Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 2 Issue 2 of The International Research Journal Department of Usooluddin

قرآن کریم میں مذکورہ انبیا ء کرام کے واقعات سراغ رسانی |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060030112_1082

Pages

20-34

PDF URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/download/22/21

Chapter URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/view/22

Subjects

Intelligence System in Islam Qur’anic mode of Intelligence Arab Intelligence system Intelligence System in Islam Qur’anic mode of Intelligence Arab Intelligence system.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قرآنِ کریم میں مذکورہ انبیا ء کرامؑ کے واقعاتِ سراغ رسانی


Investigative Incidences Of The Prophets Narrated In Quran

 

ناصر مجید ملک (وینگ کمانڈر، پاکستان ایٔر فورس)


عزيزالرحمن سيفى (شعبہ عربی، جامعہ كراچی)


حافظ منیر احمد خان (ڈین، كليہ معارف اسلاميہ، سندھ يونيورسٹی، جامشورو)


عبید احمد خان (چئيرمين، شعبہ اصول الدين، جامعہ كراچی)

 

ABSTRACT

Intelligence system is considered to be one of the important tools used by military and civil secret agencies to defend and strengthen a nation. Intelligence system is thought to be one of the oldest studies of known history. Intelligence system consists of correct and accurate information, gathered after great struggle and facing difficulties. This department is related to both peace and war. Intelligence is a basis of formulating all military strategies and plans. The importance of Intelligence system both in day to day life and as a nation cannot be overemphasized. This article narrates the history of espionage, which is as old as the history of mankind itself. Five thousand years ago, the Egyptians has a well-organized secret service. In the ancient western country, it was called as; hakim’, in Spain (Undles) as ‘Sahib al Madina’, in Tunis as ‘Ray’ and in Iran the as “Areef”. Nowadays it is known as ‘Muqadama-Tul-Haaraat’, Salaf-Us-Saliheen calls its “Shurtaa” and some calls it as ‘Sahib al-us-us’ as they use to move throughout the night to look for anti-state elements. The first ever victim of intelligence warfare was Hazrat Adam (A) where Satan revolt against him. Similarly, the incident of Hazrat Yousaf (A) is the indication of old age practice of espionage. Due to jealousy, his brothers sold him as slave and told their father that he has been eaten alive by a wolf. Hazrat Musa (A) had his network of espionage. Even birds had been used for spying, like in the case of Hazrat Suleman (A) where he was informed by the hopp bird about the Queen of Saba. The study of the Bible reveals that instead of Hazrat Eessa (A) , Yehuda Skruti was crucified but still nobody knows for sure that whether he was a true follower of the Jesus or was an implanted agent of the Romans Intelligence Agency. Anyhow, Bible declared him as a Roman spy. The ongoing tribal wars in ancient Arabs further emphasized this activity. The rest of the world had already well developed intelligence system. But in Arab, it was in its development phase and it was the Holy Prophet (PBUH) who got it from his ancestors and developed it. In addition to the intelligence systems of the early prophets, the relevant events in the realm of Nijashi of Habsha and Alexander the Great, have been narrated in this article.

 

Keywords: Intelligence System in Islam, Qur’anic mode of Intelligence, Arab Intelligence system.


جاسوسی کا علم خفیہ علوم میں سے ہے۔جاسوسی درست اور مصدقہ معلومات کا نام ہے جن کا حصول عمومی طور پرسخت جدوجہد اورکوشش کے بغیر نا ممکن ہے۔سراغ رسانی کوعربی میں استخبارات کہا جاتا ہے، جبکہ یہ انگریزی لفظ انٹیلی جنس کا مترادف ہے۔ ہرمملکت کواندرونی امن یا بیرونی خطرات سے نمٹنے کےلئے قبل ازوقت آگاہی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔استخبارات انسانی تاریخ کا قدیم ترین پیشہ ہے، تہذیب انسانی کے ہر دور میں اس کا استعمال ہوتا رہا۔کبھی اسےدشمن سے بچاؤ کی خاطر استعمال کیا جاتا رہا اورکبھی دوسروں کو شکست دینے اور ان کا مال و املاک غصب کرنے کےلئے بروئےکار لایا جاتا رہا ۔ انسانی سوچ و فکر کو متاثر کرنے اور اس کے اعمال اور افعال کومطلوبہ رُخ دینا بھی استخباراتی حربوں میں شامل رہا ہے۔ استخبارات کے ذریعےدشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا کام بھی لیا جاتا رہا۔لیکن اس تمام تفسیر و تفصیل کے باوجود استخبارات کوسمجھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ماہرینِ آثار قدیمہ نےشام میں کھدائی کے دوران ایسی تختیاںبرآمد کی ہیں جو اٹھارویں صدی قبل مسیح کی ہیں۔ ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شہری حکومت کا حکمران اپنے کسی دوسرے ہم منصب سے اس بات پرشاکی ہے کہ اس نے تو اپنے ہمعصرحکمران کے جاسوسوں کو تاوان کی ادائیگی کے وعدے پر رہا کر دیا ہے۔لیکن دوسرے نے ابھی تک تاوان ادا نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جاسوسوں کا استعمال زمانہ قدیم سے جاری ہے اور حکومتیں اپنے مقاصد کے لئے ان کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا کرتی تھیں۔ اس سے سراغ رسانی کی بطور پیشہ قدامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ (1)

 

