٰ سزا کے طور پر میرے اس حصے کو بگاڑ دے گا۔)[55](

 

ثمامہ بن آثال نامی نجد کے سردار کو گرفتار کرکے مدینہ منورہ لایا گیا تو آپﷺنے اسے مسجد کے ایک ستون سے بندھوادیا۔ یہ تین دن تک اس سے بندھے رہے۔ آپ بذاتِ خود اس کی دیکھ بھال کرتے اور اس کی خیریت پوچھتے اور گفتگو کرتے۔ وہ کہتا کہ حضور مجھے آزاد کردیں گے تو مجھ پر احسان کریں گے اور اگر قتل کریں کے تو ایک مجرم کو قتل کریں گے۔ آخر تیسرے روز آپ ﷺنے اسے آزاد کرنے کا حکم دے دیا، وہ آزاد ہوتے ہی مدینے کے قریب ایک تالاب پر گیا، نہا دھو کر پاک صاف ہوکر آپ کی خدمت میں آیا اور کلمہ پڑھ کر حلقہٴ اسلام میں داخل ہوگیا۔ اپنے وطن واپس جاکر قریش سے کہلا بھیجا کہ اب یمن کی طرف تمہارا تجارتی قافلہ نہیں آسکتا، اس لیے کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کروں گا اور تمہاری کوئی حمایت نہیں کروں گا۔ یہ سب کچھ آپ ﷺکے اسیروں کے ساتھ حسن سلوک، رواداری، تحمل مزاجی اور عفو درگزر کرنے کی وجہ سے ہوا۔)[56](

 

اسیرانِ جنگ کے ساتھ حسن سلوک اور مساوات کے سلسلے کا وہ عظیم واقعہ بھی تاریخ اسلام کا شہ پارہ اور مسلمانوں کے لیے اسوہٴ حسنہ ہے جب بدر کے قیدی گرفتار کرکے لائے گئے توان کے ہاتھ ان کی پیٹھ پر سخت کس کر باندھے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کو تکلیف ہورہی تھی۔ پہلی رات کو انہیں مسجد نبوی کے صحن یا اس کے قریب رکھا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت عباس ؓ تکلیف کی وجہ سے کراہ رہے تھے جب ان کی آواز آپﷺکے کانوں میں پڑی تو کراہنے کی وجہ دریافت کی۔صحابہ ؓنے عرض کیا کہ رسیوں کی سخت بندش کی وجہ سے ایسے ہورہا ہے۔ اس پر آپﷺنے حکم دیا کہ چچا عباس کے ساتھ تمام دوسرے قیدیوں کی بھی رسیاں ڈھیلی اور نرم کر دی جائیں۔)[57](

 

یہ رحمت عالمﷺکی قیدیوں پر شفقت اور عنایت، پھر مساوات کہ اپنے چچا اور تمام اسیروں کے ساتھ یکساں برتاوٴ ورویہ برتا جارہا ہے۔بدر میں کفار جس ارادے سے آئے تھے اور مسلمانوں کے خلاف جو سخت جذبات وخیالات رکھتے تھے اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا عزم رکھتے تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان کے عزائم و جرائم کی وجہ سے وہ قتل کے لائق تھے۔ الله تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت تھی۔ حضرت عمرؓ کی رائے بھی یہی تھی، لیکن آپ ﷺنے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے ان قیدیوں سے فدیہ لے کر آزاد کردیا، جن کے پاس مالی فدیہ نہیں تھا، ان سے مسلمانوں کے دس، دس بچوں کو پڑھانے کے عوض رہا کردیا۔)[58](

 

