Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 2 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

متابعتِ رسولﷺ (تکمیلِ ایمان) کے سات درجے: مکتوبات امام ربانی مجدد الفِ ثانی کی روشنی میں |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

احمداللہ فی المبدأ والمعاد واصلی علی حبیبہٖ محمد والہ الامجاد

 

"میں ابتداء اور انتہا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں اور اس کے حبیب محمدﷺ اور آپ کی بزرگ اولاد پر درود بھیجتا ہوں۔"

 

کلمہ طیبہ کا پہلا حصہلا الہ الا اللہ"اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔"حصولِ ایمان کا ذریعہ ہے۔ لا (نہیں) کی تلوار سے مشرق سے مغرب تک،عرش سے فرش تک تمام غیر اللہ کا انکار کرکے صرف اور صرف ایک رب "اللہ تعالیٰ" کا اقرار زبان و دل کےساتھ کرکے نورِ ایمانی کو قلب میں روشن کیا جاتا ہے جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

 

وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ(1) "زینت بنا دیا (ایمان کو)تمہارے دلوں میں۔"

 

ہرشخص اپنے اپنے ایمان کوSelf-Testing Systemکے تحت جانچ بھی سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَوَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ(2) "اورتمہارے اندرکفر کی گناہوں اورنافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔"

 

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا جس کے دل میں حقیقی ایمان کا نور ہوگا اس کا دل تین باتوں سے کراہیت کرے گا۔(۱) کفر اور کفریہ تہذیب سے کراہیت کرے گا۔(۲) گناہ سے کراہیت کرے گا یعنی وہ کام جس سے اللہ نے منع کیا مثلاً :ناچ، گانا، زنا، بدکاری، رشوت،جھوٹ، ملاوٹ، فحش گوئی، فحش کلام، فرائض کا چھوڑنا وغیرہ۔(۳) الْعِصْيَانَ یعنی دل اللہ اور رسولﷺکی نافرمانی دیکھ کر کراہیت کرے گا۔

 

ایمان کی یہ تین نشانیاں ہر مسلمان اپنے اپنے قلب کی کیفیت کو جانچ کر اپنے اپنے ایمان کا جائزہ لے سکتا ہے۔کلمہ طیبہ کا دوسرا حصہمحمد رسول اللہﷺ"محمد اللہ کے رسولؐ ہیں۔" یہ وعدہ ٍاللہ تعالیٰ سے کیا جاتا ہے یعنی آج کے بعد میں اپنے نفس کی ، سیاسی لیڈروں کی،معاشرے کی،زمانے کی،رسم ورواج کی پیروی ترک کرکے صرف اورصرف ایک رہبر،ہادی یعنی حضرت محمدمصطفی ﷺکی پیروی اختیارکروں گا۔مسلمان جیسے جیسے آپﷺکی پیروی اختیارکرتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کا ایمان تکمیل کے مراحل طےکرتاجاتاہے چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی ؒاپنے مکتوب میں اتباع رسولﷺکے سات درجے اور اس کے اسرار پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

(۱) متابعتِ رسولﷺ(تکمیل ِایمان) کا پہلا درجہ

حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"پہلا درجہ عوام اہل اسلام کے لیے ہے یعنی تصدیقِ قلبی کے بعد، اطمینانِ نفس سے پہلے جوکہ ولایت سے وابستہ ہے، احکام شرعیہ کا بجا لانا اور سنت سنیہ کی متابعت ہے اور علمائے ظاہر، عابد اور زاہد حضرات جن کا معاملہ ابھی اطمینان نفس تک نہیں پہنچا، سب اس متابعت کے درجے میں شریک ہیں اور اتباع کی ظاہری صورت کے حاصل کرنے میں سب برابر ہیں اور چونکہ اس مقام میں نفس ابھی کفر و انکار پر ہی اڑا ہوا ہوتا ہے اس لیے یہ درجہ متابعت کی صورت کے ساتھ مخصوص ہوگا۔"(3)

 

حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:اس درجہ میں عوام اور علماء ظاہر سب شامل ہیں ،اس درجہ میں عوام اور علماء ظاہرنفسِ امارہ کے داغ سے داغ دار ہیں۔ یہی نفسِ امارہ ہے جو حقیقی اسلام اور ایمان کے درمیان رکاوٹ ہے۔اس درجہ میں نفسِ امارہ موجود ہے جو اپنی ذات سے سرکش ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"انسان کا نفسِ امارہ جاہ و ریاست کی محبت پر پیدا کیا گیا ہے اس کی تمام ہمت و کوشش اپنے ہمعصروں پر بلندی حاصل کرنا ہے اور وہ فطری طور پر اس بات کا خواہاں ہے کہ تمام مخلوق اس کی محتاج اور اس کے اوامر و نواہی کے تابع ہوجائے اور وہ خود کسی ایک کا بھی محتاج اور محکوم نہ ہو، اس کا یہ دعویٰ الوہیت خدا ہونے اور خدائے بے مثل جل سلطانہ کے ساتھ شرکت کا دعویٰ ہے بلکہ وہ بدبخت شرکت پر بھی راضی نہیں ہے ، چاہتا ہے کہ حاکم صرف وہی ہو اور سب اس کے محکوم ہوں۔"(4)

 

اسی لیے آپؒ فرماتے ہیں:"نفس ابھی کفر و انکار پر ہی اڑا ہوا ہوتا ہے۔" شروفساد اسی نفس امارہ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ فرقہ واریت، دنیا پرستی، فساد فی ارض، حسد، کینہ، بغض، انانیت وغیرہ جیسے گناہ جس نے معاشرے کے امن کو تباہ و برباد کردیا ہے، اسی درجے کی پیداوار ہیں۔یہ حضرات صورتِ اسلام اورصورتِ ایمان ہی میں ہوتے ہیں اس لیے اسلام اور ایمان کی حقیقت سے بہت دور ہوتے ہیں۔نفس امارہ انانیت کی وجہ سے تزکیہ نفس سے بھی دور رکھتا ہے اور یہ حضرات صرف علم ِاحکام کو حاصل کرنے کے بعد تزکیہ نفس کے بجائے عملیات جیسے فن کو سیکھنے میں لگ جاتے ہیں اور نفسانی دھوکہ میں مبتلا ہوکر اسی کو بزرگی خیال کر بیٹھتے ہیں۔

 

حضرت مجدد الف ثانی ؒفرماتے ہیں:"قسم دوم یعنی مخلوقات کی صورتوں کا کشف ہونا اور غیبی باتوں پر اطلاع پانا اور ان کی خبریں دینا جو اس عالم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، اس میں محق اور مبطل (سچے اور جھوٹے دونوں طرح کے لوگ) شامل ہیں کیونکہ قسم دوم اہلِ استدراج کو بھی حاصل ہے جبکہ قسم اول میں وہ علومِ معارفِ الہٰی جل سلطانہ ہیں کہ جن کا تعلق ذات و صفات اور افعالِ واجبی جل و علا کے ساتھ ہے اور وہ نظرِ عقل کے دائرے سے ماورا ہیں اور متعارف و معتاد (جانا پہچانا اور عرف و عادات) کے خلاف ہیں۔ لہٰذا حق تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو ان کے ساتھ ممتاز فرمایا ہے۔ قسم ِاول خدائے جل و علا کے نزدیک بزرگی اور اعتبار رکھتی ہے، اسی وجہ سے اس نے قسمِ اول کو اپنے اولیاء کے ساتھ مخصوص کردیا ہے اور اپنے دشمنوں کو اس میں شریک نہیں کیا۔"(5)

 

متابعت کے پہلے درجے والے حضرات اسی نفسِ امارہ کی وجہ سے عملیات جیسے حجابات میں مبتلا ہوکر ترقی سے رک جاتے ہیں۔ مصائب کی حقیقت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے خودبھی وہمی اور دوسرے کے ایمان و یقین کے کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ نفسِ امارہ کے مالک ظاہری علم والوں کی اپنے کو وارث انبیاءسمجھنا بھی اس طبقے کی خام خالی ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں: " حدیثِ نبویﷺ میں وارد ہے:

 

العلماء ورثة الانبیآء "علماء انبیاء کے وارث ہیں۔"

 