سراغ رسانی کا قدیم نام

ملک مغرب قدیم میں اس کو"حاکم" اندلس میں"صاحب المدینہ"، تیونس، رے اور ایران میں گشتی پولیس کو "عریف" کہا جاتا تھا۔ آج کل اس کو"مقدمتہ الحارات" کہا جاتا ہے۔ سلف صالحین اس کو"شرطہ" کہتے ہیں اور بعض اسے"صاحب العسعس" کہا کرتے تھے یعنی جرائم پیشہ لوگوں کو تلاش کرنے کے لئے یہ رات میں گشت کیا کرتے تھے۔جاسوسی بحیثیت فن اسلام سے پہلے بھی مختلف اقوام و ملل میں رائج رہا ہے۔ ذیل میں ابتداء تاریخ سے سراغ رسانی کی قدامت کا ثبوت پیش کرنے کی سعی کی جائے گی۔

 

عہدِ آدمؑ

کہا جاتا ہے کہ استخباراتی جنگ کا سب سے پہلا شکار انسانیت کے جد امجدحضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ اماں حوا علیہا السلام تھیں۔شیطان نے اپنی باغیانہ روش کے تحت رحمان کے خلاف جو پہلی مہم جوئی کی وہ رحمان کی محبوب تخلیق انسان کو ذہنی پراگندگی میں مبتلا کر کے کی۔ قرآن مجید میں اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ اب العالمین فرماتے ہیں:


فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَانُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وُورِیَ عَنْہُمَا مِن سَوْءَ اتِہِمَا وَقَالَ مَا نَہَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ إِلاَّ أَن تَکُونَا مَلَکَیْْنِ أَوْ تَکُونَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ۔ وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ۔ فَدَلاَّہُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْءَ اتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْْہِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّۃِ وَنَادَاہُمَا رَبُّہُمَا أَلَمْ أَنْہَکُمَا عَن تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَأَقُل لَّکُمَا إِنَّ الشَّیْْطَآنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔ قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ قَالَ اہْبِطُواْ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِیْ الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍ۔ قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوتُونَ وَمِنْہَا تُخْرَجُون (2)


"پھرشیطان نے اُن کو بہکایا تا کہ اُن کی شرمگاہیں ایک دوسرے سے چھُپائی گئی تھیں، اُن کے سامنے کھول دے۔ اس نے ان سے کہا تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ اور اس نے اُن سے قسم کھا کر کہا کہ وہ ان کا سچا خیر خواہ ہے۔ اس طرح دھوکہ دے کر وہ اُن کو رفتہ رفتہ اپنی ڈھب پر لے آیا۔ آخر کار جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھ لیا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے۔ تب اُن کے رب نے انہیں پُکارا، کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا۔ اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھُلا دشمن ہے۔ دونوں بول اُٹھے اے رب! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تم نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہو جائیں گے۔ فرمایا اُتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین میں ہی جائے قرار ہے اور سامانِ زیست ہے۔ اور فرمایا! وہیں تم کو جینا اور وہیں تم کو مرنا ہے اور اس میں سے تم کو آخر کار نکالا جائے گا۔"


اگر اسی واقعہ کو بائبل میں مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا تو جنت میں داخلہ ممنوع تھا لہٰذااس نے اپنے سہولت کار سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں داخل ہوا۔ دھوکا دہی اور غلط بیانی سے باوا آدم اور بی بی حوا کو ورغلانے میں کامیاب ہوا۔ (3) ایک اور واقعہ حضرت آدمؑ کا اسرائیلیات میں مذکور ہے کہ حضرت آدم ؑ نے قبل از مرگ اپنے صاحبزادے حضرت شیث ؑ کو بلایا اور ان سے خداوند تعالیٰ کی اطاعت کا وعدہ لیا۔ دن اور رات کے اوقاتِ بندگی انہیں بتلائے اور عبادت میں دوام کا وعدہ لیا۔ عبادت رب کی اہمیت اور ا س سے روگردانی کے نقصانات سمجھائے۔ پھر ایک کتاب وصیت تیار کروائی۔چنانچہالجوزی فرماتے ہیں:


"حضرت آدم علیہ السلام گیارہ دن بیمار رہے۔ بیماری کے دوران کتاب وصیت حضرت شیث علیہ السلام کو تفویض فرمائی اورتاکیداً کہا اس کتاب کو قابیل سے مخفی رکھا جائے۔ چنانچہ حضرت شیث علیہ السلام نے بمطابق وصیت کی۔ اس کتاب کو نہ صرف یہ کہ قابیل سے مخفی رکھا بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا کہیں تذکرہ تک نہ کیا۔ شیث علیہ السلام خود اور ان کی اولاد اس کتاب وصیت سے مستفید ہوتے رہے جبکہ قابیل اور اس کی اولاد اس سعادت سے محروم رہے۔" (4)


مندرجہ بالا واقعہ سے ذیل کے نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:


۱۔ دشمن ہمیشہ نقصان پہنچانے کیلئے ایک ہمدرد، ناصح اور خیرخواہ کا روپ دھار کے آتا ہے، جیسا کہ شیطان نے حضرت آدمؑ کیلئے کیا۔اس لئے فی زمانہ ہمیں ضرورت سے زیادہ ہمدرد، خیرخواہ اورناصح کے روئیےکےبارےمیں ایک بارٹھنڈے دل ودماغ سے غورکرنے کی لازمی ضرورت ہے۔تاکہ آستین کے سانپوں سے نقصان پہنچنے سے پہلے خبردار ہوکر اس کی چالوں کا تدارد کرسکیں۔