بدر کی لڑائی میں جو لوگ قید ہوئے تھے ان میں حضور کے داماد ابو العاص بن ربیع بھی تھے، جن کے نکاح میں حضرت زینب ؓ تھیں، یہ حضرت خدیجہ ؓ کی بہن کے بیٹے تھے، ان قیدیوں کے ساتھ رسول اللهﷺنے جو سلوک کیا وہ دنیا ک یلیے ایک مثال ہے جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کی رہائی چاہی تو رسول اللهﷺکی صاحبزادی حضرت زینب ؓ نے بھی اپنے شوہر کے فدیہ کے لیے کچھ مال بھیجا، اس میں وہ ہار بھی تھأ جو حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو جہیز میں دیا تھا اس ہا رکو دیکھ کر رسول اللهﷺبے چین ہوگئے، آپ نے صحابہ ؓ سے فرمایا: اگر مناسب سمجھو تو زینب کی خاطر اس کے اسیر شوہر کو رہا کردو اور اس کے ہار کو بھی اس کو واپس دے دو، صحابہ ؓ نے عرض کیا: یارسول الله ہم خوشی سے اس کے لیے تیار ہیں، ابو العاص کو چھوڑ دیا گیا، اور حضرت زینب ؓ کا ہار ان کو واپس دے دیا گیا۔

 

ابو العاص نے مکہ پہنچ کر حضرت زینب ؓ کو رسول اللهﷺکے پاس جانے کی اجازت دے دی، وہ ابو العاص کو مکہ میں چھوڑ کر مدینہ رسول اللهﷺکے پاس چلی آئیں، اسلام نے دونوں کے درمیان تفریق کردی تھی، فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے ابو العاص تجارت کے لیے شام گئے، ان کی دیانت مشہور تھی، اس لیے قریش کے اور لوگوں نے بھی تجارت کے لیے اپنا مال ان کے ساتھ کردیا تھا، جب وہ واپس آرہے تھے تو مدینہ کی ایک فوج نے ان کو دشمن سمجھ کر ان کے مال پر قبضہ کرلیا، وہ کسی طرح چھپ کر رات کو مدینہ پہنچ گئے، اور حضرت زینب ؓ سے پناہ مانگی، انہوں نے ان کو پناہ دے دی، او ران کا مال واپس کرانے کا وعدہ کیا، فجر کی نماز میں حضرت زینب ؓ نے عورتوں کی صف سے چلا کر کہا: اے صاحبو! میں نے ابو العاص کو پناہ دے دی ہے، نماز کا سلام پھیر کر رسو ل الله ﷺنے صحابہ کی مخاطب کرکے کہا: صاحبو! تم نے سنا جو میں نے سنا، انہوں نے کہا: جی ہاں! آپ ﷺنے فرمایا: قسم ہ یاس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اس سے پہلے مجھے اس واقعہ کا علم نہ تھا، جب ایک ادنیٰ فرد نے تمام مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے دی ہے تو اس کو پنا ہ ملنی چاہئے، اس کے بعد آپ اپنی صاحبزادی کے پاس آئے اور فرمایا: اے میری بچی! تم ابو العاص کی اچھی طرح مہمانداری کرو، مگر اپنے پاس نہ آنے دینا کیونکہ اب تم اس کے لیے حلال نہیں ہو، اس کے بعد ابوالعاص کا تمام مال ان کو واپس کردیا گیا، جب وہ مکہ آئے تو ایک ایک چیز لوگوں کے حوالہ کردی جس کو وہ لے کر تجارت کرنے گئے تھے، اس کے بعد انہوں نے پوچھا: اے جماعت قریش: تم میں سے اب کوئی ایسا شخص رہ گیا ہے جس کا مال میرے پاس ہو، اور وہ اس کو اب تک وصول نہ ہوا ہو، انہوں نے کہا: نہیں! کوئی اب ایسا نہیں ہے، سب کو ان کا مال پہنچ گیا ہے، ہم نے تم کو نہایت معتبر اور شریف پایا، اس کے بعد ابوالعاص نے اشہد ان لا الہ الا الله واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ پڑھا، پھر اہل قریش کو مخاطب کرکے بولے: میں جب رسو ل اللهﷺکے پاس تھا، اسی وقت ایمان لے آتا مگر میں ڈرا کہ تم لوگ یہ بدگمانی کرو گے کہ اس طرح سے میں نے تمہارے مال کھانے کی ترکیب کی ہے، جب الله نے اسے تم کو پہنچا دیا اور بار امانت سے فارغ ہوا تو اسلام لے آیا، اس کے بعد وہ مکہ سے مدینہ آگئے، ان کے آنے کے بعد رسول اللهﷺنے حضرت زینب ؓ کو ان کے نکاح میں دے دیا۔)[59](