واضح ہوکہ جوعلم انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیمات سے باقی و جاری ہے دو قسم کا ہے ایک علمِ احکام دوسرا علمِ اسرار۔ انبیاءؑ کی وراثت کا عالم کہلانے کا مستحق وہی شخص ہوسکتا ہے جو دونوں قسم کے علم سے بہرہ ور ہو، نہ یہ کہ صرف ایک قسم کا علم حاصل ہو اور دوسری قسم سے محروم ہو۔ یہ بات وراثت کے منافی ہے کیونکہ وارث کو مورث کے ہر قسم کے ترکہ میں سے حصہ ملتا ہے نہ کہ بعض میں حصہ ہو اور بعض میں نہ ہو اور وہ شخص جس کا حصہ کسی خاص معین تک محدود ہو وہ وارث نہیں بلکہ غرما (قرض خواہ) میں داخل ہے۔ جس کا حصہ اس کے حق کی جنس سےمتعلق ہے۔ حدیث میں علماء سے مراد علمائے وارث ہیں نہ کہ غرما کہ جنہوں نے ترکہ کا بعض حصہ لیا لہٰذا جو شخص وارث نہیں ہے وہ عالم بھی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے علم کو ایک نوع کے ساتھ مقید کردیا جائے گا۔ مثال کے طور پر یوں کہیں کہ وہ علمِ احکام کا عالم ہے اور عالم مطلق وہ ہے جو وارث ہو اور اس کو دونوں قسم کے علوم سے وافر حصہ حاصل ہو۔"(6)

 

نفس امارہ اس درجہ میں ابھی کفر پر اڑا ہوا ہی ہوتا ہے، متابعت کے پہلے درجہ والا جب متابعت کے دوسرے درجے پر عمل کرکے جو طریقت کا مقام ہے، اخلاق کی اصلاح اور باطنی امراض کا ازالہ کرنے کے بعد وراثت کا حق دار، تیسرے اور چوتھے درجے کی تکمیل کے بعد بنتا ہے ورنہ نفس امارہ جو اپنی ذاتی صفات کے لحاظ سے سراسر شرارت و نقص رکھتا ہے فساد فی الارض مذہبی، معاشی، سیاسی،معاشرتی،دہشت گردی کا سبب بنتاہےجس سے معاشرے کا امن تباہ و برباد ہوتا ہے لیکن جنہوں نے علمِ احکام کے ساتھ علمِ اسرار کے ذریعہ کامل تزکیہِ نفس کو اختیار کیا اورحقیقی وارث بن کرعلماء حق اور صوفیائے حق کہلائے یہی حضرات حقیقی وارثِ انبیاء ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہرمعاملہ میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ(7)

 

"آپ فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کیلئے ہے جو رب ہے سارے جہانوں کا۔"

 

اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ کرم سے نفسِ امارہ کے انکار کا اعتبارنہ کرکے صرف تصدیقِ قلبی پر کفایت کرتے ہوئے نجات کو اس تصدیق پر وابستہ کیا ہے۔

 

(۲) متابعتِ رسولﷺ(تکمیلِ ایمان) کا دوسرا درجہ

داخلِ اسلام ہونے کے بعد ہر وقت درجات اور ترقی کی کوشش کرنی چاہیے۔ صورتِ اسلام اورصورتِ ایمان سے حقیقتِ اسلام اورحقیقتِ ایمان کی طرف ترقی کرنی چاہیے۔جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

 

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُط وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا(8)

 

"اے ایمان والو! اللہ پر ایمان رکھو اور اس کے رسولﷺپر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے۔ اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی اور جوشخص اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یوم آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔"

 

مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرصاحبِ ایمان کو اب ترقی کرکے قربِ الہٰی کے مراحل کو طے کرنا ہے یعنی صورتِ ایمان سے حقیقتِ ایمان میں داخل ہونا ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"لا الٰہ الا اللہ کے ذکر سے مقصود، باطل معبودوں کی نفی کرنا ہے، خواہ وہ آفاقی ہوں اور خواہ انفسی۔ آفاقی معبودوں سے مراد کافروں اور فاجروں کے باطل معبود ہیں۔ مثلاً لات، عزّی اورمعبودانِ انفسی سے مراد، نفسانی خواہشات ہیں۔ ایمان، یعنی (تصدیقِ قلبی جس کا ہمیں ظاہر شریعت نے مکلف بنایا ہے، آفاقی معبودانِ باطل کی نفی کیلئے کافی ہے لیکن انفسی معبودانِ باطل کی نفی کیلئے نفس امارہ کا تزکیہ درکار ہے جو اہل اللہ کے راستے پر چلنے (سلوک) کا حاصل ہے۔ایمانِ حقیقی ان دونوں قسم کے معبودانِ باطل کی نفی سے وابستہ ہے۔ایمان کی حقیقت تو معبودانِ انفسی کے ابطال پر ہی منحصر ہے۔ صورتِ ایمان کے توزائل ہونے کا احتمال ہے لیکن حقیقتِ ایمان اس احتمال سے محفوظ ہے۔"(9)