۲۔ دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے آسان ہدف کی تلاش میں رہتا ہے جس کو وہ باآسانی استعمال کرکے اپنے مقصد کو پاسکے، جیسا کہ شیطان نے پہلےآدمؑ کو بہکانے کی کوشش کی، ان سے مایوس ہوکرحواءؑ کی طرف مائل ہوا جوبوجہ فطری کمزوریوں کے اس کی مسلسل چکنی چپڑی باتوں میں آگئیں۔اس لئے کبھی بھی دشمن کی رسائی اپنے آسان ہدف تک نہ ہونے دیں۔


۳۔ دشمن اپنے ایجنٹوں کے توسط سے ہمارے اندرنفوذ کرنے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کرے گا تاکہ اس کی رسائی ہم تک ممکن ہو اور اس کواپنے ہتھکنڈے آزمانے کا بھرپور موقع مل سکے، جیسا کہ شیطان اپنے ایجنٹ سانپ کے منہ میں بیٹھ کرجنت میں داخل ہوا۔ یہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ دشمن کے داخلے کے تمام راستوں کی مکمل اورناقابلِ تسخیرنگرانی کی جائے۔


۴۔ غلطی کے مرتکب ہونے کے بعدشیطان کی طرح ہٹ دھرم ہونے کے بجائے حضرت آدمؑ و حواءؑ کی طرح تائب ہوکر اس کی اصلاح کی جائے۔ایک جاسوس کواپنی غلطی چھپانے کے بجائے اس سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ اپنا احتساب کرکے کرنا چاہئے۔


۵۔ اپنے بعدمناسب لوگوں کی تربیت اور رہنمائی کرنا تاکہ وہ بعدمیں کارآمدبن سکیں اورخلا پیدا نہ ہونے پائے جیسا کہ حضرت آدمؐؐؐنے اپنے بیٹے شیث ؑ کی تربیت فرمائی۔نیزاپنے راز غیر متعلقہ اشخاص پر ظاہرنہیں کرنے چاہئے تاکہ وہ کسی بھی موقع پر آپ کو نقصان نہ پہنچا سکے۔جیسا کہ حضرت آدمؑ کی ہدایت کے مطابق شیث ؑنے قابیل سے وصیت کو مخفی رکھا۔ (5)

 

عہدِ یعقوبی

قرآن کے ایک اور واقعہ سے بھی جاسوسی کی قدامت کا علم ہوتاہے۔وہ واقعہ یہ ہے کہ برادران یوسفؑ نے حسد کا شکار ہوکر یوسفؑ کو فرخت کر دیااور اپنے والد یعقوب ؑ کو بتایا کہ اسے بھیڑیا کھا گیا ہے۔خدا کاکرنا یہ ہواکہ یوسفؑ بادشاہِ مصر کے مصاحب خاص اور وزیرخزانہ مقرر ہو گئے، کچھ عرصہ بعد قحط پڑا تو اردگرد کے ممالک سے لوگ غلہ کی امداد لینے مصر آئے۔ حضرت یو سف ؑ نے اپنے بھائیوں بالخصوص اپنے سگے چھوٹے بھائی بنیامین کو پہچان کر ایک حیلہ کے ذریعے روک لیا۔دیگر براداران حضرت یوسف ؑ کو نہ پہچان سکے۔جب وہ بنیامین کے بغیر حضرت یعقوب ؑ کے پاس واپس پہنچے تو حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا:


یبنی اذھبوافتحسسوا من یوسف وأخیہ ولا تایئسوا من روح اﷲ (6)


"اے میرے بیٹو!ایک دفعہ پھر (مصر) جاؤ، یوسف اور ان کے بھائی بنیامین کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔"


مندرجہ بالا واقعہ سے ذیل کے نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:


۱۔ یہاں"تحسسوا" کا لفظ استعمال ہوا ہے۔یعنی اپنی حس کا استعمال کرتے ہوئے، جس طرح جاسوس اپنے کو نمایاں کئے بغیر صحیح معلومات حاصل کرتا ہے۔اسی طرح تم بھی صحیح معلومات حاصل کرکے دونوں بھائیوں کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کرکے اپنے خلوص کاعملی اظہار کرو، کوشش کرنا تمہارا کام ہے، کامیابی دلانا اﷲکا کام ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جاسوس کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ اپنی جانب سے پوری کوشش کرے اور اﷲسے کامیابی کی امید رکھے تو وہ یقیناًاپنے ہدف کو حاصل کرلے گا۔


۲۔ برادران یوسف ؑنے معلومات کے ذریعے اندازہ لگا لیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسفؑ سے سوال کرتے ہوئے برادران جواباًسوال کر بیٹھے، کیا آپ ہی یوسف ؑ ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ وہ اپنی جاسوسی کے ذریعے دونوں بھائیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرچکے تھے۔صرف شک تھا وہ بھی سوال کے ذریعہ دور کر لیا۔


۳۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اپنے کام میں مخلص ہونا چاہئے۔


۴۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ جاسوس کو ایک راستہ بند ہونے کی صورت میں دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہئے، مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ مایوسی مسلمان کی نہیں بلکہ کافر کی صفت ہے۔


۵۔ جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے کہ جاسوسی حواس خمسہ سے کی جاتی ہے۔یہاں اس سے معلوم ہوتا ہے، جاسوس وہ ہے جو حواس خمسہ سے مدد حاصل کرے۔


۶۔ حضرت یعقوبؑ نے جملہ برادران یوسفؑ کو جملہ معلومات حاصل کرنے کا حکم دیا۔تاکہ مختلف بھائیوں کی حاصل کردہ معلومات جدا جدا طریقوں اور ذریعوں سے حاصل ہوگی تو کسی نتیجہ پر پہنچنا آسان ہوگا۔