 

جن مقامات پر انسان کا دل نرم ہوتا ہے اور اسے غورو فکر کا موقع ملتا ہے ان میں سے ایک مقام جیل ہے۔ لہٰذا قیدیوں کے ساتھ خلوص سے جو حسنِ سلوک ہوگا وہ ضرور اپنا رنگ لائے گا۔ آج قیدیوں میں سے سب سے زیادہ اسلام قبول کرنے والے امریکی جیلوں کے نیگر و اور کالے لوگ ہیں۔ کیا ہم مسلمان آپ ﷺکے امتی اور شیدائی دوسرے ملکوں، مقامات اور جیلوں میں بھی اسی شفقت و رحمت کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام کرنے پر غور کریں گے؟ آپ ﷺنے قیدیوں کی عزت و احترام اور ان کے حقوق کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں وہ آج کے جنیوا چارٹر سے کئی گنا اعلیٰ و ارفع ہیں۔ اے کاش کہ مسلم ممالک اور مسلمان امت اس کا مظاہرہ کرے۔)[60](

 

حاصلِ بحث اور خلاصہ کلام

رسول اکرم ﷺاور خلفائے راشدین کی ان تعلیمات اور نظائر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دعوت دین، غیر مسلموں سے تعلقات کے قیام، ان سے مکالمے اور حسن سلوک کے حوالے سے جو مثالی طرزِ عمل اختیار کیا گیا ہے اس نے اسلام میں مذہبی رواداری ، غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، ان سے معاملات اور سب سے اہم مرحلہ اشاعت اسلام اور تبلیغ دین میں اہم کردار ادا کیا۔ رسول اللهﷺکا اسوئہ حسنہ اور خلفائے راشدینؓ کے مثالی طرزِ عمل، قرآن کریم کی تعلیمات اور سیرت طیبہ آج بھی ہمارے لئے رشدو ہدایت کا سرچشمہ اور مینارئہ نور ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر مسلم دنیا سے پر امن بقائے باہم کی بنیاد پر تعلقات کے قیام اور مکالمے کے لئے ان کے اہمیت کو پیشِ نظر رکھ کر مکالمے کی راہ اپنائی جائے۔

 

گزشتہ اوراق میں آپ نے حضورﷺکے اسوہٴ حسنہ اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے غیر مسلمین کے ساتھ ہونے والے معاملات کا جائزہ لیا آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ اسلام کس قدر امن و بھائی چارگی، رواداری و مفاہمت، مذہبی ہم آہنگی اور حقوقِ انسانیت کا داعی ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے حضورﷺکے اسلام سے قبل غیر مسلموں کے آپس کے معاہدات میں پیش رفت، غیر مسلموں کے ساتھ انفرادی و اجتماعی دعوت میں تحمل و برداشت کا رویہ، غیر مسلموں کو خفیہ و اعلانیہ دعوت کا انداز، غیر مسلم بادشاھوں کے نام دعوتی خطوط میں انداز بیان، مدنی دور میں غیر مسلم وفود سے مکالمات اور ان کے ساتھ رویہ غیر مسلموں کی جان مال عزت آبرو کی حفاظت کے فرامین، جانی دشمنوں سے عفوودرگزر کا معاملہ، دشمنوں کے حق میں بھی دعائے خیر کرنا، غیر مسلم قیدیوں سے حسنِ سلوک کرنا حتی کہ جب ہر طرح مسلمانوں نے غیر مسلموں پر غلبہ حاصل کرلیا فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺکا رویہ عام معافی کا اعلان، اور صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفائے راشدینؓ کا اپنے اپنے دور حکومت میں غیر مسلم ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک او ران کے حقوق کی رعایت کرنا۔ دنیا کی کوئی قوم اور کوئی مذہب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔

 

