وسط البلاد سے آغازِ دعوت
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رُشدوہدایت اورفوزوفلاح کے لئے جن مقدس ہستیوں کا سلسلہ جناب آدم علیٰ نبیّنا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے شروع فرمایاتھا اس کا آخری سے قبل سرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا ۔سیدنا عیسیٰ ؑ کے آسمان کی طرف اُٹھائے جانے کے بعد تقریباً پونے چھ سوسال تک دنیا سایہ ٔ نبوت سے خالی رہی۔فترت ِوحی کے اِس دورانیے میں گذشتہ انبیاء کرام ؑ کی تعلیمات اگر موجود بھی تھیں تو چند محدود خطوں اور بعض قوموںو افراد تک۔ان تعلیمات میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ دنیا پرست من مانی تبدیلی وتحریف کررہے تھے۔اِس صورتحال میں تمام انسانوں کے لئے ایک جامع اور عالم گیر شریعت ودستورِ حیات کی ضرورت تھی، جوکرہ ٔ ارض کے تمام خطوں کے تمام افراد کے لئےباعثِ سعادت وفلاح ہو۔پھرہمہ جہت گیر شریعت کی راہنمائی و تربیت کے لئے قائد و معلم بھی ایسا ہو جو اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور حکمتوں سے ہرانسان کو فیض یاب کرسکتا ہو ۔
سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اِس طرح کی تمام خوبیوں وکمالات سے متصف کرکے آخری نبی بناکر مبعوث کئے جاتے ہیں۔ آپ ﷺکی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوتی ہے ۔ مکہ مکرمہ وسط البلاد ہے اور کرۂ ارض کی مرکزی جگہ ہے۔جامع دین کی پہلی دعوت مرکزسے چلتی ہے اور یکسانی کے ساتھ تمام عالم میں پہنچتی ہے۔اِس دعوت نے ہرسو پہنچنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
لا یبقی علٰی ظہرالارض بیت مدرولاوبرالاأدخلہ اللہ کلمۃ الاسلام اِمابعزعزیزواِمابذل ذلیل۔(1)
’’روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر، کوئی اینٹ پتھر کا گھرانہ اور کوئی کپڑے چمڑے کا خیمہ باقی نہیں رہے گا ،جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہیں ہوجائے گا، رغبت سے مانے یا مجبور ہوکر۔‘‘
رسول اللہ ﷺنے اِس دعوت وپیغام کو دُنیا بھر میں پہنچانے کے لئے اپنی ہر ممکنہ کوشش فرمائی۔ترغیب ،ترہیب،تالیف قلبی اورصلح ودوستی کا ہر انداز اختیار فرمایا۔ بعض مواقع پر تالیف وترغیب سے بات نہ بنی اور جہاد وقتال کرنا پڑا۔آپﷺسےقبل جس طرح مقاصدِجنگ وحشیانہ تھے اسی طرح اندازِ جنگ بھی ہولناک اورپُرتشددتھا۔جنگ پورے معاشرے پر خونخوار پنجے گاڑھ لیتی۔ ہر فرد اُس آگ کی لپیٹ میں آجاتا ۔ عورتیں اور بچے بھی اس کی بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ۔ دشمن کوآگ میں زندہ جلا دینا،اعضاء کا قطع وبرید اورزندہ انسان کی کھال اُتار لینا، یہ معمولی سزائیں تھیں۔ ایک ایک لڑائی صدیوں تک چلتی اور بے گناہ ہزاروں جانوں کو کھا جاتی۔رسول اللہﷺ نے جنگ کومشن کا آخری حل بتایا ،جب صلح ،صفائی اور جزیہ ادائیگی کے تمام راستے بند ہوجائیں۔پھر جنگ کے بھی منظم اصول مقرر فرمائے۔کمزوروں کی جان وعزت کاپورا پورا لحاظ فرمایا۔دشمن اگر درندگی کا مظاہرہ کرے تب بھی اپنے پیروکاروں کو اخلاقی وشرعی حدود سے تجاوز کی اجازت نہ دی۔جنگ کو جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا نام دے کر مقصدِجہادواضح فرمایا ۔کم سے کم قوت صرف کرکے زیادہ سے زیادہ مقاصد حاصل کرنے کی حکمت عملی کو بنیاد بنایا۔
پُرامن ریاست کا قیام
حضور نبی رحمتﷺنے مکہ مکرمہ سے دعوتِ دین کا آغاز فرمایا۔ ابھی پیغام خدا وندی کی صدا بلند فرمائی ہی تھی کہ ظلم و تعدی کے بادل اُمنڈ آئے۔شیطانی مشینریوں نے اسلام کی نشر واشاعت روکنے کے لئے کمر کس لی۔اپنے بیگانے سب مخالفتوں پر اُتر آئے۔پیغاِم حق کی روز افزوں ترقی اوروسعت دیکھ کروہ لوگ رسول مکرمﷺکے جانی دشمن بن گئے۔اپنے وطن اور دیس کو ناموافق پاکرآپ ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی ۔یہاں کااندرونی ماحول رَلامِلا تھا۔مگرخارجی اور بیرونی خطرات ہر طرف سے منہ کھولے کھڑے تھے۔ شہر کے یہودی اس آگ میں جلے جارہے تھے کہ نبوت بنی اسرائیل کا حق ہے،بنو اسماعیل میں کیوں منتقل ہوگئی۔ مکہ والوں سے بھی اِن کے مسلسل رابطے تھے۔ وہ بھی مسلمانوں کے تعاقب کے تانے بانے بُننے میں مصروف تھے ۔ باہر کی دو سپر پاور طاقتوں کی طرف سے بھی اندیشہ ہر وقت مسلمانوں کے سر پر منڈلارہا تھا ۔مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو ایک محاذ کا سامنا تھا ، لیکن وہاںمسلمان بے بس تھے۔یہاں مسلمانوں کے سامنے چہار رُخی محاذ تھا۔اِس لئے داخلی و خارجی فتنوں سے نمٹنے کے لئے چومکھی دفاعی جنگ کی ضرورت تھی۔ ایسے میں ایک پیغمبرانہ فراست،ہمت و استقامت ، دقیقہ رسی اور معاملہ فہمی ہی ان گھمبیر حالات کو کنٹرول کرسکتی تھی۔چنانچہ پیغمبر خدا ﷺنے مدینہ طیبہ میں ایک پُر امن ریاست کی بنیاد ڈالی اور حالات کا مقابلہ کرنے کی وسیع حکمت عملی ترتیب دے کر بتدریج اس پرعمل شروع کردیا۔
میثاق ِمدینہ کی تحریرات کے ذریعے یہودی قبائل سے امن ومصالحت کامعاہدہ کیا۔یہ مکمل تحریر معاہدہ کی شکل میں کتب ِسیرت میں موجود ہے ، جس میں مدینہ منورہ کے تقریباً سبھی قبائل کا ذکر ناموں کی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔یہودی دھوکہ بازی اورمکروفریب میں مشہور تھے۔قتل ِانبیاء کا داغ بھی اُن پرتھا۔عسکری واقتصادی حیثیت سے بھی یہ لوگ خوب مضبوط تھے ۔ تجارتی سرگرمیوں میں بھی ان کا ہاتھ لمبا تھا ۔ کئی قبائل کے ساتھ سودی قرضہ پر لین دین کرتے تھے ۔ وقتی طور پر وہ ولوگ صلح ومعاہدہ کے لئے آمادہ ہوگئے ۔کیونکہ یہود کے دو بڑے قبیلے بنو قریظہ اور بنو نضیر انصار کے حلیف تھے۔بنو نضیر انصار کے قبیلہ خزرج اور بنو قریظہ انصار کے قبیلہ اوس کے حلیف تھے ۔(2) اوس و خزرج اسلام میں داخل ہوگئے تو ان کے حلفاء کو بھی مجبوراً صلح کرنا پڑی۔کفار ِمکہ نے دھمکی آمیز خطوط لکھ کر مسلمانوں کو اہل مدینہ سے الگ کرنے کی کوشش کی ، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے ۔
آپﷺ نے ریاست کے داخلی استحکام کے سلسلہ میں ایک تدبیر یہ بھی اختیار فرمائی کہ جو خاندان یا افراد دائرۂ اسلام میں داخل ہوں وہ سب اپنے اپنے علاقوں سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی رہائش اختیار کریں۔اس سے دو بڑے فائدے حاصل ہوئے، ایک تویہ کہ مسلمانوں کی آبادی ، تعداداور فوج میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔دوسرا فائدہ جغرافیائی لحاظ سے یہ ہوا کہ دُور دراز سے آنے والے ان افراد سے ان کے علاقوں کی صحیح معلومات حاصل ہوئیں ۔اُن مقامی افراد کی راہنمائی سے اُن کے علاقوں تک پہنچنا ،وہاں جہاد کرنا ،صدقات وزکوٰۃ کی وصولی جیسے معاملات میں آسانیاں پیدا ہوئیں ۔
مضافاتی قبائل کے مسکن اور اُن سے مصالحت