۷۔ حضرت یعقوب ؑنے برادران یوسفؑ کوبھیجتے ہوئے یہ بھی تاکید کی تھی کہ شہر میں الگ الگ راستوں اور دروازوں سے داخل ہونا سب ایک ساتھ ایک ہی دروازہ سے شہر میں داخل نہ ہونا۔آج بھی جاسوسوں کو مختلف راستوں اور طریقوں سے دوسرے کے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔


قصہ یوسف ؑمیں استخباراتی معاملات پر کافی بحث ہوئی ہے۔چنانچہ سب سے پہلے جس نکتہ پرگفتگو ہوتی ہے، وہ کتمانِ راز کے بارے میں ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹے کا خواب سُن کر فرماتے ہیں:


قَالَ یَا بُنَیَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلَی إِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُواْ لَکَ کَیْ د اً (7)


"بیٹا! اپنا یہ خواب بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے دَر پے آزاد ہو جائیں گے۔"


حضرت یعقوب ؑ جانتے تھے کہ وہ اس سے حسد رکھتے تھےاور اگر اُن کو اِس خواب کی بابت پتہ چل گیا تو وہ حضرت یوسف ؑ کو نقصان پہنچائیں گے۔دوسری بات یہ تھی کہ یوسف ؑ ایک صالح کردار کے مالک نوجوان تھے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے بھائیوں کو اُن کے کرتوتوں پر روکتے اور ٹوکتے رہتے تھے۔ بلکہ اُن کے کرتوتوں کی اطلاع حضرت یعقوبؑ کو بھی دیتے رہتے تھے۔ یہ لوگ حضرت یوسف ؑ سے کافی نالاں تھے، چنانچہ حضرت یعقوب ؑ کے خدشات درست تھے اور اُنہوں نے اپنے بیٹے کو کتمانِ راز کا حکم دے دیا۔ (8)


جب حضرت یوسفؑ مصر میں متمکن ہوئے اور ارد گرد کے علاقوں میں قحط سالی کی کیفیت پیدا ہوگئی اورمصر میں غلہ کی فراوانی تھی۔ لوگ ہر طرف سے مصر میں غلہ لینے کے لیے آنے لگے۔ ایسے میں حضرت یعقوبؑ کے دس بیٹے بھی غلہ لینے کے لیے مصر میں وارد ہوئے۔ وہ اپنے بھائی یوسفؑ کو بھول چکے تھے، اُن کے خیال میں وہ مرکھپ گئے تھے۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یوسفؑ سریر آرائے سلطنت ہوں گے، چنانچہ اُن کے غیرمتوقع راستوں سے مصر میں داخلے کے وقت مصر کے سرکاری دستوں نے اُن کو شک میں گرفتار کر لیا، اُن کو یوسفؑ نے پہچان لیا اور اُن سے جو مکالمہ ہوا۔ بائبل کی زبان میں کچھ اس طرح ہے:


"یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا تھا، پر اُنہوں نے اسے نہ پہچانا۔ اور یوسف ؑ نے اُن خوابوں کو جو اس نے اُن کی بابت دیکھے تھے، یاد کر کے اُن سے کہا کہ تم جاسوس ہو، تم آئے ہو کہ اس ملک کی بری حالت دریافت کرو۔ انہوں نے اس سے کہا: نہیں خداوند تیرے غلام اناج مول لینے آئے ہیں، ہم ایک ہی شخص کے بیٹے ہیں، تیرے غلام جاسوس نہیں ہیں۔اس نے کہا: نہیں تم اس ملک کی بری حالت معلوم کرنے آئے ہو۔ تب انہوں نے کہا: تیرے غلام بارہ بھائی ایک شخص کے بیٹے ہیں جو ملک کنعان میں ہے۔ سب سے چھوٹا ہمارے باپ کے پاس ہے اور ایک کا کچھ پتہ نہیں۔ تب یوسف ؑ نے کہا: میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ تم جاسوس ہو۔" (9)


قرآن کریم میں اس واقعے کی طرف اس طرح آیا ہے:


وَجَآءَ اِخْوَۃُ یُوْسُفَ قَدخَلُوا عَلَیہ فعَرَفَہُم وَہُم لَہ‘مُنْکِرُوْن (10)


" اور یوسف کے بھائی اس کے پاس آئے۔ اس نے ان کو پہچان لیا۔ لیکن وہ اسے نہ پہچان پائے۔"

 

عہدِ موسوی

روایاتِ تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی ؑ نے بھی اپنا جاسوسی کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا حتیٰ کہ بعض اوقات پرندوں سے بھی جاسوسی کا کام لیا جاتا تھا۔جیساکہ یہ اقتباس ملتا ہے:


"کہا جاتا ہے کہ شاہ ٹٹماس سوم کے عہد میں تھیوٹ نامی ایک کپتان نے اپنےجاسوسوں کی مدد سے جافہ نامی شہر میں کوئی دو سو کے لگ بھگ مسلح سپاہی داخل کئے۔اس نے ان کو آٹے کے تھیلوں میں بند کیا اور شہر کوجانے والی رسد کے ساتھ بھیج دیا۔حضرت موسی ؑنے بھی جاسوسی کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا۔ایک روایت کے مطابق حضرت موسیؑ نے علاقے میں جاسوسی کیلئے مختلف مہمات روانہ کیں جس کے ذریعہ عالمی خبریں حاصل کرتے اور خبروں کے حصول کیلئے پرندوں سے بھی کام لیا جاتا تھا۔" (11)


اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی پیدائش پر حکم دیا کہ انہیں دریائے نیل میں بکس میں بند کرکے ڈال دو۔حضرت موسی ؑ کی والدہ نے ایسا ہی کیاجیسا کہ قرآن میں مذکور ہے:


فبصرت بہ عن جنب وھم لا یشعرونِ و حرمنا علیہ المراضع من قبل فقالت ھل ادلکم علیٰ ٰاھل بیت یکفلونہ لکم و ھم لہ نصحون۔ فرددنہ الیٰ امہ کی تقر عینھا ولا تحزن۔۔۔۔الخ (12)


"حضرت موسی ؑ کی والدہ نے اپنی بیٹی (جس کا نام مریم بنت عمران یا کلثومہ تھا) کو حکم دیا یہ صندوق جہاں بہتا جائے تم بھی اسکو دیکھتی جاؤ۔ تو کلثومہ اسے (خفیہ) انداز میں اسے دیکھتی جارھی تھی کہ لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ یہ اس بکس کا تعاقب کر رہی ہے۔جب بکس فرعون کے محل کے پاس سے گذرا تو اسکے لوگوں نے اسے نکالا۔اسکی بیوی آسیہؑ نے کہا: میں تو اسے پالوں گی، یہ قتل نہیں ھوگا۔"


مولانا نعیم مرادآبادی"خزائن العرفان فی تفسیرالقرآن"میں اس آیت کے ذیل میں بیان کرتے ہیں:


"چنانچہ جس قدر دائیاں حاضر کی گئیں ان میں سے کسی کی چھاتی آپ نے منہ میں نہ لی ۔اس سے ان لوگوں کو بہت فکر ہوئی کہ کہیں سے کوئی ایسی دائی میسرآئے۔ جس کا دودھ آپ پی لیں۔ دائیوں کے ساتھ آپ کی ہمشیرہ بھی یہ دیکھنے چلی گئی تھیں، اب انہوں نے موقع پایا۔چنانچہ موسی ؑ کی بہن کلثومہ نے کہا: کیا میں تمہیں ایسے دودھ پلانے والی کا پتا نہ بتاؤں؟جو اسے پالے اور اچھی پرورش کرلے۔ انہوں نے اس بات کو مان لیا ۔لہذا ان کی خواہش پران کی بہن اپنی والدہ کو بلا لائیں۔حضرت موسیؑ فرعون کی گود میں تھے اور وہ دودھ کیلئے روتے تھے۔فرعون آپ ؑ کوشفقت کے ساتھ بہلاتا تھا۔


جب آپ ؑ کی والدہ آئیں اور آپ ؑ نے اپنی والدہ کی خوشبو پائی تو آپؑ کو قرار آیااور آپؑ نے ان کا دودھ پیا۔فرعون نے کہا: تو اس بچہ کی کون ہے؟کہ اس نے تیرے سوا کسی کے دودھ کو منہ بھی نہ لگایا۔ان کی والدہ نے کہا: میں ایک عورت ہوں، پاک صاف رہتی ہوں۔ میرا دودھ خوشگوار ہے، جسم خوشبودار ہے، اسلئے جن بچوں کے مزاج میں نفاست ہوتی ہے وہ دوسروں کا دودھ نہیں لیتے ہیں، میرا دودھ پی لیتے ہیں۔فرعون نے بچہ انہیں دیا اور دودھ پلانے پر ان کو مقرر کرکے فرزند کو اپنے گھر لیجانے کی اجازت دی۔چنانچہ آپ ؑبچے کو اپنے مکان پر لے آئیں اور اﷲتعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا۔اس طرح ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور وہ غمگین نہ رہیں۔ اس وقت انہیں اطمینان کامل ہوگیا کہ یہ نبی ہیں۔" (13)

 

عہدِ سلیمانی

حضرت سلیمانؑ کو"ھدھد"کاملکہ سبا ء کی خبردینے کا واقعہ قرآن کی سورہ نمل میں آیا ہے۔جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:


وَتَفَقدالطیرَفقالَ مالِیَ لآ اٰریٰ الھدھد اَم کانِ من الغائبینۤ لاُعذبنہٗ عذاباَ شدیداَ اولاَذبحنہٗ ٓ اولَیاَتینی بسلطٰنِ مبینّ۔ فمکث غیرَ بعید فقال احطت بما لم تحط بہٖ وجئتکَ من سبَاء بنباءِ یقین انی وجدتُ امراۃَ تملکھم واوتیت من کل شئیءِ ولھا عرش عظیمّ۔ وجدتھا وقومھا یسجدون للشمسِ من دون اﷲوزینَ لھم الشیطٰن اعمالھم فصدھم عن السبیل فھم لا یھتدون (14)


"اور (حضرت سلیمانؑ) نے پرندوں کا جائزہ لیا تو بولا مجھے کیا ہوا کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا یا وہ واقعی حاضر نہیں ضرور میں اسے سخت عذاب میں کروں گا یا ذبخ کردوں گا یا کوئی روشن سند میرے پاس لائےّتوہدہد کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہرا اورآکر عرض کی کہ میں باتدیکھ آیا ہوں جو حضورنے نہ دیکھی اور میں شہر سبا سےحضورکے پاس ایک یقینی خبرلایا ہوںمیں نے ایک عورت دیکھی کہ ان پر بادشاہی کررہی ہےاور اسے ہر چیزمیں سے ملاہے اور اس کا بڑا تخت ہےمیں نے اس قوم کو پایا کہ اﷲکو چھوڑ کرسورج کو سجدہ کرتے ہیں اورشیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہ میں سنوار کر ان کو سیدھی راہ سے روک دیا تو وہ راہ نہیں پاتے۔"