 

حضرت مجدد الف ثانی  متابعت کے دوسرے درجے کے متعلق فرماتے ہیں:"آنحضرت ﷺکے ان اقوال و اعمال کی متابعت ہے جو باطن سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً: اخلاق کا درست کرنا اور بری عادتوں کا دور کرنا اور باطنی امراض اور اندرونی بیماریوں کا ازالہ وغیرہ کرنا۔ یہ مقامِ طریقت سے متعلق ہے اور اتباع کا یہ درجہ ارباب سلوک کے ساتھ مخصوص ہے جو طریقہ صوفیہ کو شیخ مقتدا سے اخذ کرکے سیرالی اللہ کی وادیوں اور جنگلوں کو قطع کرتا ہے۔"(10)

 

یہ درجہ طریقت کا درجہ بھی کہلاتا ہے یعنی شریعت کے وہ طریقے جن پر عمل کرکے نفس کی اصلاح ہوتی ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"سیروسلوک کا مقصد ہی پردوں(حجاباتِ باطن) کو چاک کرنا ہے، خواہ یہ پردے وجوبی ہوں یا امکانی تاکہ بے پردہ وصال میسر آسکے۔"(11)

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا(12)

 

"پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔"

 

یعنی فطرتی طور پر (رزقِ حرام و غیر طیب اور غفلت کی وجہ سے) نفسِ امارہ اورنفسِ لوامہ(نیکی کی طاقت)دونوں کی کیفیتیں انسان کے نفس میں موجود ہیں لیکن آگے صاف صاف فرما کر طریقت کی ترغیب دے دی جیساکہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:

 

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(13)

 

"فلاح اسے ملے گی جو اس نفس (امارہ) کو پاکیزہ بنائے اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔"

 

متابعت کا دوسرا درجہ دراصل اسی نفس امارہ کی اصلاح اور صفائی نفسِ امارہ کا درجہ ہے کیونکہ تمام رذائل، کبر، تکبر، غرور، انانیت، حسد، بغض، فساد اسی نفسِ امارہ کی شرارت کا نتیجہ ہوتے ہیں، کامل شیخ کی توجہ اور شریعت پر عمل نفسِ امارہ کو عاجز اور بیکار کردیتی ہے۔اس درجہ میں مندرجہ ذیل کام کرنے کے ہیں:

 

(۱) ارشادِباری تعالیٰ ہے:

 

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(14)

 

"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ (شیخ مقتدا) تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو۔ امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔"

 

شیخِ کامل کی تلاش جو شریعت کا پابند ہو اور شہود ذاتی کا واصل ہو، قوی التوجہ ہو اور یادداشت کی مشق دائمی رکھتا ہو تو اس کی توجہ سے تھوڑے زمانے میں وہ کچھ حاصل ہوجاتا ہے جو سالہا سال کی محنت میں حاصل نہیں ہوتا۔شریعت سے مراد علمِ شریعت کا عامل ہو اور احکامِ اسلام سے واقف ہو۔شہودِ ذاتی کا واصل ہو یعنی حجاباتِ باطن دور کرکے اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلی کا دائمی مشاہدہ رکھنے والا ہو۔ قوی التوجہ یعنی جب شریعت کی پابندی کے ساتھ رزقِ حلال کا اہتمام کرے گا اورحجابات دورکرنےکےبعدتوجہ قوی ہوتی جاتی ہے۔ یادداشت کی مشق دائمی یعنی جب فنائے کامل اور بقائے کامل کی دولت میسر آجاتی ہے تو اس وقت واجب الوجود ذاتِ حق (اللہ) کی طرف کامل توجہ ہوجاتی ہے جیسے یادداشت دائمی سےتعبیر کرتے ہیں۔

 

(۲) اس کے بعد شیخ کی محبت، ذکر کی پابندی، نفسِ امارہ کی مخالفت، رزقِ حلال کا اہتمام کرتے ہوئے شریعت کی پابندی عزیمت کے ساتھ مجاہدہ کرنے سے بہت جلد فنا و بقا کے مقامات حاصل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اورنفسِ اطمینان کے مقام میں آنے لگتا ہے۔

 