یہودیوں سے عہدومیثاق کے بعد اب آپﷺ کی نظر قبائل ِمتجاورہ پر تھی ۔اُس وقت عربوں میں قبائلی نظام رائج تھا۔ہر قبیلہ ایک خود مختار حکمران اور ان کے علاقہ کی حیثیت ایک آزاد ریاست کی تھی ۔اس صورتحال میں اسلامی ریاست کے دفاع اور استحکام کے لئے سب سے بڑا چیلنج ان تمام قبائل کو اپنا حلیف وہم نوا بنانا یااُن کو زیرکرنا تھا۔ جو قبائل مدینہ منورہ کے مضافات میں آباد تھے ،وہ زیادہ تربت پرست تھے ۔تاہم اُن میں سے چند اشخاص فرداً فرداً مسلمان ہورہے تھے ۔ آپ ﷺ نے ان سے مصالحت کا آغاز فرمایا۔ قبیلہ جہینہ بدر سے ینبع تک کے علاقہ میں انہی لوگوں کی اکثریت تھی۔ اس قبیلہ سے مصالحت کا ذکر حدیث میں موجود ہے ۔مسند احمد کی روایت میں (اگر چہ اس روایت پر ضعف کا کچھ کلام کیا گیا ہے)آتا ہے کہ آپ ﷺ کی مدینہ منورہ آمد کے کچھ عرصہ بعد یہ لوگ خود ہی حاضر خدمت ہوئے اور وثیقہ ٔامن کی درخواست کی۔الفاظ یہ ہیں:
لما قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃَ جائتہ جہینۃ۔(3)
اس میں تاریخ وماہ کا کچھ تعین تو نہیں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ معاہدہ ہجرت کے بعد سریہ حمزہ ؓ سے پہلے ہوا ہے ۔۱ ھ رمضان المبارک میں آپﷺنے حمزہؓ کو تیس مہاجرین کے ساتھ قریش کے ایک قافلہ ،جس کی قیادت ابوجہل کررہاتھا اور اُس میں تین سو افراد تھے ،پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا ۔فریقین آمنے سامنے ہوئے ۔لیکن قبیلہ جہینہ کے مجدی بن عمرو الجہنی نے آکر درمیان میں صلح کرادی ۔ روایات میں آتا ہے:
وکان موادعاً للفریقین جمیعاً۔(4) ’’یہ دونوں فریقوں کا حلیف تھا ۔‘‘
اس سے یہ اشارہ ملا کہ قبیلہ جہینہ سے مصالحت اس واقعہ سے پہلے ہوچکی تھی ۔قبیلہ جہینہ اس سے پہلے قبیلہ خزرج کا حلیف بھی تھا۔مدنی ریاست کے بعدمسلمانوں کا حلیف بنا۔ مکہ اور مدینہ کے جنگی اختلافات ومعرکوں کے دوران قبیلہ جہینہ دونوں فریقوںکا حلیف رہا۔البتہ واقعۂ احزاب کے بعدپھر مکمل طور پرمسلمانوںکی طرف مائل ہوگیا۔(5) پھر صفر ۲ ھ غزوۂ ابواء کے سفرمیں آپﷺ نے قبیلہ بنوضمرہ سے معاہدہ فرمایا۔(6) جمادی الاول ۲ ھ غزوہ العشیرہ کے سفر میں سے بنو مدلج سے معاہدہ ہوا ۔(7) قبائل کے ساتھ مصالحت میں ایک تو یہ فائدہ ہوا کہ مدینہ کے گردونواح میں دوستوںکا اضافہ ہوا اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی ۔دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ معاشی طور پر مکی ریاست کو اس سے شدید جھٹکا لگا ،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
شمالِ مکہ میں حجاز ونجدغربی کے بہت سے قبائل ایسے بھی تھے جن کے تعلقات مدینہ منورہ کے ساتھ قبل از اسلام سازگار تھے ،مثلاً بنو سلیم ،قبیلہ مزینہ اور غطفان وغیرہ ۔مگر اسلامی ریاست کے قیام کے بعد یہ بھی مکہ والوں کے ڈگر پر چلے اور مدینہ منورہ کی مخالفت پر کمرکس لی ۔ایسے قبائل کے خلاف غزوہ ٔبدر اورواقعہ اُحد کے درمیانی عرصہ میں آپﷺنے جہاد کیا۔اُن کے علاقوں میں جاکر اُن کی قوت کو منتشر کیا ۔غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو نقصان اُٹھانا پڑاتو یہ قبائل مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے متحرک ہونے لگے۔ آپﷺبھی غافل نہیں تھے ۔ہر علاقے اور قبیلہ میں خبریں پہنچانے والے موجود تھے ۔اس لئے جہاں اطلاع ملتی کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی سازش ہورہی ہے ۔آپ ﷺ اُنہیں سنبھلنے اور جمع ہونے کا موقع ہی نہ دیتے۔فوراً اُن کی سرکوبی کے لئے صحابہ ؓ کا لشکر بھیجتے۔ غزوہ ٔ قرقرۃ القدر، غزوہ ٔغطفان ، غزوۂ بحران،غزوۂ ذات الرقاع ،سریہ ابی سلمہؓ،سریہ عبد اللہ بن انیس ؓ وغیرہ یہ سب غزوات وسرایا ایسے سرکش قبائل کے خلاف ہوئے۔ بڑے چھوٹے ملا کر ایسے قبائل کی کل تعداد تقریباًاکیس تھی،جن سے آپ ﷺمختلف اوقات میں نبرد آزما ہوئے۔بہت سے قبائل ایسے بھی تھے ،جن کی نظرمکہ مکرمہ کے حالات پر تھی۔یہ لوگ فتح مکہ تک غیر جانب دار رہے ۔جوں ہی آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو وہ سب اسلامی ریاست کے وفادار بن گئے ۔
راستوں کا کنٹرول
یہوداورمضافاتی قبائل سے فارغ ہوکر اب مشرکین مکہ کی باری تھی۔آپﷺکی جنگی ودفاعی حکمت عملیوں میں ایک خاص بات یہ تھی کہ جن علاقوں سے اسلام مخالف لوگوں کاگزر ہوتا تھا ،ان علاقوں اور وہاں کے مکینوں کو آپ ﷺمصالحت و معاہدات کے ذریعے اپنے کنٹرول میں لے لیتے تھے ۔ قریش مکہ کی معاشرت کا دار ومدار تجارت پر تھا ۔اور ان کی تجارت کے دو رُخ تھے۔گرمیوں میں وہ لوگ شام کی طرف اور سردیوں میں حبشہ کی طرف تجارت کے لئے نکلتے تھے ۔ یہ دونوں تجارتیں آپس میں لازم ملزوم تھیں۔کچھ چیزیں ایسی تھیں جو وہ یمن سے خریدکر شام لے جاتے اور کچھ چیزیں شام سے لاکر یمن اور حبشہ میں فروخت کرتے۔ اب ایک سمت کی تجارتی کمزور ی دوسرے رُخ کی تجارت کا بھی زوال تھا ۔یمن اور حبشہ کی سمت اگر چہ اسلامی علاقوں سے مخالف سمت اور ان کی دسترس سے دور تھی ۔مگر شام کی سمت آپﷺکے قریب تھی ۔شام کی تجارتی شاہراہ جو مدینہ منورہ کی مغربی سمت سے شام کی طرف نکلتی تھی۔ اس سمت میں بحر الاحمر کی ساحلی پٹی کے ساتھ مشہور علاقہ ینبع ہے ۔ یہاں بنو مدلج کی آباد ی تھی۔
غزوۂ ذو العشیرہ میں آپ ﷺ نے بنو مدلج کے ساتھ امن وسلامتی کا معاہدہ کیا ۔بنو مدلج، بنو ضمرہ کے حلیف تھے ۔بنو ضمرہ غزوہ ودّان میں مسلمانوں سے معاہدہ کر چکے تھے ۔ اس لئے بنو مدلج بھی آسانی سے معاہدہ کے لئے تیار ہوگئے ۔ساحلی پٹی کے یہ قبائل مسلمانوں کے قریب ہوئے تو قریشیوں کے لئے اِن راستوں سے گزرنا بہت دشوار ہوگیا۔مدینہ منورہ کی اس مغربی سمت میں قریش کی اِس ناکہ بندی نے قریش کی اقتصادیت ومعیشت کو صفر بنا دیا ۔غزوۂ بدرکی شکست کے بعدتو اس سمت سے قریش کاتجارتی قافلہ گزارنا ایک خواب بن کر رہ گیا ۔یہی وجہ ہے کہ ایک دن صفوان بن امیہ نے افسوسناک انداز میں کہا:
إن محمداً وأصحابہ قد عوروا علینا متجرنا، فما ندری کیف نصنع بأصحابہ؟لا یبرحون الساحل، وأہل الساحل قد وادعہم، ودخل عامتہم معہ، فما ندری أین نسلک؟وإن أقمنا نأکل رؤوس أموالنا، ونحن فی دارنا ہذہ مالنا فیہا بقاء، وإنما نزلناہا علی التجارۃ إلی الشام فی الصیف وإلی الحبشۃ فی الشتاء۔(8)
’’محمد اور اس کے اصحاب نے ہماری تجارتی شاہراہ کو بہت مشکل بنا دیا ہے ۔آخر ہم اس کے ساتھیوں سے کیسے نمٹیں ، وہ ساحل (ہمارا تجارتی راستہ) چھوڑ کر ہٹتے ہی نہیں ہیں۔ ساحل والے باشندے بھی صلح کرکے اُن کا ساتھ دے رہے ہیں۔اب سمجھ نہیں آتا کہ ہم کون ساراستہ اختیار کریں ۔اگر ہم گھر بیٹھے رہیں تو اپنا رأس المال بھی کھاجائیں گے اور پھر ہمارے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ہماری معیشت کا تو دارومدار ہی گرمیوں میں شام کی تجارت اور سردیوں میں حبشہ کی تجارت پر ہے۔‘‘
شام کی طرف ایک راستہ اور بھی نکلتا تھا جو "طریق العراق" کہلاتا تھا۔ یہ راستہ بہت طویل اورمشقت والا تھا۔بوجہ مجبوری قریش نے یہ راستہ اختیارکیا۔فرأت بن حیان اس راستے کا ماہر تھا۔ اُسے راہبری کے لئے اجرت پر لیا گیا اور بہت سا مال لے کر قریشی قافلہ بغرض تجارت نکلا۔اس قافلہ میں ابو سفیان،صفوان،حویطب جیسے بڑے بڑے سردار تھے۔رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی تو زید بن حارثہؓ کی قیادت میں سو مجاہدین کو بھیجا ، حملہ ہوا تو سب سردار بھاگ گئے ۔ قافلہ کاسامان غنیمت میں ملا اور راہبر فرات بن حیان بھی گرفتار ہوا۔جو مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوا۔اب یہ راستہ بھی اُن کی تجارتی سرگرمیوں کے لئے پُر خطر بن گیا۔ (9)
جنوبی وغربی سمت کی مُہمات