مندرجہ بالا واقعہ سے ذیل کے نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:


۱۔ کمانڈرکو اپنے تمام ایجنٹوں کےحالات اورجائے پناہ کےبارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئے جیسا کہ حضرت سلیمان ؑ نے اپنے دربار کے شروع میں تمام لوگوں کا جائزہ لیاتو ہد ہد کو غیر حاضر پایا۔تو فوراًاس کی انکوائری کی۔


۲۔ کمانڈرکو اپنے ایجنٹوں کوان کی کوتاہیوں پرمکمل گرفت کرنے کی مکمل آزادی اور اختیارحاصل ہونا چاہئے تاکہ ان کے اندر ڈسپلن پیدا ہو۔


۳۔ جاسوس کو ہمیشہ بے لاگ ہونا چاہئے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے سینئر کی عزت و توقیر کا خیال نہ رکھیں۔


۴۔ جاسوس کو ہمیشہ پکی اور یقینی خبر کی تلاش کرنی چاہئے جس کا کمانڈر کو مکمل طور یا جزوی طورپر علم نہ ہوجیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان ؑسے کہا کہ میں ایک ایسی یقینی خبر لایا ہوں جو انہیں معلوم نہیں۔


۵۔ جاسوس کو اتنا سمجھدار اورذہین ہونا چاہئے کہ وہ حاصل شدہ معلومات کا بے لاگ تجزیہ کرسکےجیسا کہ ہدہد نے قوم سبا کا سورج کی پرستش کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیااور ان کا ایک اﷲکی عبادت نہ کرنے پر حیرانی کا اظہارکیا۔


۶۔ جاسوس کو اپنے سامنے ہونے والے عمل کے پیچھے کارفرما ہاتھوں کی بھی سوجھ بوجھ ہونی چاہئے جیسا کہ ہد ہد نے بیان کیا کہ قوم سبا کا ایک اﷲکی عبادت نہ کرنے میں شیطان لعین کے اوچھے ہتھکنڈوں کاعمل دخل ہے جس نے ان کو سیدہی راہ سے بہکا دیا ہے۔

 

عہدِ عیسوی

بائبل کے مطالعہ سے مطالعہ معلوم ہوتا ہے:


"جس شخص کو حضرت عیسیٰؑ کی جگہ سولی دے دی گئی تھی اس کا نام یہودہ اسکریوتی تھا۔آج تک اس بارے میں غیرجانبدارانہ تحقیق نہیں ہو سکی کہ وہ واقعی حضرت عیسیٰؑ کا حواری تھا یا رومن استخبارات کا رکن تھا نیز وہ ایسا حواری تھا جو رومن استخباراتی اداروں کے ہاتھوں بک گیا تھایا اسے عیسیٰؑ کے حواریوں میں داخل کیا گیا تھا۔بہر کیف بائبل نے اسے رومیوں کا جاسوس گردانا ہے۔ وہ عیسیٰ ؑکے حواریوں میں شامل ہو کر انتہائی اندرونی دائرہ کے حواریوں میں شامل ہو گیا تاکہ ان پر نظر رکھی جائے۔ رومیوں کو نزاریوں سے بغاوت کا کھٹکا تھا۔ لہٰذا رومی استخبارات کے افسر اعلیٰ تبری آسTiberiousنے یہودہ سکریوتی کو اس کام پر لگا دیا۔ اس کہانی کا انجام حضرت عیسیٰؑ کی گرفتاری اور حضرت عیسیٰؑ کے مصلوب ہونے پر منتج ہوا۔" (15)


یاد رہے کہ اسلام اور قرآن اس بات کوتسلیم نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کیا گیا تھا بلکہ قرآن کی رو سے وہ زندہ ہیں اور زندہ حالت میں انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا۔

 

عہدِ جا ہلیت

ماقبل کی بحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ سراغ رسانی کا فن زمانہ قدیم سے شروع ہوچکاتھا۔ یہ فن قبائلی معاشرے میں پروان چڑھا۔ مطلق العنان حکومتوں ہی میں ترقی کرتے کرتے استخبارات ایک منظم فن کی شکل اختیار کر گیاتھا۔عرب میں قبائلی لڑائیوں اور لمبی دشمنیوں نے اس فن کی اہمیت کو اوربھی اجاگر کردیا تھا۔ اہلِ مکہ کو دشمنوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ بھی رہتا تھا، انہوں نے بھی ایک ایسا استخباراتی نظام بنا رکھا تھا جو ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا اگر چہ وہ نظام خام تھا ۔ مثلاً قرآن مجید اس بات کی تائید کرتا ہے کہ یہ لوگ صبح دم بے خبر دشمنوں پر حملہ آور ہوتے تھے ۔سورۃ عادیات میں ہے: "فالمغیرات صبحا" (16)


اس طرح بیعت عقبہ کے واقعے پر غور فرمائیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اہل مکہ کا استخباراتی نظام تھا۔ نیز حضور ﷺکا مسلسل تعاقب کیا جاتا تھا۔اگر ہم اس واقعے پر غور فرمائیں جس میں نبی کریم ﷺنے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ ہجرت کا ارادہ فرمایا اور حضرت علیؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور حضرت علی ؓ نبی کریم ﷺکے بستر پر لیٹے رہے۔یہ واقعہ بھی سراسر اہلِ مکہ کے استخباراتی نظام کی چغلی کھاتا ہے ۔