آج ہم دنیا میں دیکھیں امن عالم کے داعی ، رواداری اور مفاہمت اور مذہبی ہم آہنگی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے دیکھیں ان کے ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں نے تو ہر طرح مذہبی رسومات اور لباس و پوشاک تک کی اجازت دے رکھی تھی کیا فرانس پردے پر پابندی لگا کر اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف اور رواداری ہے؟ کیا یہ اقوام متحدہ کے چار ٹر کی خلاف ورزی نہیں؟ آج امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی معصوم خاتون پر سزا نافذ کرکے حقوق نسواں کے سارے بلند بانگ دعوے بھلا بیٹھا ہے آج وہ حقوق نسواں کی دعویدا رتنظیمیں کہاں ہیں آج عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی NGOSکہاں ہیں؟اگر ایک لڑکی کی پٹائی کی جعلی ویڈیو آتی ہے تو اس پر تو خوب شور ہوتاہے، جب کہ مصری حاملہ خاتون مروہ شربینی اور اس کے شوہر کو پردے کی وجہ سے جرمنی کی بھری عدالت میں چھریوں کے پے درپے وار کرکے انتہائی سفاکی کے ساتھ قتل اور زخمی کردیاجاتا ہے اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔

 

حوالہ جات

  1. - سورہ النحل: ۱۲۵
  2. - سورة طہٰ: ۴۴
  3. - سورة احزاب: ۷۰
  4. - سورة المائدة: ۸
  5. - سورة الانعام: ۱۰۸
  6. - سورة الکافرون: ۲
  7. - سورة الانعام: ۱۵۲
  8. - مکالمہ بین المذاہب ۔ مقاصد ، اہداف ، اصول وضوابط، ڈاکٹر محمود احمد غازی ، ص: ۸۳ ، سیمینارز رپورٹ ۲۰۰۸انٹرنیشنل اسلامک سینٹر لاہور
  9. - حضرت محمد ﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۵۷
  10. - حضرت محمدﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۵۷/ الروض الانف،سہیلی ، دار المعرفہ، بیروت، ۱۹۷۸ء، ج۱، ص۱۵۵
  11. - حضرت محمد ﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۵۸/ الروض الانف،سہیلی، دار المعرفہ، بیروت، ۱۹۷۸ء، ج۱، ص۱۵۵
  12. - صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ، ۱۵۶ھ)، ڈاکٹر مصطفیٰ دیب البغا، دارابن کثیر، الیمامة، بیروت، کتاب المرضی ، ج: ۵ ص: ۱۲۴۲ حدیث: ۵۳۳۳
  13. - سورة الشعراء: ۲۱۴
  14. - تاریخ الطبری، محمد بن جریر الطبری (۲۲۴ھ ۔ ۳۱۰ھ)، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۰۷ہ الاولی ج: ۱ ص: ۱۱۶۹
  15. - صحیح مسلم، مسلم بن حجاج القشیری (۲۰۶ھ،۲۶۱ھ)، دارإحیاء التراث العربی،ت: محمد فوٴاد عبدالباقی، بیروت، رقم الحدیث: ۲۰۸، ج۱، ص۱۹۳ ، وأیضًا صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ، ۱۵۶ھ)، ڈاکٹر مصطفیٰ دیب البغا، دارابن کثیر، الیمامة، بیروت رقم الحدیث: ۴۴۹۲، ج۴، ص۱۷۸۷، باب وأنذر عشیرتک