(۳) جیسے جیسے شیخ کی محبت، ادب، ذکر، ریاضت، مجاہدہ اور شیخِ کامل کی کامل توجہ حجابات باطن پر پڑتے ہیں ، ویسے ویسے نفسِ امارہ کی اصلاح شروع ہوتی جاتی ہے۔اس درجہ میں استدلالی علم بدیہی ہوتا جاتا ہے۔نفسِ مطمئنہ کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ خطراتِ قلبی جوکہ نفسِ امارہ سے پیدا ہوتے تھے زائل اور کم ہونے لگتے ہیں۔ جمعیتِ قلب حاصل ہونا شروع ہوجاتی ہے دھیرے دھیرے اپنے افعال اور مخلوق کے افعال نظر سے پوشیدہ ہونے لگتے ہیں۔ ایک فاعل حقیقی (اللہ) کے سوا نظر میں کچھ نہیں سماتا۔ دنیا کے غم اور خوشی سے قلب متاثر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا تو پھر کسی تعریف و توصیف کا خواہش مند بھی نہیں رہتا ، طعن و ملامت کی پروا نہیں کرتا اور ذاتِ حق میں مستفرق رہنے لگتا ہے۔

 

نفسِ امارہ کی انانیت اور سرکشی ٹوٹ جاتی ہے اور صفاتِ رذیلہ،حسد، بخل، حرص، کینہ، تکبر، حب جاہ، بڑائی وغیرہ سے تزکیہ (صفائی) شروع ہوکر اخلاقِ حمیدہ، شرحِ صدر،شکر ،صبر،رضا،تقویٰ،زہد وغیرہ صفات میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اب بات آسان ہوجاتی ہے علم الیقین جو پہلے درجہ میں حاصل ہوتے ہیں اب عین الیقین کے درجے میں آنے لگتا ہے یعنی عین الیقین سے مراد بندہ کو اس کے اپنے تعین کا حجاب اٹھ جانے کے بعد حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا شہود حاصل ہونا شروع ہوجاتاہے۔

 

(۳) متابعتِ رسولﷺ(تکمیلِ ایمان) کا تیسرا درجہ

 

یہ درجہ حقیقت کا درجہ ہے۔حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"شریعت، طریقت اور حقیقت۔" یعنی حقیقت سے مراد شریعت ہی کی حقیقت ہے اورطریقت سے مراد حقیقتِ شریعت تک پہنچنے کا طریقہ ہے۔ شریعت کی حقیقت صحیح طور پر حاصل ہونے سے پہلے صرف شریعت کی صورت کا حصول ہوتا ہے اور شریعت کی حقیقت کا حصول اطمینانِ نفس کے مقام میں ہوتا ہے۔"(15)

 

اس درجہ میں جو شرعی احکام پہلے درجے میں پڑھے ہوتے ہیں لیکن نفسِ امارہ جو ان شرعی احکام کی حقیقت تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے اس کی اصلاح کے بعد شریعت کی حقیقت آشکارہ ہونے لگتی ہے۔حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں: "متابعت کا تیسرا درجہ آنحضرتﷺکے ان احوال و اذواق اور مواجیہ کی متابعت ہے جو ولایت خاصہ کے مقام سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب مرتبہ ولایت اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو نفس بھی مطمئن ہوجاتا ہے اور طغیان و سرکشی سے باز آجاتا ہے اور انکار سے اقرار میں کفر سے اسلام میں آجاتاہے۔ اگر نماز ادا کرے گا تو متابعت کی حقیقت بجا لائے گا اور اگر روزہ رکھے گا تو اس کا بھی یہی حال ہے۔ زکوٰة ہے تو وہ بھی اسی طریقے پر ہوگی۔شریعت کے تمام احکام بجا لانے میں "حقیقتِ متابعت" شامل حال ہوجاتی ہے۔"(16)

 