بدر الکبریٰ سےقبل جوغزوات وسرایا ہوئے ۔ان کا اصلی مقصدیہی تھاکہ اشاعت ِ اسلام میں رکاوٹ سلطنت ِقریش ہے۔ اس کو اقتصادی و معاشی اعتبار سے کمزورکیا جائے ، چنانچہ مدینہ منورہ کو جہادی مرکز اور عسکری چھاؤنی بناتے ہوئے آپ ﷺنے قریشی قافلوں اورمکی سلطنت کے خلاف چاروں طرف فوجیں بھیجنا شروع کیں۔ چند مہمات کا مقصد سلطنت قریش کے متعلق معلومات جمع کرنا تھا ،بعض میں ان کے قافلے پر حملہ کرنا،بعض میں ان کو گرفتار کرناوغیرہ۔اس سلسلہ میں جو غزوات وسرایا ہوئے ،جغرافیائی لحاظ سے ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
مدینہ منورہ کے مغرب میں ساحلی علاقہ کی طرف آپﷺنے ہجرت کے سات ماہ بعدرمضان المبارک ۱ ھ میں سیدناحمزہ بن عبد المطلب ؓ کی قیادت میں تیس مجاہدین کو بھیجا ۔قریشیوں سے آمنا سامنا ہوا ،مگرلڑائی نہیں ہوئی ۔(10)
مدینہ منورہ سے جنوبی سمت رابغ کی طرف عبیدہ بن الحارث ؓ کوشوال۱ھ میں ساٹھ یا اسی مہاجرین کے ساتھ بھیجاگیا،یہ لوگ چلتے رہے ۔ یہاں تک ثنیۃ المرۃ تک پہنچے ،قریشی قافلہ سے مڈبھیڑ ہوئی،مگر لڑائی کی نوبت نہیں آئی ۔ (11)
شمال مکہ میں الخرار کی طرف ذی قعدہ ۱ھ میں سعد بن ابی وقاص ؓ کے ساتھ بیس مہاجرین بھیجے گئے،لڑائی نہیں ہوئی، الخرار جحفہ کے قریب ایک وادی کانام ہے۔(12)
مکہ مکرمہ سے شمال کی طرف ابواء وودان کے مقام پر صفر ۲ ھ میں آپ ﷺ خودتشریف لے گئے ،قریش کے کسی قافلہ سے سامنا نہیں ہوا ،البتہ علاقہ کے مکینوں پرسخت خوف طاری ہوااوروہ صلح کے لئے تیار ہوگئے۔(13)
مدینہ منورہ سے مغربی ساحلی علاقہ بواط کی طرف ربیع الاول یا ربیع الثانی ۲ ھ میں آپ ﷺ۲۰۰ مہاجرین صحابہؓ کو لے کر نکلے۔ قریش کے ایک تجارتی قافلے کا تعاقب مقصود تھا،مگرآپ ﷺ بواط پہنچے تو پتہ چلا کہ قریش کا قافلہ نکل چکا ہے۔(14)
ساحل سمندر ینبع کے نواح میں مقام العشیرہ، جو کہ قریشیوں کے قافلہ کے راستے میں پڑتا تھا،جمادی الاول ۲ ھ میں آپ ﷺ ۲۰۰ یا ڈیڑھ سو مہاجرین کولے کر اس طرف نکلے ۔ اس قافلہ کی قیادت ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی ،اس قافلے میں بہت سارا مال و دولت تھا۔جب آپﷺعشیرہ پہنچے تو پتا چلا کہ قافلہ شام کی طرف نکل چکا ہے اور پھرقریش کا یہی قافلہ جب شام سے واپس آرہا تھا تو آپﷺاس کا راستہ روکنے کے لئے نکلے تھے اور یہی واقعہ غزوہ ٔبدر کا سبب بنا تھا۔(15)
بطن نخلہ جو کہ مکرمہ مکرمہ اور طائف کے درمیان علاقہ ہے ،اس علاقہ کی طرف رسول اللہﷺنے عبد اللہ بن جحشؓ کوآٹھ یا بارہ مہاجرین کے ساتھ بھیجا اور انہیں ہدایت کی کہ قریشی قافلہ کا انتظار کرو اور اُن کی خبروں سے مطلع کرتے رہو۔ مسلمانوں کو وہاں کفار کا ایک مختصر قافلہ نظر آیا ،اُس پر حملہ ہوا، کفارکاایک آدمی مارا گیا،باقی لوگ بھاگ گئے ۔مسلمانوں کو بہت سامال غنیمت ہاتھ میں آیا ۔(16)
مکی قافلہ پر حملہ کے لئے بدر کا انتخاب ؟
مکہ مکرمہ سے شام جانے والی تجارتی شاہراہ مدینہ منورہ کے مغربی جانب سے بحر الاحمرکی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ اس علاقہ کوآپ ﷺ نے اپنے زیرِ اثر کرلیا تھا۔بحر احمر کا ساحل شہر بدر سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلہ پرہے ۔ بدر کی شادابی اور نخلستانی حیثیت تجارتی قافلوں کوپڑاؤ کے لئے کھینچتی تھی۔ مختصراً اس شہرکا محل وقوع کچھ یوں ہے:
شہربدرکوئی ساڑھے پانچ میل لمبا اور تقریباً چار میل چوڑا بیضوی شکل کا میدان ہے ،اطراف میں بلند پہاڑ ہیں ۔بدر کے شمال میں (مدینہ منورہ کی طرف ) سفیدی مائل ٹیلہ ہے،اس کا نام’’العدوۃ الدنیا‘‘(قریب والا کنارہ)ہے ۔جنوب میں (مکہ مکرمہ کی سمت) میں جو ٹیلہ ہے ،اس کا نام’’العدوۃ القصویٰ‘‘(دُور والا کنارہ)۔ان دونوں ٹیلوں کے درمیان جو بہت اونچا پہاڑ ہے ،اس کا نام آج کل جبل اسفل ہے ،اس کے پیچھے دس بارہ میل پر سمندر ہے ۔اس کو جبل اسفل قرآن کریم کی آیت’’وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ‘‘کی وجہ سے کہا گیا ۔قریشیوں کاتجارتی قافلہ اسی پہاڑ کے پیچھے سے بدر آئے بغیر مکہ شہر کی طرف نکل گیا تھا۔(17)
اس قافلہ میں تیس یا چالیس یا بعض مصادر کے مطابق سترآدمی تھے ،قافلہ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا۔(18)مسلمان تین سو سے زیادہ تھے ۔ جو اس طرح کے تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کے لئے مناسب تعداد ہے۔شام سے آنے والے قافلے بدر کے کنویں پر آتے تھے، آرام کرتے ،پانی پیتے ۔ابو سفیان کے اس قافلہ کے شیڈول میں بھی بدر آنا تھا ۔ اس لئے آپﷺرازداری کے ساتھ بدر پہنچ رہے تھے۔ابو سفیان بھی حالات سے غافل نہیں تھا ۔اس کو جب احساس ہوا کہ مدینہ والے ہماری تاک میں لگے ہوئے ہیں ،تو وہ اپنے قافلہ کو بدر سے بچا کر مکہ مکرمہ کی طرف مڑ گیا۔
آپ ﷺ کوشہر بدر پہلے وادی ذفران میں اطلاع ملی کہ تجارتی قافلہ توبدر آئے بغیر بچ نکلا ہے اور مکہ کی طرف چلا گیاہے ۔ البتہ مکہ مکرمہ سے ایک بڑا لشکر ابو جہل کی قیادت میں جنگ کرنے کے لئے بدر کی طرف بڑھ رہا ہے ۔(19)اب آپ ﷺکے لئے دو صورتیں تھیں ۔۱)واپس مدینہ منورہ چلے جائیں ۔ یہ صورت اسلامی ریاست کے لئے تسلی بخش نہیں تھی کیونکہ اوّل تو جس جوش و خروش سے مکی لشکر آرہا تھا ۔اس کی بھر پور نیت ٹکراؤ کی تھی ،وہ یہاں نہ ٹکراتا تو مدینہ منورہ کی دیواروں تک آ پہنچتا ۔دوم، پورے علاقے میں مسلمانوں کی بزدلی کی باتیں ہوتیں کہ مکی لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکے اور بھاگ پڑے ۔۲)دوسری صورت یہ تھی کہ بدر پہنچ کر مخالفین سے ٹکر لی جائے،یہی خدائی فیصلہ تھا ۔آپ ﷺ نے اپنے اصحاب ؓ سے مشاورت کی۔ان کی طرف سے بھی مثبت اور استقامت کا جواب ملا،یوں بدرمیدان جنگ بن گیا ، لڑائی کابازار گرم ہوا اور مسلمانوں کو شاندار فتح ملی ۔
میدانِ بدر میں رسول مجاہدﷺکی حکمت ِعملی*
آپ ﷺ نے مدینہ منورہ سے دُوربدر کے میدان میں جاکر کفار سے مقابلہ کیا ،مدینہ طیبہ کو کھلا چھوڑ دیا ۔دشمن کی فوج کو یقینا ًاس کا خوف لگارہا ہوگاکہ مسلمانوں کی کافی ساری فوج مدینہ منورہ میں شہر کے دفاع کے لئے موجود ہے ۔
ومنہ طریق صعب یعرج یسارا الی بدر وھذا ھو الذی اخذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزاۃ بدر۔(21)
’’ذفران سے ایک مشکل راستہ بائیں طرف بدر کو نکلتا ہے ۔اسی راستے سے رسول اللہﷺغزوہ بدرمیں چلے تھے ۔آگے چل کرپھر آپ ﷺ غیر معروف راستے سے بدر میں داخل ہوئے ۔مدینہ منورہ سے بدر کی طرف چلیں تو ایک راستہ سیدھا بدر میں داخل ہوتا ہے ۔مگر رسول اللہﷺ اس وادی سے شہر میں داخل نہیں ہوئے۔ بلکہ بدر کے دائیں جانب حنان نامی پہاڑ نما تودے کو دائیں چھوڑ کر داخل ہوئے۔‘‘(22)*
غزوۂ بدرکے موقع پر آپﷺمیدانِ بدر پہنچے تو بدر کے قریب ترین چشمے پر نزول فرمایا۔مگر حباب بن منذر ؓ کے مشورہ پرجو چشمہ قریشی سمت کے سب سے قریب پڑتا تھا، وہاں جاکر پڑاؤ ڈالا۔اپنے لئے حوض بناکر پانی جمع کرلیا اور باقی چشموں کو بند کرکے دشمن کو پانی سے محروم کردیا۔(23)
میدان ِاُحدکااجمالی جائزہ
بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ۳۰۰۰ جنگجوؤں کالشکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔نبی مجاہدﷺکو اطلاع ملی تو صحابہؓ سے مشاورت فرمائی۔ شوقِ جہاد سے سرشار بہادر نوجوانوں نے مشورہ دیا کہ مدینہ منورہ سے باہرنکل کر مقابلہ کیا جائے ۔مکہ والے بڑے کرّوفر سے آرہے تھے۔مدینہ منورہ سے شمال کی طرف پہنچے ۔جبل اُحد کے دامن میں پڑاؤ ڈالا اور جنگی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ۔یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ مکہ مکرمہ تو مدینہ منورہ سے جنوب کی طرف ہے ،پھر مکہ والوں نے شہرکی شمالی سمت کیوں اختیار کی ؟عبد الباری ایم اے اس پر روشنی ڈالتے ہیں:
عہد نبوی میں مدینہ میں جنوب(یعنی جنوبی طرف سے آنے والوں کے لئے) سے براہِ راست داخل ہونے کے لئے قبا کی طرف ایک سخت دشوار گزار راستہ تھاجولاوا کے پتھروں(BOULDERS)سے اٹا ہونے کے باعث شاذ ونادر ہی اختیار کیاجاتا تھا۔ایسے سنگلاخ وعریاں میدانوں سے گزرناآدمی اور جانور دونوں کے لئے سخت تکلیف دہ ہے ۔اور دوپہر کو ان پتھروں کے گرم ہوجانے کے باعث وہاں پڑاؤ ڈالنا بھی ناپسندیدہ خیال کیاجاتا تھا۔اور بالفرض تکلیف گوارا کرکے کوئی فوج گزر بھی جائے تو ایسے سنگلاخ میدانوں میں لڑائی ہرگز آسان نہیں ۔
نیز مدینہ منورہ کی آبادی کے اطراف میں بکثرت باغات تھے ۔ان باغات کے پختہ اور وسیع کنوئیں درجنوں لوگوں کی کمین گاہوں کاکام دے سکتے تھے۔ مختلف محلوں کے یہ باغ اور گھر باہم کچھ اس طرح متصل ہوگئے تھے کہ متعدد جگہ صرف دو اونٹ گزرنے کے قابل چوڑی گلیوں کے سوا کوئی اور گزر گاہ بھی نہ تھی ۔ غزوۂ سویق کے موقع پر بھی ایسی جغرافیائی مجبوریوں نے ابو سفیان کو اجازت نہ دی کہ وہ وادی رانونا سے دو سو مسلح شتر سواروں کو نکال کر لے جاتا اور مدینہ پر حملہ کردیتا ،بلکہ اُسے وادی العقیق کی شمالی راہ اختیار کرنا پڑی ۔اس صورتحال میں تین ہزار کی جمعیت بھلا کیسے وادی رانونا کی راہ مدینہ میں جنوب کی طرف سے داخل ہوسکتی تھی؟ علاوہ بریں مسکن نبوی ﷺ تک پہنچنے کے لئے قبا اور عوالی کی آبادیاں اور گنجان باغ بھی درمیان میں حائل تھے جن کے باعث لڑائی کا کوئی کھلا میدان بھی نہ تھا۔
ان وجوہات کی بنا پرشہر کی جنوبی سمت لشکرکی پیش قدمی اور حملہ کرنے کے لئے موزوں نہ تھی ۔ مشرقی ومغربی سمت کے بڑے بڑے حرے اور سنگلاخ پتھریلے علاقے بھی قافلہ کی نقل وحرکت کے لئے رکاوٹ تھے۔اس لئے شمالی سمت ہی شہر میں داخلہ کے لئے متعین تھی۔قدیم زمانہ میں قافلوں کے مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لئے کشادہ اور فراخ راستہ بھی یہی شمال مغربی گوشہ تھا۔ باب العنبریہ سے مغربی حرہ کوکاٹ کر جو موجودہ راستہ بنایا گیا ہے ،یہ سترہویں صدی عیسوی کا ہے ۔(26)
رسول اللہﷺ سات سو مجاہدین کے ساتھ میدان اُحد پہنچے ۔میدانِ جنگ کی صورتحال کاجائزہ لیا ۔ جبلِ اُحد کو اپنی پشت پر رکھا اوردشمن کو سامنے ۔ اب پیچھے کی سمت محفوظ ہوگئی اور اس سمت سے متوقع حملہ کاخدشہ دور ہوگیا۔تاہم پیچھے کی سمت میں لشکر کے بائیں طرف ایک گھاٹی (تنگ سا راستہ)تھی۔وہاں سے اندیشہ تھا کہ دشمن مسلمانوںپر اُس سمت سے حملہ آور ہوسکتا ہے ۔اس گھاٹی کی طرف وادی قناۃ کے جنوبی کنارے پر ایک چھوٹا سا ٹیلا تھا۔جس کانام پہلے جبل عینین (دو چشموں والا ٹیلا) بعد میں اس کانام جبل الرماۃ( وہ ٹیلا جس پر تیر اندازوں کا مورچہ تھا) پڑ گیا۔ آپ ﷺنے پچاس تیراندازوں کا ایک دستہ جبل رماۃ پر مقرر کرکے ان سے فرمایا: کچھ بھی ہوجائے ،تم نے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔
جغرافیائی حکمت عملی کے تحت یہ ٹیلہ فیصلہ کن حیثیت کا حامل تھا۔ اس سمت سے گھڑ سوار ہی پیش قدمی کرسکتے تھے ۔اس لئے آپ ﷺنے اس ٹیلہ پر تیر اندازدستہ معین کیا اور انہیں یہ تاکید کی کہ دشمنوں پر تیر برساتے رہیں ۔کیونکہ جہاں تیروں کی بارش ہو وہاں گھوڑے پیش قدمی نہیں کرسکتے ۔نیز راستہ کے نشیب وفراز سے آپ ﷺ نے یہ بھی اندازہ لگالیا کہ اس گھاٹی (تنگ سا راستہ) سے بیک وقت زیادہ سے زیادہ سو یا ڈیڑھ سو سوار ہی بمشکل گزر سکتے ہیں ۔اس لئے ان کو روکنے کے لئے پچاس تیر انداز کافی ہیں ۔
معرکہ شروع ہوااور میدانِ اُحدمیں زور شور سے لڑائی ہونے لگی ۔کفارکے میمنہ حصہ پر خالد بن ولید تھے ،جن کے ساتھ سو مسلح سوار تھے ۔وہاں سے جبل عینین قریب اور صاف دکھائی دیتا تھا۔اس عقبی سمت سے خالد اپنے سواروں کولے کر کئی بار حملہ کرنے آیا ،مگر ہربار ناکامی ہوئی ۔ تیروں کی بوچھاڑ نے اُسے آگے بڑھنے نہ دیا ۔لڑائی نے زور پکڑا تو مشرکین کے اوسان خطاہوگئے،وہ مسلمانوں کی مخاصمت کا مقابلہ نہ کرسکے، میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔مسلمانوں نے مورچوں سے نکل کر اُن کا تعاقب کیا،کچھ مجاہدین مال غنیمت جمع کرنے لگے ۔ جبل رماۃ کے تیر اندازوں نے یہ سمجھا کہ اب فتح ہوگئی ہے ،مسلمان مال غنیمت جمع کررہے ہیں،اب ہمیں یہاں رہنے کی ضرورت نہیں ۔ان کے امیر عبد اللہ بن جبیرؓ نے انہیں منع کیا، مگر تیر انداز نیچے اُتر آئے۔ ٹیلہ پر صرف عبد اللہ ؓ اور ان کے دس ساتھی رہ گئے ۔ خالد بن ولید نے ٹیلہ پر چند صحابہ کوموجود دیکھا تو موقع غنیمت جانا۔وہ تو پہلے ہی اس تاک میں تھا ۔اب چکر کاٹ کر پیچھے سے اُسی سمت سے آکر حملہ آور ہوا،جس خطرہ کی نشاندہی رسول اللہ ﷺنے کی تھی۔ عبد اللہ بن جبیر ؓنے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے ساتھ اس طوفان کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ۔بے خبر مسلمانوں پر خالد اور عکرمہ نے آکر پچھلی سمت سے حملہ کردیا ۔اس کو دیکھ کربھاگتے ہوئے کفاربھی پلٹ آئے۔ مسلمان دونوں طرف سے کفار کے نرغے میں آگئے اور بہت جانی نقصان اٹھایا ۔ ستر کے قریب شہادتیں ہوئی اور لڑائی کا نقشہ ہی بدل گیا۔(27)
معرکہ اُحدمیں جغرافیائی تدابیر
میدانِ جنگ میں جب ایک فریق پہلے پہنچ کر جگہ کا انتخاب کرلے تو بعد میں آنے والا فریق لاچار ومجبور باقی ماندہ جگہ پر ہی کہیں ڈیرہ ڈالے گا۔ اپنی مرضی اور منشاء سے مقام ومحاذ کا انتخاب نہیں کرسکتا،لیکن میدانِ اُحد میں ایسانہیں ہوا،مشرکین نے پہلے پہنچ کراپنے لئے جگہ تلاش کرلی۔ نبی مجاہدﷺ اگر چہ بعد میں پہنچے ،لیکن حکمت ِعملی وبصیرت سے ماحول کاجائزہ لے کر پورا میدان اپنے موافق بنالیا۔ذیل میں اُن چند تدابیر کا ذکر کیا جاتا ہے :
*
میدان اُحد میں پہنچنے سے پہلے اطلاع ملی کہ دشمن جبلِ اُحدکے دامن میں کئی سمت سے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ۔ آپ ﷺ ایک صحابی کی راہنمائی میں مشرقی سمت سے بنو حارثہ کے حرہ (کالے پتھروں کا علاقہ) اور کھیتوں سے گزرتے ہوئے دشمن کو مغرب کی سمت میں چھوڑتے ہوئے جبل اُحد کی گھاٹی میں جا پہنچے۔(28)
انوکھی جنگی اسکیم
غزوۂ اُحد کے بعد مدینہ منورہ میں پیش آنے والے دو واقعے’’بنونضیر اور بنو قینقاع کی جلاوطنی‘‘نے یہود یوں کو آگ بگولہ کردیا۔وہ مسلمانوں کے جانی دشمن بن گئے ۔اب وہ اس کوشش میں تھے کہ مدینہ منورہ پر ایسا ایک فیصلہ کن حملہ ہوجائے ،جس سے مسلمانوںکا زور ٹوٹ جائے۔ یہودیت کو پھر سے استحکام واقتدار مل جائے ۔ چنانچہ اس مہم کے لئے انہوں نے اولاً مکہ مکرمہ کے قریشیوں کا ذہن بنایا ۔پھر بت پرست غطفانی جنگجوؤں کو خیبر کی سال بھر کی کھجوروں کی کمائی کالالچ دے کر تیار کیا۔ بنوسلیم اور دوسرے قبائل کو بھی اپنے جال میں پھنسالیا ۔ بڑے قبائل کا یہ حال دیکھ کردائیں بائیں کے چھوٹے بدوی قبائل نے بھی اس مہم میں شرکت کی حامی بھر لی ۔خطہ ٔ عرب کایہ عظیم اتحادی لشکر مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے ابو سفیان کی قیادت میں روانہ ہوا۔