ایک طرف اہل مکہ کا نظام استخبارات تھا جو کہ مسلمانوں کے خلاف یہود اور منافقین مدینہ کے تعاون سے کام کررہا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺکی صفت نبی ملحمہ ہے نیز آپ ﷺپر جہاد فرض کردیا گیا تھا، ایسے میں اس اہم شعبہ استخبارات کے بارے میں پیش رفت نہ کرناکیسے ممکن ہوسکتا ہے۔آپ ﷺنے اس جانب خصوصی توجہ فرمائی، ڈاکٹر حمیداللہ صاحب فرماتے ہیں:


"اسلامی مملکت کے شعبہ اطلاعات و معلومات کو خصوصی طور پر فعال بنایا گیا۔ اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک نامہ نگاروں کا تقرر کیا گیا جو کہ مکہ مکرمہ، نجد، طائف اور کئی دوسرے مقامات کے اسلام کے زیراثر آنے سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ ﷺکو اطلاعات اور معلومات فراہم کرتے رہتے تھے۔" (17)

 

حبشہ کے نجاشی

جب قریش کے مظالم ان گنت ہو گئے توآپﷺنے عام مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا ۔اس پر مسلمانوں نے حبشہ کی جانب اسلام کی پہلی ہجرت کی۔حبشی کے بادشاہ"نجاشی"نے مسلمانوں کو حبشہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔ قریشِ مکہ کو یہ ہرگز گوارہ نہ ہواکہ مسلمان ان کے چنگل سے آزاد ہوکر امن و سکون کا سانس لیں۔چنانچہ انہوں نے نجاشی کے دربار میں اپنے نمائندے بھیجے تاکہ مسلمانوں کو واپس لاکر ان پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جائے۔لیکن نجاشی نے مکمل تفتیش کی اور اس تفتیش کے ذریعے وہ معاملہ کی اصل حقیقت تک پہنچ گیا۔اس پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ حق پر کون ہے؟دونوں گروہوں کا نقطہ نظر سننے کے بعد فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کیا۔

 

سکندرِ اعظم و چنگیز خان

دارا نے سکندرِاعظم کے مقابلے میں محض اس لئے شکست اُٹھائی کہ اس کا جاسوسی کا کوئی نظام نہ تھا اور اسکے خلاف جاسوسوں کی مدد سے محض ایک دستے نے ہی پیش قدمی کرکے اسے شکست سے ہمکنارکردیا۔جبکہ چنگیزخاں کی مسلمانوں کے خلاف کامیابیوں کی ایک اہم وجہ جاسوسوں کا مؤثراستعمال تھا۔سنکدرِ اعظم کی کامیابی کی وجہ لکھتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں:


"سکندرِ اعظم جب ایشیاء فتح کرنے کی مہم پر یونان سے نکلا تو اس کے محکمہ استخبارات نے اسے اطلاع دی کہ یونانی افواج اور اتحادی دستوں میں روز افزوں بیقراری اور لا تعلقی کے آثار ہویدا ہیں۔ استخباراتی ادارے کی رائے کےمطابق سکندر نے اسی وقت اپنی ماتحت افسروں کو ایک گشتی مراسلہ جاری کیا۔جس کی رو سے اگلے دو دن لشکر غیرمتحرک ہونا تھا۔ پڑاؤ سے یونان کو ایک دستہ ڈاک لے کر روانہ ہونا تھا۔ جس کسی نے اپنے اہل و عیال کو خطوط ارسال کرنے تھے، دوسرے دن شام تک مرکزی دفتر اپنے ارسال کرنے والے خطوط پہنچانے کا ذمہ دار تھا۔ اگلے دن سینکڑوں خطوط کے ساتھ یہ قافلہ روانہ ہوا۔ لیکن ڈاک اور قافلہ یونان نہیں پہنچ سکا۔ کیونکہ دو منزلوں کے فاصلے پر سکندر نے ایک سینسر سنٹر قائم کر دیا تھا۔ تمام ڈاک کو پڑھا گیا۔ لوگوں کے تاثرات، آراء اور تجاویز کا بغور جائزہ لیا گیا اور ان کی روشنی میں لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ چند دنوں کے بعد جب یہ افواج اپنے مقصد کے لیے روانہ ہوئیں تو کوئی بے قراری نہیں تھی۔ اور فوجی دستے سکندر کے ساتھ شانہ بشانہ رواں دواں تھے۔" (18)


کتاب "رسول اکرم ﷺکا نظام جاسوسی"میں پروفیسر محمد صدیق قریشی جاسوسی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


"دارا نے سکندراعظم کے مقابلے میں محض اس لئے شکست اُٹھائی کہ اس کا جاسوسی کا کوئی نظام نہ تھااور اسکے خلاف محض ایک دستے نے ہی پیش قدمی کرکے اسے شکست سے ہمکنارکردیا۔چنگیز خاں کی مسلمانوں کے خلاف حاصل شدہ کامیابیاں اس کی مؤثر جاسوسی نظام کی مرہونِ منت تھیں۔اس دور کی ایک مثال دلچسپی سے خالی نہ ہوگی۔