اس درجہ میں احکامِ شریعت کی حقیقت ادا کی جاتی ہے۔مثلاً :نماز ایسے پڑھو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ شہودِ باری تعالیٰ نماز کی حقیقت ہے اسی لیے فرمایا: "نماز مومن کی معراج ہے۔" معراج ہی وہ سفر تھا جس میں کامل شہودِ باری تعالیٰ حاصل ہوا تھا، اسی لیے اسی کامل نماز کی ترغیب دی جارہی ہے۔اسی طرح احکامِ اسلام میں روزہ کی بھی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت اس درجہ میں روزہ کی حقیقت حاصل ہوکر جوکہ روزہ کے پہلے حصہ دن میں حواس باطن کی بیداری کی صورت میں حاصل ہوتے ہیں پھر روزے کے دوسرے حصہ(رات)قیام الیل میں بیدار حواسِ باطن آسمانی دروازوں سے برسنے والے برکاتِ ظلی اور اصلی کمالات (تلاوتِ قرآن کی برکت سے) کو باطن جذب کرکے باطن کے اطمینان، کامل تزکیہ، قرب الٰہی، ظاہری و باطنی صحت کا موجب بنتا ہے۔ اس درجہ میں نفسِ امارہ نفسِ مطمئنہ ہوجاتا ہے اور احکامِ شریعت کے قبول کرنے کی رضا و رغبت پیدا ہوتی ہے لہٰذا احکام کی بجاآوری حقیقت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔حضرت زوارحسین شاہؒ فرماتے ہیں:"اس درجہ پر ایمانیات و عقائد حقہ میں یقین قوی ہوجاتا ہے۔ استدلالی علم بدیہی ہوجاتا ہے۔ اس مقام کے معارف و حقائق انبیاء کرامؑ کی شریعتیں ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسرارِ مقطعات قرآنی حاصل ہوتے ہیں۔ صفائی وقت و حقیقت اطمینان و اتباع آنحضرت ﷺ حاصل ہوکر احکامِ شرعیہ، اخبارِ غیب، وجودِ حق و صفات حق سبحانہ، معاملہ قبر و حشر و نشر و مافیہا و بہشت و دوزخ وغیرہ جن کی مخبر صادق ﷺنے خبر دی ہے، اس مقام میں بدیہی اورعین الیقین (مشاہدہ)کے درجہ پر حاصل ہوجاتے ہیں، کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔"(17)

 

(۴) متابعتِ رسولﷺ(تکمیلِ ایمان) کا چوتھا درجہ

یہ درجہ معرفت کا درجہ ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

وَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْج وَعَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْـًٔا وَّهُوَ شَرٌّلَّكُمْط وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(18)

 

"اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔"

 

متابعت کا درجہ چہارم علمائے راسخین کے ساتھ مخصوص ہے جو اطمینانِ نفس کے بعدمتابعت کی حقیقت کی دولت سے متحقق ہیں۔حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں کشتی، دیوار اور بچے کی موت کے اسرار (معرفت) قرآن پاک کے ذریعہ ظاہرکیے گئے۔حضرت مجدد الف ثانی  علماء راسخین کی ایک علامت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"اب ہم علماء راسخین کی ایک علامت بیان کرتے ہیں:عالمِ راسخ وہ ہے جس کو کتاب و سنت کے متشابہات کی تاویل سے بہت حصہ حاصل ہو اور قرآن کریم کی سورتوں کے اوائل میں جو حروف مقطعات ہیں ان کے اسرار سے بھی بہرہ ور ہو۔ اورمتشابہات کی تاویل بہت ہی پوشیدہ اسرار میں سے ہے۔ یہ خیال نہ کریں کہ یہ تاویل "یَدْ"(ہاتھ) کی قدرت سے کے مانند ہے اور"وَجْہ"(چہرہ) کی تاویل ذات سے کرنے کی طرح ہے کیونکہ اس طرح کی تاویل علم ظاہر سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا اسرار سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ان اسرار کے جاننے والے تو انبیاء کرام ہیں اور یہ رموز ان کے معاملات سے متعلق ارشادات ہیں یا وہ حضرات ہیں جن کو تبعیت و وراثت کے طور پر اس دولت عظمیٰ سے سرفراز فرمائیں۔"(19)

 

تکمیل ایمان کا یہ درجہ وارثتِ نبوت کے جانشین حضرات کو حاصل ہوتا ہے اس لیے کہ اس درجہ میں انبیاء علیہ السلام کے کامل وارث کو وراثت سے حصہ ملتا ہے۔ انہیں بھی اس درجہ میں حروف مقطعات اور آیاتِ متشابہات کے اسرار سے وافر حصہ نصیب ہوتا ہے تاکہ وراثت کے منصب کو سنبھالیں۔ آپ ﷺسے مولید ثلاثہ نے بھی کلام کیا، اس جگہ یہ صلاحیتیں بھی پیدا ہوتی ہیں جیساکہ آپ ﷺسے اونٹ، ہرن وغیرہ کا کلام کرنا ثابت ہے۔ اولیاءتکوین کا خاص مرتبہ ایمان کے اس خاص درجہ سے وابستہ ہے۔ یہ مرتبہ وہبی ہے جیسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔

 

(۵) متابعتِ رسولﷺ(تکمیلِ ایمان) کا پانچواں درجہ

یہ درجہ حقیقتِ محمدیﷺکا درجہ ہے،اس درجہ کے حوالے سے حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"متابعت کا پانچواں درجہ حضور انورﷺکے صرف ان کمالات کی اتباع ہے جن کے حاصل ہونے میں علم و عمل کا کوئی دخل نہیں بلکہ ان کا حصول خدا وند جل سلطانہ کےمحض فضل و احسان پرموقوف ہے۔یہ کمالات اولولعزم انبیآءعلیہم الصلوات والتسلیمات کے ساتھ بالاصالت مخصوص ہیں اور دوسروں کو تبعیت و وراثت کے طور پر حاصل ہیں۔"(20)

 

حضرت پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خان  فرماتے ہیں:"تبعیت کا تعلق رسول اللہﷺاور اُمت محمدیہﷺکے درمیان ہے۔"(21) حضرت سید زوارحسین شاہ فرماتے ہیں:" اس درجہ میں اسرارِ مقطعاتِ قرآنی اور متشابہاتِ فرقانی کا انکشاف ہوتا ہے جو کسی طرح بیان وتحریر میں نہیں آسکتے اور عاشق ومعشوق کےرموز کہ جن کے کہنے اورسننے کی مجال نہیں اس جگہ حاصل ہوتے ہیں۔"(22) حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:" آنحضرت ﷺرب العالمین کے محبوب ہیں اس لیے آپ کی متابعت کرنے والا بھی آپ کی متابعت کے باعث محبوبیت کے درجہ کو پہنچ جاتے ہیں کیونکہ محبت کرنے والا (مُحِبّ) جس شخص میں اپنے محبوب جیسے اخلاق و عادات دیکھتا ہے اس شخص کو بھی اپنا محبوب ہی جانتا ہے۔"(23) اسم "محمدﷺ"میں دو "مم" ہیں ایک "م" احدیت سے لیتا ہے، دوسرا "م" مخلوق کو دیتا ہے ،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ(24) "جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔"

 

(۶) متابعتِ رسولﷺ(تکمیلِ ایمان) کا چھٹا درجہ

یہ درجہ حقیقتِ احمدیﷺکا درجہ ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"یہ درجہ آنحضرت ﷺکے ان کمالات کا اتباع ہے جونبی کریمﷺکے مقام محبوبیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اس درجہ کے کمالات کا فیضان محض محبت پر موقوف ہے۔"(25) چنانچہ آپؒ اس اسمِ "احمد"اور اس درجہ کی مزید تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:"احمد"آپﷺ کا دوسرا اسم ہے۔ جو آسمان والوں میں معروف ہے، اسم ِاحمد کو ذات "احد" جل شانہ کے ساتھ بھی بہت زیادہ تقرب ہے اور یہ اسم مبارک "احد" صرف ایک حلقہ میم سے جدا ہوا ہے۔ جو مبدا محبت ہے اور ظہور و اظہار کا باعث ہوا ہے اور اسی طرح میم جوکہ "احمد" میں اندراج پائے ہوئے ہے وہ قرآن مجید کے حروف مقطعات میں سے ہے اور بڑے دقیق اسرار میں سے ہے اور اس حرفِ مبارک "میم" کو آنحضرتﷺکے ساتھ ایک خاص خصوصیت حاصل ہے جو آپﷺکی محبوبیت کا باعث ہوئی ہے۔"(26)

 

(۷) متابعتِ رسولﷺ(تکمیلِ ایمان) کا ساتواں درجہ

حضرت مجدد الف ثانی  فرماتے ہیں:"متابعت کا یہ ساتواں درجہ سابقہ تمام درجات کا جامع ہے۔ پہلے درجے گویا اس متابعت کے اجزاء تھے اور یہ درجہ ان اجزاء کے کل کی مانند ہے۔ اس مقام میں پہنچ کر تابع کو اپنے متبوع کے ساتھ ایک قسم کی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ گویا تبعیت و پیروی کا نام ہی درمیان سے اٹھ جاتا ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ تابع کون ہے اور متبوع کون۔ کامل تابعدار وہ شخص ہے جو متابعت کے ان ساتوں درجوں سے آراستہ ہو۔"(27)