حضرت عباس ؓنے تیز رفتارقاصدمدینہ منورہ کی طرف بھیجا۔قاصدنے چودہ دن والا سفر چار دن میں طے کرکے رسول اللہ ﷺ کوپوری صورتحال کی اطلاع دی ۔ آپ ﷺنے اصحاب ؓ سے مشاورت فرمائی ۔سلمان فارسی ؓ نے خندق کھدائی کا مشورہ دیا۔ آپ ﷺ نے اس تدبیر سے اتفاق کرکے مدینہ منورہ کا دفاع فرمایا۔خندق کھدائی کے لئے شمالی جانب کاانتخاب کیا گیا۔کیونکہ مدینہ منورہ کی جغرافیائی اور ارضی نوعیت خاصی دشوار گزار تھی اور اس کے ارد گرد تین اطراف قدرتی رکاوٹیں موجود تھیں۔جنوب میں جبلِ عیر کا فلک بوس طویل پہاڑ تھا۔نیز اس طرف بنوقریظہ کی آبادی بھی تھی ۔جن کا مسلمانوں سے امن وتعاون کا معاہدہ تھا۔اورابھی تک ان کی طرف سے عہد شکنی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔اس لئے جنوبی سمت سے کسی حملہ آور کا ڈر نہیں تھا ۔مشرقی اور مغربی جانب لاوے سے بنے سنگلاخ چٹانوں سے اَٹے ہوئے حرے تھے ۔ شرقی وغربی حروں کی یہ ناہموار سطوح مرتفع گھوڑوں اور اُونٹوں کے لئے ناقابلِ عبور رکاوٹوں کا کام دیتی تھیں ۔گھوڑوں کے لئے تو کیا ان حروں سے پیادہ فوج کا چلنا بھی بہت مشکل تھا۔یہ دونوں سمتیں بھی محفوظ ہوگئیں۔اب بچ گیا شمالی جانب کا میدانی علاقہ،جو جبل اُحد کے شمال مغربی جانب واقع تھا۔(31) ابن اسحاقؒ لکھتے ہیں:
کان احد جانبی المدینۃ عورۃ وسائرجوانبھا مشککۃ بالبنیان والنخیل لایتمکن العدومنھا۔(32)
’’شہر مدینہ کی ایک سمت ہی(شمالی سمت) کھلی ہوئی تھی ،باقی تمام جوانب عمارتوں اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھیں،جن سے دشمن کا گزر نا ناممکن تھا۔‘‘
اس لئے شمالی علاقے میں تین سے چار میل خندق کھودی گئی ۔جوسات سے لے کر دس ہاتھ (ساڑھے تین میٹرسے لے کرپانچ میٹر تک)گہری اور نوہاتھ یعنی ساڑھے چارمیٹر چوڑی تھی۔تین ہزار مجاہدین نے پندرہ یا سترہ دن میں یہ خندق کھودی۔(33) مدینہ منورہ کے جغرافیائی نشیب وفراز سے آپﷺخوب واقف تھے۔شہر کی شمالی سمت کا دفاع تو خندق کھود کر کیا۔ اہلِ سیر نے لکھا ہے باقی دوسرے اطراف میں جہاں خندق نہ تھی ،بلکہ باغات ومکانات تھے، وہاں بھی کلیدی مقامات پر نگرانی اور حفاظت کے لئے صحابہ ؓ کے چاق وچوبند دستے مقرر فرماکر پورے شہر مدینہ کی حفاظت کا انتظام فرمالیا۔(34)
خندق کی کھدائی ، چاروں اطراف سے دفاعی اقدامات اور اصحاب ؓ کی مختصر سی جماعت کی سلیقہ وترتیب سے اہم مقامات پر تعیناتی کے بعد اب نتائج کو اللہ کے حوالے کردیا۔متحدہ عرب کا لشکر جب مدینہ منورہ پہنچاتو آگے کیا صورتحال تھی ؟ عبد الحمید قادری جستجوئے مدینہ میں نقشہ کھینچتے ہیں:
جب وہ جبل سلع کے دامن میں پہنچے تو ان کی حیرانی اور مایوسی کی انتہاء نہ رہی کہ ان کو اپنے زمین کے قلابے بھرتے ہوئے گھوڑوں کو یکایک لگامیں لگانا پڑیں کیونکہ ان کے آگے ناقابل عبور چوڑی اورگہری خندق منہ کھولے کھڑی تھی ۔ابن اسحاق ؒ کے الفاظ ہیں:’’وہ اپنے گھوڑوں پر سر پٹ دوڑتے آئے مگر خندق کو دیکھ کر ان کو اپنے گھوڑوں کو روکنا پڑا ۔خندق کو دیکھتے ہی وہ بے اختیار کہہ اٹھے،یہ حربہ پہلے تو کبھی کسی عرب نے نہیں آزمایا۔‘‘ان کی ساری حسرتیں خاک میں مل گئیں۔پورے جزیرہ نما عرب میں ایسا دفاعی حربہ کبھی استعمال نہیں ہوا تھا ۔ان کی ساری قوت کا دارومدار تو اس وقت کے روائتی جارح اور دفاعی طریقوں پر تھا۔وہ جنگ اُحد میں دیکھ چکے تھے کہ مسلمانوں کے پاس گھڑ سوار فوج نام کی بھی کوئی چیز نہ تھی ۔اس بار وہ پہلے سے بھی زیادہ گھڑ سوار فوج ساتھ لے کر آئے تھے ۔ جو اس نئی دفاعی لائن کے سامنے بالکل بے بس کھڑی تھی ۔ان کے حربی منصوبہ بازوں کے لئے یہ بالکل انوکھا حربہ تھا ۔خندق اتنی وسیع اور گہری تھی کہ کوئی بھی گھوڑا اس کو پھلانگنے سے عاجز تھا۔ (35)
قریشیوں کی تدبیر ناکام ہوگئی
۶ھ میں آپﷺنے خواب دیکھا کہ ہم مکہ مکرمہ داخل ہوئے ہیں اور عمرہ کیا ہے ۔آپﷺنے اِسے حکم الہٰی سمجھ کراپنے اصحاب ؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف کوچ فرمایا۔یہ ذو قعدہ کا مہینہ تھا جو اہل عرب کے نزدیک حرمت کا مہینہ سمجھاجاتا تھا ۔اس ماہ میں وہ اسلحہ ایک طرف رکھ دیتے تھے اور جنگ وجدال سے اجتناب کرتے تھے ۔مشرکینِ مکہ کواطلاع پہنچی تو وہ سخت تذبذب کا شکار ہوئے۔کیو نکہ جو قافلہ اس مہینہ میں حج وعمرہ کوآتا اسے روکنے کا کسی کو حق نہ تھا ۔اب وہ اس ا لجھن میں پڑ گئے کہ اگر ہم اس قافلہ کو روکیں توپورے عرب میں ہماری زیادتی کا شور مچ جائے گا ۔لوگ کہیں گے کہ قریش نے بیت اللہ پر اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے۔ اگر اجازت دیں اور یہ قافلہ خیر وعافیت سے واپس چلا جائے تویہ ہمارے لئے بہت شرمندگی کی بات ہے۔سب لوگ طعنہ دیں گے کہ قریشی مسلمانوں سے مرعوب ہوگئے ۔کافی سوچ وبچار کے بعد مکہ والوں نے ٹھان لی کہ اس قافلہ کو مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔مکہ والوں نے اس سلسلہ میں اپنے منصوبے کو یوں حتمی شکل دی:
*
خالد بن الولیدکو۲۰۰ سواروں کے ساتھ کراع الغمیم بھیجا۔یہ جگہ مکہ مکرمہ کی طرف آنے والی مرکزی شاہراہ پر تھی ۔ اس دستہ کا مقصد مسلمانوں کا راستہ روکنا اور ان کی پیش قدمی کو کمزور کرنا تھا۔
آپ ﷺ بھی قریشی مزاج سے واقف تھے ۔اس لئے روانہ ہونے سے قبل اپنے لئے حفاظتی انتظامات فرمائے:
*
بسر بن سفیان رضی اللہ عنہ کو جاسوس بنا کر مکہ مکرمہ بھیج دیا۔ یہ اگر چہ مسلمان ہوگئے تھے مگر ان کے قبولِ اسلام کی قریش کو اطلاع نہ تھی ۔(37)
آپ ﷺعسفان سے پہلے ذات الاشطاط پہنچے تو اسلامی جاسوس نے آکر مکہ مکرمہ کی مکمل صورتحال بتائی ۔آپ ﷺ نے فرمایا:"کون ہے جو ہمیں اس راستے سے ہٹ کر لے جائے جس راستے پر یہ نہ ہوں۔" قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے کہا: میں لے جاؤں گا ۔وہ سب کودائیں سمت میں سخت پتھریلے راستے سے لے گیا ۔یہ راستہ پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ تمام لوگوں کے لئے یہ راستہ بڑا دشوار گزار اور مشکل تھا ۔چلتے چلتے راہبر نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں پہنچا دیا ۔
قریشیوں کی سب تدبیریں اکارت گئیں ۔وہ شمال مکہ میں منتظر رہے اور آپ ﷺحرم کے غربی حصہ سے حدیبیہ پہنچ گئے۔ خالدبن ولید کراع الغمیم میں راستہ دیکھتے رہے ۔پہاڑوں پر موجود قریشیوں کے جاسوس ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے ۔اور وادی بلدح یا ذو طویٰ میں مکہ والوںکا اجتماع اور جوش وخروش بھی ہو ا میں اُڑ گیا۔ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ حضورﷺ دوسرے دشوار گزارراستے سے اپنا قافلہ لے کرحدیبیہ پہنچ جائیں گے ۔ اب اطلاع ملتے ہی قریش اور ان کے دستہ سوار فورا ًحدیبیہ کی طرف لپکے۔
خیبرکے یہودیوں پر مخالف سمت سے یلغار