چنگیزخاں کی مسلمانوں کے خلاف کامیابیوں کی ایک اہم وجہ جاسوسوں کا مؤثراستعمال تھا۔ چنگیزخاں نے بغداد میں مسلمانوں میں ہی سے ایک موقع پرست جاسوس کو پیسے کا لالچ دیکر جاسوسی کیلئے مقرر کیا، جہاں سے اس کو ایک اہم نقشہ چرانا تھا۔اس کو ایک عجیب و غریب ترکیب سوجھی۔اس نے سوچا کہ نقشہ کو اگر اپنے لباس یاجسم کے کسی حصہ میں چھپایا تو سپاہیوں کی نظروں سے ہرگز نہ بچ سکوں گا۔چنانچہ اس نے استراسے اپنا سر منڈوایا اس کے بعد اس نے اس اہم نقشہ کو اپنے رازدار کی مدد سے سر پرکھدوایا۔اور پھراس نے کچھ عرصے تک بال آنے کا انتظارکیا اور پھر وہ سپاہیوں کی نظر سے بچتے ہوئے نقشہ کو اُڑا لے جانے میں کامیاب ہوا۔" (19)

 

خلاصۃ

سراغ رسانی کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ انسان کی تاریخ، پانچ ہزار قبل برس مصریوں کے ہاں ایک اچھی خاصی منظم خفیہ ملازمت موجودتھی اور جاسوسی کے علم کا مطالعہ کئی ایک خفیہ علوم میں سے تھا۔قدیم نسلوں، خاص کرامریکی ریڈ انڈین کا جاسوسی کی چھوٹی چھوٹی مہمات میں مہارت کی بناء پر خاصا نام تھا۔


ملک مغرب قدیم میں اس کو"حاکم"، اندلس میں"صاحب المدینہ"، تیونس، رے اور ایران میں گشتی پولیس کو"عریف" کہا جاتا تھا۔آج کل اس کو"مقدمۃ الحارات" کہاجاتا ہے۔سلف صالحین اس کو"شرطہ"کہتے ہیں اور بعض اسے"صاحب العسعس" کہا کرتے تھے یعنی جرائم پیشہ لوگوں کوتلاش کرنے کے لئے یہ رات میں گشت کیا کرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ استخباراتی جنگ کا سب سے پہلا شکار انسانیت کے جدامجد حضرت آدم ؑ اور ان کی اہلیہ اماں حواّ ؑ تھیں۔ شیطان نے اپنی باغیانہ روش کے تحت رحمان کے خلاف جو پہلی مہم جوئی کی وہ رحمان کی محبوب تخلیق انسان کو ذہنی پراگندگی میں مبتلا کر کے کی۔ قرآن مجید میں اس واقعے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔


روایات تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی ؑ نے بھی اپنا جاسوسی کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا حتیٰ کہ بعض اوقات پرندوں سے بھی جاسوسی کا کام لیا جاتا تھا۔حضرت سلیمان ؑ کو"ھدھد"کاملکہ سبا ء کی خبردینے کا واقعہ قرآن میں سورہ نمل میں آیاہے۔جس شخص کو حضرت عیسیٰ ؑ کی جگہ سولی دے دی گئی تھی اس کا نام یہودہ اسکریوتی تھا۔آج تک اس بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیق نہیں ہو سکی کہ وہ واقعی حضرت عیسیٰؑ کا حواری تھا یا رومن استخبارات کا رکن تھا نیز وہ ایسا حواری تھا جو رومن استخباراتی اداروں کے ہاتھوں بک گیا تھایا اسے عیسیٰ ؑ کے حواریوں میں داخل کیا گیا تھا۔بہر کیف بائبل نے اسے رومیوں کا جاسوس گردانا ہے۔

 

حوالہ جات

نارمن پالمر اینڈ تھامس بی الین، دی انسائیکلوپیڈیا آف اسپینج، نیویارک، جرمنی بکس، سن ندارد، ص۔۴۱۰ (۱)

القرآن ۷: ۲۰۔۲۵ (۲)

بائیبل، کتاب پیدائش ۳: ۱ (۳)

الجوزی، ابوالفرج عبدالرحمٰن بن علی، المنتظم التاریخ، شبکہ مشکات اسلامیہ، بموجب ۲۰ مئی ۲۰۰۸، ص ۱۴ (۴)

ایضاً ص ۱۴ (۵)

القرآن، یوسف، ۸۷ (۶)

القرآن، ۱۲: ۵ (۷)

بائیبل، کتاب پیدائش ۳۷: ۲تا۱۱ (۸)

ایضاً، کتاب پیدائش باب۴۲، آیات ۷ تا ۱۵ (۹)

القرآن، ۱۲: ۵۸ (۱۰)

سن زو، آرٹ آف وار، مترجم: سیموئل گرفتھ، لنڈن، ڈنکن بئرڈپبلشرز، ۲۰۰۵، ص ۶۳ (۱۱)

القرآن، القصص، ۱۲: ۱۳ (۱۲)

مولانا نعیم مرادآبادی، خزائن العرفان فی تفسیرالقرآن، مکتبہ المدینہ، سن ندارد، سورہ القصص، ۱۲: ۱۳ (۱۳)

القرآن، سورہ نمل، آیات۱۲: ۱۳ (۱۴)

محولہ بالا دیآرٹ آف وار، ص ۱۷ (۱۵)

القرآن، سورہالعادیات، آیات۳ (۱۶)

ڈاکٹر محمد حمیداللہ، محمد رسول اللہ ﷺ، ترجمہ و توضیح: پروفیسر خالد پرویز۔لاہور، بیکن بکس اردوبازار، ۲۰۰۵، ص ۲۱۰ (۱۷)

محمد صدیق قریشی، رسول ﷺ کا نظام جاسوسی، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۹۰، ص۱۳ (۱۸)

ایضاً ص ۱۳ (۱۹)

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...