 

کامل وارث انبیآء متابعت کے تمام درجوں یعنی غلامیِ رسولﷺ کے ذریعہ ہی برزخ کبریٰ سے چمٹ کر ہی ذات کا کامل مشاہدہ کرسکتے ہیں اورکوئی راستہ نہیں۔ واللہٗ سبحانہٗ اعلم بحقیقہ الحال والصلوة والسلام علیٰ سید البشر والہ الا طہر۔

 

’’اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ حقیقتِ حال کو سب سے زیادہ جانتے ہیں اور درود و سلام ہو سردارِ دو جہاں اور آپﷺ کی آل اطہار پر۔‘‘

 

 

حواشی و حوالہ جات

(۱) القرآن سورة الحجرات (آیت:۷)

 

(۲) القرآن سورة الحجرات (آیت:۷)

 

(۳) مکتوباتِ امام ربانی مجدد الف ثانیؒ دفتر دوم۔ ص:۱۹۱۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ ۱۹۹۱ء

 

(۴) مکتوباتِ امام ربانی مجدد الف ثانی دفتر اول۔ مکتوب ۵۲ – ص۱۷۹ کراچی۔ ادارہ مجددیہ ۱۹۹۱ء

 

(۵) مکتوباتِ امام ربانی مجدد الف ثانی دفتر اول۔ مکتوب ۲۹۲– ص۴۴۱ کراچی۔ ادارہ مجددیہ ۱۹۹۱ء

 

(۶) مکتوباتِ امام ربانی مجدد الف ثانی دفتر اول۔ مکتوب ۲۶۸– ص۲۹۷کراچی۔ ادارہ مجددیہ ۱۹۹۱ء

 

(۷) القرآن۔ سورة الانعام: آیت نمبر:۱۶۲

 

(۸) القرآن۔سورة النساء: آیت نمبر۱۳۶

 

(۹) معارف لدنیہ۔ مجدد الف ثانی۔ صفحہ نمبر۱۴۴۔ کراچی ادارہ مجددیہ، ۱۹۶۹

 

(۱۰) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی۔ دفتر دوم۔ ص:۱۹۲،۱۹۱، کراچی۔ ادارہ مجددیہ – ۱۹۹۱ء

 

(۱۱) مبداومعاد۔ مجدد الف ثانی۔ صفحہ نمبر۱۵۳۔ کراچی ادارہ مجددیہ۔ ۱۹۶۹ء

 

(۱۲) القرآن سورة الشمس آیت نمبر۸

 

(۱۳) القرآن سورة الشمس آیت نمبر۹، ۱۰

 

(۱۴) القرآن – سورة المائدہ:۳۵

 

(۱۵) معارف لدنیہ۔ مجدد الف ثانی۔ صفحہ نمبر۱۴۶۔ کراچی۔ادارہ مجددیہ – ۱۹۶۹۔

 

(۱۶) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی۔ حصہ دوم۔ صفحہ نمبر۱۹۲۔۱۹۹۱ء

 

(۱۷) عمدة السلوک از زوار حسین شاہ۔ صفحہ نمبر۲۹۴۔ کراچی۔ادارہ مجددیہ۔ ۱۹۸۴ء

 

(۱۸) القرآن سورة البقرة:۲۱۶

 

(۱۹) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی – صفحہ نمبر۱۹۳۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ ۱۹۹۱ء

 

(۲۰) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی – صفحہ نمبر۱۹۵۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ ۱۹۹۱ء

 

(۲۱) متفرقات۔ انوار احمد زئی۔ صفحہ نمبر۱۹۔ حیدرآباد، پیرا ماؤنٹ پرنٹنگ پریس

 

(۲۲) عمدة السلوک، زوار حسین شاہ۔ ص۔۲۹۵۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ۔ ۱۹۸۴

 

(۲۳) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی۔ ص نمبر۱۶۴۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ۔ ۱۹۹۱ء

 

(۲۴) القرآن (سورة النساء، آیت نمبر۸۰)

 

(۲۵) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی۔ ص نمبر۱۹۵۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ۔ ۱۹۹۱ء

 

(۲۶) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی۔ دفتر سوم ۔ ص نمبر۲۸۰۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ۔ ۱۹۹۱ء

 

(۲۷) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی۔ دفتر دوم ۔ ص نمبر۱۹۶۔ کراچی۔ ادارہ مجددیہ۔ ۱۹۹۱ء

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...