خیبر کے غدار یہودی غزوہ ٔاحزاب میں کفار ِمکہ اور متحدہ عرب کو بھڑکاکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے ۔غزوۂ بنو قریظہ کے بعد تو ان کی اسلام دشمنی مزید تیزہوگئی ۔انتقامی جذبہ میں وہ آئے دن مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے تھے ۔ان سب منصوبوں کے تانے بانے خیبر میں بنُے جا رہے تھے ۔ ان سازشیوں کو کچلنے کے لئے ۷ ھ میں آپ ﷺ خیبر کی طرف نکلے۔مکہ والوں سے دس سالہ امن وصلح کا معاہدہ کرنے کے بعد آپ ﷺ کو یہ اطمینان تھا کہ شمالی علاقہ جات کے یہودیوں کی طرف رُخ کیا جائے تو مکہ والے ان کی مدد کو نہیں آئیں گے ۔ اس اطمینان کے باوجود بھی یہ بہت پُرخطر مہم تھی۔ لشکر اسلام کے لئے ہرسو خطرات ہی خطرات تھے ۔
اوّل یہ کہ خیبر تک پہنچنے کے لئے ۲۰۰ کلومیٹر کا راستہ ،جس میں بت پرست قبائل کی طرف سے جگہ جگہ حملے اور شبِ خون کاخطرہ تھا۔دوم یہ کہ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا ۔اُن کی اکثریت یہاں کے مضبوط قلعوں میں رہتی تھی۔انہیں خوب اندازہ تھا کہ مسلمان ہمیں نہیں چھوڑیں گے ۔لہٰذا وہ ہر طرح سے مسلّح اور جنگ کے لئے تیار تھے ۔تیسری سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ بت پرست، اَن پڑھ اور دیہاتی جنگجوؤں کا قبیلہ غطفان مسلمانوں کا شدید مخالف اور یہودیوں کے بہت قریب تھا۔ غطفانی نجد کے بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔وادی قریٰ ،جبال طے میں بھی ان کی آبادیاں تھیں۔ (39)
خیبر کے یہودیوں سے ان کے خوب مراسم تھے ۔آپ ﷺ کی خیبر کی طرف پیش قدمی کے ایّام میں بھی ان کے مذاکرات چل رہے تھے ۔چنانچہ آپ ﷺ ان سب خطرات سے نمٹنے کے لئے مندرجہ ذیل حکمت عملیوں کو سوچتے ہوئے خیبر روانہ ہوئے :
*
آپ ﷺ اور اصحابؓ کی غیرموجودگی میں نجد کے جنگجوفائدہ اُٹھا کر حملہ آور ہوسکتے تھے اِس لئے مدینہ منورہ کو محفوظ رکھنے کیلئے آپ ﷺ نے ابان بن سعید ؓ کی قیادت میں چند اصحاب ؓ کو (جنگجوؤںکو الجھانے کیلئے) نجد کے علاقہ کی طرف بھیجا۔(40)
خیبر سے پہلے صہباء پہاڑ کے دامن میں آپ ﷺ پہنچے ،آرام فرمایا۔رات کے وقت راستہ بتانے والوں سے فرمایا ہمارے آگے آگے چلو اور ہمیں خیبر تک پہنچاؤ،مدینہ منورہ والی سمت سے نہیں بلکہ شام کی سمت سے۔ اس انداز سے پہنچاؤ کہ خیبر اور ان کے حلفاء غطفان کے درمیان ہم پڑاؤ ڈالیں۔ راہبر آپ ﷺکو وادی رجیع میں لے گئے ۔جس کا محل وقوع خیبر سے شمال کی طرف ہے ۔
رجیع کو جہادی کیمپ بنایا
رجیع کو آپ ﷺ نے اپنا جہادی کیمپ بنایا ۔جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ کافی اہمیت کی حامل تھی:
*
آپﷺخیبر کے یہودی اور قبیلہ غطفان کی آبادیوں کے درمیان حائل ہوگئے اورغطفانیوں کی طرف سے متوقع امداد کاراستہ روک دیا۔
بعض روایات کے مطابق رجیع کو مستقر بنانے کامشورہ حباب بن منذرؓ نے دیا ،جسے آپ ﷺنے قبول فرمایا ۔ آپ ﷺ نے نطاۃ کے قلعوں کے سامنے کھجوروں کے جھرمٹ میں خیمے نصب فرمائے ۔حباب نے مشورہ دیا کہ اِن قلعوں کے قریب کھجوروں کے جھرمٹ میں ہم نے قیام کیا ہے،یہ نشیبی جگہ ہے ،یہاں سیم کے پانی کے تالاب بھی ہیں ۔نطاۃ قلعہ کے مکین ماہر تیر انداز ہیں ،ہم اُن کے تیروں کی زد میں رہیں گے ۔نیز وہ درختوں کا فائدہ اُٹھا کر ہم پربآسانی شب خون بھی مارسکتے ہیں ۔اس لئے کسی کھلے میدان میں قیام کرنا چاہئے جہاں اس طرح کے تمام خطرات سے ہم محفوظ رہیں ۔آپ ﷺ نے اس مشورہ سے اتفاق کرتے ہوئے محمد بن مسلمہ ؓ سے فرمایا کسی اور جگہ کا انتخاب کریں۔اُنہوں نے چکر لگا کر وادی رجیع کو منتخب کیا ۔ آپ ﷺنے پھر اس نئی قیام گاہ میں منتقل ہونے کا حکم دیا ۔(43)
خیبر میں یہودیوں کے متعدد قلعے تھے۔ آپ ﷺنے سوچاکہ اگر ہم ایک ہی قلعہ پر حملہ کریں گے تو دوسرے قلعوں والے یہودی بھی سب اکٹھے ہوکر مقابلہ پر نکل آ ئیں گے ۔اس لئے یہ حکمت عملی اپنائی کہ مختلف صحابہ ؓ کے چھوٹے چھوٹے دستے ترتیب دئیے اور ان کو مختلف قلعوں کے لئے مخصوص کردیا ۔مقصدیہ تھا یہودی قوت منتشر رہے اورہر قلعہ والے اپنے دفاع میں الجھے رہیں۔ لشکر اسلام کا باقی بڑا حصہ اپنی بھر پور طاقت ایک قلعہ پر مرکوز کئے ہوئے اس پر حملہ آور ہو۔اس حکمت عملی سے ترتیب وار قلعے فتح ہوتے رہے ۔ (44)
رات کے وقت گشت اور پہرہ کے لئے بھی آپ ﷺنے ایک دستہ تیار کیا ۔جو مسلمانوں کے لئے پہرہ بھی دیتا اور دشمنوں کے قلعوں کے ارد گرد گشت کرکے ان کی حرکات کاجائزہ بھی لیتا ۔(45) خیبر کے قلعوں میں سب سے پہلے قلعہ ناعم پر آپ ﷺنے حملہ کیا۔ڈاکٹر عبد الرحمن الطیب الانصاری کے بیان کردہ نقشہ کے مطابق جغرافیائی اعتبار سے یہ قلعہ وادی رجیع کے قریب اور مقابل تھا۔(46) یہ قلعہ بہت سخت تھا،تقریباً پندرہ دن اس کا محاصرہ رہا ۔قلعہ کے اردگرد مسلسل لڑائی ہوتی رہی ۔کافی جدوجہد کے بعدمسلمان قلعہ کے اندر داخل ہوئے اور اسے فتح کیا۔اس قلعہ کی فتح کے بعد پھر باقی قلعوں کی فتح کی راہ بھی ہموار ہوگئی۔یہودی قوت کمزور پڑ گئی اوروہ ہتھیار ڈال کر صلح پر راضی ہوئے۔یوں پورے خیبر پر مسلمانوں کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔
فتح مکہ کے لئے تدابیر
مکہ مکرمہ کی فتح کے لئے رسول اللہ ﷺ نے’’رازداری‘‘والی حکمتِ عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت ہی کم جانی نقصان کے ساتھ کفریہ ریاست کا خاتمہ کرکے اُسے فتح کیا۔۸ ھ میں گردو نواح کے بہت سے قبائل مدینہ منورہ میں آکر جمع ہوئے اور دس ہزار کا لشکرجرار آپ ﷺکے ساتھ روانہ ہوا۔ اپنی پیش قدمی کو خفیہ رکھنے کے لئے سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی:
"اے اللہ! قریش کےمخبروں اور جاسوسوں کو روک دے تاکہ ہم ان لوگوں کے علاقوں میں اچانک پہنچ جائیں ۔"
پھر جہادی نقطہ ٔنظر کےتحت آپﷺنے رازداری کے مکمل انتظامات کئے۔مدینہ منورہ کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع کیا۔ تاکہ کسی طرح بھی قریش تک مسلمانوں کے ارادوں کی خبر نہ پہنچ سکے ۔تجارتی قافلے بھی شہر سے باہر ہی توقف کرتے ۔(47)باہر کے کسی آدمی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ مدینہ منورہ میں کیا تیاریاں ہورہی ہیں ،تمام راستوں بالخصوص مکہ مکرمہ کی طرف جانے والے راستے پر نگرانی کرنے والی جماعتیں بٹھا دیں،تاکہ ہر آنے جانے والے کے متعلق معلومات رہیں ۔اس جماعت کے امیر حضرت عمر بن خطابؓ تھے۔آپ ﷺنے اس جماعت سے فرمایا:’’جو کوئی اجنبی نظر آئے اسے روک لو۔‘‘پوشیدگی کا یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا اور ان محافظوں نے کسی مشتبہ آدمی کو مکہ مکرمہ کی طرف سفر نہیں کرنے دیا۔
روانگی کس طرف ہے ؟اِس کو خفیہ اور مشتبہ رکھنے کے لئے ایک جماعت ابو قتادہؓ کی امارت میں مکہ مکرمہ سے مخالف سمت میں واقع بطن اضم نامی ایک جگہ کی طرف روانہ فرمائی ۔یہ جگہ نجد کے علاقہ میں مدینہ منورہ سے شرقی سمت میں تھی۔ اس سے لوگوں کو یہ دھوکہ ہواکہ آپ ﷺاپنی فوج کو اُس طرف لے جائیں گے، مگر یہ ایک تدبیر تھی ۔یہ صحابہؓ وہاں تک پہنچے اورپھر جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ کی طرف نکل گئے ہیں،تو یہ بھی مقرر کردہ پالیسی کے تحت آپ ﷺمقام سقیا میں آملے۔راز داری کا اس سے اندازہ لگایا جائے کہ بڑے بڑے صحابہ ؓ کو بھی اس کا علم نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اُنہیں کہاں لے جارہے ہیں ۔ کوئی پوچھتا تو آپ ﷺجواب میں بس خاموشی اختیار فرماتے ۔قدید میں عیینہ بن حصن الفرازی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو فوج کی تنظیم وترتیب اور دستوں میں جھنڈے تقسیم کرتے دیکھا تو پوچھا :یارسول اللہ ! کہاں کا ارادہ ہے ؟آپ ﷺنے بس اتنا جواب دیا کہ’’جہاں اللہ چاہے گا ۔‘‘