  16. - سورة ص: ۵
  17. - سنن الترمذی، محمد بن عیسی ترمذی (۲۰۹ھ، ۲۷۹ھ)، احمد محمد شاکر، دارإحیاء التراث العربی، بیروت، رقم الحدیث: ۳۲۳۲، باب ومن سورة ، ج۵، ص۳۶۵
  18. - المستدرک علی الصحیحین، محمد بن عبدالله الحاکم النیشاپوری (۳۲۱ھ، ۴۰۵ھ)،ت: مصطفی عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیة، بیروت، ط:۱۹۹، رقم الحدیث: ۳۰۰۲، ج۲، ص۲۷۸
  19. - سورة الفرقان: ۷۰
  20. - سورة النساء: ۱۱۶
  21. - سورة الزمر: ۵۳
  22. - مجمع الزوائد،علی بن أبی بکر الہیثمی (۸۰۷ھ)، دارالریان للتراث دارالکتاب العربی، القاہرة بیروت ۱۴۰۷ھ ج۷، ص۱۰۰۔۱۰۱، وأیضاً ج۱۰، ص۲۱۴، حیاة الصحابہ: ج۱، ص ۵۷، دارالاشاعت کراچی
  23. - حیاة الصحابہ، ج:۱، ص :۸۳، دارالاشاعت کراچی
  24. - السیرة النبویة، عبدالملک بن ہشام الحمیری (۲۱۳ھ)، ت: طہ عبدالروٴف سعد، دارالجیل، بیروت، ۱۴۱۱ھ، الاولی، ج:۲،ص:۱۳۴، وأیضاً تفسیر طبری، محمد بن جریر الطبری (۲۲۴ھ ۔ ۳۱۰ھ)، دارالفکر، بیروت، ط: ۱۴۰۵ھ ، ج۱۵، ص۱۶۵، حیاة الصحابہ، مولانا محمد یوسف کاندھلوی،اردو ترجمہ مولانا محمد عثمان خاں فیض آبادی، دارالاشاعت، کراچی، ج: ۱، ص: ۸۵
  25. - السیرة النبویة، عبدالملک بن ہشام الحمیری (۲۱۳ھ)، تحقیق: طہ عبدالروٴف سعد، دارالجیل، بیروت، ۱۴۱۱ھ، الاولی، ج:۶، ص:۱۴
  26. - تاریخ الطبری، محمد بن جریر الطبری (۲۲۴ھ ۔ ۳۱۰ھ)، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۰۷ہ الاولی: ج۲، ص۱۳۲
  27. - صحیح مسلم، مسلم بن حجاج القشیری (۲۰۶۔ ۲۶۱ھ) داراحیاء التراث العربی بیروت، ت: محمد فوٴاد عبدالباقی، باب کتاب النبی ﷺ الی توکل یدعوہ الی الاسلام رقم الحدیث: ۱۷۷۳، ج۳، ص۱۳۹۴، أیضاً صحیح البخاری ،ج:۱ ص: ۸
  28. - المستدرک علی الصحیحین، للحاکم (۳۲۱ھ ۔ ۴۰۵)، دارالکتب العلمیہ بیروت، مصطفی عبدالقاطر عطا، ۱۴۱۱ھ ج۳، ص۳۳۹ رقم الحدیث: ۵۳۰۵، وأیضاً البدایة والنہایة، اسماعیل بن کثیر (۷۷۴ھ)، ت: عبدالرحمن اللادقی، ومحمد غازی بیضوت، مکتبہ حقانیہ پشاور پاکتسان، ج۲ ص:۶۶۵
  29. - تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۳۷۰، البدایة ج۳، ص۵۷۔۶۱
  30. - البدایة: ج۳، ص۶۰و حیاة الصحابہ ج۱،ص۱۴۵
  31. - الاصابة، احمد بن علی بن حجر العسقلانی (۷۷۳ھ ۔ ۸۵۲ھ) ت: علی محمد البجاری دارالجیل بیروت، ۱۴۱۲ہ الاولیٰ، ج۶، ص۶۸، مسند احمد، احمد بن حنبل (۱۶۴ھ ۔ ۲۴۱ھ) توسة قرطبة، مصر ج۵، ص۶۸۰
  32. - السیرة النبویة، عبدالملک بن ہشام الحمیری (۲۱۳ھ) ت: طہ عبدالروٴف سعد دارالجیل بیروت ۱۴۱۱ھ الاولیٰ ج۵، ص۲۹۶، الإصابة، ابن حجر ج۶، ص۱۷۲