سب حیران تھے کہ ھوازن، ثقیف، قریش ،کس قبیلہ پر حملہ کرنے کا ارادہ ہے ؟کیونکہ جس راستے پر آپ ﷺ چل رہے تھے وہ مکہ مکرمہ کی طرف بھی جاتا تھا اور طائف کی طرف بھی ۔پھر راستے میں آپ ﷺکبھی مکہ کو بائیں جانب چھوڑتے ہوئے دائیں جانب چلتے اور پھر کبھی واپس مکی شاہراہ پر آجاتے۔ حدودِحرم کے قریب پہنچے تب صحابہ ؓ کو پتہ چلا کہ آپ ﷺ کا ارادہ مکہ والوں سے نمٹنے کا ہے ۔دنیا کے ماہرین جنگ،فلاسفر نبی مجاہدﷺکی اس جنگی حکمت عملی پر حیران ہیں کہ آپ ﷺ دس ہزار کا عظیم لشکر لے کر مشرکین مکہ کے سر پر جاپہنچے اور انہیں کچھ خبر تک نہ ہونے دی ۔
آپ ﷺ مرالظہران (الجموم) میں رات کو پہنچے ۔اب حکم دیا کہ سب الگ الگ آگ جلائیں،سینکڑوں جگہوں پر آگ جلی، ہر طرف روشنیاں اور آگ،الجموم مکہ مکرمہ کے بالکل قریب ہے ۔ رات کے وقت روشنی اور آگ دُور دُور تک دکھائی دیتی ہے۔اب مکہ والوں نے دیکھا تو حیران بھی ہوئے اور خوفزدہ بھی۔اور یہی آپ ﷺ کی تدبیر تھی کہ ہم مکہ والوں پر اچانک جاپہنچیں۔اُن پر ہیبت طاری ہو۔وہ مرعوب اور دہشت زدہ ہوجائیں اور خونریزی کے بغیر ہی مکہ مکرمہ فتح ہوجائے۔اتنی زیادہ آگ اور روشنی دیکھ کر اہلِ مکہ نے اپنے اندازہ میں مسلمانوں کا لشکر تیس ہزارسمجھا ۔ظاہر ہے کہ اس لشکر جرارسے مقابلہ مکہ والوں کے بس میں نہ تھا ۔
مقام ذی طویٰ پہنچے،اب مکہ مکرمہ بالکل قریب ہے ۔دس ہزار کا لشکر مکہ مکرمہ پر دستک دے رہا ہے ۔آپ ﷺ نے جغرافیائی حکمت ِعملی کے تحت مکہ مکرمہ کوچاروں طرف سے گھیر لیا۔مکہ مکرمہ اُونچے پہاڑ وں سے گھرا ہوا ہے۔اُس وقت شہر میں داخل ہونے کے چار راستے تھے۔ دس ہزار لشکر کو پانچ دستوں میں تقسیم کیاگیا ۔آپ ﷺ خود پہلے دستہ کے سالار تھے ۔ باقی چار دستے اپنے سالاروں کی قیادت میں چار اطراف سے شہرمیں داخل ہوئے۔ شمالی جانب سے زبیر بن العوام ؓ کی قیادت میں ،جنوبی طرف سے خالدبن ولید ؓ،شمال مغربی جانب سے ابو عبیدہ بن الجراح اورجنوب مغربی جانب سے قیس بن سعد انصاری ؓ کی قیادت میں ان کے ماتحت دستے داخل ہوئے ۔ سوائے خالد بن ولیدؓ کے کسی دستے سے کفار کا آمنا سامنا نہیں ہوا۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی کامیاب ،شاندار اور دُوررس حکمت عملی کے تحت کفار مکہ کے اس مرکز کو فتح فرماکر وہاں اسلامی جھنڈا گاڑھ دیا۔(48)
حنین وطائف کامحل وقوع
آپ ﷺ جب فتح مکہ کے لئے آرہے تھے تو ایک جاسوس کی گرفتاری نے انکشاف کیا تھا کہ طائف کا جنگجو قبیلہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔مکہ مکرمہ کی فتح کے بعد آپ ﷺ اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔عبد اللہ بن حدرد رؓ کو جاسوسی کے لئے بھیجا ۔ انہوں نے آکر اطلاع دی کہ قبیلہ ھوازن بیس ہزار لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے لئے پرتول رہا ہے ۔ آپ ﷺکو فکر لاحق ہوئی اور ان جنگجوؤں سے نمٹنے کی تدابیرسوچنے لگے ۔
سب سے پہلے تو آپ ﷺنے یہ فیصلہ فرمایاکہ مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر ان سے مقابلہ کیاجائے۔عسکری لحاظ سے یہ بہت دانشمندانہ فیصلہ تھا،کیونکہ اگر چہ مکہ مکرمہ فتح ہوچکا تھا ۔مگر وہاں بت پرستی کے آثار اب بھی موجود تھے ۔ اُن لوگوں پر قبولِ اسلام میں جبروزبردستی نہیں کی گئی تھی۔اس لئے کچھ لوگ اب بھی بت پرستی پر قائم تھے۔وہاں کے سرداران بھی اگر چہ بظاہر تسلیم ہوچکے تھے، تاہم اندر اندرسے وہ سخت غیظ وغضب میں تھے ۔اس لئے مکہ مکرمہ کی گلیاں اور یہاں کا ماحول کفارِ ھوازن سے ٹکراؤ کے لئے سازگار نہیں تھا۔ان مکیوں سے یقیناً یہ خطرہ تھاکہ لڑائی کے وقت وہ ھوازن کے ساتھ مل جائیں گے اورمسلمانوں کو دوقسم کے دشمنوں سے لڑنا مشکل ہوجائے گا ۔اس کے علاوہ مکہ مکرمہ حرم تھا،حرم کی تعظیم کی خاطر بھی آپ ﷺنے بیرون مکہ لڑائی کو ترجیح دی ۔
آپ ﷺنے ھوازن کی طرف کوچ کیا تورات کے وقت انیس بن مرثد غنوی ؓ کو دشمن کی طرف بھیجا کہ وہ دشمن کے قریب ترین پہاڑ پر جاکر گھات لگائے اور ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھے۔چنانچہ یہ صحابی ؓ مشرکین کے پڑاؤکے قریب مکمل رات حفاظتی پہرہ دیتے رہے۔مسلمانوں کا لشکر وادی حنین میں داخل ہوا تو اس وقت صبح کا اندھیرا تھا ۔ھوازن کے جنگجو دائیں بائیں تنگ گھاٹیوں میں مورچہ لگائے گھات میں تھے ۔ جونہی مسلمانوں کا لشکر وادی حنین کی گہرائی میں اُترنے لگا تو اُنہوں نے تیروں کی بارش کردی ۔اندھیرے کی وجہ سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ تیر کہاں سے آرہے ہیں؟تیر انداز کس سمت میں ہیں؟ اسلامی لشکر کی اوّل صفیں اور ابتدائی دستے پیچھے پلٹے اور پچھلی صفوں کو بھی بہاکر لے گئے ۔ آپ ﷺلشکر کے وسط میں تھے،افراتفری کی اس صورتحال میں آپ ﷺ نے حکمت عملی اپنائی کہ تھوڑا دائیں سمت کو ہوگئے۔سیرت ابن ہشام میں الفاظ ہیں:
وانحازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الیمین۔(49)
گنتی کے چند مخلص صحابہ ساتھ تھے ،لشکر پیچھے کو پلٹ رہا تھا۔ کچھ لوگ تو بہت دور نکل کر مکہ کی طرف چل پڑے تھے۔اس وقت آپ ﷺنے ایک طرف ہوکر پوزیشن سنبھال لی اور آواز دے کر سب کو جمع کیا ۔یہ تو جنگ کی ابتداء تھی ،جس میں انتشار پھیل گیا،حقیقاً تو میدانِ جنگ آگے تھا۔نئے سرے سے ترتیب دے کر پھر ھوازن کی فوجوں پر حملہ ہوا اور ان کو شکست ہوئی۔ھوازن شکست کھانے کے بعد تتر بتر ہوگئے اور جدھر کو منہ ہوا،اُدھر بھاگے ۔ اہل سیر نے تین مقامات کے نام بتائے ہیں:نخلہ،اوطاس اور طائف ۔آپ ﷺ نے بھی نخلہ اور اوطاس کی طرف مجاہدین کے دستے بھیجے اور طائف کے محاصرہ کا ارادہ فرمایا۔خالد بن ولیدؓ کومقدمۃ الجیش کے طور پر طائف کی طرف بھیجا۔ اس میں حکمت عملی یہ تھی کہ ھوازن کے یہ گروہ آپس میں اکٹھے نہ ہوسکیں۔ پھر خود رسول اللہ ﷺنخلہ یمانیہ ،قرن المنازل سے ہوتے ہوئے پہاڑی گھاٹیوں سے مقام لیہ پہنچے ۔وادی لیہ تو طائف سے شرقی سمت پر ہے اور مکہ مکرمہ طائف سے غربی سمت میں لگتا ہے ۔آپ ﷺیہ طویل چکر کاٹ کر جنوب مشرق سے کیوںطائف پہنچے؟جغرافیائی اعتبار سے اس میں کئی حکمت عملیاں ہوسکتی ہیں۔جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
*
ایک یہ کہ وادی لیہ میں قبیلہ ھوازن کے سالار مالک بن عوف کا قلعہ تھا۔اُسے منہدم کرواکر ھوازن کا زور توڑا۔
سفرِ تبوک اور بلادِ شام کی فتوحات
۹ھ میں روم کے بادشاہ کے بارے میں خبر آئی کہ وہ مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کے لئے پَرتول رہا ہے ۔ آپ ﷺنے اُن کے خلاف جہاد اور نفیرِعام کا اعلان فرمایا ۔تیس ہزار کا لشکر تیار ہوگیا ،نبی ﷺ نے سوچا کہ حملہ آوروں کا دفاع عرب کی سرحد سے باہر کیا جائے تاکہ اندرونِ ملک امن میں کسی طرح کا خلل واقع نہ ہو۔(51) اُس زمانہ میں تبوک ،ایلہ وغیرہ کے علاقے شام کی حدود میں سمجھے جاتے تھے۔جو رومی شہنشاہیت کا حصہ خیال کئے جاتے تھے ۔وادی القریٰ تک کا علاقہ آپ ﷺغزوۂ خیبر میں فتح کرچکے تھے ۔ اِس سفر میں آپ ﷺتبوک تک پہنچ گئے۔قیصر روم تک ساری خبریں پہنچ رہی تھیں ۔اس نے غزوہ ٔموتہ میں مسلمانوں کی ایمانی قوت کا اندازہ لگالیا تھا۔اُس وقت تو مسلمان تین ہزار تھے اور لشکر کی کمان صحابہ ؓ کے پاس تھی ۔اب کی بار لشکر تیس ہزار اور قیادت اُن کے نبی ﷺ خود کررہے ہیں ۔ چنانچہ اُس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ کرسکا ۔
اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب اور روم کے درمیان جو نیوٹرل علاقہ تھا وہ سارا مسلمانوں کے کنٹرول میں آگیا۔اب اسلامی سلطنت کی حدود رومی سلطنت تک جاپہنچیں اور مسلمان اب رومی ریاست کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔بلادِ شام میں یہ پہلی اسلامی فتح تھی۔ جرباء ، اذرح،اہل مقنا اور ایلہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں شمار کی جاتی تھیں ۔ان کے حکمران اور باشندے خود حاضر ہوئے۔ جزیہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔آپ ﷺنے انہیں صلح نامہ لکھ دیا۔ جزیرۂ عرب کے شمال میں دومۃ الجندل نصرانی ریاست تھی ۔اس سفر میں اِس عیسائی سلطنت کا فرماں روا اکیدر بادشاہ بھی گرفتار ہوا،معاہدۂ صلح ہوااور جزیہ ادا کرکے وہ بھی اسلامی ریاست کا تابع ہوگیا۔
یوں اس سفر میں اسلامی سلطنت کا جغرافیہ وسیع ہوا اورجزیرہ عرب کے شمالی حصہ میں اسلام دشمنوں کا صفایا ہوگیا ۔ کچھ تو مسلمان ہوگئے اور کچھ نے جزیہ دے کر اسلامی سلطنت کی اطاعت تسلیم کرلی ۔آپ ﷺ کامیاب وبامراد واپس مدینہ منورہ تشریف لائے ۔یہ سیرت نبوی کا آخری غزوہ تھا۔
خلاصہ کلام
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے چند سالہ عرصہ میں بہت ہی کم نقصان کے ساتھ پورے جزیرۂ عرب میں توحیدکا پیغام پہنچایا ۔ مادی اور افرادی حیثیت سے کبھی بھی دشمن سے آگے نہ تھے ۔لیکن اپنی صلاحیتوں ،حکمتوں اور تدابیر کے ذریعے ہر موڑ پر غالب رہے ۔عربی باشندے تھے ۔خطہ کے نشیب وفراز سے واقف تھے،اس لئے زمین ،محل وقوع ،علاقہ اور موسم ہر چیز سے فائدہ اُٹھایا۔ نقشہ،جغرافیہ اور راستہ سب کچھ نظروں میں رکھ کر، معلومات لے کر پیش قدمی کرتے ،محفوظ انداز سے نکلتے ۔موزوں جگہ میں ٹھہرتے اورلڑائی وجنگ کے لئے مقام ومیدان کا انتخاب پہلے سے کرتے۔منصوبہ بندی اور پلاننگ سے اصحاب ؓ کو چلاتے۔ عربوں کے رائج طریقہ سے جنگیں لڑیں۔لیکن بہت سے معرکوں میں اس طرح کی حربی تدابیر اختیار کیں کہ مخالفین دم بخود رہ گئے ۔ اپنے سے کئی گنا زیادہ لشکر سامنے آیا لیکن جنگی وجغرافیائی حکمتوں سے دشمن کو بے بس کردیا۔دشمن کو غافل رکھالیکن خود کبھی دشمن سے غافل نہ رہے ۔
لڑائی میں فقط کُشت وقتل ہی مقصد نہیں ہوتا تھا ۔بلکہ ہر جگہ دشمن کو راستہ دیتے اور نکلنے کے مواقع فراہم کرتے۔فتح ہو یا پسپائی ،اوّل سے آخر تک اُصولی طریقے سے جنگ کرتے ۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہر جگہ مقدم رکھتے۔ قدرت کی نافرمانی پر شدید غصہ اور ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ یوں قلیل عرصہ میں جزیرۃ العرب فتح ہوگیا۔ رحلت کے بعد آپ ﷺکے اصحاب اور جانشینوں نے اُسی انداز اور تربیت سے آپ کے مشن اورپیغام کو گوشہ گوشہ پہنچانے کی جدوجہد کی ۔ یہاں تک کہ کرۂ ارض کے ہر کونے میں اسلام کا پیغام ِ امن وسلامتی پہنچ گیا۔
مراجع وحوالہ جات
۱۔ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی ،السنن الکبریٰ،باب ا ظہار دین النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی الادیان،دار الباز ،مکہ مکرمہ ، ۱۴۱۴ھ1994ء
۲۔ابن الأثیرأبو الحسن علی بن محمد الجزری،اسد الغابۃ،دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان،۱۴۱۷ھ 1996 ء ۶/۱۴۹
۳۔احمد بن حنبل ،مسند احمد ، مؤسسۃ قرطبہ القاہرہ، مسند سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رقم الحدیث ۱۵۳۹
۴۔ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،تراث الاسلام قاہرہ،۱/ ۵۹۵
۵۔احمد ابراہیم الشریف ،مکہ والمدینہ فی الجاہلیۃ وعہد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ،دار الفکر العربی ۱/۳۹۷
۶۔محمد بن یوسف الصالحی الشامی ،سبل الہدیٰ والرشاد ،وزارۃ الاوقاف مصر،۱۴۱۸ھ۔1997 ء ۔۴/۲۵
۷۔ایضاً۴/۲۹
۸۔محمد بن عمرو الواقدی، کتاب المغازی،عالم الکتب بیروت ۱/۷ ۱۹
۹۔سبل الہدی والرشاد فی ھدی خیر العباد۶/۵۱
۱۰۔ایضاً ۶/۲۱
۱۱۔ایضاً ۶/۲۳
۱۲۔ایضاً ۶/۲۵
۱۳۔ایضاً۴/۲۵
۱۴۔ایضاً۴/۲۷
۱۵۔ایضاً۴/۲۹
۱۶۔ایضاً ۶/۲۸بتلخیص
۱۷۔محمد حمید اللہ ڈاکٹر ،عہد نبوی کے میدان جنگ،ادارہ اسلامیات لاہور ،1982ء ص۳۰۔۳۱ ترمیم کے ساتھ
۱۸۔یوسف بن عبد البر النمری، الدرر فی اختصار المغازی والسیر،دار المعارف قاہرہ،۱۴۰۳ھ،ص ۱۰۲
۱۹۔صفی الرحمن مبارکپوری،الرحیق المختوم،المکتبۃ السلفیہ لاہور۱۴۱۶ھ۔1995 ء ،عنوان:غزوہ بدر کبریٰ ، تلخیص وترمیم کے ساتھ
۲۰۔محمد احمد باشمیل،موسوعۃ الغزات الکبریٰ ،غزوۃبدر الکبریٰ،المکتبۃ السلفیۃ القاہرہ،۱۴۰۵ھ۔1985ء ص ۱۲۵
۲۱۔عاتق بن غیث البلادی ،معجم معالم الحجاز ،دار مکۃ للنشر والتوزیع المکۃ المکرمۃ۔۱۴۳۱ھ2010 ء ۔ ۳/۶۴۳
۲۲۔ایضاً۳/۵۰۸
۲۳۔الرحیق المختوم ص۲۸۸
۲۴۔محمد صدیق قریشی پروفیسر،پیغمبر حکمت وبصیرت،الفیصل ناشران کتب لاہور،2005ء ص۲۷۹
۲۵۔ایضاًص۲۷۹
۲۶۔عبد الباری ایم اے،رسول کریم ؐ کی جنگی اسکیم۔الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور،1986 ء ،قدرے ترمیم وتلخیص کے ساتھ ص ۵۱ تا ۵۵
۲۷۔ایضاًص۶۵، ۶۶قدرے ترمیم وتلخیص کے ساتھ
۲۸۔الرحیق المختوم ص ۳۴۷
۲۹۔ایضاًص۳۴۸
۳۰۔ایضاً ص۳۴۹
۳۱۔عبد الحمید قادری، جستجوئے مدینہ،اورینٹل پبلی کیشنزلاہور،۱۴۲۸ھ،2007 ء ۔ص۲۷۰۔۲۷۱تلخیص وترمیم کے ساتھ
۳۲۔علی بن عبد اللہ بن احمد السمہودی،خلاصۃ الوفاء باخبار دار المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، المکتبۃ العلمیۃ المدینۃ المنورۃ، ۱۳۹۲ھ 1982ء ص۵۴۸
۳۳۔جستجوئے مدینہ ص۲۷۰۔۲۷۱تلخیص وترمیم کے ساتھ
۳۴۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی اسکیم ص۱۲۵
۳۵۔جستجوئے مدینہ ص۲۷۶
۳۶۔محمد احمد باشمیل،موسوعۃ الغزات الکبریٰ ،صلح الحدیبیہ،المکتبۃ السلفیۃ القاہرہ،۱۴۰۶ھ۔1986ء ص۱۲۶
۳۷۔ایضاًص۱۱۷
۳۸۔ایضاً ص۱۱۸
۳۹۔عمر رضا کحالہ ،معجم قبائل العرب،موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴۰۲ھ۔ 1982ء ۳/۸۸۸
۴۰۔الرحیق المختوم ص ۵۱۵
۴۱۔محمد احمد باشمیل،موسوعۃ الغزوات الکبریٰ غزوۃ خیبر،المکتبۃ السلفیۃ القاہرہ ص ۷۷
۴۲۔عبد الرحمن الطیب الانصاری ڈاکٹر ،خیبر الفتح الذی سُر بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،دار القوافل الریاض۱۴۲۷ھ۔2006ء ص۴۳،۴۴
یاقوت حموی ،معجم البلدان،دار صادر بیروت۱۳۹۸ھ،1977ء ،۳/۲۹…المغازی للواقدی۲/۶۴۵
۴۳۔سبل الہدی والرشاد ۵/۱۸۶
۴۴۔محمد کرم شاہ الازہری(پیر)،ضیاء النبی،ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور،۱۴۲۰ھ ۴/۲۲۶
۴۵۔موسوعۃ الغزوات الکبریٰ،غزوۃ خیبر ص۱۰۲
۴۶۔خیبر الفتح الذی سُر بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص۵۸
۴۷۔پیغمبر حکمت وبصیرت ص۲۸۲
۴۸۔محمد احمد باشمیل، موسوعۃ الغزوات الکبریٰ فتح مکہ،المکتبۃ السلفیۃ القاہرہ،۱۴۰۸ھ۔1988ء تلخیص وترمیم کے ساتھ
۴۹۔السیرۃ لابن ہشام۲/۴۴۳
۵۰۔ایضاً۲/۴۸۲
۵۱۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی اسکیم ص۲۲۰