  33. - السیرة النبویة ج۵، ص۲۶۶
  34. - تاریخ الطبری، محمد بن جریر طبری (۲۲۴ھ ۔ ۳۱۰ھ)، دارالکتب العلمیة بیروت ۴۰۷، الاولی ج۲، ص۱۷۹، ۱۸۰
  35. - البدایة والنہایة، ابن کثیر، ج۳، ص۵۳
  36. - البدایة والنہایة: ج۳، ص۶۰
  37. - نیل الاوطار، شوکانی، ج:۷، ص:۵۵
  38. - صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب اثم من قتل ذمیا
  39. - سنن ابو داوٴد: ج۳، ص۳۶۸، رقم الحدیث: ۳۸۰۶
  40. - بخاری ، ج: ۳ ص: ۱۴۲۰ رقم الحدیث: ۳۶۹۳
  41. - تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری (۲۲۴ھ ۳۱۰ھ)، دارالکتب العلمیة ،بیروت، ۱۴۰۷ھ، الأولی ، ج: ۲ ص: ۴۴، وأیضا مجمع الزوائد ، علی بن أبی بکر الہیثمی(۸۰۷ھ) ، دار الریان للتراث، القاہرة بیروت، ۱۴۰۷ھ، ج: ۸ ص: ۲۸۴
  42. - بخاری ، ج:۳ ص:۱۰۶۵ حدیث: ۲۷۵۳
  43. - مسند أحمد بن حنبل (۱۶۴ھ ۲۴۱ھ)،موٴسسة قرطبة ، مصر، ج: ۳ ص: ۴۷۱، کذا رواہ النسائی (۲۱۵ھ ۳۰۳ھ) فی عمل الیوم واللیلةج:۱ ص:۵۷۶وأیضا الہیثمی فی مجمع الزوائد ج: ۸ ص: ۲۲۷ وأیضا المزی فی تہدیب الکمال ج: ۴ ص: ۵۶۳
  44. - سورہ فتح: ۲۴
  45. - صحیح مسلم ، ج: ۳ ص:۱۴۴۲ حدیث: ۱۸۰۸
  46. - سنن أبو داود، سلیمان بن أشعث سجستانی (۲۰۲ھ ۲۷۵ھ) ، دارالفکر بیروت، ج: ۴ ص:۱۷۳ حدیث: ۴۵۱۰
  47. - بخاری ج:۳ ص: ۱۳۰۹ حدیث: ۳۶۳۹
  48. - صحیح مسلم ج: ۴ ص: ۲۰۰۶ حدیث: ۲۵۹۹
  49. - صحیح بخاری، ج: ۴ ص: ۱۷۹۱ حدیث: ۴۴۹۶
  50. - صحیح مسلم ج: ۳ ص:۱۴۱۷ حدیث: ۱۷۹۱
  51. - طبقات ابن سعد (۱۶۸ھ ۲۳۰ھ) ،دار صادر بیروت، ج:۱ ص: ۲۱۱
  52. - صحیح بخاری ، ج: ۵ ص: ۲۳۴۹ حدیث: ۶۰۳۴
  53. - صحیح مسلم ج: ۴ ص:۱۹۳۸ حدیث: ۲۴۹۱ باب فضائل أبی ہریرة
  54. - صحیح بخاری ، ج:۱ ص: ۴۲۷ حدیث: ۱۲۱۰
  55. - حضرت محمد ﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۷۷/سیرت النبی ،شبلی نعمانی، دارالاشاعت، کراچی ج۱، ص۱۹۵
  56. - حضرت محمد ﷺ اور رفاہی امور،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۷۸/ سبل الہدیٰ والرشاد، محمد بن یوسف الصالحی الشامی، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۹۹۳، ج: ۶، ص:۷۲
  57. - حضرت محمد ﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۷۸/زرقانی۔ ج۱، ص۴۴۵
  58. - حضرت محمد ﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۷۸/زرقانی۔ ج۱، ص۴۱۱
  59. - حضرت محمد ﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۷۸/زرقانی۔ ج۱، ص۲۱۲
  60. - حضرت محمد ﷺاور رفاہی امور، مولانا امیر الدین مہر،ششماہی السیرةعالمی، شمارہ ۱۵ ۲۰۰۶ءء ، ص: ۳۷۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...